اردو
Friday 26th of April 2024
0
نفر 0

مومن کی بیداری اور ہوشیاری

جو پرہیزگار ، بزرگوار ، فقیہ ، پیشوا اور قائد ہیں ، ان کی مصاحبت ،علم و فضیلت میں اضافہ کا سبب ہے مؤمن ، گناہ کو ایک بڑے پتھر کے مانند دیکھتا ہے جس کا اسے ڈر رہتا ہے کہ اس کے سر پر نہ گرے اور کافر اپنے گناہ کو اس مکھی کے مانند دیکھتا ہے جو اس کی ناک پر سے گزرتی ہے ۔پرہیز گاروں اور فقہا کے ساتھ ہم نشینی اور مومن و کافر کی نظر میں گنا ہ کا فرقلائق اورشائستہ دوست کا انتخاب اور گناہ کو بڑا تصور کرنالاپروا علما اور بیوقوف جاہلوں کا خطرہگناہ کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے اسے سنگین تصور کرنا ، خدا کے لطف و

عنایات کا نتیجہ ہے

گناہ کو حقیر سمجھتے کے بجائے اس کی عظمت کی طرف توجہ کرنے کی ضرورتکہ جس کی نافرمانی کی جا رہی ہےمومن کی بیداری اور ہوشیاری

پرہیز گاروں اور فقہا کے ساتھ ہم نشینی اور مومن وکافر کی نظر میں گناہ کا فرق :

جو پرہیزگار ، بزرگوار ، فقیہ ، پیشوا اور قائد ہیں ، ان کی مصاحبت ،علم و فضیلت میں اضافہ کا سبب ہے مؤمن ، گناہ کو ایک بڑے پتھر کے مانند دیکھتا ہے جس کا اسے ڈر رہتا ہے کہ اس کے سر پر نہ گرے اور کافر اپنے گناہ کو اس مکھی کے مانند دیکھتا ہے جو اس کی ناک پر سے گزرتی ہے ۔

پیغمبر اسلام صلی اللهعلیہ و آلہ وسلم نے اپنی گزشتہ نصیحتوں میں انسان کو اس کی نازک حالت ، زندگی کی اہمیت اور اس کی عمر کے قیمتی لمحات سے آگاہ فرمایا اور اسے اس بات سے متنبہ کیا کہ سستی کاہلی اور لا پروائی سے اجتناب کرکے ذمہ داری کے احساس کے ساتھ اپنی زندگی کے مسائل پر غور کرے ۔ تاکید کی گئی ہے کہ انسان فرصت کو غنیمت جانے اور آ ج کے کام کو کل پر نہ چھوڑے ۔ اب بحث یہ ہے کہ عمر سے بہتر استفادہ کرنے کا راستہ اور ” سیر الی اللہ “ میں آگے بڑھنے کا پہلا قدم کیا ہے ؟

 

بے شک عمر کی قدر جاننے کے سلسلے میںا ور ” سیر الی اللہ “ میں پہلا قدم گنا ہ سے اجتناب ہے کیونکہ گناہوں کا مرتکب انسان کسی مقام تک نہیں پہنچتا ہے اور انسان کی عمر کی قدرو منزلت اسی صورت میں ہے کہ وہ گناہ میں آلودہ نہ ہوجا۔

حضرت امام سجاد علیہ السلام دعائے ”مکارم الاخلاق “ میں ارشاد فرماتے ہیں :

اَلّٰلھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ ․․․ وَ عَمِّرنی مَاکَانَ عُمْرِیْ بِذْلَةً فِی طَاعَتِکَ فَاِذَا کَان عُمْرِی مَرْتعاً لِّشَیْطَانِ فاقبِضْنِی اِلَیْکَ قَبْلَ اَنْ یَسْبِقَ مَقْتُکَ اِلیَّ اَ و یَسْتحکِمَ غَضَبُکَ عِلَیَّ ۱#

پروردگارا ! محمد اور آل محمدعلیہم السلام پر درود بھیج․․ میری عمر کو تب تک طولانی فرما جب تک میں تیری بندگی میں مصروف رہوں پس جب میری عمر شیطان کی چراگاہ بن جائے ، تو مجھ پر ناراض ہوکر غضب کرنے سے پہلے میری روح کو قبض کرلے“

اس لحاظ سے گناہ چاہے جتنا بھی چھوٹا ہو تباہی کا سبب ہے ، اگرچہبعض انسان اس کے ساتھ بہت سی عبادتیں بھی انجام دیتے ہیں جو اپنی عبادتوں کے ساتھ گناہ بھی انجام دیتے ہےں ، ان کی مثال اس شخص کے

