اردو
Friday 26th of April 2024
0
نفر 0

حدیث غدیر کا متن

جس طرح غدیر کا واقعہ اور اس کا خطبہ ایک سند کے ذریعہ ھم تک نھیں پہنچا ھے اسی طرح اس کا متن بھی ٹکڑوں ٹکڑوں میں نقل هوا ھے اور مختلف وجوھات جیسے تقیہ اور اس کے مانند چیزیں نیز خطبہ کے طولانی هو نے اوراس کے سب کےلئے مکمل طورپر حفظ نہ هو نے کی وجہ سے غدیر کے اکثر راویوں نے اس کے گوشوں کو نقل کیا ھے لیکن جملہ ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌ مَوْلَا ہُ“اور دوسرے چند جملوں کو تمام راویوں نے اشارتاًیا صاف طور پر نقل کیا ھے ۔ ان تمام باتوں کے با وجود خطبہ کا پورا متن ھم تک پہنچا ھے جیساکہ پھلے حصہ میں ھم نے بیان کیا ھے اور صاحب ولایت کا لطف و کرم ھے کہ اسلام کی اس بڑی سند کو ھمارے لئے محفوظ کیا ھے ۔ 

کلمہ ٴ ”مو لیٰ“ کے معنی کے متعلق بحث 

خطبہ غدیر کو اسلام کا دائمی منشور کھا جاتا ھے اور اس میں اسلام کے تمام پھلو کلی طورپر جمع ھیں لیکن حدیث غدیر کے متن میں علمی بحثیں عام طور سے کلمہٴ ”مولیٰ “کے لغوی اور عرفی معنی کے اعتبار سے ذہنوں کو اپنی طرف مر کوز کئے هو ئے ھیں ۔ 

یہ اس لئے ھے کہ حدیث کا اصل محور جملہ ”مَنْ کُنْتُ مَوْ لَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ “ھے اور جب بھی حدیث غدیر کی طرف مختصر طور پر اشارہ کیا جاتا ھے یھی جملہ مد نظر هو تا ھے ۔راویوں اور محدثین نے بھی اختصار کے وقت اسی جملہ پر اکتفا کی ھے اور اس کے قرائن کو حذف کر دیا ھے ۔ 

اس سلسلہ میں قابل غور بات یہ ھے کہ خطبہ کے مفصل متن اور خطبہ میں پیغمبر اکرم(ص) کے بیان کردہ تمام مطالب کے پیش نظر غدیر میں کلمہ ”مولیٰ “کے معنی اور ولایت سے مراد تمام مخاطبین کےلئے با لکل واضح و روشن تھا اور خطبہ کے متن کامطالعہ کرنے اور خطبہ کی تمام شرطوں کو مکمل طور پر نظر میں رکھنے والے ھر منصف پر یہ معنی اتنے واضح هو جا ئےں گے کہ اس کو کسی بحث اور دلیل کی ضرورت ھی نھیں رھے گی ۔[1] 

کلمہ ٴ”مو لیٰ “کو استعمال کرنے کی وجہ یہ ھے کہ کوئی دوسرا لفظ جیسے ”امامت “،” خلافت “اور ”وصایت “ اور ان کے مانند الفاظ اس معنی کے حامل نھیں ھیں جو لفظ ”ولایت “میں مو جود ھیں اور یہ مندرجہ بالا الفاظ کے معانی سے بالا ھے ۔ 

پیغمبر اکرم(ص) حضرت علی علیہ السلام کی صرف امامت یا خلافت یا وصایت کو بیان کر نا نھیں چا ہتے ھیں بلکہ آپ تو ان کے لو گو ں کے جان و مال و عزت و آبرواور ان کے نفسو ں سے اولیٰ اور ان کے تام الاختیار هو نے کو بیان کرنا چا ہتے ھیں واضح الفاظ میں آپ ان کی ”ولایت مطلقہ ٴ الٰھیہ“یعنی خدا وند عالم کی طرف سے مکمل نیابت کو بیان کرنا چا ہتے تھے اس بنا پر کو ئی بھی لفظ ،لفظ ”مولیٰ “سے فصیح اور بلیغ اورواضح نھیں ھے۔ 

