اردو
Friday 26th of April 2024
0
نفر 0

تقیہ کتاب و سنت کی روشنی میں

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: بے شک ہماری امامت اور ہماری تربیتی روش و سیرت مہربانی، محبت، رواداری، تحمل اور الفت پر مبنی ہے، ہماری انتظامی اور تربیتی روش محبت، عشق، برادری و اخوت، نرمش اور مہربانی و متانت اور وقار و "تقیّہ" پر مبنی ہے؛ اس حدیث میں تقیہ امامت اور حکومت کے لئے قرار دیا گیا ہے اور ۔ ۔ ۔
تقیہ کتاب و سنت کی روشنی میں

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: بے شک ہماری امامت اور ہماری تربیتی روش و سیرت مہربانی، محبت، رواداری، تحمل اور الفت پر مبنی ہے، ہماری انتظامی اور تربیتی روش محبت، عشق، برادری و اخوت، نرمش اور مہربانی و متانت اور وقار و "تقیّہ" پر مبنی ہے؛ اس حدیث میں تقیہ امامت اور حکومت کے لئے قرار دیا گیا ہے اور ۔ ۔ ۔

2

تقیہ کتاب و سنت کی روشنی میں

دوسرا مسئلہ جس کی وجہ سے بہانہ جو لوگ "ہمارے متعصب مخالفین" مکتب اہل بیت علیہم السلام کے پیروکاروں پر اعتراض کرتے ہیں وہ "تقیّہ" کا مسئلہ ہے۔ کہتے ہیں تم تقیہ کرتے ہو؟ کیک تقیہ ایک قسم کی منافقت ہے!؟ وہ اس مسئلے کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں کہ گویا تقیہ فعل حرام، گناہ کبیرہ یا اس سے بھی زیادہ برا فعل ہے! یہ لوگ اس حقیقت سے غافل ہیں کہ قرآن نے متعدد آیات میں واضح انداز سے تقیہ کو "خاص شرطوں" سے مشروط کرکے جائز قرار دیا ہے اور ہمارے مخالفین کے اپنے منابع و مآخذ میں منقولہ متعدد روایات بھی تقیہ کی تصدیق و تأئید کرتی ہیں اور اس کے علاوہ تقیہ (اپنی شروط کی بنیاد پر) عمل کا واضح اور صریح حکم بھی ہے؛ اور یہ لوگ خود بھی زندگی میں کئی بار تقیہ کرکے اس پر عمل کرتے ہیں۔ (1)

اس موضوع کو سمجھنے کے لئے چند ایک نکات کی طرف توجہ دینا ضروری ہے:

1۔ تقیہ کیا ہے؟

تقیہ یہ ہے کہ انسان اپنے ان ضدی اور معاند دشمنوں اور ہٹ دھرم و متعصب مخالفین کی موجودگی میں اپنا دینی عقیدہ چھپا کر رکھے جن سے اس کی جان و مال و ناموس کو خطرہ محسوس ہورہا ہو۔ 

مثال کے طور پر ایک یکتا پرست مسلمان کسی ضدی بت پرست گروہ کے ہاتھوں گرفتار ہوا ہے؛ اب اگر وہ اسلام اور یکتا پرستی کا اظہار کرتا ہے تو دشمن اس کا خون بہاتے ہیں یا اس کی جان و مال یا ناموس کو کوئی نقصان پہنچاتے ہیں چنانچہ وہ اپنا قلبی اور باطنی عقیدہ چھپا کر رکھتا ہے تا کہ نقصان سے محفوظ رہے۔

یا کسی لق و دق صحرا میں ایک شیعہ مسلمان تشدد پسند وہابیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوتا ہے جو شیعہ مسلمانوں کا قتل جائز سمجھتے ہیں؛ ایسی صورت حال میں وہ اپنا عقیدہ چھپا کر رکھتا ہے۔

ہر عقلمند شخص تاکید کرے گا کہ یہ بالکل منطقی اور معقول امر ہے اور ایسے الجھے ہوئے شخص کی اس تدبیر کے پیچھے عقل کا فیصلہ کارفرما ہے کیونکہ کسی کو بھی اپنی جان متعصبین کے تعصب پر قربان نہیں کرنی چاہئے۔

2۔ تقیہ اور منافقت کا فرق

نفاق یا منافقت تقیہ کے بالکل متضاد ہے۔ منافق وہ ہے جو اپنے باطن میں اسلامی اصولوں پر ایمان تک نہیں رکھتا یا پھر ان عقائد کے سلسلے میں شک و تردد و تزلزل یا تذبذب کا شکار ہے مگر مسلمانوں کے بیچ اسلام کا اظہار کرتا ہے۔

جبکہ وہ تقیہ، جس کی ہم بات کررہے ہیں کہ انسان اپنے قلب اور اپنے باطن میں صحیح اور غیر متزلزل عقیدہ اور اسلام کے اصولوں پر مکمل ایمان رکھتا ہے مگر بعض انتہا پسند وہابی عقائد کا پیروکار نہیں ہے اور ان کا ہم عقیدہ ہم مذہب نہیں ہے جو اپنے سوا دوسروں کو کافر سمجھتے ہیں؛ ان کے لئے طرح طرح کے منصوبے بناتے ہيں، انہیں دھمکیاں دیتے ہیں اور قاعدہ یہ ہے کہ ہرگاہ کوئی با ایمان شخص جان، مال اور ناموس کی حفاظت کی خاطر اپنا عقیدہ اس متعصب گروہ سے خفیہ رکھے، یہ تقیہ ہے اور نفاق (منافقت) کے برعکس ہے۔