----------------------------------

۱۔ مفاتیح الجنان ، طبع چہارم دفتر نشر فرہنگ اسلامی، ص/ ۱۱۰۶۔

جیسی ہے کہ جس کے پاس ایک سوراخ والا تھیلا ہے ،جتنابھی اس میں ایک طرف سے پیسے اور جواہرات ڈالتے ہےں دوسرے طرف سے گرجاتے ہیں ، یا اس کی مثال اس شخص کے جیسی ہے کہ ایک انبار کو جمع کرنے کے بعد اس میں آگ لگادیتا ہے کیونکہ گناہوںکی مثال اس آگ کی مانند ہے جو ہمارے اعمال کے خرمن کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔

لہٰذا پہلے مرحلے پر ہمیں گناہوں کو پہچاننا چاہیئے اور پھر اس سے آلودہ ہونے سے اپنے آپ کو بچانا چاہیئے اور اگر ہم کسی گناہ کے مرتکب ہوجائےں تو فوراً ہمیں توبہ کرنی چاہیئے اور خدا کی مدد اور اولیائے الٰہی کے توسل سے اس صدد میں رہیں کہ کبھی گناہ کے مرتکب نہ ہوں ۔لائق اور شائستہ دوست کا انتخاب اور گناہ کو بڑا تصور کرنا:

پیغمبر اسلام صلی اللهعلیہ و آولہ وسلم کی نظر میں انسان ، کمال اور عروج کی راہ میں قدم بڑھاتے وقت دوچیزوں کا سخت محتاج ہوتا ہے : ان میں سے ایک لائق دوست اور دوسری چیز گناہ کو بڑا جان کر اس سے اجتناب کرنا ۔ شاید ان دو چیزوں کا ایک ساتھ بیان کرنا ، اس معنی میں ہے کہ اچھے دوست کا انتخاب گناہ کو بڑا جاننے اور سر انجام گناہ سے اجتناب کرنے کا ایک مقدمہ ہے اور برے دوست کا انتخاب گناہوں سے بیشتر آلودہ ہونے کا ایک مقدمہ ہے ،کیونکہ اچھا دوست بہت سی نیکیوں اور برکتوں کا سرچشمہ ہوسکتا ہے ،اور برا دوست بہت سی گمراہیوں اور برائیوں کا عامل ہوتا ہے ۔

اچھا دوست اس امر کا سبب بن جاتا ہے کہ انسان کی آنکھوں کے سامنے گناہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرے تا کہ اگر وہ مرتکب گناہ ہوتو مسلسل خد اکی ذات کے سامنے شرمندہ ہوکر اپنے آپ کو قصور وار ٹھہرائے اس کے برعکس برا دوست اس امر کا سبب بن جاتا ہے کہ انسان کی نظر میںگناہ کو معمولی دکھلائے اور اسے چھوٹا شمار کرے تا کہ کسی بھی گنا ہ کے مقابلے میں شرمندگی کا احساس نہہو ۔حدیث کے اس حصہ میں آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم دوست کے انتخاب کیلئے دو معیار بیان فرماتے ہیں :

۱۔ صاحب تقویٰ ہونا ۔

۲۔ حلال و حرام الٰہی سے واقفیت ، دوسرے الفاظ میں دین کی شناخت ۔

بے تقوی دوست سے مصاحبت اور اس کے بے تقوائی کا مشاہدہ کرنا ، انسان کی نظر میں گناہ کو کم اہمیت بنا دیتا ہے اور نتیجہ کے طور پر وہ ابدی نقصان سے دوچار ہوتا ہے ، چنانچہ قرآن مجید بعض جہنمیوں کی زبانی نقل کرتے ہوئے فرماتاہے :

<یَا وَیْلَتَی لَیْتَنِی لَمْ اَتَّخِذْ فُلَاناً خَلِیلاً ، لَقَدْ اَضَلَّنِی عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ اِذْ جَاء َنِی وَکَانَ الشَّیْطَانُ لِلْاِنْسَانِ خَذُولاً > (فرقان / ۲۸۔۲۹)

ہائے افسوس ! کاش میں نے فلاں شخص کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا اس نے تو ذکر کے آنے کے بعد بھی مجھے گمراہ کردیا اور شیطان تو انسان کو رسوا کرنے والا ہے ۔

 

