اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

اسوہ حسینی

اسوہ حسینی

بِسْمِ اللّٰه الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ
الحمد الله رب العلمین والصلوةَ علی سیدالمرسلین واله الطاهرین من یومنا هذا یوم الدین .


تمھید

انسان کو کمال انسانی کی منزل تک پہنچانے کے لئے رب العالمین کی طرف سے جو سلسلہ انبیاء و مرسلین کا قائم ہوا تھا، اس کی انتہا حضرت خاتم النبیین و افضل المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر ہوئی۔ اور آپ نے تعلیمات الٰہی کا ایک خزانہ قرآن مجید کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ مگر کتاب علم کا سرمایہ بن سکتی ہے۔ عمل کے لئے تربیت درکار ہے۔ اس لئے پیغمبر کے ذمہ تلاوتِ کتاب کے ساتھ تزکیہٴ نفوس اور تعلیم کتاب و حکمت کا فریضہ بھی عائد کیا گیا اور آپ کے سیرت و کردار کو خلقِ خدا کے لئے نمونہ بنایا گیا ۔ جس کے لئے قرآن میں یہ آیت آئی کہ: قُل اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰه فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰه
(اے رسول) "ان سے کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا"۔
اس طرح اسوہٴ رسول تمام مسلمانوں کے نمونہٴ عمل ہوا۔ مگر رسالت مآب کی بشری زندگی محدود تھی۔ آپ کی وفات کے بعد بھی ضرورت تھی کہ اس کتاب ہدایت قرآنِ مجید کے ساتھ ایسے افراد رہیں جو اخلاق و کمالات میں رسولکے جانشین اور آپ کی طرح دنیا میں نمونہٴ عمل بننے کے قابل ہوں، جن کی عملی سیرت کا اتباع بعد سیرتِ رسول نجات و فلاح کا ذمہ دار ہو اور اس طرح وہ قرآن کے ساتھ اور قرآن ان کے ساتھ ہو۔ ان کے اتباع سے قرآن کا حقیقی اتباع اور قرآن پر عمل کرنے سے ان کے دامن سے تمسک ہوتا ہو۔ یعنی کسی طرح ایک دوسرے سے جدا نہ ہو سکے۔ اسی کے بتانے کے لئے رسول نے اپنی وہ مشہور حدیث ارشاد فرمائی کہ :انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللّٰہ وعترتی اھل بیتی ما ان تمسکتم بھمالن تضلوا بعدی انھما لن یفترتا حتٰی یردا علی الحوض۔
بے شک یہ وہ افراد تھے جن کو رسالت مآب نے اپنے بعد کے لئے دنیا میں نمونہٴ عمل قرار دیا تھا۔ اور یہ منظور تھا کہ دنیا اپنی عملی زندگی میں ان کی پیشوائی کو قبول کرکے ان کے نقشِ قدم پر گامزن ہو اور اس طرح کامیابی کے حقیقی نقطہٴ ارتقاء پر فائز ہو۔
مگر فرض کے طور پر کسی پابندی کا عائد ہونا او رکسی کے اتباع و اطاعت کا اپنے اوپر لازم و واجب سمجھنا ایک ایسی چیز ہے جو انسانی طبیعت پرگراں گزرتی ہے۔
اس صورت میں اطاعت کا مقصد حاصل تو ہو جاتا ہے مگر ناخوشگواری و گرانی کی بناء پر انسانی طبیعت کو اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی فکر ضرور رہتی ہے۔ اور اس لئے کمزور طبائع کے لوگ خواہش کے مقابلہ میں فرض شناسی کو چھوڑ کے معصیت کے مرتکب بھی ہوجاتے ہیں۔
لیکن اگر یہی فرض کی پابندی کسی طبعی نظام کے تحت میں آ کر انسانی خواہش کے مطابق بن جائے اور انسان کی فطرت کے اعتبار سے اس کے مناسبِ طبع و مذاق ہو جائے تو پھر وہ فرض ایک خوشگوار ذاتی خواہش کے لباس میں آ کر انسان کے لئے بارِطبع باقی نہیں رہتا اور انسان خوشی خوشی بشاش چہرہ و بشرہ کے ساتھ بجا لانے میں لذت محسوس کرتا ہے۔
خدا اور رسول انسانی افتادِ طبع اور اس کے خصوصیات سے پورے طور پر باخبر تھے۔ انہیں رسول کے بعد کچھ افراد کو نمونہٴ عمل بنانا تھا اور ان کے اتباع و اطاعت کو فرض قرار دینا تھا لہٰذا ایسے اسباب قرار دینا تھے جو ایک انسان کی طرف لوگوں کے جذبِ قلب کا باعث اور اس کے افعال و اقوال کو مرکزِ توجہ بنا کر ان کے اتباع و اقتداء کی طرف متوجہ کرنے والے ہوں۔
چنانچہ وہ تمام وجوہ و اسباب جن سے ایک انسان کی پیروی اور متابعت کی طرف دلوں کو توجہ پیدا ہوتی ہے۔ اہل بیت رسول کے لئے مجتمع کر دیئے گئے۔


