اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

تاریخ آغازِ طِب

 

علم طب کے آغاز و ابتداء کے بارے میں اقوالِ عُقلاء مختلف ہیں، بعض مورخین نے اِس علم کی ایجاد کا سہرا کلدانیاں کے سر باندھاہے، بعض مورخ جادوگروں کو اس کا موجد بتلاتے ہیں، بعض کاہنانِ مصر کو اور اکثر نے عقلاء و فلاسفہء یونان کو علم طب کا موجد او ر بانی بتلایا ہے۔ طب درمیان عرب اہلِ عرب نے فارس و روم کے ہمسایہ ممالک سے طب کو حاصل کیا، اور سب سے پہلے طبیب عرب میں ابنِ خدیم ہوا وغیرہ وغیرہ اطبائے اِسلامی اسلام میں سب سے پہلا طبیب خالد ہوا پھر یکے بعد دیگرے نوبت جرجیس تک پہونچی ۔جس نے بغداد میں رہ کر اکثر سریانی کتب کا عربی میں ترجمہ کیا، اور بغداد میں امراضِ جسمانی کے علاج میں نمایاں شہرت حاصل کی۔ اکثر اہلِ دانش کو طبیب بنایا،لیکن یہ کتاب جو ہم پیش کر رہے ہیں، یہ اقتباس اور اختصار ہے رہنمائے طبِ امام جعفر صادق علیہ السلام کا۔ یہ وہ کتاب ہے جس میں احادیث صحیح نقل کی گئی ہیں۔ علم طب کے عمدہ اور بے بہا مطالب ہیں وہ مناظرات ہیں جو امام اور حریفانِ امام میں پیش آئے ہیں اور وہ دلائل ہیں جن سے اِمام کا علمی و طبی مقام روشن و مبرہن ہوتا ہے۔ امام جعفر صادق در عصرِ منصور امام علیہ السلام کی عدالت زمانہءِ منصور دوانیقی میں اہلِ فضل و فضیلت کا مرکز اور دانش و حکمت کی ایک بڑی درسگاہ تھی۔ تشنہ گانِ معرفت آپ کے دریائے علوم سے سیراب ہوتے اور مشتاقانِ اسرار و حکمت رازہائے سربستہ کو اپنے کانوں سے سنتے تھے۔ کتاب توحید مفضل اور بعض مناظرات امام جو اطباءِ ہمعصر سے ہوئے وہ آپ کے مقام علمی اور حکمت تک پہونچنے کیلئے کافی و وافی ہیں۔ اُن رموزو اسرار کا جن کا انکشاف آپ نے اس وقت فرمایا، آج بھی کافی زمانہ گزر جانے کے بعد عصر حاضر کو اسکے اعتراف پر مجبور کر رہا ہے۔ اصل کلام:۔ کتاب مقدس یعنی قرآن خدا کے مقدس و برگزیدہ شخص یعنی محمد عربی پر نازل ہوئی۔ ضروریات و لوازم حیاتِ انسانی کلیةً اس میں جمع کر دی گئیں ۔ مَالِ ھَذَاالْکِتٰبِ لَا یُغَا دِ رُ صَغِیْرَةً وَّ لَا کَبِیْرَةً اِلَّآ اَحْصٰہَا (الکہف آیت نمبر۴۹) ہر چھوٹی اور بڑی چیز ایسی نہیں جو اس میں جمع نہ کر دی گئی ہو۔۔۔۔یہ کتاب ہر زمانہ کی ضروریات اور ہر دور کے لوازمات ماضی ، حال اور مستقبل سب کو اندر لئے ہوئے ہے۔ یہ ہر وقت کے لئے ایک مکمل قانون اور ہر مرد کیلئے ایک مصلح آئین ہے۔ اِس خالقِ کُل نے جو دلِ ہر زرہ اور نفسِ ہر جان سے واقف ہے۔ اس کتاب کو اپنے راست گو ترین پر برائے سعادتِ انسانی نازل فرمایا، تا کہ گمراہانِ حقیقت کو اس کتابِ ہدایت کے ذریعہ راہِ راست پر لگا کر رحمت خداوندی کا مستحق بنائے۔ لہذا خالقِ حقیقی پر یہ لازم تھا کہ اس کتاب میں فلاحِ انسانی کے ہر گوشہ پر روشنی ڈالے تاکہ انسان اپنے ہر فریضہ کو ادا کر سکے۔ قرآن میں ہر چیز کا بیان ہے اور مسلمانوں کے لئے ہدایت و رحمت و بشارت ہے۔ اس میں علم و دانش کے خزانے پوشیدہ ہیں، جو ارشاداتِ آسمانی پر مشتمل ہیں جنکو سوائے خدا اور راسخون فی العلم کے جو چراغِ ہدایت ہیں اور کوئی نہیں جانتا۔ (النحل آیت نمبر۸۹) ’راسخون فی العلم‘ وہ لوگ ہیں جن کو خدا نے رموز و اَسرارِ قرآنی سے واقف کیا ہے اور ان کو تمام مخلوق پر ترجیح دی ہے، اور یہی وہ لوگ ہیں جو راہِ سعادت و رحمت کے رہبر ہیں۔ کیونکہ کتالیفِ قرآنی اور فرائض آسمانی صرف صاحبانِ عقل کے لئے مخصوص ہیں اور عقل سالم کیلئے بدن سالم کی بھی نہایت ضرورت ہے تو لُطف پروردار کا مقتضا یہ تھا کہ وہ اس کتاب میں صحت و سلامتی جسم کا بھی بندوبست فرمائے تاکہ انسان اپنے فرائض کو بخیرو خوبی انجام دے سکے۔ چنانچہ قرآن صحتِ بدن اور سلامتی جسم کا بھی اسی طرح ذکر کرتا ہے جس طرح صحتِ روح کا۔ یعنی قرآن مجموعہ ہے طِب روحانی اور طِب جسمانی کا۔۔ قرآن نے طِب جسمانی کے اس اصول کو جسکو حُکمائے سابقہ نے از اِبتداء تخلیق تا اِیندم اصل اصولِ طِب جسمانی قرار دیاہے بلکہ یہ اصول تا قیامت جاری و ساری رہے گا۔ صرف تین لفظوں میں بیان کرکے دریا کوزے میں سما دیا ہے۔ مختصر ترین آیت میں مکمل طِب:۔ سورئہ اِعراف آیت نمبر۲۹، میں ارشاد ہوتا ہے وَکُلُوْاوَاشْرَبُوْ ا وَلَا تُسْرِفُوْ:۔ یعنی کھاوٴ۔پیئو اور اسراف نہ کرو۔۔۔ تمام تر اطباء بعد تحقیقاتِ علمی اور آزمائشِ طولانی اِس نتیجہ پر پہونچے ہیں کہ صحت و سلامتئی بدن کا انحصار کھانے اور پینے میں میانہ روی پر ہے۔ اگر اعتدال کو ملحوظ نہ رکھا گیا تو افراط و تفریط یقینی جسم کی خرابی اور بیماری کا سبب ہو گی۔ لہذا یہ چھوٹی سی آیت وہ مرکز اور محور ہے جس پر طبِ جسمانی کے تمامتر اُصول گھوم رہے ہیں۔ طب کا پہلا اور سب سے مقدم مسئلہ ہی یہ ہے کہ تمام تر بیماریوں اور عوارضِ معدہ سے شروع ہوتے ہیں معدہ کی خرابی ہی یعنی پُر خوری معمول سے زیادہ کھا لینا ہی انسان کو بیمار کرتا ہے لہذا قرآن نے نسخہ تجویز کیا۔ وَکُلُوْ، کھاوٴ۔ وَاشْرَبُوْ۔پئیو۔ وَلاَ تُسْرِ فُوْ ۔ اسراف نہ کرو یعنی زیادہ نہ کھاوٴ ۔ اِعتدال کو پیشِ نظر رکھو۔ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علمِ طب کے متعلق فرمان رسول بہ کثرت ہیں جو سلامتئی روح کے ساتھ سلامتئی بدن کے بھی ضامن ہیں، اِرشاد ختمی مرتبت ہے:۔ رَوَّحِ الْقُلُوْبَ سَاعَةً بَعْدَ سَاعَةٍ یعنی ہر چیز لحظہ کے بعد دِل کو آرام و راحت پہنچاوٴ۔ تمامتر خوب و بَد اثرات کا باعث انسان کا دل ہے۔ دل کی سلامتی پر تمام اعضاء کی سلامتی موقوف ہے۔ اور بیماری دِل تمام اعضاء کی بیماری کا واحد سبب ہے۔ لہذا سلامتی اور صحت کا بہترین اصول دل کو خوش رکھنا ہے۔ ایک فلسفی کہ مقولہ ہے کہ شادی بیماری کا بہترین علاج ہے۔ خوشی اِنسان کو اپنی طرف متوجہ کرکے انسان کو ہزاروں بیماریوں سے نجات دِلا دیتی ہے۔ ارشاد رسول:۔کل لھو باطل الا ثلث۔ تادیب الموٴللفرس و رمہ عن قوسہ وملاعبة امراتہ فانّھا حق۔ یعنی ہر بازی ناجائز ہے مگر تین(۳):۔ (۱) تربیتِ اسپ (۲) تیر اندازی (۳) تفریح بازنان ہر شخص کے نزدیک بازی و تفریح اِنسانی صحت و سلامتی کے لئے ضروری ہے۔ کوئی دل کو خلاف شرع اشیاء سے خوش کرتا ہے۔ اور شراب نوشی اور قمار بازی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اور بعض عقل و دین سے کام لے کرعقل و دین کی بتلائی ہوئی تفریحات کو اختیار کرتا ہے اور جانتا ہے کہ انسان صرف کھیل کود کیلئے ہی پیدا نہیں کیا گیا۔ فرمانِ پیغمبر اِسلام کے مطابق ان تین چیزوں میں سے کسی ایک یا سب کو اختیار کرناہے۔ بازی با اسپ یعنی گھڑ دوڑ جو دلکو بھی خوش کرتی ہے اور گھوڑے کو تربیت دیکر قابل جنگ و جدل بناتی ہے۔ تیر اندازی تفریح کا سبب بھی بنتی ہے۔ اور میدانِ جنگ میں بھی کام آتی ہے۔ تفریح بازنان باعثِ نشاط بھی ہے۔ اور موجب افزائشِ نسل ارشاد رسول:۔ المعدة بیت کل داؤالحمیہ راس کُلّ دوا۔ یعنی شکم ہر بیماری کا گھر ہے، اور پرہیز ہر علاج کا رازہے۔ اطباء اور عقلاء کے نزدیک بھی ہر بیماری کی جڑ پُر خوری اور ناسازگار اشیاء ہیں۔ ضرب المثل ہے، کہ بیماریوں کا باپ کوئی بھی ہو لیکن بیماریوں کی ماں یقینی غذائے ناسازگار ہے لہذا کھاتے وقت اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ کونسی غذا مفید اور سازگار ہے۔ غذا کے رنگ، لذت اور مزہ کے دھوکے میں نہ آنا چاہئے۔ کسی نے خوب خوب کہا ہے کہ انسان کا منہ، شاید پیٹ سے بھی بڑا ہے جو اِ س قدر کہا جاتا ہے کہ ظرف یعنی پیٹ سما نہیں سکتا۔ ارشاد رسول:۔اعظ کُل بدن ماعودہة۔ یعنی بدن کو اپنی عادی چیزوں سے کامیاب بناوٴ۔ اِنسان ان مفید چیزوں میں سے بھی جس کا وہ عادی ہو گیا ہے اِستعمال کرے اس لئے کہ انسان اپنی زندگی کے کاموں میں سے جس چیز کا عادی ہو جاتا ہے وہ اسکے لئے آسان تر ہو جاتے ہیں اِسی لئے عادی غذا اس کے لئے آسان اور زودہضم ثابت ہوگی۔ البتہ اگر ناسازگار غذاوٴں کا عادی ہو گیا ہے تو ان کو بہ تدریج ترک کرنے کی اِنتہائی کوشش کرے۔ ارشاد رسول:۔ لا تکرھو ا مرضا کُم علی الطعام فانّ اللہ یطعمہم و یستیھم۔ یعنی اپنے بیماروں کو ان کی خواہش کے خلاف کھانے پر مجبور نہ کرو کیونکہ ان کو خدا کِھلاتا اور پلاتا ہے۔ بیمار کو غذا سے پرہیز طبیعت کے خدمات میں سے بڑی خدمت ہے۔ اِس لئے کہ وہ مواد فاسدہ جو جسم میں جم کر بیماری کا باعث بنا ہے وہ نہ کھانے کی وجہ سے جل کر فنا ہو جائے۔۔۔ معدہ ضعیف میں ثقیل غذا ہر گز نہ، پہونچانی چاہئے۔ کیونکہ غذا ہضم نہ ہونے کی وجہ سے شکم میں سڑ کر مختلف مُہلک امراض سرطان وغیرہ کا سبب بنتی ہے، اور اکثرو بیشتر امراض بے انتہا غذا کھانے سے پیدا ہوتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیاہے کہ جن لوگوں کی طویل عمر ہوئی ہے وہ اکثر پرہیزگار اور کم خوراک تھے۔ 

 


source : http://www.alhassanain.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عقل کا استعمال اور ادراکات کا سرچشمہ
عید مباہلہ
آیہٴ” ساٴل سائل۔۔۔“ کتب اھل سنت کی روشنی میں
انہدام جنت البقیع تاریخی عوامل اور اسباب
ماہ رمضان کے دنوں کی دعائیں
جمع بین الصلاتین
ہم اور قرآن
نہج البلاغہ کی شرح
شفاعت کا مفہوم
شب قدر کو کیوں مخفی رکھا گیا؟

 
user comment