جس طرح بے تقویٰ انسان لائق دوستی نہیں ہے ، جاہل اور نادان انسان سے بھی دوستی نہیں کرنی چاہیئے وہ اگر نیک کام بھی انجام دینا چاہے تو جہالت کے سبب خطا اور انحراف سے دوچار ہوتا ہے ، پس ، چونکہ آگاہی اور تقویٰ حق کی راہ میں رشد اور ارتقا کیلئے دو پرکے مانند ہیں ، اس لئے یہ دوست کے انتخاب کیلئے بھی دو قیمتی معیار شمار ہوتے ہیں اس لحاظ سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جناب ابوذرۻ کیلئے اپنی سفارش میں تقویٰ اور فقاہت کو دوست کے انتخاب کیلئے دو معیار قرار دیتے ہیں ، البتہ یہ دونوں خصوصیتیں انسان میں اکٹھا ہونی چاہیے ، کیونکہ اگر فرائض کی انجام دہی کیلئے تلاش کرنے والا انسان ،د ین شناس نہ ہو تو کتنا ہی مقدس کیوں نہ ہو لوگوں کے دھوکہ میں آسکتا ہے ۔

لاپروا علما اور نادان جاہلوں کا خطرہ :

ایک معروف روایت میں پیغمبر اکرم صلی الله علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں :

” قَصَمَ ظَھْرِی رَجُلانِ: عَالِمٌ مُتَھَتِّکٌ وَ جَاھِلٌ مُتَنَسِّکٌ “

دو گروہوں نے میری کمر توڑ دی ہے ، لا پروا عالم اور نادان و جاہل عابد نے۱# ۔

امام خمینیۺفرماتے تھے نام نہاد مقدس افراد اپنے عبادی فرائض پر عمل کرنا چاہتے ہیں لیکن اپنے اصلی فریضہ--- کہ علم حاصل کرنا اور صحیح معرفت حاصل کرنا ہے ---- کو فراموش کئے ہوئے ہیں ، اسی طرح اپنے منحرف اصول اور جہالت کے راستہ پر گامزن ہیں، اسی پر تعصب کے ساتھ اصرار کرتے ہیں اسلام کیلئے اس گروہ کا نقصان فاسقوں سے زیادہ ہے اس گروہ کے افراد نہ خو دکہیں پہنچتے ہیں اور نہ دوسروں کو آگے بڑھنے دیتے ہیں ۔

----------------------------------

۱۔بحار الانوار ،ج/۲ص/۱۱۱،روایت ۲۵

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

” مَنْ عَمِلَ عَلٰی غَیْرِ عِلْمٍ یُفْسِدُ اَکْثَرُ مِمَّا یُصْلِح“ ۱##

جو علم و معرفت کے بغیر عمل کرتا ہے وہ اصلاح انجام دینے کے بجائے تباہی مچاتا ہے ۔

اسی طرح لاپروا عالم جو اپنے علم پر عمل نہیں کرتا ہے لوگ اسکے دھوکہ میں آتے ہیں وہ علم کی وجہ سے اس کا احترام کرتے ہیں اور وہ اپنے بے تقوی ہونے کی وجہ سے اسلام پر ایسی کاری ضرب لگاتا ہے کہ جاہل ہرگز ایسا نہیں کرسکتا ہے، اس لحاظ سے جہاں بھی ” تقویٰ“ کی تعریف و ستائش کی گئی ہے اس سے وہ تقویٰ مراد ہے جو علم کے ساتھ ہو ، ورنہ اگر یہ دو ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں نہ صرف فائدہ مند نہیں ہوںگے بلکہ نقصان دہ بھی ہیں، اس کے مقابلے میں اگر کہیں فقاہت اور علم کی تعریف ہوئی ہے تو اس سے وہ فقاہت و علم مرادہے جو عمل کے ہمراہ ہو جو دین شناس علم رکھتا ہے لیکن اس پر عمل نہیں کرتا، وہ راہزن کے مانند ہے۔

خداوند عالم حضرت داؤدعلیہ السلام سے خطاب فرماتا ہے :

 

” لَا تجْعَلْ بَیْنِی وَ بَیْنَک عَالِماً مَفْتُوناً بالدُّنیَا فَیَصُدُّکَ عَنْ طَرِیقٍ مَحَبَّتِی ، فَاِنَّ اُولٰئِکَ قُطَّاعُ طَرِیقِ عِبَادِی الْمُرِیدینَ ، اِنَّ اَدْنیٰ ماَ انا صَانِعٌ بِھِمْ اَنْ اَنْزَعَ حَلَاوَةَ مُنَاجَاتِی عَن قُلُوبِھِمْ “ ۲#

” اے داؤد ، میرے اور اپنے درمیان ایسے عالم کو واسطہ قرار نہ دینا جو دنیا پر فریفتہ ہوچکا ہووہ تجھے میری محبت کی راہ سے ہٹا دے گا بے شک ایسے لوگ خدا کی تلاش میں نکلنے والوں پر ڈاکا ڈالنے والے ہیں ایسے لوگوں کیلئے میری سب سے کم سزا یہ ہے کہ ان کے دل سے میں اپنے مناجات کی شیرینی چھین لیتا ہوں “

