اردو
Friday 26th of April 2024
0
نفر 0

قرآن کی نگاہ میں مثالی خاتون کی خصوصیات

مردوں اور عورتوں کے درمیان رشتۂ ازدواج اور مشترکہ زندگی کی تشکیل کی تاریخ کا سابقہ  تخلیقِ انسان کی تاریخ  کے برابر ہے ، ہر دور میں ازدواجی زندگی کے مسائل کو خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے چونکہ ازدواج انسان کی ایک اہم ضرورت ہے، طلاق اور جدائی  کا شمار انسانی زندگی کے سب سے تلخ اور ناگوار مسائل میں ہوتا ہے ۔

اسی بنا پر قرآنِ مجید نے خاندانی اقدار کی حفاظت اور بقا کے لئے کچھ قواعد و ضوابط پیش کئے ہیں اور ہر صاحبِ ایمان مردوزن کو ان اصول و قوانین کی رعایت کی تاکیدکی ہے ۔

ان اصول و قوانین میں سے کچھ اصول کا تعلّق خواتین سے ہے ،وحی کی رو سے مثالی خاتون وہ ہے جو مشترکہ زندگی میں ان اصول پر کاربند رہے اور  اپنے شوہر سے روابط اور تعلّقات میں ان اصول کو بنیاد قرار دے ۔

 ذیل میں جن امور کو بیان کیا جاررہا ہے وہ قرآن ِ مجید کی رو سے مثالی  بیوی کی سب سے اہم خصوصیات اور اصول ہیں :

۱۔ شوہر کے بارہ میں حسنِ ظن(نیک گمانی )

ایک دوسرے کے بارے میں حسنِ ظن اور نیک گمانی معاشرہ   کے امن و سکون کی پہلی اینٹ ہے ، میاں بیوی کی مشترکہ زندگی میں بھی اس کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔

سرورِکائنات ،پیغمبراکرم[ص] کے زمانہ میں منافقوں کی جانب سے آپ [ص] کی ایک بیوی پر   زناکا بے بنیاد الزام لگایا گیا ، معاشرہ کے افراد نے اس الزام کی حقانیت کی چھان بین کئے بغیر اس کو ادھر ادھر پھیلانا شروع کردیا ۔

قرآنِ مجید نے  اس بے بنیاد افواہ کو پھیلانے والوں کی مذمّت کے ساتھ ساتھ صاحبِ ایمان مردوزن کی بھی مذمّت کی کہ انہوں نے ایک دوسرے کے بارہ میں نیک گمان کیوں نہیں رکھا اور اس الزام کے ثابت ہونے سے پہلے اسے  معاشرہ میں کیوں پھیلایا(۱)

اس واقعہ  کی آیات کی رو سے اسلامی معاشرہ کے افراد کو ایک دوسرے کے بارہ میں حسنِ ظن رکھنا چاہئے ، انہیں ایک دوسرے کے سلسلہ میں بے بنیاد افواہوں کو ہرگز قبول نہیں کرنا چاہئے بلکہ ان کا مقابلہ کرنا چاہئے ، گھر کے افراد کے مابین ایسی نیک گمانی اور بھی زیادہ سزاوار ہے مؤمن خواتین کو اپنے شوہروں کے بارہ میں حسنِ ظن رکھنا چاہئے اور اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہئے کہ افواہیں پھیلانے والے ان کی شخصیت کو پامال کریں اسی طرح مرودں کو بھی اپنی بیویوں کے بارہ میں حسنِ ظن رکھنا چاہئے بلکہ ان کے حسن ِظن کا پیمانہ زیادہ وسیع ہونا چاہئے ۔

۲۔ شوہر کے حقوق کی رعایت 

میاں بیوی کی مشترکہ زندگی ، ایک دوسرے کےحقوق کی متقاضی ہے ۔

تجربہ نے اس حقیقت کو ثابت کیا ہے کہ جب کبھی مردوں اور خواتین نے اپنی ازدواجی زندگی میں اپنے مشترکہ حقوق کی رعایت کی ہے تو ان کی زندگی سکون اور مٹھاس  پیدا ہوئی ہے اور جب جب انہوں نے ان حقوق کو نظر انداز کیا ہے گھر کی محبّت آمیز فضا سردمہری کا شکار ہوئی  ہے ، اسی بنا پر پروردگارِ عالم اس خاتون کو مثالی خاتون قرار دیتا ہے جو اپنے شوہر کے حقوق کے تئیں اپنے آپ کو ذمّہ دار سمجھتی ہو اور ان کو ہرگز پائمال نہ کرتی ہو۔

