اردو
Saturday 27th of April 2024
0
نفر 0

حضرت على _ كى زندگي

 

حضرت على _ كى زندگي

مختلف ادوار

حضرت على (ع) كى تريسٹھ سالہ زندگى كو پانچ ادوار ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے :

1_ ولادت سے حضرت محمد مصطفى (ص) كے مبعوث ہونے تك _

2_ بعثت سے آنحضرت (ص) كى ہجرت تك

3_ ہجرت سے آنحضرت (ص) كى رحلت تك

4_ رسول اكرم (ص) كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك

5_ خلافت ظاہرى سے شہادت تك

9

پہلا سبق

ولادت سے حضرت محمد مصطفي(ص) كے مبعوث بہ رسالت ہونے تك

ولادت

پيغمبر اكرم(ص) كے زير دامن آپ كى پرورش

بعثت سے آنحضرت(ص) كى ہجرت تك

حضر ت على (ع) وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے دين اسلام قبول كيا

بے نظير قربانى

ہجرت سے آنحضرت(ص) كى رحلت تك

على (ع) رسول خدا كے امين

على (ع) رسول خدا(ص) كے بھائي

على (ع) اور راہ خدا ميں جنگ

على (ع) جنگ بدر كے بے نظير جانباز

حضرت على (ع) رسول(ص) كے تنہا محافظ

جنگ خندق ميں على (ع) كا كردار

 

10

على (ع) فاتح خيبر

امير المومنين (ع) كى سياسى زندگى ميں جنگجوئي كے اثرات

حضرت على (ع) اور پيغمبر اكرم(ص) كى جانشينى

حديث يوم الدار

حديث منزلت

قرآن مجيد ميں حضرت ہارون (ع) كے مقامات و مناصب

حديث غدير

سوالات

حوالہ جات

 

11

ولادت سے حضرت محمد مصطفى (ص) كے

مبعوث بہ رسالت ہونے تك

ولادت

حضرت على (ع) نے 13 رجب بروز جمعہ ' عام الفيل (1) كے تيسويں سال ميں ( بعثت سے دس سال قبل) خانہ كعبہ ميں ولادت پائي اس نومولود بچے كے والد كا نام عمران (2) تھا وہ قبيلہ بنى ہاشم كے سردار تھے اور مكہ كے بااثر لوگوں ميں شمار كئے جاتے تھے آپكى والدہ فاطمہ بن اسد ابن ہاشم ابن عبد مناف تھيں_ آپ(ع) كو خانہ كعبہ كے طواف كے درميان درد زہ محسوس ہوا چنانچہ آپ معجزے كے زير اثر خانہ كعبہ كى عمارت ميں داخل ہو گئيں جہاں حضرت على (ع) كى ولادت ہوئي_

خانہ كعبہ ميں امير المومنين حضرت على (ع) كى ولادت كو عام شيعہ مورخين و محدثين اور علم انساب كے دانشوروں نے اپنى كتابوں ميں تحرير كيا ہے اور اب تك كسى دوسرے شخص كو يہ فضيلت حاصل نہيں ہوئي ہے (3)

پيغمبر(ص) كے زير دامن آپ كى پرورش

حضرت محمد(ص) پر جب پہلى مرتبہ وحى نازل ہوئي تو اس وقت حضرت علي(ع) كى عمر دس سال

 

12

سے زيادہ نہ تھي_ حضرت على (ع) كى زندگى كا وہ حساس ترين دور تھا جس ميں حضرت محمد بن عبداللہ (ص) كے زير سايہ عاطفت آپ كى شخصيت كى تشكيل ہوئي آيندہ جو واقعات رونما ہونے والے تھے ان كا چونكہ پيغمبر اكرم(ص) كو مكمل علم تھا اور بخوبى يہ جانتے تھے كہ آپ(ص) كے بعد حضرت على (ع) ہى امت مسلمہ كے امور كى زمام سنبھاليں گے اس لئے آپ(ص) نے منظم دستورالعمل كے تحت اپنے زير دامن تربيت كى غرض سے اس وقت جب كہ حضرت على (ع) كى عمر چھ ہى سال تھى ان كے والد كے مكان سے اپنے گھر منتقل كر ليا تاكہ براہ راست اپنى زير نگرانى تربيت و پرورش كرسكيں_(4)

حضرت محمد(ص) كو حضرت على (ع) سے اس قدر محبت تھى كہ آپ كو معمولى دير كى جدائي بھى گوارانہ تھى چنانچہ جب كبھى عبادت كى غرض سے آنحضرت(ص) مكہ سے باہر تشريف لے جاتے(5) تو حضرت على (ع) كو بھى ہمراہ لے جاتے_