بے عمل اور دنیا پرست عالم ایک ایسا چور ہے ، جو دن دہاڑے کاروان پر ڈاکا ڈالتا ہے وہ چونکہ علم رکھتا ہے اس لئے بہتر جانتا کہ لوگوں کو کیسے دھوکہ دے ایسا عالم، دین کے کام کا نہیں ہے لہذا ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے کہ ان کے فریب میںنہ آئیں اس لئے تقوی اور فقاہت ایک دوسرے کے ساتھ ہونے کی

----------------------------------

۱۔بحار الانوار ،ج/۱ص/۲۰۸

۲۔کافی ،ج/۱،ص/۴۶

صورت میں مؤثر ہیں اور اسی صورت میں سماج اور فرد کیلئے سعادت کا سبب بن سکتے ہیں، ان لوگوں کے ساتھ مصاحبت جائز ہے جنھوں نے تقویٰ ، عبادت ، بندگی اور اطاعت کے ذریعہ حکم خدا کو اپنے اندرمحکم کیا ہے اور دوسری طرف سے دین کی شناخت رکھتے ہیں اور معارف دینی کے ماہر ہیں اس قسم کے علما کے ساتھ مصاحبت سے انسان کی فضیلت اور عروج کو تقویت ملتی ہے ۔

 

اگرچہ اصطلاح میں ” فقیہ ‘ ان علما کو کہا جاتا ہے جو احکام شرعی کے استنباط کی صلاحیت اور فروع کو اصول کی جانب پلٹانے کی لیاقت رکھتے ہیں لیکن قرآن مجید اور روایات کی اصطلاح میں ” فقیہ “ دین کی پہچان رکھنے والے کو کہتے ہیں خواہ وہ فرعی مسائل کی معرفت رکھتا ہو یا اعتقادی اور اخلاقی مسائل کی بلکہ اعتقاد ی اور اخلاقی مسائل کے عالم سے مصاحبت بہتر ہے ۔

پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :

” اب جب کہ تم نے عزم سفر کیا ہے اور لائق دوست کو اپنے لئے انتخاب کیا ہے ، ہوشیار رہو کہ گناہ میں مبتلا نہ ہو ، اگر گناہ سے آلودہ ہوئے تو تمھارا یہ سفر بے نتیجہ ہوگا اور تمھاری جستجو اور عبادتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا“

انسان بلا سبب گناہ کے پیچھے نہیں جاتا ہے اس میں شک نہیں ہے کہ گناہ میں ایک قسم کی لذت شیرینی اور کشش ہوتی ہے کہ انسان اس سے آلودہ ہوتا ہے اگر چہ یہ لذتیں اور کشش تصوراتی اور خیالی ہیں اور شیطانی وسوسے سے پیدا ہوتی ہیں اور ان کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی ہے لیکن بہر حال انسان گناہ میں ایک جاذبہ اور شیرینی دیکھتا ہے جس کے پیچھے وہ دوڑتا ہے ۔ اصلی بات یہ ہے کہ انسان کو کیا کرنا چاہیئے تا کہ اسے یہ توفیق حاصل ہوجائے کہ گناہ سے اجتناب کرسکے اور اس کا مقابلہ کرسکے ۔

گناہ سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انسان گناہ کے خطرہ اور اس کے بڑے ہونے کا تصور کرے اس ناپائدار لذت کے نقصانات اور خطرات اور دنیوی و اخروی زندگی پرگناہ کے پڑنے والے مسلسل برے اثرات کو پہچانے ۔

مؤمن کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ گناہ کے بارے میں ایک خاص نظریہ رکھتا ہے اور یہی نظریہ اس کیلئے گناہ سے بچنے کا سبب ہے مؤمن کیلئے گناہ اس پتھر کے مانند ہے جو اس کے سر پر گرنے والا ہوتا ہے اگر اس سے کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے تو وہ اس کے انجام سے خوف زدہ ہوتا ہے ،اس کا نظریہ اس کی فکر پر اتنا اثر ڈالتا ہے کہ ہمیشہ اس کے ضمیر کو گنا ہ کے خلاف تحریک کرتا ہے اور جب بھی کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے فوراً معذرت چاہتے ہوئے توبہ کرتا ہے اسکی حالت بالکل اس انسان کے مانند ہوتی ہے جس کے سرپر ایک بڑا پتھر آویزاں ہو اور ہمیشہ اس کے گرنے سے خائف رہتا ہے یعنی اس انسان کی روح اس قدر پاک و پاکیزہ ہے کہ ہر گناہ کے بارے میں رد عمل کا مظاہرہ کرتا ہے اور ہمیشہ اپنے نفس کی ملامت کرتا رہتا ہے حتی اس پر سکون اورنیند حرام ہوجاتی ہے ۔

