اردو
Saturday 27th of April 2024
0
نفر 0

مسجد

مسجدکی اہمیت

مسجدروئے زمین پرالله کاگھرہے اورزمین کی افضل ترین جگہ ہے ،اہل معارف کی جائیگاہ اورمحل عبادت ہے،صدراسلام سے لے کرآج تک مسجدایک دینی والہٰی مرکزثابت ہوئی ہے،مسجد مسلمانوں کے درمیان اتحادپیداکرنے کامحورہے اوران کے لئے بہترین پناہگاہ بھی ہے، مسجدخانہ ہدایت و تربیت ہے مسجدمومنین کے دلوں کوآباداورروحوں کوشادکرتی ہے اورمسجدایک ایساراستہ ہے جوانسان کوبہشت اورصراط مستقیم کی ہدایت کرتاہے ۔ دین اسلام میں مسجد ایک خاص احترام ومقام رکھتی ہے ، کسی بھی انسان کو اس کی بے حرمتی کرنے کا حق نہیں ہے اور اسکا احترام کرنا ہر انسان پر واجب ہے ۔ ا بو بصیر سے مروی ہے: میں نے حضرت امام صادق سے سوال کیا کہ: مسجدوں کی تعظیم واحترام کاحکم کیوں دیاگیاہے ؟آپ (علیه السلام)نے فرمایا:( انّماامربتعظیم المساجدلانّہابیوت اللھفی الارض۔)١

مسجدوں کے احترام کا حکم اس لئے صادرہواہے کیونکہ مسجدیں زمین پر خداکا گھر ہیں اور خدا کے گھر کا احترام ضروری ہے۔

. ١(علل الشرئع /ج ٢/ص ٣١٨ (

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)اپنے ایک طولانی خطبہ اورگفتگومیں ارشادفرماتے ہیں: من مشیٰ الی مسجد من مساجدالله فلہ بکل خطوة خطاہاحتی یرجع الی منزلہ عشرحسنات ،ومحی عنہ عشرسیئات ، ورفع لہ عشردرجات.

ہروہ جوشخص کسی مسجدخداکی جانب قدم اٹھائے تواس کے گھرواپسی تک ہراٹھنے والے قدم پردس نیکیان درج لکھی جاتی ہیں اوردس برائیاں اس نامہ أعمال سے محوکردی جاتی ہیں اوردس درجہ اس کامقام بلندہوجاتاہے۔ ثواب الاعمال/ص ٢٩١

قال النبی صلی الله علیہ وآلہ:من کان القرآن حدیثہ والمسجدبیتہ بنی الله لہ بیتافی الجنة.

نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جس شخص کی گفتگوقرآن کریم ہواورمسجداس کاگھرہوتوخداوندعالم اس کے لئے جنت میں ایک عالیشان گھرتعمیرکرتاہے۔ . تہذیب الاحکام/ج ٣/ص ٢۵۵

عن ابی عبدالله علیہ السلام قال:من مشی الی المسجد لم یضع رجلاعلی رطب ولایابسالّاسبحت لہ الارض الی الارض السابعة.

امام صادق فرماتے ہیں:جوشخص مسجد کی طرف قدم اٹھائے اب وہ زمین کی جس خشک وترشے بٔھی قدم رکھے توساتوںزمین تک ہرزمین اس کے لئے تسبیح کرے گی۔ . تہذیب الاحکام/ج ٣/ص ٢۵۵

عن الصادق علیہ السلام:ثلٰثة یشکون الی الله عزوجل مسجدخراب لایصلی فیہ اہلہ ) وعالم بین الجہال ومصحف معلق قدوقع علیہ غبارلایقرء فیہ۔( ١

امام جعفر صادق فرماتے ہیں : تین چیزیں الله تبارک وتعالی کی بار گاہ میں شکوہ کرتی ہیں:

١۔ویران مسجدکہ جسے بستی کے لوگ آباد نہیں کر تے ہیں اور اس میں نماز نہیں پڑھتے ہیں

٢۔وہ عالم دین جو جاہلوں کے درمیان رہتا ہے اور وہ لوگ اس کے علم سے فائدہ نہیں اٹھاتے ہیں

٣۔ وہ قرآن جو کسی گھر میں گرد وغبارمیں آلودہ بالا ئے تاق رکھا ہوا ہے اور اہل خانہ میں سے کوئی شخص اس کی تلاوت نہیں کرتا ہے۔

قال النبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم :من سمع النداء فی المسجد فخرج من غیرعلة ) فہومنافق الّاان یریدالرجوع الیہ۔( ٢

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں: منافق ہے وہ شخص جو مسجد میں حاضر ہے اور اذان کی آواز سن کر بغیر کسی مجبوری کے نماز نہ پڑھے اور مسجد سے خارج ہو جائے مگر یہ کہ وہ دوبارہ مسجد میں پلٹ آئے۔

. ٢)امالی(شیخ صدوق )/ص ۵٩١ ) . ١(سفینة البحار/ج ١/ص ۶٠٠ ( قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ :ان اللھجل جلالہ اذارا یٔ اہل قریة قداسرفوافی المعاصی وفیہاثلاثة نفرمن المومنین ناداہم جل جلالہ وتقدست اسمائہ:یااہل معصیتی !لولامَن فیکم مِن المومنین المتحابّین بجلالی العامرین بصلواتہم ارضی ومساجدی والمستغفرین ) بالاسحارخوفاًمِنّی ،لَاَنزَلْتُ عَذَابِیْ ثُمَّ لااُبَالِی۔( ١

رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جب خداوندعالم کسی بستی کے لوگوں کوگناہوں میں آلودہ دیکھتاہے او راس بستی میں فقط تین افرادمومن باقی رہ جاتے ہیں تواس وقت خدائے عزوجل ان اہل بستی سے کہتاہے:اے گنا ہگا ر انسانو ! اگرتمھارے درمیان وہ اہل ایمان جومیری جلالت کے واسطے سے ایک دوسرے کودوست رکھتے ہیں،اورمیری زمین ومساجدکواپنی نمازوں کے ذریعہ آبادرکھتے ہیں،اورمیرے خوف سے سحرامیں استغفارکرتے ہیں نہ ہوتے تومیں کسی چیزکی پرواہ کئے بغیرعذاب نازل کردیتا۔. ١ (علل الشرایع /ج ٢/ص ۵٢٢ (

وہ لوگ جومسجدکے ہمسایہ ہیں مگراپنی نمازوں کومسجدمیں ادانہیں کرتے ہیں ان کے بارے میں چندروایت ذکرہیں:

قال النبی صلی الله علیہ وآلہ:لاصلاة لجارالمسجدالّافی المسجدہ۔ . وسائل الشیعہ /ج ٣/ص ۴٧٨

پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:مسجد کے ہمسایو ں کی نماز قبول نہیں ہوتی ہے مگر یہ کہ وہ اپنی نمازوں کو اپنی مسجد میں اداکریں۔ عن الصادق علیہ السلام انہ قال::شکت المساجدالی الله الّذین لایشہدونہامن جیرانہافاوحی الله الیہاوعزتی جلالی لاقبلت لہم صلوة واحدة ولااظہرت لہم __________فی الناس عدالة ) ولانالتہم رحمتی ولاجاورنی فی الجنة ۔( ١

حضرت امام صادق فرماتے ہیں: مسجد وں نے ان لوگوں کے بارے میں جو اس کے ہمسایہ ہیں اور بغیر کسی مجبوری کے نماز کے لئے مسجد میں حاضر نہیں ہو تے ہیں درگاہ خداوندی میں شکایت کی ،خدا وندعالم نے ان پر الہام کیا اور فرمایا : میں اپنے جلال وعزت کی قسم کھا کر کہتا ہوں ، میں ایسے لوگوں کی ایک بھی نماز قبول نہیں کر تا ہوں اور ان کو معا شرے میں اور نیک اورعادل آدمی کے نام سے شہرت وعزت نہیں دیتا ہوں اور وہ میری رحمت سے بہرہ مندنہ ہونگے اوربہشت میں میرے جوار میں جگہ نہیں پائیں گے ۔. ١(سفیتة البحار/ج ١/ص ۶٠٠ (

عن ابی جعفرعلیہ السلام انہ قال:لاصلاة لمن لایشہدالصلاة من جیران المسجد الّامریض ا ؤمشغول.

امام محمدباقر فرماتے ہیں:ہروہ مسجدکاہمسایہ جونمازجماعت میں شریک نہیں ہوتاہے اس کی نمازقبول نہیں ہوتی ہے مگریہ کہ وہ شخص مریض یاکوئی عذرموجہ رکھتاہو۔. من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٣٧۶

مسجدکوآبادرکھنااورکسی نئی مسجدکی تعمیرکرنابہت زیادہ ثواب ہے،اگرکوئی مسجدگرجائے تواس کی مرمت کرنابھی مستحب ہے اوربہت زیادہ ثواب رکھتاہے، اگر مسجد

چھوٹی ہے تواس کی توسیع کے لئے خراب کرکے دوبارہ وسیع مسجدبنانابھی مستحب ہے >اِنَّمَایَعْمُرُمَسَاْجِدَاللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِروَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَی الزَّکٰوةَ وَلَمْ یَخْشَ اِلّااللّٰہَ ) فَعَسَیٰ اُوْلٰئِکَ اَنْ یَکُوْنُوامِنَ الْمُھْتَدِیْنَ.> ) ٢

الله کی مسجدوں کوصرف وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو خدا اور روزآخرت پر ایمان رکھتے ہیں اورجنھوں نے نمازقائم کی ہے اورزکات اداکی ہے اور خداکے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو عنقریب ہدایت یافتہ لوگوں میں شمارکئے جائیں گے۔

. ٢(سورہ تٔوبہ/آیت ١٨ )

عن ابی عبیدة الحذاء قال سمعت اباعبدالله علیہ السلام یقول :من بنیٰ مسجدا بنی ) اللھلہ بیتاًفی الجنة۔( ٢

ابوعبیدہ سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق کویہ فرماتے سناہے:ہروہ شخص جو کسی مسجدکی بنیادرکھے توخداوندعالم اسکے لئے بہشت میں ایک گھربنادیتاہے ۔

تہذیب الاحکام /ج ٣/ص ٢۶۴

تاریخ میں لکھاہے کہ جس وقت نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو آپ نے سب سے پہلے ایک مسجدکی بنیادرکھی (جو مسجد النبی کے نام سے شہرت رکھتی __________ہے )اوراس کے تعمیرہونے کے بعدحضرت بلال /نے اس میں بلندآوازسے لوگوں کونمازکی طرف دعوت دینے کاحکم دیا ۔

عن ابی جعفرعلیہ السلام قال:اذادخل المہدی علیہ السلام الکوفة قال الناس: یاابن رسول الله(ص) انّ الصلاة معک تضاہی الصلاة خلف رسول الله(ص)، وہذا المسجد لایسعنا فیخرج الی العزی فیخط مسجدا لہ الف باب یسع الناس ویبعث فیجری خلف قبر الحسین علیہ السلام نہرایجری العزی حتی فی النجف.

