اردو
Saturday 27th of April 2024
0
نفر 0

پیغمبر اسلام

تاریخی پس منظر

۵۷۰  ءء میں سرزمین مکہ پر ایک بچہ عالم وجود میں آیا جس کا نام محمد رکھا گیا۔ جناب عبد الله کا یہ بیٹا پاکیزگی وطھارت، صداقت وامانت اور حق و حقیقت پر مبنی ۴۰/ سالہ زندگی گزارنے کے بعد نبوت جیسے الٰھی منصب پر فائز ھوا اور ایک ایسا قانون لے کر آیا جس کوآگے چل کر شریعت محمدی یا اسلام کے نام سے پھچانا گیا۔یھی وہ نقطہٴ آغاز تھا جھاں سے تاریخ بشریت نے ایک نیا موڑ لیا اور ایک عظیم الشان انقلاب رونما ھوگیا۔

حضرت محمد مصطفےٰ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے نبوت پر مبعوث ھونے کے بعد ۱۳/ سال تک مکہ میں لوگوں کو اسلام کی دعوت دی جس کے درمیان آپ نے ھر طرح کی مشکلات و آزار رسانیوں کو بخوشی قبول کیا۔ اس مدت میں آپ نے قابل قدر افراد کی تربیت کی اور پھر اس کے بعد مدینہ کی طرف ھجرت اختیار فرمائی نیز مدینہ کو ھی اپنا مرکز بھی قرار دیا۔ دس برس تک مدینہ میں آزادانہ طور پر تبلیغ و ترویج اسلام کے ساتھ ساتھ بشریت کی بھلائی کے لئے عرب کے مشرکین سے جھاد  اور انکی طرف سے ھونے والے حملوں کا دفاع بھی کرتے رھے۔ یھاں تک کہ سبھی کو اپنی حکومت کے دائرے میں لے آئے۔ دس برس کے بعد سارا جزیرة العرب مسلمان ھوگیا تھا۔ دس سالہ مدنی اور اس سے قبل مکی زندگی میں قرآنی آیات تدریجاً رسول اکرم پرنازل ھوتی رھتی تھیں اور آپ انھیں لوگوں کے سامنے تلاوت کرتے اور واضح کرتے رھتے تھے۔

ان دس برسوں میں نیز اس سے قبل، جوواقعات وحادثات رسول اعظم کو پیش آئے ، وہ سب نھایت تعجب آور، روح کو بالیدگی عطا کرنے والے اور درس دینے والے ھیں۔ اس سلسلے میں مفصل ومبسوط کتابیں لکھی جاچکی ھیں مزید مطالعے کے لئے ان کی طرف رجوع کیا جاسکتا ھے۔

رسول اکرم کی نبوت کا اثبات:

یہ بات گزرچکی ھے کہ دعوائے نبوت کی صداقت کو تین راھوں کے ذریعہ آزمایا جاسکتا ھے۔ رسول اکرم کی نبوت کو تینوں ھی راھوں کے ذریعے ثابت کیا جاسکتا ھے کہ آپ رسول خدا اور اپنے دعوے میں سچے ھیں۔

(۱) قرائن و شواھد

کسی شخص کی زندگی کا گزرا ھوا حصہ اس کے د عوے کے صحیح یا غلط ثابت ھونے کا اطمینان بخش ذریعہ ھے۔ رسول اکرم کی بعثت سے قبل لوگوں کے مابین آپکی۴۰/سالہ حیات طبیہ خود، آپ کی زندگی کے ھر شعبے میں آپ کی صداقت ، طھارت، پاکیزگی، امانت، نیک نفسی پر واضح دلیل ھے۔ آپ کے اوپر لوگ اسقدر اعتماد کرتے تھے کہ آپ کا لقب ھی امین پڑگیا تھا۔ بعثت کے بعد آپ کے دشمن کسی بھی موقع پر آپ کی ذات والا صفات پرلگائے گئے کسی بھی الزام کو ثابت نھیں کرپاتے تھے۔