 

اس کے برعکس کافر اور وہ انسان جس نے اپنی فطرت کو معصیت کے زنگار سے آلودہ کیا ہو ، گناہ انجام دیتے ہوئے کسی قسم کی اظہار ناراضگی اور تکلیف محسوس نہیں کرتا ہے اور اسکی نظر میں گناہ اس مکھی کے مانند ہے جو اس کی ناک پر سے گزرتی ہے ( کافر سے مراد صرف وہ شخص نہیں ہے جو خداو ومعاد کا منکر ہو بلکہ جو ضروریات دین میں سے کسی ایک کا منکر ہو وہ بھی کافر ہے )

آیات و روایات کے علاوہ یہ موضوع ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ برے عمل کی تکرار اس کی قباحت کو زائل کرتی ہے اور نتیجہ کے طور پر ، عملی صورت میں یہ برا کام لذت بخش لگتا ہے اور انسان اس کو انجام دینے میں شرمندگی کا احساس نہیں کرتا ہے ،گناہ کی بھی یہی حالت ہے اگر گناہ مسلسل اور مکرر انجام پاتا رہا ، اس کی قباحت زائل ہوجاتی ہے اس کی قباحت زائل ہونے کے نتیجہ میں انسان اس کے مرتکب ہونے میںشرمندگی کا احساس نہیں کرتا ہے ۔

یہاں پر ایک معیار کو پیش کیا جاسکتا ہے کہ اگر انسان یہ جاننا چاہے کہ وہ ایمان کی سرحد کے نزدیک ہے یا کفر کی سرحد کے نزدیک ہے تو اسے دیکھنا چاہیئے کہ گناہ کے مقابلے میں اس کا رد عمل کیسا ہے اگر وہ دیکھ لے کہ گناہ اس کیلئے اہم نہیں ہے اور اس کی طرف اعتنا نہیں کرتا ہے تو اسے جانناچاہیئے کہ کفر کی راہ پر گامزن ہے کیوںکہ گناہ سے پشیمانی، روح ایمان کی دلیل ہے اور اس سے بے اعتنائی روح کفر کی دلیل ہے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اگر غضب یا کوئی شہوت انسان پر غالب آئے اور وہ گناہ کا مرتکب ہوجائے فوراً پشیمان ہوتا ہے اور اپنے کئے ہوئے پر خوف و وحشت کااحساس کرتا ہے اگر ہم میں ایسی حالت نہیں ہے تو ہمیں اپنے انجام سے ڈرنا چاہیئے کہ ہم خطرناک راستے پر گامزن ہیں ۔

گناہ کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے اسے سنگین سمجھنا ، خدا کے لطف و عنایات کا نتیجہ ہے

اگر خدائے تبارک و تعالی کسی بندے کی خیر چاہتا ہے تو اس کے اعمال کو اس کے سامنے مجسم کرتا ہے اور گناہ کو اس پر سنگین اور دشوار بنادیتا ہے اگر کسی بندہ کی بدی و بدبختی چاہتا ہے تو اس کے گناہوں کو اس کے ذہن سے فراموش کردیتا ہے “

خداوند عالم اپنے تمام بندوں کے ساتھ مہربانی اور محبت کرتا ہے اگر کسی کی محبت نہ کرتا تو اسے خلق نہیں کرتا لیکن خدا وند اپنے اولیا کے بارے میں خصوصی محبت و مہربانی کرتا ہے اگر یہ لوگ غفلت کی وجہ سے گناہ کے مرتکب ہوجائیں ان کی تنبیہ اور بیداری کیلئے گناہ کو ان کی نظروں کے سامنے مجسم کرتا ہے کیونکہ آلودگی میں پھنسنے اور گناہوں میں غرق ہونے کا پہلا مرحلہ گنا ہ اور اس کے انجام کو فراموش کرنا ہے اس کے پیش نظر کہ خداوند عالم اپنے بعض بندوں کی نسبت عنایت کی نظر رکھتا ہے اس لئے انہیں اپنے حال پر نہیں چھوڑتا ہے اس کے برخلاف بعض افراد خدا کی اس عنایت سے بے بہرہ ہیں اور خدا نے ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دیا ہے ہر ایک انسان اس بات کا اندازہ لگا سکتا ہے کہ کیا وہ خدا کے لطف و عنایت کا مستحق قرار پایا ہے کہ نہیں ، اگر اس نے اپنے پچھلے گناہوں کو فراموش نہیں کیا ہے اور گنا ہ اس کیلئے سنگین و سخت ہے تو اسےجاننا چاہیئے کہ و ہ خدائے تعالی کے لطف و عنایت کا مستحققرار پایا ہے لیکن اگر اپنے گناہوں کو فراموش کر دیا ہے اور انہیں ہلکا سمجھتا ہے تو جاننا چاہیئے کہ خدا کی مہربانی و عنایت اس کے ساتھ نہیں ہے ۔

