اردو
Friday 26th of April 2024
0
نفر 0

نمازِ شب کتاب و سنّت کی روشنی میں

دنیا میں ہرانسان مفکر ہو یا غیر مفکر دانشمند ہو یا غیر دانشمندمحقق ہو یا غیر محقق جب کسی قضیہ اور مسئلہ کی اہمیت اور فضیلت کو ثابت کرنا چاہتا ہیں تو ان کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ اس کو برہان اور دلیل کے ساتھ بیان کریں تاکہ لوگ اس کی فضیلت اور اہمیت کے قائل ہوجائیں لیکن ہر قضیہ کی اہمیت استدلال اور برہان کے حوالے سے مختلف ہے چونکہ اگر کوئی مسئلہ عقلی ہو یا حکمت اور منطق سے مربوط ہو تو اس کی اہمیت اور فضیلت کو بھی منطقی اور فلسفی دلائل کے ذریع ثابت کرنا چاہتے ہیں۔

پس عقلی اور منطقی مسئلہ کی اہمیت کو تاریخ کے شواہد اور دلیل نقلی سے ثابت کرنا اس کی اہمیت اور فضیلت شمار نہیں ہوتی لہٰذاہر قضے کو اس کی مخصوص روش اور نہج پر ثابت کرنا فصاحت وبلاغت کی چاہت اور محققین و دانشمنددوں کی سیرت ہے اگرچہ اس قضیے سے مربوط علم کے مبانی اور اصول میں لوگوں کے آراء میں اختلاف ہی کیوں نہ ہو کیونکہ ایسا اختلاف اس قضیہ کے ثبوت اور حقیقت کے اثبات میں کوئی اثر نہیں رکھتا ہے اسی طرح اگر کوئی مسئلہ اخلاقی مسئلہ ہوچاہیے عملی اخلاق سے مربوط ہویا نظری علماء اخلاق نے اس قیضہ کی اہمیت اور فضیلت کو علم اخلاق کے فارمولوں کی روشنی میں ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، لہٰذا علم اخلاق سے مربوط مسائل کی اہمیت اور فضیلت کوعقلی اور فلسفی اصول و ضوابط سے ثابت کرناآیندہ آنے والی نسلوں کے لئے توہم اور اشکالات کا باعث ہوگا۔

تب ہی تو زمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اعتراضات اورتصورات بھی زیادہ ہوجاتے ہیں اسی طرح اگر کوئی مسئلہ تاریخی ہوتو اس کی اہمیت اور فضیلت کو تاریخ کے شواہد وضوابط کی روشنی میں بھی ثابت کرنا چاہئے نہ عقل اور منطق کے روشنی میں یہی وجہ ہے کہ ہمارے دور میں واقعہ کربلا جیسی عظیم انسان ساز قربانی پر مادی ذہانت رکھنے والے افراد کی جانب سے ہونے والے بہت سی اعتراضات کا سبب تاریخی مسائل کو عقلی اورفلسفی دلائل سے مقائیسہ کرنے کا نتیجہ ہے نیز اگر کوئی مسئلہ فقہی ہو یعنی احکام الٰہی سے مربوط ہو تو اس کی اہمیت اور فضیلت کو کتاب وسنت کی روشنی میں ثابت کرنا چاہیے لہٰذا ہر مسئلہ کی اہمیت اور فضیلت پر دلالت کرنے والے استدلال اور براہین کی نوعیت کا مختلف ہونا طبعی ہے۔

اگر چہ تمام مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ روز مرہ زندگی سے مربوط تمام مسائل کی اہمیت اور فضیلت کے اثبات کا سر چشمہ کتاب وسنت ہے چاہئے عقلی مسئلہ ہو یا فلسفی تاریخی ہو یا فقہی اخلاقی ہو یا ادبی اس لئے نماز شب کی اہمیت اور فضیلت کو تین چیزوں کی روشنی میں بیان کیا گیاہے :

١۔ کتاب کی روشنی میں ۔

٢۔ سنت کی روشنی میں۔

٣)اہل بیت علیہم السلام اور مجتہدین کی سیرت کی روشنی میں۔

الف ۔کتاب کی روشنی

نماز شب کی اہمیت بیان کر نے والی آیات دوقسم کی ہیں کہ(١) وہ آیات جو نمازشب کی اہمیت اور فضیلت کو صریحاََبیان کرتی ہیں(٢) وہ آیات ہیں جو نماز شب کی اہمیت اور فضیلت کو ظاہرابیان کرتی ہیں وہ آیات جو صریحاََ نماز شب کی اہمیت کوبیان کرتی ہیںوہ متعدد آیات ہیں ۔

پہلی آیت:

( وَمِنْ اللَّیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہِ نَافِلَۃً لَکَ عَسَی أَنْ یَبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَحْمُودًا ) (١)

اور رات کے کچھ حصے میں تہجد(یعنی نماز شب ) پڑھا کر کہ امید ہے تمہارے پروردگار روز قیامت تجھے مقام محمود تک پونہچادے ۔

تفسیر آیہ : 

آیہ شریفہ کی تفسیر کے بارے میں مفسرین کا اجماع ہے کہ یہ خطاب 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١) سورہ بنی اسرائیل آیت ٧٩

پیغمبر اکرم )ص( کے ساتھ مخصوص ہے لہٰذا نماز شب پیغمبر اکرم )ص( پر واحب تھی جبکہ باقی انسانوں پر مستحب ہے جیسا کہ اس مطلب کی طرف حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نے یوں اشارہ فرمایا ہے کہ جس سے شیخ طوسی علیہ رحمہ نے سند معتبر کے ساتھ عمار ساباطی سے نقل کیا ہے :

'' عن عمارساباطی قال کناجلوسا عند ابی عبد اللہ بمنی فقال لہ رجل ماتقول فی النوافل فقال فریضۃ قال ففزعنا وفزع الرجل فقال ابوعبد اللہ علیہ السلام انما اعنی صلوۃالیل علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ ان اللہ یقول ومن الیل فتھجد بہ نافلۃ لک ''(١)

عمار ساباطی نے کہا کہ ہم منی میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدامت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں کسی نے آپ سے نافلہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ نافلہ واجب ہے (جب امام نے یوں بیان فرمایا) تو وہ شخص اور ہم سب پریشان ہوئے اسوقت آپ نے فرمایا میرامقصد یہ ہے کہ نماز شب پیغمبر اکرم )ص( پر واجب ہے کیونکہ خدا نے فرمایا : اے رسول تو،رات کے خاص حصے میں نماز شب انجام دے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١)تہذیب ج٣ ص ٢٤٢ .

لہٰذا جب آیہ کریمہ کو روایت مبارکہ کے ساتھ رکھا جاتا ہے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے:

١) نماز شب پیغمبر اکرم )ص( پر واجب تھی۔

٢) نماز شب انسان سازی کابہترین ذریعہ ہے۔

٣) نماز شب مقام محمود پر پہچنے کا وسیلہ ہے ۔

لیکن مقام محمود کیا ہے یہ اپنی جگہ خود تفصیلی گفتگو ہے ۔

دوسری آیہ شریفہ:

( وَالْمُسْتَغْفِرِینَ بِالْأَسْحَار۔)(١)

اور سحروں کے وقت گناہوں سے مغفرت مانگنے والے حضرات کہ اس آیہ کریمہ کی تفسیر اس طرح ہوئی ہے کہ'' والمستغفرین باالاسحار ''سے وترکے قنوت میں استغفراللہ کا ذکر تکرار کرنے والے حضرات مقصود ہیں ۔

چنانچہ ابوبصیرنے روایت موثقہ کواس طرح ذکر کیا ہے:

عن ابی بصیر قال قلت لہ المسغفرین باالاسحار فقال استغفررسول اللہ صلی اللہ علیہ والیہ فی وترہ سیعین مرۃ (٢)

یعنی ابی بصیر نے کہا کہ میں نے امام سے پوچھا کہ'' والمستغفرین 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١)آل عمران آیت ١٧ .

(٢)وسائل الشیعہ ج٤ باب ١٠ /ابواب قنوت .

باالاسحار'' سے کون مراد ہیں تو آپ نے فرمایا اس سے مراد حضرت پیغمبر اکرم )ص( ہیں کہ آپ نماز وترکے (قنوت میں ) ستر دفعہ استغفراللہ کا ذکر تکرار کرتے تھے ۔

مرحوم طبرسی نے مجمع البیان میں یوں تفسیر کی ہے:

'' المستغفرین باالاسحار ای المصلین وقت السحر''(١)

یعنی المستغفرین باالاسحار سے مراد وہ حضرات ہیں جو سحر کے وقت نماز گذار ہیں کہ اس تفسیر کی تائید دوسری کچھ روایات بھی کرتی ہیں لہٰذا یہ ایہ شریفہ نماز شب کی ا ہمیت اور فضیلت پر واضح دلیل ہے ۔ 

تیسری آیہ شریفہ :

(تَتَجَافَی جُنُوبُہُمْ عَنْ الْمَضَاجِعِ یَدْعُونَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُون)(٢)

رات کے وقت ان کے پہلو بستروں سے آشنا نہیں ہوئے اور عذاب کے خوف اور رحمت کی امید پر اپنے پروردگار کی عبادت کرتے ہیں اور ہم نے جو کچھ انہیں عطاکیا ہے اس میں سے خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں .

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١)مجع البیان ج٢ ص٧١٣.

(٢)سورۃالم سجدۃ آیت ١٦ .

آیہ شریفہ کی وضاحت: 

اس آیہ شریفہ کی تفسیر کے بارے میں معصوم سے چار روایات نقل ہوئی ہیں کہ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ'' تتجافا'' کا مصداق وہ حضرات ہیں جو خدا کی یادمیں رات کے وقت بستر کی گرمی اورنرمی سے اپنے آپ کو محروم کرکے نماز شب کے لئے کھڑے ہوجاتے اور پروردگار سے رازونیاز کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔

چنانچہ اس مطلب کو سلمان بن خالد نے امام محمد باقرعلیہ السلام سے یوں نقل کیا ہے :

''قال الا اخبرک باالا سلام اصلہ وفرعہ وذروۃسنامہ قلت بلی جعلت فداک قال:امّااصلہ فالصلاۃوفرعہ الزکاۃ وذروۃ سنا مہ الجہاد ثم قال ان شئت أخبرتک باأبواب الخبر ؟قلت نعم جعلت فداک :قال الصوم جنۃ من النار والصدقۃ تذہب بالخطئیۃ وقیام الرجل فی جوف اللیل بذکراللہ ثم فرأعلیہ السلام تنجافی جنوبھم عن المضاجع''(١)

سلیمان بن خالد امام سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ امام نے فرمایا اے ابن خالد کیا میں تجھے اسلام کی حقیقت سے باخبر نہ کروں ؟کہ جس کی جڑتنا 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١) اصول کافی باب دعائم السلام حدیث ١٠ ج ٢ .

اور شاخیں ہوں تو سلیمان بن خالد نے عرض کیا میں آپ پر فدا ہوجاؤں کیوں نہیں اسوقت آپ نے فرمایا کہ اسلام کی بنیاد اور جڑنماز اس کا تنا ،زکات اور اس کی شاخیںجہادہے پھر دوبارہ آپ نے فرمایا اگر تم راضی ہوتو میں تمام نیکوں کے دروازوں کا بھی تعارف کراؤں۔

تو سلیمان بن خالد نے عرض کیا آپ پر فدا ہوجاؤں تو آپ نے فرمایا روزہ انسان کو جہنم کی اگ سے نجات دیتا ہے صدقہ انسان کے گناہ کو مٹادیتا ہے اور اگر کوئی شخص رات کی تاریکی میں خدا سے رازونیاز کی خاطر بیدار ہوتو یہ خیر اور نجات کا وسیلہ ہے اور آپ نے اس آیہ کریمہ کی تلاوت فرمائی:

(تَتَجَافَی جُنُوبُہُمْ عَنْ الْمَضَاجِعِ )

یعنی رات کی تاریکی میں بیدار ہونے والے اس آیہ شریفہ کا مصداق ہے۔

اس روایت میں امام علیہ السلام نے اسلام کو ایک درخت سے تشبہہ دی ہے لہٰذا قرآن کریم میں بھی اسی مطلب کی طرف اشارہ ہوا ہے کہ اسلام شجرطیبہ کانام ہے کہ اس کی جڑ نماز یعنی نماز کے بغیر کوئی بھی عبادت اور نیکی قابل نہیں ہے اوراس کا تنازکوٰۃ اور اس کی شاخیں جہاد ہے اور تمام نیکوں کا دروازہ روزہ اور نماز شب ہے ۔

نیز مرحوم صدوق نے اپنی گرانبہا کتاب من لایحضرہ الفقیہ میں مرسلہ کے طور پر اور دوسری کتاب( علل الشرائع) میں مسند کی شکل میں نقل کیا ہے کہ امام علیہ السلام نے فرمایا : ''فقال تتجافی جنوبہم عن المضاجع نزلت فی امیرالمؤمنین علیہ السلام واتباعیہ من شیعتنا ینامون فی اول اللیل فاذاذھب ثلثا الیل اوماشااللہ فزعواالی ربھم راغبین راہبین طامعین فماعندہ فذکرہم اللہ فی کتابہ لنبیہ (ص)وآخرہم بما اعطاہم وانہ اسکنھم فی جوارہ وادخلھم جنۃوامن خوفھم وامن روعتھم''(١)

حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے آیت تتجافی کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے جواب میں فرمایا کہ یہ آیت حضرت امیرالمؤمنین علیہ السلام اور ہمارے ان پیروکاروں کے بارے میں نازل ہوئی جو رات کے آغاز میں سوجاتے ہیں لیکن رات کے دوحصے گذرنے کے بعد یا جب خدا چاہئے تو پروردگار کی بارگاہ مین خوف و رجاء اور شوق و رغبت کے ساتھ حاضر ہو جاتے اور اللہ سے اپنی آرزؤں کی تمنا کرتے ہیں اللہ تعالی نے اسی ایت کے ذریعہ پیغمبر کو خبردی اور ان لوگوں کو دئے جانے والے درجات اور ان کو پیغمبر اکرم )ص(کے جوارمیں جگہ عطاء فرمانے اور ان کو جنت میں داخل کرکے قیامت کے خوف وہراس سے نجات دینے کے وعدہ سے مطلع فرمایا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١) من لایحضرہ الفقیۃ ج١.

چھوتھی آیہ شریفہ :

( أَمَّنْ ہُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّیْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا یَحْذَرُ الْآخِرَۃَ وَیَرْجُو رَحْمَۃَ رَبِّہِ (١)

کیا وہ شخص جورات کے اوقات میں سجدہ کرکے اور کھڑے کھڑا خدا کی عبادت کرتا ہو اور آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے پروردگار کی رحمت کا امیدوار ہو۔

ناشکر کافرکے برابر ہوسکتا ہے (ہرگز ایسا نہیں ہے )۔

توضیح :

اس آیت کریمہ کی تفسیر کے بارے میں جناب زرارہ رحمۃ اللہ علیہ نے امام محمد باقر علیہ السلام سے یوں نقل کیا ہے :

فقلت (لہ)آنٰا اللیل ساجدا أو قائما سے مراد کیا ہے ؟

قال صلوۃاللیل(٢) 

یعنی زرارہ نے کہا کہ میں امام سے اس آیت کریمہ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:

''آنٰا اللیل ساجدا أو قائما''سے مراد نماز شب ہے لہٰذا اس تفسیر کی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١)زمرآیت نمر٩ . 