تاریخ اسلام ،دشمنوں تک سے آپ کے حسن اخلاق، صبر، مروت اور شجاعت نیز دوسری تمام نیک صفات پرگواہ ھے۔ آپ کی ذات ان تمام اعلیٰ صفات کا مجموعہ تھی جو ایک نبی میں پائی جانی چاھئیں۔

دوسری طرف آپ نے کسی مدرسے، مکتب یا لوگوں کے درمیان بھی تعلیم حاصل نھیں کی تھی ۔ اسی جاھل معاشرہ کے درمیان اپنی جوانی کے مراحل طے فرمائے تھے (کتب تاریخی میں جو کچھ درج ھے اس کے مطابق مکہ میں فقط ۱۷/مرد اور ایک عورت لکھنا اور پڑھنا جانتی تھی جبکہ مکہ اس وقت حجاز کا ترقی یافتہ ترین شھر تصور کیا جاتا تھا )۔

 اس کے باوجود آپ بشریت کے لئے ایسے اعلیٰ حقائق بیان فرماتے تھے کہ مسائل خداشناسی، انسان شناسی اور زندگی کی صحیح راہ و روش سے متعلق ، شریت کے بلند ترین افکار میں شمار کئے جاتے ھیں۔ ساتھ ھی ایک ایسی کتاب بھی لے کر آئے کہ ساری تاریخ انسانیت میں جس کی نہ کوئی مثال ھے نہ نظیر۔ جب اس حقیقت کو رسول اکرم کی اپنے معاشرے میںتاثیر، آپ کا اپنے ھدف پر یقین، اپنے ھدف تک پھونچنے کے لئے غلط وسائل کا استعمال نہ کرنا، آپ کے اقوال و تعلیمات میں سرعت اثر اور دوام اثر، ان افراد کی صداقت وپاکیزگی وطھارت نفس جو آپ کے گرویدہ ھوجاتے اور آپ کے پیغامات کو بغور سنتے نیز قبول کرتے تھے، جیسے امور کو یکجا کرتے ھیں تو ذرہ برابر شک وشبہ کی گنجائش باقی نھیں رہ جاتی کہ حضرت محمد بن عبد الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم واقعاً لوگوں کی ھدایت کے لئے خدا کی طرف سے بھیجے گئے تھے۔

(۲) گذشتہ انبیاء کی تائید:

تاریخ کے مطالعے سے اس حقیقت تک دسترسی حاصل کی جاسکتی ھے کہ گذشتہ انبیاء ،رسول اکرم کی بعثت ونبوت کے بارے میں بشارت دے چکے تھے۔ کتب تاریخ کے علاوہ قرآن کریم میں بھی اس سلسلے میں بھت سی آیتیں موجود ھیں:

<واذقال عیسیٰ ابن مریم یابنی اسرائیل انی رسول الله الیکم مصدقاً لما بین یدی من التوراة ومبشراً برسول یاتی من بعدی اسمہ احمد فلما جائھم بالبینات قالوا ھذا سحر مبین>

جب عیسیٰ بن مریم نے کھا کہ اے بنی اسرائیل! میںتمھاری طرف الله کا رسول ھوں میں اپنے پھلے کی کتاب، توریت کی تصدیق کرنے والا اور اپنے بعد کے لئے ایک رسول کی بشارت دینے والا ھوں جس کا نام احمد ھے لیکن پھر بھی جب وہ معجزات لے کر آئے تو لوگوں نے کھہ دیا کہ یہ توکھلا ھوا جادوھے۔(۱)

اھل کتاب کا ایک گروہ آپ کے انتظار میںروز و شب کو شمار کرتا تھا۔ اس گروہ کے پاس آپ کے بارے میں واضح وروشن دلائل و نشانیاں موجود تھیں۔

<الذین یتبعون الرسول النبی الا می الذی یجدونہ مکتوباً عندھم فی التوراة والانجیل>

حتی یہ افراد مشرکین سے کھا کرتے تھے کہ حضرت اسماعیل کے فرزندوں میں کہ عرب کے بعض قبائل جن پر مشتمل تھے، میں سے ایک فرزند، رسول ھوگا جوگذشتہ انبیاء اورتوحیدی ادیان کی تصدیق وتائید کرے گا۔(۲)

