اردو
Friday 26th of April 2024
0
نفر 0

قرآن مجید اور امام سجادؑ

قرآن ايک ايسي گرانقدر اور ارزشمند کتاب ہے جو تمام انسانوں کے ليے نمونہ عمل ہے۔ جس پر عمل پيرا ہوکر ہدايت کي ضمانت دي گئي ہے۔ يہ ايک ايسا معجزہ ہے جو اپني مثال آپ ہے۔ قرآن کے مطابق تا روز قيامت نہ ايسي کوئي کتاب پيدا ہوسکتي ہے اور نہ اس سے بہتر۔ قرآن ايک ايسي گران
قرآن مجید اور امام سجادؑ

 قرآن ايک ايسي گرانقدر اور ارزشمند کتاب ہے جو تمام انسانوں کے ليے نمونہ عمل ہے۔ جس پر عمل پيرا ہوکر ہدايت کي ضمانت دي گئي ہے۔ يہ ايک ايسا معجزہ ہے جو اپني مثال آپ ہے۔ قرآن کے مطابق تا روز قيامت نہ ايسي کوئي کتاب پيدا ہوسکتي ہے اور نہ اس سے بہتر۔

قرآن ايک ايسي گرانقدر اور ارزشمند کتاب ہے جو تمام انسانوں کے ليے نمونہ عمل ہے۔ جس پر عمل پيرا ہوکر ہدايت کي ضمانت دي گئي ہے۔ يہ ايک ايسا معجزہ ہے جو اپني مثال آپ ہے۔ قرآن کے مطابق تا روز قيامت نہ ايسي کوئي کتاب پيدا ہوسکتي ہے اور نہ اس سے بہتر۔ قرآن کي حکمت تمام دانشمندوں کو اپنے سامنے تعظيم سے سر خم کرواتي ہے۔ جتنا بھي انسان پاک فطرت صفاي روح و قلب اور طہارت ظاہري و باطني سے بہرہ مند ہو اتنا ہي وہ اس نوراني کتاب سے فيضياب ہوسکتا ہے اور اس کے جمال کو اپني بصيرت سے مشاہدہ کرسکتا ہے، جيسا کہ قرآن فرماتا ہے:﴿لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ﴾(۱)۔

جہاں تک پيغمبراکرم (ص) اور اس کے اہل بيت (ع) کا تعلق ہے وہ خدا کے طرف سے منتخب ہوئے ہيں اور آيت تطہير کے مطابق وہ پاکيزگي اور قداست سے بہرہ مند ہيں اور ہر پليدي و برائي سے مبرا ہيں يہي قرآن کے حقيقي مفسر ہيں انکي عصمت کسي سے پوشيدہ نہيں ہيں۔ انہي نوراني چہروں ميں ايک تابناک چہرہ جناب سيد الساجدين حضرت امام زين العابدين کا ہے اس تحرير ميں قرآن کو امام زين العابدين کي نگاہ سے ديکھنے کي کوشش کي گئي آو! امام کے ہاتھوں معارف قرآني کا جام نوش کريں۔

عظمت قرآن:

امام زين العابدين، رسول اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) سے نقل کرتے ہيں کہ وہ فرماتے تھے: "من اعطاه الله القرآن فَرَأى‌ انّ احداً اُعطى افضل ممّا اُعطى فقد صغّر عظيما و عظّم صغيراً"؛ "جس آدمي کو خدا تعاليٰ نے قرآن کا علم عطا کيا ہو اگر وہ يہ تصور کرے کہ کسي کو اس سے بہتر الہي ہديہ عطا کيا گيا ہے حقيقت ميں اس نے عظيم کو پست اور پست کو عظيم سمجھا ہے(٢)۔

خصوصيات قرآن:

امام زين العابدين اپنے نوراني دعاؤں ميں قرآن کي اس طرح توصيف کرتے ہيں:

الف) نور ہدايت:

قرآن مجيد نے اپني صفت کلمہ نور سے بيان کي ہے جيسے اس آيۃ شريفہ ميں ذکر ہوا ہے:﴿ وَأَنزَلْنَا إِلَيْکُمْ نُورًا مُّبِينًا﴾(۳) ليکن يہ نورانيت کن افراد کے ليے ہے؟ امام اس کا جواب يوں بيان کرتے ہيں: "و جَعَلْتَهُ نوراً نَهتَدِى مِن ظُلَمِ الضَّلالَة والجَهالة باتّباعه"۔ "خدايا تم نے قرآن کو نور قرار ديا جس کي پيروي سے ہم ظلمت کے اندھيرے اور جہالت سے نجات حاصل کرسکيں"(۴)۔