سورۂ نساء میں اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے " فالصلحتُ قنتتُ حفظت للغیب بما حفظ اللّه(۲)پس نیک عورتیں وہی ہیں جو شوہروں کی اطاعت کرنے والی اور ان کی غیبت میں ان چیزوں کی حفاظت کرنے والی ہیں جن کی خدانے حفاظت چاہی ہے ۔

اس آیت سے ہم اس بات کا استفادہ کرسکتے ہیں کہ مثالی اور ممتاز خواتین کی خصوصیت  یہ ہے کہ وہ شرعی اور قانونی دائرہ میں رہ کر اپنے  شوہر کے حقوق کو ادا کرتی ہیں اور اس کی اطاعت کرتی ہیں ، یہاں یہ بات مخفی نہ رہ جائے کہ شوہر کی اطاعت کا دائرہ  صر ف اس کے مسلّمہ حقوق تک محدود ہے ،ان حقوق سے بڑھ کر انہیں کسی امرونہی یا مطالبہ کا حق نہیں ہے ۔

۳۔مشترکہ زندگی کے حفظ و بقاکے لئے  رازداری

زندگی کے اسرار اور بھیدوں کی حفاظت اور انہیں افشاء نہ کرنا ایک ایسا حکم ہے جو قرآنِ مجید نے صاحبِ ایمان مردوں اور عورتوں کو دیا ہے ، تفسیر اور تاریخ کی کتابوں میں یہ واقعہ نقل ہو اہے کہ حضرت ختمیٔ مرتبت [ص] نے اپنی ایک بیوی سے کوئی بات راز  اور امانت کے طور پربیان فرمائی  اور اسے اس بات کی تاکید کی کہ وہ اس بات کو کسی سے بیان نہ کرے یہانتک کہ دوسری بیویوں سے بھی بیان نہ کرے لیکن اس نے آنحضرت [ص] کی تاکید کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس راز کو ایک دوسری بیوی سے بیان کردیا پروردگارِ عالم نے  سرزنش آمیز لہجہ میں اس کےفعل کو برملا کیا(۳)

۴۔ بخشش اور درگزر

شوہر کی خطاؤں سے درگزر اور اپنی مشترکہ زندگی کے مسلّمہ حقوق  سے چشم پوشی ازدواجی زندگی کی کامیابی اور خوشبختی کا باعث  ہے ۔

پروردگارِ عالم نے  مؤمن اور شائستہ عورتوں کو  لطیف انداز سے  اس صفت کی رغبت دلاتے ہوئے  مخاطب قرار دیا ہے اور اس اہم نکتہ کی یاد دہانی کی ہے کہ تم لوگ اگر چہ  اپنے شوہر سے  اپنے تمام حقوق از جملہ حقِ مہر کا مطالبہ کر سکتی ہو لیکن اگر تم بخشش  کا راستہ اختیار کرو اور  اپنے حق کو کریمانہ انداز میں بخش دو تو یہ چیز تقویٰ اور پرہیزگاری سے زیادہ قریب ہے (۴)

۵۔ عفّت و پاکدامنی اور شوہر کی غیبت میں امانتداری 

شوہر کی غیبت میں عفّت و پاکدامنی اور امانت داری ، مردوں اور عورتوں کی  مشترکہ زندگی کے استحکام اور پائیداری کے  عوامل میں سے ہے  ۔

اگر میاں بیوی ایک دوسری سے چھپ چھپا کر ایک دوسرے سے خیانت کریں یا خیانت کا وہم و خیال ان میں پیدا ہوجائے تو گھر کا گرم ماحول سرد مہری کا شکار ہوسکتا ہے اور عین ممکن ہے کہ ایسا گھراناتباہ و برباد ہوجائے ۔

