اردو
Saturday 27th of April 2024
0
نفر 0

حضرت امام زین العابدین (ع)کے سیاسی افکار و کردار

آپ کا ایک سیاسی کردار دعاہے

جب سماج اور معاشرہ منحرف ہونے لگا اور راحت طلبی و دنیا پرستی کے افکار کا غلبہ ہونے لگا اور سیاسی ، اخلاقی اور معاشرتی فتنہ و فساد عام ہونے لگا اور سیاسی اعتبار سے سانس لینا دوبھر ہوگیا تو حضرت امام سجاد  ـ نے اپنے بعض عقائد کو بیان کرنے کے سلسلہ میں دعاؤں سے استفادہ کیا جس کے نتیجہ میں دوبارہ سماج اور معاشرہ میں خداوند عالم کی معرفت ، عبادت اور اس کی بندگی کا رجحان پیدا ہوا اگر چہ ظاہری طور پر ان دعاؤں میں امام  کا اصلی مقصود معرفت و عبادت تھا لیکن جب لوگ اس کی عبارتوں میں غور و فکر کریں گے تو لوگ حضرت امام سجاد  ـ کے سیاسی مفاہیم سے آشنا ہوں گے ۔

مشہور و معروف دعا کہ صحیفہ سجادیہ ہے جو پچاس زیادہ دعاؤں پر مشتمل ہے ، صرف حضرت امام سجاد  ـ کی دعاؤں ہیں کہ جس کی جمع آوری ہوئی ہے ، یہ دعائیں نہ صرف شیعوں کے درمیان بلکہ اہل سنت کے درمیان بھی پائی جاتی ہیں ،(١)اور یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ اس زمانے کے سماج و معاشرہ میں حضرت امام سجاد  ـ کی دعاؤں کا نفوذ تھا ، شیعوں کے ائمہ علیہم السلام کے درمیان حضرت امام سجاد  ـ کی دعائیں سب زیادہ مشہور ہیں ۔

دعاؤں کے درمیان ایسی عبارتیں پائی جاتی ہیں جو اکثر و بیشتر تکرار ہوئی ہیں بہت کم ایسی دعائیں ہیں جو تکرار سے خالی ہوں یہ عبارت '' محمد و آل محمد پر صلوات ہے '' بنیادی طور پر دعاؤں کے صحیح ہونے کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے جس زمانے میں اپنے بیٹوں کا نام علی رکھنا قبیح اور برا سمجھاجاتاتھا اور اسی بنا پر لوگوں کو ڈرایا دھمگا یا جاتاتھا اور علی کو سبّ و شتم کرنے کے بغیر بنی امیہ کا کوئی کام انجام نہیں پاتاتھا۔ (٢)اس عبارت کا استعمال ہونا اپنی قدر و منزلت کو بخوبی اجاگر کرتاہے مثلاً یہ عبارت '' محمد و آلہ الطیبین الطاھرین الأخیار الأنجبین''(٣) ایسا نمونہ ہے کہ جس کی تکرار کئی مرتبہ ہوئی ہے ۔

صحیفہ سجادیہ کے سیاسی و دینی مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ امامت کو بیان کرنا ہے ، یہاں پر چند نمونے بیان کرتے ہیں : ایک مقام پر فرماتے ہیں :

'' ربّ صلّ علی أطائب أھل بیتہ الذین اخترتھم لأمرک و جعلتھم خزنة علمک و حفظة دینک و خلفائک فی أرضک و حججک علی عبادک و طھّرتّھم من الرجس و الدّنس تطھیراً بارادتک و جعلتھم الوسیلة الیک و المسلک الی جنّتک '' (٤)

پروردگارا ! پیغمبر اسلامۖ کے اہلبیت پر درود بھیج کہ جن کو اپنے امرکے لئے منتخب کیا ،اپنے علوم کا خزانہ اور اپنے دین کا محافظ قرار دیا اور روئے زمین پر اپنا خلیفہ اور اپنے بندوں پر اپنی حجت قرار دی ،ایسے اہلبیت کہ جن کو اپنے ارادہ کے ذریعہ ہر نجاست اور آلودگی سے دور رکھا اور اپنی بارگاہ میں پہنچنے اور جنت میں داخل ہونے کا وسیلہ قرار دیا ۔

''  أللّٰھم انّ ھذا المقام لخلفائک و أصفیائک و موضع أمنائک فی الدّرجة الرّفیعة الّتی اختصصتھم بھا قد ابتزوھا ... حتی عاد صفوتک و خلفائک مغلوبین ، مقھورین مبتزّین ... أللّٰھم العن أعدائھم من الأوّلین و الاخرین و من رضی بفعالھم و أشیاعھم و أتباعھم''(٥)

دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:خداوندا !مقام خلافت تیرے خلفاء اور مخلوقات میں تیری برگزیدہ ہستیوں ، اور عالی درجات میں تیرے امانت داروں کا مقام ہے کہ تو نے اس مقام کو انھیں سے مخصوص کیا ہے لیکن دوسروں نے اسے غصب کرلیاہے ...یہاں تک کہ خلفائے ظالمین کے ظلم کے مقابلہ میںتیرے برگزیدہ افراد مظلوم ومقہور واقع ہوئے اوران کا حق غصب کرلیا گیا ۔پروردگارا!ان کے اولین اور آخرین کے دشمنوں پر اور ان لوگوں پر جو اس بات سے راضی ہیں اور ان کے پیرو کاروں پر لعنت بھیج ۔

'' و صلّ علی خیرتک اللّٰھم من خلقک محمد و عترتہ الصّفوةّ من بریّتک الطّاھرین و اجعلنا لھم سامعین و مطیعین کما أمرت( ٦) أللّٰھم اجعلنی من أھل التّوحید و الایمان بک و التّصدیق برسولک و الائمة الّذین حتمت طاعتھم'' (٧)

تیسرے مقام پر فرماتے ہیں:پروردگارا!اپنی بہترین مخلوق محمد ۖ اور ان کی برگزیدہ عترت پر درود بھیج اور جیسا کہ ہم کو حکم دیا ہے ان کا مطیع قرار دے ۔پروردگارا!مجھے ان لوگوں میں قرار دے جو تیری وحدانیت کا اقرار کرتے ہیں اور تجھ پر ایمان لاتے ہیں اور ترے رسول ۖ اورائمہ علیہم السلام کی تصدیق کرتے ہیں کہ جن کی اطاعت کو تونے واجب قرار دیاہے ۔ 

 

آپ کا اہم سیاسی کردار غلاموں کو خرید کر آزاد کرنا

 

امام کی تمام تر کوشش دینی اور سیاسی دونوں پہلو کی حامل تھیں ،خلیفۂ دوم کے بعد بالخصوص بنی امیہ کے زمانے میں غلام وکنیز شدیدترین سماجی دباؤ میں تھے اور اسلامی معاشرہ کے سب سے محروم طبقہ کے لوگوں میں سمجھے جاتے تھے ،غلام اور کنیزیں خواہ ایرانی ہوں یا رومی ،مصری ہوں یا سوڈانی سب نے سختیوں اور دشواریوں کو برداشت کیا ہے اور مالکین ان کی شدید توہین کرتے تھے ان کی کوئی حیثیت نہیں تھی ۔امام ان کی حیثیت اور قدر ومنزلت کو بلند وبالا کرنے کی کوشش کی ۔ایک مرتبہ آپ نے ایک کنیز کو آزاد کرکے اس سے عقد کیا ،عبد الملک بن مروان کہ جس نے امام کو ذلیل ورسوا کرنے کا ارادہ کیا اس شادی کے وجہ سے آپ کی مذمت اور ملامت کی ایسا کام کیوں انجام دیا ہے؟  امام  نے جواب میں آیۂ قرآن (قد کان لکم فی رسول اللّٰہ اسوة حسنة)کو ذکر کے صفیہ کے متعلق پیغمبر ۖ  کی سیرت کی طرف اشارہ کیا،اسی طرح یاد دلایا کہ پیغمبرۖ نے اپنی پھوپھی زاد بہن کو زید بن حارثہ کے سپرد کیا۔  (٨)اس طرح سے امام  نے سیرت پیغمبر  ۖ کو جو اس زمانے میں امویوں کے نزدیک اس کی کوئی قدر وقیمت نہیں تھی دوبارہ زندہ کیا۔

سید الاہل نے لکھا ہے کہ امام کو جب کہ غلاموں کی کوئی ضرورت نہیں تھی ان کو خرید تے تھے یہ ان کا خرید نا صرف ان کا آزاد کرنا تھا ۔کہاجاتا ہے کہ امام  ـ نے تقریباً ایک لاکھ غلاموں کو آزاد کیا ۔جب غلاموں نے امام کی اس نیت کا مشاہدہ کیا تو وہ اپنے کو امام کے سامنے پیش کرتے تھے تا کہ امام  ـ انھیں خرید یں۔حضرت امام سجاد  ـ ہر دن ،ہر ماہ اور ہر سال انھیں آزاد کرتے تھے اس طرح سے کہ شہر مدینہ میں بہت سے لوگ ایک لشکر کے مانند دکھائی دیتے تھے جو سب کے سب اما م کے موالی تھے ۔(٩)

