اردو
Saturday 27th of April 2024
0
نفر 0

حضرت ہود عليہ السلام

 

قرآن مجيد ميں ذكر شدہ انبياء كے ناموںو ميں حضرت ہود بھى ہيں، جو قوم عاد كى طرف مبعوث ہوئے ،بعض مورخين كا نظريہ ہے كہ عاد كا اطلاق دو قبيلوں پر ہوتا ہے ايك وہ جو بہت پہلے تھا اور قرآن نے اسے عاد الاولى سے تعبير كيا،()وہ غالباً تاريخ سے پہلے موجود تھا، دوسرا قبيلہ جو تاريخ بشر كے دَور ميں اور تقريباً ولادت مسيح سے سات سو سال پہلے تھا اور وہ عاد كے نام سے مشہور تھا_ يہ احقاف يايمن ميں رہائشے پزير تھا_

اس قبيلہ كے افراد بلند قامت اور قوى الجثہ تھے اور اسى بنا پر بہت نماياں جنگجو شمار ہوتے تھے_

اس كے علاوہ و ہ متمدن بھى تھے_ان كے شہر آباد اور زمينيں سر سبز و شاداب تھيں_ان كے باغات پر بہار تھے اور انہوں نے بڑے بڑے محل تعمير كيے تھے_

بعض مو رخين كا خيال ہے كہ عاد اس قبيلے كے جد اعلى كا نام تھا اور وہ قبيلے كو اپنے جدّ(دادا) كے نام سے موسوم كر كے پكارتے تھے_

حضرت ہود(ع) برادر قوم عاد

 

قرآن نبى اللہ كے سلسلہ ميںفرماتاہے :''ہم نے قوم عاد كى طرف ان كے بھائي ہود كو بھيجا''_ (1)

يہاں حضرت ہود كو بھائي كہا گيا تھا يہ تعبير ياتو اس بناء پر ہے كہ عرب اپنے تمام اہل قبيلہ كو بھائي كہتے ہيںكيونكہ نسب كى اصل ميں سب شريك ہوتے ہيں مثلا بنى اسد كے شخص كو ''اخواسدى '' كہتے ہيں اور مذحج قبيلہ كے شخص كو ''اخومذ حج ''كہتے ہيں ،يا ہوسكتا ہے كہ يہ اس طرف اشارہ ہوكہ حضرت ہود كا سلوك اپنى قوم سے ديگر انبياء كى طرح بالكل برادرا نہ تھا نہ كہ ايك حاكم كا سابلكہ ايسا بھى نہيں جو باپ اپنى اولاد سے كرتا ہے بلكہ آپ كا سلوك ايسا تھا جو ايك بھائي دوسرے بھائيوں سے كرتا ہے كہ جس ميں كوئي امتياز اوربر ترى كا اظہار نہ ہو_

 

حضرت ہود كى بہترين دليل

حضرت ہود نے بھى اپنى دعوت كا آغاز ديگر انبياء كى طرح كيا آپ كى پہلى دعوت توحيد اور ہر قسم كے شرك كى نفى كى دعوت تھي،''ہود نے ان سے كہا :''اے ميرى قوم خدا كى عبادت كرو ،كيونكہ اس كے علاوہ كوئي اللہ اور معبود لائق پرستش نہيں ،بتوں كے بارے ميں تمہارا اعتقاد غلطى اور اشتباہ پرمبنى ہے اور اس ميں تم خدا پر افتراء باندھتے ہو''_(2)

 

 

يہ بت خدا كے شريك نہيں ہيں، نہ خير وشر كے منشاء ومبدا ء ،ان سے كوئي كام بھى نہيں ہوسكتا اس سے بڑھ كر كيا افتراء اور تہمت ہوگى كہ اس قدر بے وقعت موجودا ت كے لئے تم اتنے بڑے مقام ومنزلت كا اعتقاد ركھتے ہو؟_

اس كے بعد حضرت ہود نے مزيد كہا :''اے ميرى قوم ميں اپنى دعوت كے سلسلے ميں تم سے كوئي توقع نہيں ركھتا تم سے كسى قسم كى اجرت نہيں چاہتا''_(3)

كہ تم يہ گمان كروكہ ميرى يہ داد وفرياد اور جوش وخروش مال ومقام كے حصول كے ليئے ہے يا تم خيال كرو كہ تمہيں مجھے كو ئي بھارى معاوضہ دينا پڑے گا جس كى وجہ سے تم تسليم كرنے كو تيار نہيں ہو، ميرى اجرت صرف اس ذات پر ہے جس نے مجھے پيدا كيا ہے ،جس نے مجھے روح وجسم بخشے ہيں اور تمام چيزيں جس نے مجھے عطا كى ہيں وہى جو ميرا خالق ورازق ہے ميں اگر تمہارى ہدايت وسعادت كے لئے كوئي قدم اٹھاتا ہوں تو وہ اصولاً اس كے حكم اطاعت ميں ہوتا ہے لہذا اجرو جزا بھى ميں اسى سے چاہتاہوںنہ كہ تم سے، علاوہ ازيں كيا تمہارے پاس اپنى طرف سے كچھ ہے جو تم مجھے دو، جو كچھ تمہارے پاس ہے اسى خدا كى طرف سے ہے، كيا تم سمجھتے نہيں ہو ؟''_(4)