حضرت على (ع) نے اس دور كى كيفيت اس طرح بيان فرمائي ہے : يہ تو آپ سب ہى جانتے ہيں كہ رسول خدا(ص) كو مجھ سے كس قدر انسيت تھى اور مجھے جو خاص قربت حاصل تھى اس كا بھى آپ كو علم ہے ميں نے آپ(ص) كى پر شفقت آغوش ميں پرورش پائي ہے جب ميں بچہ تھا تو آنحضرت(ص) مجھے گود ميں لے ليا كرتے تھے مجھے آپ گلے سے لگاتے تھے اور اپنے ساتھ سلاتے تھے ميں اُن كے بدن كو اپنے بدن سے چمٹا ليتا تھا اور آپ كے بدن كى خوشبو سونگھتا تھا ، آپ نوالے چباتے اور ميرے منھ ميں ديتے تھے '' _

جس طرح ايك بچہ اپنى ماں كے پيچھے چلتا ہے اسى طرح ميں پيغمبر اكرم(ص) كے پيچھے پيچھے چلتا تھا آپ(ص) ہر روز اپنے اخلاقى فضائل كا پرچم ميرے سامنے لہراتے اور فرماتے كہ ميں بھى آپ كى پيروى كروں_ (6)

اس دوران حضرت على (ع) نے پيغمبر اكرم(ص) كے اخلاق گرامى اور فضائل انسانى سے بہت زيادہ كسب فيض كيا اور آپ كى زير ہدايت و نگرانى روحانيت كے درجہ كمال پر پہنچ گئے_

 

13

بعثت سے آنحضرت(ص) كى ہجرت تك

حضرت على (ع) وہ پہلے شخص تھے جنہوںنے دين اسلام قبول كيا _

حضرت على (ع) كا اولين افتخار يہ ہے كہ آپ نے سب سے پہلے دين اسلام قبول كيا بلكہ صحيح معنوں ميں يوں كہيئے كہ آپ نے اپنے قديم دين كو آشكار كيا _

دين اسلام قبول كرنے ميں پيشقدمى وہ اہم موضوع ہے جس كو قرآن نے بھى بيان كيا ہے(7) يہى نہيں بلكہ جن لوگوں نے فتح مكہ سے قبل دين اسلام قبول كيا اور راہ خدا ميں اپنے جان و مال كو نثار كيا انھيں ان لوگوں پر فوقيت دى ہے جو فتح مكہ كے بعد ايمان لائے اور جہاد كيا (8) اس پس منظر ميں اس شخص كى عظمت كا اندازہ لگايا جاسكتا ہے جو سب سے پہلے دين اسلام سے مشرف ہوا اور اس وقت ايمان لايا جب كہ ہر طرف دشمنان اسلام كى طاقت كا ہى دور دورہ تھا يہ ايك عظيم افتخار تھے كہ ديگر تمام فضائل اس كى برابرى نہيں كر سكتے _

بہت سے مورخين كا اس بات پر اتفاق ہے كہ حضرت محمد(ص) پر پہلى مرتبہ وحى پير كے دن نازل ہوئي اور اس كے اگلے دن حضرت على (ع) ايمان لائے _ (9)

حضرت(ع) نے دين اسلام قبول كرنے ميں جو دوسروں پر سبقت حاصل كى سب سے پہلے خود پيغمبر اكرم(ص) نے اس كى صراحت كرتے ہوئے صحابہ كے مجمع عام ميں فرمايا تھا '' روز قيامت مجھ سے حوض كوثر پر وہ شخص سب سے پہلے ملاقات كرے گا جس نے دين اسلام قبول كرنے مےںتم سب پر سبقت كى اور وہ ہے على بن ابى طالب (ع) (10)

خود حضرت على (ع) نے بھى مختلف مواقع پر اس حقيقت كى صراحت فرمائي ہے _ايك جگہ آپ فرماتے ہيں '' اس روز جب كہ اسلام كسى كے گھر تك نہيں پہنچا تھا اور صرف پيغمبر اكرم(ص) و حضرت خديجہ(ع) اس دين سے مشرف ہوئي تھيں ميں تيسرا مسلمان تھا _ ميں نور وحى و رسالت كو ديكھتا تھا اور نبوت كى خوشبو سونگھتا تھا _ (11)

 

14

دوسرى جگہ آپ فرماتے ہے : '' خدا وندا ميں وہ پہلا شخص ہوں جس نے تيرى طرف رجوع كيا ، تيرے پيغام كو سنا امور تيرے پيغمبر(ص) كى دعوت پر لبيك كہا '' (12)