امام صادق فرماتے ہیں:جب امام زمانہ (ظہورکے بعد)کوفہ میں واردہونگے تووہاں کے لوگ آپ سے نماز پڑھانے کی فرمائش کریں گے ،اورکہیں گے آپ پیچھے نمازپڑھنارسول خدا(ص)کے پیچھے نمازپڑھنے کے مانندہے مگریہ مسجد بہت چھوٹی ہے پ،یہ سن کرامام (علیه السلام) عزیٰ کے جانب حرکت کریں گے اورزمین ایک خط کھینچ کرمسجدکاحصاربنائیں گے اوراس مسجدکے ہزاردروازے ہونگے جس میں تمام (شیعہ)لوگوں کی گنجائش کی جگہ ہوگی اورسب لوگ اس میں حاضرہوجائیں،امام حسینکی قبرمطہرکی پشت سے ایک نہرجاری ہوگی جوعزی تک پہنچے گی یہاں تک کہ شہرنجف میں بھی جار ی ہوگی۔

. بحارالانوار/ج ٩٧ /ص ٣٨۵

عن ابی عبدالله علیہ السلام قال:ان قائمنااذاقام یبنی لہ فی ظہرالکوفة مسجدلہ الف باب.

امام صادق فرماتے ہیں:جب امام زماں قیام کریں گے توپشت کوفہ میں ایک مسجدتعمیرکریں گے جسکے ہزاردروازے ہونگے ۔

. بحارالانوار/ج ٩٧ /ص ٣٨۵ 

مساجدفضیلت کے اعتبارسے

سنت مو کٔدہ ہے کہ انسان اپنی نمازوں کومسجدمیں اداکرے اورمسجدوں میں سب سے افضل مسجدالحرام ہے جس میں نمازپڑھناسوہزارثواب رکھتاہے اس کے بعدمسجدالنبی (صلی الله علیه و آله)ہے اس کے مسجدکوفہ اس کے بعدبیت المقدس اس کے بعدہرشہرکی جامع مسجداس کے بعدمحلہ اوربازار کی مسجدہے اورجیسے ہی مسجدمیں داخل ہوتودورکعت نمازتحیت مسجدپڑھے۔

عن النبی صلی الله علیہ انہ قال:اذادخل احدکم المسجد فلایجلسحتی یصلی رکعتین رسول اسلام (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:تم میں جب بھی کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تومحل نمازپر بیٹھنے سے پہلے دورکعت نماز(تحیت مسجد) پڑھے ۔

. المبسوط/ج ٨/ص ٩٠ 

مسجدالحرام میں نمازپڑھنے کاثواب

عن ابی جعفرعلیہ السلام انہ قال:من صلی فی المسجد الحرام صلاة مکتوبة قبل اللھبہامنہ کل صلاة صلاہامنذیوم وجبت علیہ الصلاة وکل صلاة یصلیہاالی ان یموت. امام باقر فرماتے ہیں:جوشخص مسجدالحرام میں ایک واجب کواداکرے توخداوندعالم اس کی ان تمام نمازوں کوجواس نے واجب ہونے کے بعدسے اب تک انجام دی ہیں قبول کرتاہے اوران تمام کوبھی قبول کرلیتاہے جووہ آئندہ مرتے دم تک انجام دے گا۔ . من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٢٨

قال محمدبن علی الباقرعلیہ السلام: صلاة فی المسجدالحرام ا فٔضل من مئة الف صلاة ) فی غیرہ من المساجد۔( ١

امام باقر فرماتے ہیں:مسجدالحرام میں ایک نمازپڑھنادوسری مسجدوں میں سوہزار نمازیں پڑھنے سے افضل ہے۔

. ١(ثواب الاعمال /ص ٣٠ ( 

مسجدالنبی (صلی الله علیه و آله)میں نمازپڑھنے کا ثواب

قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم:صلاة فی مسجدی تعدل عندالله عشرة آلاف ) فی غیرہ من المساجدالّامسجدالحرام فانّ الصلاة فیہ تعدل ما ئٔة ا لٔف صلاة ۔( ١ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:میری مسجد(مسجدالنبی)میں ایک نمازپڑھنامسجدالحرام کے علاوہ دوسری مساجدمیں ایک ہزارنمازپڑھنے سے افضل ہے کیونکہ مسجدالحرام میں ایک نمازپڑھنادوسری مساجدمیں سوہزارنمازیں پڑھنے سے افضل ہے۔ . من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٢٨

قال ابوعبدالله علیہ السلام : صلاة فی مسجد النبی صلی الله علیہ وآلہ تعدل بعشرة آلاف صلاة.