پروردگارِ عالم نے نیک عورتوں کی صفات کو بیان کرتے ہوئے انہیں پاکدامنی ، عفّت اور شوہر کی غیبت میں امانتداری  جیسی صفات سے سراہتے ہوئے فرمایا ہے  :" فالصلحتُ قنتتُ حفظت للغیب بما حفظ اللّه "(۵) پس نیک عورتیں وہی ہیں جو شوہروں کی اطاعت کرنے والی اور ان کی غیبت میں ان چیزوں کی حفاظت کرنے والی ہیں جن کی خدانے حفاظت چاہی ہے۔

قرآن کی نگاہ میں نیک اور شائستہ عورتوں کی انفرادی خصوصیات کی معرفت سے ہم عورت کے بارہ میں قرآن کے نقطۂ نظر کو معلوم کرسکتے ہیں ۔

نیک اور شائستہ عورتوں کو معاشرتی، سماجی اور گھریلو خصوصیات کے علاوہ انفرادی اور ذاتی خصوصیات سے بھی مزیّن ہونا چاہئے ۔

اس مقام پر قرآن کی رو سے نیک کردار عورتوں کی خصوصیات اور صفات کا تجزیہ و تحلیل عرضِ خدمت ہے ۔

قرآن مجید نے نیک اور شائستہ عورتوں کی جو صفات بیان کی ہیں ان میں سے درجِ ذیل صفات کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔

۱۔ ایمان اور نیک عمل 

وحی کی نگاہ میں ایمان اور نیک عمل  مذہبی ایمان  کی دو ایسی صفتیں ہیں جو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتیں اور یہی صفات مثالی خواتین کی اہم ترین صفات شمار ہوتی ہیں ۔

آیاتِ قرآن میں غور و فکر اور تدبّر سے ہم اس نتیجہ تک پہنچتے ہیں کہ ایمان اور نیک عمل ،دنیا اور آخرت کی سعادت و خوشبختی کے لئے عالم ِ انسانیت کا اصلی سرمایہ ہیں ، ارشادِربّ العزّت ہے " مَنْ عَمِلَ صَالِحاً مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَ لَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا کَانُوا يعملون(6)جو شخص بھی نیک عمل کرے گاوہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ صاحبِ ایمان ہو ہم اسے پاکیزہ حیات عطا کریں گے اور انہیں ان اعمال سے بہتر جزا دیں گے جو وہ زندگی میں انجام دے رہے تھے ۔ایک دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے " وَ مَنْ يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولٰئِکَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَ لاَ يُظْلَمُونَ نَقِيراً (7) اور جو نیک اعمال بجا لائے خواہ مردہو یا عورت اور وہ مؤمن ہو تو(سب) جنّت میں داخل ہوں گے اور ان پر ذرّہ برابر ظلم نہیں کیا جائے گا ۔( کھجور کی گٹھلی کے پیچھے جو معمولی سا نشیب پایا جاتا ہے عربی زبان میں  اسے نقیرکہا جاتا ہے ، یہ اس بات سے کنایہ ہے کہ ان پر ذرّہ برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا )۔

۲۔ خدا اور رسول کی اطاعت اور ان کے فرامین کےسامنے سرِتسلیم خم کرنا

نیک کردار اور شائستہ عورتوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ خدا اور رسول کی مکمّل اطاعت گزار ہوتی ہیں اور ان کے فرامین  اور ہدایات کے سامنے بے چون و چرا  سرِ تسلیم خم کرتی ہیں  ۔اس حقیقت کو بہت سی آیات میں بیان کیا گیا ہے ان میں سے ایک آیت یہ ہے " وَ مَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَ لاَ مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَ رَسُولُهُ أَمْراً أَنْ يَکُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَ مَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً مُبِيناً (8)اور کسی مؤمن مرد یا عورت کو یہ اختیار نہیں ہے کہ جب خدا اور رسول کسی امر کے بارہ میں فیصلہ کردیں تو وہ بھی اپنے امر کے بارے میں صاحبِ اختیار بن جائے اور جو بھی خدا اور رسول کی نافرمانی کرے گا تو بڑی کھلی ہوئی  گمراہی میں مبتلا ہو گا ۔

۳۔ عفّت اور پاکدامنی

قرآن کی نگاہ میں مثالی اور شائستہ عورت وہ ہے جو عفّت اور پاکدامنی  کی دولت سے مالامال ہو اور ہر قسم کی برائی اور آلودگی سے پاک و منزّہ ہو ۔ اس موضوع سے متعلّق آیات کو دو گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :

۱۔ وہ آیات جن میں  مطلقِ طہارت  کو مدِّ نظر رکھا گیا ہے اور ہر قسم کی برائی اور عیب سے  اجتناب کی تاکید کی گئی ہے ۔

۲۔ وہ آیات جن میں عورتوں کی عفّت و پاک دامنی    کو بیان کیا گیا ہے اور ہر قسم کی جنسی آلودگی، نامحرموں سے ناجائز تعلّقات   سے اجتناب و دوری  کی تاکید کی گئی ہے :

پہلے گروہ کے سلسلہ میں مندرجہ ذیل دو آیتوں کو مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے :

1.وَ إِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِکَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَاکِ وَ طَهَّرَکِ وَ اصْطَفَاکِ عَلَى نِسَاءِ الْعَالَمِينَ‌ (9)اور(وہ وقت یا د کرو ) جب فرشتوں نے کہا : اے مریم ! بے شک اللہ نے تمہیں برگزیدہ کیا ہے اور تمہیں پاکیزہ بنایا ہے اور تمہیں دنیا کی تمام عورتوں پر برگزیدہ کیا ہے ۔

مذکورہ آیت  ، عورتوں  کی پاکیزگی و طہارت کی اہمیت کو بیان کرتی ہے اور اس حقیقت کی مظہر ہے کہ یہ صفات ہر عورت کی برتری اور شائستگی کا معیار ہیں

۲۔ وَ الطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَ الطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ أُولٰئِکَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَ رِزْقٌ کَرِيمٌ‌ (10) اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لئے اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لئے ہیں ، یہ ان باتوں سے پاک ہیں جو لوگ بناتے ہیں ، ان کے لئے مغفرت اور باعزّت روزی ہے

۲۔ دوسرے گروہ کے  سلسلہ کی آیات بہت زیادہ ہیں ، ذیل میں ان میں سے چند آیات کی طرف اشارہ  کیا جا رہا ہے :

۱۔ الْيَوْمَ أُحِلَّ لَکُمُ الطَّيِّبَاتُ ...وَ الْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَ الْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَ لاَ مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ ‌(11) آج تمہارے لئے تمام پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئی ہیں۔۔۔ اور اہل ایمان کی آزاد اور پاک دامن عورتیں یا ان کی آزاد عورتیں جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی ہے تمہارے لئے حلال ہیں بشرطیکہ تم ان کی اجرت دے دو پاکیزگی کے ساتھ ۔ نہ کھلّم کھلّا زنا کی اجرت کے طور پر اور نہ پوشیدہ طور پر دوستی کے انداز سے ۔

۲۔ پروردگارِ عالم ،حضرت ِ مریم (جو اس دنیا کی برگزیدہ خاتون ہیں ) کی تعریف و ثنا کرتے ہوئے ان کو ایک پاکیزہ، عفیفہ اور پاک دامن عورت کے عنوان سے پہچنواتے ہوئے یوں ارشاد فرماتا ہے :

" وَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهَا مِنْ رُوحِنَا وَ جَعَلْنَاهَا وَ ابْنَهَا آيَةً لِلْعَالَمِينَ‌ (12) اوراس خاتون کو یاد کرو جس نے اپنی شرم کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی اور اسے اور اس کے فرزند کو تمام عالمین کے لئے اپنی نشانی قرار دے دیا ۔

۳۔ پروردگارِ عالم نے سورۂ ممتحنہ کی آیت نمبر بارہ میں زنا سے دوری اور  پاک دامنی   کو عورتوں کی توبہ اور پیغمبراکرم[ص] کی بیعت  کی  شرطِ قبولیت قرار دیا ہے جس سے قرآن کی نگاہ میں  برگزیدہ و ممتاز خواتین کے لئے اس صفت  سے مزیّن ہونے کی اہمیت  واضح ہو جاتی ہے  ۔يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَکَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَکَ عَلَى أَنْ لاَ يُشْرِکْنَ بِاللَّهِ شَيْئاً وَ لاَ يَسْرِقْنَ وَ لاَ يَزْنِينَ ...فَبَايِعْهُنَّ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ‌  اے نبی! جب مؤمنہ عورتیں اس بات پر آپ سے بیعت کرنے آپ کے پاس آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھرائیں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ زنا کا ارتکاب کریں گی ۔۔۔تو ان سے بیعت لے لیں اور ان کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کریں ، اللہ یقینا بخشنے والا ،رحیم ہے ۔