قرآن کے نہ بجھنے والے نور کي تشريح امام سجاد کچھ اس طرح کرتے ہيں: "و نور هُدىً لايُطْفَأ عَنِ الشّاهِدين برهانه"؛ "اور اس کو ہدايت کا نور قرار ديا جو مشاہدہ کرنے والوں کے ليے کبھي خاموش نہ ہونے والي دليل ہے"(۵)۔

ب) مرض کي دوا:

اللہ قرآن پاک ميں ارشاد فرماتا ہے:﴿وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاء وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ﴾(۶)۔ "اور ہم قرآن ميں وہ سب کچھ نازل کررہے ہيں جو مومنوں کے لئے شفا اور رحمت ہے"۔ ليکن سوال يہ ہے کہ کب اور کن لوگوں کے لئے؟ امام زين العابدين اس سوال کا جواب اپنے پربرکت الفاظ سے کچھ اس طرح ديتے ہيں: "و شفاءً لِمَنْ اَنْصَتَ بِفهم التّصديق الى اسْتماعه"؛ "قرآن شفا ہے اس شخص کے لئے جو اِس کو يقين اور تصديق کے ساتھ سمجھنا چاہتا ہے اور اس کے سننے کے ليے خاموش رہتا ہے"۔

ميزان عدالت:

قرآن مجيد کا ارشاد ہے:﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ کُونُواْ قَوَّامِينَ لِلّهِ شُهَدَاء بِالْقِسْطِ وَلاَ يَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُواْ اللّهَ إِنَّ اللّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ﴾﴿۸﴾۔ "اے ايمان والو خدا کے لئے قيام کرنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہي دينے والے بنو اور خبردار کسي قوم کي عداوت تمہيں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ انصاف کو ترک کردو، انصاف کرو کہ يہي تقوٰي سے قريب تر ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے"۔ قرآن پيغمبر اکرم کو مخاطب قرار دے کر فرماتا ہے:﴿وَقُلْ آمَنتُ بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِن کِتَابٍ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَکُمُ﴾(۹)۔ "اور يہ کہيں کہ ميرا ايمان اس کتاب پر ہے جو خدا نے نازل کي ہے اور مجھے حکم ديا گيا ہے کہ تمہارے درميان انصاف کروں"۔ اور عدالت خانوادہ تشکيل دينے کے ليے پايہ و کرسي جانتے ہوئے فرماتا ہے:﴿فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُواْ فَوَاحِدَةً﴾(۱۰)۔ اور اسي طرح اقتصادي روابط کے لئے بھي بنياد قرار ديا ہے:﴿وَأَوْفُواْ الْکَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ﴾(۱۱)۔ "اور ناپ تول ميں انصاف سے پورا پورا دينا"، اور اسي طرح اختلافات کا حل بھي عدالت کے مطابق ہي چاہتا ہے:﴿فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ﴾(۱۲)۔ "ان ميں عدل کے ساتھ اصلاح کردو اور انصاف سے کام لو کہ خدا انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے"۔

ليکن عدالت کو يقيني بنانے کے لئے کن قوانين و ضوابط اور معياروں کي ضرورت ہے؟ امام زين العابدين (عليہ السلام) فرماتے ہيں: "و ميزان عدلٍ لايَحيفُ عن الحقّ لسانه"۔ "قرآن عدالت کي ترازو ہے اس کي زبان حق گوئي سے باز نہيں رہتي ہے"(۱۳)۔

زيبا تلاوت:

پيغمبر اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) ايک حديث شريف ميں ارشاد فرماتے ہيں: "لکلّ شى‌ء حِلية و حِيلة القرآن الصّوتُ الحسن"۔ "ہر چيز کے لئے زينت ہوتي ہے اور قرآن کي زينت اچھي آواز ہے"(۱۴)۔ امام صادق (عليہ السلام) ترتيل کے بارے ميں اس طرح تفسير کرتے ہيں: "آن است که در آن درنگ کنى و صداى خويش را زيبا سازى"(۱۵)۔ اس جھت بھي امام سجاد نصب العين ہيں، امام صادق (عليہ السلام) فرماتے ہيں: "کان علىّ ابن الحسين صلوات الله عليه احسن الناس صوتاً بالقرآن و کان السّقّاؤون يمرّون فيقفون ببابه يسمعون قرائتَه و کان ابو جعفر عليه السلام احسن الناس صوتاً"(۱۶)۔"على بن الحسين‌(عليہ السلام) خوش صداترين افراد در خواندن قرآن بود. افراد سقا همواره به هنگام عبور،بر در خانه‌اش مى‌ايستادند و به قرائت او گوش مى‌دادند. و ابوجعفر (امام باقرعليه السلام) نيز نيکوترين صدا را در خواندن قرآن داشت"(۱۷)۔