<ولما جائھم کتاب من عند الله مصدق لما معھم وکانوا من قبل یستفتحون علی الذین کفروا فلما جائھم ما عرفوا کفروا بہ فلعنة الله علی الکافرین>

اور جب ان کے پاس خدا کی کتاب آئی ھے جو ان کی توریت وغیرہ کی تصدیق بھی کرنے والی ھے اور اس کے پھلے وہ دشمنوں کی مقابلے میں اسی کے ذریعے طلب فتح بھی کرتے تھے لیکن اس کے آتے ھی منکر ھوگئے حالانکہ اسے پھچانتے بھی تھے تو اب کافروں پر خدا کی لعنت ھے۔(۳)

اگرچہ بعض یھودی ونصاریٰ علماء ودانشمنداپنے شیطانی اور نفسانی مفادات کی خاطر دین اسلام کو قبول کرنے سے کتراتے تھے پھر بھی بعض دوسرے یھودی ونصاریٰ علماء دانشمند انھیں پیشن گوئیوں کی بنا پر آنحضرت پر ایمان لے آئے تھے ۔

<واذا سمعوا ما انزل الیٰ الرسول تری اعینھم تفیض من الدمع مما عرفوا من الحق یقولون ربنا آمنا فاکتبنا مع الشاھدین>

اور جب وہ اس کلام کو سنتے ھیں جو رسول پر نازل ھوا ھے تو تم دیکھتے ھو کہ ان کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ھو جاتے ھیں کہ انھوں نے حق کو پھچان لیا ھے اور کھتے ھیں کہ پروردگار ھم ایمان لے آئے ھیں۔ لھٰذا ھمارا نام بھی تصدیق کرنے والوں میں شامل کرلے۔(۴)

قرآن کریم اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ھوا شناخت رسول اکرم کے سلسلے میں فرماتا ھے:

<اولم یکن لھم آیةً ان یعلمہ علماء بنی اسرائیل >

کیا یہ نشانی ان کے لئے کافی نھیں ھے کہ بنی اسرائیل کے علماء بھی اسے جانتے تھے۔(۵)

غور طلب نکتہ یہ ھے کہ اس طرح کی بشارتوں کو موجودہ توریت وانجیل سے غائب کرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود ان کتابوں میںابھی بھی ایسے اشارے پائے جاتے ھیں جو طالبان حق پر اتمام حجت کے لئے کافی ھیں۔ یھی اشارے اور بشارتیں اس بات کا بھی سبب بن گئی ھیں کہ واقعی طور پر حق کی جستجو کرنے والے یھودی وعیسائی علماء ھدایت پائیں اور دین مقدس اسلام کے گرویدہ ھو جائیں۔ ابھی ماضی قریب میں ھی تھران کے ایک بھت بڑے یھودی دانشمند اور کتاب� اقامة الشھود فی رد الیھود �کے مصنف میرزا محمد رضا اور شھریزد کے یھودی دانشمند اور کتاب محضر الشھود فی رد الیھود کے مصنف باباقزوینی یزدی نیز سابق عیسائی پادری اور کتاب محمد در توریت وانجیل کے مصنف پروفیسر عبد الاحد داؤد ایک طویل جستجو اور حصول راہ مستقیم کے بعد دین اسلام کوقبول کرچکے ھیں۔

(۳) معجزہ

پھلے بھی بیان کیا جا چکا ھے کہ اثبات نبوت کے لئے ایک اھم ترین ذریعہ یہ ھے کہ نبوت کا دعویٰ کرنے والا شخص کوئی معجزہ لے کر آئے اور اس طرح خدا سے اپنے مخصوص رابطے کو لوگوں کے سامنے پیش کرے۔