بے نظيرقربانى

آپ كے ديگر افتخار ميں سے ايك افتخار يہ بھى ہے جب آپ(ع) شب ہجرت ( جوكے ليلة المبيت كے نام سے مشہور ہے ) پيغمبر اكرم(ص) كے بستر پر سو گئے اور اس دوران آنحضرت(ص) نے مكہ سے مدينے ہجرت فرمائي اور تمام مورخين نے اس واقعہ كو بيان كيا ہے اہل قريش ميں سے چاليس بہادروں نے يہ فيصلہ كر ليا تھا كہ اس رات رسول خدا(ص) كو قتل كر ديں اس غرض سے انہوںنے پيغمبر اكرم(ص) كے گھر كو نرغے مےں لے ليا _ اس رات حضرت على (ع) نے اپنى جان كى بازى لگا كر آنحضرت(ص) كى حفاظت فرمائي اور جو خطرات رسول خدا(ص) كو پيش آنے والے تھے ان كو اپنے مول لے ليا _

يہ قربانى اس قدر اہم اور قابل قدر تھى جيسا كہ متعدد روايات (13) سے معلوم ہوتا ہے كہ اللہ تعالى نے اس موقع پر يہ آيت نازل فرمائي (ومن الناس من يشرى نفسہ ابتغاء مرضات اللہ واللہ رء وف بالعباد ) (14) يعنى انسانوں ميں سے كوئي ايسا بھى ہے جو رضائے الہى كى طلب ميں اپنى جان كھپا ديتا ہے اور ايسے بندوں پر اللہ بہت مہربان ہے _

ہجرت سے آنحضرت(ص) كى رحلت تك

علي(ع) رسول خدا(ص) كے امين

پيغمبر اكرم(ص) كو جب يہ حكم ملاكہ مكہ سے مدينہ تشريف لے جائيں تو آپ(ص) كو اپنے قبيلے كے افراد ميں كوئي بھى ايسا شخص نظر نہ آيا جو حضرت على (ع) سے زيادہ امين و صادق ہو چناچہ اس بناء پر رسول خدا

 

15

نے على (ع) كو اپنا جانشين مقرر كيا اور فرمايا كہ لوگوں كو ان كى امانتيں جو آپ(ص) كے پاس تھيں واپس كر ديں اور آپ(ص) پر جو قرض واجب ہيں انھيں بھى ادا كر ديں اس كے بعد آنحضرت(ص) كى دختر فاطمہ(ع) اور بعض ديگر خواتين كو ساتھ لے كر مدينہ آجائيں _

رسول خدا(ص) كى ہجرت كے بعد حضرت على (ع) ان امور كو انجام دينے كے لئے جن كے بارے ميں آنحضرت(ص) نے فرمايا تھا تين دن تك مكہ ميں تشريف فرما رہے اس كے بعد آپ اپنى والدہ فاطمہ ' دختر رسول خدا حضرت فاطمہ(ع) فاطمہ بن زبير اور ديگر بعض عورتوں كے ہمراہ پيدل مدينہ كى جانب روانہ ہوئے اور قبا ميں پيغمبر(ص) سے جاملے (15)

جس وقت رسول خدا(ص) كى نظر حضرت على (ع) پر پڑى تو ديكھا كہ حضرت على (ع) كے پيروں ميں پيدل چلنے سے چھاليں پڑ گئي ہيں اور ان سے خوں ٹپكنے لگا ہے پيغمبر اكرم(ص) كى انكھوں ميں آنسو بھر آئے اور آپ نے فرط محبت سے گلے لگا ليا اور آپ كے حق مےں دعا كى اس كے بعد آپ نے لعاب دہن حضرت علي(ع) كے پيروں پر لگايا جس كى وجہ سے زخم بھر گئے _ (16 )

علي(ع) رسول خدا(ص) كے بھائي

ہجرت كر كے مدينہ تشريف لے جانے كے بعد پيغمبر اكرم(ص) نے جو اہم و سودمند اقدامات كئے ان ميں ايك يہ تھا كہ مہاجرين و انصار كے درميان رشتہ اخوت و برادرى بر قرار كيا چنانچہ اس وقت مسجد ميں جتنے بھى لوگ موجود تھے ان كے درميان رسول خدا(ص) نے حضرت على (ع) كے علاوہ رشتہ برادرى قائم كر ديا _ حضرت على (ع) تنہا رہ گئے تھے آپ نے پيغمبر خدا(ص) كى خدمت ميں عرض كيا : يا رسول اللہ آپ نے ميرے علاوہ ہر ايك كو رشتہ برادرى ميں منسلك كر ديا ؟ اس موقع پر آنحضرت(ص) نے وہ تاريخى جملہ اپنى زبان مبارك سے ادا كيا جس سے يہ اندازہ ہوتا ہے كہ آپ(ص) كى نظر ميں حضرت علي(ع) كا كيا مقام تھا اور آپ كى نظروں ميں انكى كتنى وقعت و اہميت تھى _