(٢)وسائل الشیعہ ج٣.

بناء پر آیت شریفہ نماز شب کی فضیلت اور اہمیت بیان کرنے والی آیات میں سے شمارہوتی ہے ۔

پانچویں آیہ شریفہ:

(وَمِنْ اللَّیْلِ فَسَبِّحْہُ وَإِدْبَارَ النُّجُومِ) (٣)

(٣)طو ر آیت نمبر٤٩.

اور رات کے خاص وقت میں خدا کی تسبح کرکہ جس وقت ستارے غروب ہونے کے قریب ہوجاتے ہیں۔

تفسیر مجمع البیان میں جناب طبرسی اس آیہ شریفہ کی تفسیر میں یوں بیان فرماتے ہیں:

وَمِنْ اللَّیْلِ فَسَبِّحْہُ وَإِدْبَارَ النُّجُومِ۔

سے مراد نماز شب ہے کیونکہ جناب زرارہ اورحمران اور محمد بن مسلم نے امام باقر اور امام جعفرصادق علیہما السلام سے اس آیہ کریمہ کے بارے میں روایت کی ہے :

قالا (ان) رسول اللہ کان یقوم من اللیل ثلاث مراۃ ینظر فی افاق السماء ویقرا الخمس من ال عمران آخرھا انک لاتخلف المیعاد ثم یفتح صلوۃ الللیل (١)

(١)مجمع البیان ج٩.

اما م محمد باقر اور امام جعفرصادق علیہالسلام دونوں نے فرمایا کہ پیغمبر اکرم )ص( رات کو تین دفعہ جاگتے اورآسمان کے افق کی طرف نظر کرتے اور سورہ آل عمران کی ان پانچ آیات کی تلاوت فرماتے تھے کہ جن میں سے آخری آیہ (انک لاتخلف المیعاد) پر ختم ہوتی ہے پھر نمازشب شروع کرتے تھے ۔

نیز آیت مذکورہ کی تفسیر میں دوسری روایت یہ ہے کہ زرارہ امام باقرعلیہ السلام سے یوں نقل کرتے ہیں:

''قال قلت لہ وادبارالنجوم قال رکعتان قبل الصبح ''

یعنی زرارہ نے کہا کہ میں نے اما م باقر علیہ السلام سے وادبار النجوم کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا اس سے مراد صبح سے پہلے پڑھی جانے والی دو رکعت نماز ہے لہٰذا ان دوروایتوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پہلی روایت کی بناپر آیہ شریفہ نماز شب کی اہمیت اور فضیلت بیان کرتی ہے جبکہ دوسری روایت اورکچھ دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیہ شریفہ سے مراد نماز شب نہیں ہے بلکہ نماز صبح سے پہلے پڑھی جانے والی دورکعت نافلہ مقصود ہے۔

چھٹی آیت:

( وَمِنْ اللَّیْلِ فَسَبِّحْہُ وَأَدْبَارَ السُّجُودِ)(١)

(اے رسول )اور تھوڑی دیر رات کو بھی اورنماز کے بعد بھی اس کی تسبیح کیا کرو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١)سورہ ق آیت ٤٠.

تفسیر آیہ:

اس آیہ شریفہ کی تفسیر اور توضیح کے بارے میں دو قسم کی روایات پائی جاتی ہیں :

وہ روایات جو دلالت کرتی ہے کہ اس آیہ شریفہ سے مراد نماز شب ہے چنانچہ اس مطلب کو مرحوم صاحب مجمع البیان نے یوں ذکر کیا ہے کہ اس آیہ کریمہ سے مراد نمازوتر جورات کے آخری وقت نماز شب کے بعد صبح سے پہلے پڑھی جاتی ہے اور اسی کی تائید میں امام جعفرصادق علیہ السلام سے ایک روایت بھی ذکر کیا ہے لیکن کچھ دوسری روایت اس طرح کی ہیں کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیہ شریفہ سے مراد نماز وتر نہیں ہے بلکہ'' لاالہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ.لہ الملک ولہ الحمد وہوعلی کل شئی قدیر ''مراد ہے لہٰذا پہلی تفسیر اور روایت کی بناپر یہ آیہ کریمہ بھی نماز شب کی اہمیت اور فضیلت کیلے دلیل بن سکتی ہے لیکن دوسری تفسیر کی بناپر یہ آیت نماز شب سے مربوط نہیں۔

ساتویں آیہ شریفہ:

( وَمِنْ اللَّیْلِ فَاسْجُدْ لَہُ وَسَبِّحْہُ لَیْلًا طَوِیلاً)(١)

یعنی اور کچھ رات گئے اس کا سجدہ کرو اور بڑی رات تک اس کی تسبیح کرتے رہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١)سورہ دہرآیت ٢٦.

اس آیہ کریمہ کی تفسیر میں مرحوم طبر سی نے مجمع البیان میں یوں بیان فرمایا ہے کہ آیہ شریفہ کے بارے میں امام رضا علیہ السلام سے روایت کی ہے:

'' انہ سئل احمد بن محمد عن ھٰذہ الایۃقال وماذلک التسبیح؟ قال صلوۃ اللیل''

یعنی احمد بن محمد نے امام رضا علیہ السلام سے پوچھا کہ اس آیت کریمہ میں کلمہ تسبیح سے کیا مراد ہے آپ نے فرمایا اس سے مراد نماز شب ہے ۔

آٹھویں آیہ شریفہ:

( إِنَّ نَاشِئَۃَ اللَّیْلِ ہِیَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِیلاً )(١)

بیشک رات کا اٹھنا نفس کی پائمالی کے لئے بہترین ذریعہ اور ذکر کا بہترین وقت ہے۔

مشائخ ثلاثہ یعنی مرحوم کلینی صدوق اور شیخ طوسی رحمتہ اللہ علیہم معتبر سند کے ساتھ ہشام بن سالم سے وہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے یوں نقل کیا ہے :

فی قول اللہ عزوجل ان ناشئۃ الیل ہی اشد وطا واقوم قیلا یعنی بقولہ واقوم قیلا قیام الرجل عن نراشہ یریدبہ اللہ عز 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٢) سورہ مزمل آیت ٦ .

وجل ولایرید بہ غیرہ (١)

جب امام جعفر صادق علیہ السلام سے آیہ مذکورہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:

''اقوم قیلا''

سے مراد وہ شخص ہے کہ جو رات کے وقت نیند اور بستر کے لطف اندوز لذتوں کو چھوڑکر صرف خدا کی بارگاہ میں کھڑاہوجاتاہے نیز صاحب مجمع البیان نے فرمایا:

''ان ناشۃ اللیل معناہ ان ساعات اللیل لانہا تنشاء ساعۃ بعد ساعۃ وتقدیرہ ان ساعات اللیل الناشیئۃ یعنی نایشۃ اللیل'' سے مراد رات کے اوقات ہیں کیونکہ رات کے اوقات لحظ بہ لحظ آتے اور گذار جاتے ہیں لہٰذا آیہ شریفہ کی حقیقت یوں ہے کہ'' ساعات اللیل النا شئۃ'' یعنی رات کے لحظ بہ لحظ آنے اور گذرنے والے اوقات مقصود ہے اور امام جعفر صادق علیہ السلام اور امام محمد باقر سے مروی ہے :

'' انھما قالا ہی القیام فی آخر اللیل الی صلوۃ اللیل ہی اشد وطاای اکثر ثقلا وابلغ شفۃ لان اللیل وقت الراحۃ والعمل یشق فیہ۔''(٢)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١) وسائل الشیعہ ج ٥. 

(٢) مجمع البیان .

امام جعفر صادق اور امام محمد باقر علیہما السلام نے فرمایا کہ اس آیت سے رات کے آخری وقت میں نماز شب کے لئے جاگنا مراد ہے اور'' اشد وطاً''کا مقصد حد سے بڑھ کر سنگین اور دشواری کا سامنا ہونا ہے کیونکہ رات معمولا لوگوں کے آرام کرنے کا وقت ہے لہٰذا اس وقت کسی اور کام کو انجام دینا دشوار اورمشکل ہوجاتا ہے اسی لے خدا نے اس وقت کے خواب کو چھوڑکر نماز شب میں مصروف ہونے والے حضرات کا تذکرہ اس آیہ شریفہ میں کیا ہے ۔

اسی طرح انس ومجاہد اور ابن زید سے روایت کی گئی ہے کہ جس میں امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا کہ اس آیہ شریفہ سے مرادیہ ہے:

'' قیام الرجل عن براشہ لایرید بہ الا اللہ تعالی ''(١)

یعنی رات کے وقت بستر کی لذت کو چھوڑکر صرف خدا کی رضایت کے لئے جاگنا مقصود ہے :

نویں آیہ شریفہ :

(وَجَعَلْنَا فِی قُلُوبِ الَّذِینَ اتَّبَعُوہُ رَأْفَۃً وَرَحْمَۃً وَرَہْبَانِیَّۃً ابْتَدَعُوہَامَا کَتَبْنَاہَا عَلَیْہِمْ إِلاَّ ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اﷲِ)(٢)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١)مجمع البیان .

(٢) حدید آیت ٢٧

اور جن لوگوں نے انکے پیروی کی ہے ان کے دلوں میں ہم نے شفقت اور مہربانی ڈال دے اور رھبا نیت (یعنی لذت سے کنارہ کشی کرنا) ان لوگوں نے خود ایک نئی بات نکال تھی ہم نے ان کو اس کا حکم نہیں دیا تھا مگر (ان لوگوں نے ) خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے خود ایجاد کیا ہے۔

تفسیر آیہ کریمہ :

بہت سے مفسرین نے اس آیہ شریفہ کی تفسیریوں بیان کئے ہیں رہبانیت سے مراد نماز شب ہے کہ اس کی تائید روایت بھی کرتی ہے کہ جس کو کلینیؓ نے اصول کافی میں صدوق ؓنے علل الشرائع ،من لایحضرہ الفقیہ اور عیون الا خبار میں اور جناب مرحوم شیخ طوسی نے تہذیب میں معتبر سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ محمد بن علی نے امام حسن علیہ السلام سے نقل کیا کہ جس میں آنحضرت سے اس آیہ شریفہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا رہبانیت سے مراد نماز شب ہے لہِذا اس تفسیر کی بناپر آیت نماز شب کی اہمیت اور فضیلت پر دلالت کرنے کے لئے بہترین دلیل ہے۔

دسویں آیہ کریمہ :

اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ 

(لَیْسُوا سَوَائً مِنْ أَہْلِ الْکِتَابِ أُمَّۃٌ قَائِمَۃٌ یَتْلُونَ آیَاتِ اﷲِ آنَاءَ اللَّیْلِ وَہُمْ یَسْجُدُونَ ) (١)

اور یہ لوگ بھی سب کے سب یکسان نہیں ہیں بلکہ اہل کتاب میں سے کچھ لوگ تو ایسے ہیں کہ خدا کے دین پر اس طرح ثابت قدم ہیں کہ راتوں کو خدا کی آیتیں پڑھا کرتے ہیں اور برابر سجدے کیا کرتے ہیں 

تفسیر آیت :

اگر چہ مفسرین نے اس آیہ شریفہ کے شان نزول کے بارے میں عبداللہ بن سلام وغیرہ کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن یہ صرف انہیں کے ساتھ مخصوص ہونے کا سبب نہیں بنتا لہٰذا یہ آیہ شریفہ بھی ظاہر اََ نماز شب کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے۔

چنانچہ اسی مطلب پر مرحوم طبرسی نے مجمع البیان میں یوں اشارہ کیا ہے :

''وفی ہذہ الایۃ دلالۃ علی عظم مو ضع صلوۃ اللیل من اللہ تعالی۔''

یعنی حقیقت میں یہ آیہ شریفہ اللہ کے نزدیک نماز شب کی عظمت زیاد ہونے پر دلالت کرتی ہے ۔

اور اسی تفسیر پر ایک روایت بھی دلالت کرتی ہے کہ پیغمبر اکرم )ص(سے منقول ہے کہ '' انہ قال رکعتان یر کعھما العبد فی جوف اللیل 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١)ا ۤل عمران آیت ١١٣.

 

 

الآخرخیر لہ من الدنیا وما فیھما ولولا ان اشق علی امتی لفرضہما علیھا .''

اپنے فرمایا اس سے مراد وہ دورکعت نماز ہے جو خدا کا بندہ رات کے آخری وقت میں انجام دیتاہے کہ ۔

یہ دو٢ رکعت نماز پڑھنا پوری کائنات سے افضل ہے اور اگر میری امت کے لئے مشقت کا باعث نہ ہوتی تو میں اپنی امت پر ان دورکعتوں کو واجب قرار دیتا۔ 

گیارہویں آیت :

( وَالَّذِینَ یَبِیتُونَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَقِیَامًا .) (١)

اور جو لوگ راتوں کو اس طرح گذارتے ہیں کہ خدا کی بارہ میں کبھی سر بسجود رہتے ہیں اور کبھی حالت قیام میں رہتے ہیں۔

اس آیہ شریفہ کے آغاز میں وعبادالرحمن :کا جملہ ہے کہ زیل میں سجداََ وقیاماکی تعبیر آئی ہے کہ اس تعبیر کے بارے میں ابن عباس نے فرمایا کہ اس جملے سے مراد :

'' کل من کان صلی فی اللیل رکعتین اواکثر فھومن ہولائ''

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١) فرقان آیت ٦٤

یعنی کوئی بھی شخص رات کو دو٢ رکعت یا اس سے زیادہ نمار انجام دیے وہ عباد الرحمن اور سجداََ وقیاماََ کے مصداق ہے۔

لہٰذا اس تفسیر کو آیہ کریمہ کے ساتھ ملانے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نماز شب کی طرف خداوند کریم تاکیدکے ساتھ دعوت دے رہاہے اور نماز شب کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔

خلاصہئ کلام چنانچہ اب تک نماز شب سے متعلق گیارہ آیات کو تفسیر کے ساتھ ذکر کیا گیا جو تین قسموں میں تقسیم ہوجاتی ہے پہلی قسم وہ آیات تھی جو نماز شب کی فضیلت اوراہمیت کو صریحاََ بیان کرتی ہے دوسری قسم وہ آیات اس طرح کی تھی جو تمام نمازوں کی عظمت وفضیلت پر دلالت کرتی تھی کہ جس میں نماز شب بھی شامل ہے تیسری قسم وہ آیات جو ظاہری طور پر نماز شب کی اہمیت اور فضیلت بیان کرتی تھی ۔

مذکورہ آیات کے علاوہ اور بھی آیات ہیں لیکن اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے پر اکتفاء کرتے ہیں، لہٰذا قرآن کی روشنی میں نماز شب ایک ایسی حقیقت ہے جو پورے انبیا ء علیہم السلام اور اوصیاء کی سیرت ہونے کے باوجود ہرمشکل اور دشواری کا حل اور لاعلاج افراد کے لئے علاج اور نجات کاذریعہ ہے اور اس سے غفلت اور گوتا ہی کرنا بدبختی کی علامت ہے۔