واضح ہے کہ گناہوں کو یاد رکھنا اس وقت فائدہ مند ہے جب یہ گناہ کو جاری رکھنے میں رکاوٹ بنے ورنہ اگر کوئی اپنے گناہوںکا تصور کرتے ہوئے انہیں اپنے کندھوں پر سنگین بوجھ نہ سمجھے تو اسے گناہ کے مرتکب ہونے کا کوئی خوف نہیں ہے ۔

حضرت امام سجاد علیہ السلام دعائے ابو حمزہ ثمالی میں فرماتے ہیں :

”وَ اَنَا الَّذِی اَمْھَلْتَنِی فَمَا اَرْعَوَیْتُ و سترت عَلَیَّ فَمَا اَسْتَحْیَیْتُ وَ عَمِلْتُ بِالْمَعَاصِی فَتَعَدَّیْتُ و َ اَسْقَطتنِی مِنْ عَیْنِکَ فَمَا بٰالَیْتُ ․․․․“

 

”میں وہ ہوں کہ جسے تو نے گناہ کو ترک کرنے اور توبہ کرنے کی مہلت د ی لیکن میں نے گناہ سے اجتناب نہیں کیا تو نے میرے گناہوں کی پردہ پوشی کی ، میں نے شرم و حیا نہ کرتے ہوئے پھر سے گناہ انجام دئے اور حدسے گزر گیا یہاں تک تو نے مجھے نظر انداز کیا “

پس ، اگراللہ تعالیٰ کسی کی نیکی چاہتا ہے تو ہر وقت اس کے گناہوں کو اس کے سامنے مجسم کرتا ہے یہاں تک وہ اپنے گناہوں کو اپنے اوپر ایک سنگین بوجھ محسوس کرے، اس کے بر عکس اگر اللہ تعالی کسی پر عنایت نہیں کرتا ہے اور اس کی بدی کو جاری رکھنا چاہتا ہے تو اسے اس کے حال پر چھوڑدیتا ہے اور اسکے بعد اس کیلئے گناہ ہلکے ہوجاتے ہیں اور وہ انہیں اہمیت نہیں دیتا ہے ۔

البتہ شروع میں اللہ تعالی کسی کو اپنی عنایت سے محروم نہیں کرتا ہے اور اس کی بدی نہیں چاہتا ہے لیکن جب انسان برے کام انجام دینے لگتا ہے اور ان پر اصرار کرتا ہے تو اس وقت خدا وند عالم اسے اس قسم کے انجام سے دوچار کرتا ہے

وہ انسان خدا کے نزدیک عزیز ہوتا ہے جو اس کی بندگی اور اس کے تقرب کوحاصل کرناچاہتا ہے اور خد اکے نزدیک وہ انسان پست و منفور ہے جو خداوند عالم سے دور ہوچکا ہے اور اسے فراموش کردےا ہے تو خداوند عالم بھی اسے اس کے حال پر چھوڑتا ہے :

< وَ لَا تَکُونُوا کَالَّذِینَ نَسُوااللهَ فَاَنْسٰھُم اَنْفُسَھُمْ > (حشر / ۱۹)

اور خبردار ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا ، جنہوں نے خدا کو بھلادیا ہے تو خدا نے بھی خود ان کو بھی بھلادیا “

گناہ کو حقیر سمجھنے کے بجائے اس کی عظمت کی طرف توجہ

کرنے کی ضرورت کہ جس کی نافرمانی کی جارہی ہے

” یَا اَبَاذَر ! لَاتنْظُرُ اِلٰی صِغْرِ الْخَطِیْئَةِ وَ لٰکِنْ انْظُر اِلٰی مَنْ عَصَیْتَ“

اے ابوذرۻ !گناہ کے چھوٹے ہونے پر نگاہ نہ کرو بلکہ نافرمانی کی جانے والے کی عظمت پر توجہ کرو۔

گناہوں کو تین زاویوں سے دیکھا جاسکتا ہے :

۱۔ چھوٹے ا ور بڑے ہونے کے زاوےہ سے گناہ کودیکھنا ۔

۲۔ فاعل اور گناہ کو انجام دینے والے کے رخ سے دیکھنا ۔

۳۔ نافرمانی ہونے والے کے لحاظ سے گناہ کی طرف نگاہ کرنا ۔

کتاب و سنت میں گناہوں کو دو حصوں ”کبیرہ و صغیرہ “ میں تقسیم کیا گیا ہے اور ان میں سے ہر ایک کیلئے الگ الگ حکم اور عذاب مخصوص ہیں قرآن مجید فرماتا ہے ؛

