اردو
Friday 26th of April 2024
0
نفر 0

خود سازی کے لیے اہم ترین نکات

۱: دنیا اور مادیات سے عدم دلبستگی: دنیا اور مادیات سے دلبستگی انسان کو پست، ذلیل اور دنیا کا غلام بنا دیتی ہے فکری اور روحی آزادی انسان سے چھین لیتی ہے ۔ غور و فکر کےتمام راستے انسان پر بند کر دیتی ہے۔ اس بنا پر ہمیں کوشش کرنا چاہیے کہ دنیا اور مادیات سے زیادہ وابستہ نہ ہوں ۔ اس کے لیے زہد  اور دنیا سے بے توجہی کی روح کو اپنے اندر پروان چڑھائیں۔ اگر انسان دنیا اور اس کی لذتوں سے مانوس ہو جائے تو اس انس و دلبستگی سے پیچھا چھڑانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ بہت کم افراد انتھک کوششوں کے بعد اس راہ میں کامیابی سے ہمکنار ہو پاتے ہیں ۔لہذا ضروری ہے کہ انسان پہلے سے ہی کوشش کرے کہ دنیا اور  اس کی لذتوں سے وابستہ نہ ہو ۔ تجملات سے پرہیز کرے سادہ زندگی گزارے۔ اور اپنے اطراف کے امکانات کا خود کو عادی نہ بنائے۔ اگر ان مادی وسائل تباہی کے دھارے میں بہہ جائیں تو زیادہ دکھی اور غمگین نہ ہو ۔ اس روش کا استمرار اس بات کا باعث بنے گا کہ وہ آہستہ آہستہ مقام زہد، دنیا سے بے توجہی جو کہ اولیاء خدا کی ممتاز صفات میں شامل ہے حاصل کر لے گا۔ اور اس اعلی مقام کی بنا پر الٰہی پائدار نعمتوں سے سرشار ہو گا۔ جیسے دعائے ندبہ میں پڑھتے ہیں:

اللھم لک الحمد علی ما جری بہ قضائک فی اولیائک الذین استخلصتھم لنفسک، الخ[1]

خداوندا! تو نے جو کچھ اپنے دوستوں کے لیے مقدر کیا ہے اس پر شکرگزار ہیں۔ وہ لوگ کہ جن کو تو نے اپنے دین کی نشر و اشاعت کے لیے منتخب کیا ۔ پھر اپنی لافانی اور دائمی نعمتوں کو کہ جو تیرے پاس تھیں ان کےلیے  قرار دیا۔ اس کے بعد کہ زہد اور دنیوی جاہ و حشمت سے بے توجہی اور دنیا کی لذتوں سے کنارہ کشی کو ان کے لیے شرط قراردیا اور انہوں نے بھی اس شرط کو قبول  کر لیا۔

اس سلسلے میں امام محمد باقر (ع) سے روایت نقل ہوئی ہے کہ جو بہت ہی زیادہ قابل توجہ ہے اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی پیغمبر اسلام [ص] سفر پر تشریف لے جاتے تھے سب سے آخر میں جس شخص سے وداع ہوتے تھے وہ حضرت زہرا (ع) تھی ۔واپس آنے پر بھی سب سے پہلے حضرت فاطمہ (س) ملاقات کرتے تھے۔ایک بار کسی ایک جنگ میں کچھ مال غنیمت آپ کو ملا ۔ آپ نے وہ حضرت زہرا(س) کا دے دیا ۔ حضرت زہرا (س) نے اس مالِ غنیمت کو بیچ کر اسے کے پیسوں سے اپنے لیے چاندی کے دو دستبند (کڑے) اور ایک پردہ خرید لیا اور اس کو گھر کے دروازے پر آویزاں کیا اور یہ سب آپ نے اس وقت انجام دیا جب رسول اکرم [ص] سفر پر تھے ۔ جب آپ سفر سے واپس تشریف لائے تو معمول کے مطابق سب سے پہلے حضرت زہرا(س) کے گھر تشریف لے گئے۔ آنحضرت نے ان دستبندوں اور پردے کو دیکھا تو آزردہ خاطر ہو گئے۔ اس بنا پر آپ نے حضرت فاطمہ (س) کےگھر پر زیادہ توقف نہیں کیا اور فورا مسجد تشریف لے گئے۔ حضرت فاطمہ زہرا(س) آپ کی ناراضگی کی وجہ سمجھ گئیں ۔لہذا آپ نے فورا امام حسن اور امام حسین علیھما السلام کو بلایا اور وہ دستبند اور پردہ ان کے حوالے کیا تاکہ پیغمبر [ص] کے پاس لے جائیں ۔ جیسے پیغمبر [ص] کی نگاہ اس پردہ اور دستبندوں پر پڑی آپ خوشحال ہو گئے اور دونوں بچوں کو اپنے زانوں پر بٹھایا اور ان کےبوسے لیے پھر ان کو دستور دیا کہ ان دونوں دستبندوں کو ٹکڑے ٹکڑے کریں اور پھر اہل صفہ کے نزدیک تقسیم کر دیں اور پردہ کو بھی اہل صفہ میں سے ایک شخص کو بخش دیا کہ جس کے پاس پہننے کے لیے کپڑے بھی نہ تھے۔