امام صادق فرماتے ہیں:مسجدالنبی (صلی الله علیه و آله)میں ایک نمازپڑھناہزارنمازوں کے برابرہے۔

. کافی/ج ۴/ص ۵۵۶

مسجدکوفہ میں نمازپڑھنے کا ثواب

مسجدکوفہ وہ مسجدہے کہ جس ایک ہزارانبیا ء اورایک ہزاراوصیاء نے نمازیں پڑھیں ہیں ،وہ ت نوربھی اسی مسجدمیں ہے کہ جس سے حضرت نوح کے زمانے میں پانی کاچشمہ جاری ہوااورپوری دنیامیں پانی ہی پانی ہوگیاتھا،یہ وہ جگہ ہے کہ جہاں سے کشتی نوح (علیه السلام)نے حرکت کی اوراس میں سوارہونے والے لوگوں نے نجات پائی،یہ وہ مسجدہے کہ جسے معصومین نے جنت کاایک باغ قراردیاہے ،یہ وہ مسجدہے کہ جس میں امام اول علی ابن ابی طالب کو شہیدکیاگیاہے ،اس مسجدمیں نمازپڑھنے کے بارے میں روایت میں ایاہے: عن محمدبن سنان قال: سمعت اباالحسن الرضاعلیہ السلام یقول:الصلاة فی مسجدالکوفة فرداا فٔضل من سبعین صلاة فی غیرہا جماعة ۔

محمدبن سنان سے مروی کہ میں نے امام علی رضا کویہ فرماتے ہوئے سناہے: مسجدکوفہ میں فرادیٰ نمازپڑھنا(بھی)دوسری مساجدمیں جماعت سے سترنمازیں پڑھنے سے افضل ہے ۔

. بحارالانوار/ج ٨٠ /ص ٣٧٢

عن المفضل بن عمرعن ابی عبدالله علیہ السلام قال:صلاة فی مسجدالکوفة تعدل الف صلاة فی غیرہ من المساجد۔

مفضل ابن عمر سے مروی کہ امام صادق فرماتے ہیں: مسجدکوفہ میں ایک نمازپڑھنادوسری مساجدمیں جماعت سے پڑھنے سے افضل ہے ۔. ثواب الاعمال/ص ٣٠

عن ابی جعفرعلیہ السلام قال:صلاة فی مسجدالکوفة،الفریضة تعدل حجة مقبولة والتطوع فیہ تعدل عمرة مقبولة

امام محمدباقر فرماتے ہیں:مسجدکوفہ میں ایک واجب نمازپڑھناایک حج مقبولہ کاثواب ہے اورایک مستحبی نمازپڑھناایک عمرہ مٔقبولہ کاثواب ہے۔. کامل الزیارات/ص ٧١

امام صادق سے مروی ہے :حضرت علی مسجدکوفہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص مسجدمیں داخل ہوااورکہا:“السلام علیک یاامیرالمومنین ورحمة الله وبرکاتہ ”امام علی (علیه السلام)نے اس کے سلام کے جواب دیا،اس کے بعداس شخص نے عرض کیا:اے میرے مولا! آپ پرقربان جاؤں،میں نے مسجدالاقصیٰ جانے کاارادہ کیاہے ،لہٰذامیں نے سوچاکہ آپ کو سلام اورخداحافظی کرلوں ،امام (علیه السلام) نے پوچھا:تم نے کس سبب سے وہاں جانے کاقصدکیاہے ؟جواب دیا:خداکافضل کرم ہے اوراس نے مجھے ات نی مال ودولت عطاکی ہے میںفلسطین جاکرواپسآسکتاہوں ،پسامام (علیه السلام)نے فرمایا:فبع راحلتک وکلّ ذادک وصلّ فی ہذاالمسجدفانّ الصلاة المکتوبة فیہ مبرورةوالنافلة عمرة مبرورة۔

تم اپنے گھوڑے اورزادسفرکوفروخت کردواوراس مسجدکوفہ میں نمازپڑھوکیونکہ اس مسجدمیں ایک واجب نمازاداکرناایک مقبولی حج کے برابرثواب رکھتاہے اورمستحبی نمازپڑھناایک مقبولی عمرہ کے برابرثواب رکھتاہے۔. کافی/ج ١/ص ۴٩١

قال النبی صلی الله علیہ وآلہ:لمااسری بی مررت بموضع مسجدکوفة واناعلی البراق ومعی جبرئیل علیہ السلام فقال:یامحمد!انزل فصل فی ہذاالمکان ، قال: فنزلتُ فصلیتُ. نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جب مجھے آسمانی معراج کے لئے لے جایاگیاتومیں براق پہ سوارتھااورجبرئیل (علیه السلام)بھی میرے ساتھ تھے ،جب ہم مسجدکوفہ کے اوپرپہنچے توجبرئیل (علیه السلام) نے مجھ سے کہا:اے محمد!زمین پراترجاؤاوراس جگہ پرنمازپڑھو،میںزمین پرنازل ہوااور(مسجدکوفہ میں)نمازپڑھی۔. من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٣١

حرم آئمہ اطہار میں نمازپڑھنے کاثواب

آئمہ اطہار کے حرم میں نمازپڑھنابہت ہی زیادہ فضیلت رکھتاہے ،یہ وہ مقامات ہیں کہ جہاں نمازپڑھنے کابہت زیاد ہ ثواب ہے ، دعائیں مستجاب ہوتی ہیں،رویات میں ایاہے کہ امام علی کے حرم میں ایک نمازپڑھنادولاکھ نمازوں کے برابرثواب رکھتاہے۔ حرم آئمہ اطہار میں نمازپڑھنے اوردعاکرنے کے بارے میں دعاکے باب میں ذکرکریں گے۔ 