جب بعض لوگوں کے ہاتھ میںا ن کے اعمال نامے دیئے جائیں گے وہ کہیں گے :

<․․․ یَا وَیْلَتَنَا مَالِ ھٰذَا الْکِتَابِ لَا یُغَادِرُ صَغِیرَةً وَ لَا کَبِیرَةً اِلَّا اَحْصٰھَا> (کہف / ۴۹)

ہائے افسوس اس کتاب نے تو چھوٹابڑا کچھ نہیں چھوڑا ہے اور سب کو جمع کیا ہے ۔

شاید ان دو قسموں میں بنیادی فرق یہ ہو کہ گناہان کبیرہ کے بارے میں عذاب کا وعدہ دیا گیا ہے اور گناہان صغیرہ کے بارے میںعذاب کا وعدہ نہیں دیا گیا ہے اسی طرح چھوٹے گناہوں کے بارے میں کوئی حد مقرر نہیں کی گئی ہے اس کے بر عکس بڑے گناہوں میں ایک خاص تعداد کے بارے میںا یک مشخص حد بیان کی گئی ہے ۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ ممکن ہے کوئی شخص کسی ایسےگناہ کو انجام دے جو اس کی نظر میں گناہ صغیرہ اور قابل بخشش ہے لیکن اس امر سے وہ غفلت کرتا ہے کہگناہ صغیرہ کی تکرار اور اسے چھوٹا سمجھنا ہی بذات خود گناہ کبیرہ ہے اور اس کا پیہم اصرار انسا ن کو گناہ کرنے میں گستاخ بنادیتا ہے د وسرے یہ کہ : وہ بھول جاتا ہے کسی کے حق میں گستاخی کی ہے اور کسی کی نہی کی نافرمانی کی گئی ہے ۔

روایت کا یہ حصہ دوسرے مطلب کو مد نظر رکھتا ہے کہ صرف گناہ کے چھوٹے ہونے کو ملحوظ نہ رکھو بلکہ اس حقیقت کی طرف توجہ کرو کہ کسی کی بارگاہ میں اور کسی کی نافرمانی کے مرتکب ہور ہے ہو کبھی کوئی امر ، بذات خود چھوٹا ہو لیکن اس لحاظ سے بڑا ہے کہ ایک بڑی شخصیت سے مربوط ہے ۔

فرض کیجئے آپ امام معصوم کے حضور میں ہیں اور امام معصوم آپ کو ایک حکم دے اگر چہ وہ حکم چھوٹا ہی کیوں نہ ہو مثلا ً حکم دے کہ آپ ان کے لئے پانی کا ایک گلاس لائیں لیکن آپ تصور کیجئے کہ یہ امر بہت چھوٹا ہے اور اس وجہ سے اس کی نافرمانی کریں ۔ کیا اس نافرمانی کو اچھا کہا جائے گا ؟ کیا یہ تصور عاقلانہ ہے ؟ کیا ادب کا تقاضا یہی ہے ؟ کیا اس امر کو چھوٹا سمجھنا صحیح ہے ؟ ہرگز ایسا نہیں ہے کیونکہ اس امر کے چھوٹے ہونے کے باوجود امر کرنے والا بہت بڑا ہے ،اور چھوٹا حکم ،حکم کرنے والے کے لحاظ سے بڑا ہوجاتا ہے، اب اسی حال کو اللہ تعالی کے بارے میں تصور کیجئے جبکہ خدا کی نافرمانی امام معصوم کی نافرمانی سے قابل موازنہ نہیں ہے لہذا نافرمانی کی قباحت کا امر و نہی کرنے والے کی عظمت سے موازنہ کرنا چاہیئے

گناہ کے بارے میں اس قسم کا تصور ، انسان کیلئے شیطان کی مخالفت کرنے میں قوی محرک بن سکتا ہے اور نفس امارہ کے ہر بہانہ کو سلب کرسکتا ہے ممکن ہے ایک وقت کسی سے اس کا ایک دوست درخواست کرے اور وہ اسے قبول نہ کرتے ہوئے کہے کہ تجھے میرے لئے حکم دینے کا حق نہیں ہے لیکن کبھی باپ ، ماں یا استاد انسان کوحکم دیتے ہیں ان کی مخالفت اور نافرمانی انتہائی بری بات ہے اسی طرح بعض اوقات کوئی حکم ایک مرجع تقلید کی طرف سے ، کبھی امام معصوم اور کبھی خدا کی طرف سے ہوتا ہے اس صورت میں امر و نہی کرنے والے کا مقام جتنا بلند اور عظیم ہو اس کے فرمان کی نافرمانی بر تری اور اور اس کی سزا شدید تر ہوتی ہے ۔