آپ نے فرمايا '' قسم ہے اس خدا كى جس نے مجھے حق كے ساتھ مبعوث كيا ميں نے تمہارے

 

16

رشتہ برادرى ميں تاخير نہيں كى بلكہ تمہيں اپنے رشتہ اخوت و برادرى كے ليے منتخب كيا ہے تم ہى دين و دنيا ميں ميرے بھائي ہو '' ( 17 ) _

على (ع) اور راہ خدا ميں جنگ

حضرت على كى شخصيت اپنى قربانيوں اور راہ حق ميں جانبازيوں كے باعث صحابہ پيغمبر(ص) كے درميان لاثانى و بے مثال ہے (18) غزوہ تبوك كے علاوہ آپ نے تمام غزوات ميں شركت كى اور غزوہ تبوك ميں پيغمبر(ص) كى ہدايت كے مطابق آپ مدينہ ميں مقيم رہے يہ آپ كى قربانى اور جانبازى كا ہى نتيجہ تھا كہ سپاہ اسلام نے سپاہ شرك پر غلبہ حاصل كيا اگر اسلام كے اس جيالے كى جانبازياں نہ ہوتيں تو ممكن تھا كہ وہ مشرك و كافر جو مختلف جنگوں ميں اسلام كے خلاف بر سرپيكار رہے چراغ رسالت كو آسانى سے خاموش اور پرچم حق كو سرنگوں كر ديتے _

يہاں ہم حضرت على (ع) كى ان قربانيوں كا سر سرى جائزہ ليں گے جو آپ نے جنگ كے ميدانوں (بدر ' احد ' خندق اور خيبر ) ميں پيش كيں _

علي(ع) جنگ بدر كے بے نظير جانباز

جنگ بدر ميں حضرت على (ع) كى شخصيت دو وجہ سے نماياں رہى _

1 _ جنگ فرد بفرد : جس وقت مشركين كے لشكر سے عتبہ ' شيبہ اور وليد جيسے تين نامور دليروں نے ميدان جنگ ميں اتر كر سپاہ اسلام كو للكارا تو رسول خدا(ص) كے حكم پر حضرت عبيدہ بن حارث ' حمزہ بن عبدالمطلب اور على بن ابى طالب (ع) ان سے جنگ كرنے كے لئے ميدان جنگ مےں اتر آئے _ چنانچہ حضرت عبيدہ عتبہ سے ' حضرت حمزہ ، شيبہ سے اور حضرت على (ع) وليد سے برسر پيكار ہو گئے _

 

17

مورخين كا بيان ہے : حضرت على (ع) نے پہلے ہى وار ميں دشمن كو قتل كر ڈالا ' اس كے بعد آپ (ع) حضرت حمزہ كى مدد كے لئے پہنچے اور ان كے حريف كے بھى دم شمشير سے دو ٹكڑے كرديئے اس كے بعد يہ دونوں بزرگ حضرت عبيدہ كى جانب مدد كى غرض سے بڑھے اور ان كے حريف كو بھى ہلاك كر ڈالا (19) _

اس طرح آپ(ع) لشكر مشركين كے تينوں نامور پہلوانوں كے قتل ميں شريك رہے _ چنانچہ آپ نے معاويہ كو جو خط لكھا تھا اس ميں تحرير فرمايا كہ وہ تلوار جس سے ميں نے ايك ہى دن ميں تيرے دادا ( عتبہ ) ' تيرے ماموں ( وليد ) ' تيرے بھائي ( حنظلہ ) اور تيرے چچا ( شيبہ ) كو قتل كيا تھا اب بھى ميرے پاس ہے (20)_

2 _ اجتماعى و عمومى جنگ_ مورخين نے لكھا ہے كہ جنگ بدر ميں لشكر مشركين كے ستر (70)

سپاہى مارے گئے جن ميں ابوجہل ' اميہ بن خلف ' نصر بن حارث و ... اور ديگر سر برآوردہ سرداران كفار شامل تھے ' ان ميں سے ستائيس سے پينتيس كے درميان حضرت على (ع) كى شمشير كے ذريعہ لقمہ اجل ہوئے ، اس كے علاوہ بھى دوسروں كے قتل ميں بھى آپ كى شمشير نے جو ہر دكھائے _ چنانچہ اس وجہ سے قريش آپ كو '' سرخ موت ''كہنے لگے كيونكہ اس جنگ ميں انھيں ذلت و خوارى اميرالمومنين حضرت على (ع) كے ہاتھوں نصيب ہوئي تھى (21) _