مسجدقبااورمسجدخیف میں نمازپڑھنے کاثواب

مدینہ میں ایک مسجدقباہے کہ جس کی بنیادروزاول تقویٰ وپرہیزگاری پررکھی گئی ہے ، مسجدفضیح جسے مسجدردّشمس بھی کہاجاتاہے اسی مسجدکے پاس ہے مسجدقبامیں نمازپڑھنے کے بارے میں روایت میں ایاہے:قال رسول الله صلی الله علیہ وآلہ:من اتیٰ مسجدی قبافصلی فیہ رکعتین رجع بعمرة. نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جوشخص میری مسجدمسجدقبامیں دورکعت نمازپڑھے وہ ایک عمرہ کے برابرثواب لے کرواپسہوتاہے ۔ . من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٢٩

مسجدخیف وہ مسجدہے کہ جومنی میں واقع ہے اوراس مسجدمیں ایک ہزارانبیاء نے نمازیں پڑھی ہیں اوربعض روایت کے مطابق اس میں سات سوانبیائے الٰہی نے نمازپڑھی ہیں معاویہ ابن عمارسے مروی ہے کہ میں نے امام صادق سے معلوم کیا:اس مسجدکومسجدکہنے وجہ کیاہے ؟امام (علیه السلام) نے فرمایا: لانہ مرتفع عن الوادی وکل ماارتفع عن الوادی سمی خیفا. کیونکہ یہ مسجدوادی منی کی بلندجگہ ہے اوروادی میں جوچیزبلندہوتی ہے اسے خیف کہتے ہیں. علل الشرائع /ج ٢/ص ۴٣۶

عن ابوجمزة الثمالی عن ابی جعفرعلیہ السلام انہ قال:من فی مسجد الخیف بمنی مئة رکعة قبل ان یخرج منہ عدلت سبعین عاما ومن سبح فیہ مئة تسبیحة کتب لہ کاجرعتق رقبة . ابوحمزہ ثمالی سے روایت ہے امام باقر فرماتے ہیں:جوشخص مسجدخیف میں منی میں اس سے باہرآنے سے پہلےسورکعت نمازپڑھے اس کی وہ نمازسترسال کی عبادت کے برابرثواب رکھتی ہے اورجوشخص اس میں سومرتبہ تسبیح پروردگارکرے اس کے لئے راہ خدامیں ایک غلام آذارکرنے کاثواب لکھاجاتاہے۔. من لایحضرہ الفقیہ/ج ١/ص ٢٣٠

مسجدسہلہ میں نمازپڑھنے ثواب

مسجدسہلہ کوفہ میں واقع ہے ،جس میں حضرت ابراہیماورحضرت ادریس کاگھرہے ،روایت میں ایاہے کہ وہ سبزپتھرکہ جس پرتمام انبیائے کرام کی تصویربنی ہے اسی مسجدمیں واقع ہے اوروہ پاک پتھربھی اسی مسجدمیں ہے کہ جس کے نیچے کی خاک سے خداوندعالم نے انبیاء کوخلق کیاہے۔

عن الصادق علیہ السلام قال:اذادخلت الکوفة فات مسجدالسہلة فضل فیہ واسئل الله حاجتک لدینک ودنیاک فانّ مسجدالسہلة بیت ادریس النبی علیہ السلام الذی یخیط فیہ ویصلی فیہ ومن دعالله فیہ بمااحبّ قضی لہ حوائجہ ورفعہ یوم القیامة مکاناعلیاالی درجة ادریس علیہ السلام واجیرمن الدنیاومکائد اعدائہ.

امام صادق فرماتے ہیں:جب آپ شہرکوفہ میں داخل ہوں اورمسجدسہلہ کادیدارکریں تومسجدمیں ضرورجائیں اوراس میں مقامات مقدسہ پرنمازپڑھیں اورالله تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں اپنی دینی اوردنیاوی مشکلات کوحل کرنے کی دعاکریں،کیونکہ مسجدسہلہ حضرت ادریس کاگھرہے جسمیں خیاطی کرتے تھے اورنمازبھی پڑھتے تھے

جوشخص اس مسجدمیں الله تعالیٰ کی بارگاہ میں ہراس چیزکے بارے میں جسے وہ دوست رکھتاہے دعاکرے تواس کی وہ حاجت پوری ہوگی اورروزقیامت حضرت ادریس کے برابرمیں ایک بلندمقام سے برخوردارہوگااوراس مسجدمیں عبادت کرنے اورنیازمندی کااظہارکرنے کی وجہ سے دنیاوی مشکلیں اوردشمنوں کے شرسے خداکی امان میں رہے گا۔ . بحارالانوار/ج ١١ /ص ٢٨٠

روی ان الصادق علیہ السلام انہ قال:مامن مکروب یاتی مسجدسہلة فیصلی فیہ رکعتین بین العشائین ویدعوالله عزوجل الّافرج الله کربتہ.

