اردو
Friday 26th of April 2024
0
نفر 0

فرق اسلامی کے مشترکه اصول اوراتحاد ووحدت میں اس کاکردار

 

دین اسلام کاایک نهایت هی اهم مقصد،مسلمانو ں کے درمیان اتحادویکجهتی قائم کرنا ہے. قرآن وسنت کے رو سے جیسااتحادووحدت قائم کرناواجب ہے،ویساهی اختلاف وتفرقه سے بچناضروری امر ہے.ائمه اطهار(علیهم السلام)اورمعتبراسلامی شخصیات کی زندگی بھی،امت مسلمه کو اختلافات سے بچاکر،اتحادووحدت برقرارکرنے میں بسرهوئی .همارے پاس،کم ازکم تین ایسے بنیادی اصول ہیں جومسلم امه کے درمیان  نظریاتی اورفکری هم آهنگی ایجادکرسکتے ہیں،یوں یه تینوں اصول ،امت مسلمه کے درمیان   ایک اهم اوربنیادی کرداراداکرسکتے ہیں.یه تینوں اصول ،پور ے معاشر ے کومادی،معنوی،فکری اورعلمی حوالے سے ارتقاءکی طرف لے جاسکتے ہیں.یوں اسلامی مختلف فرقوں کواس  مقدس قرآنی اوراسلامی اهداف کے قریب کرسکتے ہیں که جن  کے حصول  کے بغیرمعاشر ه ترقی نهںی کرسکتا.یه اصول مندرجه ذیل ہیں:توحید،نبوت اورمعاد.

واژه های کلیدی (بنیادی الفاظ): مشترکه اصول ، توحید، نبوت، معاد،وحدت.

وحدت کیوں اورکس لئے ؟

قرآن کریم همیشه مسلمانوں کووحدت کی طرف بلاتانظرآتا ہے.قرآن کی نگاه میں وحدت کے بغیر،معاشرتی ترقی کاکوئی تصور نهیں ملتا.انسانی تکامل اورترقی کادارومداراسی پر ہے.اتحادوهم آهنگی هی کے سایے میں بشردین ودنیاکی سعادتیں حاصل کرسکتا ہے.قرآن پورے انسانوں میں،مومنین سے مخاطب هوکرا سے دستوردے رهاہے که معاشره میں اتحادقائم کریں«يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ وَ لا تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَ أَنْتُمْ مُسْلِمُونَ، وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعاً وَ لا تَفَرَّقُوا»( آل عمران: 10۲ـ103)

 

اس آیه مبارکه میں قابل توجه نکته یه ہے که الله تعالی نے،بیک وقت چارچیزو ں کا حکم  دیا ہے.تقوی الهی اختیارکرنا،حالت مسلمانی اورتسلیم میں زندگی گذارنا،حبل الله سے تمسک اورتفرقه سےبچنا. ایک معاشرے میں زندگی بسرکر نے کےلئے ،یه چارسنهرےاصول هیں.سیاق درونی اوربیرونی آیه سے پته چلتاہے اتحادواجب اورتفرقه حرام ہیں.امت مسلمه کےهرفردپرواجب ہےکه وه متحدرهنے ساتھ ساتھ همه گیراتحاد کےلئے عملی قدم اٹابئے.جس طرح«اعْتَصِمُوا»فعل امرہے اوروجوب پردلالت کرتاہے اسی طرح«لا تَفَرَّقُوا»فعل نهی ہےجوحرمت پردلالت کرتاہےیعنی جس طرح وحدت ایجادکرناواجب ہےاسی طرح تفرقه کرناحرام ہے.

قرآن کریم مسلمانوں کودوسری طرف  سے ایک  اهم ترین عنوان دیتانظرآ رهاہے اوروه عنوان،« امت » کاعنوان ہے. «كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَر».(آل عمران:110). اس آیت میں ،مسلم امه کوبهترین امت کهاگیاہے که اس امت کی خلقت کامقصدهی رهبری اورهدایت ہے. اس امت کی تخلیقی هدف اورغایت هی انسانیت کی هدایت ہے.ظاهری بات ہےجوخودهدایت یافته نه هو،وه کسی دوسرے کی هدایت کیسے کرے؟سب سے پهلے یه خودامت بنے،امت بدون وحدت کیسے بن سکتی ہے ؟ اس وقت مسلمان کثیرتعداد میں هونے کے باوجودتمام بین الاقوامی پلٹ فارم په منفعل نظرآتا ہے ،جس کی بنیادی وجه یهی ہے که هم امت نهیں بنے.هم نےقرآنی دستورات په عمل نه کیا.قران نے جن چیزو ں کاحکم دیا تا  ،مسلمانوں نے انهیں فراموش کیئے .قرآن چوده سوسال سے جس خطرکی طرف مسلمانوں کی توجه دلارها ہے، وه خطر،اختلاف کاخطرہے : « ُ وَ لا تَنازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَ تَذْهَبَ رِيحُكُم»(انفال:46) اگراختلاف کروگے توتمهاری شان وشوکت خاک میں مل جایے گی ،تمهاری عزت ختم هوگی،ذلت ورسوائی تمهاری مقدربن جائے گی.قران معاشرے میں، اسلامی بھائی چارے کی فضادیکناکچاهتاہےلهذاایک قانون اخوت قائم کرتاہے،اوراعلان کرتاہے:« إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ»(حجرات:10) .

میرےخیال میں، مسلمانوں کےلئے یه ایک عمومی میثاق کی حثیت رکھتاہے که اگراس میثاق په عمل هوجائے تومسلم امه بدلنے میں دیرنه لگےگی.مسلمان ،صدراسلام کی وهی عزت واقتدارحاصل کرسکتا ہے. قران  معاشره میں انسانی ،اسلامی فضاقائم کرنے کی غرض سے ایک اوراصل وقانون کانه تنهااعلان کرتا ہے،بلکه عملی طورپراس کانفاذ بھی چاهتا ہے.اور وه اصل، « قانون تعاون» ہے،تقوی اورنیکی کی بنیادپر« تَعاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوى »(مائده:2).

یه قانون معاشره میں،عدل وانصاف اورباهمی تعاون کوتقوی اورنیکی کی بناپر،پورےمعاشرے میں فروغ دیناچاهتا ہے ،جس کی وجه سےمعاشره،رشدوکمال کی طرف گمزن هوگا.معاشره میں انسانی اورالهی اقداربلندهوگا.قرآن معاشره کوفساد،فتنه،اوردوسرے اخلاقی اوراجتماعی برائیوں سے بچانے کی خاطرایک اوراصل وقانون کااعلان کرتا ہےاوروه اصل،« قانون عدم تعاون » ہے، گناه وسرکشی کی بنیادپر. «وَ لا تَعاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَ الْعُدْوان »(مائده:2).جب پورامعاشره،گناه اورتجاوزکی حوصله شکنی کرے گاتویقیناوه معاشره،ترقی کرےگااوریه قرآن کی نظر میں،ایک مطلوب معاشره هوگا.البته ایسے معاشرےمیں،رهبرکاکرداربهت اهم هوگا.کیونکه ایک حقیقی الهی رهبرهی لوگوں کےدرمیان اتحاد ووحدت کی کوشش کریں گے.