کتب تاریخ و حدیث میں رسول اکرم کے بھت سے معجزے محفوظ ھیں مثلاً دست رسول پر سنگریزوں کا گفتگو کرنا،  جانور کا آپ کی رسالت کی گواھی دنیا ، شق القمر، درخت کا رسول  کی طرف حرکت کرنا اور پھر اپنی جگہ پلٹ جانا ، اور مستقبل میں ھونے والے بھت سے واقعات کے بارے میں پیشن گوئیاں وغیرہ ۔ان معجزات میں سے بھت سے توایسے ھیں جو حدتواتر تک پھونچ چکے ھیں اور جن کا شمار تاریخی مسلمات میں ھوتا ھے۔

ان تمام معجزات میں سب سے اھم، مفید، واضح اور زندہٴ جاوید معجزہ ، قرآن کریم ھے۔

تاریخ میں ایسے بھت سے انبیاء گزرے ھیں جو صاحب کتاب تھے لیکن فقط رسول خدا ایسے نبی ھیں جنھوں نے اپنی کتاب کو بطور معجزہ پیش کیا۔ قرآن مجید جھاں رسول کے ھاتھ میں کتاب ھدایت ھے وھیں آپ کی رسالت کے لئے برھان قاطع اور مستحکم ترین دلیل بھی ھے جس کی متعدد وجوھات ھیں نیزاس میں بے شمار اسرار و رموز پوشیدہ ھیں۔ بطور مثال:

(۱) اسلام ھمیشہ باقی رھنے والا دین ھے، جو ھر زمانہ اور ھر معاشرہ کے لئے آیا ھے لھذا اس کا معجزہ بھی ایسا ھونا چاھئے جو ھمیشہ باقی رھنے والا ھو۔

(۲) رسول اکرم کے اس معجزے کانوع کتاب سے ھونا اس بات کا باعث ھے کہ بشری علم و فنون کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ اس کتاب کے اعجاز کے ایسے نئے نئے پھلو سامنے آئیں جو گذشتہ لوگوں کے لئے کشف وواضح نھیں ھوسکے تھے۔

قرآن مجید کا معجزہ ھونا

قرآن مجیدرسول اکرم کا معجزہ ھے۔ مزید وضاحت کے لئے چند نکات کا ذکر ضروری ھے:

(۱) قرآن مجید بطور عام اور با صراحت اعلان کرتا ھے کہ کسی میں اتنی طاقت وصلاحیت نھیں ھے کہ اس کے جیسی کوئی کتاب لاسکے حتی اگر تمام جن و انس دست بدست ھو کر کوشش کریں تب بھی عھدہ برآنھیں ھوسکتے۔ مکمل قرآن تو بھت بعید ھے دس سورے بلکھ قرآن کے سوروں کی مانند ایک چھوٹا سا سورھ بھی پیش نھیں کرسکتے۔

<قل لئن اجتمعت الانس والجن  علی ان یاتوا بمثل ھذا القرآن لا یاتون بمثلہ>

آپ کھہ دیجئے کہ اگر انسان و جنات سب اس بات پر متفق ھو جائیں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو بھی نھیں لاسکتے (۶)۔

<قل فاٴتوا بعشر سورٍ مثلہ مفتریات وادعوا من استطعتم من دون الله ان کنتم صادقین>

کھہ دیجئے کہ اس کے جیسے دس سورے گڑھ کر تم بھی لے آؤ اور الله کے علاوہ جس کو چاھو اپنی مدد کے لئے بلا لواگر تم اپنی بات میں سچے ھو۔ (۷)

<قل فاتو بسورةٍ مثلہ وادعوا من استطعتم من دون الله ان کنتم صادقین>

کھہ دیجئے تم اس کے جیسا ایک ھی سورہ لے آؤ اورخدا کے علاوہ جس کو چاھو اپنی مدد کے لئے بلا لو اگرتم اپنے الزام میں سچے ھو(۸)۔

(۲) قرآن مجید روز اول ھی سے اپنے مخالفین کو مقابلہ کی دعوت دیتے ھوئے دعویٰ کررھا ھے کہ ان کا اپنی ناتوانی اور عجز کی بنا پر اس کے جیسا کلام نہ لاپانا ھی اس کتاب کے آسمانی اور الٰھی ھونے کی دلیل ھے۔

