اردو
Friday 26th of April 2024
1
نفر 0

اھل بیت علیھم السلام ، مركز حق ھیں

الْحَقُ مَعَنٰا فَلَنْ یُوحِشَنٰا مَنْ قَعَدَ عَنّٰا، وَ نَحْنُ صَنٰائِعُ رَبِّنٰا، وَالْخَلْقُ بَعْدُ صَنٰائِعُنٰا

”حق، ھم اھل بیت (علیھم السلام) كے ساتھ ھے، كچھ لوگوں كا ھم سے جدا ھونا ھمارے لئے وحشت كا سبب نھیں ھے، كیونكہ ھم پروردگار كے تربیت یافتہ ھیں، اور دوسری تمام مخلوق ھماری تربیت یافتہ ھیں“۔

شرح

اس حدیث مبارك كو شیخ طوسی علیہ الرحمہ نے معتبر سند كے ساتھ ابوعمرو عمری سے امام مھدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) سے نقل كیا ھے۔ امام علیہ السلام نے حدیث كے اس فقرہ میں تین نكات كی طرف اشارہ فرمایا ھے:

1۔ مكمل حق و حقیقت، اھل بیت علیھم السلام كے ساتھ ھے۔

توجہ رھے كہ ”الحقّ معنا“كا جملہ ”اٴھل البیت مع الحق“ كے جملہ سےلگ ھے؛ كیونكہ پھلے جملہ كا مفھوم یہ ھے كہ اھل بیت علیھم السلام حق و باطل كے تشخص كا بنیادی معیار ھیں، اور حق و باطل كی ایك دوسرے سے پہچان كے لئے اھل بیت علیھم السلام كی سیرت و كردار كی طرف رجوع كیا جائے، برخلاف دوسرے جملہ كے، (كیونكہ دوسرے جملہ كے معنی یہ ھیں كہ اھل بیت علیھم السلام حق كے ساتھ ھیں) اور یھی (پھلے) معنی حدیث ”علیّ مع الحقّ والحق مع علیّ“8 سے بھی حاصل ھوتے ھیں۔

2۔ جس كے ساتھ حق ھو تو اسے دوسروں كی روگردانی اور اپنی تنھائی سے خوف زدہ نھیں ھونا چاہئے، اور اپنے ساتھیوں كی كم تعداد یا كثیر تعداد پر توجہ نھیں كرنی چاہئے۔

 

شرح حدیث 1 - 10

حدیث نمبر 1: اھل بیت علیھم السلام ، مركز حق ھیں

<الْحَقُ مَعَنٰا فَلَنْ یُوحِشَنٰا مَنْ قَعَدَ عَنّٰا، وَ نَحْنُ صَنٰائِعُ رَبِّنٰا، وَالْخَلْقُ بَعْدُ صَنٰائِعُنٰا> 7

”حق، ھم اھل بیت (علیھم السلام) كے ساتھ ھے، كچھ لوگوں كا ھم سے جدا ھونا ھمارے لئے وحشت كا سبب نھیں ھے، كیونكہ ھم پروردگار كے تربیت یافتہ ھیں، اور دوسری تمام مخلوق ھماری تربیت یافتہ ھیں“۔

شرح

اس حدیث مبارك كو شیخ طوسی علیہ الرحمہ نے معتبر سند كے ساتھ ابوعمرو عمری سے امام مھدی (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) سے نقل كیا ھے۔ امام علیہ السلام نے حدیث كے اس فقرہ میں تین نكات كی طرف اشارہ فرمایا ھے:

1۔ مكمل حق و حقیقت، اھل بیت علیھم السلام كے ساتھ ھے۔

توجہ رھے كہ ”الحقّ معنا“كا جملہ ”اٴھل البیت مع الحق“ كے جملہ سےلگ ھے؛ كیونكہ پھلے جملہ كا مفھوم یہ ھے كہ اھل بیت علیھم السلام حق و باطل كے تشخص كا بنیادی معیار ھیں، اور حق و باطل كی ایك دوسرے سے پہچان كے لئے اھل بیت علیھم السلام كی سیرت و كردار كی طرف رجوع كیا جائے، برخلاف دوسرے جملہ كے، (كیونكہ دوسرے جملہ كے معنی یہ ھیں كہ اھل بیت علیھم السلام حق كے ساتھ ھیں) اور یھی (پھلے) معنی حدیث ”علیّ مع الحقّ والحق مع علیّ“8 سے بھی حاصل ھوتے ھیں۔

2۔ جس كے ساتھ حق ھو تو اسے دوسروں كی روگردانی اور اپنی تنھائی سے خوف زدہ نھیں ھونا چاہئے، اور اپنے ساتھیوں كی كم تعداد یا كثیر تعداد پر توجہ نھیں كرنی چاہئے۔

حضرت امام موسیٰ كاظم علیہ السلام نے ھشام سے فرمایا:

”اے ھشام! اگر تمھارے ھاتھ میں اخروٹ ھو اور سب لوگ یہ كھیں كہ تمھارے ھاتھ میں درّ ھے تو اس كا كوئی فائدہ نھیں ھے؛ كیونكہ تم جانتے ھو كہ تمھارے ھاتھ میں اخروٹ ھے، اور اگر تمھارے ھاتھ میں درّ ھو اور لوگ كھیں كہ تمھارے ھاتھ میں اخروٹ ھے تو اس میں تمھارا كوئی نقصان نھیں ھے؛ كیونكہ تم جانتے ھو كہ تمھارے ھاتھ میں درّ ھے“۔9

اسی طرح حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:

”راہ (حق و) ھدایت میں لوگوں كی كم تعداد سے نہ گھبراؤ۔ “10

3۔ اس حدیث كے تیسرے جملہ میں جو چیز بیان ھوئی ھے اس كی مختلف تفسیریں بیان كی گئی ھیں جن كو یكجا جمع كرنے میں كوئی مضائقہ نھیں ھے، ھم ذیل میں ان كی طرف اشارہ كرتے ھیں:

الف۔ بے شك اھل بیت علیھم السلام عقائد اور دینی اعمال میں لوگوں كے محتاج نھیں ھیں، اور جو كچھ خداوندعالم كی طرف سے رسول اكرم (ص) پر نازل ھوا ھے وہ ان حضرات كے لئے كافی ھے، جبكہ امت ان تمام چیزوں میں اھل بیت علیھم السلام كی محتاج ھے، اور صرف قرآن و سنت ان كے لئے كافی نھیں ھے، نیز اھل بیت علیھم السلام كی طرف رجوع كئے بغیر امت گمراہ اور ھلاك ھے۔

ب۔ اھل بیت علیھم السلام پر خدا وندعالم كی نعمتیں براہ راست او ربغیر كسی واسطہ كے نازل ھوتی ھیں، اور جب خداوندعالم دوسرے لوگوں پر اپنی نعمتیں نازل كرتا ھے تو وہ اھل بیت علیھم السلام كے واسطہ كے بغیر نھیں ھوتیں۔

حدیث نمبر2 : امام زمانہ(ع) زمین والوں كے لئے امان ھیں

<اِنّی لَاٴَمٰانُ لِاٴَہْلِ الْاٴَرْضِ كَمٰا اَٴنَّ النُّجُومَ اٴَمٰانُ لِاٴَہْلِ السَّمٰاءِ> 11

”بے شك میں اھل زمین كے لئے امن و سلامتی ھوں، جیسا كہ ستارے آسمان والوں كے لئے امان كا باعث ھیں“۔

شرح

یہ كلام حضرت امام مھدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف كے اس جواب كا ایك حصہ ھے جس كو امام علیہ السلام نے اسحاق بن یعقوب كے جواب میں لكھا ھے، اسحاق نے اس خط میں امام علیہ السلام سے غیبت كی وجہ كے بارے میں سوال كیا تھا۔ امام علیہ السلام نے غیبت كی علت بیان كرنے كے بعد اس نكتہ كی طرف اشارہ فرمایا كہ غیبت كے زمانہ میں امام كا وجود بے فائدہ نھیں ھے، وجود امام كے فوائد میں سے ایك ادنیٰ فائدہ یہ ھے كہ امام زمین والوں كے لئے باعث امن و امان ھیں، جیسا كہ ستارے آسمان والوں كے لئے امن و سلامتی كا ذریعہ ھوتے ھیں۔ دوسری صحیح روایات میں اسی مضمون كی طرف اشارہ ھوا ھے۔ جیسا كہ اُن روایات میں بیان ھوا ھے: اگر زمین پر حجت (خدا) نہ ھو تو زمین اور اس پر بسنے والے مضطرب اور تباہ و برباد ھوجائیں۔

امام زمانہ علیہ السلام كو اھل زمین كے لئے امن و امان سے اس طرح تشبیہ دینا جس طرح ستارے اھل آسمان كے لئے امن و امان ھوتے ھیں؛ اس سلسلہ میں شباہت كی چند چیزیں پائی جاتی ھیں جن میں سے دو چیزوں كی طرف اشارہ كیا جاتا ھے:

1۔ جس طرح تخلیقی لحاظ سے ستاروں كا وجود اور ان كو ان كی جگھوں پر ركھنے كی حالت اور كیفیت، تمام كرّات، سیارات اور كھكشاوٴں كے لئے امن و امان اور آرام كا سبب ھے، زمین والوں كے لئے امام زمانہ علیہ السلام كا وجود بھی اسی طرح ھے۔

2۔ جس طرح ستاروں كے ذریعہ شیاطین آسمانوں سے بھگائے گئے ھیں اور اھل آسمان منجملہ ملائكہ كے امان و آرام كا سامان فراھم ھوا ھے اسی طرح حضرت امام زمانہ علیہ السلام كا وجود، تخلیقی اور تشریعی لحاظ سے اھل زمین سے، مخصوصاً انسانوں سے شیطان كو دور بھگانے كا سبب ھے۔

حدیث نمبر3 : فلسفہٴ امامت اور صفات امام

<اٴَحْییٰ بِہِمْ دینَہُ، َواَٴتَمَّ بِہِمْ نُورَہُ، وَجَعَلَ بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ إِخْوٰانِہِمْ وَبَنِي عَمِّہِمْ َوالْاٴَدْنَیْنَ فَالْاٴَدْنَیْنَ مِنْ ذَوي اٴَرْحٰامِہِمْ فُرْقٰاناً بَیِّناً یُعْرَفُ بِہِ الْحُجَّةُ مَنِ الْمَحْجُوجِ، وَالاِْمٰامُ مِنَ الْمَاٴمُومِ، بِاٴَنْ عَصَمَہُمْ مِنَ الذُّنُوبِ، وَ بَرَّاٴَہُمْ مِنَ الْعُیُوبِ، وَ طَہَّرَہُمْ مِنَ الدَّنَسِ، َونَزَّہَہُمْ مِنَ اللَّبْسِ، وَجَعَلَہُمْ خُزّٰانَ عِلْمِہِ، وَ مُسْتَوْدَعَ حِكْمَتِہِ، وَمَوْضِعَ سِرِّہِ، وَ اٴَیَّدَہُمْ بِالدَّلاٰئِلِ، وَلَوْلاٰ ذٰلِكَ لَكٰانَ النّٰاسُ عَلیٰ سَوٰاءٍ، وَ لَاِدَّعیٰ اٴَمْرَ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ كُلُّ اٴَحَدٍ، وَ لَمٰا عُرِفَ الْحَقُ مِنَ الْبٰاطِلِ، وَ لاٰ الْعٰالِمُ مِنَ الْجٰاہِلِ۔ > 12

