|
|
البتہ یہ چیز صرف متوسط قسم كے لوگوں سے مربوط ہے اور اس میں انبیاء اور اولیاء الہی شامل نہیں ہیں یعنی وہی لوگ جو خدا پر اعتقاد ركھنے كے باوجود گناہ اور خواہشات نفسانی كے شكار ہوئے ہیں ۔ عالم حشر میں اگر " میزان " كو نہ ركھا جاتا تو انسان كے اعمال اور اس كی حركات و سكنات كو كس پر تولا جاتا ؟ كس بنیاد پر الطاف الہی شامل ہوتا یا منكرین خدا جو عذاب كے مستحق ہیں ان كو جہنم اور قعر مذلت میں كیسے بھیجا جاتا ؟ اس عالم سے وہی لوگ فیضیاب ہوں گے جنھوں نے اپنے نامہ اعمال ، رفتار كردار ، اور عادات واطوار كو مجموعی طور پر الہی بنایا ہو نہ كہ ان لوگوں كے لئے جنھوں نے خدا سے منھ موڑ لیا ہے اور ان كے نامہ اعمال سادے ہیں ۔ اس عالم كو قرآن كی آیات نے مختلف مقامات اور متعدد تعبیرات سے بیان كیا ہے ۔ والوزن یومئذ الحق فمن ثقلت موازینہ فاولئك ھم المفلحون و من خفت موازینہ فاولئك الذین خسروا انفسھم بما كانوا بایاتنا یظلمون 1 ترجمہ : آج كے دن اعمال كا وزن ایك برحق شئی ہے پھر جس كے نیك اعمال كا پلہ بھاری ہوگا وہی لوگ نجات پانے والے ہیں اور جن كا پلہ ہلكا ہوگیا یہی وہ لوگ تھے جنھوں نے اپنے نفس كو خسارہ میں ركھا كہ وہ ہماری آیتوں پر ظلم كررہے تھے ۔ قل ھل ننبئكم بالا خسرین اعمالا ، الذین ضل سعیھم فی الحیواة الدنیا وھم یحسبون انھم یحسنون صفعا اولئك الذین كفروا بایات ربھم و لقائہ فبطت اعمالھم فلا نقیم لھم یوم القیامة و زنا ذالك جزاء ھم جہنم بما كفرو او اتخذو ا آیاتی و رسلی ھزوا } 2 ترجمہ : پیغمبر كیا ہم آپ كو ان لوگوں كے بارے میں اطلاع دیں جو اپنے اعمال میں بدترین خسارہ میں ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں جن كی كوشش زندگانی دنیا میں بہك گئی ہے اور یہ خیال كرتے ہیں كہ یہ اچھے اعمال انجام دے رہے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جنھوں نے آیات پروردگار اور اس كی ملاقات كا انكار كیا ہے تو ان كے اعمال برباد ہوگئے ہیں اور ہم قیامت كے دن ان كے لئے كوئی وزن قائم نہیں كریں گے ان كی جزا ان كے كفر كی بناء پر جہنم ہے كہ انھوں نے ہمارے رسولوں اور ہماری آیتوں كا مذاق بنالیا ہے آیات مذكورہ اس حقیقت كی طرف اشارہ كررہی ہیں كہ جن لوگوں نے میزان عمل گناہوں اور شیطانی اعمال سے پركیا ہے اور اپنی ساری عمر اور اعمال ، افكار كردار ، عادات اور رہن سہن كو صحیح طریقہ سے نہیں گذاراہے ان كے لئے میزان نہیں ہے اور ان لوگوں كو سیدھے جہنم اور اس كے نچلے طبقے میں ڈھكیل دیا جائے گا اور ان كو ذلیل كیا جائے گا ۔ ہشام بن حكم سے مروی ہے كہ ۔یك زندیق (جو امام جعفر صادق علیہ السلام كا سر سخت دشمن تھا) نے امام علیہ السلام سے پوچھا آیا اعمال وزن كئے جائیں گے ؟ امام علیہ السلام نے جواب دیا كہ ۔جس طرح تم اشیاء كو تولتے ہو اس طرح نہیں ہے بلكہ اعمال كو دوسرے طریقے سے تولا جائے گا ، جس میں ایك ایك چیز كی حقیقت معلوم ہوجائے گی ۔ اس (زندیق) نے كہا پھر " میزان " كے كیا معنی ہے ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا ۔ مراد عدل ہے ۔ زندیق نے كہا پھر قرآن كی اس آیت { فمن موازینہ } جس كے نامہ اعمال سنگین ہوں گے) سے كیا مراد ہے ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے جواب دیا ۔جو عمل میں بہتر ہو 3 اس روایت سے چند مطالب سمجھ میں آتے ہیں ۔ 1میزان وہ چیز ہے جس میں عمل كی كیفیت كو تولا جائے گا نہ كہ تعداد و مقدار كو ۔ 2. میزان عدل كی بنیاد پر ہوگا یعنی (اس دنیا اور منزل كی) ہر چیز عمل ، كردار ، رفتار ، اور عادات و اطوار كو (گرچہ چھوٹے ہی كیوں نہ ہوں كو) اسی پر دیكھا جائے گا اور ایك چیز بھی نظر انداز نہیں كی جائے گی ۔ 3. میزان صرف شیطانی اعمال كا ہوگا ۔ بہر حال عالم حشر میں " میزان " كے ذریعہ عمل كی خوبی ، اور روح عمل كو جانچا جائے گا كہ آیا اس میں اخلاص بھی یا نہیں ؟ 4 منبع: مرگ تا قیامت (پرسش های دانشجویی)؛ مؤلف: محمد رضا كاشفی؛ مترجم: سید كرار حسین رضوی گوپالپوری 1. اعراف آیہ ۸ اور ۹ ۔ ترجمہ علامہ جوادی 2. كہف آیہ ۱۰۳ ، ۱۰۴ ۔ ترجمہ علامہ جوادی 3. روی ھشام بن الحكم انہ ساٴل الزندیق ابا عبد اللہ علیہ السلام فقال: اولیس توزن الاعمال ؟ قال : لاان الاعمال لیست باجسام وانما یحتاج الی وزن الشیء من جھل عدد الاشیاء ولا یعرف ثقلھا وخفتھا و ان اللہ لایخفی علیہ شیء قال : فما معنی المیزان ؟ العدل ، قال : فمامعناہ فی كتابہ " فمن ثقلت موازینہ "؟ قال: فمن رجح عملہ "، (بحار الانوار ، ج۷ ص ، صص ۲۴۹۔ ۲۴۸۔ ح۳) ۔ 4. مواقف حشر ص ۴۵ ۔ ۵۵ ۔ |
source : http://shiastudies.net