اردو
Friday 26th of April 2024
0
نفر 0

پیغمبر اکرم صلی الله علیه و آله) کے سینہ کو کشادہ کرنے کے کیا معنی هیں؟

پہلی آیت میں خدا کی اہم ترین نعمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله) سےفرماتا ہے : ” کیا ہم نے تیرے سینہ کو کشادہ نہیں کیا“۔
(الم نشرح لک صدرک)۔
”نشرح“ ” شرح“ کے مادہ سے ، مفرادات میں راغب کے قول کے مطابق اصل میں گوشت کے ٹکڑوں کو کشادہ کرنے اور زیادہ نازک اور پتلے ورق بنانے کے معنی میں ہے ۔ اس کے بعد مزید کہتا ہے کہ شرح صدر سے مراد نور الٰہی اور خدا داد سکو ن و آرام کے ذریعے اس کوو سیع کرنا ہے ، اور اس کے بعد کہتا ہے : گفتگو اور کلام کی مشکلات کی شرح کرنا، اس کو پھیلانے اور اس کے مخفی معانی کو وضاحت کرنے کے معنی میں ہے ۔ بہر حال اس میں شک نہیں ہے کہ یہاں شرح صدر سے مراد اس کاکنائی معنی ہے۔ اور وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح و فکر کو وسعت دیناہے ، اور یہ وسعت ممکن ہے کہ ایک وسیع مفہوم رکھتی ہو، جو وحی و رسالت کے طریق سے پیغمبر کے وسعتِ علم کو بھی شامل رکھتا ہواور دشمنوں اور مخالفین کی ہٹ دھر میوں اور کارشکنیوں کے مقابلہ میں آ کے تحمل و استقامت میں وسعت و کشادگی کو بھی اپنے اندرلئے ہوئے ہو۔
اسی لئے جب موسیٰ بن عمران علیہ السلام ، فرعون جیسے سر کش کی دعوت پر مامور ہوئے” اذھب الیٰ فر عون انہ طغٰی“” فرعون کے پاس جاوٴ کہ وہ سرکش ہو گیا ہے “ ، تو بلا فاصلہ عرض کرتے ہیں:” ربّ شرح لی صدری ویسرلی امری “پر وردگار میرے سینہ کو کشادہ کردے اور میرے کام کو آسان کردے“۔ ( طٰہٰ۔ ۲۵۔۲۶)۔
دوسرے مقام پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے خطاب ہے فا صبر لحکم ربک ولا تکن کصاحب الحوت اب جبکہ یہ حال ہے تو اپنے پروردگار کے حکم کے منتظر رہو ، اور استقامت اور صبر و شکیبائی اختیار کر واور یونس کی طرح نہ ہو ( جو ضروری و لازمی صبر و شکیبائی کو ترک کرنے کی بناء پر ان تمام مشکلات اور تلخیوں میں گرفتار ہواہے)۔( قلم۔ ۴۸(
شرح صدر حقیقت میں ضیق صدر کا نقطہٴ مقابل ہے جیساکہ سورہٴ حجر کی آیہ ۹۷ میں آیاہے ۔ ولقد نعلم انک یضیق صدرک بما یقولون:” ہم جانتے ہیں کہ تیرا سینہ ان کی ( مغرضانہ) باتوں سے تنگ ہوجاتا ہے “۔ اصولی طور پر کوئی عظیم رہبر شرح صدر کے بغیر مشکلات کا مقابلہ نہیں کر سکتا ، اور وہ شخص جس کی رسالت سب سے زیاد ہ عظیم ہے ۔ ( جیسا کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تھی )تو اس کا شرح صدر سب سے زیادہ ہو نا چاہئیے ۔ ابتلاوٴں کے طوفان اس کی روح کے سمندر کے سکون و آرام کو درہم بر ہم نہ کریں ، اور مشکلات سے اس کے گھٹنے نہ ٹک جائیں ، دشمنوں کی کارشکنیاں اسے مایوس نہ کریں ، پیچیدہ مسائل کے سوالات اسے ہر طرف سے مجبور کرکے لاجواب نہ کردیں ، اور یہ خدا کا رسول اللہ کے لئے ایک عظیم ترین ہدیہ تھا۔
اسی لئے ایک حدیث میں آیاہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:
”میں نے اپنے پروردگار سے ایک درخواست کی ،حالانکہ میں چاہتا تھا کہ یہ درخواست نہ کرتا۔ میں نے عرض کیا مجھ سے پہلے پیغمبروں میں سے بعض کو ہوا کے چلنے پر اختیار دیا، بعض مردوں کو زندہ کرتے تھے ۔ خدا نے مجھ سے فرمایا : کیا تو یتیم نہیں تھا تو میں نے تجھے پناہ دی ؟ میں نے عرض کیا ، ہاں! فرمایا: کیا تو گمشدہ نہیں تھا ، میں نے تجھے ہدایت کی ؟ میں نے عرض کیا ، ہاں ! اے میرے پروردگار، فرمایا: کیا میں نے تیرے سینہ کو کشادہ اور تیریپشت کے بوجھ کو ہلکا نہیں کیا ؟ میں نے عرض کیا، ہاں ! اے پروردگار!“
یہ چیز اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ” شرح صدر“کی نعمت انبیاء کے معجزات سے مافوق تھی، اور واقعاً اگر کوئی شخص پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حالات کا باریک بینی کے ساتھ مطالعہ کرے اور آپ کے شرح صدر کا اندازہ آپ کی زندگی کے دور کے سخت اور پیچیدہ حوادث سے لگائے ، تو وہ یقین کر لے گاکہ یہ چیز عام طریقہ سے ممکن نہیں ہے ، بلکہ یہ ایک تائید الٰہی اور توفیقِ ربّانی ہے ۔
اس مقام پر بعض نے یہ کہا ہے کہ اس شرح صدر سے مراد وہی حادثہ ہے جو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بچپن یا جوانی میں پیش آیاتھا کہ آسمان سے فرشتے اترے، آپ کا سینہ شگافتہ کیا، اُن کے دل کو باہر نکال کر اسے پاک و صاف کیا، اور اس کو علم و دانش اور رافت و رحمت سے بھر دیا ۔
یہ بات ظاہر ہے کہ اس حدیث سے مراد جسمانی دل نہیں ہے ، بلکہ روحانی اور پیغمبر (ص) کے عزم و ارادہ کی تقویت، اور اس کی ہر قسم کے اخلاقی نقائص، اور وسوسہٴ شیطانی سے پاک سازی کے لحاظ سے خدائی امدادوں کی طرف ، ایک کنایہ اور اشارہ ہے ۔
لیکن بہر حال ہمارے پاس اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ زیر بحث آیت خاص طور پر اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے ، بلکہ اس کا ایک وسیع مفہوم ہے کہ یہ داستان بھی اس کا ایک مصداق شمار ہوسکتی ہے۔
اسی شرح صدر کی بناء پر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے رسالت کی مشکلات کو اعلیٰ ترین صورت میں برداشت کیا اور اس طریقہ میں اپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح سے نبھا یا ۔

 2. تفسیر نمونه، جلد 27، صفحه 141.


source : http://www.shiastudies.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اس باشعور کائنات کا خالق مادہ ہے یا خدا؟
روزے کی تعریف اور اس کی قسمیں
دعا كی حقیقت كیا ہے اور یہ اسلام میں مرتبہ كیا ...
اگر خون کا ماتم نادرست ہے تو کیا پاکستان میں اتنے ...
کیا اوصیاء خود انبیاء کی نسل سے تھے؟
کیوں عاشور کے بارے میں صرف گفتگو پر ہی اکتفا نہیں ...
حضرت امام مہدی (عج)کے اخلاق اور اوصاف کیا ہے ، اور ...
حقوق العباد کيا ہيں ؟
مجلس کیا ہے
حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

 
user comment