اردو
Friday 26th of April 2024
0
نفر 0

چور، چوکیدار اور ٹڈی دل کہیں ہم بے وقوف تو نہیں بن رہے؟

چور، چوکیدار اور ٹڈی دل کہیں ہم بے وقوف تو نہیں بن رہے؟

پلوامہ حملے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے دہشت گردانہ کاروائیاں جہاں بھی جس بھی عنوان سے ہوں ہم انکی مذمت کرتے ہیں لیکن ہمیں یہ بھِی سوچنا چاہیے کہ جو بڑے بڑے خطروں کی بات کی جا رہی ہے کہیں وہ ہمارا دھیان کسی دوسری طرف ڈائورد کرنے کے لئے تو نہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ کے مطابق، کسی دیہات میں ایک شاطر دماغ آدمی ڈینگیں مارتا ہوا پہنچا، اسکا کہنا تھا کہ دیہات میں چوریاں اس لئے ہوتی ہیں کہ اس علاقے میں چور بہت ہیں اور کسی کو چور پکڑنے کی ہمت نہیں ہے چوکیدار بس آواز لگاتا ہے ” جاگتے رہو ” لیکن آواز سے کیا ہوتا ہے چور کو دھر دبوچنا ضروری ہے اب چور کو پکڑنے کے لئے بھی دل گردہ چاہیے جو چوکیدار کے پاس نہیں ہے البتہ میرے پاس ایسی ترکیبیں ہیں جن سے میں چور کو آسانی سے پکڑ سکتا ہوں، دیہات کے لوگ تو تھے ہی پریشان اس آدمی کی بات پر یقین کر بیٹھے اور اسکے چوکیداری کی ذمہ داری سونپ دی ، اب چوکیدار نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ بڑے بڑے چوروں کی گھر میں دعوت کی اور ان سے کہا اس طرح تم لوگ کیوں چھوٹی موٹی چوری کر کے اپنا وقت بھی بر با د کرتے ہو اور بے چارے اسکا بھی جسکا مال لیکر بھاگتے ہو ، ٹی وی فریج یا پھر الماری بھی کوئی چرانے کی چیزیں ہیں تم سب ایک کام کرو الگ الگ جگہ دکانیں کھول کر بورڈ لگا دو ہمارے یہاں پرانے سامان کے بدلے نئے سامان دئے جاتے ہیں ، پرانی چیزیں لائیے نئی لے جائیے ،اور کرو یہ کہ بہت سارے گھر کے ایسے سامان جو ذرا سا خراب ہو جاتے ہیں تو بڑے لوگ انہیں باہر پھینک دیتے ہیں انہیں شہر کی گلی گلی تلاش کر کے اپنی دوکان پر لے آو کچھ مکینک بھی رکھ لو وہ پرانی چیزوں کی مرمت کر دیں گے تم انہیں ہی نیا بنا کر بیچ دو گے اس طرح تمہارا کام بھی قانونی ہو جائے گا اور لوگ خود سامان تمہارے یہاں پہنچا دیں گے تم اپنے پاس پہلے سے رکھی چیزوں پر بہترین مارک لگوا کر پالش و کور کرا کر لوگوں سے کہنا کہ آپ سے کچھ مانگتے تو نہیں ہیں یہ نئی چیز آپکی ہے لیکن برانڈ کا پیسہ تو دیتے جائیں اس طرح لوگ برانڈیڈ چیز کے نام پر خود ہی بغیر کہے تمہاری جیب گرم کر جائیں گے لوگ بھی خوش ہو جائیں گے تمہارا کام بھی چل پڑے گا ، چوروں کی بات سمجھ میں آ گئی اور انہوں نے ساری توجہ چوری کی جگہ ہیرا پھیری پر لگا دی جسکے نتیجہ میں جب ایک دو دن چوری نہیں ہوئی تو لوگوں نے چوکیدار کو خوب سراہا کہ جب سے چوکیدار آیا ہے اس نے کمال کر دیا یہ تو چوری ہونے ہی نہیں دیتا ،ادھر دکانوں پر بورڈ لگ گئے پرانا سامان لائیے نیا لے کر جائیے آپکی سیوا ہی ہمارا دھرم ہے.
