اردو
Friday 26th of April 2024
0
نفر 0

معصوم ائمہ علیہم السلام اور بیان اسرار الہی

اس جگہ ضروری ہے کہ ایک نکتہ کی طرف نشاندہی کی جائے: وہ یہ کہ ائمہ علیہم السلام نے ایسے دور میں زندگی گذاری ہے جس میں حبتری (۱) کی ملعونہ حکومت نے ماحول میں ایسی گھٹن پیدا کردی تھی جو علوی عدل پر مبنی حکومت کے وجود میں آنے میں رکاوٹ تھی، اسی وجہ سے ہمارے ائمہ علیہم السلام کے پاس الہٰی اسرار کے بیان کرنے کا موقع فراہم نہ تھا، اوراموی وعباسی ستمگر وسرکش اس امر سے روکتے تھے۔

یہی وجہ ہے کہ بر حق امیر اور اولین مظلوم( جس کو اس کے حق سے محروم کیاگیا)حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں :

” کان لرسول اللہ صلّی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم سرّ لا یعلمہ الاقلیل․․․․ ولو لا طغاة ھٰذہ الامّةلبثثت ھٰذا السرّ “ (۲)

رسول گرامی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک ایساراز تھا جس سے سوائے مخصوص افراد کے دوسرے آگاہ نہیں تھے ․․․اگر اس امت کے سرکش افرادنہ ہوتے تو بلا شبہ اس کو ہر ایک پر ظاہر کر دیتا اورلوگوں کے درمیان نشر کر دیتا معلوم ہوا ہمارے ائمہ علیہم السلام نے عوام سے اسرار بیان نہیں فرمائے اور اسے سوائے کچھ مخصوص افرادکے جو آپ کے دوستوں میں سب سے برتر اور خالص تھے کسی اور پر ظاہر نہیں کیا ۔

چنانچہ ا فشاء راز اور اہم معنوی حقائق کا بیان ان کے لئے ممکن نہ ہوا اس کی وجہ یہ تھی کہ عوام میں اسے برداشت کرنے کی قوت نہیں تھی ․اوریہ وجہ بھی تھی کہ لوگ حضرت قائم ارواحنا فداہ کے ظہور تک اس حبتری حکومت کے اندر زندگی گذاریں گے ۔

حضرت امام صادق علیہ السلام آیت کریمہ ” و اللیل اذا یسر “ (۳) کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

” ہی دولة حبتر فھی تسری الیٰ قیام القائم (عج) “ (۴)

اس شب سے مرادحبتر کی حکومت ہے جو حضرت قائم کے قیام تک باقی رہے گی۔

یہی وجہ ہے کہ معصومین علیہم السلام نے بہت سے معنوی حقائق و اسرار کو دعاؤں اور مناجات کے ضمن میں بیان کیا ہے اگر آپ ان کے خواہاں ہیں تو انھیں دعاوٴوں اور مناجات میں تلاش کریں ۔

اہل بیت علیہم السلام نہ صرف سیاسی ماحول اور عوام کی فکری کیفیت کی وجہ سے اسرار کو صراحت کے ساتھ بیان نہیں کر سکے اور انہیں دعاؤں اور مناجات کے ضمن میں بیان کیا ،بلکہ انھوں نے نہایت اہم اعتقادی مسائل اور اعلی معارف کو بھی دعا ، مناجات اور زیارت کی صورت میں بیان کیا ہے جنہیںدعاؤں کی طرف رجوع اور اس میں تحقیق کے ذریعہ معلوم کیا جاسکتا ہے بلکہ اسرار ‘عقاید ‘اور بلند پایہ معارف سے قطع نظر بہت سے مطالب اور مسائل جو انسان کی زندگی میں بنیادی اور حیاتی کردار رکھتے ہیں انھیںبھی بیان فرمایا ہے ، اور انسانی سماج کو زندگی کا بہترین درس دیا ہے۔

بطور مثال صحیفہ کاملہ سجادیہ جس کی صحت کی حضرت حجت ارواحنا فداہ نے تائید فرمائی ہے اگر اس کے اندر دقت کی جاے اور دیکھا جائے تو احساس ہوگا کہ حضرت امام سجاد علیہ السلام نے دعا اور مناجات کے عنوان سے بہت ہی مختصر لفظوں میں زندگی کے عظیم حقائق کوبیان کیا ہے ،اسی طرح دیگر دعاؤں میں توجہ جو حضرت علیہ السلام سے یا اہل بیت علیہم السلام سے صادر ہوئی ہیں اس حقیقت کو بخوبی واضح کرتی ہیں۔

