اردو
Monday 13th of May 2024
0
نفر 0

شیعیان کشمیر، درپیش مسائل اور انکا حل زیر عنوان کانفرنس

کی رپورٹ کے مطابق مجمع اسلامی کشمیر کے زیر اہتمام 30 اگست 2015ء شالنہ سرینگر کشمیر میں ایک روز کانفرس منعقد ہوئی، ایک روزہ کانفرنس زیر عنوان ’’شیعیان کشمیر کو درپیش مسائل اور ان کا حل‘‘ کا آغاز تلاوت کلام پاک سے
شیعیان کشمیر، درپیش مسائل اور انکا حل زیر عنوان کانفرنس

۔ کی رپورٹ کے مطابق مجمع اسلامی کشمیر کے زیر اہتمام 30 اگست 2015ء شالنہ سرینگر کشمیر میں ایک روز کانفرس منعقد ہوئی، ایک روزہ کانفرنس زیر عنوان ’’شیعیان کشمیر کو درپیش مسائل اور ان کا حل‘‘ کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا، تلاوت کے بعد کشمیر کے نامور علماء کرام و دانشور حضرات نے سامعین سے منتخبہ موضوع کے تحت خطاب کیا، علماء کرام نے شیعیان کشمیر کی علمی، اقتصادی، دینی، سماجی، سیاسی و ثقافتی پسماندگیوں کے علل و اسباب ذکر کرنے کے بعد ان کے سد باب کے لئے راہ حل بیان کیا، علماء نے یہ بات زور دے کر کہی کہ کشمیر کے شیعیوں کو اگر ان پسماندگیوں سے نکلنا ہے تو قوم کے ہر فرد بالخصوص نوجوانوں اور باشعور افراد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، اسی صورت میں یہ قوم ایک مثالی قوم بن سکتی ہے۔

کانفرس میں مقررین حضرات نے شعیان کشمیر کی سماجی حالت پر بحث کرتے ہوئے سامعین کو سماجی برائیوں سے بھی با خبر کیا کہ سماج کی کن کن برائیوں کو ہم نے خود ہی جنم دیا اور اب ہماری یہ حالت بنی ہے کہ اب ہمیں یہ برائیاں نہیں لگ رہی بلکہ سماج کا حصہ نظر آتی ہے، کانفرس میں شیعہ جوانوں کی موجودہ حالات کا بھی ایک جائزہ لیا گیا اور تاکید کی گئی کہ جوانوں کو دشمنوں کے ہر وار کا مقابلہ کرنے کے لے تیار رہنا چاہے کیونکہ دشمن طاق میں بیٹھا ہوا ہے کہ کس طرح نوجوانوں کو گمراہ کیا جائے، اگرچہ شیعہ جوانوں میں بہت صلاحیت موجود ہیں مگر وسائل سے محروم، قوم میں تبلیغی ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے سماج میں نوجوان غلط رسومات اور غلط عادتوں منجملہ انٹرنیٹ سے غلط استعمال کی طرف راغب ہورہے ہیں۔

شیعیان کشمیر کو درپیش مسائل اور ان کا حل کے حوالے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا الطاف حسین نے کہا کہ شیعہ معاشرے کی تشکیل کی ذمہ داری علماء پر عائد ہوتی ہے، علماء کو اس میں کلیدی رول ادا کرنا چاہیے، اگر علماء اپنے ذمہ داریاں ادا کرتے ہیں تو معاشرے میں پھیلی تمام خرافات، رسومات بد، جمود و سکوت ختم ہوسکتا ہے، اور اگر علماء کرام نے غفلت برتنا شروع کی تو معاشرے کو تباہ ہونے سے کوئی نہیں بچاتا، علماء ربانی ہی ہیں جو ایک ملت کے لئے ترقی کی تمام راہیں کھولتے ہیں اور علماء سوء ہی ہوتے ہیں جو ملت کے لئے ترقی و کامرانی کی راہیں مسدود کرتے ہیں۔

