اردو
Friday 26th of April 2024
0
نفر 0

24 رجب یوم فتح خیبر --- پیغمبر(ص) نے فرمایا: علی (ع) کہاں ہیں؟

خیبر چند قلعوں کے مجموعے کا نام تھا، جہاں کے لوگوں کا مشغلہ کھیتی باڑی کرنا اور مویشی پالناتھا، وہ علاقہ چونکہ بہت ہی زرخیز تھا لہٰذا اس کو حجاز کے غلّے(١) کا گودام کہا جاتا تھا۔ خیبریوں کی اقتصادی حالت بہت اچھی تھی جس کا پتہ اس غذا اور اسلحوں کے اس ذخیرے سے لگایا جاسکتا ہے جو مسلمانوں کے ہاتھوں ان قلعوں کی فتح کے بعد سامنے آیا تھا۔ یہ قلعے نظامی اعتبار سے مستحکم اور مضبوط بنے ہوئے تھے جن کے اندر موجود فوجیوں کی تعداد دس ہزار تھی (٢) اسی وجہ سے یہودی اپنے کو سب سے طاقتور سمجھتے تھے اور یہ تصور کرتے تھے کہ مسلمانوں کے اندر ان سے جنگ کرنے کی ہمت اور طاقت نہیں ہے۔ (٣)

٦ھ میں سلام بن ابی الحقیق جو بنی نضیر کا ایک سردار تھا اور خیبر کے یہودیوں کی لیڈر شب اس کے ہاتھ میں آگئی تھی اس نے قبیلۂ غطفان اوردوسرے مشرک قبیلوں کو جمع کر کے مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے کی خاطر بڑی فوج تیار کرلی اس کی ان فتنہ انگیزیوں کی وجہ سے مسلمانوں کے ہاتھوں اس کے قتل ہو جانے کے بعد خیبریوں نے اس کی جگہ اسیر ابن زارم (4) کو اپنا سردار چن لیا اس نے بھی اسلام دشمنی کی وجہ سے ان قبائل کو اسلام کے خلاف اکسایا۔ (5)

پیغمبر اکرمۖ نے گزشتہ دشمنیوں اور جھگڑوں کو مصالحت کے ساتھ حل کرنے کے لئے عبد اللہ بن رواحہ کی سرپرستی میں ایک وفد اس کے پاس بھیجا تاکہ اس کو راضی کرسکے وہ جب عبد اللہ بن رواحہ اور اپنے کچھ یہودی ساتھیوں کے ساتھ ایک وفد کی صورت میں مدینہ کی طرف آرہا تھا تو راستے میں اپنے اس فیصلے سے نادم ہوا اور اس نے سوچا کہ عبد اللہ کو قتل کردے، چنانچہ طرفین کی اس چھڑپ میں وہ اور اس کے ساتھی مارے گئے(6) اور اس طرح پیغمبر کی یہ مصالحت آمیز کوشش کارگر نہ ہوسکی۔

ان تمام سازشوں اور فتنوں کے علاوہ موجودہ دور کے ایک مورخ کے بقول اس وقت یہ خطرہ بھی پایا جاتا تھا کہ خیبر کے یہودی، مسلمانوںسے پرانی دشمنی کی بناپر اور بنی قینقاع، بنی نضیر اور بنی قریظہ کی شکست کا بدلہ لینے کے لئے ایران یا روم کے آلۂ کار بن سکتے ہیں اور ان کے اشارے پر مسلمانوں پر حملہکر سکتے ہیں۔(7)