ب. سنت کی روشنی میں

قرآن کی روشنی میں نماز شب کی فضیلت واہمیت کو اختصار کے ساتھ بیان کرنے کے بعد اب نماز شب کی فضیلت کو سنت کی روشنی میں ثابت کریں گے تاکہ خوش نصیب مؤمنین کے لئے نورانیت قلب توفیقات میں اضافہ کا موجب بنے کیونکہ معصومین علیہم السلام کے ہرقول و فعل میں نورانیت الہیہ کے سوا کچھ نہیں ہے لہٰذا کائنات میں انسان اگر ہرعمل اور حرکت کا ملاک ومعیار سنت معصومین علیہم السلام قرار دے تو ہمیشہ کامیابی ہے اگر چہ خواہشات اور آرزو انسان کو اجازت نہیں دیتی لہٰذا ہزاروں کوشش اور زحمتوں کے باوجود بہت کم ایسے انسان ہیں جوسعادت دنیا اور آخرت دونوں سے مندہوں۔

نماز شب کی اہمیت اور فضیلت پر دلالت کرنے والی روایات بہت زیادہ ہیں جن میں سے کچھ روایات کو اختصار کو مدنظر رکھ کر پیش کیا جاتا ہے یہ روایات دو٢ قسم کی ہیں پہلی قسم کچھ روایات اس طرح کی ہے جو صریحاََنماز شب کی فضیلت اور اہمیت کو بیان کرتی ہیںدوسری قسم کچھ راوایات ظاہرانماز شب کی عظمت اور اس کے فوائد کو بیان کرتی ہیں لہٰذا روایات کو شروع کرنے سے پہلے ایک مقدمہ ضروری ہے کہ جو آنے والے مطالب کے لئے مفید ہے وہ مقدمہ یہ ہے جب علماء و مجتہدین کسی مطلب کو ثابت کرنے کے لئے روایات کو پیش کرتے ہیں تو اس کو ماننے کے لئے تین نکات کو ذہن میں رکھنا لازم ہے ایک سند روایات دو جہت روایات تین دلالت روایات کہ ان نکات کی تفسیر اور وضاحت علم اصول اور علم رجال کی کتابوں میں تفیصلا کیا گیا ہے تفصیلی معلومات کی خاطران کی طرف رجوع بہتر ہے۔

لہٰذا ہم سب سے پہلے ان روایات کی طرف اشارہ کریں گے جو صریحا َنماز شب کی عظمت اور اہمیت کو بیان کرتی ہیں ان کی تعداد بھی زیادہ ہے 

پہلی روایت:

'' قال رسواللہ (ص) فی وصیۃ بعلی علیہ السلام علیک بصلاۃ اللیل یکررہا اربعاً''

آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے وصیت میں فرمایا اے علی میں تجھے نماز شب انجام دینے کی وصیت کرتا ہوں کہ اسی جملے کو آنحضرت نے چار مرتبہ تکرار فرمایا۔

اس روایت کو جناب صاحب الوافی نے یوں نقل کیا ہے : 

''معاویہ بن عمارقال سمعت ابا عبداللہ یقول کان فی وصیۃ النبی بعلی انہ قال یاعلی اوصیک فی نفسک خصال فاحفظہا عنی ثم قال اللھم اعنہ الی ان قال وعلیک بصلوۃاللیل وعلیک بصلوۃ اللیل وعلیک بصلوۃ اللیل (١)

معاویہ بن عمارنے کہا کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا کہ پیغمبر اکرم )ص(نے حضرت علی علیہ السلام کو وصیت کی اور فرمایا اے علی میں تجھے کچھ ایسے اوصاف کی سفارش کرتا ہوں کہ جن کو مجھ سے یاد کرلو اور فرمایا خدایا ان اوصاف پر عمل کرنے میں علی علیہ السلام کی مددکرو۔

یہاں تک آپ نے فرمایا اے علی میں تجھے وصیت کرتا ہوں کہ نماز شب انجام دینا نماز شب ترک نہیں کرنا ۔

روایت کی شرح:

یہاں اس روایت کے بارے میں اس سوال کا ذہن میں آنا ایک ظاہر بات ہے کہ پیغمبر اکرم )ص( رحمتہ العالمین ہونے کے باوجود اور حضرت علی امام المسلمین ہونے کی حیثیت سے کیوں اس جملے کو چار دفعہ یادوسری روایت میں تین دفعہ تکرار فرمایا ؟ 

جبکہ حضرت علی علیہ السلام آغاز وحی سے لیکر اختتام وحی تک لحظہ بہ لحظہ پیغمبر اکرم )ص( کے ساتھ تھے اور تمام احکام ودستورات اسلامی سے آگاہ تھے اور بعد از پیغمبر سب سے زیادہ عمل کرنے والی ہستی تھے اور ہمیشہ آنحضرت ؐ کے تابع محض رہے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١) الوافی، ج ١و وسائل ج ٥ .

اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ایک مقدمہ لازم ہے تاکہ سوال کا جواب پوری وضاحت کے ساتھ پیش کرسکیں وہ مقدمہ یہ ہے کہ جب کسی زبان میں چاہئے عربی ہو یا غیر عربی کوئی جملہ یا کلمہ تکرار کے ساتھ کہا جاتا ہے تو اس کو ادبی اصطلاح میں تاکید لفظی یا معنوی کہا جاتا ہے لیکن کسی مطلب کو بیان کرنے کی خاطرح تاکید لانے کا مقصد اور ہدف کے بارے میں ادباء کے مابین آراء ونظریات مختلف ہیں۔

اس حدیث میں پیغمبر اکرم )ص( نے حضرت علی سے تاکید اََفرمایا کہ نماز شب فراموش نہ کرو بلکہ ہمیشہ نماز شب انجام دو اس تاکید کے ہدف اور مقصد کے بارے میں عقلاََتین قسم کے تصورقابل تصوریں ہیں۔

اسی لئے پیغمبر اکرم )ص(نے تاکید اََ ذکر فرمایا کہ مخاطب عام عادی انسان کی طبعت سے خارج ہے کیونکہ اس پر غفلت اور فراموشی کی بیماری لاحق ہے لہٰذا اگر تکرار کے ساتھ نہ فرماتے اور اس پر اصرار نہ کرتے تو غفلت اور فراموشی کی وجہ سے انجام نہیں دیتا کہ یہ صورت یہاںیقیناََ نہیں ہے کیونکہ مخاطب علی علیہ السلام ہے کہ جن کے بارے میں ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ امام، وصی پیغمبراور عصمت کے مالک ہے ۔

دوسری صورت یہ ہے تاکید اسی لئے کسی زبان یا کسی حدیث میں بیان کیا جاتاکہ مخاطِب عام عادی حمکرانوں میںسے ایک حمکران ہے اور وہ تاکید اََکسی جملے یا کلمے کو بیان کر کے اپنا رعب دوسروں پر جمانا چاہتا ہے حقیقت میں یہ ایک قسم کی دھمکی ہے مورد نظر حدیث میں یہ ہدف بھی محال ہے کیونکہ متکلم اور مخاطب پیغمبر اکرم )ص(ہیں کہ وہ رحمۃ اللعالمین ہیں عام عادی حکمرانوں میں سے کوئی حکمران نہیں ہے تاکہ مخاطب اپنا جملہ تکرار کرکے دہمکی دینا مقصود ہوکہ ایسا سلوک ان کی سیرت اور رحمت العالمین ہونے کے منافی ہے۔

تیسری صورت یہ ہے کہ تاکید اور اصرار اس لئے کیا جاتا ہے کہ وہ کام اورفعل خدا کی نظر میں یا متکلم کی نگاہ میں بہت اہم اور عظیم ہے کہ جس میں پوری کائنات کی خیروبرکت مضمر ہے اور حقیقت میں اس تکرار اور تاکید کے ذریعے اس کام کی اہمیت اور عظمت کو بیان کرنا چاہتے ہیں لہٰذا اس حدیث میں پیغمبر اکرم )ص( نے'' علیک باالصلوۃ اللیل'' کو چار دفعہ یا تین دفعہ تکرار کرنے کا مقصد آخری صورت ہے یعنی حقیقت میں پیغمبر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ نماز شب تمام کامیابی اور خیرو سعادت کا ذریعہ ہے اور جتنی مشکلات انسان پر آپڑے تو اس وقت نماز شب سے مدد لینی چاہئے ۔

چنانچہ حضرت علی علیہ السلام نے نماز شب'' لیلۃالھریر'' کو امام حسین نے شب عاشورا کو حضرت زینب سلام اللہ علیہا شام غریباں کی شب نماز شب اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہانے تمام مشکلات اور سختیوں کے وقت نماز شب کبھی فراموش نہیں کی ہے۔

لہٰذا پیغمبر اکرم )ص(نے نماز شب کی عظمت اور فضیلت کو اس مختصر جملے کو تکرار کرکے پوری کائنات کے باشعو رانسانوں کو سمجھا دیا ہے اسی لئے سوال کا جواب اس تحلیل کی روشنی میں یوں ملتا ہے کہ نماز شب کی عظمت اور اہمیت بہت زیادہ ہے اسی کو بیان کرنے کی خاطر پیغمبر اکرم نے اپنے جملے کو تکرار فرمایا اور یہ ہر انسان کی فطرت اور ضمیر کی چاہت بھی ہے کہ جب کوئی اہم قضیہ کسی اور کے حوالہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کو باقی قضایا اور عام عادی مسائل کی طرح اس کے حوالہ نہیں کرتے ہیں بلکہ اس کو اصرار اور تاکید کے ساتھ بیان کرتے ہیں تاکہ اس قضیہ کی اہمیت اور عظمت کا پتہ چل سکے لہٰذا روایت بھی حقیقت میں فطرت اور ضمیر کی عکاسی کرتی ہوئی نظر آئی ہے کیونکہ نظام اسلام کے دستورات فطرت اور عقل کے عین موافق ہیں۔

 

دوسری حدیث :

''قال رسول اللہ یاعلی ثلاث فرحات للمؤمن لقی الا خوان والا فطار من الصیام والتھجد من آخر اللیل'' (١)

حضرت پیغمبر اکرم )ص( نے فرمایا: 

'' اے علی )ع( تین چیزین مؤمنین کے لئے خوشی کا باعث ہیں:

١) برادر دینی کا دیدار کرنا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١) بحار الانوار ج ٢٩ .

٢) مغرب کے وقت روزہ کھولنا۔

٣) رات کے آخری وقت نماز شب پڑھنا۔

روایت کی تشریح:

اس حدیث میں پیغمبر اکرم )ص( نے تین مھم ذمہ داریوں کی طرف لوگوں کی توجہ کو مبذول کرائی ہے ایک لوگوں سے ملنا کہ یہ ہرکسی معاشرے کے استحکام اور بقاء کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے کیونکہ جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے ملتا ہے تو اس ملاقات کے نیتجے میں قدرتی طور پر ان کے آپس میں محبت اور دوستی پیدا ہوتی ہے اور نتیجتاً وہ ایک دوسرے کے خلاف زبانی تلوار وں سے حملہ نہیں کرتے جبکہ یہی زبانی حملے ایک دوسرے سے دوری اور جدائی اور آپس میں دشمنی کے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔

لہٰذا شریعت اسلام میں ایک دوسرے سے ملنے کو مستحب قرار دیا گیا ہے کہ جس کا فلسفہ حقیقت میں معاشرہ کے نظام میں استحکام اور لوگوں کے آپس میں محبت ودوستی ہے لہٰذا پیغمبر اکرم )ص( نے اس حدیث میں ایک دوسرے سے ملنے کو خوشی کا ذریعہ قرار دیا ہے تاکہ زندگی صلح وآئشی کے ساتھ گذار سکیں اور جھگڑا فساد جیسی اخلاقی بیماریوں سے دور رہ کر قدرتی صلاحیتوں کو بروی کار لاسکیں لیکن اس حدیث میں پیغمبر اکرم )ص( نے لوگوں سے ملنے اور دیدار کرنے کو صرف مومنین کے لئے باعث خوشی قرار دیا ہے جبکہ دنیا کے تمام انسانوں میں یہ رسم ہے کہ ایک دوسرے سے ملنے اور اظہار محبت کرتے ہیں جواب حقیقت میں یہ ہے کہ ملنے کی دو قسمیں ہیں:

١) ایمانداری سے ملنا۔

٢) عام عادی رسم ورواج کو پورا کرنے کی خاطر ملنا۔

اگر ایمانداری سے ایک دوسری کی زیارت کی تو وہ خوشی کا باعث ہوگا چاہئے اس کو ظاہراََمادی فائدہ ہو یا نہ کہ جس کا تذکرہ روایت میں پیغمبر اکرم )ص(نے فرمایا لیکن اگر ایک دوسرے سے ملنے کا سر چشمہ ایمان نہ ہو بلکہ عام عادی رواج کو پورا کرنے کی خاطر ہو جس سے اظہار خوشی بھی کر رہا ہوپھر بھی حقیقت میں خوشی کا باعث نہیں ہے کیونکہ جو نہی تھوڑی سی نارضگی پیدا ہوتی ہے فورا آپس میں رابطہ ختم ہوجاتا ہے لہٰذا پیغمبر اکرم )ص(نے فرمایا ملنا اور دیدار کرنا مؤمنین کے لئے باعث مسرت ہے کیونکہ مؤمنین کے تمام اقوال اور افعال کا سر چشمہ ایمان ہے لہٰذامختصر سی نارضگی سے وہ رابطہ ختم نہیں ہوتا اور اسلام کی نظر میں ہروہ کام باارزش اور باعث مسرت ہے جو ایمان کے ساتھ سر انجام پائے ۔

دوسری ذمہ داری کہ جس کا تذکرہ پیغمبر اکرم )ص(نے اس حدیث میں فرمایا ہے وہ روزہ دار کو افطار کے وقت حاصل ہو نے والی خوشی ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے انکار کی گنجائش ہی نہیں ہے کیونکہ جب کسی شخص پر کسی کی طرف سے کسی سنگین ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور اس کو انجام دینے کا دستور دیا جا تا ہے تو اس کو انجام دینے کے بعد اس کا خوشی فطری تقاضا ہے لہٰذا روزہ شریعت اسلام میں ایک مہم ذمہ داری ہے جو کہ لوگوں کی نظر میں بہت سنگین اور تکالیف الہیہ میں سے بہت تکلیف دہ امر ہے لہٰذا جس کو بجا لانے کے بعد اختتام کے وقت روزہ داروں کو خوشی ہو نا فطری تقاضوں میں سے ایک ہے اسی لئے پیغمبر اکرم نے فرمایا روزہ کھولتے وقت مؤمنین کو خوشی ہوتی ہے۔