۴ ۔ تقویٰ اور پرہیزگاری

قرآن کی نگاہ میں شائستہ اور برگزیدہ عورت وہ ہے جو اپنی نجی ، خاندانی اور معاشرتی زندگی (سیاسی ، ثقافتی اور معاشی میدان میں)میں تقویٰ اور پرہیز گاری کی رعایت کرتی ہو ۔

قرآن ِ مجید کی آیات میں معمولی غوروفکر سے اس حقیقت تک بڑی آسانی سے پہنچا جاسکتا ہے کہ تقویٰ اور پرہیزگاری   تمام انسانوں (مردو عورت) کے لئے منزلِ معراج  اور کمال کا اعلیٰ ترین مقام ہے  اس سلسلہ میں ارشاد ربّ العزّت ہے " يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَ أُنْثَى وَ جَعَلْنَاکُمْ شُعُوباً وَ قَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاکُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ (14) انسانو ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دئے ہیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے اور اللہ ہر شے کا جاننے والا اور ہر بات سے باخبر ہے ۔

۵۔ صداقت  اور راست گفتاری

قرآنِ مجید نے صداقت اور راست گفتاری کو  مثالی اور نیک کردار خواتین کی ایک اہم صفت کے طور پر پہچنوایا ہے ، سورۂ احزاب کی  آیت ۳۵ میں ہم   یہ عبارت مشاہدہ کرتے ہیں"وَ الصَّادِقِينَ وَ الصَّادِقَاتِ ...أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَ أَجْراً عَظِيماً " اور سچے مرد اور سچّی عورتیں ۔۔۔ اللہ نے ان سب کے لئے مغفرت اور عظیم اجر مہیّا کر رکھا ہے ۔

پروردگارِ عالم نے سورۂ آل عمران کی بیالیسویں آیتِ کریمہ میں حضرت مریم سلام اللہ علیہا کو اس دنیا کی برگزیدہ خاتون قرار دیا ہے ، خدا نے انہیں ایک سچّی خاتون  کے طور پر پہچنواتے ہوئے یوں ارشاد  فرمایا ہے " مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَ أُمُّهُ صِدِّيقَةٌ (14)مسیح ابن مریم کچھ نہیں ہیں صرف ہمارے رسول ہیں جن سے پہلے بہت سے رسول گزرچکے ہیں اور ان کی ماں صدّیقہ تھیں

۶۔ پردہ اور مناسب لباس

وحی کی نگاہ میں مثالی اور برجستہ خواتین کی ایک خصوصیت پردہ اور مناسب لباس ہے ، پردہ کی مقدار  سے صرفِ نظر پردہ  اور نامحرموں کی نگاہوں سے اپنے آپ کو  بچانا بذاتِ خود ایک مسلّمہ مسئلہ ہے ، صدرِ اسلام سے لیکر دورِحاضر  تک کی ناقابلِ تردید سیرت اس کی  بہترین گواہ ہے  ، یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر عالمِ اسلام کے تمام  مذاہب کے علماء اور فقہاء کا اجماع ہے ، ہم جرأت سے اس بات کا دعویٰ کر سکتے ہیں کسی بھی فقیہ یا مسلمان مفکّر نے اس میں کسی قسم کا شبہ ظاہر نہیں کیا ہے ، اس مسلّمہ اجماع اور ناقابل تردید سیرت کے علاوہ شیعہ اور اہلِ سنت کے منابع ومآخذ میں کثیر روایات بھی موجود ہیں جو اس مسئلہ پر دلالت کرتی ہیں ، بہت سی آیات بھی پردہ پر دلالت کرتی ہیں ، ذیل میں مثال کے عنوان سے صرف دو آیتوں کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے :

"۱۔ وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ ...وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ ..." (۱۵) اور مومنہ عورتوں سے بھی کہہ دیجئے کہ وہ (اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کو بچائے رکھیں ) اور اپنی زیبائش (کی جگہوں ) کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو اس میں سے خود ظاہر ہو اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنی زیبائش کو ظاہر نہ ہونے دیں سوائے اپنے شوہروں کے۔