اگر کو ئی اور لفظ استعمال کیا جاتا تو غدیر کے دشمن اس کو بڑی آسانی کے ساتھ قبول کرلیتے یا اس کی تردید میں اتنی تلاش و جستجو نہ کرتے ،اور اگر متعدد معنی رکھنے کی بنا هو تی تو دوسرے لفظوں میں بہت آسان تھی۔وہ اس کلمہ کے معنی سے متعلق شک میں ڈال کر اس کے عقیدتی اور معاشرتی پھلو سے جدا کرنا چاہتے تھے اور اس کو عاطفی اور اخلاقی مو ضوع کی حد تک نیچے لاناچا ہتے تھے ۔ 

غدیر کے مخالفین ”اولیٰ بنفس “کے وسیع معانی سے خوف کھا تے ھیں وہ اس کے معنی کو بڑی اچھی طرح سمجھتے ھیں لہٰذا اس طرح ان کا مقابلہ کرنے کےلئے اٹھ کھڑے هوئے ۔ھم کو اس معنی پر زور دینا چا ہئے، اور اس طرح کے کلمہ کے استعمال کرنے کےلئے پیغمبر اکرم(ص) کا شکریہ ادا کرنا چا ہئے جس نے ھماری اعتقاد میں ایک محکم و مضبوط بنیاد ڈالی ھے جس سے مندرجہ ذیل نتائج اخذ هو تے ھیں : 

پیغمبر اکرم (ص) کی رحلت کے بعد بلا فاصلہ بارہ معصوم اماموںکی امامت و ولایت ۔ 

ان کی ولایت اور اختیار کا تمام انسانوںپر تمام زمان و مکان اور ھر حال میں عام اور مطلق هونا ۔ 

ان کی ولایت کا پروردگار عالم کی مھر سے مستند هو نا اور یہ کہ امامت ایک منصب الٰھی ھے ۔ 

صاحبان ولایت کی عصمت کا خدا وندعالم اور رسول کی مھر کے ذریعہ اثبات ۔ 

لوگوں کا ائمہ علیھم السلام کی ولایت کا عھد کرناان کی طرف سے بالکل رسول اسلام(ص) کی ولایت کے عھد کے مانند ھے ۔ 

سب سے اھم بات یہ کہ اس طرح کے بلند مطالب کے اثبات کا لازمہ ،خداوند عالم کی اجازت اور انتخاب کے بغیر ھر ولایت، شرعی ولایت نھیں ھے،اس طرح ھر اس دین و مذھب کی نفی هو جا تی ھے جو اھلبیت (ع) کے علاوہ کسی اور کی ولایت کو تسلیم کرتاهو۔ 

کلمہ ٴ مولیٰ میں بحث کا منشاٴ

کلمہ ٴ ”مو لیٰ “کے معنی کے سلسلہ میں بحث اس وقت شروع هوئی جب شیعوں کے مخالف اکثر راویوں نے حدیث کے صرف اسی جملہ کو نقل کرنے پر اکتفا کیا اوران کے متکلمین نے اپنا دفاع کرنے کےلئے تاریخ کے تمام قرینوں اور مطالب کو چھوڑتے هو ئے پورے خطبہ سے صرف کلمہ ٴ ”مو لیٰ “کا انتخاب کیا اور اس کے معنی کے سلسلہ میں لغوی اور عرفی بحث کرنا شروع کردی ۔[2] یہ فطری بات ھے کہ ان کے مقابلہ میں علماء شیعہ نے بھی اسی مو ضوع کے سلسلہ میں بحث و جستجو کی ھے اور ان کو لازمی جوابات دئے ھیں اور سب نے نا خواستہ طورپر اسی کلمہ کو مد نظر رکھا ھے ۔ 

واقعہ غدیر کے ھر پھلو کا دقیق و کامل مطالعہ اور خطبہ کے متن میں دقت کرنے سے کلمہ ٴ ”مو لیٰ“ کے معنی واضح هو نے کے لئے بہت سے جاذب نظر مطالب سامنے آتے ھیں : 