معاشرےمیں ،وحدت قائم کرنےسےمتعلق ،انبیاءکرام (علیهم السلام)،خاص کرهمارے نبی حضرت محمدمصطفی(صلی الله علیه وآله وسلم)کاکرداربےمثال ہے.مخصوصامدنی زندگی میں هر طرف اتحادو بارئی چارے کی فضانظرآنےلگی،جس کےنتیجے میں مختلف جھنگوں میں فتوحات کےعلاوه ،اسلام دوسرے علاقوں میں پهنچ گیا. اسلام معاشرتی اور اجتماعی مسائل کوبهت زیاده ترجیح دیتا ہے اسلام مسلمانوں کوگوشه نشینی اوررهبانیت کی اجازت نںیع دیتا . اسلام کانظام اجتماع ایک دوسرے سے مربوط رهنےکی تلقین کرتانظرآتا هے. ایک دوسرے کاخیال رکنان،دکھ دردبانٹنایهی نظام اجتماعی کابنیادی فلسفه هے که جس کاخیال کئےبغیر،شخص مسلمان بیب، نںین بنتا.جس نظام حیات اورآئین الهی کو،اجتماعی روابط کااتناخیال هو،وه  بھلا،اختلاف وتفرقه اورآپس کی نفرتو ں کی اجازت کیسے دے سکتا هے؟.

اسلام معاشرے میں اتحاداورامن چاهتا ہے یهی وجه ہے که بهت ساری اسلامی روایتیں اتحادکےموضوع سےمتعلق هیں.ایک حدیث میں مرسل اعظم(صلی الله علیه وآله وسلم)فرماتے هیں:«يدالله مع الجماعة »(ابن حبان،1414:10،438).خداکےهاتھ همیشه جماعت کےساتھ هیں.یعنی خداکی نصرت همیشه اهل جماعت کےشامل ہے.اصلی هدف تک پهنچنے کےلئے جمع هونا،خیر ہے اورتفرقه ، عذاب اورغضب الهی  کا موجب بنتاہے « في الجماعة خير و في الفرقة عذاب»(هندی،1409: 3،266). اسلام اتحادکومعاشره کاایک نهایت هی اهم رکن سمجتا ہےلهذاایک روایت میں آیا ہے:« لا يحل لمسلم ان يهجر اخاه فوق ثلاثة ليال، يلتقيان فيعرض هذا و خيرهما الذي يبدء بالسلام»( دروزه، 1383: 8، 510).

اس روایت کے مطابق دومسلمانوں کے درمیان تین دن سےزیادقطع تعلق جائزنهیں ہے.ایک اورحدیث میں جوشخص مسلمانوں کےامورکواهمیت نهیں دیتا،اسے مسلمان هی  نهیں سمادقط ہے«من اصبح و لم يهتم بامور المسلمين فليس بمسلم »( بروجردی،1410: 16،172). اس حدیث میں ایک مسلمان کے کردارپه بحث هوئی ہے که یه کردارمعاشرے میں کتناوزن رکھتاہے ممکن ہے کسی شخص کی تقدیراسی ایک کردارسے بدل جائے.جوشخص معاشرے میں کسی دوسرےکواهمیت نهیں دیتا،کسی کےغم اورخوشی میں شرکت نهیں کرتا،دوسروں سے بے خبررهتا ہے تواس حدیث کےرو سےوه مسلمان نهیں.اس سے پته چلتا ہے که اسلام باهمی تعلقات کوکتنی اهمیت دیتا ہے.

یه ایک زنده دین ہے جوانسانوں کوزندگی سکاختا ہے.اسلام کی نگاه میں ،پورامومن معاشره،ایک هی بدن کی طرح ہے که جس کا هرایک عضو،دوسرے عضوکامحتاج ہے ایک عضواگرتکلیف میں هوتودوسرے کوقرار نهیں.نبی مکرم(صلی الله علیه وآله وسلم)ایک حدیث میں اسی حقیقت کی طرف اشاره کرتے هوئے فرماتے میں هیں: «مثل المؤمن في توادّهم و تراحمهم كمثل الجسد اذا اشتكي بعضه تداعي سائره بالسّهر و الحمي»( مجلسی ،1403: 58،150) اسی مضمون کےقریب،طبری،1415: 1،556). ومن،محبت ورحمت کے اعتبار سے ایک دوسرے کے، ایک بدن کی مانند هیں که اگرایک عضودرد میں مبتلاهوجائے،توپورابدن رات بر،بےقرار،درد میں مبتلارهتا ہے.اسی حدیث کالب لباب ،ایک ایرانی شاعرجناب سعدی شعرکی صورت میں یوں بیان کرتے هیں:

بنـي آدم اعضـاي يـك پيكرند 

چو عضوي به درد آورد روزگار

كه در آفرينش ز يك گوهرند

دگــر عضـوها را نماند قـرار

اسلام معاشرتی اصلاح کوبهت زیاداهمیت دیتا ہے اوراسے اعلی ترین عبادی درجه دیتا ہے : «الا اخبركم بافضل من درجة الصلاة و الصيام و الصدقة؟ قالوا بلي قال اصلاح ذات البين.»(احمدبن حنبل،بی تا،6،444). ائمه اطهار(علیهم السلام)کی زندگی اتحاد کےحوالےسے ایک بهترین نمونه ہے. ائمه اطهار(علیهم السلام) سے مروی روایتوں میں اتحادپه بهت زیادزوردیاگیا ہےاورتفرقه سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے.امیرالمئومنین (علیه السلام)ایک خطبے میں،اتحاد سے متعلق فرماتے هیں:«و الزموا السواد الاعظم فان يدالله مع الجماعة و اياكم و الفرقة! فان الشاذ من الناس للشيطان كما ان الشاذ من الغنم للذئب. ألا من دعا الي هذا الشعار فاقتلوه، و لو كان تحت عما متي هذه«دشتی،خ127،66).

اس حدیث میں اتحادکی طرف دعوت دی ہے خداکاسهاراجماعت کے ساتھ ہے.فرقه پرستی کی مذمت هوئی ہے اوراس بات پرزوردیاگیا ہےکه جوشخص دوسروں کوتفرقه کی دعوت دے اسے مارواگرچه وه میرے عمامے کےنیچےهی کیوں نه هو.اسکامطلب هی نکلتاہے که اختلاف کی صورت جائزنهیں.