قرآن سے الفت:

زہري کہتا ہے ميں نے امام علي بن الحسين (عليہ السلام) نے فرمايا: "لو مات مَنْ بين المشرق و المغرب لما استوحشتُ بعد اَنْ يکون القرآن معى"(۱۸)۔ "اگر تمام لوگ مشرق سے مغرب تک مر جائے، چونکہ قرآن ميرے ساتھ ہے؛ مجھے کوئي وحشت نہيں ہوگي"(۱۹)۔

قرآن اور آخري زمانے کے لوگ:

امام سجاد (عليہ السلام) سے توحيد کے بارے ميں سوال پوچھا گيا آپ نے فرمايا: "خداوند جانتا تھا کہ آخر زمانے ميں لوگ زيادہ تفکر کرتے ہونگے اس ليے خداوند نے سورہ توحيد اور سورہ حديد تا ﴿عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ﴾ نازل فرمايا۔۔۔"(۲۰)۔

قرآن ميں تفکر:

زہري کہتا ہے: ميں نے امام علي بن الحسين (عليہ السلام) سے سنا کہ: "آيات القرآن خزائن فکلما فتحت خزانةٌ ينبغى لک ان تنظر ما فيها"۔ "قرآن مخفي خزانہ ہے پس جب بھي اس خزانے کا دروازہ کھولا جائے بہتر ہے کہ جو کچھ بھي اس ميں ہے اس پر نظر ڈالو"(۲۱)۔

حروف مقطعہ کي تفسير:

قرآن مجيد کے انتيس سورے حروف مقطعہ سے آغاز ہوتے ہيں مفسروں نے ان کے مختلف معني ذکر کئے ہيں مہمترين تفسيروں ميں سے ايک يہ ہے کہ قرآن کريم انہي حروفوں کا نمونہ ہے جو تمام انسانوں کے اختيار ميں ہيں اگر توانائي رکھتے ہو تو اس جيسا اختراع کرو۔

امام زين العابدين (عليہ السلام) فرماتے ہيں: "قريش اور يہود قرآن کو بے جا نسبت ديتے تھے۔ اور کہتے تھے قرآن سحر ہے اس کو (پيغمبر نے) خود ايجاد کيا ہے اور خدا سے منسوب کيا ہے خدا نے انکو اعلان فرمايا (الم۔۔۔) يعني اے محمد! يہ کتاب جو ہم نے آپ پر نازل کي ہے انہي حروف مقطعہ (الف۔لام۔ميم) ميں سے ہيں جو آپکي زبان اور آپکے ہي حروف ہيں۔(انکو کہو) اگر اپنے مطالبے ميں سچے ہو تو اس جيسا لاو"(۲۲)۔

خدا کے خاص بندوں کي خصوصيتيں:

قرآن کريم کا ارشاد ہے:﴿أَلا إِنَّ أَوْلِيَاء اللّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ﴾(۲۳)۔ "آگاہ ہوجاؤ کہ اوليائ خدا پر نہ خوف طاري ہوتا ہے اور نہ وہ محزون اور رنجيدہ ہوتے"، اولياء خدا کي خصوصيتيں کيا ہوتي ہيں؟ عياشي امام باقر (عليہ السلام)سے نقل کرتا ہے کہ ميں نے علي بن الحسين (عليہ السلام) کي کتاب ميں يہ دريافت کيا کہ اولياء خدا کو نہ خوف ہوتا ہے اور نہ ہي غم و بريشاني چونکہ واجب الٰہي کو انجام ديتے اور رسول اکرم (صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم) کي سنت کو پکڑا ہے(پر عمل کرتے ہيں)۔جو کچھ خدا نے حرام قرار ديا ہے اس سے پرہيز کرتے ہيں اور دنيا ميں جلد فاني ہونے والي زندگي کي زينت سے زہد اختيار کيا ہے اور جو کچھ خدا کے پاس ہے اس کي طرف رغبت رکھتے ہيں اور پاک رزق کے تلاش ميں رہتے ہيں اور فخرفروشي اور زيادہ طلبي کا ارادہ نہيں رکھتے ہيں اور اس کے بعد اپنے واجب حقوق انجام دينے کےلئے انفاق کرتے ہيں۔ يہ وہ ہيں جنکي آمدني ميں اللہ تعالٰي نے برکت عطا کي ہے اور جو کچھ آخرت کيلئے پہلے سے ہي بيجتے ہيں اس کا ثواب انکو ديا جائےگا(۲۴)۔