پھلی تجلی 

اگر ھم پورے خطبہ پر نظر ڈالیں تو یہ مشاھدہ کریں گے کہ اس کے اکثر مطالب کلمہ ٴ ”مو لیٰ“کے معنی کی تفسیر و تو ضیح ،اس کے مصداق معین کرنے اور معاشرہ میں”ولایت “کی قدر و قیمت اور اس کے توحید و نبوت و وحی سے مرتبط هونے کے بارے میں ھے ۔ 

بنابریں جب پیغمبر اکرم(ص) نے کلمہ ”مو لیٰ “کے معنی واضح و روشن فر ما دئے اور غدیرمیں مو جود تمام افراد (جن کے مابین عرب کے بڑے شاعر حسان بھی تھے )صاحب اختیار هو نے کے معنی سمجھ گئے اور اسی اعتبار سے انھوں نے بیعت کی ، تو پھر اس کا کو ئی مطلب نھیں رہ جاتا کہ آنحضرت (ص) کے کلام کے معنی سمجھنے کےلئے ھم لغت اور اس کے عرفی معنی کی طرف مراجعہ کریں ،چا ھے وہ آنحضرت (ص) کی تفسیر کے مطابق هوں یا تفسیر کے مطابق نہ هوں ۔ 

دوسری تجلی 

یہ بات طے شدہ ھے کہ غدیر کے اجتماع اور خطبہ کا اصل مقصد مسئلہ ولایت کا بیان کرنا تھا اور اس وقت تھا جب لوگوں نے خود پیغمبر اکر م(ص) سے اس سلسلہ میں مطالب سنے تھے ۔ان تمام باتوں کے باوجود ظاھر ھے کہ غدیر کا عظیم اجتماع مسئلہ ٴ ولایت اور کلمہ مو لا کے معنی میں باقی رہ جانے والے ابھام کو رفع کرنے کے لئے تھا ۔ 

اس بنا پر یہ بات بڑی مضحکہ خیز هو گی کہ اس طرح کے مجمع اور ان حساس شرطوں میں ”مولیٰ “ کے سلسلہ میں گفتگو کی جا ئے جو نہ صرف مطالب کو روشن نہ کرے بلکہ اس میں اور زیادہ ابھام پیدا هو جائے اور اس ابھام کو رفع کرنے کےلئے لغت اور اس کے مانند کتابوں کی ضرورت پیش آئے اور ھر عقل مند انسان یہ فیصلہ کرتا هوا نظر آئے کہ اصلا ً اس طرح سے اتنا بڑا جلسہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ !! 

تیسری تجلی 

اس دن کا اجتماع مسئلہ ٴ ولایت میں پیدا هو نے والے ھر ابھام کو دور کرنے کیلئے تھا ،اور اگریہ بنا قرار دی جا ئے کہ اسی مجلس میں، اس مسئلہ میں بڑے ابھام کاآغازهوااور اس میں ایک ایسا عجیب کلمہ استعمال کیا جا ئے جو بہت پیچید گی کا حامل هو ،تو ایسی صورت میں تو یہ کہنا ھی منا سب هو گاکہ: اگراس طرح کی مجلس بر پا ھی نہ هو تی تو بھی مسئلہ ٴ ولایت بہت واضح تھا !!! 

اسی مقام پر آیہ قرآن :محقق هو تی ھے ۔یعنی اگر ابلاغ پیغام اس طرح هو کہ اس کا مطلب چودہ صدیوںمیں روشن و واضح نہ هوا هو تو گو یاحقیقت میں پیغام ابلاغ ھی نھیں هوا ھے !! 

چوتھی تجلی

پیغمبر اکرم(ص) سب سے زیادہ فصیح و بلیغ تھے اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ انھوں نے اپنی زندگی کی سب سے اھم گفتگو میں ایک ایسا مطلب بیان فرمایا کہ جسے سمجھنے کے لئے چودہ سو سال سے مسلمان اس کے تحت اللفظی معنی کو سمجھنے کی خاطربحث کر رھے ھیں اور ابھی تک کسی نتیجہ پر نھیں پہنچ سکے تو یہ آپ کی اس فصاحت و بلاغت کے خلاف هو گا اور کسی پیغمبر نے الٰھی پیغام کواس طرح نھیں پہنچایا ھے !! 