حضرت على (ع) رسول(ص) كے تنہا محافظ

جنگ احد ميں بھى حضرت على (ع) كے كردار كا جائزہ دو مراحل ' يعنى مسلمانوں كى فتح و شكست ' كے پس منظر ميں ليا جاسكتا ہے _

مرحلہ فتح و كاميابى :

اس مرحلے ميں لشكر اسلام كو كاميابى اور مشركين كو پسپائي آپ ہى كے دست مبارك سے ہوئي_ لشكر قريش كا اولين پر چمدار طلحہ بن ابى طلحہ جب حضرت على (ع) كے حملوں كى تاب نہ لاتے

 

18

ہوئے زمين پر گر گيا تو اس كے بعد دوسرے نو افراد نے يكے بعد ديگر پرچم لشكر اپنے ہاتھوں ميں ليا ليكن جب وہ بھى حضرت على (ع) كى شمشير سے مارے گئے تو لشكر قريش كے لئے راہ فرار كے علاوہ كوئي چارہ نہ تھا (22) _

مرحلہ شكست :

جب آبناے '' عينين'' كے بيشتر كمانداروں نے رسول خدا(ص) كے حكم سے سرتابى كى اور اپنى جگہ سے ہٹ گئے تو اس وقت خالد بن وليد اپنے گھڑ سوار لشكر كے ساتھ اس پہاڑ كا چكر كاٹ كر اس آبنائے كى راہ سے مسلمانوں پر ايك دم حملہ آور ہوا چونكہ يہ حملہ اچانك اور انتہائي كمر شكن تھا اسى لئے جنگ كے اس مرحلے ميں ستر مسلمانوں كو شہادت نصيب ہوئي اور باقى جو چند بچ گئے تھے انھوں نے راہ فرار اختيار كى _

اس مرحلے ميں حضرت على (ع) كا اہم ترين كردار يہ تھا كہ آپ پيغمبراكرم(ص) كے وجود مقدس كى پاسبانى و حفاظت كے فرائض انجام دے رہے تھے _

ان حالات مےں جبكہ چند مسلمانوں كے علاوہ سب اپنى جان بچانے كى خاطر ميدان جنگ سے فرار كر گئے اور لشكر قريش نے رسول خدا(ص) كو ہر طرف سے اپنے حملوں كا نشانہ بناليا تو اس وقت حضرت على (ع) ہى تھے جنہوں نے اپنے حملوں سے دشمن كو آگے بڑھنے سے روكا چنانچہ دشمنان اسلام كا وہ گروہ جو رسول خدا (ص) كے نزديك آكر حملہ كرنا چاہتا تھا آپ ہى كى تيغ سے ہلاكت كو پہنچا_

اميرالمومنين على (ع) كى يہ قربانى اتنى اہم و قابل قدر تھى كہ حضرت جبرئيل (ع) نے رسول خدا (ص) كو اس كى مبارك بادى دى چنانچہ پيغمبر اكرم (ص) نے بھى يہ فرمايا كہ :''على منى و انا من على '' (يعنى على مجھ سے ہيں اور ميں على سے ہوں) اس قربانى كو قدر ومنزلت كى نگاہ سے ديكھا اور جب غيب سے يہ ندا آئي :''لا سيف الا ذوالفقار و لا فتى الا علي'' تو دوسروں كو بھى حضرت على (ع) كى اس قربانى كا انداز ہ ہوا (23)

خود حضرت على (ع) نے اپنے اصحاب كے ساتھ اپنى گفتگو كے درميان اس قربانى كا ذكر كرتے

 

19

ہوئے فرمايا : جس وقت لشكر قريش نے ہم پر حملہ كيا تو انصار ومہاجرين نے اپنے گھروں كى راہ اختيار كى مگر ميں ستر سے زيادہ زخم كھانے كے باوجود آنحضرت (ص) كى مدافعت و پاسبانى كرتا رہا_(24 )

حضرت على (ع) نے پيغمبر اكرم (ص) كى پاسبانى و مدافعت كى خاطر دشمن كا جم كر مقابلہ كيا كہ آپ كى تلوار ٹوٹ گئي اس وقت رسول خدا (ص) نے اپنى وہ شمشير جس كا نام ''ذوالفقار'' تھا آپ كو عطا فرمائي چنانچہ آپ نے اسى سے راہ خدا ميں اپنے جہاد كو جارى ركھا _(25)