3۔ تقیہ عقل کے ترازو میں

تقیہ درحقیقت ایک دفاعی اور حفاظتی ڈھال ہے اسی سبب ہماری روایات میں اس کو "تُرْسُ المؤمن" (2) (یعنی مؤمن افراد کا سپر)، کا نام دیا گیا ہے۔

کوئی بھی عقل اس بات کی اجازت نہں دیتی کہ کوئی با ایمان شخص خطرناک اور غیرمنطقی افراد کے سامنے اپنے عقیدے کا اظہار کرے اور اپنی جان، مال، یا اپنی ناموس کو خطرے میں ڈال دے کیونکہ افراد اور وسائل کی بے مقصد تضئیع دانشمندانہ اور عاقلانہ عمل نہیں ہے۔

"تقیہ" اس روش سے شباہت رکھتا ہے جو سپاہی میدان جنگ میں اپناتے ہیں؛ درختوں کے بیچ یا سرنگوں اور خندقوں میں چھپ کر اور اپنا لباس درختوں کے پتوں اور گھاس پھوس کے رنگ کا لباس پہن کر چھپ کر بیٹھتے ہیں تا کہ ان کا خون بے مقصد نہ بہے۔

دنیا کے سارے عقلمند انسان ضدی دشمن کے مقابلے میں اپنی جان بچانے کے لئے تقیہ کی روش سے استفادہ کرتے ہیں اور ایسی صورت میں یہ روش اپنانے پر، کسی کو بھی ملامت کا نشانہ نہیں بناتے۔  پوری دنیا میں ڈھونڈنے سے نہ ملے گا ایسا کوئی جو تقیہ کی شرطیں اور حالات کے باوجود، تقیہ کو قبول نہ کرتا ہو۔

4۔ تقیہ في کتاب اللہ

قرآن مجید نے متعدد آیات میں کفار، مشرکین اور مخالفین کے مقابلے میں تقیہ کو جائز قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر:

الف: مؤمن آل فرعون کا قصہ

ہم قرآن مجید میں مؤمن آل فرعون کے بارے میں پڑھتے ہیں: "وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلا أَنْ يَقُولَ رَبِّى اللهُ وَقَدْ جَاءَكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ ..." (3)

ترجمہ: کہا ایک باایمان شخص نے فرعون کے خاندان والوں میں سے (دین موسی پر قائم شخص) جو اپنے ایمان کو چھپائے رکھتا تھا کہ کیا ایک شخص کو اس بات پر قتل کرو گے کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے اور وہ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے معجزے اور روشن دلیلیں بھی لے کر آیا ہے ...

مؤمن آل فرعون اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے: "وَإِن يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ وَإِن يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُم بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ"۔

ترجمہ: اور اگر وہ (موسی) جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ سے اسی کو نقصان پہنچے گا اور اگر وہ سچا ہوا تو تم کو پہنچے گا کچھ وہ عذاب جس کی تمہارے لیے وہ پیشن گوئی کرتا ہے (اور تمہیں خبردار کرتا ہے)؛ بلاشبہ اللہ منزل تک نہیں پہنچاتا ہے اسے جو حد سے تجاوز کرنے والا، بڑا جھوٹا ہو۔

ب: تقیہ میں کفار کی دوستی

ایک اور واضح قرآنی نصّ میں وارد ہوا ہے:

"لاَ يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللهِ فِى شَىْء إِلاَّ أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً..."۔ (4)

ترجمہ: مسلمانوں کو نہ چاہیے کہ وہ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو دوست بنائیں اور جو ایسا کرے گا وہ اللہ سے بیگانہ ہیں سوائے اس صورت کے کہ جب (دوستی نہ کرنے کی وجہ سے انہیں کوئی جانی و مالی اور ذاتی یا سماجی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو اور) ان سے کسی طرح تقیہ کرنا ہو۔


source : abna
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

ابليس نے پروردگار کی مخالفت كيوں كي؟
غدیر کا دن صرف پیغام ولایت پہنچانے کے لئے تھا؟
تقلید و مرجعیت کے سلسلہ میں شیعوں کا کیا نظریہ ...
کیا ائمہ اطہار (ع ) کی طرف سے کوئی ایسی روایت نقل ...
اس باشعور کائنات کا خالق مادہ ہے یا خدا؟
روزے کی تعریف اور اس کی قسمیں
دعا كی حقیقت كیا ہے اور یہ اسلام میں مرتبہ كیا ...
اگر خون کا ماتم نادرست ہے تو کیا پاکستان میں اتنے ...
کیا اوصیاء خود انبیاء کی نسل سے تھے؟
کیوں عاشور کے بارے میں صرف گفتگو پر ہی اکتفا نہیں ...

 
user comment