اهل  بیت(علیهم السلام) کےلئے سب سے زیاده اهم مسئله ،دین کی حفاظت کا مئله تا ورنه ظاهری اقتدارکی توکوئی حثیت هی نهیں.حضرت  علی(علیه السلام)قبول بیعت سےمتعلق فرماتے هیں: «لولا حضور الحاضر، و قيام الحجة بوجود الناصر، و ما اخذ الله علي العلماء ألا يقاروا علي كظّة ظالم، و لا سغب مظلوم، لألقيت حبلها علي غاربها و لسقيت آخرها بكأس اولها و لألفيتم؟ دنياكم هذه أزهد عندي من عفطة عنز»( وهی ،خ7،3). امیرالمئومنین (علیه السلام)پوری حیات طیبه اسلام هی کی سربلندی کےلئے وقف رهی . استادشهیدآیه الله مرتضی مطهری (رح)ایک معروف داستان،اهل سنت دانشورجناب ابن ابی الحدیدمعتزلی کے حوالے سےنقل کرتےهیں:« ایک دن حضرت فاطمه(سلام الله علیها)نےحضرت علی(علیه السلام)کوخلفاء کےخلاف قیام کی دعوت دی ،اسی اثناء،مئوذن کی اذان کی آوازبلندهوئی«اشهد ان محمداً رسول‌الله»، امیرالمئومنین (علیه السلام)،حضرت فاطمه(سلام الله علیها) سےمخاطب هوکر فرماتے هیں : کیا آپ چاهتی ہے که یه آوازبندهو؟فرمایا: نهیں . حضرت علی(علیه السلام) فرماتے هیں:یهی میری بات ہے »( مطهری ،1354،184».

 

یعنی اگرآج علی (علیه السلام)خاموش هیں تواس کی تنهادلیل دین کی حفاظت کی ہے تلوارچلاکردین نه بچاسکے تواس سےزیاده علی (علیه السلام)کے لئےکوئی نقصان نهیں اوراگرتلوارچلائےبغیر، دین بچ سکتا ہے توعلی (علیه السلام) یهی کام انجام دیں گے. علی(علیه السلام) کے لئےبقای دین سے زیاده کوئی چیزاهم نهیں.کتاب «حلیف مخزوم» کےمئولف ،ابوبکرکےابتدائی خلافت کے دورکاذکرکرتےهوئےلکےئ  هیں: بهت سارے لوگ ،دوردرازاورنزدیک علاقوں سے اس(علی) کےپاس آتے اورآپ سے حکومت وقت کےخلاف جنگ کی اجازت طلب کرتے،لیکن آپ  ان کوخاموش کرتےاورفرماتے: «حسبنا سلامة الدين»(صدرالدین،1345: 1،161). همارےلئے یهی کافی ہے که دین سالم ہےهردور میں علماءکاکردار بھی وحدت قائم کرنے میں قابل ستائش رهی. علماء کابهت مثبت کردار ہے.اس دور میں نے ،سب سےزیاده جس شخص نے وحدت کانعره لگایااوراس نعرےکوعملی جامه پهنایا،وه شخص امام خمینی(رح)هی کی ذات ہے.آپ نےمسلمانوں کوایک حقیقی اتحادکاتصوردیااوراسی طرح اسلامی حکومت ایران کے تمام ترمادی اورمعنوی وسائل کواسی اتحادکی راه میں قربان کردئے.وحدت کےبارے میں آپ کے بےشمارتقریریں اورمکتوبات موجود هیں.

ایک مقام پرآپ فرماتے هیں:«هم اسلام اوراسلامی ملکوں کی حفاظت اوراستقلال کے واسطے،هرحال میں (ان سے)دفاع کےلئےتیار هیں.همارامنشور،وهی اسلام کامنشور ہےهمارامنشوراتحادکلمه اوراسلامی ممالک کےدرمیان اتحادقائم کرناہے.تمام مسلمان مکاتب فکر کےبرادری چاهتے هیں. هم اسرائیل کےمقابل ، دنیاکےگوشه گوشه، میں رهنے والے مسلمان حکومتوں کے ساتھ اظهاریکجهتی  چاهتے هیں.هم استعماری حکومتوں کےمقابل متحدهونا چاهتے هیں»( خمینی ،1378: 158).

آپ کےجانشین حضرت آیه الله خامنه ای(مدظله العالی)وحدت مسلمین سے متعلق فرماتے هیں:« هم وحدت کےبارے میں پرعزم هیں.هم نے مسلمانوں کےدرمیان اتحاد کامعنی اورمفهوم بیان کئے هیں. مسلمانوں کےدرمیان اتحاد کامعنی یه نهیں ہے که مسلمان اورمختلف مکاتب فکراپنے مخصوص کلامی اورفقهی عقیدےسے منصرف هو،اتحادکادواورمعانی هیں که جسےپوراهوناچاهیے.پهلایه که مختلف مکاتب فکر،حقیقی دشمنو ں کےمدمقابل ایک همدلی،همفکری اورباهمی تعاون  کےذریعے ایک دوسرےکاساتھ دیں.دوسرایه که مختلف مکاتب فکرکی یه کوشش هوکه ایک دوسرےکےقریب جائے اورآپس میں ایک تفاهم ایجادکریں اسی طرح فقهی  مسالک کاایک تطبیقی مقایسه هو.اگرتحقیقانه طورپربحث هوتوبهت سارے فقهاءاورعلماءکےفتاوی، جزی تغییرکےساتھ دونوں مذهب کے فتاوی ایک دوسرے کےقریب هونگے»( حدیث ولایت ،1375: 2 ،229).

شیعه علماءاورمفکرین همیشه وحدت  کی بات کرتے هیں اس راه میں قدم اٹاکنا،دراصل قرآنی اهداف کےتحقق کی راه میں قدم اٹاونا ہے دونوں مکتب فکر (شیعه،سنی)کےپیروکارصدیو ں سے ایجادوحدت کی تلاش میں سرگرم ر ہے هیں اوراس راه میں هرقسم کی قربانی دیتے آیئے هیں.بهت سارے اهل سنت علماء اتحاداسلامی کی خاطراپنے مثبت اورقابل تحسین کرداراداکرتے رهے هیں.