۲۔" يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِکَ وَ بَنَاتِکَ وَ نِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلاَبِيبِهِنَّ ذٰلِکَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلاَ يُؤْذَيْنَ وَ کَانَ اللَّهُ غَفُوراً رَحِيماً " (۱۶)اے پیغمبر آپ اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور مومنین کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی چادر کو اپنے اوپر لٹکائے رہا کریں کہ یہ طریقہ ان کی شناخت یا شرافت سے زیادہ قریب تر ہے اور اس طرح ان کو اذیت نہ دی جائے گی اور خدا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے ۔

مذکورہ بالا دو آیتوں اور ان  کی تفسیر کے سلسلہ میں جو احادیث و روایات وارد ہوئی ہیں نیز اس بارہ میں مفسّرین اور فقہاء  کے نظریات  اور الٰہی تعلیمات کی رو سے  پردہ کے وجوب اور اس کی اہمیت کے سلسلہ میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی  اور حقیقت  بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ پردہ اور حجاب ،اسلام  پرستی اور قرآنی تعلیمات کی پیروی کا مظہر اور علامت ہے اسی نکتہ سے ہم مغرب و مشرق کی سامراجی طاقتوں ،نیز اسلامی سماج کے بے دین اور ضمیرفروش افراد کی   حجاب مخالف  مہم کے اسرار و رموز کو سمجھ سکتے ہیں ۔

۷۔ بے پردگی اور آرائش و سنگار

بے پردگی ،آرائش و سنگار اورہر اس  گفتارو کردار  سے اجتناب اور پرہیز جو نامحرموں کی توجّہ اور ترغیب کا باعث بنے  مثالی اور باعمل خواتین کی ایک اہم خصوصیت شمار ہوتی ہے ۔

اس سلسلہ میں قرآنِ مجید کی دو آیتیں لائق ذکر ہیں :

 ۱۔ وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ ...وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ ...(17) اور مؤمنہ عورتوں سے کہہ دیجئے(کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں)   اور مومن عورتوں کو چاہئے کہ (چلتے ہوئے ) اپنے پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ جس سے ان کی پوشیدہ زینت ظاہر ہو جائے ۔

مرحوم شہید آیۃ اللہ مطہّریؓ اس آیت کی توضیح و تفسیر اور حجاب کے فلسفہ نیز عورتوں کی آرائش و سنگار کے بارہ میں ایک حکیمانہ  تحلیل و تجزیہ  پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اسلام میں عورت کو پردہ و حجاب کا حکم اس لئے دیا گیا ہے چونکہ خود نمائی ، آرائش و سنگار کا رجحان و میلان عورت سے مخصوص ہے ۔

عشق و محبّت کے معاملہ میں مرد شکار ہے اور عورت شکاری۔بالکل ویسے جیسے جسم اور بدن کے لحاظ سے عورت شکار ہے اور مرد شکاری ، شکاری ہونے کے اعتبار سے عورت کے اندر بناؤ ،سنگار اور آرائش کا جذبہ پایا جاتا ہے ۔

دنیا کے کسی بھی  گوشہ کے مردوں میں آرائش ، بناؤ سنگار،  بدن کی نمائش اور جنسی  خواہشات کو ابھارنے والے کپڑے  زیبِ تن کرنے کا رواج نہیں پایا جاتا ہے  ۔یہ عورت ہی ہے جو فطرت کے تقاضے کے مطابق ناز و نخرے دکھا کر مرد کو اپنا عاشق و فریفتہ بنانا چاہتی ہے ، لہٰذا عریانی  اور زینت کا جذبہ عورت سے مخصوص ہے اسی وجہ سے پردہ کا حکم بھی عورت سے مخصوص ہے (۱۸)

۲۔ وَ قَرْنَ فِي بُيُوتِکُنَّ وَ لاَ تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى (19) اور قدیم جاہلیت کی طرح اپنے آپ کو نمایاں کرتی نہ پھرو۔

شہید مطہّری مذکورہ دو آیتوں کے ترجمہ و تفسیر  کے سلسلہ میں فرماتے ہیں : قدیم  جاہلیت کی طرح آرائش و خود نمائی کے ساتھ اپنے گھروں سے باہر نہ نکلو ۔