آپ نے ملاحظہ کیا کہ پیغمبر[ص] اور اہلبیت پیغمبر [ص] کس طرح کوشش کرتے تھے کہ اپنے آپ کو دنیا کی ہر طرح کی وابستگی سے دور رکھیں اور مادیات اور دنیوی چمک دھمک سے خود کو محفوظ رکھیں۔  البتہ یہ مقدس ہستیاں اس طرح کی وابستگیوں سے پہلے سے ہی دور ہیں ۔ یہ روایت اور اس طرح کی دوسری روایتیں ہمارے لیے درس عبرت ہیں کہ کس طرح سے  ان کے چاہنے والے خود کو دنیا کی رنگینیوں میں رنگنے سے محفوظ رکھ سکیں؟۔

۲: دوسری بات جو قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ دنیا کی لذتوں سے فائدہ اٹھانے  میں زیادہ روی سے کام نہ لیں۔ تاکہ یہ بات حیوانی لذتوں سے مانوس ہونے کا سبب نہ بنے ۔ ہمیں ہر ممکنہ کوشش کرنا چاہیے کہ اپنے تمام اعضاء و جوارح بالخصوص اپنے پیٹ کو کنٹرول میں رکھیں۔ اس لیے کہ اگر انسان کے پاس مادی لذایذ کو استعمال کرنے میں ایک منظم پروگرام نہ ہو ،کھانے پینے کی اشیاء کی مقدار اور کیفیت کا صحیح اندازہ نہ ہو تو انسان اپنے نفس کے اوپر لازم کنٹرول نہیں کر سکتا۔ مثال کے طور پر اگر انسان کھانے پینے کی اشیاء کے سلسلے میں خوددار نہ ہو تو کھانے پینے کے سلسلے میں اس کی یہ لاپرواہی ممکن ہے بری عادت کے طور پر اس کے دوسرے کاموں میں سرایت کرے۔ اور نتیجہ میں اس بات کا باعث بنے کہ انسان مادی اور شہوانی لذتوں کے سامنے بے بس ہو جائے اور اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام ہو جائے۔

البتہ اس سلسلے میں ہمارا طریقہ کار اعتدال اور میانہ روی پر مبنی ہونا چاہیے۔ جس طرح سے زیادہ روی اور افراط ،نفس کے بے مہار اور خواہشات کے غالب ہونے کا موجب ہے اسی طرح نعمتوں سے فائدہ اٹھانے میں تفریط، وظائف کی انجام دہی میں ضعف و کسالت کا سبب ہے۔اس بنا پر تمام مراحل  اور مواقع میں کھانے پینے سونے سے لے کر دوسری حیوانی لذتوں کے استعمال میں میانہ روی سے کام لیا جائے اور افراط و تفریط سے پرہیز کیا جائے یہاں پر سب سے مہم بات یہ ہے کہ کوشش کرنا چاہیے کہ دنیاوی نعمات اور لذتوں کو استعمال کرنے کا ہمارا محرک، سیر  وسلوک کے مقدمات کو طے کرنا ہو۔ یعنی بدن کی سلامتی ،قوت و نشاط ،عبادت اور شکر گذری کے لیے ہو ۔ مادی لذتوں میں زیادہ روی کرنے کے سلسلے میں اور اس قسم کے دوسرے افعال کے مقابلہ میں روزہ رکھنا ،پر خوری نہ کرنا ،کم بولنا ،کم سونا،( البتہ شرط اعتدال کی حفاظت کے ساتھ) سیر الی اللہ کی توفیق اور مادی و حیوانی لذتوں کے کم  ہونے  میں ایک مہم رول ادا  کرتا ہے۔

۳:حسی اور خیالی قوتوں  کا کنٹرول کرنا۔ حسی اور خیالی قوتوں کو کنٹرول کرنا چاہیے۔ ممکن ہے ان کا محرک حیوانی خواہشات کے اوپر مبنی ہو ۔ مخصوصا آنکھوں کو شہوت انگیر مناظر دیکھنے اور کانوں کو باطل آوازوں کے سننے سے محفوظ رکھیں۔ کلی طور پر وہ تمام چیزیں جن کی طرف توجہ کرنے میں خدا وند عالم کی رضا شامل نہ ہو ان سے پرہیز کریں۔ قرآن کریم  میں اس سلسلے میں معتدد روایات پائی جاتی ہیں  جو ہمیں اس قسم کے کنٹرول کی طرف توجہ دلاتی ہیں:

ان السمع و البصر و الفواد کل اولئک کان عنہ مسؤولا[2]

"روزقیامت سماعت، بصارت اور قلب سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا"۔

۴: ایک اور خطرہ جو ہمیشہ انسان  کو تہدید کرتا رہتا ہے وہ ہے فکری اور عقیدتی انحراف۔ اس بنا پر ہمیں مراقب اور ہوشیار رہنا چاہیے کہ خود کو فکری اور عقیدتی لغزش گاہوں سے محفوظ رکھیں۔ اس سلسلے میں مخصوصا ایسے شکوک و شبہات کے بارے میں بحث و مطالعہ سے پرہیز کرنا چاہیے جن کا جواب دینے کی قوت ہمارے اندر موجود نہ ہو۔اگر اچانک اس طرح کے شبہات ہمارے ذہنوں میں خطور کریں یا ہمارے کانوں سے ٹکرائیں تو فورا ان کے لیے قانع کنندہ جواب ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔ اس سلسلے میں قرآن کریم فرماتا ہے:

و قد نزل علیکم فی الکتاب ان اذا سمعتم آیات اللہ یکفر بھا و یستھزا بھا فلا تقعدوا معھم حتیٰ یخوضوا فی حدیث غیرہ انکم اذا مثلھم ان اللہ جامع المنافقین وا لکافرین فی جھنم جمیعا۔[3]

"اور اس نے کتاب میں یہ بات نازل کر دی کہ جب آیت الٰہی کے بارے میں یہ سنو کہ ان کا انکار اور  استہزاء ہو رہا ہے تو خبردار ان کے ساتھ ہر گز نہ بیٹھنا جب تک وہ دوسری باتوں میں مصروف نہ ہوجائیں ورنہ تم انہیں کے مثل ہو جاؤ گے خدا کفار اور منافقین سب کو جہنم میں ایک ساتھ اکٹھا کرنے والا ہے"۔

اس بارے میں ہم حدیث میں پڑھتے ہیں:

من اصغیٰ الی ناطق فقد عبدہ فان کان الناطق یودی عن اللہ فقد عبداللہ و ان کان الناطق یودی عن ابلیس فقد عبد ابلیس۔[4]

جو شخص کسی کی بات کو غور سے سنے گویا اس کا بندہ بن گیا ہے پس اگر بات کرنے والا خدا کے بارے میں بات کر رہا ہے تو وہ خدا کا بندہ بن گیا اور اگر وہ شیطانی باتیں کر رہا ہے تو سننے والا شیطان کا بندہ ہوگیاہے۔

آخر میں ہم تاکید کرتے ہیں کہ خود سازی کے عملی پروگرام کو منظم کرنے اور  اس  کے اجرا کرنے میں اعتدال اور تدریج کو نہیں بھولنا چاہیے۔اور کبھی بھی اپنے اوپر طاقت فرسا اور اپنی توان سے بڑھ کر دباؤ ڈالنے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے اس لیے کہ یہ کام علاوہ اس کے کہ نفس کی سر کشی کا سبب بنے ممکن ہے روح و روان اور بدن کو جبران ناپذیر نقصان سے روبرو کر دے۔ اس بناپربہت ضروری ہے کہ  اس پروگرام کو تشکیل دیتے وقت آگاہ اور قابل اعتماد اشخاص کے ساتھ مشورہ کریں۔ دوسری طرف سے پروگرام تشکیل دینے کے بعد اس کے اجرا اور عمل میں لانے میں سستی سے کام نہیں لیں۔ اور اسے ترک کرنے کے لیے بہانہ بازی نہ کریں اس لیے کہ ان کے ان پروگراموں کا اثر ان کے استمرار اور مسلسل جاری رکھنے میں ہے۔ بہرحال ، ہر حال میں خدا پر توکل کریں اور اس سے توفیقات میں اضافہ کا مطالبہ کریں۔

[1]  مفاتیح الجنان، دعائے ندبہ

[2]  اسراء، ۳۶

[3] نساء، ۱۴۰

[4] بحار الانوار ج۲۶م ص۲۳۹، باب ۴، روایت۱

 

 


source : http://www.ahlulbaytportal.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اسلامی زندگی اور مغرب
یورپ کی مساجد(۱)
توحید افعالی
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی صلح اور اس کے ...
کتاب علی علیہ السلام کی حقیقت کیا ہے؟
سفر امام رضا (ع)، مدینہ تا مرو
ماہ رمضان المبارک خطبۂ شعبانیہ کے آئینہ میں
دین است حسین(ع) / دیں پناہ است حسین(ع)
شیعوں کاعلمی تفکر
علامات شیعہ از نظر معصومین علیھم السلام

 
user comment