امام صادق فرماتے ہیں:ہروہ شخص جوکسی بھی مشکل میں گرفتارہو مسجدسہلہ میں ائے اورنمازمغرب وعشاکے میں درمیان دورکعت نمازپڑھ کرخدائے عزوجل سے دعاکرے توخداوندعالم اس کی پریشانی دورکردے گا۔. تہذیب الاحکام/ج ۶/ص ٣٨

قال علی بن الحسین علیہماالسلام :من صل فی مسجدالسہلة رکعتین ، زادالله فی عمرہ سنتین.

امام زین العابدین فرماتے ہیں:جوشخص مسجدسہلہ میں دورکعت نمازپڑھے ،خداوندعالم اس کی عمرمیں دوسال کااضافہ کردیتاہے۔

. مستدرک الوسائل /ج ٣/ص ۴١٧ 

مسجدبراثامیں نماپڑھنے کاثواب

مسجدبراثاعراق کے شہربغدامیں واقع ہے ،اس مسجدکی چندفضیلت یہ ہیں کہ یہ حضرت عیسیٰ کی زمین ہے ،جب حضرت علی جنگ نہروان سے واپس ہورہے تھے اوراس جگہ پرپہنچے توآپ نے یہاں پرنمازپڑھی اورحسن وحسین +نے بھی اس مسجدمیں نمازپڑھی ہے ،اس مسجدمیں ایک پتھرہے کہ جس پرحضرت مریم نے حضرت عیسیٰ کوقراردیاتھا،اسی جگہ پرحضرت مریم کے لئے چشمہ حاری ہواتھا،یہ وہ جگہ ہے جہاں حضرت علی کے لئے سورج پلٹااورآپ نے نمازعصرکواس کے وقت میں اداکیا، اورکہاجاتاہے کہ حضرت یوشع اسی مسجدمیں دفن ہیں. رہنمائے زائرین کربلا/ص ٢۵

بیت المقدس ، مسجدجامع ،محلہ وبازارکی مسجدمیں نمازپڑھنے کاثواب عن السکونی عن جعفربن محمدعن آبائہ عن علی علیہم السلام قال:صلاة فی البیت المقدس تعدل ا لٔف صلاة ، وصلاة فی مسجدالاعظم مائة صلاة ، وصلاة فی المسجدالقبیلة خمس وعشرون صلاة ، وصلاة فی مسجدالسوق اثنتاعشرة صلاة ، وصلاة الرجل فی بیتہ وحدہ صلاة واحد۔

حضرت علیفرماتے ہیں:بیت المقدس میں ایک نمازپڑھناہزارنمازوں کے برابرہے اورشہرکی جامع مسجد میں ایک نمازپڑھناسونمازوں کے برابرہے اورمحلہ کی مسجدمیں ایک نمازپڑھنا پچیس نمازوں کے برابرہے اوربازارکی مسجدمیں ایک نمازپڑھنابارہ نمازوں کے بابرہے اورگھرمیں ایک نمازپڑھناایک ہی نمازکاثواب رکھتاہے ۔. ثواب الاعمال /ص ٣٠

مسجدکے میں مختلف حصوں میں نمازپڑھنے کی وجہ

جب انسان مسجدمیں جائے اوراپنی نمازکی جگہ کوبدلنامستحب ہے یعنی دوسری کودوسری پرپڑھے

عن الصادق جعفربن محمد علیہما السلام انّہ قال:علیکم بِاتْیَان الْمساجد فانّہابیوت الله فی الارض،مَن اَتاہامتطہراًطَہرہ الله مِن ذنوبہ،وکتب من زوّارہِ، فاکثروفیہامن الصلاة والدعاء وصلوا المساجدفی بقاع المختلفة فان کل بقعة تشہد للمصلی علیہایوم القیامة تم مسجد میں حاضر ہوا کروکیونکہ مسجد یں زمین پر خدا کا گھر ہیں پس جو شخص طہارت کے ساتھ مسجدمیں داخل ہو تا ہے خدا وند عالم اس کے تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے اور اس کا نام زائرین خدا میں لکھاجاتاہے پس تم مسجدمیں بہت زیادہ نمازیں پڑھاکرواوردعائیں کرواورمسجدمیں مختلف جگہوں پرنمازپڑھاکروکیونکہ مسجدکاہرقطعہ روزقیامت اپنے اوپرنمازپڑھنے والے کے لئے نمازکی گواہی دے گا۔. امالی(شیخ صدوق )/ص ۴۴٠

مسجدداخل ہوتے دائیں قدم رکھنے کی وجہ

مستحب ہے کہ مسجدمیں داخل ہوتے وقت پہلے داہناقدم اندررکھیں اورمسجدسے نکلتے وقت بایاں قدم باہررکھیں کیونکہ داہناقدم بائیں قدم سے اشرف ہوتاہے،اورتاکہ خداوندعالم اسے اصحاب یمین میں قراردے اورقدم رکھتے وقت بسم الله کہیں ،حمدوثنائے الٰہی کریں محمدوآل محمد علیہم الصلاة والسلام پردرودبھیجیں اورخداسے اپنی حاجتوں کوطلب کریں عن یونس عنہم علیہم السلام قال قال:الفضل فی دخول المسجد ان تبدا بٔرجلک الیمنی اذادخلت وبالیسری اذاخرجت.