”اوصیائے (الٰھی) وہ افراد ھیں جن كے ذریعہ خداوندعالم اپنے دین كو زندہ ركھتا ھے، ان كے ذریعہ اپنے نور كو مكمل طور پر نشر كرتا ھے، خداوندعالم نے ان كے اور ان كے (حقیقی) بھائیوں، چچا زاد (بھائیوں) اور دیگر رشتہ داروں كے درمیان واضح فرق ركھا ھے كہ جس كے ذریعہ حجت اور غیر حجت نیز امام اور ماموم كے درمیان پہچان ھوجائے۔ اور وہ واضح فرق یہ ھے كہ اوصیائے الٰھی كو خداوندعالم گناھوں سے محفوظ ركھتا ھے اور ان كو ھر عیب سے منزہ، برائیوں سے پاك اور خطاؤں سے دور ركھتا ھے، خداوندعالم نے ان كو علم و حكمت كا خزانہ دار اور اپنے اسرار كا رازدار قرار دیا ھے اور دلیلوں كے ذریعہ ان كی تائید كرتا ھے۔ اگر یہ نہ ھوتے تو پھر تمام لوگ ایك جیسے ھوجاتے، اور كوئی بھی امامت كا دعویٰ كر بیٹھتا، اس صورت میں حق و باطل اور عالم و جاھل میں تمیز نہ ھوپاتی“۔

شرح

یہ كلمات امام مھدی علیہ السلام نے احمد بن اسحاق كے خط كے جواب میں تحریر كئے ھیں، امام علیہ السلام چند نكات كی طرف اشارہ كرنے كے بعد امام اور امامت كی حقیقت اور شان كو بیان كرتے ھوئے امام كی چند خصوصیات بیان فرماتے ھیں، تاكہ ان كے ذریعہ حقیقی امام اور امامت كا جھوٹا دعویٰ كرنے والوں كے درمیان تمیز ھوسكے:

1۔ امام كے ذریعہ خدا كا دین زندہ ھوتا ھے؛ كیونكہ امام ھی اختلافات، فتنوں اور شبھات كے موقع پر حق كو باطل سے الگ كرتا ھے اور لوگوں كو حقیقی دین كی طرف ھدایت كرتا ھے۔

2۔ نور خدا جو رسول خدا (ص) سے شروع ھوتا ھے، امام كے ذریعہ تمام اور كامل ھوتا ھے۔

3۔ خداوندعالم نے پیغمبر اكرم (ص) كی ذرّیت میں امام كی پہچان كے لئے كچھ خاص صفات معین كئے ھیں، تاكہ لوگ امامت كے سلسلہ میں غلط فھمی كا شكار نہ ھوں، مخصوصاً اس موقع پر جب ذرّیت رسول كے بعض افراد امامت كا جھوٹا دعویٰ كریں۔ ان میں سے بعض خصوصیات كچھ اس طرح ھیں: گناھوں كے مقابلہ میں عصمت، عیوب سے پاكیزگی، برائیوں سے مبرّااور خطا و لغزش سے پاكیزگی وغیرہ، اگر یہ خصوصیات نہ ھوتے تو پھر ھركس و ناكس امامت كا دعویٰ كردیتا، اور پھر حق و باطل میں كوئی فرق نہ ھوتا، جس كے نتیجہ میں دین الٰھی پوری دنیا پر حاكم نہ ھوتا۔

حدیث نمبر 4: فلسفہٴ امامت

<اٴَوَ مٰا رَاٴَیْتُمْ كَیْفَ جَعَلَ اللهُ لَكُمْ مَعٰاقِلَ تَاٴوُونَ إِلَیْہٰا، وَ اٴَعْلاٰماً تَہْتَدُونَ بِہٰا مِنْ لَدُنْ آدَمَ (علیہ السلام) ۔ > 13

”كیا تم نے نھیںدیكھا كہ خداوندعالم نے كس طرح تمھارے لئے پناہ گاھیں قرار دی ھیں تاكہ ان میں پناہ حاصل كرو، اور ایسی نشانیاں قرار دی ھیں جن كے ذریعہ ھدایت حاصل كرو، حضرت آدم علیہ السلام كے زمانہ سے آج تك“۔

شرح

یہ تحریر اس توقیع 14 كا ایك حصہ ھے جس كو ابن ابی غانم قزوینی اور بعض شیعوں كے درمیان ھونے والے اختلاف كی وجہ سے امام علیہ السلام نے تحریر فرمایا ھے، ابن ابی غانم كا عقیدہ یہ تھا كہ حضرت امام حسن عسكری علیہ السلام نے كسی كو اپنا جانشین مقرر نھیں كیاھے، اور سلسلہٴ امامت آپ ھی پر ختم ھوگیا ھے۔ شیعوں كی ایك جماعت نے حضرت امام مھدی علیہ السلام كو خط لكھا جس میں واقعہ كی تفصیل لكھی، جس كے جواب میں حضرت امام زمانہ علیہ السلام كی طرف سے ایك خط آیا، مذكورہ حدیث اسی خط كا ایك حصہ ھے۔

امام زمانہ علیہ السلام امامت، وصایت اور جانشینی میں شك و تردید سے دوری كرنے كے سلسلہ میں بہت زیادہ سفارش كرنے كے بعد فرماتے ھیں: وصایت كا سلسلہ ھمیشہ تاریخ كے مسلم اصول میں رھا ھے، اور جب تك انسان موجود ھے زمین حجت الٰھی سے خالی نھیں ھوگی، امام علیہ السلام نے مزید فرمایا:

”تاریخ كو دیكھو! كیا تم نے كسی ایسے زمانہ كو دیكھا ھے جو حجت خدا سے خالی ھو، اور اب تم اس سلسلہ میں اختلاف كرتے ھو“؟!