دعاؤں میں جن اہم درسوںکی تعلیم ائمہ علیہم السلام نے ہمیں دی ہے یہاں اس کی کچھ مثالیں آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

مناجات انجیلیہ میں حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں :

اسئلک من الہمم اعلاھا (۵) 

پروردگار! عالی ترین ہمت تجھ سے چاہتا ہوں ۔

امام سجاد علیہ السلام کا یہ کلام ہراس شخص کے لئے جو اس دعا کی کتاب کو ہاتھ میں لیتا ہے اور دعاؤں کو پڑھنے کے ذریعہ پروردگار عالم سے ہم کلام ہوتا ہے بیداری کی گھنٹی ہے ۔

یہ دعا کرنے والا جو بھی ہو گرچہ خود کو بے ارادہ اور نا چیز سمجھتا ہے اسے چاہئے کہ پروردگار عالم سے بہترین اورعالی ترین ہمت طلب کرے تاکہ اپنی زندگی میں عظیم تبدیلی پیدا کرسکے اور اپنے وجود کو سماج کے لئے حیاتی اور بنیادی بنا سکے ،یہ وہ حقیقت ہے جو قلب پر نور امامت کی چمک کے ساتھ جاودانی بن جاتی ہے ۔

جو کچھ دعاؤں اور ․․․حضرات معصومین علیہم السلام سے ہم تک پہنچا ہے وہی ولایت کا طور سینا ہے ، جو وادی ایمن تک پہنچنا چاہتا ہے اور ہدایت کے کوہ طور سینا کی چوٹیوں پر جانا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ دعا کے آداب اورقبولیت کے شرائط معلوم کرے اور سیکھے یہاں تک کہ دعا کے مستجاب ہونے کا مشاہدہ کرے۔

جو کچھ ہم نے کہا وہ وہی ہے جو قرآن اور روایات سے ہمارے ہاتھ لگا ہے لہٰذا موقع غنیمت جانتے ہوئے اسے محفوظ کرلیجئے اور الہی رحمت و کرم سے مایوس نہ ہوئیے ۔

” اِنَّہُ لاٰیَیْاٴَسُ مِنْ رَوْحِ اللّٰہِ اِلاّٰالْقَوْمُ الکٰافِرُون “ (۶)

(بلا شبہ خدا کی رحمت اورکرم سے سوائے کافر قوم کے کوئی مایوس نہیں ہوتا)

خاندان وحی کے نور امامت سے مستفید ہونے کے ساتھ اپنے جسم و روح کے اندرنورامیداورنوریقین پیداکریئے ۔

•  دعا پڑھنے میں تکرار و دوام اور اس کی اہمیت 

دعاؤں میں تکرار اور اس میں دوام رکھنا مقصد تک پہنچنے اور حاجت کو پانے میں نہایت با اہمیت ہے ․اور یہ نکتہ بہت ہی مہم ہے لہٰذا جو افراد دعا کی کتب سے سروکار رکھتے ہیں انھیں ان پر توجہ رکھنی چاہئے اس لئے کہ اکثر افراد اس کی قدرت و توانای نہیں رکھتے کہ ایک دعا یا ایک زیارت پڑھنے کے ذریعہ یا ایک فاتحہ پڑھ کے اپنی حاجت پوری کرلیں اور اپنی مراد تک پہنچ جائیں ۔

اس مطلب کے واضح ہونے کے لئے ایک مثال پیش کرتے ہیں تاکہ جو بات کہی واضح ہو جائے بہت سے جسمانی امراض اگر ابتدائی مرحلہ میں ہوں یا سطحی اور پیچیدہ نہ ہوں تو ان کا صرف ایک نسخہ سے علاج کیا جاسکتا ہے لیکن اگر مرض طولانی ہو جائے یا انسان کے بدن میں اس کی جڑ مضبوط ہو جائے تو ظاہر سی بات ہے ایسا مرض ایک نسخہ سے معالجہ نہ ہوگا اور ایک دوا سے برطرف نہ ہوگا بلکہ اس کے علاج کے لئے کو طویل مدت تک دوا مصرف کرنی ہوگی۔

