اردو
Friday 26th of April 2024
0
نفر 0

پیغمبراسلام(ص) کے منبر سے تبرک(برکت) حاصل کرنا

 

صدر اسلام میں مسلمان ،پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بچے ہوئے پانی یا وہ بال جو پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے گرجاتا یا آپ کے لعاب دھن سے تبرک (برکت)حاصل کرتے تھے ۔

سوال:علماء اہل سنت کی نظر میں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے منبر سے تبرک طلب کرنا کیسا ہے؟

جواب-:سمھودی پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے حرم اور روضہ مبارک کے آداب کے بیان میں تحریر کرتے ہیں:

پیغمبر اسلام کے روضہ مبارک اور حرم کے آداب و زیارات میں سے ایک یہ ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے منبر شریف کے قریب آکر اللہ کو پکارے کیونکہ اللہ تعالی نے وہاں تک پہنچنے کی تمام مشکلوں کو آسان کر دیاہے پھر پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) پر درودو سلام پڑھے اور اپنے لئے خدا وند کریم سے نیکیوں کو طلب کرے ونیز اپنے لئے اللہ سے پناہ مانگے جیسا کہ ابن عساکر نے کہا ہے ۔ اس کے بعد اقشھری تحریر کرتے ہیں : میں نے اصحاب رسول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) میں سے کچھ اصحاب کو دیکھاکہ جس وقت وہ مسجد میں داخل ہوئے توانہوں نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی طرح منبر کے ایک حصے کو پکڑا اور قبلہ کا رخ کرکے دعا مانگنی ۔

عیاص نے کتاب الشفاء میں ابی قسیط اورعتبی کے حوالے سے تحریر کیا ہے : اصحاب رسول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )جس وقت مسجد رسو ل میں ہوتے تو وہ قبہ منبر کہ جو قبر مبارک کی سمت میں ہے،اس کو پکڑکر قبلہ رخ ہوکر دعا کرتے تھے (۱) ۔

ابو بکر اثرم کہتے ہیں: میں نے ابو عبد اللہ (احمد بن حنبل ) سے کہا : کیا پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی قبر کو چھونا اور مس کرنا جائز ہے؟ تو انہوں نے جواب میں کہا مجھے نہیں معلو، میں نے کہا: رسول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے منبر کے متعلق کیا کہتے ہیں ؟تو انہوں نے جواب میں کہا کہ ہاں منبر رسول اسلام کے متعلق ایک روایت ہے جس کو ابن ابی فدیک نے ابن ابی ذؤیب سے اورانہوں نے ابن عمر سے نقل کی ہے کہ ابن عمر منبر کو مس کرتے تھے ۔ اور اس مطلب( مس کرنے) کو سعید بن مسیب نے قبہ منبر کے جلنے سے پہلے نقل کیاہے ۔ اور یحیی ابن سعید ،مالک کے استاد سے روایت ہے کہ جب انہوں نے مدینہ سے نکلنے اور عراق جانے کا ارادہ کیا تو منبر رسول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے قریب آئے ، اسکو مس کیا ،پھر دعا کی ، میں نے دیکھا کہ وہ اسکام کو اچھا جانتے تھے (۲) ۔

۲۔کتاب شرح الکبیر کی ایک فصل میں اس طرح ذکر ہوا ہے:

پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کی قبر شریف کی دیوار کو بوسہ دینا اور مسح کرنامستحب نہیں ہے اس کے بعد کہتے ہیں: لیکن منبر رسول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کو چھونے یا مس کرنے کے متعلق روایت موجودہے جس کو ابراھیم بن عبد اللہ بن عبد القاری نے نقل کیا ہے اور اس میں لکھا ہے کہ انہوں نے ابن عمر کو دیکھا کہ منبر پر جس جگہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )بیٹھا کرتے تھے اس پر ابن عمر نے ہاتھ رکھے اور پھرہاتھوں کو اپنے چہرے پر پھیرلئے (۳) ۔