امام علیہ السلام نے حدیث كے اس سلسلہ میں امامت كے دو فائدے شمار كئے ھیں:

1۔ امام، مشكلات اور پریشانیوں كے عالم میں ملجا و ماویٰ اور پناہ گاہ ھوتا ھے۔

2۔ امام،لوگوں كو دین خدا كی طرف ھدایت كرتا ھے۔

كیونكہ امام معصوم علیہ السلام نہ صرف یہ كہ لوگوں كو دین اور شریعت الٰھی كی طرف ھدایت كرتے ھیں بلكہ مادّی اور دنیوی مسائل میں ان ی مختلف پریشانیوں كو بھی دور كرتے ھیں۔

حدیث نمبر5 : علم امام كی قسمیں

<عِلْمُنٰا عَلیٰ ثَلاٰثَہِ اٴَوْجُہٍ: مٰاضٍ وَغٰابِرٍ وَحٰادِثٍ، اٴَمَّا الْمٰاضِي فَتَفْسیرٌ، وَ اٴَمَّا الْغٰابِرُ فَموْ قُوفٌ، وَ اٴَمَّا الْحٰادِثُفَقَذْفٌ في الْقُلُوبِ، وَ نَقْرُ في الْاٴَسْمٰاعِ، وَہُوَ اٴَفْضَلُ عِلْمِنٰا، وَ لاٰ نَبيَّ بَعْدَ نَبِیِّنٰا> 15

”ھم (اھل بیت) كے علم كی تین قسمیں ھوتی ھیں: گزشتہ كا علم، آئندہ كا علم اور حادث كا علم۔ گزشتہ كا علم تفسیر ھوتا ھے، آئندہ كا علم موقوف ھوتا ھے اور حادث كا علم دلوں میں بھرا جاتا اور كانوں میں زمزمہ ھوتا ھے۔ علم كا یہ حصہ ھمارا بہترین علم ھے اور ھمارے پیغمبر (ص) كے بعد كوئی دوسرا رسول نھیں آئے گا“۔

شرح

یہ الفاظ امام زمانہ علیہ السلام كے اس جواب كا ایك حصہ ھیں جس میں علی بن محمد سمری (علیہ الرحمہ) نے علم امام كے متعلق سوال كیا تھا۔

علامہ مجلسی علیہ الرحمہ كتاب ”مرآة العقول“ میں ان تینوں علم كے سلسلہ میں فرماتے ھیں:

”علم ماضی سے وہ علم مراد ھے جس كو پیغمبر اكرم (ص) نے اپنے اھل بیت علیھم السلام سے بیان كیا ھے؛ نیز یہ علم ان علوم پر مشتمل ھے جو گزشتہ انبیاء علیھم السلام اور گزشتہ امتوں كے واقعات كے بارے میں ھیں اور جو حوادثات ان كے لئے پیش آئے ھیں اور كائنات كی خلقت كی ابتداء اور گزشتہ چیزوں كی شروعات كے بارے میں ھیں۔

علم ”غابر“ سے مراد آئندہ پیش آنے والے واقعات ھیں؛ كیونكہ غابر كے معنی ”باقی“ كے ھیں، غابر سے مراد وہ یقینی خبریں ھیں جو كائنات كے مستقبل سے متعلق ھیں، اسی وجہ سے امام علیہ السلام نے اس كو ”موقوفہ“ كے عنوان سے یاد كیا ھے جو علوم كائنات كے مستقبل سے تعلق ركھتے ھیں وہ اھل بیت علیھم السلام سے مخصوص ھیں، موقوف یعنی ”مخصوص“۔

”علم حادث“ سے مراد وہ علم ھے جو موجودات اور حالات كے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ھے، یا مجمل چیزوں كی تفصیل مراد ھے۔ ۔ ۔ ”قَذْفُ في الْقُلُوبِ“، سے خداوندعالم كی طرف سے عطا ھونے والا وہ الھام مراد ھے جو كسی فرشتہ كے بغیر حاصل ھوا ھو۔

”نَقْرُ في الْاٴَسْمٰاعِ“، سے وہ الٰھی الھام مراد ھے جو كسی فرشتہ كے ذریعہ حاصل ھوا ھو۔

تیسری قسم كی افضلیت كی دلیل یہ ھے كہ الھام (چاھے بالواسطہ ھو یا بلا واسطہ) اھل بیت علیھم السلام سے مخصوص ھے۔

الٰھی الھام كی دعا كے بعد ممكن ھے كوئی انسان (ائمہ علیھم السلام كے بارے میں) نبی ھونے كا گمان كرے، اسی وجہ سے امام زمانہ علیہ السلام نے آخر میں اس نكتہ كی طرف اشارہ فرمایا ھے كہ پیغمبر اكرم(ص) كے بعد كوئی پیغمبر نھیں آئے گا“۔ 16