روحی امراض میں بھی یہی صورت حال ہے اگر کسی شخص کی روحی بیماری زیادہ اہم ہو یا اہم نہ بھی ہو لیکن وقت گذرنے کے کی وجہ روح میں اس کی جڑمضبوط ہو گئی ہواور وہ اس کا عادی بن گیا ہوتو اس صورت میں ظاہر ہے کہ اس طرح کی مشکلات ایک بار دعا پڑھنے سے بر طرف نہ ہو گی بلکہ دعا میں تکرار اور اسے بڑھنے میں دوام کی ضرورت ہے بالکل اسی طرح جیسے بعض جسمانی امراض میں انسان کو دوا کے باربار استعمال اور جاری رکھنے کی ضرورت ہے ۔

لہٰذا جس طرح جسمانی بیماریوں کے علاج میں دوا جاری رکھتے ہیں تاکہ مکمل علاج ہو جائے اسی طرح جن جگہوں پر دعا کی ضرورت ہے دعا پڑھنا جاری رکھیں تاکہ اس کا اثر ظاہر ہوجاے

البتہ ممکن ہے بعض افراد ایک دعا یا خدا کے اسماء میں سے کسی ایک کو پڑھنے کے ذریعہ اپنا مقصود حاصل کرلیں درحقیقت اس طرح کے افراد نے ریاضت نفس کی ہے اور مستجاب الدعا ہیں لہذا عام لوگوں کو اس طرح کی توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ ان کی طرح صرف ایک مرتبہ دعا کریں اور اپنا مقصود حاصل کرلیں اور روایات میںدعا کی تکرار اور پابندی کے متعلق اس پہلو پر بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے ۔

حضرت امام زمانہ ارواحنا فداہ کے لئے دعا ضروری ہے 

شرائط و آداب دعا کو بیان کرنے کے بعد:سب سے ضروری اور اہم ترین دعا جس کو غیبت کے زمانہ میں لوگوں کو کرنا چاہئے امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور کے لئے دعا ہے اس لئے کہ حضرت ہمارے سید وسردار اور ہمارے زمانہ کے مالک ہیں ․یہی نہیں بلکہ صاحب امر ‘ولی اور تمام عالم کے سر پرست ہیں کیا آپ سے غافل ہوا جاسکتا ہے؟ جب کہ آنحضرت ہمارے امام ہیں اور امام سے غفلت یعنی حقیقی بھول اور اصول دین سے غفلت ہے ۔

لہٰذا ضروری ہے کہ قبل اس کے کہ خود اپنے لئے اور اقرباء وا حباب کے لئے دعا کریں، حضرت(عج)کے لئے دعا کریں ۔

مرحوم سید بن طاؤس کتاب (جمال الاسبوع )میں تحریر فرماتے ہیں :ہم نے پہلے بیان کیا کہ ماضی میں ہمارے رہنما امام عصر صلوٰت اللہ علیہ کے لئے دعا کے متعلق خاص اہمیت کے قائل تھے اس سے پتہ چلتا ہے آنحضرت (عج) کے لئے دعا اسلام و ایمان کے اہم ترین فرائض میں سے ہے ہم نے ایک روایت نقل کی کہ امام صادق علیہ السلام نماز ظہر کی تعقیب میں کامل ترین دعا امام عصر (عج)کے حق میں کیا کرتے تھے پھر کہیں اپنے لئے کرتے تھے ہم نے گذشتہ مختلف عناوین میںایک باب حضرت بقیت اللہ الاعظم (عج)کے لئے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی دعا سے مخصوص کیا ہے واضح ہے کہ جو اسلام میں ان دو بزرگوں کی حیثیت کو پہچان لے تو ان کی پیروی میں اس کے پاس کوئی عذر باقی نہ رہے گا ۔(۷)

لہٰذا اگر مولا کے لئے دعا کے ذریعہ بار گاہ معبود اور زندہ مردہ کے مالک و مختار کے حضور میں جائیں اور دعا کریں تو امید ہے آنحضرت (عج)کی وجہ سے باب اجابت ہمارے لئے کھل جائے اور جو اپنے اور دوسروں کے لئے دعا کرتے ہیںکہ فضل پروردگارہمارے شامل حال ہو اور اس کی رحمت ،کرم اور عنایت ہماری طرف متوجہ ہو جائے، یہ اس لئے ہے کہ ہم نے اپنی دعا میں اس کی رسی کو پکڑرکھا ہے۔

شاید کہو فلاں،فلاں ،جو کہ تمہارے اساتذہ میں سے ہیں ان کی پیروی کرتے ہو اور وہ اس قول پر عمل نہیں کرتے۔