آخر ميں انہيں شوق دلانے كے لئے اور اس گمراہ قوم ميں حق و حق طلبى كا جذبہ بيدار كرنے كے لئے تمام ممكن وسائل سے استفادہ كرتے ہوئے مشروط طور پر مادى جزائوں كا ذكر كيا گيا ہے كہ جو اس جہان ميں خدا مومنين كو عطافرماتا ہے ارشاد ہوتا ہے :''اے ميرى قوم اپنے گناہوں پر خدا سے بخشش طلب كرو ،پھر توبہ كرو اور اس كى طرف لوٹ آئو اگر تم ايسا كرلو تو وہ اسمان كو حكم دے گا كہ وہ بارش كے حيات بخش قطرے پيہم تمہارى طرف بھيجے_''(5)

تاكہ تمہارے كھيت اور باغات كم آبى يا بے آبى كا شكار نہ ہوں اور ہميشہ سرسبز وشاداب رہيں علاوہ ازيں تمہارے ايمان و تقوى ، گناہ سے پرہيز اور خدا كى طرف رجوع اور توبہ كى وجہ سے'' تمہارى قوت ميں مزيد قوت كا اضافہ كرے گا_''(6)

يہ كبھى گمان نہ كرو كہ ايمان و تقوى سے تمہارى قوتميں كمى واقع ہوگى ايسا ہر گز نہيں بلكہ تمہارى جسمانى وروحانى قوت ميں اضافہ ہوگا _

اس كمك سے تمہارا معاشرہ آباد تر ہوگا ،جمعيت كثير ہوگى ،اقتصادى حالات بہتر ہونگے اور تم طاقتور، آزاداور خود مختار ملت بن جائو گے لہذا راہ حق سے روگردانى نہ كرو اور شاہراہ گناہ پر قدم نہ ركھو _

اے ہود تم ہمارے خدائوںكے غضب سے ديوانہ ہوگئے ہو

اب ديكھتے ہيں كہ اس سركش اور مغرور قوم يعنى قوم عادنے اپنے بھائي ہود ،ان كے پندو نصائح اور ہدايت ورہنمائي كے مقابلے ميں كيا ردّعمل ظاہر كيا _

انہوں نے كہا : ''اے ہود :تو ہمارے لئے كوئي واضح دليل نہيں لايا ، ہم ہرگز تيرى باتوں پر ايمان نہيں لائيں گے ''_7)

ان تين غير منطقى جملوں كے بعد انہوں نے مزيد كہا :''ہمارا خيال ہے كہ تو ديوانہ ہوگيا ہے اور اس كا سبب يہ ہے كہ تو ہمارے خدائوں كے غضب كا شكار ہوا ہے اور انہوں نے تيرى عقل كو آسيب پہنچا ياہے ''8)

اس ميں شك نہيں كہ (جيسے تمام انبياء كا طريقہ كارہوتا ہے اور ان كى ذمہ دارى ہے) حضرت ہود عليہ السلام نے انہيں اپنى حقانيت ثابت كرنے كے لئے كئي ايك معجزے دكھائے ہوں گے ليكن انہوں نے اپنے كبروغرور كى وجہ سے ديگر ہٹ دھرم قوموں كى طرح معجزات كا انكار كيا اور انہيں جادو قرار ديا اور انہيں اتفاقى حوادث گردانا كہ جنہيں كسى معاملے ميں دليل قرار نہيں ديا جاسكتا _

انہوں نے حضرت ہود پر ''جنون ''كى تہمت لگائي اور ''جنون ''بھى وہ جو ان كے زعم ناقص ميں ان كے خدائوں كے غضب كا نتيجہ تھا ،ان كے بےہودہ پن اور خرافات پرستى كى خود ايك بہترين دليل ہے_

بے جان اور بے شعورپتھر اور لكڑياں جو خود اپنے ''بندوں '' كى مدد كى محتاج ہيں وہ ايك عقلمند انسان سے كس طرح اس كا عقل وشعور چھين سكتى ہيں علاوہ ازيں ان كے پاس ہود كے ديوانہ ہونے كو نسى دليل تھى ،اگر يہ ديوانگى كى دليل ہے توپھر تمام مصلحين جہان اور انقلابى لوگ جو غلط روش اور طريقوں كے خلاف قيام كرتے ہيں سب ديوانے ہونے چاہئيں _

(1) سورہ ہود آيت50

 

(2) سورہ ہود آيت 50
(3) سورہ ہود آيت 51
(4) سورہ ہود آيت 51
(5)سورہ ہود آيت52
(6)سورہ ہود آيت 52
7)سورہ ہود آيت 53

 

(8)سورہ ہود آيت54

 

 

 


source : http://www.maaref-foundation.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

روحانی بیماریاں
مناظرہ امام جعفر صادق علیہ السلام و ابو حنیفہ
گريہ شب
اسلام میں حج کی اہمیت
غیب پر ایمان
فلسفہ خمس
مسلمان جوان اور نفس
امام خمینی (رح) کی با بصیرت قوم پر سلام
خوشبوئے حیات حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ ...
قیامت اورمعارف وتعلیمات اسلامی میں اس کا مقام

 
user comment