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب صلح حدیبیہ کے بعد جنوبی علاقے کے خطرات کی طرف سے مطمئن ہوگئے تو آپ نے  ٧ھ کے آغاز میں ١٤٠٠، افراد پر مشتمل، لشکر کے ساتھ(8)، یہودیوں کی گوش مالی کے لئے شمال کی طرف روانہ ہوئے اور اسلامی فوج کے لئے ایسے راستے کا انتخاب کیا جس سے غطفان جیسے طاقتور قبیلے کا رابطہ جس کا اس وقت خیبریوں سے معاہدہ تھا خیبریوں سے ٹوٹ گیا ، جس کے بعد ان کے درمیان ایک دوسرے کی امداد اور تعاون کا کوئی امکان باقی نہیں رہ گیا۔(9) یہودیوں پر اچانک اور ان کی بے توجہی سے فائدہ اٹھا کر حملہ کرنے کی حکمت عملی کے نتیجہ میں راتوں رات قلعۂ خیبر اسلامی فوج کے محاصرے میں آگیا اور جب صبح ہوئی تو یہودیوں کے سردار اس خطرہ کی طرف متوجہ ہوئے۔

البتہ پھر بھی مسلمانوں اور خیبریوں کی یہ جنگ برابر کی لڑائی نہیں تھی کیونکہ وہ لوگ بہت ہی مضبوط و مستحکم اور مورچہ بند قلعوں کے اندر تھے اور انھوں نے قلعوں کے دروازے بند کر رکھے تھے اور میناروں کے اوپر سے تیر اندازی کر کے یا پتھر برسا کر اسلامی فوج کو قلعہ کی دیوار سے نزدیک نہیں ہونے دے رہے تھے چنانچہ ایک حملے میں اسلامی فوج کے پچاس سپاہی زخمی ہوگئے۔(10)

دوسری طرف سے ان کے پاس کافی مقدار میں خوراک کا ذخیرہ موجود تھا مگر اس محاصرہ کے طولانی ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے پاس خوراک کا ذخیرہ کم ہوگیاانجام کار نہایت دشواریوں اور زحمتوں کے بعد خیبر کے قلعے یکے بعد دیگرے مسلمانوں کے قبضہ میں آنے لگے لیکن آخری قلعہ جس کا نام قموص تھا اوراس کا سپہ سالار مرحب تھا جو یہودیوں کا مشہور پہلوان بھی تھا یہ قلعہ آخر تک کسی طرح فتح نہ ہوسکا اور اسلامی فوج کے سپاہی اس پر قبضے نہ کرسکے۔ ایک روز پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسلامی فوج کا پرچم ابوبکر اور دوسرے روزعمر کے حوالے کیا اور فوج کو ان کے ساتھ یہ قلعہ فتح کرنے کے لئے روانہ کیا لیکن دونوں افراد کسی کامیابی اور فتح کے بغیر رسول خدا (ص) کے پاس پلٹ کر واپس آگئے(11)۔ آپ نے یہ صورت حال دیکھ کر ارشاد فرمایا:

''کل میں یہ پرچم اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھوںخداوند عالم اس قلعہ کو فتح کرائے گا وہ ایسا شخص ہے جو خدا اور رسول کو دوست رکھتا ہے اور خدا اور اس کا رسول بھی اسے دوست رکھتے ہیں وہ کرار غیر فرار ہوگا'' اس رات پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تمام صحابہ کی یہی آرزو تھی کہ کل پیغمبر، اسلامی فوج کا پرچم اس کے حوالے کردیں جب سورج طلوع ہوا، پیغمبر نے فرمایا: علی (علیہ السلام) کہاں ہیں؟ سب نے عرض کی کہ علی (علیہ السلام) کو آشوب چشم ہے اور وہ آرام کر رہے ہیں، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی (علیہ السلام) کو طلب کیا اور آپ کی آنکھوں کو حضرت علی (علیہ السلام) ـ  پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم کے مطابق روانہ ہوئے اور ایک دلیرانہ جنگ میں مرحب کو قتل کیا اور بے نظیر و لاجواب شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مستحکم او رمضبوط قلعے کو فتح کرلیا۔ جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اس فتنہ اور فساد اور سازشوں کے اڈے یعنی خیبر کی فتح میں چند اسباب اور عوامل کارفرما تھے جن میں سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بہترین سپہ سالاری اور جنگی حکمت عملی (جیسے دشمن کی غفلت سے فائدہ اٹھانا دشمن سے متعلق خبریں اور ان کے قلعوں کی اندرونی معلومات حاصل کرنا) اور بالآخر حضرت علی (علیہ السلام) ـ کی بے نظیر شجاعت کا بھی اس میں کافی اہم کردار تھا۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی (علیہ السلام) کی اس بہادری اور فداکاری کو اس انداز سے سراہا کہ اس دور کے ہر مسلمان بچے بچے کی زبان پر آپ کی بہادری کا کلمہ تھا اور اس کے مدتوں بعد تک آئندہ نسلوں کو بھی یہ واقعہ معلوم تھا اور اس دور کی تاریخ میں اسے اتنا عیاں اور روشن سمجھا جاتا تھا کہ معاویہ نے اپنی حکومت میں حضرت علی (علیہ السلام) ـ پر سب و شتم کو عام کرنے کے باوجود جب ایک دن سعد وقاص سے کہا کہ تم علی (علیہ السلام) پر سب و شتم کیوں نہیں کرتے ہو؟ تو اس نے کہا: میں یہ کام ہرگز نہیں کرسکتا ہوں، کیونکہ مجھے بخوبی یاد ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی ایسی تین فضیلتیں بیان فرمائی ہیں کہ میری آرزو اور تمنا ہے کہ کاش ان میں سے صرف ایک ہی فضیلت میرے اندر بھی پائی جاتی۔