حدیث نمبر 6: امام كا دائمی وجود

<اٴَنَّ الْاٴَرْضَ لاٰ تَخْلُو مِنْ حُجَّةٍ ،إِمّٰا ظٰاہِراً وَ إِمّٰا مَغْمُوراً> 17

”بے شك زمین كبھی بھی حجت خدا سے خالی نھیں رھے گی، چاھے وہ حجت ظاھر ھو یا پردہٴ غیب میں“۔

شرح

یہ حدیث امام مھدی علیہ السلام كی اس توقیع كا ایك حصہ ھے جو آپ نے عثمان بن سعید عمری اور ان كے فرزند محمد كے لئے تحریر فرمائی ھے۔ امام علیہ السلام بہت زیادہ تاكیدوں كے بعد ایك مطلب كی طرف اشارہ كرتے ھوئے فرماتے ھیں: روئے زمین پر ھمیشہ حجت خدا كا ھونا ضروری ھے اور كبھی بھی كسی ایسے لمحہ كا تصور نھیں كیا جاسكتا جو امام معصوم كے وجود سے خالی ھو۔

انسان اور دیگر موجودات كے لئے امام كی ضرورت بالكل اسی طرح ھے جیسے پیغمبر اكرم (ص) كی ضرورت ھے۔ معصوم شخصیت كی ضرورت (چاھے پیغمبر ھوں یا امام) مختلف نظریات سے قابل تحقیق ھے۔ ان میں سے ایك یہ ھے كہ خدا كی طرف سے قوانین كا ھونا اور اس كی تفسیر معصوم كے ذریعہ ھونا ضروری ھے۔ علم كلام كی كتابوں میں عقلی دلائل كے ساتھ یہ بات ثابت ھوچكی ھے كہ انسان كو اپنی دنیوی زندگی كی بھلائی اور آخرت میں سعادت و كامیابی حاصل كرنے كے لئے رسول كی ضرورت ھے، انسان كے لئے دین اور اس كی صحیح تفسیر كی ضرورت جاودانی ھے۔ پیغمبر اسلام(ص) دین اسلام كو خدا كے آخری دین كے عنوان سے لے كر آئے اور آپ نے تمام احكام و مسائل كو واضح كیا ۔ پیغمبر اكرم (ص) كی وفات كے بعد كے زمانہ كے لئے بھی انھیں عقلی دلائل كے ذریعہ ایسی شخصیات كا ھونا ضروری ھے جو علم اور عصمت وغیرہ میں پیغمبر اكرم (ص) كے مثل ھوں۔ اور ایسی شخصیتیں ائمہ معصومین علیھم السلام كے علاوہ كوئی نھیں ھیں۔

امام زمانہ علیہ السلام اس اھم نكتہ كی طرف اشارہ كرتے ھیں كہ اس وجہ سے كہ لوگ حق كو قبول كرنے میں سستی اور كم توجھی كا شكار ھیں، ایسا نھیں ھے كہ تمام ائمہ (علیھم السلام) حكومت تك پھنچ جائیں یا لوگوں كے درمیان حاضر رھیں، جیسا كہ گزشتہ انبیاء اور اوصیائے الٰھی حكومت تك نھیں پھنچ پائے ھیں اور ان میں سے بعض حضرات ایك مدت تك غیبت كی زندگی بسر كرتے رھے ھیں۔

حدیث نمبر 7: مشیت الٰھی اور رضائے اھل بیت علیھم السلام

<قُلُوبُنٰا اٴَوعِیَةٌ لِمَشِیَّةِ اللهُ، فاِذَا شَاءَ اللهُ شِئنَا، وَاللهُ یَقُولُ: <وَ مٰا تْشٰاوٴُونَ إِلّا اٴَنْ یَشٰاءَ اللهُ> 18 19

”ھمارے دل مشیت الٰھی كے لئے ظرف ھیں، اگر خداوندعالم كسی چیز كا ارادہ كرے اور اس كو چاھے تو ھم بھی اسی چیز كا ارادہ كرتے ھیں اور اسی كو چاہتے ھیں۔ كیونكہ خداوندعالم كا ارشاد ھے: ”تم نھیں چاہتے مگر وھی چیز جس كا خدا ارادہ كرے“۔

شرح

امام زمانہ علیہ السلام اس كلام میں ”مقصِّرہ“20 و ”مفوِّضہ“ 21 كی تردیدكرتے ھوئے كامل بن ابراھیم سے خطاب فرماتے ھیں:

”وہ لوگ جھوٹ كہتے ھیں، بلكہ ھمارے دل رضائے الٰھی كے ظرف ھیں، جو وہ چاہتا ھے ھم بھی وھی چاہتے ھیں، اور ھم رضائے الٰھی كے مقابل مستقل طور پر كوئی ارادہ نھیں كرتے“۔

حضرت امام موسیٰ كاظم علیہ السلام نے ایك حدیث كے ضمن میں بیان فرمایا ھے:

”بے شك خداوندعالم نے ائمہ (علیھم السلام) كے دلوں كو اپنے ارادہ كا راستہ قرار دیا ھے؛ پس جب بھی خداوندعالم كسی چیز كا ارادہ كرے، ائمہ بھی اسی چیز كا ارادہ كرتے ھیں، اور یہ خداوندعالم كا فرمان ھے : ”تم نھیں چاہتے مگر وھی جس كا خداوندعالم ارادہ كرے“۔22

امام مھدی علیہ السلام كی اس حدیث سے متعدد نكات معلوم ھوتے ھیں جن میں سے چند نكات كی طرف ذیل میں اشارہ كیا جاتا ھے:

1۔ دل، خداوندعالم یا شیطان كے ارادوں كا ظرف ھوتا ھے۔

2۔ ائمہ علیھم السلام معصوم ھیں؛ كیونكہ ان حضرات كا ارادہ وھی خداوندعالم كا ارادہ ھوتا ھے، اور جن كی ذات ایسی ھو تو ایسی ذات ھی صاحب عصمت ھوتی ھے۔

3۔ اھل بیت علیھم السلام كا ارادہ خداوندعالم كے ارادہ پر مقدم نھیں ھوتا، نیز خدا كے ارادہ سے موٴخر بھی نھیں ھوتا۔ لہٰذا اھل بیت علیھم السلام كی بنسبت ھمارا رویہ بھی اسی طرح ھونا چاہئے۔

4۔ جب تك خداوندعالم كسی چیز كا ارادہ نہ كرلے اھل بیت علیھم السلام بھی اس چیز كا ارادہ نھیں كرتے۔

حدیث نمبر 8: نماز كے ذریعہ شیطان سے دوری

<مٰا اٴَرْغَمَ اٴَنْفَ الشَّیْطٰانِ اٴَفْضَلُ مِنَ الصَّلاٰةِ، فَصَلِّہٰا وَاٴَرْغِمْ اٴَنْفَ الشَّیْطٰانِ>23

”نماز كی طرح كوئی بھی چیز شیطان كی ناك كو زمین پر نھیں رگڑتی، لہٰذا نماز پڑھو اور شیطان كی ناك زمین پر رگڑ دو“۔

شرح

یہ كلام امام زمانہ علیہ السلام نے ابوالحسن جعفر بن محمد اسدی كے سوالات كے جواب میں ارشاد فرمایا۔ اس حدیث سے معلوم ھوتا ھے كہ زمین پر شیطان كی ناك رگڑنے (یعنی شیطان بر غلبہ حاصل كرنے) كے لئے بہت سے اسباب پائے جاتے ھیں جس میں سب سے اھم سبب نماز ھے؛ كیونكہ نماز مخلوق سے بے توجہ اور خداوندعالم كی طرف مكمل توجہ اور اس كی یاد و ذكر كا نام ھے جیسا كہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے:

<اٴَقِمْ الصَّلاَةَ لِذِكْرِى>24

”میرے ذكر كے لئے نماز قائم كرو“۔

وہ نماز جو ایسی ھو كہ انسان كو فحشاء اور برائیوں سے روكتی ھو، جس كے نتیجہ میں انسان ھوائے نفس اور شیطان پر غالب ھوجاتا ھے۔

حدیث نمبر 9: اول وقت نماز پڑھنا

<مَلْعُونُ مَلْعُونُ مَنْ اٴَخَّرَ الْغَدٰاةَ إِلیٰ اٴَنْ تَنْقَضيِ الْنُجُومْ>25

”معلون ھے ملعون ھے وہ شخص جو نماز صبح میں (جان بوجھ كر) اتنی تاخیر كرے جس كی وجہ سے (آسمان كے) ستارے ڈوب جائیں“۔

شرح

یہ حدیث امام مھدی علیہ السلام كی اس توقیع كا ایك حصہ ھے جس كو محمد بن یعقوب كے سوال كے جواب میں تحریر فرمایا ھے۔ امام زمانہ علیہ السلام نے اس توقیع میں اول وقت نماز پڑھنے پر بہت زیادہ تاكید فرمائی ھے، اور جو لوگ نماز صبح كو اجالا ھونے اور ستاروں كے غروب ھونے تك ٹالتے رہتے ھیں، ان پر امام علیہ السلام نے لعنت كی ھے۔

اس حدیث اور دوسری احادیث سے یہ نتیجہ نكلتا ھے كہ نماز كے تین وقت ھوتے ھیں:

1۔ فضیلت كا وقت: فضیلت كا وقت وھی نماز كا اول وقت ھے، جس كو روایات میں ”رضوان اللہ“ (یعنی خوشنودی خدا) سے تعبیر كیا گیا ھے اور یھی نماز كا بہترین وقت ھوتا ھے؛ كیونكہ:

الف) اس وقت میں خداوندعالم كی طرف سے نماز بجالانے كا حكم صادر ھوا ھے اور احكام الٰھی كو جتنی جلدی ممكن ھوسكے انجام دینا مطلوب (اور پسندیدہ) ھے۔

ب) نماز ، در حقیقت ایك محدود موجود اور بالكل محتاج وجود كا لامحدود موجود سے رابطہ اور خدا سے فیضیاب ھونے كا نام ھے، اور یہ انسان كے فائدے كے لئے ھے جس میں جلدی كرنا مطلوب (اور پسندیدہ) ھے۔

ج) امام زمانہ علیہ السلام اول وقت نماز پڑھتے ھیں، اور جو لوگ اس موقع پر نماز پڑھتے ھیں تو خداوندعالم امام زمانہ علیہ السلام كی بركت سے ان كی نماز كو بھی قبول كرلیتا ھے؛ البتہ تمام افق كا اختلاف اس سلسلہ میں اھمیت نھیں ركھتا؛ دوسرے لفظوں میں یہ كھا جائے كہ ایك وقت پر نماز پڑھنا مراد نھیں ھے بلكہ ایك عنوان كے تحت ”یعنی اول وقت نماز ادا كرنا“ مراد ھے، البتہ ھر شخص اپنے افق كے لحاظ سے اول وقت نماز پڑھے۔