نیز تیسری ذمہ داری جو مؤمنین کے لئے خوشی اور مسرت کا باعث بنتی ہے اس کا اس حدیث میں پیغمبر اکرم )ص(نے تذکرہ کیا ہے وہ نماز شب ہے لہٰذا نماز شب کی توفیق حاصل ہونے میں ایک خاص درجہ کا ایمان درکار ہے جوایمان کے مراحل میں سے ایک اہم مرحلہ سمجھا جاتا ہے کہ اس مرتبہ پر فائز شخص کو حقیقی مؤمن اور ایماندار کہا جاسکتا ہے اور ایمان کایہی مرحلہ ہے کہ انسانی طبیعت اور خواہشات کے برخلاف ہونے کے باوجود رات کی تاریکی میں ارام وسکون اور نیندکی لذتوں کو چھوڑکر زحمتوںکے ساتھ وضوکرکے قیام وسجود اور عبادت الٰہی بجالانے پر انسان کو آمادہ کرتا ہے اور ہرباایمان شخص سے نماز شب کی ادائیگی بعید ہے کیونکہ مؤ منین کے ایمان اس حدتک نہیں ہے کہ رات کے وقت بستر کی گرمی اور نیند کی لذت سے خود کومحروم کرکے اس عظیم نعمت سے اپنے آپ کو مالا مال اور بہر مند کرے بنابراین نماز شب کی اہمیت اور عظمت پر حدیث بہترین دلیل ہے اور اس عظیم عبادت کی عظمت کا اندازہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ نماز شب کتنی عظیم اور کتنا محبوب عمل ہے کہ جس کو انجام دینے سے خوشی ہوتی ہے یعنی نفسیاتی امراض بر طرف ہوجاتے ہیں آرامش قلبی کا سبب بنتا ہے چونکہ یہ عبادت دنیا اور آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار کرتی ہے اور انسان کومقام محمود کے نزدیک کردیتی ہے۔

تیسری حدیث :

قال رسول اللہ ما اتخذ اللہ ابراہم خلیلا الا لا طعامہ الطعام وصلاتہ باللیل والناس نیام (١)

پیغمبر اکرم )ص(نے فرمایا کہ خدا نے حضرت ابراہیم ؑکو صرف دو٢ کاموں کے نتیجہ میں اپنا خلیل قرار دیا ہے(١) لوگوں کو کھانا کھلا نے (٢) اور رات کے وقت نماز شب انجام دینا جب کہ باقی تمام انسان خواب غفلت میں غرق ہورہے ہوں۔

حدیث کی وضاحت :

دنیا میں تمام باشعور انسانوں کی یہ رسم رہی ہے کہ جب کوئی شخص کسی مقام یا منصب پر فائز ہوتا ہے تو اس کو کسی نہ کسی عنوان اور لقب سے پکارا جاتا ہے تاکہ اس کے مقام اور منصب پر دلالت کرے اسی طرح شریعت اسلام میں بھی ایسے عناوین اور القاب کثرت سے پائے جاتے ہیں کہ جن کی تشریح اور انکی کمیت وکیفت کو ذکر کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ صرف اشارہ کرنا مقصد ہے کہ خدا کی طرف 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١) علل الشرائع ص ٣٥ .

سے جو القاب یا مقام ومنزلت جن انسانوں کو ملی ہے وہ کسی سبب اور علت سے خارج نہیں ہے۔

خدا نے حضرت آدم علیہ السلام کو صفی اللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو روح اللہ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کلیم اللہ حضرت اسماعیل ؑکو ذبیح اللہ حضرت ابراہیم ؑکو خلیل اللہ اور حضور اکرم )ص(کو حبیب اللہ کے القاب سے یاد فرمایا ہے اسی طرح دوسرے انسان کو بھی مختلف القاب وعناوین سے پکارے جاتے ہیں تاکہ ان اشخاص کے منصب اور مقام ومنزلت پر دلالت کرے لیکن مقام اور منصب کی دو ٢ قسمیں ہیں ایک منصب اور مقام معنوی ہے دوسرا مادی منصب، اور کسی منصب کا حاصل ہونا بھی قانون علل واسباب سے ماوراء نہیںلہٰذا مقام اور منزلت کا ملنا کردار اور گفتار کی کمیت وکیفیت پر موقوف ہے اور کردار وگفتار کے اعتبار سے لوگوں کی نظر اور خدا کی نظر مختلف ہے لہٰذا ان دو ٢ منصبوں میں سے معنوی منصب کو مثبت اور ان کے اسبا ب کو شریعت اسلام کہا جاتاہے جب کہ مادی منصب کو منفی اور اس کے اسباب کو مادی نظام کہا جاتا ہے لہٰذا معنوی منصب کے علل واسبا ب میں سے ایک نماز شب ہے اس طرح لوگوں کو کھانا کھلانابھی مثبت منصب کے اسباب میں سے ہے لیکن شیطانی سیاست کرکے مقام ومنزلت کی تلاش کرنا منفی منصب کا سبب ہے کہ جس کا نتیجہ خسرالد نیا والا خرۃ ہے۔

اسی لئے پیغمبر اکرم )ص( نے اس روایت میں دو مطلب کی طرف اشارہ فرمایا ہے (١) نماز شب کا پڑ ھنا صرف میری ذمہ داری اورخصوصیت نہیں ہے بلکہ حضرت ابراہیم ؑجیسے پیغمبر کی بھی سیرت ہے (٢) حضرت ابراہیم ؑ کو خلیل اللہ کا لقب ملنے کا سبب بھی ذکرفرمایا کہ حضرت ابراہیم ؑکو خلیل اللہ کا لقب اسی لئے دیا گیا کہ آپ لوگوں کو کھانا کھلایا کرتے تھے اور نماز شب پڑھا کرتے تھے جب کہ اس وقت دوسرے لوگ خواب غفلت میں مشغول ہوتے ہیں اگر ہم بھی خدا کے محبوب اور خلیل بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی حضرت ابراہیم کی سیرت کو اپنانا ہوگا یعنی ضرورت مند مسلمان بھائیوں کو کھانا کھلا نا اور نماز شب کو پابندی کے ساتھ انجام دینا چاہئے۔

١۔نماز شب باعث شرافت

نماز شب کی اہمیت اورعظمت بیان کرنے والی روایات میں سے چوتھی روایت حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کی یہ روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :

''قال شرف المومن صلوتہ بااللیل وعز المؤمن کفہ عن اعراض الناس ''(١)

نماز شب کا پڑھنا مؤمنین کی شرافت کا باعث ہے اور مومن کی عزت لوگوں کی آبرو ریزی سے پرہیزکرنے میں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١)کافی ج٣ .

حدیث کی توضیح:

اس حدیث شریف میں چھٹے امام نے چار چیزوں کو بیان فرمایا ہے:

١) مؤمنین کی شرافت۔

٢) ان کی عزت ۔

٣) نماز شب۔

٤) لوگوں کی ابرو کی حفاظت کرنا۔

اور یہ طبیعی امر ہے کہ ہرانسان اس خواہش کا متمنی ہے کہ معاشرے میں اس کی شرافت اورعزت میں روز بروزاضافہ ہو لہٰذا شرافت اور عزت کی خاطر پوری زندگی کا خاتمہ اور ہزاروں مشکلات کو برداشت کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہر خواہش رکھنے والا اس میدان میں کامیاب نہیں ہوتا اور ہر معاشرہ میں شاید ١٠/ فیصدافراد نماز شب سے حاصل ہونے والی شرافت اور عزت سے مالامال ہیں جب کہ باقی ٩٠/فیصد افراد اس شرافت اور عزت سے محروم ہیں کیونکہ شرافت اور عزت زحمت وہمیت کا نتیجہ ہے جو برسوں کی مشقت اٹھا نے کے بعد حاصل ہوتی ہے لیکن ہر زحمت باعث عزت وشرافت نہیں ہے کیونکہ زحمت اور ہمیت کی دو٢ قسمیں ہیں:

١) منفی زحمت۔

٢) مثبت زحمت۔

اگر شرافت اور عزت کے اسباب مثبت ہوں یعنی خدائی زحمات اور الٰہی ہمتوں پر مشتمل ہو تو اس حاصل ہوئی شرافت کو حقیقی اور الٰہی شرافت اور عزت سے تعبیرکیا جاتا ہے جیسے مؤمن بندہ رات کے وقت نیند کی لذت سے محروم ہو کر اپنے محبوب حقیقی کو راضی کرنے کے لئے رات کی تاریکی میں نماز شب کی زحمت اٹھانا اسی طرح دوسرے شخص کی آبرو کو اپنی آبرو سمجھتے ہوئے اس کی آبر وریزی کرنے سے پرہیز کرنا جبکہ وہ ایسا کرنے پر پوری طرح قادر ہوتا ہے لیکن ان کی عزت کو اپنی عزت سمجھتے ہے چونکہ ایمان کا تقاضا بھی یہی ہے کہ دوسروں کو انسان سمجھا جائے لیکن آج کل بد قسمتی سے ایسا سلوک بہت کم نظر آتا ہے لہٰذامعصوم کے اس کلام سے معلوم ہوا کہ مومن کی حقیقی شرافت اور عزت نماز شب پڑھنے اور دوسرے بھائیوں کی آبرو کی حفاظت کرنے میں پوشدہ ہے۔ 

 

٢۔نماز شب محبت خدا کا سبب:

امام محمد باقر علیہ السلام کی روایت ہے ۔

'' قال الامام الباقر ان اللہ یحب المساہر باالصلوۃ ''(١) 

آپ نے فرمایا کہ خدا اس شخص کو دوست رکھتا ہے جو سحر کے وقت نماز شب کی خاطر نیند سے بیدار ہوتا ہے .

تشریح :

اس حدیث میں امام نے محبت خدا کا تذکرہ فرمایا ہے لیکن محبت ایک امر 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١) بحار الانوارج٧٦ .

باطنی ہے اور اس کے آثار اور نتائج ظاہری ہیں نیز محبت کا مفہوم متعدد مراتب اور مختلف درجات کا حامل ہے پس اگر کسی سے کہا جائے کہ فلانی اپنے محبوب کے ساتھ محبت کے آخری مرحلہ پر ہے تو اتفاق سے اگر وہ محبوب کو کھوبیٹھے تو وہ دیوانہ ہوجاتا ہے اور کبھی محبت اس مرتبے کی نہیں ہوتی کہ جس کے نتیجے میں محبوب کے نہ ملنے کی صورت میں وہ دیوانہ نہیں ہوتا لہٰذاہمیشہ محبت کا نتیجہ محبت کے مراتب اور مراحل کا تابع ہے اگر محبت آخری مرحلے کا ہو تو نتیجہ بھی حتمی ہے اور اگر محبت آخری مرحلے کا نہ ہو تو نتیجہ بھی حتمی نہیں ہے لیکن محبت کی حقیقت کے بارے میں محققین نے بہت سی تحقیقات کی ہیں مگر وہ تحقیقات محبت کی حقیقت سے دور ہیں اسی لئے ان پراعتماد نہیں کیا جاسکتا لہٰذا اسلام کی روشنی میں محبت دو قسموں میں تقسیم ہوتی ہے:

الٰہی محبت یعنی خدا کا کسی سے محبت ودوستی رکھنا (٢)انسانی محبت یعنی لوگوں کا ایک دوسرے سے محبت کرنا اور اظہار دوستی کرنا اگر خدا کسی بندے سے کہے کہ تو میرا محبوب ہے تجھ سے میں محبت کرتا ہوں ایسی محبت کو حقیقی اور واقعی کہا جاتا ہے کیونکہ اس محبت میں کیفیت اورکمیت کے لحاظ سے کوئی نقص اور کمی نہیں پائی جاتی لہٰذا اس کا نتیجہ اور آثار حتمی ہے یعنی اس کے نتیجے میں اس انسان کے لیے دنیا میں عزت وشرافت جیسی منزلت اور اخروی زندگی میں جنت جیسی عظیم نعمت عطا کیا جاتا ہے لیکن اگر محبت کی دوسری قسم ہو یعنی ایک شخص دوسرے شخص سے کہے کہ تو میرا محبوب ہے اس کو اعتباری اور غیر حقیقی محبت کہا جاتا ہے اگر چہ والدین اور اولاد کے مابین پائی جانے والی محبت ہی کیوں نہ ہو کیونکہ یہ محبت ان کی ذاتی نہیں ہے بلکہ وہ خدا کی طرف سے عطاہوئی ہے لہٰذا محبت اعتباری ہے لیکن دونوں قسم محبت کچھ علل واسباب کی مرہون منت ہیں۔

لہٰذا امام علیہ السلام نے اس حدیث میں حقیقی محبت کا سبب ذکر کرتے ہوئے فرمایاکہ خدا اپنے بندوں سے دوستی اور محبت اسوقت کرتا ہے کہ جب بندہ اپنی پسندیدہ اور محبوب چیزوں کو رضائے الہی کی خاطر ترک کرے جیسے نیندکی لذت بندے کی نظر میں بہت پسندیدہ ہے لیکن اس کو ترک کرکے وہ کوئی ایساکام انجام دے جو اس کی نظر میں بامشقت ہو اور خدا کی نظر میں بہت اہم ہو جیسے نماز شب کیلئے بیدار ہونا ایسے کاموں کو انجام دینے کی خاطر ایمان کا اعلی مرتبہ درکار ہے کہ جب عبد ایمان کے اس مرحلہ پر پہنچتا ہے اور اپنی خواہشات کو خدا کی چاہت پر فدا کرے تو خدا اس کو اپنا محبوب قرار دیتا ہے اور خدا اس سے دوستی کرنے لگتا ہے لہٰذا اس روایت سے معلوم ہوا کہ نماز شب خدا کی محبت کا سبب ہے اور یہی فضیلت نماز شب کے لئے کا فی ہے .

٣۔نماز شب زنیت کا باعث

چنانچہ مذکورہ مطلب سے ہمیں معلوم ہوا کہ نماز شب کا میابی کا راز شرافت کا ذریعہ ،اور محبت خدا کا سبب ہے نیز نماز شب انسان کی زینت کا سبب بھی ہے اس مطلب کو امام جعفر صادق نے یوں ارشاد فرمایا :

''المال والبنون زینت الحیاۃ الدنیا ان الثمان رکعات یصلھا اخراللیل زینۃ الاخرۃ ''(١)

(اے لوگو!) اولاد اور دولت دینوی زندگی کی زنیت ہے (لیکن)آٹھ رکعت نمازجو رات کے آخری وقت میں پڑھی جاتی ہے وہ اخرو ی زندگی کی زینت ہے ۔

حدیث کی تحلیل :

نماز شب کی اہمیت اور فضیلت پر دلالت کرنے والی روایات میں سے کئی روایات کو مختصر توضیحات کے ساتھ ذکر کیا گیا کہ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نماز شب میں خیر وبرکت اور سعادت دنیا وآخرت مضمرہے اور اس ورایت میں امام جعفرصادق نے دومطلب کی طرف اشارہ فرمایا :

(١)ہر انسان کی دوقسم کی ز ندگی حتمی ہے دنیوی اور اخروی ۔

(٢) ہرایک زندگی کے لئے کچھ چیزیں باعث زینت ہوا کرتی ہیں کہ ان دونو ں مطالب کی مختصر وضاحت کرنا لازم ہے پہلا مطلب زندگی دوقسموں میں تقسیم ہوتی ہے یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس کے ثبوت اور اثبات کے قائل سارے مسلمان ہیں اگر چہ کچھ ملحد اس تقسیم سے انکار کرتے ہیں اور معادو قیامت کے 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١)وسائل ج١٣.