اس کا جواب معلوم ہے اس لئے کہ وہ ہمارے مولا سے غافل ہیں اور ان کے متعلق کوتاہی اور سستی کرتے ہیں ۔

اس جگہ پر سید بن طاؤوس علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: جو ہم نے تم سے کہا اس پر عمل کرو اس لئے کہ وہ کھلی ہوئی حقیقت ہے اور جو ہمارے مولا کے متعلق سہل انگاری کرے اور سستی دکھائے اور جو بیان کیا اس سے غافل ہو خدا کی قسم وہ ایسے شبہ میںمبتلا ہوا ہے کہ جو ننگ وعار کا سبب ہے ۔

پھر آپ فرماتے ہیں ائمہ علیہم السلام کی نگاہ میں اس امر کی اہمیت کس طرح پاتے ہیں ؟کیا ابھی تک اس موضوع کے متعلق آپ کا جو رویہ رہا ہے وہ لاپرواہی نہیںتھی ؟

اس لئے واجب نمازوں میں آنحضرت (عج)کے لئے زیادہ دعا کریں اور اس کے لئے دعا کرنے سے پرہیز نہ کریں جس کے لئے دعا کرنا جائز ہے ۔

میں پھر عرض کرونگا جو ہم نے بیان کیا اس کی بنا پر آنحضرت (عج)کے ظہور میں تعجیل کے لئے دعا کرنے کو اہمیت نہ دینے کے لئے کوئی عذرہمارے پاس باقی نہیں بچتا ۔ (۸)

صاحب مکیال المکارم فرماتے ہیں: جیسا کہ آیات وروایات دلالت کرتی ہیں کہ دعا عبادت کی بہت اہم قسم ہے اور اس میں شبہ نہیں ہے کہ سب سے اہم اور باعظمت دعا اس کے لئے ہے کہ جس کے حق کو پروردگار عالم نے سب پر واجب کیا ہے ۔

اور اس کے وجود کی برکت کی بنا پر تمام مخلوقات کو پروردگار عالم کی نعمت پہنچ رہی ہے ، اور جس طرح کوئی شبہ نہیں کہ خدا کے ساتھ مشغول رہنے سے مراد اس کی عبادت میں مشغول رہنا ہے اسی طرح دعا میں استمرار باعث ہوتاہے کہ پروردگارعالم اسے عبادت کی توفیق عطا فرماے اور اسے اپنے اولیاء میں قرار دے ۔

چنانچہ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے مولا حضرت حجت ارواحنا فدا کے لئے دعا میں پابندی ‘آنحضرت (عج)کے ظہور میں تعجیل کے لئے پروردگار عالم سے سوال اور اس آخری امام (عج)کے غم و اندوہ کے برطرف کرنے اور نشاط پیدا کرنے کے لئے دعا اس اہم مسئلہ کے فراہم ہونے کا باعث ہے ۔

لہٰذا اہل ایمان پر لازم ہے کہ اہتمام کریں اور ہر وقت و ہر جگہ آنحضرت (عج)کے ظہور میںتعجیل کے لئے دعا کریں ۔

جو اس مطلب کے ساتھ مناسب ہے اور ہماری گفتگو کی تائیدکرتی ہے وہ مطلب ہے جسے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے مکاشفہ کی صورت میںیاعالم خواب میںمرحوم آیت اللہ مرزامحمد باقر فقیہ ایمانی سے فرما یا:اپنی تقریروں میں لوگوں سے کہواور حکم دوتوبہ کریںاورحضرت(عج) کے ظہورمیںتعجیل کے لئے دعاکریںآنحضرت (عج)کے آنے کے لئے دعا نماز میت کی طرح نہیں ہے جو واجب کفائی ہو اور کچھ لوگوں کے انجام دے دینے سے دوسروں سے ساقط ہوجائے بلکہ پنجگانہ نماز کی طرح ہے یعنی ہر بالغ و عاقل پر واجب ہے کہ امام زمانہ(عج)کے ظہور کے لئے دعا کرے ۔(۹)

جو ہم نے نقل کیا اس کے پیش نظر امام زمانہ (عج)کے لئے دعا کرنا ضروری ہے سب پر واضح ہو گیا۔