١۔ ایک جنگ (تبوک) میں جاتے وقت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو مدینہ میں اپنا جانشین بنادیا تھا تو انھوں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا تھا کہ آپ نے مجھے شہر میں بچوں اور عورتوں کے ساتھ چھوڑ دیا! پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: '' کیا تمہیں یہ پسند نہیں ہے کہ تمہاری نسبت میرے ساتھ ویسی ہی ہو جو ہارون کو موسیٰ سے حاصل تھی (یعنی ان کی جانشینی اور خلافت) بس فرق اتنا سا ہے کہ میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں آئے گا''۔

٢۔ آپ نے جنگ خیبر میں فرمایا: کل میں پرچم اس شخص کے سپرد کروں گا جو خدا اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دوست رکھتا ہوگا اور خدا اور پیغمبر بھی اس سے محبت کرتے ہوں گے اس دن ہم سب کی یہی آرزو تھی کہ یہ مقام اور منصب ہمیں مل جائے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: علی (علیہ السلام) کو بلاؤ! ان کو بلایا گیا جبکہ ان کی آنکھوں میں تکلیف تھی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھوں میں لگایا اور آپ کی آنکھیں فوراً ٹھیک ہوگئیں اور آپ نے فوج کا علم ان کے حوالے کیا اور خدا نے ان کے سرپر قلعہ ٔ قموص کی فتح کا سہرا باندھا۔

٣۔ جب مباہلہ سے متعلق قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی ''فقل تعالوا ندع ابنائنا و ابنائکم''(13)تو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے علی ، فاطمہ ، حسن اور حسین (علیہم السلام) کو بلایا اور کہا: ''خدایا! یہ میرے اہل بیت (علیہم السلام) ہیں''(14)

حضرت علی (علیہ السلام) ـ نے اس تاریخ ساز جنگ کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا : ''ہمیں جنگجوؤں، اسلحوں اور جنگی سازو سامان کے ایک پہاڑ (طوفان) سے مقابلہ کرنا پڑا، ان کے قلعہ نا قابل تسخیر اور ان کی تعداد بہت زیادہ تھی ان کے دلاور اور بہادر ہر روز قلعوں سے باہر آتے تھے، مبارز طلب کرتے تھے اور ہماری فوج کا جو شخص بھی میدان میں قدم رکھتا تھا مارا جاتا تھا جس وقت جنگ کی آگ بھڑک گئی اور دشمن نے مبارز طلب کیا ،ہمارے سپاہیوں کے ہاتھ پیر دہشت اور خوف کے مارے لرز نے لگے اور وہ ایک دوسرے کو عاجزانہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے سب نے مجھ سے آگے بڑھنے کے