حساب وکتاب کے نام سے کسی چیز کے قائل نہیں ہیں بلکہ کہتے ہیں زندگی کا دارو مدار بس اسی دنیوی اور مادی زندگی پر ہے کہ جس کے بعد انسان نسیت ونابود اور فناء کے علاوہ کچھ نہیں ہے لہٰذا دنیا میں اپنی خواہشات کے منافی عوامل سے مقابلہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں تاکہ دنیا میں زیادہ بہترزندگی گذار سیکیں اسلئے اسلام جیسے نظام کو جو فطرت اور عقل کے عین مطابق ہے مانع آذادی اور خواہشات کے منافی سمجھتے ہیں لہٰذا اسلام پر طرح طرح کے اعتراضات کرتے میں حا لانکہ وہ اسلام کی حقیقت اور نظام اسلامی استحکام وبقاء سے بخوبی واقف ہیں۔

دوسرامطلب جو روایت میں مذکورہے کہ جس کا اعتراف سارے انسان کرتے ہیں چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم اس کے باوجود غیرمسلم اور مادہ پرست اسلام کو بد نام کرنے کی خاطر طرح طرح کی غیر منطقی باتیں منسوب کرنے میں سر گردان رہے ہیں لہٰذا کہا کرتے ہیںکہ اسلام زینت کے مخالف ہے جب کہ اسلامی تعلیمات انسانوں کو زینت کی طرف (چاہے مادی ہو یامعنوی)ترغیب دلاتی ہے لہٰذا اسلامی تعلیمات میں ملتا ہے کہ جمعہ کے روزغسل کرنا ناخن تراشنا بالوں کو خضاب لگانا اورآنکھوں کی زینت کے لیے سرمہ لگانا اور ہمیشہ خوشبولگا کر نمازپڑھنا وغیرہ مستحب ہے اگر چہ اسلام زینت کی حقیقت اور کمیت وکیفت کے حوالہ سے باقی نظریات کے مخالف ہے لیکن خود زینت کے مخالف نہیں ہے لہٰذا امام اس روایت میں زینت دنیوی کے علل واسباب کو بیان کرتے ہوئے فرمایا اولاد اور دولت مادی زندگی کی زینت ہیں کہ اس مطلب کی طرف کلام مجید میں بھی اشارہ ملتا ہے :

''المال والبنون زینۃالحیاۃ الدینا''

یعنی مال واولاد دنیوی زندگی کی زینت کا ذریعہ ہیں ۔

ابدی زندگی کی زینت کے علل واسباب میں سے ایک نمازشب ہے لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہناپڑتا ہے کہ جس طرح غیر مسلم، عقیدہ اور عمل کے اعتبار سے اخروی زندگی کی سے محروم ہیں اسی طرح مسلمان حضرات بھی اخروی زندگی کی زینت سے عملاََبہت دور ہیںاگرچہ عقیدہ اور تصورکے مرحلے میں غیر مسلم کے مساوی نہیںہیں لیکن عملی میدان میں ان کے یکسان نظر آتے ہیں کہ یہ مسلمانوںکےلئے بہت دکھ کی بات ہے نیز نماز شب کی اہمیت اور فضیلت کے بارے میں حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا ارشاد ہے ۔

'' انہ کان یقول ان اہلیبت امر نا ان نطعم الطعام ونوادی فی النائیہ ونصلی اذ ا نام الناس (٣)

آپ نے فرمایا کہ ہم ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں کہ ہمیں خدا کی طرف سے حکم ہوا ہے کہ لوگوں کو کھانا کھلائیں اور مشکل کے وقت ان کی مدد کریں اور جب وہ خواب غفلت میں سو رہے تو ہم نماز شب کو اداء کرنے کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٣) معانی الاخبار .

تحلیل حدیث 

اس روایت شریفہ میں امام المتقین والمسلمین نے تین عظیم ذمداریوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے :

١) لوگوں کو کھانا کھلانا ہماری سیرت ہے ۔

٢) لوگوں کی مشکلات میںمدد کرنا .

٣) رات کے وقت نماز شب پڑھنا ۔

کہ یہ تینوں ذمہ داریاں آنجام دینا عام انسان کے لیے بہت مشکل ہے کیونکہ جب انسان کسی مال کو اپنا حقیقی مال سمجھتا ہے .

توکسی اور کومفت کھلاناطبیعت وخواہشات کے منافی ہے کیونکہ مفت میں کسی کو دینا کمی اور خسارہ کا باعث ہے اگر چہ فطرت کی چاہت اسکے برعکس ہے یعنی ہم کسی چیز کا حقیقی مالک نہیں ہے اگر کوئی شخص اپنے آپ کو کسی مال کا حقیقی مالک نہ سمجھے بلکہ اعتبار ی مالک ماننے اور اس ملکیت کوزوال پیذیر ہونے کااعتراف کرے اور دوسروں کو کھلانا اپنی ابدی زندگی کی خوش بختی اور آبادی کا باعث سمجھے تو دوسروں کو کھلانے میں خوشی وحسرت کا احساس کرتا ہے کیونکہ فطرت کی چاہت کی بناء پر حقیقی مالک اسکی نظر میں صرف خدا ہے اور خدا نے ہی انسانوں کو استعمال کرنے کا حق دیا ہے اور اسی طرح اگرکسی شخص پر کوئی مشکل آپڑے لیکن دوسرا شخص آپنے آپ کو اس بری سمجھے تو اس کے لئے عملاََ مدد کرنا بہت مشکل ہے حتی اس کی مشکلات کو ذہن میں تصور کی حدتک بھی نہیں لاتا کہ اس کا لازمی نتیجہ، کائنات میں روز بروز طبقاتی نظاموں میں اضافہ اور فقر وتنگ دستی کا بازار گرم ہوناہے۔

لہٰذا بہت سے افراد اس ذمہ داری کو انجام دینے کے حوالے سے تصور کے مرحلہ سے بھی محروم ہیں ایسے حضرات کو قرآن میں'' بل ہم اضل''کی تعبیر سے یاد کیا گیا ہے لیکن کچھ حضرات اس طرح کئے ہیں کہ عملاً مدد کرنے سے محروم ہے جب کہ تصور کے مرحلے میں باعمل ہیں یعنی انکی مشکلات کو اعضاد وحواح کے ذریعے برطرف کرنے کی کوشش نہیں کرتے لیکن ان کی مجبوری کو ہمیشہ ذہن میں تصور کیا کرتے ہیں اسیے حضرات کوعالم بے عمل سے تعبیر کیا گیا ہے لیکن کچھ حضرات ایسے ہیں کہ جو تصور اور عمل کے اعتبار سے لوگوں کی مشکلات کو اپنی مشکلات سمجھ کر ہر وقت ان کو برطرف کرنے کیلئے زحمت ومشقت کو اپنی مشکلات سمجھ کر ہر وقت ان کو بر طرف کرنے کی خاطرہزاروںمشقتیں اٹھاتے ہیں لہٰذا بنی اکرم )ص(نے فرمایا :

''من لم یتھم بامورالمسلین فھو لیس بمسلم .''

یعنی جو مسلمانوں کی مشکلات کی بر طرفی کا اہتمام نہیں کرتے وہ مسلمان ہی نہیں ہے۔

لہٰذا انسانی فطرت کا تقاضا یہی ہے کہ ایسا ہو لیکن اس قسم کے حضرات سوائے انبیاء اور آئمہ کے کوئی دوسرا نظر نہیں آتا چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس حدیث میں فرمایا ہے ہم اہل بیت ہی ایسا کرتے ہیں لہٰذا جن افراد پر اہل بیت صادق آتا ہے ان تمام حضرات کی مخصوصیت اور سیرت یہ ہی ہے اگرچہ مذاہب کے مابین اہل بیت کے بارے میںاختلاف پایا جاتا ہے لیکن امامیہ مذہب جو حق اور نجات دلانے والا مذہب ہے اسکی نظر میں اہل بیت کے مصداق صرف چھاردہ معصومین ہیں لہٰذا تمام اہل علیہم السلام کی سیرت کا مطالعہ کرے تو معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کو کھانا کھلانا اور ان کی مشکلات میں مدد کرنااور رات کے آخری وقت نماز شب کے ذریعے خدا سے راز ونیاز کرنا یہ تمام چیزیں ان کی سیرت سے ثابت ہے لہٰذا آپ اگر سیرت اہل بیت پر چلنا چاہتے ہیں تو ان ذمداریوں کو کبھی فراموش نہ کریں اور انشاء اللہ مزید وضاحت بعد میں کی جائے گی۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :

لاتدع قیام الیل فان المبغون من غبن بقیام الیل (١)

تم لوگ نماز شب کو ترک نہ کرے کیونکہ جو شخص اس سے محروم ہوا وہ خسارے میں ہے ۔

تحلیل حدیث :

اس روایت کی وضاحت یہ ہے کہ روایت میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے دو مطالب کی طرف اشارہ فرمایا جو قابل توضیح ہے . 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١) معانی الا خبار ص ٣٤٢ .

١) شب بیداری کرنا ۔

٢) اور شب بیداری کی حقیقت اور ہدف 

پہلا مطلب کی وضاحت یہ ہے کہ شب بیداری کرنے کی دوقسمیں قابل تصور ہیں :

١) عبادت الہٰی کی خاطر شب بیداری کرنا تاکہ خدا سے راز ونیاز کریں۔

٢) لہو ولعب یا کسی غیر عبادی امور کے لئے شب بیداری کرنا۔

روایت شریفہ میں اما م نے قیام اللیل کو مطلق ذکر فرمایا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ باقی روایات سے قطع نظر دیکھا جائے تو دونوں صورتیں روایت میں شامل ہیں یعنی شب بیداری کرنا چاہئے عبادت میں رات گذارے یا کسی لہوولعب میںدونوں کا اچھے ہیں لیکن جب ہم باقی روایات جو قیام اللیل سے مربوط ہیں اور قرائن وشواہد کو مدنظر رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس روایت میں امام علیہ السلام کا ہدف وہ قیام اللیل ہے جو عبادت الٰہی کے لیے ہو۔

لہٰذا علماء اور فقہا نے بھی قیام اللیل سے یہی مراد لیا ہیں اس لیے کہا جاتا ہے کہ روایت میں معصوم کی مراد صرف قیام اللیل نہیں ہے بلکہ عبادت کےلئے رات گذار نا مقصود ہے۔

دوسرا مطلب جو اس روایت میں قابل وضاحت ہے وہ یہ ہے کہ کیوں شب بیداری عبادت الٰہی کے لیے مہم ہے ؟کیا کسی اور وقت میں عبادت نہیں ہوسکتی کہ جسکی خبرامام نے نہیں دی ؟

جواب یہ ہے کہ شب بیداری اسی لئے مہم ہے کہ عبادت الٰہی کی خاطر جاگنا حقیقت میں طبیعت شب کے ہدف کے خلاف ہے چنانچہ اس مطلب کی طرف خداوند کریم نے یوں اشارہ فرمایا ہے کہ خدا نے رات کو سکون اور آرام کے لئے خلق کیا ہے لہٰذا رات کے وقت عبادت کی خاطرجاگنارات کی خلقت اور طبیعت کے منافی ہے لیکن جب انسان رات کے سکون اور آرام کو چھوڑکر عبادت الہٰی کے لیے شب بیداری کرے تو خدا کی نظر میں اسکی اہمیت اور عظمت بھی زیادہ ہوجاتی ہے اور نماز شب کی خصوصیت اور فضیلت کا وقت ہی وہی ہے جب باقی تمام انسان آرام وسکون کی گہری نیند سے لطف اندوز ہورہے ہوں لیکن خدا کے عاشق اور ایمان کے نور سے بہر مند حضرات اپنے محبوب حقیقی سے رازونیاز کی خاطر اس وقت اپنے آرام وسکون کو راہ خدا میں فدا کرتے ہیں لہٰذا امام علیہ السلام نے فرمایا کہ تم شب بیداری کو نہ چھوڑیں کیونکہ شب بیداری نہ کرنے والے افرادہمیشہ خسارہ اور نقصان کے شکار رہتے ہیں پس اس جملے کا مفہوم یہ ہے کہ اگر شب بیداری کو نہ چھوڑے تو ہمیشہ فائدے میں ہوگا صحت جیسی نعمت سے بہرہ مند ہونگے۔

نماز شب کی اہمیت کو امام جعفرصادق نے یوں بیان فرمایا:

'' انی لا مقت الرجل قدقرأ القرآن تم یستیقظ من اللیل فلا یقوم حتی اذا کان عندالصبح قام ویبادر بالصلوۃ ''(٢)

(٢) بحار ج٨٣ 

مجھے اس شخص سے نفرت ہے کہ جو قرآن کی تلاوت کرے اور نصف شب کے وقت نیندسے جاگئے لیکن صبح تک کوئی نماز نافلہ نہ پڑھے بلکہ صرف نماز صبح پر اکتفاکرے .