عالم کی سب سے مظلوم ہستی 

افسوس ہے کہ آج بھی بہت سی مذہبی مجالس میں امام زمانہ (عج)کی یاد اور ان کے ظہور میں تعجیل کے لئے دعا سے غفلت ہوتی ہے اگر ہمیں معلوم ہو کہ ابھی تک کس درجہ حضرت سے غافل رہے ہیں تو احساس ہوگا کہ آنحضرت (عج)کائنات کی سب سے مظلوم ذات ہیں ۔ذیل میں حضرت کی مظلومیت کا ایک ماجرا ملاحظہ ہو:

حجة الاسلام و المسلمین مرحوم آقای حاج سید اسما عیل شرفی نے نقل کیا ہے : 

عتبات عالیہ سے مشرف ہوا تھا اور سیدالشہدا ء علیہ السلام کی زیارت میںمشغول تھا ․چونکہ امام حسین علیہ السلام کی قبر کے سرہانے زائرین کی دعا مستجاب ہوتی ہے اس لئے اس جگہ پروردگارعالم سے دعا کی ہمیں حضرت مھدی (عج)کی بارگاہ میں مشرف فرمائے اور میری آنکھوں کو ان کے عدیم المثال جمال سے نور بخشے ۔

زیارت میں مشغول تھا کہ ایک مرتبہ عالم تاب خورشید کا جمال ظاہر ہواگرچہ اس وقت آنحضرت (عج)کو ہم نے نہ پہچانا لیکن شدت سے ان کی طرف مائل ہوگیا ،سلام کے بعد حضرت سے سوال کیا آپ کون ہیں؟

فرمایا: میں عالم کی مظلوم ترین ذات ہوں ۔

میں متوجہ نہ ہوا اور اپنے آپ سے کہنے لگا شاید آپ نجف کے بزرگ علماء میں سے ہیں لیکن چوں کہ لوگ ان کی طرف راغب نہیں ہوئے ہیں اس لئے اپنے آپ کو عالم کی مظلوم ترین ذات سمجھتے ہیں لیکن اسی وقت ہم نے محسوس کیا کہ کوئی ہماری بغل میں نہیں ہے ۔

اب میری سمجھ میں آیا کہ عالم میں مظلوم ترین ذات امام زمانہ (عج)کے سوا اور کون ہوسکتا ہے آنحضرت (عج)کے حضور کی نعمت کو جلدی ہاتھ سے گنوادیا ۔

توجہ کرنی چاہئے دعا سے مقصود مقام و منصب نہ ہو بلکہ امام عصرارواحنا فداہ اور وحدہ لاشریک سے تقرب اور رضایت کو عمل کا معیار قرار دیں ۔

آپ کی توجہ ایک اہم واقعہ کی طرف مبذول کرنا چاہتا ہوں ۔

۱۔ حجة الاسلام والمسلمین جناب سیداحمد موسوی حضرت امام عصر کے شیدائیوں میں سے ہیں انھوں نے حجة الاسلام والمسلمین عالم ربانی مرحوم آقا حاجی شیخ جعفرجوادی سے نقل کیا ہے کہ آپ عالم کشف یا شہود میں حضرت بقیة اللہ ارواحنا فداہ کی خدمت میں مشرف ہوئے اور آپ کو بہت ہی غمگین پایا آپ سے آپ کا حال معلوم کیا تو حضرت نے فرمایا: میرا دل خون ہے میرا دل خون ہے۔

۲۔حضرت اما م حسین علیہ السلام نے عالم مکاشفہ میں قم کے ایک عالم دین سے فرمایا:

”…ہمارے مہدی اپنے زمانہ میں مظلوم ہیںجہاں تک ہوسکے ،مہدی (حضرت مہدی علیہ السلام) کے متعلق کہو اور قلم چلاؤ، او راس معصوم شخصیت کے متعلق اگر کچھ کہا تو گو یا تمام معصوم علیہم السلام کے متعلق کہاہے چونکہ یہ زمانہ ہمارے مہدی (عج) (حضرت مہدی (عج) ) کا زمانہ ہے لہٰذا شائستہ ہے آپ کے متعلق مطالب بیان ہوں ،او رآخر میں فرمایا: میں پھر تاکید کررہا ہوں کہ ہمارے مہدی(عج) کے متعلق زیادہ بیان کرو او ر لکھو ہمارے مہدی (عج) مظلوم ہیں اور ان کے متعلق جو کچھ بیان کیا گیا او رلکھا گیا ہے اس سے زیادہ لکھنا او ر بیان کرنا چاہئے ․ (۱۰)