شیعہ معاشرہ میں میڈیا کا رول بھی بیان کیا گیا، اور کہا گیا کہ کشمیر میں شیعوں کے پاس میڈیا نا کے بابر ہے، اور اگر دیکھا جائے تو کشمیر کے اکثریتی طبقہ کے پاس 1300 سے زائد اخبار و دیگر جرائد شائع ہوتے ہیں, بڑے افسوس کی بات ہے قوم کے جوانوں میں قلمی صلاحیت ہونے کے باوجود اپنے نشر و اشاعتی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے قلم کاروں اور نوجوانوں کو عد کیا جارہا ہے، ہمارے نوجوان اپنے مضامین کہیں پر شائع نہیں کرپاتے اگرچہ غیر شیعہ طبقہ اپنے موافق مضامین ہی کو اپنے جرائد میں جگہ دیتے ہیں۔ الکٹرانک میڈیا کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا گیا کہ الکٹرانک میڈیا سے ہم کوسوں دور ہے، درایں اثنا مولانا علمی محمد جان نے اصلاح معاشرے میں نوجوانوں کے کردار پر مفصل روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کشمیری شیعہ نوجوان بیدار و آگاہ ہیں انہیں گائیڈنس کرنے کی ضرورت ہے، اور کشمیر کی سرزمین بہت ذرخیز ہے، ہمیں نوجوانوں کی صلاحیت کو نکھارنے کی ضرورت ہے، نوجوانوں کی تعلیم کے اعلیٰ درجوں پر فائز ہونا ہوگا، نوجوانوں سے ہی ممکن ہے اس ملت کی تقدیر بدل جائے گی۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا غلام رسول نوری نے مثالی معاشرے کی تشکیل کے اصول و ضوابط سے سامعین کو روشناس کیا اور کہا کہ ہمارے ائمہ اطہار علیھم السلام ہمیں تمام ترقی و پیشرفت کے رموز سے آشنا کرچکے ہیں، ہماری نادانیاں حائل ہیں کہ ہم ان ہدایات سے فیضیاب نہیں ہوتے، انہوں نے کہا کہ ایک مثالی معاشرے کا فرد اپنے معاشرے کے دیگر افراد سے لاتعلق ہرگز نہیں رہ سکتا ہے، ہمیں ایک دوسرے سے واقف رہنا ہوگا، اور متحد ہوکر دشمن کی سازشوں کا جواب دینا چاہیے۔ ہم مختلف اہداف کو تب حاصل کرسکتے ہیں جب ہم ایک ہوجائیں گے، اور مل کر کام کریں گے۔ اور کہا کہ مثالی معاشرے کی تشکیل تقویٰ الہی کے بغیر ممکن نہیں ہے، جو چیز ایک شیعہ اپنے لئے پسند کرے وہ دیگر برادران ایمانی کی لئے بھی پسند کرے اور جو چیز خود کے لئے ناپسند کرے وہ دیگر معاشرے کے لئے بھی ناپسند کرے۔

کانفرس میں متعدد شعراء اہل بیت (ع) نے بھی اپنے کلام میں شیعوں کی ذمہ داریوں اور شیعہ اور ولایت پر روشنی دالی، اور کہا گیا کہ ولایت سے منسلک رہنے سے ہی شیعہ قوم مادی و معنوی ترقی حاصل کرسکتی ہے، کانفرنس میں جن مقتدر علماء کرام و دانشوروں نے شرکت کی ان میں مولانا شیخ غلام رسول نوری، مولانا جان نثار علی، مولانا آغا سید یوسف موسوی، مولانا الطاف حسین، مولانا علی محمد جان، مولانا غلام حسین متو، مولانا یاسین حسین، غلام حسین جو، مدہوش بالہامی، سید انیس موسوی وغیرہ شامل ہیں، کانفرنس کے درمیان مجمع اسلامی کشمیر کے روح رواں مولانا غلام محمد گلزار نے سامعین کو مجمع کی کارکردگی کے بارے میں مفصل آگہی بھی دی، انہوں نے کہا کہ مجمع اسلامی کشمیر ایران و نجف سے فارغ التحصیل 115 علماء کرام کا پلیٹ فارم ہے جس نے ہمیشہ فرقہ واریت سے بلند ہوکر شیعیان کشمیر کی فلاح و بہبود، ترقی و پیشرفت، اعلیٰ تربیت و تعلیم کے لئے پہل کی ہے، انہوں نے یقین دہانی کی کہ مجمع اسلامی کشمیر آئندہ بھی مثالی پروگرامز اور کانفرنسز کرکے اپنی ذمہ داریاں ادا کرے گا، صبح 9 بجے شروع ہونے والی یہ کانفرنس شام 6 بجے معروف مرثیہ خواں سید انیس موسوی کے ذکر مصائب حضرت ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام سے اپنے حسن اختتام کو پہنچی، لوگوں نے کانفرس کو بہت سراہا اور آئندہ بھی مجمع اسلامی کشمیر کو اس طرح کی کانفرس منعقد کرنے کی تاکید کی۔


source : abna
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حماس کمانڈر البرغوثی کی صیہونی جیل میں بھوک ہڑتال
القاعدہ، حزب اللہ اور حماس (1)
ایران کی دسویں پارلیمنٹ کے نام رہبر انقلاب ...
ترکی میں دھماکوں پر ایرانی وزیر خارجہ کی شدید ...
کویت کے پارلیمانی انتخابات میں کویتی شیعوں کی ...
مصريوں كی جانب سے ملكی آئين قرآن كريم سے اخذ كرنے ...
فرانس کے شہر گریگنی میں ایک مسجد کی تعمیر
بیت المقدس کے تئیں امتِ مسلمہ کی ذمہ داری
فرانس كی رياست "اوورنی" میں مسجد كی بے حرمتی
مرضیہ افخم،نے عراق بم دھماکوں کی مذمت کی

 
user comment