پھر کیا تھا لوگوں نے اچھی خاصی چیزوں کو نیا نیا کر دیا کچھ ہی دن پہلے لائی گئی چیزیں بھی چہار دیواری کی وزار ت داخلہ نے پرانی کہہ کر باہر کروا دیں کہ گھر کی آرائش تو تبھی ہو پاتی ہے جب گھر کا ہر سامان چمک رہا ہو دیکھتے ہی دیکھتے گھر کا سارا سامان باہر اور خاندانی چوروں کی دکانوں میں رکھا نیا سامان گھر کے اندر آ گیا لیکن تھا تو حقیقت میں سب کچھ پرانا ہی لہذا دھیرے دھیرے کہیں ٹی وی کی تصویر دھندلی ہوئی تو کہیں فرج میں برف اکٹھا ہونا شروع ہوئی اور کہیں واشنگ مشین میں کرنٹ دوڑنے لگا تو لوگ پریشان ہوئے یہ کیا ہوا ہمارا تو پرانا سامان ہی اچھا تھا اب لوگوں کو دھیرے دھیرے معاملہ سمجھ میں آنے لگا تو مال بدلنے والی دکانوں کا رخ کیا چوروں نے جب دیکھا کہ اب بات بگڑ رہی ہے تو چوکیدار کو پکڑا کہ تم نے پھنسا دیا اب ہم کیا کریں چوکیدار نے کہا کچھ نہیں پریشان مت ہو ان سے کہو ہم آپکا سامان بدل دیں گے جسکی جو خرابی ہے ہمارے یہاں پہنچا دے لیکن فی الحال مشکل یہ ہے کہ ایک ٹڈی دل نے کھیتوں پر حملہ کر دیا ہے اب ٹڈی دل کو تھوڑی پتہ ہے کونسا کھیت شرما جی کا ہے کونسا گپتا جی کا اور کونسا خان صاحب کا وہ تو جدھر جاتا ہے فصلوں کو تباہ کرتا ہے اب گر ہم نے انہیں بھگانے کا انتظام نہ کیا تو ہمارے سارے کھیت کھلیان برباد ہو جائیں گے فرج ، ٹی وی اور واشنگ مشین، الماری ، سلائی مشین ، موٹر سائکل ، سائکل اور دیگر گھریلو سامان تو تبدیل ہوتا رہے گا کھیت پر ٹڈی دل نے حملہ کر دیا تو کھیت کو کہاں سے بدلیں گے اسی سے ہماری زندگی چلتی ہے اس طرح انکا ذہن دوسری طرف لگاو اور ہاں بات میں دم رہے اس لئے کچھ ٹڈیاں کھیتوں میں ضرور چھوڑ دو تاکہ لوگ اپنے آنکھوں سے دیکھ لیں کہ خطرہ حقیقی ہے اور اسی دوران کچھ ٹرک منگواوا لوگوں کو ٹڈی دل سے مقابلہ میں لگا کر ٹرکوں میں سامان رکھو اوریہاں سے رفو چکر ہو جاو باقی میں دیکھ لونگا۔ چنانچہ نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کا سارا سامان ٹرکوں میں لاد کر ادھر سے ادھرکر دیا گیا اور لوگ ہاتھوں میں ڈنڈے لئے ٹڈیاں مارتے رہ گئے ، ایسا ہی کچھ ہمارے یہاں چل رہاہے چوروں سے سے چوکیدار کی سانٹھ گانٹھ ایسی ہے کہ کوئی لندن میں سیر کر رہا ہے کوئی فرانس میں بیٹھا ہے کوئی یورپ میں موج کر رہا ہے اور ہمارے یہاں لوگوں سے کہا جا رہا ہے چوروں کو بعد میں دیکھنا پہلے اپنے ملک کو تو بچا لو دیکھو دشمن نے حملہ کر دیا ہے، اور کوئی نہیں ہے جو اصل چوکیدار کو پکڑے کے تمہاری یہ کونسی چوکیداری ہے کہ سارے چور ٹوپی پہنا کر نکل گئے اور تم انہیں پکڑ ہی نہ سکے؟