پانچویں تجلی 

یہ سوال پیدا هو تا ھے :کہ جب غاصبین خلافت کو خلیفہ معین کرنے کاکو ئی حق نھیں تھاتو پھر بھی وہ اپنا خلیفہ معین کرتے تھے اور کلمہ ”و لی“سے استفادہ کرتے تھے تو کسی شخص نے یہ کیوں نھیں کھا کہ اس لفظ کے ستّر معنی ھیں ؟جب ابو بکر نے عمر کے لئے لکھا کہ ”:ولَّیْتُکُمْ بعدی عمربن خطاب “ تو ولایت کے معنی میں کو ئی ابھام نھیں تھا اور یہ ابھام صرف غدیر خم میں پیغمبر اسلام (ص)کی گفتگومیں ھی کیوں پیش آیا ؟ 

ظاھر ھے کہ بحث کلمہ کے لغوی معنی اور ابھام میں نھیں ھے بلکہ غدیر کا وزن اتنا زیادہ اور گراں ھے کہ دشمن اس طرح کی مذبوحانہ کو شش کرنے پر مجبور هو گئے ؟ 

چھٹی تجلی 

اسی طرح ذہن میں یہ سوال پیدا هو تا ھے کہ :حدیث غدیر اھل سنت اور شیعوں کے نزدیک متواتر ھے اور بہت کم ایسی حدیثیں ھیں چودہ سو سا ل کے دور ان میں اس کے اتنے زیادہ نقل کرنے والے هوں اگر اس کے معنی اتنے زیادہ مبھم ھیں کہ آج تک کو ئی بھی اس کے واقعی معنی کو نھیں سمجھ سکا ھے اور وہ اتنے احتمالات کے درمیان اسی طرح سرگردان ھے تو اس حدیث کو کیوں نقل کیا گیا اور یہ بڑے بڑے راوی جن میں سے بہت سے علما ء اور مولفین ھیں تو ان کو اس حدیث کے نقل کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟!حدیث مبھم کو نقل کرنے کی کیا ضرورت ھے !حدیث مبھم کی تو سند کو جمع کرنے کی بھی ضرورت نھیں ھے !تو یہ کہنا چاہئے کہ: ”مو لیٰ “ کے اھم معنی تو سب کےلئے واضح و روشن تھے لہٰذا اس کو نقل کرنے کےلئے اتنا اہتمام کیاگیا ۔ 

ساتویں تجلی 

کو ئی شخص یہ سوال کر سکتا ھے :ابوبکر ،عمر ،حارث فھری اور کئی افراد نے یہ سوال کیا :”کیا یہ مسئلہ خدا وند عالم کی طرف سے ھے یا خود آپ کی طرف سے ھے ؟“یہ سب اسی وجہ سے تھا کہ وہ کلمہ ٴ مو لیٰ سے صاحب اختیار هونے کے معنی کو اخذ کرچکے تھے لہٰذا انھوں نے پیغمبر اکرم (ص)سے ایسا سوال کرنے کی جسارت کی ورنہ سب جانتے تھے کہ پیغمبر اکرم(ص) کی تمام گفتار آیہ ”وَمَایَنْطِقُ عَنِ الھَویٰ “ کے مطابق وحی الٰھی اور خداوند عالم کے کلام کے علاوہ اور کچھ نھیں ھے ۔ 

کلمہ مولیٰ کے معنی کا واضح هونا 

بارہ زیادہ اھم قرینے جملہ ” مَنْ کُنْتُ مَوْ لَاہُ ۔۔۔“کے معنی کے بیان گرھیں کہ ان میں ھر ایک تنھا اس کے اثبات کےلئے کا فی ھے ،یھاں تک کہ اگر ان میں سے ایک بھی نہ هوتا پھر بھی اس کے معنی واضح تھے ھم ان کو ترتیب کے ساتھ ذیل میں نقل کر رھے ھیں : 

پھلا قرینہ 

پیغمبر اکرم(ص) نے ”نفس سے اولیٰ هو نا “کے سلسلہ میں پھلے خدا وند عالم اس کے بعد اپنا ذکر فرمایا پھر اس کے بعد اس کلمہ کو امیر المو منین علیہ السلام کے بارے میں استعمال کیا جبکہ ان کی ولایت مطلقہ کے معنی کسی پر پوشیدہ نہ تھے ۔ 