لئے کہا: پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی مجھ سے کہا کہ آگے بڑھو اور قلعہ پر حملہ کرو، میں نے قدم آگے بڑھایا اور ان کے جس پہلوان اور بہادر سے روبرو ہوا اس کو ہلاک کر ڈالا اور ان کے جس جنگجو نے میرا مقابلہ کرنا چاہا وہ زمین پر نظر آیا اور آخر کار وہ عقب نشینی پر مجبور ہوگئے ،اس کے بعد اس شیر کی طرح جو اپنے شکار کا پیچھا کر رہا ہو میں نے ان کا پیچھا کیا یہاں تک کہ انھوںنے قلعے میں پناہ لے لی اور اس کے دروازے کو بند کر لیا، میں نے قلعہ کے دروازے کو اکھاڑ پھینکا اور تنہا قلعہ میں داخل ہوگیا ... اس موقع پر خداوند عالم کے علاوہ میرا اور کوئی معاون و مددگار نہیں تھا۔(15)

آخری قلعہ فتح ہونے کے بعد خیبریوںنے اپنی شکست تسلیم کرلی اور ہتھیار ڈال دئے اور جنگ تمام ہوگئی ۔ مورخین کے مطابق یہودیوں کے ٩٣ آدمی(16) مارے گئے اور شہداء اسلام کی تعداد ٢٨ تھی۔(17)

یہودیوں کا انجام

جب خیبر کے یہودیوں نے اپنی شکست تسلیم کرلی تو انھوں نے اس بات کو دلیل بنا کر کہ وہ لوگ کھیتی باڑی کے ماہر ہیں، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ خواہش کی کہ وہ لوگ اپنے اس علاقہ میں اسی طرح باقی رہیں اور کھیتی باڑی کرتے رہیں۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی اس درخواست کو قبول فرما لیا لیکن اس شرط کے ساتھ کہ وہ ہر سال اپنی کھیتی باڑی اورغلہ کی آمدنی کا آدھا حصہ اسلامی حکومت کو ادا کریں گے(18) اور جس وقت بھی آنحضرت کہیں ان لوگوں کواس ملک سے باہر جانا ہوگا.(19) یہ معاہدہ حضرت عمر کی خلافت کے زمانہ تک اسی طرح باقی رہا مگر خلیفۂ دوم کے دور حکومت میں ان لوگوں نے مسلمانوں کے خلاف پھر شورش کرنا چاہی تو حضرت عمر نے ان کو شام کی طرف جلاوطن کردیا۔(20)

فدک

اہل خیبر کی شکست کے بعد، فدک کے یہودی کسی مقابلہ کے بغیر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے تسلیم ہوگئے اور خیبریوں کے معاہدے کی طرح، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ایک معاہدہ کیا اور چونکہ فدک کسی جنگ کے بغیر فتح ہوا تھا لہٰذا اس کی آدھی آمدنی ''خالصہ'' یعنی رسول خدا کی ذاتی ملکیت قرار پائی۔(21)

۔۔۔۔۔۔۔

مآخذ:

١۔ واقدی ،المغازی، تحقیق مارسڈن جونس، ج٢، ص٦٣٤، سیرة النبویہ، ابن ہشام، ج٤، ص٣٦٠.

 ٢۔ واقدی ،گزشتہ حوالہ، ص٧٠٣۔ ٣٦٧، یعقوبی نے ان کی تعداد بیس ہزار افراد لکھی ہے۔ (ج٢، ص٤٦.)

 ٣۔ واقدی ،گزشتہ حوالہ، ص ٦٣٧۔

4۔ یسیرم بن رزام یا رازم بھی لکھا گیا ہے۔ (ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٤، ص٢٦٦.)

 5۔ الکبریٰ ابن سعد، ج٢، ص٩٢۔ ٩١.

6۔ ابن ہشام، گزشتہ حوالہ،ج ٤، ص ٢٦٧۔ ٢٦٦.

