اردو
Saturday 27th of April 2024
0
نفر 0

ختم ہوگیا حلال اور حرام کا فرق

حِرص کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ وہ ، جن کے پاس بے انتہا دولت ہے وہ مزید دولت پانے کے لیے 'حلال وحرام' کی ہر تمیز کو بھلا دیتے ہیں۔ اور رہے وہ جن کے پاس بہت زیادہ دولت نہیں ہے، وہ یہ چاہتے ہیں کہ ان کی جھولی بھی دولت سے بھرجائے اوراس خواہش کی تکمیل کے لئے وہ بھی حلال اور حرام کے فرق کو بھلادیتے ہیں۔ آدرش سوسائٹی کی مثال سامنے ہے۔ مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ اشوک چوان سے لے کر نارائن رانے، اجیت پوار ، آر آرپاٹل اور ولاس را? دیشمکھ وغیرہ تک ہرایک نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے ''سفارش'' کرکے اپنے رشتے داروں کو کئی کئی کروڑ روپئے کے فلیٹ معمولی رقموں میں دلائے تھے۔ کہنے کو تو یہ ''سفارش'' تھی مگریہ حقیقتاً ''حکم ''تھا کہ جوکہا جارہا ہے اس پر عمل ہو اورفلیٹ انہیں دے دئیے جائیں جن کے نام وہ پیش کررہے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ''آدرش سوسائٹی'' کے یہ فلیٹ کارگل سمیت دوسرے محاذوں پر ملک کے لئے قربان ہوجانے والے جو انوں کی بیوا?ں کے لئے بنائے گئے تھے۔ مگر ہوایہ کہ شہیدوں کی قربانیوں کو نظر انداز کرکے اور شہیدوں کی بیوا?ں کو خاطر میںنہ لاتے ہوئے اِن فلیٹوں پر سیاست دانوں، سرکاری افسران اوراعلیٰ فوجی عہدیداران نے قبضہ کرلیا۔ ایسا نہیں ہے کہ جنہوں نے فلیٹوں پر قبضہ کیاہے وہ سڑکوں پر رہتے تھے یا ان کے پاس رہنے کے لئے ٹھکانے نہیں تھے، ٹھکانے تھے بلکہ یہ سب کے سب ہزاروں اسکوائر فٹ کے فلیٹوں میں ہی رہتے ہیں۔ ان کے فلیٹ اتنے وسیع وعریض ہیں کہ ان میں کئی کئی خاندان سماسکتے ہیں۔ مگر ان سب کو یہ وسیع وعریض فلیٹ، مکان اوربنگلے بھی 'تنگ' لگ رہے تھے اسی لئے انہوں نے بیوا?ں کے فلیٹوں پر قبضہ کرنے کی ٹھانی، نہ صرف ٹھانی بلکہ قبضہ کرلیا… قبضہ کرنے والوں میں کانگریس اوراین سی پی کے لیڈران ہیں۔ وزیراعلیٰ اور وزرائ ہیں۔ کانگریس تو وہ پارٹی ہے جس نے ملک کو آزاد کرانے کے لئے انگریزوں سے ٹکرلی تھی۔ کانگریس کانعرہ سیکولرزم اورکرپشن سے پاک انتظامیہ رہا ہے۔ او ریہ صرف نعرہ نہیں تھا۔ کانگریس نے ماضی میں ایسے لیڈردئیے ہیں جنہوں نے اپنی ساری زندگی انتہائی سادگی سے گزار دی اور کرپشن کی لعنت میںمبتلا نہیں ہوئے۔ اسی کانگریس سے این سی پی کاجنم ہو ا ہے۔ یعنی ایک طرح سے این سی پی خود کانگریس کی ہی ایک بدلی ہوئی شکل ہے۔ افسوس یہ ہے کہ یہ دونوں ہی پارٹیاں آج گلے گلے تک کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات میں دھنسی ہوئی ہیں۔ عوام کے ووٹوں پر جیت کر آنے والی اِن پارٹیوں کے لیڈروں کو اگر فکر نہیں ہوتی تو عوام کی نہیں ہوتی۔ یہ اپنے گھر والوں، رشتے داروں، دوست واحباب اور صنعت کاروں، بڑے بڑے بلڈروں اور سرمایہ کاروں کی فکر میں دبلے ہوئے جاتے ہیں۔ ان کا جس قدر بس چلتا ہے یہ اسی قدر مذکورہ تمام ہی افراد کی جیبیں بھی اور پیٹ بھی بھرتے جاتے ہیں اور اس کے عوض ان کی بھی جیبیں اور ان کے بھی پیٹ بھر تے ہیں۔ حال ہی میں دو بڑے اسکنڈل جو سامنے آئے ہیں ان میں کانگریس اوراین سی پی دونوں ہی ملوث ہیں۔ ابھی حال ہی میں کامن ویلتھ گیمز ختم ہوئے ہیں۔ ان گیمز میں بدعنوانیوں کی ایک نئی تاریخ لکھی گئی ہے اور تاریخ لکھنے والوں میں مرکزی وزیر سریش کلماڑی سرِ فہرست ہیں۔ اور مہاراشٹر 'آدرش سوسائٹی' کا جو اسکنڈل سامنے آیا ہے، اس کے ملزمین کی فہرست تو بے حد 'مرعوب کْن' ہے۔ حرص کی ' جیسا کہ ہم اوپر تحریر کرآئے ہیں ، کوئی حد نہیں ہوتی۔ ہمارے یہ حکمراں حرص کی ہر حد کو پار کرچکے ہیں۔ حرام اورحلال کی کوئی تمیز یہ نہیں کرتے ،انہیں پیسہ چاہیۓ چاہے ، بیوا?ں کے فلیٹوں پر قبضہ کرکے ملے، چاہے غریبوں کی زمینوں پرقبضہ کرکے یاکہ عوامی فلاح کے کاموں کے لئے مختص ہونے والی رقموں میں خوردبرد کرکے ملے۔ بس پیسہ ملے۔ یاد رکھئے کہ حرام کی دولت 'لعنت' لاتی ہے۔ اور ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ مہاراشٹر بالخصوص ممبئی میں عوامی کام ٹھپ پڑے ہیں۔ وہ منصوبے جن کے لئے کروڑوں روپئے مختص ہیں یا تو رْکے پڑے ہیں یا ان پر مختص کی ہوئی رقم سے کم رقم خرچ کی جارہی ہے جس کے نتیجے میں منصوبوں کی تکمیل میں یاتو تاخیر ہورہی ہے یا اگر تکمیل ہورہی ہے تو ان کے کام بے حد Substandardمعمولی درجہ کے ہیں۔ اس شہر میں کئی لاکھ افراد خطِ افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں ، نہ ان کے سر پر کوئی چھت ہے اورنہ ہی پیروں تلے زمین نہ پیٹ میں جانے کے لئے اناج ہے اور نہ ہی پینے کے لئے صاف پانی ، حکمرانوں کو افسران اور سرمایہ داروں کو بھلا ان کی فکر کیوں نہیں ہے؟ کہا جاتا ہے کہ حلال اورحرام میں جب فرق اٹھ جاتا ہے تو ہمدردی اور رحم کا احساس بھی مرجاتا ہے۔ او رہم دیکھ ہی رہے ہیں کہ ہمارے حکمراں، ہمارے افسران اور سرمایہ دار آج بے حد بے رحم اورہمدردی کے احساس سے عاری ہوچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حرام اورحلال میں امتیاز کی تمیز دے اور صرف حلال کھانے کی توفیق دے۔


source : http://www.shianet.in
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

ندبہ
غدیر عدالت علوی کی ابتدا
اول یار رسول(ص) حضرت امیر المومنین علی ابن ابی ...
قرآن اور عترت کو ثقلین کہے جانے کی وجہ تسمیہ
بنت علی حضرت زینب سلام اللہ علیہا ، ایک مثالی ...
مسجد اقصی اور گنبد صخرہ
اخلاق ،قرآن کی روشنی میں
قرآن کو نوک نیزہ پر بلند کرنے کی سیاست
آخري سفير حق و حقيقت
معصومین كی نظر میں نامطلوب دوست

 
user comment