جنگ خندق ميں على (ع) كا كردار

مختلف لشكروں (احزاب) كے دس ہزار سپاہيوں نے تقريباً ايك ماہ تك مدينہ كا محاصرہ جارى ركھا _ اتنى مدت گذرجانے كے بعد بالآخر دشمن كو اس كے علاوہ كوئي چارہ نظر نہ آيا كہ وہ اپنے مضبوط وطاقتور لشكر كو جس طرح بھى ممكن ہو سكے خندق پار كرائے_ اس فيصلے كے بعد عربوں كے ''نامور پہلوان عمر بن عبدود'' نے اپنے ساتھ پانچ سپاہى ليے اور اس جگہ سے جہاں خندق كم چوڑى تھى پار كرآيا اور جنگ كے لئے للكارا _ حضرت على (ع) نے اس كى اس دعوت جنگ كو قبول كيا اور اس كے نعروں كا جواب دينے كيلئے آگے بڑھے چنانچہ سخت مقابلے كے بعد عربوں كاوہ دلاور ترين جنگجو پہلوان جسے ايك ہزار جنگى سپاہيوں كے برابر سمجھا جاتا تھا ، حضرت على (ع) كى شمشير سے زمين پر گر پڑا عمرو كے ساتھيوں نے جب اس كى يہ حالت ديكھى تو وہ فرار كرگئے اور ان ميں سے جو شخص فرار نہ كرسكا وہ ''نوفل' تھا _ چنانچہ وہ بھى حضرت على (ع) كے ايك ہى وار سے عمرو سے جاملا_ عمروبن عبدود كى موت (نيز بعض ديگر عوامل) اس امر كا باعث ہوئے كہ جنگ كا غلغلہ دب گيا او رمختلف لشكروں ميں سے ہر ايك كو اپنے گھر واپس جانے كى فكر دامنگير ہوئي_

اس جنگ ميںحضرت على (ع) نے ميدان جنگ كى جانب رخ كيا تو آپ (ص) نے فرمايا: خدايا جنگ بدر كے دن عبيدہ اور احد ميں حمزہ كو تو نے مجھ سے جدا كرديا اب على (ع) كو تو ہرگزند سے محفوظ فرما_ اس

 

20

كے بعد آپ نے يہ آيت پڑھى ''رب لا تذرنى فردا و انت خيرالوارثين'' _ (26)

جب عمرو كے ساتھ ميدان جنگ ميں مقابلہ ہوا تو آپ(ص) نے فرمايا :

''برزالايمان كلہ الى الشرك كلہ'' (*) يعنى ايمان وشرك كے دو مظہر كامل ايك دوسرے كے مقابل ہيں )

ا ور جب آپ ميدان جنگ سے فاتح و كامران واپس آئے تو پيغمبر خدا (ص) نے فرمايا : ''لو وزن اليوم عملك بعمل امة محمد (ص) لرجح عملك بعلمہم''_(يعنى اگر آج تمہارے عمل كا امت محمد كے تمام اعمال ( پسنديدہ) سے مقابلہ كياجائے تو ( بے شك) اس عمل كو ان پر برترى ہوگي_(27)

على (ع) فاتح خيبر

پيغمبر اكرم (ص) نے يہوديوں كے مركز ''خيبر'' كا محاصرہ كيا تو اس غزوہ كے ابتدائي دنوں ميں حضرت على (ع) آشوب چشم كے باعث اس ميں شريك نہيں ہوسكتے تھے چنانچہ پيغمبر اكرم (ص) نے پرچم اسلام دو مسلمانوں كو ديا ليكن وہ دونوں ہى يكے بعد ديگرے كامياب ہوئے بغير واپس آگئے_

يہ ديكھ كر پيغمبر اكرم (ص) نے فرمايا يہ پرچم ان كا حق نہ تھا على (ع) كو بلاؤ عرض كيا گيا كہ ان كى آنكھ ميں درد ہے _ آپ (ص) نے فرمايا كہ : على (ع) كو بلاؤ وہى ايسا مرد ہے جو خدا اور اس كے رسول كو عزيز ہے وہ بھى خدا اور اس كے پيغمبر (ص) كو عزيز ركھتا ہے _ (28)

جس وقت حضرت على (ع) پيغمبر اكرم (ص) كے حضور تشريف لائے تو آپ نے دعا فرماتے ہوئے اپنے دہان مبارك سے لعاب ان كى آنكھوں پر لگايا جس كے باعث درد چشم زائل ہوگيا اس كے بعد حضرت على (ع) نے پرچم اٹھايا اور ميدان جنگ كى جانب روانہ ہوگئے_

يہودى دلاور اپنے قلعے سے نكل كر باہر آئے _ مرحب كابھائي حارث نعرا لگاتا ہوا حضرت على (ع) كى جانب بڑھا مگر چند ہى لمحے بعد اس كا مجروح بدن خاك پر تڑپنے لگا _ مرحب اپنے بھائي كى