2۔ آخرِ وقت: جس كو روایت میں ”غفران اللہ“ (یعنی خدا كی بخشش) سے تعبیر كیا گیا ھے، نماز كے اول وقت سے آخر وقت تك تاخیر كرنے كے سلسلہ میں مذمت وارد ھوئی ھے؛ لہٰذا امام زمانہ علیہ السلام ایسے شخص پر لعنت كرتے ھیں اور اس كو رحمت خدا سے دور جانتے ھیں۔

ایك دوسری روایت میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے بیان ھوا ھے:

”اول وقت پر نماز پڑھنا خوشنودی خدا كا باعث اور آخر وقت میں نماز ادا كرنا ایسا گناہ ھے كہ جسے خداوندعالم معاف كردیتا ھے“۔26

3۔ خارجِ وقت: نماز كا وقت گزرنے كے بعد نماز پڑھنا جس كو اصطلاح میں ”قضا“ كھا جاتا ھے۔ اگر كوئی شخص نماز كو وقت كے اندر نہ پڑھ سكے، تو پھر اس كی قضا بجالانے كا حكم ھوا ھے؛ اور یہ نماز ایك جدید حكم كی بنا پر ھوتی ھے۔ حالانكہ اگر كوئی شخص جان بوجھ كر آخر وقت تك نماز كو ٹالتا رھے تو اس نے خدا كی معصیت كی ھے، اور اس كو اسے توبہ كرنی چاہئے، ورنہ خداوندعالم كے عذاب كا مستحق قرار پائے گا؛ لیكن اگر بھولے سے نماز نھیں پڑھ سكا اور اس میں اس كی كوئی غلطی بھی نہ ھو تو پھر وہ عذاب الٰھی كا مستحق نھیں ھوگا۔

حدیث نمبر 10: سجدہٴ شكر

<سَجْدَةُ الشُّكْرِ مِنْ اٴَلْزَمِ السُّنَنِ وَ اٴَوْجَبِہٰا۔ ۔ ۔ فَإِنَّ فَضْلَ الدُّعٰاءِ وَالتَّسْبِیْحِ بَعْدَ الْفَرٰائِضِ عَلَی الدُّعٰاءِ بِعَقیبِ النَّوٰافِلِ، كَفَضْلِ الْفَرٰائِضِ عَلَی النَّوٰافِلِ، وَ السَّجْدَةُ دُعٰاءُ وَ تَسْبِیحْ>27

”سجدہٴ شكر، مستحبات میں بہت ضروری اور مستحب موٴكد ھے۔ ۔ ۔ بے شك واجب (نمازوں) كے بعد دعا اور تسبیح كی فضیلت، نافلہ نمازوں كے بعد دعاؤں پر ایسے فضیلت ركھتی ھے جس طرح واجب نمازیں، مستحب نمازوں پر فضیلت ركھتی ھیں، اور خود سجدہ، دعا اور تسبیح ھے“۔

شرح

یہ حدیث مبارك امام زمانہ علیہ السلام كے اس جواب كا ایك حصہ ھے جو محمد بن عبد اللہ حمیری نے آپȄ سے سوالات دریافت كئے تھے۔ امام زمانہ علیہ السلام اس حدیث میں ایك مستحب یعنی سجدہٴ شكر كی طرف اشارہ فرماتے ھیں، واجب نمازوں كے بعد دعا و تسبیح كی گفتگو كرتے ھوئے اور نافلہ نمازوں كی نسبت واجب نمازوں كی فضیلت كی طرح قرار دیتے ھیں، نیز سجدہ اور خاك پر پیشانی ركھنے كے ثواب كو دعا و تسبیح كے ثواب كے برابر قرار دیتے ھیں۔

قرآنی آیات اور احادیث كی تحقیق كرنے سے یہ نتیجہ حاصل ھوتا ھے كہ تمام واجبات اور مستحبات برابر نھیں ھیں؛ مثال كے طور پر تمام واجبات میں نماز كی اھمیت سب سے زیادہ ھے؛ كیونكہ دیگر اعمال،نماز كے قبول ھونے پر موقوف ھیں۔ اسی طرح مستحبات كے درمیان (اس حدیث كے مطابق) سجدہٴ شكر كی اھمیت تمام مستحبات سے زیادہ ھے۔ شاید اس كی وجہ یہ ھو كہ سجدہ شكر، نعمتوں میں اضافہ كی كنجی ھے؛ یعنی جب انسان كسی نعمت كو دیكھنے یا پانے پر خدا كا شكر بجالاتا ھے تو اس كی نعمت باقی رہتی ھے اور دیگر نعمتیں نازل ھوتی ھیں۔ یہ نكتہ قرآن مجید میں صاف صاف بیان ھوا ھے۔

< لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَاٴَزِیدَنَّكُمْ>28

”اگر تم میرا شكر كرو گے تو میں (نعمتوں میں) اضافہ كردوں گا“۔

امام مھدی علیہ السلام نے اس حدیث میں چند نكات كی طرف اشارہ فرمایا ھے:

1۔ سجدہٴ شكر كے لئے كوئی خاص زمانہ اور خاص جگہ نھیں ھوتی، لیكن اس حدیث كے پیش نظر واجب اور مستحب نمازوں كے بعد اس كا بہترین موقع ھوتا ھے۔

2۔ سجدہ، انسان كے كمال اور خداوندعالم كے سامنے نھایت خشوع و خضوع كا نام ھے، اس موقع پر انسان خود كو نھیں دیكھتا، اور تمام عظمت و كبریائی كو خداوندعالم سے مخصوص جانتا ھے؛ لہٰذا انسان كی یہ حالت بہترین حالت ھوتی ھے، مخصوصاً جبكہ انسان زبان و دل سے خداوندعالم كا ذكر اور اس كا شكر ادا كرتا ھوا نظر آتا ھے۔