علامہ امین نے بھی لکھا ہے:حضرت امام سجاد  ـ ہر سال ماہ رمضان المبارک کے آخر میں بیس افراد کو آزاد کرتے تھے ۔انھوں نے اس طرح لکھا ہے :کسی غلام کو ایک سال سے زیادہ اپنے پاس نہیں رکھتے تھے حتی آزاد کرنے کے بعد انھیں اموال عطا کرتے تھے ۔(١٠)وہ لوگ اس مدت میں حضرت امام سجاد  ـ اور حضرت کی علمی ، اخلاقی اور باتقویٰ عظیم شخصیت سے آشنا ہوجاتے تھے اور یہ فطری بات تھی کہ ان میں سے بہت سے لوگوں کے دلوں میں حضرت امام سجاد  ـ کی نسبت شیعی لگاؤ پیدا ہو ۔

جب ایک کنیز اپنے ہاتھ میں پانی کا ایک ظرف لے کر امام  کے دست مبارک پر پانی ڈال رہی تھی تو اچانک اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر امام  کے چہرہ پر گرا اور آپ کا چہرہ زخمی ہوگیا امام  نے ایک نظر اٹھاکر اس کی طرف دیکھا ۔ کنیز نے کہا : '' و الکاظمین الغیظ'' امام  نے فرمایا:میں اپنا غصہ پی گیا ۔ کنیز نے دوبارہ کہا : ' ' و العافین عن الناس '' امام  ـ نے فرمایا : میں نے تمھیں معاف کردیا ، اس نے پھر کہا : ''و اللّٰہ یحبّ المحسنین'' (١١) امام  نے فرمایا : میں نے تمھیں خداوند عالم کی راہ میں آزاد کیا ۔ (١٢)

جب امام سجاد  ـ  مسجد سے باہر نکلے تو ایک شخص آپ کو برا بھلا کہنے لگا، امام کے چاہنے والے نے اس پر حملہ کیا تو امام  نے ان لوگوں کو منع کیا اور فرمایا : جو ہماری باطنی چیزیں اس سے پوشیدہ ہیں وہ اس چیز سے زیادہ ہیں جو وہ کہہ رہاہے اور اسی بنا پر اسے شرمندہ ہونا پڑا اور نتیجہ میں امام  کے لطف و کرم اس کے شامل حال ہوے ۔ (١٣) 

حوا لہ جات : 

١۔ شرح نہج البلاغہ ، ابن ابی الحدید ، ج١١، ص ١٩٢ ۔ 

٢۔ شرح نہج البلاغہ ، ابن ابی الحدید ،ج١٣ ، ص ٢٢٠ ۔ انساب الاشراف ، ج١ ، ص ١٨٤ ۔ 

٣۔ صحیفہ سجادیہ ، دعا نمبر ٦ ، فقرہ ٢٤ ۔

٤۔ صحیفہ سجادیہ ، دعا نمبر ٤٧ ، فقرہ ٥٦ ۔ 

٥۔ صحیفہ سجادیہ ، دعا نمبر ٤٨ ، فقرہ ١٠ ۔ ٩ ۔ 

٦۔ صحیفہ سجادیہ ، دعا نمبر٣٤ ۔ 

٧۔ وہی دعا ۔ 

٨۔ تاریخ طبری ، ج٥ ، ص ٢١٢ ، ١٩٥ ۔ 

٩۔ زین العابدین ، سید الاہل ، صص ٧ ، ٤٧ ۔ 

١٠۔ اعیان الشیعہ ، ج٤ ، ص ٤٦٨ (پہلی طباعت )۔

١١۔ سورۂ آل عمران ، آیت نمبر ١٣٤ ۔ 

١٢۔  شرح الاخبار ، ج٣ ، ص ٢٦٠ ۔ 

١٣۔ کشف الغمہ ، ج٢ ، ص ١٠١ ؛ الاتحاف ، صص ١٣٧ ، ١٣٨ ؛ مختصر تاریخ دمشق ، ج ١٧ ، ص ٤٢٣ ۔ 


source : http://www.rizvia.net/
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اقوال حضرت امام علی علیہ السلام
پیغمبراسلام(ص) کے منبر سے تبرک(برکت) حاصل کرنا
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی سیرت کے بعض ...
حضرت امام محمد مھدی علیہ السلام
مجموعہ ٴ زندگانی چہارہ معصومین( علیہم السلام )
امام حسین (ع) عرش زین سے فرش زمین پر
انبیاء کا امام حسین پر گریہ کرنا
امام حسین علیہ السلام کی ولادت باسعادت مبارک هو
کرامات امام جعفر صادق علیہ السلام
قرآن مجید میں علی (ع) کے فضائل

 
user comment