 7۔ محمد حسین ہیکل، حیات محمدۖ، (قاہرہ: مکتبہ النہضہ المصریہ، ط٨)، ص ٣٨٦.

 8۔ واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٦٨٩، طبقات الکبریٰ محمد بن سعد، (بیروت: دار صادر) ج٢، ص ١٠٧، گزشتہ حوالہ، ابن ہشام، ج٤، ص ٣٦٤.

 9۔ واقدی، گزشتہ حوالہ، ص ٦٣٩.

10۔ وہی حوالہ ، ص ٦٤٦.

 11۔ طبری، تاریخ الامم و الملوک (بیروت: دار القاموس الحدیث)، ج٣، ص ٩٣؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٤، ص ٣٤٩؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ (بیروت: مکبتة المعارف، ط ٢، ١٩٧٧ع) ج٤، ص١٨٦.

اپنی کرامت سے شفا بخشی اور اس کے بعد اسلامی فوج کا علم ان کے حوالے کیا اور فرمایا :

ان کی طرف جاؤ اور جب ان کے قلعہ کے پاس پہنچنا تو پہلے انھیں اسلام کی دعوت دینا اور خدا کے احکام کی اطاعت کے بارے میں جو ان کا وظیفہ ہے وہ ان کو یاد دلانا، خدا کی قسم اگر پروردگار نے تمہارے ہاتھوں ان میں سے ایک شخص کو بھی ہدایت کر دی تو یہ تمہارے لئے اس سے کہیں بہتر ہے کہ تمہارے پاس سرخ بالوں والے (11) بہت سے اونٹ ہوں۔(12)

11۔ سرخ بالوں والے اونٹ سب سے زیادہ پسندیدہ اور قیمتی ہوتے تھے یہ مثال بہت زیادہ مال و دولت کی طرف اشارہ تھی ۔

12۔ پیغمبر اسلاۖم کا یہ کلام اور حضرت علی (علیہ السلام) کی سر داری تھوڑے سے الفاظ اور تعبیرات کے اختلاف کے ساتھ مندرجہ ذیل کتابوں میں نقل ہوئی ہیں:

صحیح بخاری، تحقیق: الشیخ قاسم اشماعی الرفاعی (بیروت: دار القلم، ط١، ١٤٠٧ھ.ق)، ج٥؛ کتاب المغازی، باب ١٥٥، ص٢٤٥؛ صحیح مسلم، بشرح النوی (بیروت: دار الفکر، ١٤٠١ھ.ق)، ج١٥، ص١٧٧۔ ١٧٦؛ ابن سعد، طبقات الکبریٰ (بیروت: دار صادر)، ج٢، ص١١١۔ ١١٠؛ صدوق، کتاب الخصال (قم: منشورات جماعة المدرسین، ١٤٠٣ھ.ق)، ص٣١١ (باب الخمسة)؛ طبری، تاریخ الامم والملوک (بیروت: دار القاموس الحدیث)، ج٣، ص٩٣؛ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة (بیروت: مؤسسة الاعلمی للمطبوعات)، ج١، ص٤٧؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ (بیروت: دار صادر)، ج٢، ص ٢١٩؛ ابن عبد البر، الاسیتعاب فی معرفة الاصحاب، (در حاشیۂ الاصابہ)، ج٣، ص٣٦؛ حاکم نیشاپوری، المستدرک علی الصحیحین (بیروت: دار المعرفہ، ١٤٠٦ھ.ق)، ج٣، ص١٠٩؛ ابن ہشام، السیرة النبویہ، ج٣، ص٣٤٩؛ ابن حجر ہیثمی مکی، الصواعق المحرقة، مکتبة القاہرہ، ١٣٨٥ھ.ق)، ص١٢١؛ واقدی، المغازی، ج٢، ص٦٣٥؛ ابن واضح، تاریخ یعقوبی، ج٢، ص٤٦؛ ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، ج٤، ص١٨٦؛ حلبی، انسان العیون (السیرة الحلبیہ)، ج٢، ص٧٣٦۔ ٧٣٣؛ ابوجعفر محمد بن حسن طوسی، الامالی (قم: دار الثقافہ، ١٤١٤ھ.ق)، ص٣٨٠۔

 13۔ سورۂ آل عمران، آیت ٦١.

