اردو
Saturday 27th of April 2024
0
نفر 0

اھل بیت علیھم السلام کے سلسلہ میں ایک گرانقدر حدیث

ایک روز حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام نے انصار و مہاجرین کے مجمع میں پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) کا یہ قول نقل کیا کہ خداوندعالم نے فرمایا: میں رحمن ھوں اور اس کی جڑ رحم ھے اور جو رحم کرے میں اس کے ساتھ ھوں اور جو اس سے دور رھے میں بھی اس سے دوری رکھتا ھوں، اور پھر مجمع سے خطاب کرتے ھوئے امام علیہ السلام نے فرمایا: اس روایت کی بنیاد پر خداوندعالم صرف انھیں لوگوں سے رابطہ رکھے گا کہ رحم برقرار رکھیں اور جو لوگ قطع تعلق کریں اس سے کوئی رابطہ نھیں رھے گا، اس کے بعد سوال کیا: کیا تم لوگ جانتے ھو کہ رحم کیا ھے؟

مجمع نے جواب دیا: رحم سے مراد رشتہ دار ھیں، آپ نے فرمایا: اگر تمہارے رشتہ دار کافر ھوں تو کیا ان سے رابطہ رکھنا خدا سے رابطہ رکھنا ھے؟

انھوں نے کہا: اس طرح کے رشتہ اس حکم کے دائرہ سے خارج ھیں، اور صلہ رحم ان سے متعلق نھیں ھے، بلکہ صلہ رحم سے مراد مومن رشتہ دار ھیں۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: مومن رشتہ داروں سے صلہٴ رحم واجب ھے، کس وجہ سے؟ کیا اس وجہ سے نھیں ھے کہ تمام ایک رحم (ماں باپ) کی طرف پلٹتے ھیں؟ انھوں نے کہا: جی ہاں۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: تمہارے ماں باپ نے اس دنیا میں تمہارے ساتھ کیا کیا کہ ان کے ساتھ صلہٴ رحم کرنا واجب ھے؟ انھوں نے کیا کیا کہ یہاں تک کہ اولاد کی اولاد بھی ان کے ساتھ صلہ رحم کریں؟

مجمع نے جواب دیا: آپ ھی فرمائےے، آپ نے فرمایا: تمہارے حق میں دو کام انجام دئے، ایک یہ کہ تمہارے لئے کھانا فراھم کیا، اور دوسرے یہ کہ تمھیں خطروں سے اور پریشانیوں سے بچایا، اس کے بعد فرمایا: یہ دو کام اتنے زیادہ پائیدا ر نھیں تھے کیونکہ تمہارا کھانا اور تمہاری حفاظت ھمیشہ ان کی ذمہ داری نھیں ھے۔

اور پھر سوال کیا: پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) نے تمہارے حق میں کیا کیا؟ کیا ایسا نھیں ھے کہ آنحضرت (ص) نے اپنی ہدایت کے ذریعہ تمھیں ھمیشگی نعمت بہشت سے متصل کردیا، کیا ایسا نھیں ھے کہ ھمیشگی عذاب سے نجات بخشی؟ سب لوگوں نے کہا: جی ہاں۔

امام علی علیہ السلام نے فرمایا: اب تم میرے سوال کا جواب دو کہ پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) کے حق اور ماں باپ کے حق میں کون افضل ھے؟ انھوں نے کہا: یا علی! ھمارے درمیان پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) کا وجود اعظم اور بلند و بالا ھے، اور پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) ماں باپ کے ساتھ قابل موازنہ نھیں ھیں۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: کیا یہ بات صحیح اور درست ھے کہ پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) نے تمھیں تاکید کی کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ صلہ ٴ رحم کرکے ان کا حق ادا کرو جو معمولی انسان ھیں، لیکن کیا اس کے حق کو ادا کرنے کا حکم نہ دیا جس کا حق ان سے کھیں زیادہ عظیم ھے؟ اس کے بعد امام علی علیہ السلام نے یہ نتیجہ  بیان کیا :”فَاِذَا حَقُّ رَسُولِ اللّٰہِ (صلی الله علیه و آله و سلم) اٴعْظَمُ مِنْ حَقِّ الوَالِدَینِ، وَحَقُّ رَحِمِہِ اٴیضاً اٴعْظَمُ مِنْ حَقِّ رَحِمِھِمَا“۔

”اس بنا پر پیغمبر خدا (صلی الله علیه و آله و سلم) کا حق ماں باپ کے حق سے کھیں زیادہ عظیم اور ان کا حق رحم ماں باپ کے حق رحم سے زیادہ اھم ھے۔

اور اس وقت آپ نے فرمایا:”فَالوَیْلُ کُلُّ الوَیلِ لِمَنْ قَطَعَھَا“۔

”پس وائے ھو، ہر طرح کی وائے اس شخص پر جو اپنے رابطہ کو اھل بیت پیغمبر سے قطع کرے“۔

”وَالوَیْلُ کُلُّ الوَیْلِ لِمَنْ لَمْ یُعَظِّمْ حُرْمَتَھٰا“۔

”پس وائے ھو، ہر طرح کی وائے اس شخص پر جو ان کی حرمت ( عظمت) کی رعایت نہ کرے“!