مصر کےجامعه الازهرکےسابق چانسلرمفتی شیخ محمودشلتوت کهتے هیں: «میں اورمیرے جوساتیں جامعه الازهرتےا،مختلف فقهی امور میں فتوی دیتے هوئے فقه جعفری  سے بیو برتپورفائده اٹابتے هیں بلکه بعض امورمیں شیعه نقطه نظرکواهل سنت مذاهب پرترجیح دیتے هیں،حالانکه هم سنی هیں.مصرکے«سول لاء» میں طلاق کے مسئله میں شیعه نقطه نظرکےمطابق فیصله دیاجاتا ہے،نه اهل سنت کےمطابق. اسی طرح رضاع کے مسئله میں، میں  بذات خود شیعه نقطه نظرکوهی قوی جانتاهوں،لهذااسی کے مطابق فتوی دیتاهوں.ایک منصف مزاج  فقیه جهاں بیه شیعه نقطه نظرکو دوسرے نظریات کے مقابلے میں دلیل واستدلال کےاعتبار سے قوی دیکتاط ہے اسی کےمطابق فتوی دیتا ہے،یهی وجه ہےکه،آج  میں اپنی ذمه داری اورفریضه جانتاهوں که الازهریونیورستی کے «اسلامی لاءکالج» میں شیعه سنی فقه پرمشتمل« فقه تطبیقی» کاشعبه قائم کروں،اس کام. سےهمارامقصدصرف یه ہے که صحیح اسلامی احکام کومختلف اسلامی فرقوں کی« فقه» سےاخذکرسکیں،اس سلسلے میں شیعه فقه یقیناسب سے آگے ہے»(ر.ک:بی آزارشیرازی،1403: 10).

جناب شیخ محمودشلتوت نے تمام اسلامی ممالک کےنام ایک تاریخی فتوی جاری کیاجس  میں  فقه جعفری کی پیروی کوبیب دوسرے اسلامی فرقوں کی طرح جائزقراردیا ہے(ر.ک:وهی). اس فتوی کی تائیدبهت سارے اهل سنت علماءنےکی،جن میں شیخ عبدالمجیدسلیم،شیخ محمدضحام،شیخ عبدالحلیم محمود(الازهرکےسابق چانسلرز)، اسی طرح  استادشیخ محمدغزالی اورعبدالفتاح عبدالمقصودقابل ذکر هیں(ر.ک:وهی).آج تمام مسلمانوں،خاص کردانشوروں،علماء،زعماءاورجوانوں کافریضه ہے که باهمی اتحادکومضبوط بناتےهوئے،فروعی اورجزئی اختلافات کوبالای طاق رکےماهوئے،قرآن وسنت کی بالادستی کےلئےملکرکام کریں.کافی ہے اس سلسلے میں وهی تین بنیادی اصولوں کی پاسداری کریں.

اصل توحید:

تمام اسلامی فرقوں کاایک مشترک اصول،توحید ہے. نظریه توحید پرسب کااتفاق ہے نظریه توحیدکی اپنی کئی قسمیں هیں :

1-توحیدذاتی :

خدااکیلا ہے ،کوئی دوسرااس کاشریک نهیں ہے « قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ»(توحید:1). اورکوئی  دوسرااس جیسا نهیں ہے «لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ ء شوری:11». کوئی وجوداس سا نهیں: «وَ لَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُواً أَحَد »(توحید:4).

2-خالقیت میں توحید:

حقیقی خالق فقط خدا ہے.اس کےسواءکوئی مستقل وجود نهیں ہے کائنات کی هرچیزاسی کے فرمان،اذن اورارادےسے اثرگذارہے «قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْ ءٍ وَ هُوَ الْواحِدُ الْقَهَّار»(رعد:16).

3-ربوبیت میں توحید:

عالم کاایک هی رب اورایک هی مدبر ہے.کوئی دوسرااس کاشریک نهیں .مختلف امور میں ملائکه کاتدبیرسمیت دوسرے سارے اسباب اسی کے فرمان اوراذن سےہے« إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّماواتِ وَ الْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوى عَلَى الْعَرْشِ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ ما مِنْ شَفِيعٍ إِلاَّ مِنْ بَعْدِ إِذْنِهِ ذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ أَ فَلا تَذَكَّرُون »( یونس:3).خدا کےسواءکوئی دوسراحقیقی سبب موجود نهںٍ،البته کبیا خداخودهی دوسروں کواذن دیتا ہے.

4-تشریح میں توحید:

حاکمیت تنھاخداکےلئے ہے صرف وهی قانون وضع کرسکتا ہے اس کے علاوه کوئی دوسراامر،نهی،حرمت وحلیت کااختیار نهیں رکھتا، « ٍ إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلَّهِ أَمَرَ أَلاَّ تَعْبُدُوا إِلاَّ إِيَّاه »(یوسف:40).

5-اطاعت میں توحید:

خداکےعلاوه کسی اورکی اطاعت بالذات واجب نهیں.نبی اوردوسرے حضرات کی اطاعت کواس نے خودهی واجب قراردی ہے.انبیاء(علیهم السلام)اوراولیاءکی اطاعت،خداکی اطاعت کےمدمقابل نهیں ہے ،بلکه اسی کی اطاعت کےذیل میں متصورہے. « فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَ اسْمَعُوا وَ أَطِيعُوا» (تغابن:16).

6-حاکمیت میں توحید:

خدامطلقالوگوں پرولایت رکھتا ہے.اس کی ولایت اورحاکمیت ذاتی ہے جبکه دوسروں کی ولایت،اس کی اجازت اوراذن کےبعدمتصور ہے.« ِ إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلَّهِ يَقُصُّ الْحَقَّ وَ هُوَ خَيْرُ الْفاصِلِين»( انعام:57).

7-شفاعت اورمغفرت میں توحید:

مغفرت اورشفاعت خداهی سےمختص ہے وهی غافرالذنب ہے« ْ وَ مَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللَّه» (آل عمران:135).دوسری آیت میں آیا ہے« قُلْ لِلَّهِ الشَّفاعَةُ جَمِيعا»(زمر:44) . شفاعت خداکاذاتی حق ہے ،اوراسے مختص ہے،امادوسر ے لوگ اس کی اجازت اوراذن کے بعدهی، اس حق کامستحق بنتے هیں :« مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلاَّ بِإِذْنِه »(بقره:255).

8-عبادت میں توحید:

خداکےعلاوه عبادت کاکوئی لائق نهیں،اس نهیں سواءکوئی معبود نهیں،کوئی چیز،کوئی شخص عبادت میں اس کاشریک نهیں.اسی حقیت کااعتراف بنده،سوره حمد میں خداکومخاطب قراردے کرکرتا ہے « إِيَّاكَ نَعْبُد »(حمد:5).کوئی مسلمان توحیدکے بارے میں اختلاف نهیں کرتا.شهیدمطهری (رح)عبادت میں توحید کے بارے میں کهتے هیں: عبادت میں توحید،ایک قسم کی عملی توحید ہے اوریه ایک قسم کی حرکت ہے کمال تک پهنچنے کے.خداهی کاانتخاب،کمال تک جانے کےلئے،عبادت میں توحید ہے.دوسرے سارے دعوائی چیزوں کوترک کرکے خداهی کےلئے جکنا ،اٹھنا،اسی کےلئے قیام کرنا، اسی کےلئے جینااورمرنا» (مطهری1354: 379). عبادت میں توحید کے ذیل میں،مسلمانوں کاایک فرقه،انبیاء(علیهم السلام)اوراولیاءالهی کےسامنے خضوع اورتذلل(جوایک قسم کاامرالهی یوسف:100؛اسرا:24؛مائده:54،ہے)کوشرک قراردیتا ہے.اگرکوئی شخص،تین اوصاف کومدنظررکھ کرایساکرتا ہے تووه خطاپر ہےاوریه عمل موجب شرک ہے.اوروه تین اوصاف درجه ذیل هیں:

1- کوئی شخص کسی نبی یاولی کوخداسمجھ کراس کی الوهیت کے قائل هوکرایساکرے.