 مرحوم حاجی شیخ رجب علی خیاط کی ایک نصیحت 

اس وقت جبکہ آپ آنحضرت کی مظلومیت اور غربت سے آگاہ ہوگئے تو بہتر ہے اس اہم واقعہ پر توجہ فرمائیں: مرحوم شرفی جو امام زمانہ (عج)کے ظہور کے منتظر رہنے والوں میں تھے ان کا بیان ہے جب میں تبلیغ کیلئے مشہد مقدس سے دوسرے شہرجایا کرتا تھا ، توایک مرتبہ ماہ مبارک رمضان کی مسافرت میں اپنے ایک دوست کے ہمراہ تہران حاجی شیخ رجب علی خیاط کے یہاں مشرف ہوا اور ان سے راہنمای کی درخواست کی ۔

انھوں نے آیت کریمہ (ومن یتّق اللہ ∙∙∙ )کے ختم کا طریقہ ہمیں سکھایا (۱۱)اور فرمایا پہلے صدقہ دو اور چالیس روز روزہ رکھو اور اس ختم کو چالیس روز ںکے درمیان انجام دو ۔

اہم نکتہ جس کو حاجی شیخ رجب علی نے بیان فرمایا یہ تھا کہ تمہارا مقصود اس ختم سے یہ ہو کہ امام رضا علیہ السلام سے آنحضرت (عج)کے تقرب کو طلب کرو اور مادی حاجت قطعی نظر میں نہ رکھو ۔

مرحوم آقای شرفی نے فرمایا :ہم نے ختم شروع کیا لیکن اسے جاری نہ رکھ سکا ‘لیکن میرا دوست کامیاب ہوگیا اور اس نے مکمل کرلیا اور جب ہم مشہدپہنچے تو وہ امام رضا علیہ السلام کے حرم میں مشرف ہوا ، اور متوجہ ہوا کہ آنحضرت کو نور کی شکل میں دیکھ رہاہے دھیرے دھیرے یہ حالت اس میں قوی ہو گئی اب وہ آنحضرت کو دیکھنے اور ان سے بات کرنے پر قادر تھا ۔

اس اہم واقعہ کو نقل کرنے سے ہمارا مقصود ایک مہم نکتہ ہے جو دعاؤں اور وسیلہ بنانے میں موجود ہے وہ یہ کہ نماز ادا کرنے ،دعائیں پڑھنے اور وسیلہ بنانے و…میںاخلاص کی رعایت کے علاوہ انھیں انجام دینے کا ہدف خدا اور اہل بیت علیہم السلام سے تقرب ہونا چاہئے یعنی بندگی اور بندہ ہونے کے لئے انجام دے نہ مقام و منصب کے حصول لئے ۔

مشہور اور روحانی افراد میں سے ایک صاحب دعاؤں اور ختم کے ذریعے بہت سے افراد کی مشکلات کو حل کرتے تھے ایک اےسے شخص کہ جس کو صاحب بصیرت خیال کرتے تھے) سے ملاقات کے وقت اس سے سوال کیا کہ میں روحی اور باطنی لحاظ سے کےسا ہوں ؟

انھوں نے تھوڑی دیر تامل کے بعد فرمایا :تم نے خدائی کاموں میں بہت زیادہ دخالت کی ہے ۔

لہٰذا انسان کو دعاؤں،اذکار، تو سلات سے غلط استفادہ نہیں کرنا چاہئے ،بلکہ اسے بندگی کے لئے وسیلہ اور بندگی کا مقصد قرار دینا چاہئے ،تو انسان کو اس کے ذریعہ خدائی کاموں میں دخالت نہیں کرنی چاہئے ، اور نہ ہی لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کا ذریعہ بنانا چاہئے۔

مرحوم حاج شیخ حسن علی اصفہانی سے نقل ہوا ہے آپ نے فرمایا : مجھ میں اتنی قدرت ہے کہ اگر لوگ صرف ہمارے دروازے پر دستک دیں تو ان کی مشکلات حل ہوجائیں اور انھیں کچھ کہنے کی بھی ضرورت نہ ہو لیکن چون کہ امام رضا علیہ السلام کی نسبت لوگوں کے عقیدے میں سستی پیدا ہونے کا باعث ہے اس لئے اسے انجام نہ دو نگا ۔