اور پھر مجمع سے خطاب کرتے ھوئے فرمایا: کیا تم لوگ جانتے ھو کہ آل پیغمبر کا احترام خود پیغمبر اکرم(ص) کا احترام ھے اور پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) کا احترام خدا کا احترام ھے۔؟![1]

خاتمہ

اھل بیت عصمت و طہارت علیھم السلام کی مکمل اور جامع معرفت اور شناخت کی انسان وجودی صلاحیت سے مافوق ھے۔

جیسا کہ قرآن مجید کی ہر زمانہ میں ترجمہ اور تفسیر ھوئی ھے، لیکن آنے والی ہر نسل یہ دیکھتی ھے کہ قرآن کریم کی بہت سی باتیں ابھی سامنے نھیں آئیں ھیں اسی طرح اھل بیت علیھم السلام کی معرفت بھی ھے، کیونکہ چودہ صدیوں سے اھل بیت علیھم السلام کے سلسلہ میں کتابیں اور رسالے لکھے گئے ھیں اور ان میں بہت سی باتیں کھی گئی ھیں لیکن پھر بھی یہ دیکھا جاتا ھے کہ ابھی نہ لکھی گئی اور نہ کھی گئی باتیں بہت ھیں اور ان کی کوئی انتہا نھیں ھے۔

اھل بیت علیھم السلام سے منقول روایات کے پیش نظر یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ھے کہ اھل بیت علیھم السلام کی معرفت و شناخت کے مختلف درجے ھیں۔

پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله و سلم) نے فرمایا:

۔”یٰا عَلیُّ! مٰا عَرَفَ اللّٰہَ اِلاّ اٴَنٰا وَاٴَنْتَ، وَمٰا عَرَفَنی اِلاّ اللّٰہُ وَاٴَنْتَ، وَمٰا عَرَفَکَ اِلاّ اللّٰہُ واٴَنٰا“۔[2]

”یا علی! خداوندعالم کو میرے اور تمہارے علاوہ کسی نے نھیں پہچانا، اور مجھے خدا وندعالم اور تمہارے علاوہ کسی نے نھیں پہچانا اور تمھیں خدا اور میرے علاوہ کسی نے نھیں پہچانا“!

دوسری طرف پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) نے فرمایا:

”مَنْ مّٰاتَ وَلاٰ یَعْرِفُ اِمٰامَہُ، مَاتَ مِیَتةً جٰاھِلیَّةً“۔[3]

”جو شخص مرجائے لیکن اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانے اس کی موت جاھلیت کی موت ھے“۔

حضرت رسول اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) ایک طرف امام کی پہچان کے بغیر موت کو جاھلیت کی موت قرار دیتے ھیں اور دوسری طرف اھل بیت علیھم السلام کی معرفت اور شناخت کو بہت مشکل اور خدا و اھل بیت علیھم السلام کی حد تک قرار دیتے ھیں۔

لہٰذا ان روایات سے یہ نتیجہ لیا جاسکتا ھے :

انسان ان ذوات مقدسہ کی معرفت کے سلسلہ میں اپنی وجودی استعداد کے لحاظ سے مختلف ھیں۔

اھل بیت علیھم السلام کی معرفت کے لحاظ سے جناب سلمان فارسی جناب ابوذر کی نسبت فرق رکھتے ھیں اور اھل بیت علیھم السلام کی معرفت میںجناب ابوذر اور جناب مقداد میں فرق ھے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے جد امام علی(ع) بن الحسین(ع) سے روایت کی ھے:

”واللّٰہِ لَوْعَلِمَ اٴَبُوذَرٍ ما فِی قَلْبِ سَلْمٰانَ لَقَتَلَہُ، وَلَقَدْ اَخیٰ رَسُولُ اللّٰہِ (صلی الله علیه و آله و سلم) بَیْنَھُمٰا، فَما ظَنُّکُمْ بِسَائِرِ الْخَلْقِ؟ اِنَّ عِلْمَ الْعُلَماءِ صَعْبٌ مُسْتَصْعَبٌ، لاٰ یَحْتَمِلُہُ اِلاّ نَبِيٌ مُرْسَلٌ اٴَوْمَلَکٌ مُقَرَّبٌ اٴَوْ عَبْدٌ مُوٴْمِنٌ امْتَحَنَ اللّٰہ قَلْبَہُ لِلاِْیمٰانِ، فَقٰالَ: واِنَّمٰا صارَ سَلْمٰانُ مِنَ الْعُلَمٰاءِ، لاٴَنَّہُ امْرُوٴُ مِنّا اٴَھْلَ الْبَیْتِ، فَلِذٰلِکَ نَسَبْتُہُ اِلی الْعُلَمٰاءِ“۔[4]