2-کوئی شخص کسی نبی یاولی کے ربوبیت کے قائل هوکرایساکرے.

۳. کوئی شخص کسی نبی یاولی کوخدا کے مقابل بےنیازجان کر ایساکرے.

میرے خیال میں کوئی مسلمان شخص،ایساعقیده نهیں رکھتا.یه تینوں اوصاف،صرف خداهی کی ذات بابرکت کے ساتھ مختص هیں.لهذااصل توحیدکوسب مانتے هیں.البته بعض جزئی مسائل میں،بعض  مختلف نظریات هیں جواصل هدف سے نهیں روکتی.حیات انسانی کی ترقی اورکمال یابی میں،توحیدمرکزی کرداراداکرتی ہے،توحیدسعادت دارین  اورمعنوی ومادی اهداف میں اساسی کردار،اداکرتی ہے.توحیدانسان کومقصدخلقت سے متصل کرتی ہے.انسان خداکی طرف سے آیا ہے اوراسی کی طرف لوٹ کے جانا ہے اوریه بشریت  کے لئے ایک جاودان توحیدی منشور ہے که جس کا اعلان قرآن کررها ہے« إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُون »(بقره:156).

توحیدی رنگ،انسانی حیات کوتمام جهتوں سے تبدیل کرتی ہے اورانسان کوکمال مطلق کی طرف راهنمائی کرتی ہے. الهی رنگ میں رنگنے کے بعد،انسان هردوسرے رنگ سے بے نیازهوتاهے.رنگ لگانے کاایک مطلب هوتاهے جس جانورپه رنگ لگے، وه اسی رنگ لگانے والے کاهوجاتاهے رنگ شخص کی ملکیت پردلالت کرتاهے.اسی طرح جس شخص پررنگ الهی لگ جائے،وه خالص توحیدکا بن جاتاهے.« صِبْغَةَ اللَّهِ وَ مَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً وَ نَحْنُ لَهُ عابِدُون »(بقره:138).جب انسان توحیدی رنگ میں رنگاجاتاهےتواس کالازمی نتیجه یه هوگاکه؛اس کی هرحرکت الهی بن جائے گی.خداکی راه میں قیام اس کامقصدوهدف بن جائےگااوروه اس راه میں خدا کےسواء،کسی  کی پروانه کرےگا.« قُلْ إِنَّما أَعِظُكُمْ بِواحِدَةٍ أَنْ تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنى وَ فُرادى »(سبا:46).

اسلام،اصل توحیدکی بناءپراتحادچاهتاهے.توجه کی بات یه هے که اسلام ایسااتحادنه تنهامسلمانوں کےدرمیان چاهتا هے بلکه اس اتحادکے دائرے کواهل کتاب اوردوسرے ادیان تک پھلاتانظرآتا هےیه وجه هے که خداونداصل توحیدکوبنیادبناکراهل کتاب کووحدت کی طرف دعوت دینے کی سفارش کرتاهے:« قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ تَعالَوْا إِلى كَلِمَةٍ سَواءٍ بَيْنَنا وَ بَيْنَكُمْ أَلاَّ نَعْبُدَ إِلاَّ اللَّهَ وَ لا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئاً وَ لا يَتَّخِذَ بَعْضُنا بَعْضاً أَرْباباً مِنْ دُونِ اللَّه »(آل عمران:64).اسلام ،توحیدکواصل قراردےکر،پوری انسانیت کواتحاداورامن کی طرف بلاتاهےکیسے ممکن هے که جواپنے هی پیروکارو ں کوظلم،فساد،جهالت اورناانصافی کی طرف بلائے؟اسلام کسی صورت ان چیزو ں کونه فقط برداشت نهیں کرتا،بلکه انهی چیزو ں سےکومعاشرے کوپاک کرنا،اولین ترجیح هے.خدانےتمام انبیاء(علیهم السلام)(علیهم السلام) کومعاشرے میں عدالت اجتماعی قائم کرنے کی غرض سے مبعوث کئے: «لَقَدْ أَرْسَلْنا رُسُلَنا بِالْبَيِّناتِ وَ أَنْزَلْنا مَعَهُمُ الْكِتابَ وَ الْمِيزانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْط»(حدید:25).لهذاتوحیدایک ایسااصل هے که جوپورے انسانی معاشرےکوامن وسکون دے سکتاهے.

قران کی آیتوں اورمرسل اعظم(صلی الله علیه وآله وسلم)روایتوں اورائمه اطهار(علیهم السلام)کی پاکیزه سیرت سے یه چیزعیاں هوجاتی هے که توحیدهی اصل واساس دین هے.اسی کووحدت کےلئےاصل قرادیاجاسکتاهے .جوشخص توحیدکااقرارکرتاهے وه اختلاف سے بچ سکتاهے قران کا اقرارانسان کودوسروں سے بےنیازکرتا هے« ِ وَ يَدْعُونَنا رَغَباً وَ رَهَباً وَ كانُوا لَنا خاشِعِين »(انبیاء(علیهم السلام):90).

خداوندعالم دوسری   آیت میں خشیت الهی کو،ایمان کےلئے شرط جانتا هے« ْ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِين (توبه:12).اسی طرح رسول خدا(صلی الله علیه وآله وسلم)کوخداکے مقابل خشیت کاحکم دیتا هے« ْ فَلا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْن» (مائده:3). جب کسی دل میں خوف وخشیت الهی آجائے،تویقینااس دلسےغیروں کاخوف نکل جائے گا.توحیدکاوه دل مرکزبنےگاخدااس دل په خاص عنایت کرےگاخوف وحزن اس دل سے نکل جائےگا ،اس کےفرشتے،اس دل په نازل هونگے:« إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلائِكَةُ أَلَّا تَخافُوا وَ لا تَحْزَنُوا وَ أَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُون»( فصلت:30).

اگرکسی معاشرے میں،توحیدحاکم هوجائے،توایسے معاشرے موجودتمام اشیاء،خودبخودرنگ الهی پکڑے گی.جس کے نتیجے میں،تمام بت جیسے:لسانی،نسلی ،علاقائی اورحزبی گرجائیں گےیهی وه تنهاصورت هے که جس کے نتیجے میں، معاشرے کے اندروحدت واتحادقائم هونگے ایسامعاشره،توحیدپرستی کی طرف رواں دواں هوسکتا هے.