پلوامہ حملے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے دہشت گردانہ کاروائیاں جہاں بھی جس بھی عنوان سے ہوں ہم انکی مذمت کرتے ہیں لیکن ہمیں یہ بھِی سوچنا چاہیے کہ جو بڑے بڑے خطروں کی بات کی جا رہی ہے کہیں وہ ہمارا دھیان کسی دوسری طرف ڈائورد کرنے کے لئے تو نہیں ، اس مقام پر یقین رویش کمار کے بلاگ کی یہ تحریر آپ کو پسند آئے گی جس میں انہوں نے بڑی خوبصورتی سے وہ سب کہہ دیا ہے جو موجودہ حالات میں لوگوں کومتوجہ کرنے کے لئے ضروری ہے ملاحظہ ہو یہ تحریر جو مزدور کی محنتوں کے بے ثمر ہونے کے ساتھ موجودہ اقتصادی زبوں حالی کو بہترین انداز میں بیان کیا گیا گیا ہے ”
بڑھتی بے روزگاری اور کام کی امید کا ختم ہو جانا
ایک طرف بےروزگاری بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف کام مانگنے والوں کی تعداد گھٹتی جا رہی ہے۔ کام مانگنے والوں کی تعداد کوLabour Participation Rate کہتے ہیں مطلب یہ ریٹ تبھی بڑھتا ہے جب کام ملنے کی امید ہو۔۲۰۱۸ کے مقابلے میں ۲۰۱۹ کے پہلے دو مہینے میں کام مانگنے والوں کی تعداد گھٹی ہے۔ سینٹر فار مانٹیرنگ انڈین اکانومی کی تازہ رپورٹ بتا رہی ہے کہ Labour Participation Rate اب ۴۳٫۲ سے ۴۲٫۵ کے رینج میں ہی رہنے لگا ہے۔
دو سال تک اس شرح میں گراوٹ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بےروزگاری کتنی خوفناک شکل لے چکی ہے۔اب آپ اس طرح سے سمجھیے۔ کم لوگ کام مانگنے آ رہے ہیں تب بھی کام نہیں مل رہا ہے۔Labour Participation Rateکی گنتی میں ۱۵ سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو شامل کیا جاتا ہے۔ جنوری ۲۰۱۹ میں بےروزگاری کی شرح ۷٫۱ فیصد تھی فروری میں بڑھ‌کر۷٫۲ فیصد ہو گئی ہے۔ فروری ۲۰۱۸ میں ۵٫۹ فیصد تھی۔ فروری ۲۰۱۷ فروری میں ۵ فیصد تھی۔
شرح نمو میں گراوٹ
یہی حالت شرح نمو کی ہے۔ لگاتار گراوٹ ہی آتی جا رہی ہے۔ اقتصادی صورت حال میں گراوٹ کا اثر استعمال پر پڑا ہے۔ پچھلے کچھ مہینوں میں اقتصادی رفتار کافی بگڑی ہے۔ آج کے بزنس اسٹینڈرڈ میں نیل کنٹھ مشرا نے لکھا ہے۔ کچے تیل کے داموں میں کمی کے بعد بھی اقتصادی رفتار تیزی نہیں پکڑ سکی ہے۔ جبکہ یہ کہا جاتا ہے کہ مودی حکومت میں اقتصادی شعبے میں بنیادی طورپر کئی ٹھوس قدم اٹھائے گئے مگر ان کا کوئی خاص اثر ہوتا نہیں دکھ رہا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ جن تبدیلیوں کو مثبت بتایا جا رہا ہے ان میں ہی بہت زیادہ امکان نہیں ہے۔
بینکوں کی بری حالت
بینکوں کی حالت یہ ہے کہ ایک لاکھ کروڑ سے زیادہ کا سرمایہ دینے کے بعد بھی خاص سدھار نہیں ہے۔ بینک سرمایہ جمع کرنے کے لئے اپنے ملازمین‌ پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ ان کی ردی ہو چکے شیئر کو خریدیں۔ بینکر آئے دن اپنے دفتر کے حکم کی کاپی بھیجتے رہتے ہیں کہ ان کو اپنے بینک کا شیئر خریدنے کے لئے مجبور کیا جا رہا ہے۔