حدیث کی تحلیل :

اس روایت کی وضاحت ضروری ہے کیونکہ امام نے اس روایت میں اپنے ان ماننے والوں سے جو رات کو نماز نافلہ انجام نہیںدیتے اظہار نفرت کیاہے لہٰذا اس روایت کے مصداق کو معین کر کے اس پر تطبیق کرنا لازم ہے تاکہ یہ شبہ نہ رہے کہ ہرنماز شب ترک کرنے والا معصوم کی نظر میں قابل نفرت ہے کہ اس مسئلہ میں چار صورتیں قابل تصور ہے:

١) نماز شب وہ شخص ترک کرتا ہے کہ جو خواب اور نیند سے بالکل بیدار نہیں ہوتا ایسے افراد کی دوصورت ہیں :

١) وہ شخص ہے جو سوتے وقت نماز شب انجام دینے کی نیت تو رکھتا ہے لیکن نیند اسے اٹھنے کی اجازت نہیں دیتی تاکہ نماز شب سے لذت اٹھاسکے۔

٢) وہ شخص ہے جو سوتے وقت نماز شب پڑھنے کے عزم کے بغیر سوجاتا ہے اور پوری شب نیند میں غرق ہو اور نماز شب سے محروم رہ جاتا ہے ایسا شخص امام کے اس جملے میں داخل نہیں ہے کہ فرمایا:

'' لامقت الرجل ۔''

یعنی مجھے اس شخص سے نفرت ہے جو پوری رات سوتا رہے صرف نماز صبح انجام دے اگر کوئی شخص سوتے وقت نماز شب کے لئے جاگنے کی نیت کے ساتھ سوئے اور پھرنہ جاگ سکے تو ایسا شخص بھی امام علیہ السلام کے اس جملے سے خارج ہے ۔

کیونکہ اس قسم کے افراد سے نفرت کرنا خلاف عقل ہے اور بہت ساری رویات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے افراد سے امام علیہ السلام خوش ہیں کیونکہ وہ نماز شب پڑھنے کا ارادہ رکھتے تھے ایسا شخص اس حدیث : ''نیۃ المؤمن خیر من عملہ'' کے مصداق قرار پاتا ہے لہٰذا ایسا شخص یقیناََ روایت سے خارج ہے لیکن دوسری قسم کے افراد یعنی سوتے وقت جاگنے کی نیت کے بعیر حیوانات کی طرح سوتے ہیں ایسے اشخاص بھی خارج ہیں کیونکہ امام نے فرمایا:'' ثم یستیقظہ'' یعنی سوئے پھر جاگے اور نماز شب نہ پڑھے ایسے افراد سے مجھے نفرت ہے اگرچہ دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کیفیت اور حالات میں سوجانا باعث مذمت ہے لیکن لامقت الرجل میں داخل نہیں ہے کیونکہ نیند کی وجہ سے بیدار نہیں ہوتے اور نیند اپنی جگہ پر عذر شرعی شمار ہوتا ہے۔

٢) صورت وہ افراد ہے جو نصف شب کے وقت نیند سے بیدار ہوجاتے ہیں لیکن نماز شب انجام نہیں دیتے کہ اس کی مزید تین قسمیں قابل تصور ہیں :

١) جاگنے کے بعد نماز شب پڑھنے کا شوق ہے لیکن کسی اور کام یا مصروفیات کی وجہ سے نماز شب سے محروم ہوجاتے ہیں جیسے مطالعہ یادیگر لوازمات زندگی کی فراہمی ایسے افراد بھی اس حدیث سے خارج ہیں کیونکہ لوازمات کی فراہمی کے لئے کوشش کرنا اور شب بیداری کرنا خود خدا کی عبادت ہے جیسا کہ امام نے فرمایا ۔

٢) دوسری صورت وہ افرادہیں جو نیند سے بیدار تو ہوتے ہیں لیکن غیر ضروری مباح یا مکروہ کام کی وجہ سے نماز شب ترک کربیٹھتے ہیں ایسے افراد اس حدیث میں داخل ہیں کہ انہیں کے بارے میں فرمایا کہ مجھے ان سے نفرت ہے۔

٣)تیسری صورت وہ شخص کہ جو نصف شب کے وقت جاگتے ہے لیکن کسی عذر کے بغیر سستی کی وجہ سے نماز شب ترک کرتے ہیں تو ایسے افراد سے امام نے اظہار نفرت کیا ہے لہٰذا فرمایا:

لا مقت الرجل یعنی رات کو بیدار ہوتا ہے اور نماز شب بجانہیں لاتا یہ افراد قابل مذمت ہیں ۔

نتیجہ نماز شب کسی عذر عقلی کے بغیر نہ پڑھنا امامَ کی نفرت کا باعث ہے اور امام کے ماننے والے حضرات کے لئے یہ بہت ہی سخت اور ناگوار بات ہے لہٰذا امام اس سے نفرت کریں۔

اور نماز شب کوانجام دینے میں کوتاہی اور سستی شیطان کے تسلط اور حکمرانی کا نتیجہ ہے اور نماز شب کی فضیلت پر دلالت کرنے والی روایات میں سے ایک پیغمبر اکرم )ص( کا یہ قول ہے کہ آپ نے فرمایا :

''اذا ایقظ الرجل اہلہ من الیل وتوضیا وصلیا کتبا من الذاکرین کثیرا والذاکرات'' (١)

ترجمہ :اگر کوئی شخص نصف شب کے وقت اپنی شریک حیات کو نیند سے جگائے اور دونوں وضو کرکے نماز شب انجام دے تو میاں بیوی دونوں کثرت سے ذکر کرنے والوں میں سے قرار دیاجائے گا ۔ 

تحلیل حدیث :

اس حدیث میں پیغمبر اکرم )ص(نے تین شرطوں کیلئے ایک جزاء کا ذکر کیا ہے :

١)اگر شوہر اپنی بیوی کو نیند سے جگائے ۔

٢)اگر دونوں وضوکرے ۔

٣) اور دونوں نماز شب انجام دیں۔

پھر'' کتبامن الذاکرین کثیرا والذا کرات'' (اگرچہ علم اصول میں تعدد شرط اور جزاء واحد کی بحث مستقل ایک بحث ہے کہ اس کا نتیجہ اور حقیقت کیا ہے اس کا حکم کیا ہے یہ ایک لمبی چوڑی بحث ہے لہٰذا قارئین محترم کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٢)نورالثقلین ج٤۔

خدمت میں صرف اشارہ کرنا مقصود ہے تاکہ حدیث کی حقیقت اور مطلب واضح ہوجائیں) لہٰذا اس حدیث سے دومطلبوں کا استفادہ ہوتا ہے ایک نماز شب کی تاکید اور اہمیت نیز نماز شب صرف مردوں کے ساتھ مختص نہیں بلکہ خواتین بھی اس روح پرور عبادت سے بہرہ مند ہوسکتی ہیں لہٰذا نماز شب مرد اور عورت دونوں کے لئے مستحب ہے اگر چہ ہمارے معاشرے میں بعض جگہوں پر ایسی عبادت کو انجام دینے کا نظر یہ صرف مردوںکے بارے میں قائم ہے جب کہ نماز شب پڑھنا حضرت زہرا سلام اللہ علیہا اور حضرت زینب کبریٰ علیہاالسلام کی سیرت طیبہ میں سے اہم سیرت ہے اور روایت کا ماحصل اور مدلول بھی یہی ہے کہ مردوں اور عورتوں میں نماز شب کے استحباب کے حوالے سے کوئی فرق نہیں ہے لہٰذا دونوں اس انسان ساز عبادت سے فیضیاب ہوسکتا ہیں ۔

دوسرا مطلب جو روایت سے ظاہر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ نماز شب پڑھنے والے کا شمار ذاکرین میں سے ہوتا ہے اور آپ کو معلوم ہے کہ قرآن وسنت کی روشنی میں ذاکرین کے حقیقی مصداق اہل بیت علہیم السلام ہیں لہٰذا نماز شب پڑھنے والے بھی ایسے درجات کے مالک ہوسکتے ہیں یعنی ذاکرین کے کئی مراتب ہے جس کے کامل ترین درجہ پر ائمہ اطہار فائز ہیں اور نماز شب پڑھنے والا مؤمن دوسرے مرتبہ پر فائز ہوگا جو عام انسانوں کی نسبت خود بہت بڑا کمال ہے۔

نیز نمازشب کی اہمیت کو بیان کرنے والی رویات میں سے ایک اور روایت جو اس آیہ شریفہ'' ان ناشئۃ اللیل'' کی تفسیر میں وارد ہوئی ہے امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ ان ناشئتہ اللیل سے کیا مراد ہے ؟ آپ دونوں حضرات نے فرمایا :

''ھیی القیام فی آخر الیل ''

یعنی اس آیہ شریفہ سے مراد رات کے آخری وقت نماز شب کی خاطر نیند سے جاگنا ہے۔

اسی طرح دوسری روایت جو اس آیت کی تفسیر میں وارد ہوئی ہے جو امام جعفر الصادق علیہ السلام سے یوں نقل کی گئی ہے کہ ۔ ان ناشئتہ اللیل سے مراد کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا:

''قیام الرجل عن فراشہ بین یدی اللہ عزوجل لایریدبہ غیرہ'' (١) 

یعنی اس آیہ شریفہ سے مراد بارگاہ الٰہی میں نیند کے سکون اور آرام کو چھوڑکر نماز شب کی خاطر جاگنا کہ جس سے صرف رضایت خدا مقصود ہو لہٰذا ان دونوں روایتوں سے بھی نمازشب کی اہمیت اور فضیلت واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن کریم کے معتقد حضرات جو ٢٤/ گھنٹوں میںسے ایک دفعہ تلاوت قرآن حکیم ضرور کرتے ہونگے اور اس آیہ شریفہ کی بھی تلاوت کرنے کا شرف حاصل کیا ہوگا 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١)بحار جلد ٨٧ .

اس کے باوجود نمازشب کا نہ پڑھنا سلب توفیق اور بدبختی کی علامت ہے پالنے والے ہمیں ایسی بدبختی اور سلب توفیق سے نجات دے یہاںممکن ہے کوئی شخص یہ خیال کرے کہ ہم اسلام کی خدمت کرتے ہیں مثلا مدرسے کی تاسیس کرنا یا کسی مسجد اور دیگردینی مراکزکی تعمیر کرانا یا کسی اور خدمت میں مصروف ہونا )لہٰذا نماز شب کیلئے نہ جاگے یا نہ پڑھے تو کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ کتاب لکھ رہا ہے یا کوئی اور خدمت کو انجام دے رہا ہے تو ایسا خیال رکھنے والے حضرات بہت بڑے اشتباہ کا شکار ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ نماز شب کے فوائد اور آثار اس قدر عظیم ہیں کہ اس کے مقابلے میں کوئی اور کام یا خدمت اس کا بدل نہیں ہوسکتی ۔

اسی طرح یہ روایت بھی ہمارے مطلب پر دلیل ہے کہ جس میں امام رضا علیہ السلام نے فرمایا :

'' لماسئل عن التسبیح فی قولہ تعالٰی وسبحہ لیلا طویلا صلوۃ اللیل ''

یعنی امام رضا علیہ السلام سے وسبحہ لیلا َطویلا کے بارے میں پوچھا گیا : رات دیر تک خدا کی تسبیح کرنے سے کیا مراد ہے ؟

اس وقت آپ نے فرمایا اس سے مراد نماز شب ہے یعنی نماز شب کے ذریعے خدا کی تقدیس و تسبیح ہوسکتی ہے کہ اس مطلب کی وضاحت یہ ہے کہ ہمارے عقیدہ کی بناء پرکائنات کے تمام موجودات چاہے انسان ہو یا حیوان نباتات ہو یا جمادات سوائے اللہ تبارک وتعالیٰ کے حدوث وبقاء کے حوالے سے خدا کا محتاج ہیں لہٰذا تمام مخلوقات یعنی پوری کائنات اللہ تعا لیٰ کی تسبیح وتقدیس کرتی ہے کہ اس مطلب کی تصدیق قرآن نے یوں کی ہے:

'' سبح للہ مافی السموت والارض''

لیکن تسبیح کی کیفیت اور کمیت کے بارے میں مخلوقات کے مابین بہت پڑا فرق ہے یعنی اگر کوئی زبان سے تکلم کے ذریعہ خدا کی تسبیح کرے تو دوسرا زبان حال اور نطق گویا کے ذریعے خدا کی تسبیح میں مصروف ہے کہ اس آیہ شریفہ میں خدا نے رات دیر تک تسبیح کرنے کا حکم فرمایا اور امام نے اپنی ذمہ داری کو ادا کرتے ہوئے اس کی تفسیر فرمائی ہے کیونکہ حقیقی مفسر اور عاشق الٰہی وہی ہے لہٰذا عاشق معشوق کے کلام میں ہونے والے کنایات واشارات اور فصاحت وبلاغت کے نکات سے بخوبی واقف ہے جب کہ دوسرے لو گ ایسے نکات اور اشارات سے بے خبر ہوتے ہیں۔

لہٰذا آنحضرت نے وسبحہ کی تفسیر میں فرمایا کہ اس سے مراد نماز شب ہے پس نماز شب کی اہمیت وفضیلت کے لئے صاحبان عقل کو اتنا ہی کافی ہے لیکن دنیا میں نیاز مند افراد کا طریقہ یوں رہا ہے کہ کہیں سے کوئی معمولی سی چیز ملنے کی امید ہو تو ہزاروں قسم کی زحمات برداشت کرتے ہیں تاکہ اس چیز کے حصول سے محروم نہ رہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کتنا غافل ہے کہ مادی زندگی جو مختصر عرصے تک باقی رہتی ہے اس کی ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر اتنی زحمات اور سختیاں برداشت کرتا ہے مگر نماز شب جیسی عظیم نعمت اور دولت کو ہاتھ سے جانے دیتا ہے جب کہ نماز شب عالم برزخ اور ابدی زندگی کےلئے بھی مفید ہے اور نماز شب انجام دینے میں صرف آدھ گھنٹہ نیند سے بیدار ہونے کی زحمت ہوتی ہے اور اس جاگنے میں کتنی لذت ہے کہ جس کا اسے اندازہ نہیں۔

لہٰذا اگر کوئی شخص فکر و تدبرسے کام لے لے تو یقینا اس مادی زندگی کے دوران میں ہی آخرت اور ابدی زندگی کے لئے نماز شب جیسی دولت کے ذریعے سرمایہ گذاری کرسکتاہے اور دنیامیں کامیاب اور سعادت مند ہو اور عالم برزخ میں سکون کے ساتھ سفر کے لمحات طے کرسکے اور ابدی زندگی میں جاودانہ نعمتوں سے مالامال ہوسکے۔

حضرت امام ہفتم علیہ السلام نے فرمایا:

''لما یرفع راسہ من آخر رکعت الوتر (یقول ) ہذا مقام حسنا تہ نعمتہ منک وشکرہ ضعیف وذنبہ عظیم ولیس لہ الا دفعک ورحمتک فانک قلت فی کتابک المنزل علی نبیک المرسل کانوقلیلا من اللیل ما یہجعون وباالاسحار ہم مستغفرون کمال ہجو عی وقل قیامی وہٰذا السحر وانا استغفرک لذنبی استغفارا من لم یجد نفسہ ضراولا نفعا ولاموتا ولاحیواتا ولانشورا ثم یخرساجدا'' (١)

جب حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نماز وترکی آخری رکعت سے فارغ ہوتے تو فرمایا کرتے تھے کہ یہاںایک ایسا شخص کھڑا ہوا ہے کہ جس کی نیکیاں تیری طرف سے دی ہوئی نعمتیں ہیں کہ جس کا شکر ادا کرنے سے عاجز ہے گناہ اس کے زیادہ ہے صرف تیری رحمت اور حمایت کے سواء کچھ نہیں ہے کیونکہ تونے ہی اپنے نبی مرسل پر نازل کئی ہوئی کتاب میں فرمایا ہے کہ کانو قلیلایعنی ہمارے انبیاء رات کے کم حصہ سوتے اور زیادہ حصہ ہماری عبادت کی خاطر شب بیداری کرتے تھے اور سحرکے وقت طلب مغفرت کرتے تھے لہٰذا (میرے پالنے والے) میری نیند اور خواب زیادہ اور شب بیداری کم ہے اس سحرکے وقت میں تجھے سے اپنے گناہوں کی مغفرت کا طلب اس شخص کی طرح کرتا ہوں کہ جس کو اپنے نفع ونقصان اٹھانے کی طاقت اور حساب وکتاب سے بچنے کے لیے کوئی راہ فرار نہیں ہے نہ ہی موت وحیات اس کے بس میں ہے پھر انھیں جملات کو بیان فرمانے کے بعد آپ سجدہ شکر اداء کیا کرتے تھے۔

تحلیل حدیث :

حضرت نے اس راویت میں کئی مطالب کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جن میں سے ایک یہ ہے کہ خالق کی بارگاہ میں اپنے گناہوں کا اعتراف کرکے معافی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١)الخیرص ١٧٥ .