اصل نبوت:

ایک اوراصل که جوتمام اسلامی مکاتب فکر کے اندراتحاداوروحدت قائم کرسکتا هے،وه اصل،«اصل نبوت »هے تمام مکاتب کااس په اتفاق هے که معاشرے میں، ایک شخص  ایساهوناچاهئے جولوگوں کوخداکی طرف طرف دعوت دے اورخدا کےپیغامات کوبندوں تک لے آئے ،ایسے شخص کوهادی کهاجاتا هے.نبی منصب نبوت کاحامی هوتاهے.جونبی عالمین کے لئے هوتا هے، وه عالمین کے لئے هدایت  کامرکزهوتا هے.تمام مکاتب فکرکااتفاق هے که اسلام ایک عالمی دینهے جوجامع اورکامل نظام حیات پرمشتمل هے.اس بات کی دلیل ،قرآن میں جیسے« يا أَيُّهَا النَّاس »( بقره ،21 ؛نساء،171-174؛فاطر ،15)، «يا بَنِي آدَم » اعراف ،26-28)اور«يا أَيُّهَا الْإِنْسان »(انفطار،6)، اس جیسے خطابات هیں جن کی دلالت  قران کے تمام بشریت  کےلئے ایک ابدی نظام زندگی  هوناهے. قرآن تمام انسانوں کے لئے هدایت   لے کےآیا هےاوریه کسی ایک زمانه سے مختص نهیں،بلکه یه نظام تمام فکری نظامو ں پرغالب آیئےگا: « لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّه »( توبه ،33).

اس آیت میں دین اسلام اوراس کے پیروکاروں کی فتح کی نویدسنائی گئی هےاسی طرح بعض آیتں اصل دین کاایک جامع نظام پرمشتمل هونےکی طرف اشاره ملتاهے. «ما فَرَّطْنا فِي الْكِتابِ مِنْ شَيْ ء »( انعام،38)، «  وَ نَزَّلْنا عَلَيْكَ الْكِتابَ تِبْياناً لِكُلِّ شَيْ ء» (نحل،89)، « ِ وَ لا رَطْبٍ وَ لا يابِسٍ إِلَّا فِي كِتابٍ مُبِين »(انعام ،59). اسی طرح یه  حدیث «و حلال محمد حلال الي يوم القيامة و حرامه حرام الي يوم القيامة»(بروجردی،1399: 1 ،136)، دین کی ابدیت پردلالت کرتی هے .انسانی معاشره کے لئے نبوت کے بلندترین اهداف  سےایک هدف،اجتماعی طورپرعدالت کاقیام هے «لَقَدْ أَرْسَلْنا رُسُلَنا بِالْبَيِّناتِ وَ أَنْزَلْنا مَعَهُمُ الْكِتابَ وَ الْمِيزانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْط»(حدید:25).

اس آیت کےتحت رهبرکاکام سب سےپهلے،معاشرے میں ایک اجتماعی نظام عدل کاقیام هے.عدالت خودبخودبرقرارنه هوتی،بلکه کوئی عادل،بابصیرت رهبرهوجواسے برقرارکرے.معاشرتی مسائل سےواقف ایک رهبرکاوجودمعاشرے کے لئے ضروری هے.زندگی کےتمام شعبوںمیں،عدالت کانفاذانتهائی لازمی امر هے.اجتماعی روابط هوں یافردی،یاکوئی اورمسئله،هرایک عدالت کےمحتاج هے.اسی طرح مختلف مکاتب فکرکےدرمیان بیت عدالت قائم هو.مختلف فرقوں کےباهمی روابط کی بنیادعدالت پرهو.اگرهمارے گفتار،کرداراورطرززندگی پرعدالت حاکم هوتوبهت سارے اختلاف کاخودبخودخاتمه هوجائے.آج اگرهمارے معاشرےمیں مختلف گروپوں کےدرمیان  قومی،لسانی،صوبائی اورمذهبی تصادم نظراتا هے تواس کی وجه عدالت سے دوری هی هے.اسلام افراط اورتفریط کی مذمت کرتا هے. افراط اورتفریط کی بنیادی وجه،عدالت سےروگردانی هے.اگر معاشرےمیں عدالت قائم هوتوقتل وغارتگری،ظلم وتجاوزاورتمام اخلاقی برائیوں کاخاتمه هوجا ئے گا.

مختلف مکاتب فکر کی گفتارپه عدالت قائم هوتوایک دوسرے کی توهین نهیں کریں گے، ایک دوسرے کوکافر نهیں کهیں گے.مسلمانوں کی کمرانهیں چیزوں نے خم کردی هیں اب مسلمان  کاپورازور،ترقی اوراجتماعی منصوبوں کی طرف توجه دینے کے بجائے،اپنی مسلمانی ثابت کرنے میں صرف هوتا هے.اگرعدالت حاکم هوتوگفتاری اوررفتاری تناقضات کا خاتمه هو ئےگا.نبوت کادوسرافائده بشریت کے لئے ،فطرت کی بیداری هے رهبرمعاشره کوفطری اصولوں کےمطابق چلاتے هیں. نبوت پراعتقاد،وحدت واتحادکاسبب بنتا هے.نبی اپنے پروکاروں کوهمیشه دعوت اتحاددیتا هےجب لوگ رهبرکے فرامین پرعمل کرتے هیں تورهبرفطرت اورعقل کے مطابق دستوردیتے هیں اورعدالت کےنورانی شارع په معاشره کو چلاتے هیں.

حضرت علی(علیه السلام)فلسفه بعثت کوبیان کرتےهو ئے فرماتے هیں:«فبعث فيهم رسله و واتر اليهم انبيائه ليستادوهم ميثاق فطرته و يذكروهم منسي نعمته و يثيروا لهم دفائن العقول»(دشتی،خ،1). جهالت کا تاریک پرده عقل سلیم پرچافیاهوا هے اوربهت سارے لوگ  جهالت کی تاریکی میں ڈوب چکے هیں توایسے حالات کوبدلنے انبیاء(علیهم السلام)آتے هیں بٹھکتے انسانوں کودوباره فطرت کی راهوں پرچلانے کے لئےانبیاء(علیهم السلام)آیئے هیں.پیاسے لوگوں کومعارف الهی کے چشمےسے سیراب کرنےرهبران الهی آیئے هیں. ایاولیا کے اسکالرجناب  کونت ادواردگیوجیا کهتے   هیں : «میں قدیم اورجدیدادیان  سے متعلق بهت زیاده  گهری تحقیق کرچکاهوں اورسار  ے ادیان کامطالعه کرچکاهو ں جس  کےنتیجے  میں ،اس نتیجے پر میں پهنچا هو ں که تنهااورحقیقی آسمانی آئین، اسلام  هے اس دین کی آسمانی کتاب  یعنی قرآن مجیدانسانی تمام مادی اورمعنوی حوائج  کوپوراکر نے کی ضمانت لیتا هے اوراسے اخلاقی  اورروحی کمالات کی طرف سوق دیتا هے اوراس کی رهبری کرتا هے»( ر.ک:قرماز،1384: 248).