ہندو اور مسلمان کا چکر
ہندو مسلمان کے چکر میں بینکروں نے اپنے لئے غلامی اوڑھ لی۔ کمپنیاں شیئر دیتی ہیں لیکن ۱۵۰۰شیئر خریدنا ہی پڑے‌گا، پیسے نہیں ہوں‌گے تو لون لےکرخریدنا پڑے‌گا، یہ سیدھاسیدھا اقتصادی جرم ہے۔ جو مل گیا اس کو لُٹنے کا سسٹم ہے تاکہ بینکوں کے شیئر کو اچھلتا ہوا بتایا جا سکے۔
آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کیوں وزیر اعظم نریندر مودی بےروزگاری پر بات نہیں کر رہے ہیں۔ پلواما کے بعد ایئر اسٹرائک ان کے لئے بہانہ بن گیا ہے۔راشٹر واد راشٹر واد کرتے ہوئے انتخاب نکال لیں‌گے اور اپنی جیت‌کے پیچھے خوفناک بےروزگاری چھوڑ جائیں‌گے۔وزیر اعظم کی ایک ہی حب الوطنی ہے جو انتخاب میں ‘جیت پریم’ ہے۔
تعلیمی معیار میں مسلسل گراوٹ
مودی حکومت کے پانچ سال میں تعلیمی شعبے کا کباڑا ہوا۔ جو یو پی اے کے وقت سے ہوتا چلا آ رہا تھا۔ دہلی سے باہر کے کالجوں کی سطح پر کوئی اصلاح نہیں ہوئی ۔ کلاس روم بغیر اساتذہ کے چلتے رہے۔ایک سال پہلے بھی ۱۳ پوائنٹ روسٹر سسٹم کے خلاف فرمان لایا جا سکتا تھا مگر اس کی وجہ سے حکومت کو یونیورسٹیوں میں نوکری نہیں دینے کا بہانہ مل گیا۔
پانچ سال میں یہ حکومت نئی تعلیم پالیسی نہیں لا سکی۔ امیر لوگوں کے لئے انسٹی ٹیوٹ آف امی ننس کا ڈراما کیا۔ مگر معمولی گھروں کے بچوں کو اچھا کالج ملے اس کے لئے وزیر اعظم مودی نے زیرو کوشش کی۔ آپ ہمیشہ مسکراتے رہو کے ٹیگ لائن کی طرح مسکراتے رہنے والے ایم ایچ آر ڈی منسٹر پرکاش جاوڈیکر سے بھی پوچھ‌کے دیکھ لیجئے۔
خالی اسامیاں اور دھول چاٹتے سرکاری دفتر
انڈین کاؤنسل آف اگریکلچر ریسرچ کے ۱۰۳ ادارے ہیں۔ ان میں سے ۶۳ اداروں کے پاس ۲ سے ۴ سالوں سے باقاعدہ ڈائریکٹر نہیں ہے۔ آئی سی اے آر کا سالانہ بجٹ ۸۰۰۰ کروڑ ہے۔ ۵ مارچ کے انڈین ایکسپریس میں چھپی خبر کے مطابق سابق زراعتی وزیر شرد پوار نے وزیر اعظم کو خط لکھا ہے۔
کیا آپ یقین کریں‌گے کہ دہلی میں جو پوسا انسٹی ٹیوٹ ہے وہاں پچھلے چار سال سے کوئی باقاعدہ ڈائریکٹر کی تقرری نہیں ہو سکی۔ ۱۰۰ سے زیادہ پرانے اس ادارے کے ملک کےزراعتی تحقیقی نظام میں اہم ترین کردار رہا ہے۔ کرنال واقع نیشنل ڈیری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں بھی ڈائریکٹر نہیں ہے۔ یہی نہیں ریسرچ کرنے والوں کے ۳۵۰ عہدے ہیں مگر ۵۵ فیصد خالی ہیں۔
زراعت کا بحران