جب شیطان وسوسہ ڈالتا ہے : نامحرم پر ایک نظر ڈالناکوئی خاص مسئلہ نہیں ہے ، حرام موسیقی پر ایک منٹ کیلئے کان لگانا کوئی چیز نہیں ہے ایسے موقع پر اس امر کی طرف توجہ کرنی چاہیئے کہ تم کس کی نافرمانی کررہے ہو ! یہاں پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوذر سے فرماتے ہیں : گناہ کے چھوٹے ہونے پر نگاہ نہ کرو، بلکہ یہ دیکھو کہ تم کس کی نافرمانی کررہے ہو ۔

” یَا اَبَاذَر ! اِنَّ نَفْسَ الْمُوٴمِنُ اَشَّدُ ارْتِکَاضاً مِنَ الخطِیٴَةِ مِنَ الْعُصْفُورِ ،حِیْنَ یُقْذَفُ بِہِ فِی شَرَکِہِ“

اے ابوذرۻ! ایک با ایمان انسان کی اپنے گناہ کے بارے میں بے چینی اور اضطراب اس چڑیا کی بے چینی اور خوف سے زیادہ ہے جو پھندے میں پھنس جاتی ہے ۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہاں پر گناہ کے بارے میں مومن کے رد عمل کے بارے میںا یک اور واضح مثال بیان فرماتے ہیں کہ اگر ایک پرندے کو پھنسا نے کیلئے پھندے کو پھیلایا جائے اور یہ اڑنے والا پرندہ اس میں پھنس جائے تو یہ پرندہ شدید رد عمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔ انتہائی بیقراری اور اضطراب کی حالت میں اس پھندے سے اپنے آپ کو آزاد کرنے کیلئے جستجو اور کوشش کرتا ہے اور کبھی اس کی یہی سخت جستجو اسکے موت کا سبب بنتی ہے اس کا یہ انجام اس کے پھندے میں پھنسنے کی وجہ سے پیدا ہونے والی بے چینی اورپریشانی کی وجہ سے ہوتا ہے گناہ کے مقابلے میںمومن کا رد عمل بھی ایساہی ہوتا ہے جب وہ احساس کرتا ہے کہ وہ شیطان کے جال میں پھنس گیا ہے تو اس کے تمام وجود پر بے چینی اور اضطراب کا عالم چھا جاتا ہے حتی اسکی یہ بے قراری اور بے چینی اس کے کھانے پینے اور نیند کو بھی حرام کردیتی ہے اور وہ شیطان کے اس پھندے سے آزاد ہونے کیلئے مسلسل جستجو و تلاش کرتا ہے ۔

ہم معصوم نہیں ہیں اور ہمیشہ سہو وخطا سے دوچار ہوسکتے ہیں یہ بھی توقع نہیں کہ ہم سے خطا سرزد نہ ہو ممکن ہے کبھی شیطان کے جال میں پھنس جائیں ( لیکن معصوم نہ ہونے کا معنی یہ نہیں ہے گناہ انجام دےا جانا چاہیئے کیونکہ ممکن ہے غیر معصوم انسان بھی گناہ نہ کرے اور ان کا معصوم سے یہی فرق ہے معصوم میں ایک ایسا ملکہ ہوتاہے جو اسے گناہ انجام دینے سے روکتا ہے عام انسان بھی عصمت کا ملکہ نہ رکھنے کے باوجود گناہ سے آلودہ نہیں ہوسکتا ( بہر صورت اگر ہم کسی گناہ میں مبتلا ہوجائیں تو ہمارے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں مسلسل فکر مندرہنا چاہیئے اور جستجو کرنی چاہئے کہ توبہ ، استغفار ، گریہ وزاری سے اس کے برے نتائج سے اپنے آپ کو نجات دلائیں )۔


source : http://www.taqrib.info
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

زندگی میں قرآن کا اثر
فرامین مولا علی۳۷۶ تا ۴۸۰(نھج البلاغہ میں)
اعتدال و میانہ روی اسلامی طرززندگي
اللہ تعالي کے ديدار کے بارے ميں بعض مسلمانوں کا ...
13 رجب المرجب حضرت علی علیہ السلام کے یوم ولادت ...
ائمہ اطہار{ع} کے پاس زرارہ کا مقام کیا تھا؟
اسلامی زندگی اور مغرب
یورپ کی مساجد(۱)
توحید افعالی
امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی صلح اور اس کے ...

 
user comment