<وان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فاتوابسورة من مثلہ وادعوا شھدائکم من دون الله ان کنتم صادقین، فان لم تفعلوا ولن تفعلوا فاتقوا النار التی وقودھا الناس والحجارة اعدت للکافرین>

اگر تمھیں اس کلام کے بارے میں کوئی شک ھے جسے ھم نے اپنے بندے پر نازل کیا ھے تو اس کے جیسا ایک ھی سورہ لے آؤاور الله کے علاوہ جتنے تمھارے مددگار ھیں سب کو بلالو اگرتم اپنے دعوے اور خیال میں سچے ھو اور اگر تم ایسا نہ کرسکے اور یقینا نہ کرسکو گے تواس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ھیں(۹)۔

(۳) تاریخ اسلام گواہ ھے کہ بعثت اوردعوت رسول خدا کے اوائل ھی سے دشمنان خارجی وداخلی ھمیشہ اس کوشش میں مشغول رھتے تھے کہ شریعت اسلام اور  نور الٰھی کو ھمیشہ ھمیشہ کے لئے ختم کردیں ۔ اپنی اس کوشش میں وہ کسی قسم کے اقدام سے باز نھیںآتے تھے۔ آج بھی اسلام کو اپنا سب سے بڑادشمن اور اپنی ظالمانہ راہ میں سدباب سمجھنے والی دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں اپنی پوری قوت کے ساتھ اسلام کے ذریعہ لائے گئے عالمی انقلاب کے خاتمے کے لئے اپنا سب کچھ داؤں پر لگائے ھوئے ھیں۔

(4) ابھی تک ایسا کوئی شخص عالم وجود میں نھیں آسکا ھے کہ ادباء اور فصحاء اس کے کلام کو فصاحت وبلاغت کے لحاظ سے قرآن کے مساوی گردانتے ھوں بلکہ حقیقت تو یہ ھے کہ اب تک جس کسی نے بھی اس سلسلے میں کوئی کوشش کی ھے، سوائے رسوائی وذلت کے اس کے ھاتھ کچھ نھیں لگا ھے۔

غرض مذکورہ گفتگو کا لب لباب یہ ھے کہ قرآن ایک معجزہ ھے جو رسول خدا کے ذریعے خدا کی طرف سے نازل کیا گیا ھے۔ لھٰذا حضرت محمد بن عبد الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم جو اس معجزے کو پیش کرنے والے ھیں، اپنے اس دعوے میں سچے اور صادق ھیں کہ آپ رسول خدا ھیں اور آپ وحی کے عنوان سے اپنی زبان مبارک پرجن کلمات کو جاری فرماتے ھیں وہ کلام خدا ھے نیز آپ کی جانب سے کسی بھی قسم کی کوئی تحریف، کمی ،زیادتی یا تغیر و تبدیلی واقع نھیں ھوئی ھے۔

حوالہ

۱:سورہ ٴصف/6

۲: سورہ اعراف/ ۱۵۷

۳:سورہ ٴبقرہ/۸۹

۴:سورہ ٴمائدہ/ ۸۳

۵۔:سورہ ٴشعرا/ ۱۹۷

۶:سورہ ٴاسراء/۸۸

۷؛ سورہ ٴھود/ ۱۳

۸۔:سورہ ٴیونس/ ۳۸

۹۔:سورہ ٴبقرة/ ۲۴، ۲۳

 

 


source : http://www.al-hadj.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

دربارِ یزید میں بنتِ زہرا کا انقلاب آفریں خطبہ
علم, فرمودات باب العلم حضرت علی{ع}
اقوال حضرت امام علی علیہ السلام
پیغمبراسلام(ص) کے منبر سے تبرک(برکت) حاصل کرنا
حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی سیرت کے بعض ...
حضرت امام محمد مھدی علیہ السلام
مجموعہ ٴ زندگانی چہارہ معصومین( علیہم السلام )
امام حسین (ع) عرش زین سے فرش زمین پر
انبیاء کا امام حسین پر گریہ کرنا
امام حسین علیہ السلام کی ولادت باسعادت مبارک هو

 
user comment