قرآن،لوگوں کی هدایت کے ساتھ ساتھ،سائنس  کی دنیامیں بی  اپناکرداراداکررها هےیهی وجه هے ایک مغربی دانشور جناب دینورت اس بارے میں یوں کهتے هیں:« واجب هے هم یه اعتراف کریں که علوم طبیعی      ،نجومی ،فلسفه،اورریاضی جویورپ میں عروج پرپهنچے،عمومی طورپرقرآن سے لیاگیا هے»( ر.ک:وهی،255). ایک عیسائی مفکرجناب  لامارتین کهتے هیں:« محمد،مادون خداومافوق بشرشخصیت هیں،پس وه بغیرشک،پیغمبراورخداکابیجایهواهے»( ر.ک:وهی،259)

الهی نمائند ے،همیشه  لوگوں کوعلم،فکر،عقل وشعورکی دعوت دیتےهیں.اتحادکسی قوم کے اجتماعی  شعورکاپته دیتا هے.انبیاء(علیهم السلام)کاکام فقط ابلاغ وتبلیغ هے« وَ ما عَلَى الرَّسُولِ إِلَّا الْبَلاغُ الْمُبِين »(نور،54).وه لوگوں کوظلم،شرک اورجهالت کی تاریکی سےتوحید،ایمان اورعلم کی روشنی کی طرف بلاتے هیں« هُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ عَلى عَبْدِهِ آياتٍ بَيِّناتٍ لِيُخْرِجَكُمْ مِنَ الظُّلُماتِ إِلَى النُّور»(حدید،9).نبی  کسی شخص کوبزورشمشیردیندارنهیں بناتے. اس دینداری اورایمان کاجوجبرواکراه  کےنتیجے میں حاصل هو،اس کاکوئی فائده نهیں هوتاکیونکه وه مصلحتی ایمان هے نه حقیقی ایمان.دین اختیاری  امر هے جوهرانسان کاحق هے که وه جس دین پرمطمئن هواسی کواپنالے:« لا إِكْراهَ فِي الدِّين »(بقره،256). الهی نمائند ے،بندوں پرخداکی حجت اورگناهگاروں اورسرکشو ں پراتمام حجت  هوتے هیں:« وَ ما كانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرى حَتَّى يَبْعَثَ فِي أُمِّها رَسُولاً يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آياتِنا وَ ما كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرى إِلاَّ وَ أَهْلُها ظالِمُون »(قصص،59).ان کےکام  معاشره میں، انذاروتبشیر هوتے هیں« وَ ما أَرْسَلْناكَ إِلاَّ كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيراً وَ نَذِيراً وَ لكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُون »( سبا،28).وه سرکش افرادجواپنی  فطرت مسخ کرچکے هیں« أَ فَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواه »(جاثیه،23)اور معاشره میں انتهائی برائی پراترے هیں ،تجاوزوطغیان  ان کامزاج بن چکا هے« إِنَّ الْإِنْسانَ لَيَطْغى أَنْ رَآهُ اسْتَغْنى »(علق،6-7).ایسے ناپاک نفوس کوعلم وحکمت  اورتلاوت کےنورسے برںکے،تزکیه وتعلیم سےآراسته کرکے ،پاکیزه بناناالهی نمائنده کی ذمه داری هوتی هے :«هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولاً مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آياتِهِ وَ يُزَكِّيهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَ الْحِكْمَةَ وَ إِنْ كانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُبِين»( جمعه،2).اگرمعاشره،فلسفه نبوت سے واقف هوجائے،توپرلاختلاف کاسوچ بی  بوهل جائےگا.انشاءالله بهت جلدزمین پرخدائی حکومت قائم هوگی اور الهی نمائند ے،خداکی نیابت میں پوری انسانیت کوبعث انبیاء(علیهم السلام) کے حقیقی شهراه پرچلائیں گے.

اصل معاد

ایک اوراصل که جوتمام اسلامی مکاتب فکر کے اندراتحاداوروحدت قائم کرسکتا هے،وه اصل،«اصل معاد »هے.جس طرح سارے اسلامی مسالک کےپیروکارمبداءاورخالق هستی په اعتقادرکےهو هیں اسی طرح یه لوگ معادپراعتقادواتفاق نظر رکے ا هیں .انسانی زندگی پرمبداومعادکاگهرااثرحکمفرماء هے . معادپراعتقاد کےحوالے سےلوگوں کی کئی قسمیں هیں:

ایک گروه معادپرمکمل ایمان رکھتا هے.یه گروه سب سے آگے هے.اس گروه کی زندگی گذارنےکاطریقه دوسروں سے کاملامتفاوت اورمختلف هے.معادکی یادنے ان کی زندگی بدل کے رکھ دی هے .اس گروه کی بعض خصوصیت سوره بقره کی ابتدائی آیتوں میں ذکرهوا هے.یه گروه بطوردائم ،غیب په ایمان رکھتا هے اسی طرح ان لوگوں کی صفت،دائمانمازقائم کرنا،خداکی راه میں انفاق کرنا،گذشته کتابوں اورماانزل الله پربطورمطلق ایمان رکنای هے «الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَ مِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ  وَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِما أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَ ما أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَ بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُون»( بقره،3-4).اسی طرح یه گروه بطوردائم آخرت پریقین رکھتاهے.

قرآن میں مختلف مقامات پراس گروه کے اوصاف  کوخدانےیبان کیا هے اوریه واضح کیا هےکه جس طرح اس گروه کااعتقاددمبداومعادوغیره پردائم هے«وَ بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُون» ،ویساهی  اس گروه کے کرداروافعال بیا دائمی هیں« يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَ يَخافُونَ يَوْماً كانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيراً وَ يُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً وَ يَتِيماً وَ أَسِيراً»(انسان،7-8).وفابه عهداس گروه کاطره امتیاز هے« يُوفُونَ» اورمسلسل طورپرآخرت کاخوف  یه گروه دل میں رکھتاهے یهی خوف معاد هے که جس کی وجه  سے ان کی زندگی  ایثاروقربانی سے لبریزنظرآتی هے.اوریه لوگ محتاجوں کاهمیشه خیال رکےبت هیں« يُطْعِمُونَ »،گویایه ان کی زندگی کا ایک مستقل حصه  بن چکا هے.اخلاص عمل ان کی نشانی اورعلامت هے. ان کا هرعمل  اخلاص پرمشتمل هے.حتی ان کی نیت اورضمیران کے عمل سےمختلف  نهیں.یهی وجه هے که خداوند ان کے درونی احساس  کی خبردیتے هوئے اس کوآیت کی صورت  میں پیش کرتا هے« إِنَّما نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزاءً وَ لا شُكُورا إِنَّا نَخافُ مِنْ رَبِّنا يَوْماً عَبُوساً قَمْطَرِيرا»(انسان،9-10).آیتوں کےسیاق وسباق سے پته چلتاهے که عقیده معادکس طرح اس گروه  کی زندگی پرچامیا هوا هے.ان کےتمام اعمال  ،افکاراورنیتوں کےپیچھے عقیده معادکی  ایک خاص  دخالت هے.