 14۔ شرح صحیح مسلم، النووی، ج١٥، ص ١٧٦، سعد وقاص (قبیلۂ بنی زہرہ سے) جو کہ سابقین اسلام میں سے تھا اور ١٧ سال کی عمر میں (الطبقات الکبریٰ، ج٣، ص ١٣٩، یا ١٩ سال کی عمر میں (السیرة الحلبیہ، ج٩، ص ٤٣٤) مکہ میں دائرہ اسلام میں آگیا وہ جب مدینہ میں تھا تو اس کا شمار بڑے مہاجروں میں ہوتا تھا اور سیاسی طور پر حضرت علی (علیہ السلام) کا رقیب اور عمر کے قتل ہو جانے کے بعد خلافت کی چھ رکنی کمیٹی کا ایک ممبر تھا۔ اور اس کمیٹی میں اس نے علی (علیہ السلام) کو ووٹ نہیں دیا، (ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج١، ص١٨٨) عثمان کے قتل ہو جانے کے بعد حضرت علی (علیہ السلام) لوگوں کے عظیم استقبال پر ظاہری طور پر خلافت و حکومت کی باگ ڈور سنبھالی اس وقت بہت ہی لوگ تھے جنھوں نے آپ کی بیعت نہیں کی ان میں یہ بھی ایک تھا۔ (مسعودی، مروج الذہب، ج٢، ص ٣٥٣؛ ابن اثیر ، الکافی فی التاریخ، ج٣، ص١٩١) لیکن ان تمام باتوں کے باوجود علی (علیہ السلام) کی تین بڑی فضیلتوں کا معترف تھا۔

 15۔ صدوق، الخصال، ص ٣٦٩، باب السبعہ.

 16۔ بحار الانوار، مجلسی، ج٢١، ص٣٢.

 17۔ تاریخ پیامبر اسلام: محمد ابراہیم آیتی، (تہران: ناشر دانشگاہ تہران، چ ٣، ١٣٦١) ص ٤٧٥۔ ٤٧٣.

 18۔  واقدی، المغازی، ج ٢، ص ٦٩٠، معجم البلدان، یاقوت حموی، ج٢، ص ٤١٠ (لغت خیبر.)

19۔  ابن ہشام،السیرة النبویہ، ج ٣، ص ٣٥٢.

 20۔  یاقوت حموی،گزشتہ حوالہ، ص ٤١٠، فتوح البلدان (بیروت: ١٣٩٨) ص ٣٧۔ ٣٦.

 21۔  بلاذری، گزشتہ حوالہ،ص ٤٢، گزشتہ حوالہ، ابن ہشام، ج ٢، ص ٣٥٢، الکامل فی التاریخ ، ابن اثیر، ج٢، ص ٢٢٤، گزشتہ حوالہ واقدی، ج ٢، ص٧٠٧، گزشتہ حوالہ، یاقوت حموی، ج ٤، ص ٢٣٨ (لغت فدک): الاموال، ابو عبید قاسم بن سلام: تحقیق محمد خلیل ہراس (بیروت: دار الفکر، ط ٢، ١٣٩٥ھ ص ١٦.

 


source : http://www.abna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اقوال حضرت امام علی علیہ السلام
پیغمبراسلام(ص) کے منبر سے تبرک(برکت) حاصل کرنا
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی سیرت کے بعض ...
حضرت امام محمد مھدی علیہ السلام
مجموعہ ٴ زندگانی چہارہ معصومین( علیہم السلام )
امام حسین (ع) عرش زین سے فرش زمین پر
انبیاء کا امام حسین پر گریہ کرنا
امام حسین علیہ السلام کی ولادت باسعادت مبارک هو
کرامات امام جعفر صادق علیہ السلام
قرآن مجید میں علی (ع) کے فضائل

 
user comment