دوسرا قرینہ 

آیت :جس کے آخر میں خداوندعالم فرماتا ھے :یہ کسی بھی حکم الٰھی کے بارے میں نازل نھیں هو ئی ھے لہٰذا اسلام کا سب سے اھم مسئلہ هو نا چا ہئے جس کے با رے میں اس طرح کے مطلب کو مد نظر رکھا گیا ھے ۔ 

تیسرا قرینہ

بیابان و جنگل میں لوگوں کو روکنا وہ بھی تین دن ،نظم و ترتیب کے ساتھ پروگرام کرنا اور ایک استثنا ئی طویل خطبہ ارشاد فرمانا یہ سارے پروگرام پیغمبر اسلام(ص) کی زندگی میں بلکہ پوری تاریخ میں بے مثال ھیں یہ سب سے قوی و محکم دلیل ھے کہ مو لیٰ کے معنی بہت اھمیت کے حامل ھیں ۔ 

چو تھا قرینہ

پیغمبر اسلام(ص) کااس بات کی طرف اشارہ فرمانا کہ میری عمر اختتام کو پہنچ رھی ھے اور میں تمھارے درمیان سے جانے والا هوں ،یہ اس بات کا بہت ھی اچھا قرینہ ھے کہ مو لیٰ کے معنی آپ کی رحلت کے بعد والے ایام سے متعلق هو جو وھی امامت اور وصایت ھیں ۔ 

پانچواں قرینہ

پیغمبر اکرم (ص)نے اس پیغام کے پہنچانے پر کئی مرتبہ خدا وندعالم کو اپنا گواہ قرار دیا کہ کسی بھی حکم الٰھی کو پہنچا نے پر آپ نے ایسا نھیں کیا ۔اس کے بعد آپ (ص) نے متعدد مرتبہ لوگوں سے یہ بھی چاھاکہ ”حاضرین غائبین تک یہ پیغام پہنچا دیں “ایساکسی اور حکم الٰھی کے لئے نھیں فرمایا ۔ 

چھٹا قرینہ

آنحضرت (ص) کا اس بات کی تصریح فرمانا کہ مجھے ڈر ھے کھیں لوگ میری تکذیب نہ کریں حالانکہ کسی دوسرے حکم الٰھی میں آپ کو ایسا خو ف نھیں تھا ۔ظاھر ھے کہ جا نشین کا معین کرناھی وہ حساس نکتہ ھے جسے لوگ آسانی سے قبول نھیں کر سکتے ھیں ۔ 

ساتواں قرینہ

آیت :بھی مندرجہ بالا آیت کے مانند کسی بھی حکم الٰھی کے سلسلہ میں نازل نھیں هو ئی اور یقیناً وہ حکم جس کے سلسلہ میں یہ آیت نازل هو ئی ھے وہ اسلام کا سب سے اھم حکم هو نا چاہئے جس کے ذریعہ دین کی تکمیل هو رھی ھے ۔ 

آٹھواں قرینہ

بیعت کا مسئلہ جو خطبہ کے دوران زبانی طورپر بیان کیا گیا اور خطبہ کے بعد ھاتھ کے ذریعہ انجا م دیا گیا اس کا ولایت کو قبول کرنے کے علاوہ کو ئی دوسرا مطلب نھیں هوسکتاھے ۔ 

نواں قرینہ 

غدیر خم میں مو جود لوگوں کا بیعت کرنا اور مبارک باد پیش کرنا اور دوست و دشمن کے ذریعہ هو نے والی گفتگو سے معلوم هوتا ھے کہ انھوں نے اس جملہ سے ولایت اور امارت کے معنی سمجھے تھے اور پیغمبر اکرم(ص) نے بھی اس طرح کے مطلب کے اخذ کرنے کی نھی نھیں فرما ئی ھے یا ان کی اصلاح نھیں کی ھے۔ 