 

21

موت سے سخت رنجيدہ خاطر ہوا چنانچہ اس كا انتقام لينے كى غرض سے وہ ہتھياروں سے ليس حضرت على (ع) سے لڑنے كے لئے ميدان جنگ ميں اتر آيا _ پہلے تو دونوں كے درميان كچھ دير گفت و شنيد ہوئي مگر پلك جھپكتے ہى جانباز اسلام كى شمشير بران مرحب كے سر پر پڑى اوآن كى آن ميں اسے خاك پر ڈھير كرديا_ دوسرے يہودى دلاوروں نے جب يہ ماجرا ديكھا تو وہ بھاگ گئے اور اپنے قلعے ميں چھپ گئے اور دروازہ بند كرليا _ حضرت على (ع) نے ان بھاگنے والوں كا تعاقب كيااور جب دروازہ بند پايا تو قدرت حق سے اسى دروازے كو جسے بيس آدمى مل كر بند كيا كرتے تھے تن تنہا ديوار قلعہ سے اكھاڑ ليا اور يہوديوں كى قلعہ خندق پر گرايا تاكہ سرباز اسلام اس كے اوپر سے گذر كر فساد اور خطرہ كے آخرى سرچشمہ كو كچل ديں _(29)

عزوہ خيبر ميں چونكہ مسلمانوں كو حضرت على (ع) كى قربانى و دلاورى سے فتح و كامرانى حاصل ہوئي تھى اسى وجہ سے آپ كو ''فاتح خيبر '' كے لقب سے ياد كيا جاتا ہے_

اميرالمومنين (ع) كى سياسى زندگى ميں جنگجوئي كے اثرات

حضرت على (ع) كى شجاعت و دلاورى اور جرائتيں جوكہ مختلف غزوات، بالخصوص غزوہ بدر ميں ابھر كر سامنے آئيں ہم نے انكو مختصر طور پر يہاں بيان كيا ہے '' جس كى وجہ يہ ہے كہ ا سى جنگى پہلو كا اسلام كى آيندہ تاريخ اور آپ (ع) كى سياسى زندگى كے حالات قلمبند كرنے ميں اہم ونماياں كردار تھے_ چنانچہ اس كے اثرات و نتائج كى تلاش و جستجو ہميں تاريخ اسلام ميں پيغمبر اكرم (ص) كى رحلت كے بعد سے كرنى چاہيئے

راہ خدا ميں على (ع) كى جانبازيوں او رآپ كے ہاتھوں مشركين كى ہلاكت (تمام غزوات، بالخصوص غزوہ بدر ميں ) كى وجہ سے آپ كے خلاف كفار قريش كے دلوں ميں وہ دشمنى و عداوت پيدا ہوگئي جس كے اثرات بعد ميں منظر عام پر آئے_

عثمان اور حضرت على (ع) كے درميان خليفہ وقت مقرر كئے جانے سے متعلق چھ ركنى كميٹى ميں جو

 

22

گفتگو ہوئي اس سے اندازہ ہوتا ہے كہ كفار و قريش كے دلوں ميں آپ كے خلاف كس قدر دشمنى وعداوت تھى اس گفتگو كے اقتباس ہم يہاں پيش كرتے ہيں :

''مسئلہ خلافت كے سلسلہ ميں عثمان نے حضرت على (ع) سے خطاب كرتے ہوئے كہا تھا ميں كيا كروں ، قريش آپ كو پسند نہيں كرتے كيونكہ آپ نے ان كے ايسے ستر (70) آدميوں كو (جنگ بدر و احد اور ديگر غزوات ميں ) تہ تيغ كيا ہے جن كا شمار قبيلے كے سرداروں اور سربرآوردہ اشخاص ميں ہوتا تھا (چنانچہ ان كے دلوں ميں بھى كينہ و عداوت ہے ''_ (30)

اس كى دوسرى مثال يزيد كے وہ اشعار ہےں جو اس نے حضرت سيد الشہداء (ع) اور آپ كے بہتّر عزيز و اقرباء اور ياران باوفا كى شہادت پر كہے تھے_ وہ لعين جب كہ نشہ فتح وكامرانى ميں مست و سرشار تھا اور حسين بن على (ع) كا سر مبارك اس كے پاس لايا گيا تو اس ملعون نے اس موقعے پر جو اشعار كہے ان كا مفہوم يہ ہے: احمد (پيشوائے اسلام) نے جو كام انجام ديئے ہيں ان كے مقابل اگر ميں ان كى آل سے انتقام نہ لوں تو خندف كى نسل سے نہيں_