یونس سے روایت ہے ،معصوم(علیه السلام) فرماتے ہیں:مسجدمیں داخل ہونے کے لئے بہترہے کہ آپ دائیں پیرسے داخل ہواکریں اوربائیں پیرسے باہرآیاکریں۔ . کافی/ج ٣/ص ٣٠٩

روایت میں ایاہے کہ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)مسجدمیں داخل ہوتے تھے وقت “بسم الله اللہمّ صل علی محمدوآل محمد ، واغفرلی ذنوذبی وافتح لی ابواب رحمتک”اورمسجدسے کے باہرآتے وقت دروازے کے پاس کھڑے ہوکر“اللہمّ اغفرلی ذنوذبی وافتح لی ابواب فضلک”کہتے تھے. مستدرک الوسائل/ج ٣/ص ٣٩۴

اہل مدینہ کی ایک بزرگ شخصیت ابوحفص عطارسے مروی ہے کہ میں نے امام صادق کویہ فرماتے ہوئے سناہے :رسول اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جب بھی تم میں سے کوئی شخص نمازواجب پڑھے اورمسجدسے باہرآنے لگے تودروازہ میں کھڑے ہوکریہ دعاپڑھے: اَللّٰہُمَّ دَعَوْت نی فَاَجَبْتُ دَعْوَتَکَ وَصَلَّیْتُ مَکْتُوْبَتَکَ وَانْتَشَرْتُ فِیْ اَرْضِکَ کَمَااَمَرْت نیْ فَاَسْئَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَمَلَ بِطَاعَتِکَ وَاجْت نابَ مَعْصِیَتِکَ وَالْکِفَافَ مِنَ الرِّزقِْ بِرَحْمَتِکَ. ترجمہ:بارالٰہا!تونے مجھے دعوت دی ،پس میں نے تیری دعوت پرلبیک کہااورتیرے واجب کواداکیااورمیں تیرے فرمان کے مطابق تیری زمین پر(روزی کی تلاش میں)نکلا، پس میں تیرے فضل وکرم سے تجھ سے اپنے عمل میں تیری اطاعت کی درخواست کرتاہوں اورگناہ ومعصیت سے دوری چاہتاہوں اورتجھ سے تیری رحمت کے وسیلے سے رزق وروزی میں کفاف ) چاہتاہوں۔( ١. ١(وسائل الشیعہ/ج ٣/ص ۵١٧ ( 

مسجدکے صاف وتمیزرکھنے کی وجہ

مسجدمیں جھاڑولگانااوراس کی صفائی کرناسنت مو کٔدہ ہے اوراسے نجس کرناحرام ہے۔

مسجدمیںصفائی کرنے اوراس میں چراغ کے جلانے سے انسان کے دل میں نورانیت پیدا،خضوع وخشوع اورتقرب الٰہی ہوتی ہے اورلوگ اسے ایک اچھاانسان محسوب کرتے ہیں قال رسول الله صلی الله صلی الله علیہ وآلہ:من کنس فی المسجدیوم الخمیس لیلة ) الجمعة فاخرج منہ التراب قدرمایذر فی العین غفرالله لہ۔( ١ نبی اکرم (صلی الله علیه و آله)فرماتے ہیں:جوشخص جمعرات کے دن شب جمعہ مسجدمیں جھاڑولگائے اورآنکھ میں سرمہ لگانے کے برابرگردوخاک کومسجدسے باہرنکالے توخداوندعالم اس کے گناہوں بخشدیتاہے ۔. ١(ثواب الاعمال/ص ٣١ (

حکایت کی گئی ہے کہ ایک مجوسی اپنی کمرپرمجوسی کمربندباندھے اورسرپرمجوسی ٹوپی لگائے ہوئے مسجدالحرام میں داخل ہوا،جب وہ خانہ کعبہ کے گردگھوم رہاتھاتواس نے دیکھاکہ دیوارکعبہ پرکسی کالعاب دہن لگاہواہے ،اس نے دیوارکعبہ سے لعاب دہن کوصاف کردیااورمسجدالحرام سے باہرنکل آیا،جیسے ہی وہ باہرآیاتوناگہان ہواکاایک تیزجھونکاآیااوراس کے سرپہ لگی ہوئی ٹوپی ہوامیں اڑھ گئی،اس نے اپنی ٹوپی کوہرچندپکڑنے کی کوشش کی مگروہ اس کے ہاتھ نہ آئی ،ناگاہ ہاتف غیبی سے ایک آوازاس کے کانوں سے ٹکرائی :جب تجھے ہمارے گھرپہ کسی کالعاب دہن لگے ہوئے دیکھناپسندنہیں ہے توہمیں بھی تیرے سرپرکفرکی نشانی لگے ہوئے دیکھناپسندنہیں ہے ،یہ بات سن کراس آتش پرست نے ) اپنی کمرسے وہ کمربندبھی کھول کرپھینک دیااورمسلمان ہوگیا۔( ٣. ٣(نماز،حکایتہاوروایتہا/ص ١۴ (