پہلا سبب ایک انسان کی طرف جذب کا ہوتا ہے:

محبت، بڑے سے بڑا کام جو طبیعت پر گراں گزرتا ہو، محبت کے واسطہ سے لیا جائے تو وہ آسان معلوم ہو گا۔ انسان جس سے محبت کرتا ہے اس کی باتوں کو مانتا ہے اور اس کے اقوال پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ اس سے محبت کرتا ہے تو اس کے افعال سے بھی محبت کرتا ہے اور خود ان کے اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اہلِ بیعت رسول کے لئے اس پہلو پر زور دیا گیا ہے اور مختلف طرح، مسلمانوں کو ان کی محبت پر آمادہ کیا گیا۔ رسول نے خود محبت کا اظہار کیا اور ایسا کہ جس کی نظیر ملنا ممکن نہیں۔ خالق کی محبت کا اعلان کیا اور ہر طرح قول سے، عمل سے، قرائن سے، آثار سے اس کو نمایاں فرمایا۔ پھر مسلمانوں کو محبت کی دعوت دی۔ ان کی محبت اجرِ رسالت، ان کی محبت شرطِ ایمان و اطاعت اور ان کی محبت معیار فلاح و نجات قرار دی گئی۔ یہ مسلمانوں کے غور کرنے کی بات ہے کہ آخر رسالت مآب کا اس قدر اظہار محبت اور تاکید مودت کرنا اپنے مخصوص اہل بیت اور عترتِ طاہرین کے متعلق معنی کیا رکھتا ہے؟
کیا یہ سب کچھ صرف اس بناء پر تھا کہ وہ آپ کے اہل بیت تھے۔ یعنی ان میں ایک آپ کی بیٹی تھیں۔ ایک آپ کے داماد اور دو آپ کے نواسے تھے؟ کیا صرف عزیز، قریب اور اولاد ہونے کی بنا پر آپ کوشاں تھے کہ دنیا ان کی گرویدہ محبت ہو جائے؟
یہ تو حضرت رسول کے بارے میں کچھ اچھا عقیدہ نہیں ہے۔
آپ دنیا میں مبلغِ شرع اور مصلحِ خلق بنا کر بھیجے گئے تھے۔ آپ کا فرض تھا، کہ آپ دنیا کو ان باتوں کی ہدایت کریں جو ان کے فلاح و نجاح کی ضامن ہوں اور ان کی زندگی کے مہذب و شائستہ بنانے میں دخیل ہوں۔ اس لئے اپنی شخصیت اپنے منتبسین اور اپنے اعزاز کے رسوخ و اقتدار کو بڑھانا، ان کی طرف لوگوں کے قلوب کو متوجہ کرنا اور دنیا کو ان کا گرویدہ بنانا صرف اس لئے کہ وہ آپ کے عزیز اور رشتہ دار ہیں نفس پروری، خودغرضی اور جانبداری کا ایک مظاہرہ ہو گا جو کسی طرح شانِ رسول کے لائق نہیں ہے۔
ایک مسلمان کو تو یہ سمجھنا لازم ہے کہ رسالت ماب کا ان حضرات کی محبت و الفت کی تبلیغ میں اس قدر اہتمام کرنا اسی لئے تھا کہ خدا ان کو مقتدائے خلق اور عملی تعلیمات کا نمونہ بنانا چاہتا تھا۔ اس لئے رسول ان کی ہر دلعزیزی میں اس قدر کوشش و اہتمام میں منہمک تھے۔ آپ نے محبت کا بیج بویا تھا اس لئے کہ اس سے نہالِ اطاعت بارآور ہو۔


دوسرا سبب ہے کثرتِ فضائل:

ایک انسان جس کی عظمت اس کے مختلف ذاتی خصوصیات و کمالات کے اعتبار سے انسان کے ذہن نشین ہو چکی ہو۔ اس کے افعال و اعمال کو انسان بہت غائر نظر سے دیکھتا اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اہل بیتِ رسول کو یہ خصوصیت بھی انتہائی معراجِ کمال پر واصل کرتی ہے۔ اور رسول نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ ان حضرات کے بیانِ فضائل میں صرف کیا۔ اگر ان کی شخصیتوں کو کوئی ذمہ دارانہ حیثیت دینا منظور نہ تھا، اگر انہیں عام رعیت سے کسی بلند کسی خاص درجہ تک بتانا مقصود نہ تھا تو ان کی شخصیتوں کو اس امتیازی شان سے دنیا میں روشناس کرانے کا کیا مقصد تھا اور ان کے فضائل اس شدومد سے بیان کرنے کی وجہ کیا تھی؟
یقیناً یہ فضائل کا بیان بھی اسی بناء پر تھا کہ یہ مربیٴ خلق اور نمونہٴ عمل ہیں۔ لہٰذا ان کے کمالات کو بیش از بیش صورت پر واضح کرنے کی ضرورت تھی۔


تیسرا سبب کسی شخص سے اغراض کا وابستہ ہونا:

یہ ایسی چیز ہے کہ انسان کے لئے دوسرے کی طرف جذب ہونے کا باعث اور اس کے افعال و اقوال کی اقتدا کا ذریعہ ہوتی ہے۔
اس خصوصیات کو بھی اہل بیت کے لئے نظرانداز نہیں کیا گیا۔ مسلمانوں کی نظر میں بے شک دنیا سے زیادہ آخرت کا سوال مقدم ہے۔ اس لئے دنیا کے نہیں، آخرت کے اغراض اہل بیت سے وابستہ قرار دیئے گئے۔ اور ساقیٴ کوثر، حاملِ لوا، قاسِم جنت و نار، شافِعٴ خلق وغیرہ الفاظ کے ساتھ ان کے روحانی اقتدار کا سکّہ قائم کیا گیا۔ اس سے بھی یہی منظور تھا کہ دنیا ان توقعات کی بنا پر ہی اطاعت و اتباع پر آمادہ ہو سکے۔ اس لئے کہ کسی سے اعانت، امداد سفارش کی توقع اسی وقت حق بجانب ہوتی ہے جب انسان اس کے مسلک کا سالک، اس کے افعال و اقوال کا پیرو بھی ہو۔ انعامات کیلئے جس طرح استحقاق کی ضرورت ہے اسی طرح مراعات بھی ایک جہت استحقاق پر مبنی ہوتی ہے۔ مراحِم خسروانہ کے سلسلہ میں آزادیاں ہوتی ہیں لیکن جرائم پر نظر ڈالی جاتی ہے۔ بعض جرائم اتنے سنگین ہوتے ہیں کہ مراحِم خسروانہ کے تحت میں بھی عفو کے قابل نہیں ہوتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ مراحِم خسروانہ میں بھی استحقاق کو دخل ہے۔
شفاعت، سقایتِ کوثر وغیرہ تمام چیزیں ہیں لیکن انہی لوگوں کے لئے جو استحقاق رکھتے ہوں۔ ان کے لئے نہیں جن کے اعمال دیکھ کر خود شفیعِ اکرم کو شرم آجائے اور وہ شفاعت سے کنارہ کشی کر لیں۔ اس سے بہرحال اتباع کی ضرورت ہے تاکہ شفعاء سے آنکھیں چارکرنے کا موقع رہے پھر ناقص انسانیت کی کمزوریوں سے اگر کچھ فروگزاشتیں رہ جائیں تو اس کے لئے شفاعت و مغفرتِ آلہی کی توقع رکھنا بے جا نہیں ہے۔


چوتھا سبب ہے مظلومیت:

یقیناً مظلوم کی طرف دنیا کا دل کھنچتا اور اس کے افعال و اقوال کے ساتھ غیرمعمولی دلچسپی پیدا ہوتی ہے اور اس سے بھی اطاعت و اتباع کے مقصد کو تقویت پہنچتی ہے۔
یہ صفت بھی اہلِ بیتِ رسول میں انتہائے حدِ کمال کے ساتھ پائی گئی اور جیسی مظلومیت کی مثالیں ان میں نظر کے سامنے آئی ہیں دنیا ان کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
بیان مذکورالصدر کے آخری اجزاء کو غائر نظر سے مطالعہ کرنے سے یہ نتیجہ صاف نکل آتا ہے کہ دنیائے فضائل و مناقب اور دنیائے مصائب دونوں میں ایک ہی روح مضمر ہے اور وہ دعوتِ عمل ہے جس سے اصلاحِ خلق کا مقصد انجام پذیر ہوتا ہے۔ لیکن یہ جب ہی ہے کہ جب اہل بیت کے واقعات کو اس نظر سے دیکھا بھی جائے کہ ان سے کون سے سبق حاصل ہوتے ہیں اور انسان کی عملی زندگی کے لئے کیا نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
مگر افسوس ہے کہ دنیا ان مقاصد پر نظر نہیں ڈالتی اور اہل بیت رسول کے تذکرہ ان کی یادگار اور اسی ذیل میں عزائے حضرات امام حسین کے متعلق دو فریق میں منقسم ہو جاتی ہے۔
ایک فریق معترضانہ طور پر اس ذریعہ کی ذاتی حیثیت پر نظر ڈال کر افادی حیثیت کو نظرانداز کر دیتا ہے۔ اس لئے اس سب کو بیکار کہنے لگتا ہے اور دوسرا فریق معتقدانہ طور پر اس کی ذاتی حیثیت کو مقصد سے الگ کرکے اسے صرف رسوم میں محدود سمجھ لیتا ہے اور اس طرح اصل مقصد کو فوت کر دیتا ہے۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عقل کا استعمال اور ادراکات کا سرچشمہ
عید مباہلہ
آیہٴ” ساٴل سائل۔۔۔“ کتب اھل سنت کی روشنی میں
انہدام جنت البقیع تاریخی عوامل اور اسباب
ماہ رمضان کے دنوں کی دعائیں
جمع بین الصلاتین
ہم اور قرآن
نہج البلاغہ کی شرح
شفاعت کا مفہوم
شب قدر کو کیوں مخفی رکھا گیا؟

 
user comment