3۔ واجب نمازوں كے بعد دعا اور تسبیح كا ثواب مستحب نمازوں كے بعد دعا او رتسبیح كے ثواب سے بہت زیادہ ھے ، جیسا كہ مستحب نمازوں سے كھیں زیادہ فضیلت واجب نمازوں كی ھے۔

4۔ امام زمانہ علیہ السلام اس فقرہ سے كہ ”سجدہ ، دعا اور تسبیح ھے“، یہ سمجھانا چاہتے ھیں كہ خود سجدہ بھی ایك قسم كی تسبیح اور دعا ھے، جس طرح نماز كے بعد ذكر خدا پسندیدہ عمل اور مستحب ھے اسی طرح سجدہ كرنا بھی مستحب ھے؛ كیونكہ دعا اور تسبیح كا مقصد بھی خداوندعالم كے حضور میں خشوع و خضوع ھے، اس میں كوئی شك نھیں ھے كہ یہ ھدف سجدہ میں كامل اور مكمل طور پر موجود ھے۔

حوالہ جات

7. الغیبة، شیخ طوسی، ص285، ح245؛ احتجاج، ج2، ص278؛ بحار الانوار، ج53، ص178، ح9۔

8. احتجاج، ج 1، ص97، بحار الانور، ج 29، ص243، ح 11۔

9. تحف العقول، ص386؛ بحار الانور، ج75، ص300، ح1۔

10. نهج البلاغہ، حكمت 201 ؛ بحارالانور، ج64، ص158، ح 1 ۔

11. كمال الدین، ج 2، ص 485، ح 10؛ الغیبة، شیخ طوسی، ص292، ح247؛ احتجاج، ج2، ص284؛ اعلام الوری، ج2، ص272، كشف الغمة، ج 3، ص 340، الخرائج والجرائح، ج 3، ص 1115، بحار الانوار، ج 53، ص 181، ح 10۔

12. الغیبة، طوسی، ص 288، ح 246، احتجاج، ج 2، ص 280، بحار الانوار، ج 53، ص 194۔ 195، ح 21۔

13. الغیبة، شیخ طوسی، ص 286، ح 245، احتجاج، ج 2، ص 278، بحار الانوار، ج 53، ص 179، ح 9۔

14. توقیع ، امام زمانہ علیہ السلام كے اس خط كو كھا جاتا ھے جس كو آپ نے كسی كے جواب میں بقلم خود تحریر كیا ھو۔ (مترجم)

15. دلائل الامامة، ص 524، ح 495، مدینة المعاجز، ج 8، ص 105، ح 2720۔

16. دیكھئے: مرآة العقول، ج3، ص 136 تا137۔

17. كمال الدین، ج 2، ص 511، ح 42، الخرائج والجرائح،ج 3، ص 1110، ح26، بحار الانوار، ج 53، ص 191، ح 19۔

20. ”مقصِّرہ“ سے مراد وہ لوگ ھیں جو اھل بیت علیھم السلام كے لئے ولایت الٰھی میں سے كسی شئے كو بالكل نھیں مانتے۔

21. ”مفوِّضہ“سے مسلمانوں كا وہ گروہ مراد ھے جن كا عقیدہ یہ ھے كہ خداوندعالم نے كائنات كو خلق كرنے كے بعد اپنے ارادہ كو ائمہ كے حوالہ كردیا ھے، ائمہ جس طرح چاھیں اس كائنات میں دخل و تصرف كرسكتے ھیں۔

22. تفسیر علی بن ابراھیم، ج2، ص 409، بصائر الدرجات، ص537، ح47، بحار الانوار، ج5، ص114، ح 44۔

23. كمال الدین، ج 2، ص 520، ح 49، فقیہ، ج 1، ص498، ح 1427، تہذیب الاحكام، ج 2، ص 175، ح 155، الاستبصار، ج 1، ص 291، ح 10، الغیبة، طوسی، ص296، ح 250، احتجاج، ج2، ص298، بحار الانوار، ج53، ص 182، ح 11، وسائل الشیعة، ج 4، ص 236، ح 5023۔

24. سورہ طہ، آیت 14۔

25. الغیبة، طوسی، ص 271، ح 236، احتجاج، ج2، ص 298، بحار الانوار، ج52، ص16، ح12، وسائل الشیعة، ج 4، ص201، ح 4919۔

26. من لا یحضرہ الفقیہ، ج 1، ص 217، بحار الانوار، ج79، ص351، ح23۔

27. احتجاج، ج2، ص 308؛ بحار الانوار، ج53، ص161، ح3؛ وسائل الشیعة، ج 6، ص490، ح 8514۔

28. سور ہ ابراھیم، آیت7۔ 

 اقتباس از شرح چھل حدیث امام مھدی (عج)


source : http://ahl-ul-bait.org
1
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اقوال حضرت امام علی علیہ السلام
پیغمبراسلام(ص) کے منبر سے تبرک(برکت) حاصل کرنا
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی سیرت کے بعض ...
حضرت امام محمد مھدی علیہ السلام
مجموعہ ٴ زندگانی چہارہ معصومین( علیہم السلام )
امام حسین (ع) عرش زین سے فرش زمین پر
انبیاء کا امام حسین پر گریہ کرنا
امام حسین علیہ السلام کی ولادت باسعادت مبارک هو
کرامات امام جعفر صادق علیہ السلام
قرآن مجید میں علی (ع) کے فضائل

 
user comment

Lottie
Ah yes, ncliey put, everyone.
پاسخ
0     0
13 مرداد 1390 ساعت 6:54 بعد از ظهر