دسواں قرینہ 

حسان بن ثابت کے ذریعہ پڑھے جا نے والے اشعار جن کی پیغمبر اکرم (ص)نے تا ئید فرما ئی یہ اس بات کی قطعی دلیل ھے انھوں نے بھی مولیٰ سے”اولیٰ بہ نفس “کے معنی سمجھے تھے ۔چونکہ وہ عرب کے بڑے ادباء اور شعراء میں شمار هو تا ھے لہٰذا وہ لغوی اعتبار سے دوسرے ھر لغتنامہ پر ترجیح رکھتا ھے چونکہ لغتنامہ میں صرف کلمہ کے معنی بیان کئے جاتے ھیں لیکن اس مورد معین کے کونسے معنی حاضرین کے ذہن میںآتے ھیں یہ خداوندعالم کا لطف و کرم تھا کھاتنا بڑا لغت شناس شاعر غدیر خم میں حا ضر تھا اور اس نے اپنے ذہنی تبادر کااسی مقام پر صریح طور پر اعلان کیا یھاں تک کہ اس کو شعر کی صورت میں ڈھال دیا جو ھمیشہ کے لئے محکم سند ھے۔ 

گیار هواں قرینہ

حارث فھری کی داستان مو لا کے معنی میں شک کر نے والوں کے لئے ایک قسم کا مباھلہ تھا اس نے صاف طور پر یہ سوال کیا کہ کیا ” مولیٰ “کا مطلب یہ ھے کہ علی بن ابی طالب ھمارے صاحب اختیار هو ں گے ؟اس مباھلہ میںخداوند عالم نے فوراً حق کی نشاندھی کرائی اور حارث پر عذاب نازل فرمایا اور اس کو ھلاک کیا تاکہ ”مو لیٰ “ کا مطلب ”اولیٰ بہ نفس “ثابت هو جائے ۔ 

بارهواں قرینہ 

حضرت عمر نے وھیں غدیر میں جملہ ”اَصْبَحْتَ مَوْلَایَ وَمَوْلیٰ کُلِّ مُوٴْمِنٍ وَمُوٴْمِنَةٍ“استعمال کیا جس سے اس بات کا دعویٰ کیا جاسکتا ھے کہ دشمن کا اس سے بہتر کو نسا اقرار هو گا ۔کلمہ ٴ ” اَصْبَحْتُ “اس نئے واقعہ کی طرف اشارہ ھے اور کلمہ ٴ ”کُلْ “ولایت مطلقہ کی طرف اشارہ کرتا ھے یہ اقرار اس بات کی علا مت ھے کہ دشمن نے بھی اس کو قبول کیا ھے ۔ 

تیرهواں قرینہ

علی بن ابی طالب کے سامنے حاضر هو کرآپ (ع) کو”امیرالمو منین کے عنوان سے سلام کرنے “ کا حکم عنوان بھی مو لیٰ کے لئے امارت کے معنی کو ثابت کرتا ھے اور اس کا عملی اقرار بھی کرنا ھے ۔ 

معصومین علیھم السلام کے کلام میں مو لیٰ کا مطلب 

اس سے اچھی اور کیا بات هو سکتی ھے کہ ھم غدیر میں پیغمبر اکرم(ص) کے کلمہ مو لیٰ “کے معنی کاصاحبان غدیراور ائمہ معصومین علیھم السلام سے سوال کریں : 

۱۔اس چیز میں اطاعت کرنا جسکو دوست رکھتے هو یا دوست نھیں رکھتے هو 

پیغمبر اکرم(ص) سے سوال کیاگیا :جس ولایت کے ذریعہ آپ ھماری نسبت ھم سب سے مقدم ھیں وہ کیا چیز ھے ؟آنحضرت (ص) نے فرمایا :جن تمام چیزوںکو پسندیانا پسند کرتے هو ان سب میں ھمارے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنااور ھماری اطاعت کرنا ۔[3] 

۲۔حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کےلئے نمونہ 

غدیر خم میں جناب سلمان نے آنحضرت (ص) سے سوال کیا :حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کس ولایت کے مانند ھے ؟آپ (ص) نے فرمایا :ان کی ولایت میری ولایت کے مانند ھے ۔میں جس شخص پر میںاس کی نسبت زیادہ اختیار رکھتا هوں علی بھی اس کے نفس پر اس سے زیادہ اختیار رکھتے ھیں ۔[4] 

۳۔ولایت یعنی امامت 

حضرت امام زین العا بدین علیہ السلام سے سوال کیا گیا :پیغمبر اکر م(ص) کے اس کلام ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌِّ مَوْلَاہُ “کاکیا مطلب ھے ؟ آپ (ع) نے فرمایا : آنحضرت (ص) نے لوگوں کو خبر دار کیا کہ میرے بعد علی امام ھیں ۔[5] 

۴۔یہ بھی سوال هو سکتا ھے ؟!