”خدا کی قسم اگر ابوذر کو سلمان کے دل کی باتوں کا پتہ چل جاتا تو وہ انھیں قتل کردیتے، جب کہ ر سول خدا (صلی الله علیه و آله و سلم) نے ان دونوں کے درمیان عقد اخوت پڑھا تھا، اس صورت میں دوسرے لوگوں کے سلسلہ میں کیا سمجھتے ھو؟ حقیقت میں دانشوروں (ائمہ علیھم السلام) کا علم دشوار اور مشکل ھے! اس کو کوئی برداشت نھیں کرسکتامگر یہ کہ وہ نبی ھو یا ملک مقرب یا وہ مومن بندہ کہ خداوندعالم نے جس کے دل کا ایمان کے ذریعہ امتحان کرلیا ھو، اس کے بعد امام (علیہ السلام) نے فرمایا: اسی وجہ سے صرف جناب سلمان علماء میں سے ھوگئے، کیونکہ وہ ھم اھل بیت میں سے تھے اسی وجہ سے میں نے ان کو علماء کی طرف منسوب کردیا“۔

حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام نے ایک مناسبت سے جناب ابوذر سے فرمایا:

 ”۔۔۔یا اٴبٰاذرٍ!اِنَّ سلمانَ لَوْ حَدَّثَکَ بِمٰا یَعْلَمْ لَقُلْتَ رَحِمَ اللّٰہُ قٰاتِلَ سلمانَ۔۔۔“۔[5]

”اے ابوذر! جو کچھ سلمان جانتے ھیں اگر تمھیں خبر دیں تو تم کہتے کہ خدا قاتل سلمان پر رحمت نازل کرے“!

حضرت امام صادق علیہ السلام نے ایک روایت کے ضمن میں فرمایا:

”ایمان کے دس درجے ھیں اور مقداد ایمان کے آٹھویں درجے پر، ابوذر نویں درجے پر اور سلمان دسویں درجے پر ھیں“۔[6]

 

 

[1] تفسیر الامام العسکری علیہ السلام، ص۳۴، حدیث۱۲؛ بحار الانوار، ج۳۲، ص۲۶۶، باب۱۵، حدیث۱۲؛ مستدر ک الوسائل، ج۱۲، ص۳۷۷، باب۱۷، حدیث۱۴۳۴۰۔

[2] تاویل الآیات الظاہرة، ج۱، ص۱۳۹، حدیث۱۸؛ مشارق الانوار الیقین، ص۱۱۲۔

[3] اصول کافی، ج۲، ص۱۹، باب دعائم الاسلام، حدیث۶؛ وسائل الشیعة، ج۲۸، ص۳۵۳، باب۱۰، حدیث ۳۴۹۵۰؛ بحار الانوار، ج۲۳، ص۸۹، باب۴، حدیث۳۵۔

[4] اصول کافی ج۱، ص۴۰۱، باب فی ما جاء ان حدیثھم صعب مستصعب، حدیث۲؛ بحار الانوار، ج۲۲، ص۳۴۳، باب۱۰، حدیث۵۲۔

[5] بحار الانوار، ج۲۲، ص۳۷۳، باب۱۱، حدیث۱۲۔

[6] ”عن عبد العزیز القراطسی، قال: قال لی ابو عبد الله علیہ السلام : یا عبد العزیز ان الإیمان عشر درجات۔۔۔ و کان المقداد فی الثامنة و اٴبوذر فی التاسعة، و سلمان فی العاشرة“،   الخصال، ج۲، ص۴۴۷، الایمان عشر درجات ، حدیث۴۸ و ۴۹۔

 

 


source : http://www.al-shia.org
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

دربارِ یزید میں بنتِ زہرا کا انقلاب آفریں خطبہ
علم, فرمودات باب العلم حضرت علی{ع}
اقوال حضرت امام علی علیہ السلام
پیغمبراسلام(ص) کے منبر سے تبرک(برکت) حاصل کرنا
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی سیرت کے بعض ...
حضرت امام محمد مھدی علیہ السلام
مجموعہ ٴ زندگانی چہارہ معصومین( علیہم السلام )
امام حسین (ع) عرش زین سے فرش زمین پر
انبیاء کا امام حسین پر گریہ کرنا
امام حسین علیہ السلام کی ولادت باسعادت مبارک هو

 
user comment