اس حکم کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ عورتوں کو گھروں میں قید کردیا جائے  چونکہ اسلامی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ پیغمبراکرم[ص] سفر میں خواتین کو اپنے ہمراہ لے جایا کرتے تھے اور انہیں گھر سے نکلنے سے منع نہیں فرماتے تھے ۔

اس حکم کا اصلی مقصد یہ ہے کہ عورت ،گھر سے  آرائش و خود نمائی کے قصد سے باہر نہ نکلے ۔ (۲۰)

اس بحث کے اختتام پر اس نکتہ کی یاد دہانی بہت ضروری  معلوم ہوتی ہے کہ  اجنبی مردوں کے لئے عورت کا بناؤ ، سنگار اور آرائش اگر چہ حرام اور بہت ناپسندیدہ عمل ہے  لیکن اپنے شوہر  کی دل لگی کے لئے یہ عمل جائز اور بہت پسندیدہ عمل شمار ہوتا ہے بلکہ اس کی طرف  رغبت دلائی گئی ہے اور اس پر بہت تاکید کی گئی ہے  جو خواتین اس سے غفلت کا مظاہرہ کرتی ہیں یا اس پر کوئی خاص توجّہ نہیں دیتیں  ،ان کی سرزنش و ملامت کی  گئی ہے ۔

۸۔ نظروں کی طہارت اور پاکیزگی

نظروں کی طہارت  اور نامحرموں پر لذّت آمیز اور شہوت آمیز نظر سے اجتناب ، مومن اور مثالی خواتین کی ایک دوسری اہم صفت ہے  دوسرے لفظوں میں  تاک جھانک اور نامحرموں پر ٹکٹی باندھنا ہرصاحبِ ایمان  کے لئے حرام  اور ناپسندیدہ صفت ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن ِ مجید کا ارشاد ہے " قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ ... وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ " آپ مومن مردوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچی رکھا کریں ۔۔۔ اور مؤمنہ عورتوں سے بھی کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ۔اس آیت کی تفسیر  کے سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ اس حکم کا خلاصہ یہ  ہے کہ مردو عورت ایک دوسرے پر نظریں نہ جمائیں، تاک جھانک سے گریز کریں ، ایک دوسرے پر شہوت آمیز نظر نہ ڈالیں، لذّت کے قصد سے ایک دوسرے کو نہ دیکھیں۔

۹۔ شرم و حیا

پروردگارِ عالم عورتوں کو شرم و حیا کی دعوت دیتے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السّلام اور حضرت شعیب علیہ السّلام کی بیٹیوں کے درمیان پیش آنے والے واقعہ کو شرم و حیا کی بہترین مثال قرار دیتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے "وَ لَمَّا وَرَدَ مَاءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهِ أُمَّةً مِنَ النَّاسِ يَسْقُونَ وَ وَجَدَ مِنْ دُونِهِمُ امْرَأَتَيْنِ تَذُودَانِ قَالَ مَا خَطْبُکُمَا قَالَتَا لاَ نَسْقِي حَتَّى يُصْدِرَ الرِّعَاءُ وَ أَبُونَا شَيْخٌ کَبِيرٌ . فَسَقَى لَهُمَا ثُمَّ تَوَلَّى إِلَى الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ . فَجَاءَتْهُ إِحْدَاهُمَا تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ قَالَتْ إِنَّ أَبِي يَدْعُوکَ لِيَجْزِيَکَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا فَلَمَّا جَاءَهُ وَ قَصَّ عَلَيْهِ الْقَصَصَ قَالَ لاَ تَخَفْ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ‌ .اور جب مدین کے چشمہ پر وارد ہوئے تو لوگوں کی ایک جماعت کو دیکھا جو جانوروں کو پانی پلا رہی تھی اور ان سے الگ دو عورتیں تھیں جو جانوروں کو روکے کھڑی تھیں ، موسیٰ نے پوچھا کہ تم لوگوں کا کیا مسئلہ ہے ان دونوں نے کہا کہ ہم اس وقت تک پانی نہیں پلاتے ہیں جب تک ساری قوم ہٹ نہ جائے اور ہمارے بابا ایک ضعیف العمر آدمی ہیں ۔ موسیٰ نے دونوں  کے جانوروں کو پانی پلایا اور پھر ایک سایہ میں پناہ لے کر عرض کی  پروردگار یقینا میں اس خیر کا محتاج ہوں جو تو میری طرف بھیج دے ۔