 مرحوم حاج شیخ حسن علی اصفہانی کا ایک اہم تجربہ 

اس وقت چون کہ مرحوم شیخ حسن علی اصفہانی کا تذکرہ آگیا ہے اس لئے موقع کی مناسبت سے ایک اہم واقعہ آپ کے لئے نقل کریں گے ،آپ بچپن سے ہی عبادت و ریاضت میں مشغول رہتے تھے اور آپ نے بلندمقاصد تک رسائی کے لئے غیر معمولی اور حوصلہ شکن زحمتیں برداشت فرمائیں ۔

محترم نے وہ تمام ذکر ،ختم،دعائیں،نماز اور قرآنی آیات جنکو طفولیت سے آپ انجام د یتے رہے نوٹ کرلیا۔

اور چونکہ اس کے ساتھ مہم نکات اور اسرار بھی ضمیمہ تھے اس لئے اس کی قیمت غیرمعمولی تھی اور انھیں اسرار کی وجہ سے آپ نے مناسب نہ دیکھا کہ اسے سب کے ہاتھوں میں پہنچنے دیں یہی وجہ تھی کہ اسے مخفی رکھتے تھے اور لوگوں کے ہاتھ نہیں لگنے دیتے تھے ۔

مرحوم والد معظم اس کتاب کے متعلق فرماتے تھے :

مرحوم حاج شیخ حسن علی اصفہانی نے اپنی حیات کے آخری ایام میں اس کتاب کو مرحوم حاج سید علی رضوی کے حوالے کردیا ۔(۱۲)

اس واقعہ کو نقل کرنے سے مقصود وہ اہم نکتہ ہے جسے مرحوم حاج شیخ حسن علی اصفہانی نے کتاب کے آخر میں بیان کیا تھا ․اوریہ ان تمام افراد کے لئے جو صحیح عرفانی اور معنویت کی راہ طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں ایک بہت ہی اہم درس ہے ،کتاب کے آخر میں اس طرح فرماتے ہیں:اے کاش ان اذکار، ختم،ورد وغیرہ کو امام زمانہ(عج)سے نزدیک ہونے کے لئے انجام دیا ہوتا ۔

ایک اہم شخصیت جس کا نام ہر خاص وعام کی زبان پر ہوتا ہے کس طرح اپنی عمر کے آخرمیں ان تمام طاقت فرسا زحمتوں اور کوششوں کے بعد آرزو کرتا ہے اے کاش ان تمام زحمتوں اور رنج ومشقت برداشت کرنے کا ہدف امام زمانہ حضرت بقیت اللہ الاعظم(عج)ارواحنا فداہ کو بناتا ۔

کسی بھی قسم کے شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ مرحوم حاج شیخ حسن علی اصفہانی غیر معمولی روحانی قوت رکھتے تھے اور لوگوں کے درمیان بہت ہی کم نظیر قدرت کے مالک ہونے کی حیثیت سے معرو ف تھے لیکن ان سب کے باوجود آرزو کرتے ہیں کہ کاش اپنی ساری تلاش و کوشش کو اپنے امام زمانہ(عج) ، امیر عالم ہستی سے تقرب کی راہ میں کی ہوتی، افراد میںتصرف کی قدرت کا مالک ہونا ‘مریضوں کو صحت یاب کرنا یا اس طرح کے دیگر امور کو اپنا ہدف نہ بناتا۔

انسانوں کے لئے سب سے بڑا درس یہ ہے کہ جو بھی راستہ طے کریں اس راہ کے بزرگ افراد کے تجربوں سے فائدہ اٹھائیں، ان کی ایک عمر تلاش و کوشش سے سبق حاصل کریں اور جس چیز کو ان لوگوں نے سالہا تجربہ کے بعد حاصل کیا ہے اپنے لئے درس عبرت قرار دیں، ان کی زندگی کے طویل سفر کے درمیان ہاتھ آنے والے آخری نتیجہ پر پوری توجہ دیں اور اس پر عمل کریں ۔

عظیم افراد کے اہم تجربوں سے استفادہ حیات کی قیمت اور زندگی کے نتیجہ کو کئی گنازیادہ کردیتاہے لذا کوشش کریں جس کا حاجی شیخ حسن علی اصفہانی نے تجربہ کیا اور اپنے مکتوب میں اس پر تاکید کی ہے اس پرعمل کریں ۔ 

دعائیں ،زیارتیںاور وہ تمام عبادتیں جن کوہم انجام دیتے ہیں امام عصرارواحنا فداہ سے تقرب کے لئے انجام دیں اور حقیر مقاصد کو بالاے طاق رکھ دیں یہ وہ حقیقت ہے کہ جس پر عمل کریں تو اپنی زندگی سے پوارا پورا نتیجہ حاصل کرسکیں گے ۔