اس ملک کی زراعت بحران میں ہے۔ کیا کسی کو نہیں دکھتا ہے کہ زراعت کو لےکر حکومت اتنی لاپرواہ کیسے ہو سکتی ہے؟ وزیر زراعت رادھا موہن سنگھ پٹنہ میں مارے گئے دہشت گردوں کی تعداد ۴۰۰ بتا رہے تھے۔بہتر ہے دہشت گرد گننے کی جگہ وہ اپنے محکمے کا کام گنیں اور اس کو کریں۔ ۱۰۳ ریسرچ اداروں میں سے ۶۳ اداروں کا کوئی باقاعدہ ڈائریکٹر نہ ہو، آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ملک کی زراعت کو لےکے حکومت کتنی سنجیدہ ہے۔ تشہیرو توسیع کی بھی حد ہوتی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ پوری حکومت کو پلواما کے بعد آپریشن بالاکوٹ بہانہ مل گیا ہے۔ پبلک کے درمیان جاکر اسی پر نعرے لگواکرسوالوں سے بچ نکلنا ہے۔ ملک کی سلامتی کو لےکر جتنا سوال اپوزیشن سے نہیں آ رہا ہے اس سے کہیں زیادہ ان کی اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لئے سلامتی کا سوال اہم ہو گیا ہے۔
بےروزگاری انتہا پر ہے۔ تعلیمی نظام چرمرا گیا ہے۔ زراعت میں کوئی اصلاح نہیں ہے۔ اب ایسے میں راشٹرواد ہی وزیر اعظم کی تقریر میں کچھ نیا پن پیدا کر سکتا ہے۔ مگر ان ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے راشٹرواد کا استعمال ہی بتا رہا ہے کہ وزیر اعظم کا راشٹرواد سچ سے بھاگنے کا راستہ ہے۔ ووٹ پانے کا راستہ ہے۔”
اس حقیقت پر مبتنی تجزیہ کے بعد زیادہ کچھ کہنا بیکار ہوگا یہ تحریر اتنا سمجھانے کے لئے کافی ہے کہ چوکیدار پر بھروسہ کرنے سے قبل ایک بار ہم دیکھ لیں کہ ظاہری طور پر دکھانے کے لئے چوری کو ختم کر کے ایسی ہیرا پھیری تو ملک میں شروع نہیں ہو گئی ہے جس میں ملک کا چوکیدار بھی چوروں کے ساتھ شامل ہے اور ہم سمجھ رہے ہیں اسکا ہونا بہت ضروری ہے اس لئے کہ اس نے چوروں کا صفایا کر دیا ہے ذرا اس بات پر بھی تو غور کریں کہ کہیں ایسا تو نہیں اس چوکیدار نے اپنا شاطرانہ دماغ لگا کر معاملہ بالکل ہی الٹ دیا ہو کہیں ایسا تو نہیں کل تک جس سامان کی ہم خود حفاظت کرتے تھے اس کے جھوٹے وعدوں کے چکر میں ہم خود چوروں کے ہاتھوں پہنچا رہے ہوں کہ ہمیں جو ملے گا نیا اس سے بے خبر ذرا سی پالش ہٹے تو سب دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا ۔

تحریر: ایس وویک سندر کمار

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

بولیویا نے ایرانی وزیر خارجہ کو اپنے اعلی حکومتی ...
مذہب تشیع کی پیروی کرنا بالکل صحیح ہے: مصری معروف ...
قرضاوی: منیٰ کے حادثے میں مسلمانوں کے قتل عام پر ...
غير قانوني حکومت اور بچوں پر ظلم
عقیدہ عشقِ رسول کا مظاہرہ استکباری قوتوں کے ...
سعودی معاشرے کا شرمناک پہلو بے نقاب
نوازشریف کو ہرممکن علاج فراہم کیا جائے، وزیراعظم ...
مسجد الاقصی کو یہودیوں کے حوالے کرو/ مسجد الاقصی ...
کانوں پر جُوں تک نہيں رينگتي !
میر واعظ، سید علی گیلانی اور یاسین ملک نئی دہلی ...

 
user comment