اتنے میں دونوں میں سے ایک لڑکی کمالِ شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی آئی اور اس نے کہا کہ میرے بابا آپ کو بلا رہے ہیں کہ آپ کے پانی پلانے کی اجرت دے دیں پھر  جوموسیٰ ان کے پاس آئے اور اپنا قصّہ بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ ڈرو نہیں اب تم ظالم قوم سے نجات پا گئے ۔

اس واقعہ میں سب سے زیادہ سبق آموز اور لائقِ ذکر وہ نکتہ ہے جو "   تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ" کی تعبیر میں پوشیدہ ہے ، عورت کا سب سے بڑا کمال اس کی شرم وحیا ہے یہی وجہ ہے کہ جنابِ شعیب علیہ السّلام کی بیٹیوں کی دیگر برجستہ صفات میں سے صفتِ شرم وحیا ہی قابلِ ذکر قرار پائی ۔

۱۰ ۔ خدا کی یاد

مثالی اور ممتاز خواتین کی ایک اہم  صفت یہ ہے کہ وہ زندگی کے کسی بھی لمحہ میں خدا کی یا د سے غافل  نہیں ہوتیں ، پروردگارِ عالم نے اس صفت کو سچّے مومنوں کی علامت قرار دیا ہے اور ان الفاظ میں ان کو سراہا ہے " إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَ الْمُسْلِمَاتِ وَ الْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ ...ِ والذَّاکِرِينَ اللَّهَ کَثِيراً وَ الذَّاکِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَ أَجْراً عَظِيماً "(23)بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں ۔۔۔ اور خدا کا بکثرت ذکر کرنے والے مرد اور عورتیں ، اللہ نے ان سب کے لئے مغفرت اور عظیم اجر مہیّا کر رکھا ہے ۔

سورۂ احزاب  کی مذکورہ بالا آیت سے ماقبل آیت میں پیغمبراکرم[ص] کی بیویوں کو یہ نصیحت کی گئی ہے کہ وہ ہمیشہ ان آیات ِ الٰہی اور حکمت کی باتوں کو یاد رکھیں جو ان کے گھر میں نازل ہوتی ہیں ، ارشاد ہوتا ہے " وَ اذْکُرْنَ مَا يُتْلَى فِي بُيُوتِکُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَ الْحِکْمَةِ إِنَّ اللَّهَ کَانَ لَطِيفاً خَبِيراً "اور اللہ کی ان آیات اور حکمت کو یاد رکھو جن کی تمہارے گھروں میں تلاوت ہوتی  ہے ، اللہ یقینا بڑا باریک بین ،خوب باخبر ہے ۔

خدا اور آخرت کی محبّت، برتری اور فضیلت کا ایک اہم  معیا ر ہے جو ان خواتین کو دنیا کی دیگر خواتین پر فضیلت اور برتری عطا کرتا ہے جو اس صفت سے مزیّن ہوتی ہیں ، پروردگارِ عالم نے پیغمبر اکرم[ص]  کی بیویوں ( جن کو دنیا کی دیگر خواتین کے لئے نمونۂ عمل ہونا چاہئے) کے لئے اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے " يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِکَ ... وَ إِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَ الدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْکُنَّ أَجْراً عَظِيماً (24) پیغمبر اپنی بیویوں سے کہہ دیجئے ۔۔۔ اور اگر اللہ اور رسول اور آخرت کی طلبگار ہو تو خدا نے تم میں سے نیک کردار عورتوں کے لئے بہت بڑا اجر فراہم کر رکھا ہے ۔


source : http://www.ahl-ul-bayt.org
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

انسانی تربیت کی اہمیت اور آداب
خواہشیں ! احادیث اہلبیت کی روشنی میں
غدیر کا ھدف امام کا معین کرنا
اهدِنَــــا الصِّرَاطَ المُستَقِيمَ ۶۔ همیں ...
عظمت کعبہ قرآن کے آئینہ میں
بہ کعبہ ولادت با مسجد شہادت
پانچویں امام
امام جعفر صادق (ع ) کے احادیث
غَضَب ایک اخلاقی بیماری
اصول فقہ میں شیعہ علماء کی تصانیف

 
user comment