ہاشم نے دين كے نام پر حكومت حاصل كى تھى ورنہ اس پر نہ غيب سے خبر آئي تھى نہ وحى نازل ہوئي تھي_ ہم نے على (ع) سے اپنا بدلہ ليا اور سوار شجاع اور سورما (حسين بن على (ع) ) كو قتل كرديا _ (31)

حضرت على (ع) اور پيغمبر اكرم (ص) كى جانشيني

بلا شك و ترديد اسلام كے جو عظےم و اہم ترين مسائل ہيں ان ميں امت كى ولايت وقيادت نيز امور مسلمين كى راہبرى و سرپرستى بھى شامل ہے _ چنانچہ اس اہميت كو مد نظر ركھتے ہوئے پيغمبر اكرم (ص) كى يہ كوشش تھى كہ آئندہ جس اسلامى معاشرے كى تشكيل ہوگئي اس كے مسئلہ رہبرى كو اپنے زمانہ حيات ميں ہى طے كرديں _ چنانچہ ''دعوت حق كے اولين روز سے ہى آپ نے توحيد كے ساتھ مسئلہ خلافت كو واضح كرنا شروع كردياتھا_ چونكہ حضرت على (ع) ہى كى وہ شخصيت تھى جو تمام فضائل وكمالات كى مالك تھى اسلئے خداوند متعال كى طرف سے پيغمبر اكرم (ص) كو حكم ملا كہ مسلمانوں كے دينى و

 

23

دنيوى امور كى سرپرستى كےلئے اپنے بعد ان كى جانشينى كا اعلام فرماديں_

رسول اكرم (ص) نے اس الہى پيغام كا اعلان مختلف مواقع پر فرمايا يہاں ہم اختصار كے پيش نظر ان تين احاديث كا ہى ذكر كريں گے جو آپ نے مختلف اوقات ميں بيان فرمائي ہيں :

1_ حديث يوم الدار

2_ حديث منزلت

3_ حديث غدير

حديث يوم الدار

بعثت كى تين سال كے بعد جب يہ آيت نازل ہوئي ''وانذر عشيرتك الاقربين'' (32) يعنى رسول اكرم (ص) اس كام پر مامور كئے گئے كہ وہ سب سے پہلے اپنے عزيز واقرباء كو دعوت اسلام ديں _ اس مقصد كے تحت پيغمبر اكرم(ص) كے حكم پر حضرت على (ع) نے بنى ہاشم كے چاليس سرداروں كو جن ميں ابوطالب، ابولہب ، حمزہ ، وغيرہ شامل تھے مدعو كيا جب سب لوگ كھانے سے فارغ ہوئے تو پيغمبر اكرم (ص) نے فرمايا اے فرزندان عبدالمطلب عرب كے جوانوں ميں مجھے كوئي بھى ايسا نظر نہيں آتا جو تمہارے لئے مجھ سے بہتر پيغام لايا ہو _ ميں تمہارے لئے ايسا پيغام لے كر آياہوں جس ميں دونوں جہان كى خير وسعادت ہے_ خداوند تعالى نے مجھے حكم ديا ہے كہ ميں تمہيں اس كى طرف دعوت دوں_ تم ميں سے ايسا كون ہے جو اس راہ ميں ميرى مدد كرے تاكہ وہ ميرا بھائي ، وصى اور جانشين قرار پائے _ پيغمبر اكرم (ص) نے اپنے اس سوال كو تين مرتبہ دہرايا اور ہر مرتبہ حضرت على (ع) ہى اپنى جگہ سے اٹھے اور انہوں نے اپنى آمادگى كا اعلان كيا_

اس وقت رسول اكرم (ص) نے حضرت على (ع) كى جانب اشارہ كرتے ہوئے فرمايا : تو گويا على (ع) ہى ميرے بھائي ، وصى اور جانشين ہيں لہذا تم ان كى بات سنو اور ان كى اطاعت كرو _(33)

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

بوہری اور آغا خانیوں میں کیا فرق ہے؟ انکی تاریخ ...
اصحاب الرس
ایک شجاع عورت کا حجاج سے زبردست مناظرہ
حکم بن ابی العاص قرآن کی نظر میں
امام حسن(ع) کی صلح اور امام حسین (ع)کے قیام کا فلسفہ
حضرت آدم علیه السلام وحوا کے کتنے فرزند تھے؟
مناظرہ امام جعفر صادق علیہ السلام و ابو حنیفہ
اسارائے اہل بيت کي دمشق ميں آمد
میثاقِ مدینہ
سکوت امیرالمومنین کے اسباب

 
user comment