مانگنے اور مغفرت طلب کرنے کا بہترین وسیلہ نماز شب اور بہترین وقت سحرکا وقت ہے کہ جس سے انسان کے گناہوں سے آلودہ شدہ قلب کی دوبارہ آبیاری ہوتی ہے اور کھوئی ہوئی خدا داد صلاحتیں پھر مل جاتی ہیں۔

دوسرا مطلب یہ ہے کہ انسان جس مقام اور پوسٹ پر فائز ہو اس کے باوجود نماز شب جیسی نعمت سے بے نیاز اور مستغنی نہیں ہے لہٰذا امام خود امامت کے منصب ومقام پر ہونے کے باوجوداورپورے انبیاء علہیم السلام نبوت کے مقام ومنزلت پر فائز ہونے کے علاوہ بندگی اور شب بیداری اور نماز شب میں مشغول رہتے تھے لہٰذا تمام مشکلات اور سختیوں کے باوجود کبھی نمازشب کی انجام دہی میں کوتاہی اور سستی نہیں کرتے تھے لہٰذا نماز شب کا ترک کرنا حقیقت میں انبیاء اوصیاء اور محتہدین کی سیرت ترک کرنے کی مترادف ہے کہ ان کی سیرت قلب اور روح انسان کے نابود شدہ قدرت اور صلاحیتوں کو دوبارہ زندہ کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

لہٰذا ایک مسلمان کے لئے قرآن وسنت پر اعتقاد رکھنے والے انبیاء اوصاء کے پیروکار ہونے کی حیثیت سے ضروری ہے کہ وہ اس پرلطف روح پرورمعنوی نعمت کے حصوں میں کوتا ہی اور سستی نہ کرے کیونکہ بہت امراض اور بیماریوں کے لئے باعث شفابھی یہی نماز شب ہے لہٰذا یہ چیزیںاہمیت اور فضیلت کے لئے بہترین دلیل ہے ۔

٤۔نماز شب پر خدا کا فرشتوں سے ناز

قدیم ایام میں غلام اور بندہ گی کنیزولونڈی کا سلسلہ معاشرے میں عروج پر تھا کہ جس کی حالات اور احکام کو انبیاء اور ائمہ کے بعد فقہا اور نائبین عام نے اپنے دور میں فقہی مباحث میں شعراء وآدباء نے آدبی کتابوں میں ، محققین نے اپنی تحقیقاتی کتابوں میں غلام وکنیز کے موضوع پر مستقل اور مفصل بحث کئی ہے لیکن عصر حاضر میں حقوق بشر اور متمدن معاشر کے قیام کا نعرہ عروج پر ہے لہٰذا شاید اس وقت دنیا میں کسی گوشے میں قدیم زمانے کی کیفیت وکمیت پر غلام وکنیز کا سلسلہ نہ پایا جائے اسی لئے آج کل فقہی مباحث میں بھی وہ بحث متروک ہوچکی ہے۔

لیکن آج کل کے مفکرین عبد وعبید کا سلسلہ معاشرے میں نہ ہونے کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ایک باشعور انسان کڑی نظر کے ساتھ مطالعہ کرے تو اسے معلوم ہوجائےگا کہ عبدو عبید کا سلسلہ اس زمانے کی بہ نسبت اس دورحاضر میں زیادہ عروج پر ہے اگر چہ کیفیت وکمیت میں ضرور فرق ہے کہ قدیم زمانے میں ایک شخص دوسرے کا غلام وکنیز ہوا کرتا تھا لیکن اس دور میں تمام انسان مادیات اور خواہشات کے غلام بن چکے ہیں لہٰذا قدیم زمانے کی غلامی دور حاضر کی غلامی سے بہترہے کیونکہ قدیم زمانے میں اس کا مالک اور مولیٰ بھی ایک انسان تھا جب کہ ہمارے دور میں ہمارا مولیٰ اور مالک پیسہ اور دیگر مادیات بن گئے ہیں کہ یہ انسان کے لیے بہت خطرناک مسئلہ ہے کیونکہ حقیقت میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان فقط خدا کا بندہ ہے نہ مادیات اور دیگر لوازمات کا چونکہ انسان کے علاوہ باقی ساری چیزیں انسان ہی کےلئے خلق کئی گئی ہیں اسی لئے پیغمبر اکرم )ص(نے فرمایا :

'' ان العبد اذا تخلی بسیدہ فی جوف اللیل المظلم وناجاہ آشبت اللہ النور فی قبلہ ثم یقول جلّ جلالہ الملائکۃ یا ملائکتی النظروا الی عبدی فقد تخلی فی جوف اللیل المظلم والبا طلون لاہون والغافلون نیام الشہدوا انی قد غفرت لہ ۔

جب کوئی بندہ اپنے آقا کو نصف شب کے وقت کہ جس وقت ہرطرف تاریک ہی تاریک ہے پکارتا ہے اور راز ونیاز کیا کرتا ہے تو خدا وند اس کے دل کو نور سے منور کردیتا ہے اور پھر فرشتوں سے کہتا ہے کہ اے میرے سچے ماننے والے فرشتو! میرے اس بندے کی طرف دیکھو جو رات کی تاریکی میں میری عبادت میں مشغول ہیں حالانکہ مجھے نہ ماننے والے لوگ کھیل وکود میں مصروف اور میرے ماننے والے غافل خواب غفلت میں غرق ہیں لہٰذا تم گواہ رہو کہ میں اس کے تمام گناہوں کو معاف کردیا۔

تحلیل وتفسیر:

اس حدیث میں کئی مطالب توضیح طلب ہیں ایک یہ ہے کہ خدا فرشتوں سے اپنے بند کے کردارپر فخر کررہا ہے کہ جس کی وضاحت کے لئے ایک مقدمہ ضروری ہے کہ وہ مقدمہ یہ ہے کہ جب کسی موضوع پر بندہ اور آقا کے درمیان گفتگو ہوتی ہے تو آقا کی نظر میں بندہ کے کردار وگفتار کے حوالے سے تین حالتیں قابل تصور ہیں:

١) بندہ کے کردار سے مولا خوش ہوجاتا ہے .

٢)مولی اس کے کردار وگفتار سے ناراض ہوجاتا ہے ۔

٣)مولیٰ کو اس کے کردار وگفتار سے نہ خوشی ہوتی نہ ناراضگی ۔

پیغمبر اکرم )ص( نے اس حدیث میں غلام کے اس کردار کا تذکرہ فرمایا ہے کہ جس سے آقا خوش ہوجاتا ہے مثلا ایک ایسا کام جو انسان کی نظر میں انجام دینا مثکل ہو لیکن خدا کی نظر میں اسے انجام دینا امستحب ہو اسے انجام دینے سے مولا خو ش ہوجاتا ہے جیسے نماز شب جس کو انجام دینے سے خدا فرشتوں کے سامنے ناز اور فخر کرتا ہے جب کہ فرشتے کائنات کی خلقت سے لیکر قیامت تک اللہ کے تابع کل ہیں ۔

دوسرا مطلب جو قابل دقت اور توضیح طلب ہے وہ یہ ہے کہ خدا فرشتوں کو اس شخص کے گناہوں کی معافی پر گواہ بنایا ہے جس کا لازمہ یہاں پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسکی کیا وجہ ہے ؟ شاید اس کی علت یہ ہوکہ خدا کی نظر میں امین ترین مخلوق فرشتے ہیںلہٰذا اس نے وحی کو ہمیشہ جبرئیل کے ذریعہ انبیاء تک پہنچا دیا کیونکہ فرشتے عمل کے حوالے سے کبھی غفلت وفراموشی کاشکار اور اپنی خواہشات کے تابع ہونے کا احتمال نہیں ہے لہٰذا خدا نے اس مسئلہ پر فرشتوں کو گواہ بنایا تاکہ اپنے بندوں کو زیادہ سے زیادہ اطمینان دلاسکے پس اس روایت سے بخوبی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ فرشتوں پر ناز کرنے کا سبب نماز شب کی آدائیگی ہے اورخدا کی خوشنودی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ بھی ہے ۔

٥۔نماز شب پڑھنے والا فرشتوں کاامام

''قال رسول اللہ من رزق صلوۃ اللیل من عبد او امۃ قام للہ عزوجل مخلصا فتوضیاوضوئً سابغاً وصلی اللہ عزوجل بنیۃ صادقۃ وقلب سیلم وبدن خاشع وعین دامعۃ جعل اللہ تبارک وتعالی سبعۃ صفوف من الملائیۃ فی کل صف مالایحصی عدد ہم الا اللہ تبارک تعالی احد طرفی فی صف باالمشرق والاخر بالمغرب قال فاذا فرغ کتب لہ بعد دہم درجات ''(١)

اگر کسی (مرد یا عورت ) غلام یا کنیز کو نماز شب انجام دینے کی توفیق حاصل ہو اور وہ خدا کی خاطر اخلاص کے ساتھ نیند سے اٹھ کر وضو کرے پھر سچی نیت، اطمان قلب بدن میں خضوع وخشوع اور اشک بار انکھوں کے ساتھ نمازشب انجام دے تو خدا وند تبارک وتعالی اس کے پیچھے فرشتوں کی سات صفوں کومقرر فرماتا 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١)امالی صدوق ص ٢٣٠.

ہے کہ ان صفوں میں سے ہر ایک صف کاایک سرا مشرق اور دوسرا سرا مغرب تک پھیلا ہوا ہوگا کہ جس کی تعداد سوائے خدا کے کوئی اور شمار نہیں کرسکتا اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ جب وہ نماز سے فارغ ہوجائے توخدا ان فرشتوں کی تعداد کے مطابق اس کے درجات میں اضافہ فرماتا ہے 

تحلیل وتفسیر حدیث :

اسلام میں امام جماعت کا منصب بہت ہی سنگین اور باارزش منصب ہے کہ جس پر فائز ہونے کی خاطر برسوں سال تز کیہ نفس کرنا اور دینی مسائل اور معارف اسلامی حاصل ہونے کی خاطر ہزاروں زحمات اور مشقتیںاٹھا نے اور خواہشات نفسانیہ کے خلاف جہاد کرنا پڑتا ہے پھر اس مقام کا لائق ہوجاتا ہے۔

اسی لئے پیغمبر اکرم )ص(نے خواہشات نفسانی اور تمیلات سے جنگ کرنے کو جہاد اکبر سے تعبیر فرمایا ہے جب کہ میدان کا رزار میں جاکر دشمنوں سے مقابلہ کرنے کو جہاد اصغر سے تعبیر کیا ہے لہٰذا کوئی شخص ان مراحل کو طے کرے تو امام جماعت کے منصب کا لائق ہوسکتا ہے کیونکہ امام جماعت کے شرائط میں سے اہم ترین شرط عدالت ہے اور عدالت ان مراحل کے طے کئے بغیر ناممکن ہے کہ یہی اس منصب کی اہمیت کو ثابت کرنے میں کافی ہے اگر چہ آج کل زمانے کے بدلنے سے امام جماعت کے منصب کو ایک معمولی منصب سمجھ کر ہر کس وناکس اس کے شرئط کو نظر انداز کرکے اس عظیم منصب پرقابض نظر آتا ہے یہاں تک کہ بعض جگہوں پر سفارش کے ذریعہ امام جماعت معین ہو جاتا ہے .

اور دوسری طرف بہت دکھ کی بات یہ ہے کہ آج کل ہمارے معاشرے میں امام جماعت جیسا عظیم مقام پر فائز ہونے والے افراد کو ذلت وحقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے جب کہ اس کی عظمت اسلام میں کسی سے مخفی نہیں ہے شاید اسکی دو وجہ ہوسکتی ہے .

١) ذاتی دشمنی کی بناء پر اس سے نفرت کی جاتی ہے یعنی امام جماعت عدالت اور ایمانداری سے اپنی ذمہ داری انجام دیتا ہے لیکن کچھ منفعت پر ست افراد اپنا الہ کار بنانا چاہتے تھے جن کے کہنے میں نہ آنے پر اسے برا بھلا کہنا شروع کردیتے ہیں اور بعض غلط باتیں اسے منسوب کرتے ہیں کیونکہ امام جما عت ان کے منافع اور خواہشات کے منافی ہے۔

٢) دوسری وجہ شاید یہ ہو کہ خود امام جماعت میں عیب ہے یعنی امام جماعت تندکیہ نفس کے مراحل کو طے اور خواہشات نفسانیہ کے میدان میں کامیابی حاصل کئے بغیر اس منصب پرفائز ہے حقیقت میںوہ خدا کی نظر میں اس منصب کے لائق نہیں ہے اس کے باوجود سفارش اور اثروروسوخ کے ذریعہ اس منصب پر قابض ہوجاتا ہے نتیجہ آیات اور احادیث بتانے کے باوجود لوگوں پر اس کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہوتا کیونکہ آیات واحادیث کے آثر ہونے میں بیان کرنے والے کا تذکیہ نفس کے مراحل کو طے کرنا شرط ہے جب کہ اس میں یہ شرط نہیں پائی جاتی اسی لئے لوگوں کی نظر میں روز بروز حقیر اور ذلیل ہوتا ہے وگرنہ خدا وندمتعال صاف لفظوں میں فرماچکا ہے :

( ان تنصر اللہ ینصرکم فاذ کرونی اذکرکم۔)

تب بھی توپیغمبر اکرم )ص(نے اس حدیث میں فرشتوں کے امام جماعت کی شرائط کا تذکرہ فرمایا جس کے مطابق ہر نماز شب پڑھنے والے شخص کے پیچھے فرشتے اقتداء نہیں کرتے بلکہ فرشتوں کی اقتداء کرنے کے لیے امام جماعت میں درج ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے ۔

١) اخلاص کے ساتھ نیند سے جاگنا چنانچہ اس شرط کی طرف یوں اشارہ فرمایا کہ .

''قام ﷲ عزوجل مخلصا .''