ابان بن تغلب نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ ۔۔۔“کے سلسلہ میں سوال کیا توآپ نے فرمایا : 

اے ابو سعید کیا اس مطلب کے سلسلہ میں بھی سوال هو سکتا ھے !؟ پیغمبر اکرم(ص) نے لوگوں کو سمجھا یا کہ میرے بعد حضرت علی علیہ السلام میرے مقام پر هوں گے ۔[6] 

۵۔حزب اللہ کی علا مت 

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ ۔۔۔“کے سلسلہ میں سوال کیا گیاتو آپ (ع) نے فر مایا : 

پیغمبر اکرم(ص) ان کو ایک ایسی نشانی قرار دینا چا ہتے تھے کہ وہ لوگوں کے اختلاف اور تفرقہ کے وقت خداوند عالم کے حزب کی شنا خت هو سکے ۔[7] 

۶ ۔علی (ع) کے امر کے هوتے هوئے لوگوں کو اختیار نھیں ھے 

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ :پیغمبر اکرم(ص) کے غدیر خم کے میدان میں حضرت علی علیہ السلام کے سلسلہ میں اس فرمان ”مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌِّ مَوْلَاہُ کا کیا مطلب ھے ؟آپ (ع) نے فرمایا :خدا کی قسم یھی سوال آنحضرت (ص) سے بھی کیا گیا تو آپ(ص) نے اس کے جواب میں فرمایا : 

خدا وند عالم میرا مو لا ھے اور وہ مجھ پر مجھ زیادہ سے اختیار رکھتا ھے اور اس کے امر کے هوتے هوئے میرا کو ئی امر و اختیار نھیں ھے اور میں مومنوں کا مو لا هوں اور ان کی نسبت ان پر ان سے زیادہ اختیار رکھتا هوں اور میرے امر کے هوتے هوئے ان کا کو ئی اختیار نھیں ھے اور جس شخص کا میں صاحب اختیار هوں اور میرے امر میں اس کا کو ئی دخل نھیں ھے ،علی بن ابی طالب اس کے مو لا ھیں اور اس پر اس کے نفس سے زیادہ اختیار رکھتے ھیں اور ان کے امر کے هوتے هوئے اس شخص کاکوئی امر اور اختیار نھیں ھے ۔[8] 

حدیث غدیر کے متن کے سلسلہ میں کتابوں کا تعارف 

جیسا کہ حدیث غدیر کی سند کے سلسلہ میں کتابوں میں مفصل بحث هو ئی ھے ،حدیث کے متن کے سلسلہ میں بھی بڑی محکم کتابیں تا لیف کی گئی ھیں ھم ذیل میں ان میں سے بعض کتابوںکا تذکرہ کررھے ھیں : 

۱۔عبقات الانوار ،میر حا مد حسین ،غدیر سے متعلق جلدیں ۔ 

۲۔الغدیر علا مہ امینی جلد ۱ صفحہ ۳۴۰۔۳۹۹۔ 

۳۔عوالم العلوم جلد ۱۵/۳صفحہ /۳۲۸۔۳۷۹۔ 

۴۔فیض القدیر فیمایتعلق بحدیث الغدیر،شیخ عباس قمی ۔ 

۵۔المنھج السوی فی معنی المو لیٰ والولی ،محسن علی بلتستا نی پاکستانی ۔ 

۶۔بحا رالانوار جلد ۳۷صفحہ ۲۳۵۔۲۵۳۔ 

۷۔الغدیر فی الاسلام ،شیخ محمد رضا فرج اللہ صفحہ /۸۴ ۔۲۰۹۔ 

۸۔کتاب ”اقسام المو لیٰ فی اللسان “شیخ مفید ۔ 

۹۔رسالہ فی معنی المو لیٰ،شیخ مفید ۔ 

۱۰۔رسالہ فی الحواب عن الشبھات الواردة لخبر الغدیر،سید مرتضیٰ۔ 

۱۱۔معا نی الاخبار ،شیخ صدوق صفحہ ۶۳ ۔۷۳۔ 

اس بات کے مد نظر کہ مفصل استد لالی بحثیں اس کتاب میں بیان کرنا مقصود نھیں ھیں لہٰذا ھم امید کرتے ھیں کہ قارئین کرام مذکورہ کتابوں کو ملاحظہ فرما کر اپنے مقصود تک رسا ئی حاصل کرسکتے ھیں۔ 