رویت میں آیاہے کہ ایک بوڑھی اوربےنوا عورت اس مسجد میں کہ جس میں پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله) نمازپڑھتے تھے ، جھاڑو لگا یا کرتی تھی اورمسجدکوصاف رکھتی تھی ،وہ عورت بہت ہی زیادہ غریب وفقیرتھی اورمسجد کے کسی ایک گوشہ میں سویا کرتی تھی ، نمازجماعت میں حاضرہونے والے لوگ اس کے لئے آب وغذا کا انتظام کرتے تھے ،ایک دن پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله)اور مسجد میں داخل ہوئے اوراس ضعیفہ کو مسجد میں نہ پایاتومسجدموجودلوگوں سے اس عورت کے بارے میں دریافت کیا،حاضرین مسجدنے جواب دیا:

یانبی الله! وہ عورت شب گذشتہ انتقال کر گئی ہے اور اسے دفن بھی کردیا گیا ہے ،پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله) اس کے انتقال کی خبر سن کر بہت زیادہ غمگین ہوئے اور کہا : تم نے مجھ تک اس کے مرنے کی خبر کیوں نہیں پہنچائی تھی تم مجھے اس عورت کی قبرکاپتہ بتاؤ، ان لوگوں نے آنحضرت کو اس ضعیفہ کی قبرکاپتہ بتایااورنمازکے بعدچندلوگ آپ کے ہمراہ اس کی قبر پرپہنچے ،پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله)نے اس کی قبرنمازپڑھنے کے لئے کہا،آنحضرت آگے کھڑے ہوئے اورآپ کے ساتھ آئے ہوئے لوگ صف باندھ کرپیچھے کھڑے ہوگئے اور سب نے پیغمبراسلام (صلی الله علیه و آله)کے ساتھ کھڑے ہوکرنمازمیت پڑھی اور ) اس کی مغفرت کے لئے دعائیں مانگی ۔( ١(ہزاریک نکتہ دربارہ نٔماز/ش ٧۵٨ /ص ٢٣٨ (

بدبودارچیزکھاکرمسجدمیں انے کی کراہیت کی وجہ

مسجدمیں کوئی ایسی چیزکھاکرآنایاساتھ میں لانامکروہ ہے کہ جس کی بوسے مومنین کواذیت پہنچے ، لہسن یاپیازوغیرہ کھاکرمسجدمیں آنے سے پرہیزکیاجائے ۔ عن محمدبن مسلم عن ابی جعفرعلیہ السلام قال:سئلتہ عن اکل الثوم فقال:انمانہی رسول صلی الله علیہ والہ عنہ لریحہ فقال:من اکل ہذہ البقلة المنت نة فلایقرب مسجدنا. محمدابن مسلم سے مروی ہے کہ میں امام باقر سے لہسن کے بارے میں معلوم کیاتوامام (علیه السلام) نے فرمایا: نبی اکرم (صلی الله علیه و آله):نے اس کی بدبوکی وجہ سے (اسے کھاکرمسجدمیں جانے کو)منع کیاہے اورفرمایاہے :جوشخص اس بدبودارگھاس کوکھائے تووہ ہمارے مسجدوں کے قریب بھی نہ آئے ۔. علل الشرائع/ج ٢/ص ۵١٩

عم محمدبن سان قال:سئلت اباعبدالله علیہ السلام عن اکل البصل الکراث، فقال:لاباس باکلہ مطبوخاوغیرمطبوخ ،ولکن ان اکل منہ مالہ اذافلایخرج الی المسجد کراہیة اذاہ علی من یجالس.

محمدابن سان سے مروی ہے کہ میں نے امام صادق سے پیازاورترہ کے بارے میں سوال کیاتوامام (علیه السلام) نے فرمایا:ان دوچیزوں کے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے خواہ پختہ استعمال کیاجائے یاغیرپختہ ، لیکن اگر انھیں کھاکرمسجدمیں نہ جائے کیونکہ اس کی بدبوسے مسجدمیں بیٹھے والوں کواذیت ہوتی ہے۔. علل الشرائع/ج ٢/ص ۵٢٠

مسجدوں کااس طرح بلندبناناکہ اس سے اطراف میں موجودگھروں کے اندرنی حصے نظرآتے ہوں مکروہ ہے

عن جعفربن محمد عن ابیہ علیہ السلام : انّ علیارا یٔ مسجدا بالکوفة قدشرف فقال:کانہابیعة ،وقال:ان المساجدلاتشرف تبنی جما.

روایت میں آیاہے کہ حضرت علی نے کوفہ میں ایک مسجدکو اطراف کے گھروں سے بلنددیکھاتوآپ نے فرمایا:یہ گرجاگھر(معبدیہودونصاریٰ )ہے اورفرمایا:مسجدوں کوبلندنہیں بناناچاہئے بلکہ انھیں پست وکوتاہ بنایاجائے۔ . علل الشرئع/ ٢/ص ٣٢٠


source : http://www.alhassanain.com/urdu/show_book.php?book_id=3797&link_book=jurisprudenece_principles_library/jurisprudenece_science/various_books/nimaz
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

رمضان المبارک کے پچیسویں دن کی دعا
آزادي نسواں
ندبہ
غدیر عدالت علوی کی ابتدا
اول یار رسول(ص) حضرت امیر المومنین علی ابن ابی ...
قرآن اور عترت کو ثقلین کہے جانے کی وجہ تسمیہ
بنت علی حضرت زینب سلام اللہ علیہا ، ایک مثالی ...
مسجد اقصی اور گنبد صخرہ
اخلاق ،قرآن کی روشنی میں
قرآن کو نوک نیزہ پر بلند کرنے کی سیاست

 
user comment