بعض دوسرےگروه معادپر ایمان تو رکےھے هیں، لیکن پهلے گروه کی مانندنهیں.بعض تنهازبان کی حد تک ایمان کا اظهارکرتے هیں،لیکن دل نورایمان سے خالی نظرآتا هے« وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَ بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَ ما هُمْ بِمُؤْمِنِينَ   يُخادِعُونَ اللَّهَ وَ الَّذِينَ آمَنُوا وَ ما يَخْدَعُونَ إِلاَّ أَنْفُسَهُمْ وَ ما يَشْعُرُونَ» (بقره،10-9).اسی طرح جس شخص کی زندگی میں آخرت کاکوئی حصه نهیں اوروه آخرت کوکوئی اهمیت نهیں دیتااس کےتمام اعمال   باطل هونگے اوروه دونوں جهانوں میں خسارےمیں رهےگا.« يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تُبْطِلُوا صَدَقاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْأَذى كَالَّذِي يُنْفِقُ مالَهُ رِئاءَ النَّاسِ وَ لا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوانٍ عَلَيْهِ تُرابٌ فَأَصابَهُ وابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْداً لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْ ءٍ مِمَّا كَسَبُوا وَ اللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكافِرِين »(بقره،264).اس کادل شیطانی وسوسوں کامرکزهوگااورغلط تبلیغات کی طرف مائل هوگا«وَ لِتَصْغى إِلَيْهِ أَفْئِدَةُ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَ لِيَرْضَوْه »( انعام ،113).

ایسا شخص همیشه غلط کاموں کامرتکب هوتا رهےگا،خداپرجوِٹ باندھنا،لوگوں کوراه الهی سے روکنااوراسے مشکوک دیکاُنااس کی عادت بن جائے گی اس پرخداکی لعنت هے«وَ مَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرى عَلَى اللَّهِ كَذِباً أُولئِكَ يُعْرَضُونَ عَلى رَبِّهِمْ وَ يَقُولُ الْأَشْهادُ هؤُلاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلى رَبِّهِمْ أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَ يَبْغُونَها عِوَجا وَ هُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ كافِرُون »(هود ،18-19).قرآن  ایسےگروهوں کااوربهت سارے اخلاقی  برائیوں کاذکرمتعددآیتوں میں کرتاهےجیسے:ابراهیم

آیت3؛نحل22-29؛بقره،10؛اسراء45،97،98؛نمل4-5؛روم16؛سبا8؛زمر45؛فصلت5-6ونجم27-28.

یه هماری ذمه داری هے که ایسے عذاب میں گرفتارنه هوں،پرامعاشره اورمسلم امه کوایسی هلاکت  اورتفرقه کی آگ سے نجات دیں.اسلامی تمدن کی عمارت کواتحادووحدت کی بنیادپربنانےکےلئے اپنی تمام توانائیوں کوبروی کارلائیں.اوران مشترکه اصولوں پرکاربندرهیں.یقیناآفتاب عدالت طلوع کرنےهی والا هے همیں پورے معاشرے اورسماج کواسے روشنی لینے کےلئے تیارکرناهے.یه مقصدتب پوراهوگا،جب معاشرے میں ایک دوسرے کااحترام هوگا.کم ازکم دوسروں سے متعلق،انسانی بنیادوں په سوچیں گے اورهم خودانسان بننےکی کوشش کریں گے.

منابع:

قرآن ؛

نهج‌البلاغه،ترجمه  دشتي؛

ابن‌حبان، صحيح ابن حبان، مؤسسة الرسالة، بي‌جا، 1414ق؛

احمدبن حنبل، المسند، بيروت: دار صادر،بی تا؛

آواي وحدت، مجمع جهاني تقريب مذاهب، 1374 ش؛

بروجردي، حسين، جامع احاديث الشيعه، قم: المطبعة العلمية، 1399ق؛

بروجردي، حسين، جامع احاديث الشيعه، قم: منشورات مدينة‌العلم، 1410ق؛

بي‌آزار شيرازي، عبدالكريم، توحيد كلمه، تهران: دفتر نشر فرهنگ اسلامي، 1403ق؛

حديث ولايت، تهران: سازمان مدارك فرهنگي انقلاب اسلامي، 1375؛

دروزة ،محمد عزت ،التفسير الحديث ، قاهره : دار إحياء الكتب العربيه،1383 ق ؛

صدرالدين، شرف‌الدين، حليف مخزوم (عمار ياسر)، ترجمه غلامرضا سعيدي، تهران: انتشارات جعفري، 1345ش؛

طبري، محمدبن جرير، جامع‌البيان، بيروت: دارالفكر، 1415ق؛

قرماز، فرمان، اثبات جامعيت دين اسلام، قم: پايان نامه كارشناسي ارشد جامعه المصطفی العالمیه ؛

مجلسي، محمدباقر، بحار الانوار، بيروت: مؤسسة الوفاء، 1403ق؛ 

مطهری،مرتضی،سيري در نهج‌البلاغه، تهران: دارالتبليغ اسلامي، 1354؛

وحدت از ديدگاه امام خميني، تهران: مؤسسه تنظيم و نشر آثار امام خميني، 1378؛

هندي، متقي، كنز‌العمال، بيروت: مؤسسة الرسالة ، 1409ق؛

 


source : http://rizvia.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اسلامی معاشرہ تشکیل دینے کی ضرورت
عید کے دن غریبوں کا دل نہ دکھائیں
مثالی معاشرے کی اہم خصوصیات۔
مسلمانوں کے ایک دوسرے پر حقوق
اسلامی بیداری كے تین مرحلے
حرمت شراب' قرآن و حدیث کی روشنی میں
اخلاق کی لغوی اور اصطلاحی تعریف
بیت المقدس خطرے میں ہے/ فلسطین کی آزادی صرف ...
اعمال مشترکہ ماہ رجب
اسلامی قوانین کا امتیاز

 
user comment