حقيقي سپاہي:

مکہ کے راستے ميں عباد بصري امام زين العابدين (عليہ السلام) سے ملاقات کرتا ہے۔ اعتراض کرتے ہوئے کہتا ہے: جہاد اور اسکي سختي کو چھوڑديا اور حج اور آسائش کي طرف آئے ہو؟ اس کے بعد آيہ کريمہ:﴿إِنَّ اللّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الجَنَّةَ﴾ کي تلاوت کي۔ امام نے فرمايا: آيت کا اگلا حصہ بھي بڑھ لو! عباد بصري نے دوسري آيت کي تلاوت کي:﴿ التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ الْحَامِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاکِعُونَ السَّاجِدونَ الآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنکَرِ وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللّهِ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ﴾(٢۵)۔ "يہ لوگ توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد پروردگار کرنے والے، راس خدا ميں سفر کرنے والے، رکوع کرنے والے، سجدے کرنے والے، نيکيوں کا حکم دينے والے، برائيوں سے روکنے والے اور حدود الٰہيہ کي حفاظت کرنے والے ہيں اور اے پيغمبر آپ انہيں جنت کي بشارت ديديں"۔ اس وقت امام نے فرمايا: جب بھي ايسے افراد پاؤں جن ميں يہ اوصاف ہو انکے ہمراہ جہاد حج سے افضل ہے(٢۶)۔

زہد کي معني:

کچھ لوگ تصور کرتے ہيں کہ زہد کي معني اجتماع سے دوري اور زندگي کي خوبصورتي سے ہاتھ دو لينا ہے۔جب کہ قرآن مجيد فرماتا ہے:﴿قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللّهِ الَّتِيَ أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالْطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ﴾(٢۷)۔ "کس نے اس زينت کو جس کو خدا نے آپنے بندوں کے لئے پيدا کيا ہے اور پاکيزہ رزق کو حرام کرديا ہے"۔ اور اسي طرح دعا کي صورت ميں انسان کو سکھايا کہ خدا سے دنيا اور آخرت کي نيکي طلب کرے:﴿رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً﴾(٢۸) اس بارے ميں امام سجاد (عليہ السلام) فرماتے ہيں: "اَلا و انّ الزهد فى آية من کتاب الله لِکَيْلَا تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَکُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاکُمْ"۔ "خبردار! زہد جو قرآن کي اس آيت ميں ہے فرماتا ہے جو کچھ آپ نے کھويا ہے اس کے بارے ميں افسوس نہ کرو اور جو کچھ آپ کے پاس ہے اس سے وابستہ اور خوش نہ ہوجاو"(٢۹)۔

اسي طرح نہج البلاغہ ميں پڑھتے ہيں کہ امام فرماتے ہيں: "زہد قرآن کے دو کلموں ميں ہے جيسے خدا فرماتا ہے:﴿لِکَيْلَا تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَکُمْ...﴾ جو بھي اپنے گزشتہ پر افسوس نہ کرے اور اپنے مستقبل پر مغرور اور وابستہ نہ ہوجائے اس نے زہد کو دونوں جانب سے حاصل کيا ہے"(۳۰)۔

عالم برزخ:

امام سجاد (عليہ السلام) نے اس آيہ کريمہ:﴿وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ﴾(۳۱)۔ "ان کے پيچھے ايک عالم برزخ ہے جو قيامت کے دن تک قائم رہنے والا ہے" کي تلاوت کے بعد فرمايا: "هو القبر و انّ لهم فيها معيشةً ضنکا و الله اِنّ القبر لروضةٌ من رياض الجنة او حُفْرَةٌ مِن حُفَرِ النّار"۔ "بزرخ قبر ہے جس ميں انکے لئے زندگي گزارنا سخت ہے خدا کي قسم بہشت کے باغوں ميں سے ايک باغ يا جہنم کے گھڈوں ميں سے ايک گھڈا"(۳٢)۔


source : wilayat.in
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

آخري سفير حق و حقيقت
معصومین كی نظر میں نامطلوب دوست
قیام حسین اور درس شجاعت
دین اور اسلام
انسانی تربیت کی اہمیت اور آداب
خواہشیں ! احادیث اہلبیت کی روشنی میں
غدیر کا ھدف امام کا معین کرنا
اهدِنَــــا الصِّرَاطَ المُستَقِيمَ ۶۔ همیں ...
عظمت کعبہ قرآن کے آئینہ میں
بہ کعبہ ولادت با مسجد شہادت

 
user comment