اردو
Friday 26th of April 2024
0
نفر 0

قیامت کبریٰ

جاوداں زندگی کا دوسرا مرحلہ قیامت کبریٰ ہے۔ قیامت کبریٰ عالم برزخ کے برعکس جس کا تعلق افراد سے ہے اور ہر فرد موت کے بعد بلافاصلہ عالم برزخ میں داخل ہو جاتا ہے‘ اجتماع سے مربوط ہے‘ یعنی تمام افراد اور تمام عالم سے متعلق ہے‘ یہ ایسا حادثہ ہے‘ جو تمام اشیاء اور تمام انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ یہ ایسا واقعہ ہے‘ جو تمام جہان کے لئے پیش آئے گا‘ سارا جہاں ایک جدید مرحلے‘ ایک جدید زندگی اور ایک جدید نظام میں داخل ہو گا۔

قرآن کریم جس نے ہمیں اس عظیم حادثہ سے آگاہ کیا ہے‘ اس عظیم واقعہ کو ستاروں کے خاموش ہونے‘ سورج کے بے نور ہونے‘ دریاؤں کے خشک ہو جانے‘ بلندیوں‘ ناہمواریوں کے ہموار ہو جانے‘ پہاڑوں کے ریزہ ریزہ ہو جانے‘ زلزلوں اور عالم گیر جھٹکوں‘ تبدیلیوں اور عظیم انقلاب کے ہمراہ قرار دیا ہے۔

 

جاوداں زندگی کا دوسرا مرحلہ قیامت کبریٰ ہے۔ قیامت کبریٰ عالم برزخ کے برعکس جس کا تعلق افراد سے ہے اور ہر فرد موت کے بعد بلافاصلہ عالم برزخ میں داخل ہو جاتا ہے‘ اجتماع سے مربوط ہے‘ یعنی تمام افراد اور تمام عالم سے متعلق ہے‘ یہ ایسا حادثہ ہے‘ جو تمام اشیاء اور تمام انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ یہ ایسا واقعہ ہے‘ جو تمام جہان کے لئے پیش آئے گا‘ سارا جہاں ایک جدید مرحلے‘ ایک جدید زندگی اور ایک جدید نظام میں داخل ہو گا۔

قرآن کریم جس نے ہمیں اس عظیم حادثہ سے آگاہ کیا ہے‘ اس عظیم واقعہ کو ستاروں کے خاموش ہونے‘ سورج کے بے نور ہونے‘ دریاؤں کے خشک ہو جانے‘ بلندیوں‘ ناہمواریوں کے ہموار ہو جانے‘ پہاڑوں کے ریزہ ریزہ ہو جانے‘ زلزلوں اور عالم گیر جھٹکوں‘ تبدیلیوں اور عظیم انقلاب کے ہمراہ قرار دیا ہے۔

قرآن کریم سے جو استفادہ ہوتا ہے‘ وہ یہ ہے کہ تمام عالم تباہی و بربادی کی طرف بڑھ رہا ہے‘ تمام چیزیں نابود ہوں گی اور ایک بار پھر عالم کی تعمیر نو ہو گی۔ نئے سرے سے عالم پیدا ہو گا‘ جس کا نیا نظام اور نئے قوانین ہوں گے‘ آج کے نظام اور قوانین سے بنیادی طور پر مختلف ہوں گے‘ یہ نظام اور قوانین دائمی ہوں گے اور ہمیشہ رہیں گے۔

قرآن کریم میں قیامت کو کئی ناموں اور عنوانات سے یاد کیا گیا ہے‘ ہر نام ایک مخصوص وضع اور اس پر حاکم خصوصی نظام کی نشاندہی کرتا ہے‘ مثلاً اس لحاظ سے کہ تمام اولین و آخرین ایک سطح پر قرار پائیں گے اور ان کے درمیان ترتیب زمانی ختم ہو جائے گی‘ قیامت کو روز حشر‘ روز جمع اور روز تلافی کہا گیا ہے۔

اس لحاظ سے اسے فنا نہیں اور وہ ہمیشہ کے لئے ہے‘ اسے یوم "الخلود" کہا گیا ہے اور اس لحاظ سے کہ بعض انسان سخت حسرت و یاس کی حالت میں ہوں گے اور اپنے نقصان کو محسوس کریں گے کہ کیوں انہوں نے اپنے آپ کو اس مرحلے کے لئے تیار نہیں کیا‘ اس کو یوم "الحسر" اور "یوم التغابن" کہا گیا ہے اور چونکہ یہ بہت بڑی خبر اور عظیم ترین واقعہ ہے‘ اس لئے اس کو نباء عظیم بھی کہا گیا ہے۔

 اقتباس از ابدی زندگی استاد آیۃ اللہ شھید مرتضی مطہری رح


source : http://www.shiastudies.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

مسجد اقصی اور گنبد صخرہ
اخلاق ،قرآن کی روشنی میں
قرآن کو نوک نیزہ پر بلند کرنے کی سیاست
آخري سفير حق و حقيقت
معصومین كی نظر میں نامطلوب دوست
قیام حسین اور درس شجاعت
دین اور اسلام
انسانی تربیت کی اہمیت اور آداب
خواہشیں ! احادیث اہلبیت کی روشنی میں
غدیر کا ھدف امام کا معین کرنا

 
user comment