_______________________

[1] اس سلسلہ میں مکمل بیان اسی کتاب کے آٹھویں حصہ میں آئے گا ۔ 

[2] کتاب ” عوالم العلوم “جلد ۱۵/۳صفحہ /۳۳۱پر کلمہ ٴ ” مولیٰ “ کے سلسلہ میں مفصل بحث کی ھے اور صفحہ/۵۸۹ پراھلسنت کی تفسیر کی چند کتابوں کے نام درج کئے ھیں جن میں کلمہ ٴ ”مو لیٰ “ کے معنی ”اولیٰ “ بیان کئے گئے ھیں ۔اسی طرح صفحہ /۵۹پر ان راویان حدیث،شعرا اور اھل لغت کے اسماء کی فھرست نقل کی ھے جنھوں نے معنی ”اولیٰ “کو کلمہ”مولیٰ “ کے اصلی معنی سمجھا ھے ذیل میں ھم ان کے نام درج کررھے ھیں : 

محمد بن سائب کلبی م ۱۴۶۔سعید بن اوس انصاری لغوی م۲۱۵،معمر بن مثنی نحوی م ۲۰۹،ابو الحسن اخفش نحوی م ۲۱۵،احمد بن یحییٰ ثعلب م۲۹۱،ابوالعباس مبرّد نحوی م ۲۸۶،ابو اسحاق زجاج لغوی نحوی م ۳۱۱،ابو بکر ابن انباری م۳۲۸،سجستانی عزیزی م۳۳۰،ابو الحسن رمانی م ۳۸۴،ابو نصر فارابی م ۳۹۳،ابو اسحاق ثعلبی م ۴۲۷،ابوالحسن واحدی م ۴۶۸،ابو الحجاج شمنتری م ۴۷۶،قاضی زوزنی م ۴۸۶،ابو زکریا شیبانی م ۵۰۲،حسین فرّاء بغوی م ۵۱۰،جار اللہ زمخشری م ۵۳۸،ابن جو زی بغدادی م ۵۹۷،نظام الدین قمی م ۷۲۸،سبط ابن جو زی م ۶۵۴،قاضی بیضاوی م ۶۸۵،ابن سمین حلبی م ۷۵۶،تاج الدین خجندی نحوی م ۷۰۰،عبد اللہ نسفی م ۷۱۰،ابن صباغ ما لکی ۷۵۵،واعظ کا شفی م ۹۱۰،ابو سعود مفسّرم ۹۸۲،شھاب الدین خفا جی م ۱۰۶۹،ابن حجر عسقلانی ،فخر رازی ،ابن کثیر دمشقی ،ابن ادریس شافعی ،جلال الدین سیوطی ،بدر الدین عینی ۔ 

[3] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۹۶۔ 

[4] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۲۶۱۔ 

[5] معا نی الاخبار صفحہ ۶۳۔ 

[6] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ ۱۲۸۔معا نی الاخبار صفحہ ۶۳۔ 

[7] اثبات الھداة جلد ۲ صفحہ ۱۳۹حدیث ۶۰۶۔ 

[8] عوالم جلد ۱۵/۳صفحہ /۱۳۳حدیث ۱۹۰۔

 


source : http://makarem.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

آخري سفير حق و حقيقت
معصومین كی نظر میں نامطلوب دوست
قیام حسین اور درس شجاعت
دین اور اسلام
انسانی تربیت کی اہمیت اور آداب
خواہشیں ! احادیث اہلبیت کی روشنی میں
غدیر کا ھدف امام کا معین کرنا
اهدِنَــــا الصِّرَاطَ المُستَقِيمَ ۶۔ همیں ...
عظمت کعبہ قرآن کے آئینہ میں
بہ کعبہ ولادت با مسجد شہادت

 
user comment