٢) کامل وضوء کے ساتھ ہو یعنی عام عادی وضو نہ ہو بلکہ ایسا وضو ہوکہ شرائط صحت کے علاوہ شرائط کمالیہ پربھی مشتمل ہو اور کسی بھی نقص وعیب سے خالی ہو چنانچہ اس شرط کی طرف یوں اشارہ فرمایا:فتوضا وضوء سابقا 

٣) نماز کو سچی نیت کے ساتھ شروع کیا جانا چاہے یعنی دینوی فوائد اور آخروی نتائج کی خاطر اور خوف ورجاء کی خاطر نہ ہو بلکہ فقط خداوند کریم کو لائق عبادت سمجھ کر شروع کرنا چاہے کہ اس مطلب کو یوں بیان فرمایا :وصلی للہ عزوجل بنیۃ صادقۃ .چنانچہ یہ اولیاء اللہ اور ائمہ اطہار کی سیرت بھی ہے جضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے ۔

٤)ا ضطراب قلبی اور وسوسہ شیطانی دل میں نہ ہو کہ جسکی طرف یوں اشارہ فرمایا ہے ۔و قلب سلیم 

٥) بدن میں خشوع وخضوع ہو یعنی پورے اعضاء وجوارح کی حالت اس غلام کی طرح ہو جو اپنے مولی کے حقیقی تابع ہے اور اس کے حضور میں نہایت ادب واحترام اور انکساری کے ساتھ حاضر ہوتا ہے اس مطلب کی طرف یوں اشارہ فرمایا وبدن خاشع۔ 

٦) آنکھیں اشکبار ہوںکہ جس کی طرف یوں اشارہ فرمایا:

وعین دامعۃ۔

ان تمام شرائط کے ساتھ نماز شب انجام دینے والا خوش نصیب شخص فرشتوں کا امام بن سکتا ہے اور خدا کی نظر میں وہ شخص محبوب تریں افراد میں شمار کیا جاتا ہے جو اس خاکی بشر کے لئے بہت بڑا اعزاز ہے اور نماز شب کی اہمیت پر بہترین دلیل بھی ۔

٦۔نماز شب باعث خوشنودی خداوند

پیغمبر اکرم )ص( نے فرمایا :

''وثلاثۃ یحبھم اللہ ویضحک الھیم ویستبشر بھم الذی اذا انکشف فیئۃ قاتل وراتھم نفسہ للہ عزوجل فاما یقتل واما ینصرہ اللہ تعالیٰ ویکفیہ فیقول انظر واالی عبدی کیف صبرلی نفسہ والذی لہ امراۃحسنا ء وفراش لین حسن فیقوم من الیل فیذر شہوتہ فیذ کرنی ویناجینی ولوشاء رقد والذی اذا کان فی سفر معہ رکب فسہروا وسعتبوا ثم ہجعوا فقام من السحر فی السراء والضرائ۔''(١)

پیغمبر اکرم )ص(نے فرمایا کہ خدا وند تین قسم کے لوگوں سے محبت کرتا ہے اور ان سے خوش ہوجاتا ہے جن میں سے پہلا وہ شخص ہے جو راہ خدا میں اللہ کے دوشمنوں سے اس طرح جنگ کرتے کہ یا جام شہادت نوش کرتا ہے یا خدا کی طرف سے فتح ونصرت آجاتی اور وہ زندہ رہے جاتا ہے اس وقت خدا فرماتا ہے تم میرے اس بندہ کی طرف دیکھیں کہ اس نے میری خاطر کس قدر صبر اور استقامت سے کام لیا۔

(دوسرا) وہ شخص ہے کہ جس کی خوبصورت بیوی ہو اور آرام سکون کے ساتھ نرم وگرم بستر سے لطف انداز ہو اور جس طرح کا آرام وسکون کرنا چاہتے توکرسکتا تھا لیکن ان لذتوں اور خواہشات نفس کو چھوڑکر رات کے وقت اللہ کی عبادت کی خاطر اٹھ جاتے اور اللہ سے رازونیاز کرے ۔

(تیسرا )وہ شخص ہے جو مسافر ہے لیکن اپنے ہم سفر ساتھیوں کو رات کی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١)الدرامنثور ج٢/ ٣٨٣ .

عدم خوابی اور تھکاوٹوں کی شدت کے موقع پر ان کو سلاتے اور خود (عشق الٰہی )میں اس طرح غرق ہوجاتا ہے کہ خوشی اورسختی کی حالت میں بھی سحر کے وقت اٹھاکر خدا کی عبادت کو فراموش نہیں کرتا ۔

تحلیل وتفسیر :

اس حدیث میں پیغمبر اکرم )ص( نے انسانوں کے تین طریقوں سے خداوند کے خوش ہونے کا تذکرہ فرمایا ہے لہٰذاخلا صہ کے طورپر کہا جائے تو حدیث مجاہدین کی عظمت کو بیان کرتی ہے اورمجاہدین کے دو قسمیں ہیں خارجی دوشمنوں سے لڑنے والا مجاہد ۔

٢)اور اندارونی دشمنوں سے لڑنے والا مجاہد۔

دونوںقسموں کی تعریف قرآن وسنت میں آچکی ہے اور بیرونی دوشمنوں سے لڑنے والا مجاہدین کے خود اپنی جگہ دوقسمیں ہے .

١) امام اور نبی کے اذن سے ان کے ہمراہ دوشمنوں سے مقابلہ کرنے والے جس کو فقہی اصطلاح میں مجاہدکہا جاتا ہے اور اس جنگ کو جہاد کہلاتے ہیں ہے کہ جس کا مصداق عصر غیبت میں منتفی ہے کیونکہ اکثر مجتہدین اور فقہاء عصر غیبت میں جہاد ابتدائی واجب نہ ہونے کے قائل ہیں لہٰذا عصرغیبت میں ایسے مجاہد کے مصداق بھی منتفی ہیں۔

٢) دوسرا مجاہد وہ شخص ہے جو عصر غیبت میں اسلام اور مسلمین اور اسلامی سرزمین اور ناموس کی خاطر جنگ کرتے جس جنگ کو قرآن وسنت اور فقہی اصطلاح میں وفاع کہا جاتا ہے کہ اس کے واجب ہونے کے بارے میں مجتہدین اور صاحب نظر حضرات کے مابین کوئی اختلاف نہیںہے اور جہاد کی طرح یہ بھی واجب ہے اور لڑنے والے کو مجاہد کہا جاتاہے ۔

٣)تیسرا مجاہد وہ شخص ہے جو داخلی دشمنوں سے لڑتے اس داخلی جنگ کو جہاد اکبر کہا جاتا ہے اور لڑے والے کو مجاہد جبکہ اسلحہ لے کر بیرونی دشمنوں سے جنگ کرنے کو جہاد اصغر سے تعبیر گیا ہے یعنی خواہشات اور نفس امارہ سے لڑنے والے افراد کو پیغمبر اکرم )ص( نے مجاہدین اکبر فرمایا ہے کیونکہ اگر انسان کو داخلی دشمنوں پرفتح حاصل ہو تو مولیٰ حقیقی کی پرستش اور اطاعت آسانی سے کرسکتا ہے لہٰذا اگر تزکیہ نفس کرچکا ہو یعنی داخلی دشمنوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوا ہو تو راحت کی نیند چھوڑکر اور سفر کے سختیوں کو برداشت کرکے بھی نماز شب کو فراموش نہیںکرتا کہ اس حدیث میں ایسے ہی مجاہدین کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسے افراد کے ساتھ خدا روز قیامت پیار ومحبت اور خندہ پیشانی سے پیش آئے گا اور یہ حقیقت میں خدا کی طرف سے بہت بڑا مقام اور عظیم مرتبہ ہے لہٰذا نماز شب کو فراموش نہ کیجئے کیونکہ نماز شب میں دنیوی اور ابدی زندگی کی کامیابیاں مضمر ہے اور انجام دینے والے مجاہد ہیں جو اس خاکی زندگی میں بڑااعزازہے۔

''قال الامام علی ثلاثۃ یضحک اللہ الھیم یوم القیامۃ رجل یکون علی فراشیہ وہویحبھا فیتوضاء ویدخل المسجد فیصلی ویناجی ربہ'' (١)

حضرت امام علی علیہ السلام نے فرمایا کہ خدا روز قیامت تین قسم کے انسانوں کے ساتھ خندہ پشیمانی سے پیش آئے گا کہ ان میں سے ایک وہ شخص ہے جواپنی بیوی کے ساتھ بستر پر محبت کی لذت سے لطف اندوز ہو لیکن آپس کے پیارے ومحبت کو عشق الٰہی پر فدا کرتے ہوئے وضو کرتے اور مسجد میں جاکر اپنے پروردگار کے ساتھ راز ونیاز میں مشغول ہوجاتے اور نماز شب ادا کرتے ۔

توضح وتفسیر روایت :

آج دنیا میں اگر کوئی شخص نمازی ہو اور احکام اسلام کا پابند ہو تو بعض غیر اسلامی ذہانیت کے حامل کچھ افراد خیال کرتے ہیں کہ یہ شخص بہت بے وقوف ہے کیونکہ یہ مادی لذتوں سے اپنے آپ کو محروم کررکھا ہے چونکہ انکی نظر میں اسلامی رسم ورواج اور احکام کے مطابق عمل کرنا اپنے آپ کو نعمتوں سے محروم کرکے بدبختی سے دوچار کرنے اور زندان میں بند کر نے کا مترادف ہے جب کہ حقیقت میں یہ ان کا اسلام سے ناآ شنا ہونے کی دلیل ہے کیونکہ تعلیمات اسلامی کبھی بھی مادی لذت سے محروم رہنے اوردیگر مادیات سے استفادہ نہ کرنے کا حکم نہیں دیا ہے لہٰذا اس قسم کی باتوں کا اسلام کی طرف نسبت دینا ناانصافی ہے کیونکہ نظام

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(١) الاختصاص ص ١٨٨ .

اسلام انسان کو انسانی زندگی گزارنے کی ترغیب اور حیوانوں کی طرح زندگی کرنے سے منع کرتا ہے کہ جس کے نتیجے میں حیوانوں کے زمرے میں زندگی گذارنے والے افراد نظام اسلام کو سلب آزادی اور خواہشات کے منافی سمجھتے ہیں لہٰذا اس روایت میں ایسی خام خیالی کا جواب دیتے ہوئے فرمایا، اگر کسی وقت مادی لذت اور معنوی اور روحی لذتوں کا آپس میں ٹکراؤہو یا دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ عشق انسانی عشق خدا کے ساتھ ٹکراجائے تو عشق الٰہی کو عشق انسانی پر مقدم کیا جائے کہ جس کے نتیجہ میں خدا وند ابدی زندگی میں خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آئے گا لہٰذا نمازی اور اسلام کے اصولوں کی پابندرہنے والے کسی مادی لذت سے محروم نہیں ہے بلکہ حقیقت میں اگر کوئی شخص آدھا گھنٹہ کے ارام کو چھوڑدے اور نماز شب انجام دے تو خدا قیامت کے دن اس کے بدلے میں دائمی لذت عطا فرمائے گا لہٰذا اس مختصر وقت کی مادی لذت کا قیامت کی دائمی لذت کے حصول کی خاطر ترک کرنا لذت مادی سے محروم نہیں ہے ۔

٧۔نماز شب پڑھنے کا ثواب

انسان روز مرہ زندگی میں جو کام انجام دیتا ہے وہ دوطرح کا ہے۔

١۔ نیک ۔

٢۔ بد ۔

نیک عمل کو قرآن وسنت میں عمل صالح سے یادکیا گیا ہے جب کہ بداوربرُے اعمال کو غیر صالح اور گناہ سے یاد کیا گیا ہے مندرجہ زیل روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر عمل صالح کا نتیجہ ثواب ہے اورہر بُرے اعمال کا نتیجہ عقاب ہے لیکن ثواب اور عقاب کا استحقاق اور کمیت وکیفیت کے بارے میں محققین اور مجتہدین کے مابین اختلاف نظر ہے علم اصول اور علم کلام میں تفصیلی بحث کی گئی ہیں اس کا خلاصہ ذکر کیا جاتا ہے ۔

ثواب وعقاب کے بارے میں تین نظرئیے ہیں:

١) ثواب وعقاب اور جزاء وعذاب جعل شرعی ہے۔

٢)عقاب وثواب جعل عقلائی ہے ۔

٣) دونوں عقلی ہے یہ بحث مفصل اور مشکل ترین مباحث میںسے ایک ہے۔

جس کا اس مختصر کتاب میں نقدوبررسی کی گنجائش نہیں ہے فقط اشارہ کے طور پر ثواب وعقاب کے بارے میں استاد محترم حضرت آیت اللہ العظمی وحید خراسانی کا نظریہ قابل توجہ ہے کہ آپ نے درس اصول کے خارج میں فرمایا کہ ثواب وعقاب کا استحقاق عقلی ہے لیکن ثواب وعقاب کا اہدٰی اور اعطا امر شرعی ہے یعنی اگر کوئی شخص کسی نیک کام کو انجام دے تو عقلا عمل کرنے والا مستحق ثواب ہے اسی طرح اگر کوئی شخص کسی برے کام کا مرتکب ہو تو عقاب وسزا کا عقلا مستحق ہے لیکن ان کا اہدی کرنا اور دنیا امر شرعی ہے یعنی اگر مولٰی دنیا چاہے تو دے سکتا ہے نہ دنیا چاہے تو مطالبہ کرنے کا حق نہیں ہے کیونکہ عبد کسی چیز کا مالک نہیں ہے لہٰذا ثواب وعقاب کا مطالبہ کرنے کا حق بھی نہیں رکھتا ہے پس ثواب وعقاب ہر نیک اور بد عمل کا نتیجہ ہے کہ جس کی طرف حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نے یوں اشارہ فرمایا ہے :

''مامن عمل حسن یعملہ العبد الا ولہ ثواب فی القرآن الاصلوۃ اللیل فان اللہ لم یبین ثوابھا لعظیم خطرھا عندہ فقال تتجا فاجنوبھم عن المضاجع فلا تعلم نفس ما اخفی لھم من قرۃ اعین جزاء بما کا نو یکسبون۔'' (٣)

یعنی ہر نیک کام جیسے بندہ انجام دیتا ہے تو اس کا ثواب بھی قرآن میں مقرر کیا گیا ہے مگر نماز شب کا ثواب اتنازیادہ ہے کہ جس کی وجہ سے قرآن میں اس کا ثواب مقرر نہیں ہوا ہے (لہٰذا )خدا نے (نماز شب کے بارے میں ) فرمایا کہ تتجافا جنوبھم عن المضاجع یعنی نماز شب پرھنے والے اپنے پہلوں کو رات کے وقت بستروں سے دور کیا کرتے ہیں اور اس طرح فرمایا :فلا تعلم نفس ما اخفی من قرۃ عین بما کا نو ایکسبون یعنی اگر کوئی شخص نماز شب انجام دے تو اس کا مقام اور ثواب مخفی ہے اسے وہ نہیں جانتے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(٣)بحارج ٨ ص٣٨٢ .

توضیح وتفسیر

توضیح اس حدیث شریف میں فرمایا کہ ہر نیک کام کرنے کے نتیجہ میں ثواب ہے اور ان کا تذکرہ بھی قرآن میں کیا گیا ہے صرف نماز شب کے ثواب کو قرآن میں مقرر نہیں کیا گیا ہے اس کی علت یہ ہے کہ اس کا ثواب اتنا زیادہ ہے کہ جیسے خالق نے پردہ راز میں رکھا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز شب تمام مشکلات کو دور کرنے کا ذریعہ کامیابی کا بہترین وسیلہ اور سعادت دنیا وآخرت کے لیے مفید ہے لہٰذا خدا سے ہماری دعا ہے کہ ہم سب اس نعمت سے مالامال ہوں پس مذکورہ آیات وروایات سے نماز شب کی اہمیت اور عظمت قرآن وسنت کی روشنی میں واضح ہوگئی


source : http://www.ahl-ul-bayt.org
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

بنت علی حضرت زینب سلام اللہ علیہا ، ایک مثالی ...
مسجد اقصی اور گنبد صخرہ
اخلاق ،قرآن کی روشنی میں
قرآن کو نوک نیزہ پر بلند کرنے کی سیاست
آخري سفير حق و حقيقت
معصومین كی نظر میں نامطلوب دوست
قیام حسین اور درس شجاعت
دین اور اسلام
انسانی تربیت کی اہمیت اور آداب
خواہشیں ! احادیث اہلبیت کی روشنی میں

 
user comment