 تعجیل فرج کے لئے محفل دعا قائم کرنا 

جس طرح ممکن ہو انسان آنحضرت (عج)کے ظہور میں تعجیل کے لئے دعا کرے تنہا دعا کرے، یاکئی لوگ اکٹھا ہو کر دعا کریں اور بزم دعا قائم کرکے آنحضرت (عج)کی یاد کو تازہ کریں ،اس طرح کی بزم پر نیک امر کے لئے دعا کے علاوہ دوسرا عمل خیر بھی مترتب ہے مثلا :ائمہ معصومین علیہم السلام کے امر کو زندہ رکھنا اہل بیت علیہم السلام کی احادیث کو یاد کرنا وغیرہ ∙∙∙

گرانقدر کتاب (مکیال المکارم )کے مولف امام عصر ارواحنا فداہ کی غیبت کے زمانہ میں اس طرح کی بزم دعا کے قیام کو لوگوں کا فریضہ قرار دیتے ہیں اور وہ بزم جس میں ہمارے مولا صاحب الزمان (عج)کو یاد کیا جائے ،اس میں ان کے نا محدود فضائل و مناقب بیان کئے جائیں، اس بزم میں حضرت (عج)کے لئے دعا ہواور جان و مال کواخلاص کے طبق میں رکھ کر حضرت کے سامنے پیش کیا جائے۔ 

آپ فرماتے ہیں اس طرح کی بزم کا قیام دین خدا کی ترویج ‘کلمہ خدا کی سربلندی‘ بھلائی اور تقوا میں اعانت شعائر الہی کی تعظیم اور ولی خدا کی نصرت ہے۔

بعض اوقات کہا جاسکتا ہے کہ اس طرح کی بزم قائم کر نا واجب ہے مثلا جس وقت لوگ انحراف اور گمراہی میں مبتلا ہورہے ہوں اور اس طرح کی بزم قائم کرنا ان کو فساد و گمراہی میں مبتلا ہونے سے روکنے اور ان کی ہدایت راہنمائی کا باعث ہو ۔(۱۳)

گمراہوں کی راہنمای مفسدوں اور اہل بدعت کو روکنا ،امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے دلائل کے پیش نظر اس امر کا وجوب حاصل ہوجاتا ہے در حقیقت ہر صورت میں پروردگارعالم حافظ اور بچانے والا ہے ۔

۱)۔حبتر اولیائے الہی کی خلافت کے اولین غاصب کے لئے کنایہ ہے بحار الانوار ج ۳۵ص۳۳۶

۲)۔بحار الانوار ج۹۵ص۳۰۶

۳)۔سورہٴ فجرآیت۴

۴)۔بحارالانوارج۲۴ص۷۸

۵)۔بحارالانوار ج۹۴ ص ۱۵۵

۶)۔ سورہٴ یوسف آیت:۸۷

۷)۔جمال الاسبوع ص ۳۰۷

۸)۔فلاح السائل :۴۴

۹)۔مکیال المکارم ج ۱ص ۴۳۸

۱۰)۔ بوستان ولایت ج۲ ص۱۸

۱۱)۔اس ختم کا حکم رسول خدا (ص)سے نقل ہوا ہے او رمرحوم آیت اللہ حاجی علی اکبر نہاوندی نے اس روایت کو کتاب ”گلزار اکبری “ میں نقل کیا ہے۔

۱۲)۔مرحوم آیت اللہ حاجی سید علی رضوی مشہد کے ربانی علماء میں تھے اور میرے والد بزرگوار کو ان سے خاص لگاؤ تھا

۱۳)۔مکیال المکارم ج۲ص ۱۶۹

 

 


source : http://www.mahdimission.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام حسین علیہ السلام کی ولادت باسعادت مبارک هو
کرامات امام جعفر صادق علیہ السلام
قرآن مجید میں علی (ع) کے فضائل
اگر مہدویت نہ ہو تو انبیاء (ع) کی تمامتر کوششیں ...
حضرت امام حسین علیہ السلام کے ذاتی کمالات
امام موسی کاظم علیہ السلام
بعثت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)
امام سجادعلیہ السلام کے کے القاب
معراج انسانیت امام موسیٰ کاظم(ع)
۱۳ رجب المرجب حضرت علی (س) کی ولادت با سعادت کا ...

 
user comment