۳۔بھوتی نے بھی اس روایت کو ابن عمر سے نقل کیا ہے (۴) ۔

۴۔شوکانی نے بیان کیاہے : امام احمدبن حنبل سے پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) کے منبر اور قبر کو بوسہ دینے کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس مسئلے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن انکے اصحاب اس مسئلے کو صحیح نہیں جانتے ہیں (۵) ۔

۵۔ اسی طرح ابن حجر سے بھی نقل ہوا ہے (۶) شرح الکبیر میں ابن قدامہ نے اثرم سے نقل کیاہے: ”اما المنبر فقدجاء فیہ ما رواہ ابراھیم بن عبد اللہ بن عبد القاری انہ نظر الی ابن عمر وھو یضیع یدہ علی مقعدہ النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) من المنبر ثم یضعھا علی وجھہ“ پیغمبر اسلام کے منبر کو چھونے یا مس کرنے کے متعلق ابراھیم بن عبد اللہ بن عبد القاری نے روایت بیان کی ہے: انہوں نے ابن عمر کو دیکھا کہ منبر پر جس جگہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم )بیٹھا کرتے تھے اس پر ابن عمر نے ہاتھ رکھے اور پھرہاتھوں کو اپنے چہرے پر پھیرلئے (۸) ۔

۱۔ کتاب وفاء الوفا جلد ۴ص۱۴۰۱۔

۲۔ نفس المصدر۔

۳۔ عبد الرحمن بن قدامہ الشرح الکبیر جلد ۳ص۴۹۶۔

۴۔ اکتشاف القناع جلد ۲ص۶۰۰۔

۵۔ منیل الاوطار جلد ۵ ص۱۱۵۔

۶۔ فتح الباری جلد ۳ ص۴۹۶۔

۷۔ ابن قدامہ الشرح الکبیر جلد ۳ ص۴۹۶۔

۸۔ طاھری خرم آبادی توحید و زیارات ص۱۰۸و۱۱۰۔

پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی قبر مبارک سے تبرک (برکت) طلب کرنا

سوال:کیا پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی قبر مبارک سے تبرک طلب کرنا شرک ہے ؟

جواب:پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے تبرک (برکت) طلب کرنے کے سلسلہ میں سنی ، شیعہ روایات اور تواریخ میں بیان ہوا ہے کہ صدر اسلام میں مسلمان ،پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بچے ہوئے پانی یا وہ بال جو پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے گرجاتایا آپ کے لعاب دھن سے تبرک (برکت)حاصل کرتے تھے ۔

ہم یہاں پر نمونہ نے کے طور پر بعض تبرکات کو بیان کرتے ہیں:

۱۔ عروہ بن مسعود ثقفی حدیبہ والے سال پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے پاس کھڑے ہوئے تھے، اچانک انہوں نے دیکھا کہ اصحاب آپ کے وضو کے بچے ہوئے پانی یا جس پانی سے آپ نے ہاتھ منہ دھویاتھا اس پانی سے تبرک حاصل کرنے کیلئے ایک دوسرے پر سبقت لے رہے ہیں اور نزدیک تھا کہ وہ اس پانی کو حاصل کرنے کیلئے ایک دوسرے کو قتل کردیں اور یہی کام وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے آپ دہان کے سلسلہ میں کرتے تھے اور اگر آپ کا کوئی بال گرجاتا تھا تو اصحاب اس کو فورا اٹھا لیتے تھے (۱) ۔

۲۔بخاری نے باب صفة النبی میں اپنی سند کے ساتھ ابی جحیفہ سے نقل کیاہے : ایک مرتبہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) وادی بطحا (بیابان مکہ) کی طرف جانے کے لئے اپنے بیت الشرف سے نکلے اور نماز کے وقت آپ نے وضو کیا اور دو رکعت نماز ظہر اور دو رکعت نماز عصر بجا لائے پھر وہ بیان کرتے ہیں کہ لوگ آپ کے ہاتھوں کو پکڑکراپنے چہروں پر ملنے لگے ۔راوی کہتا ہے کہ میں نے بھی پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے ہاتھوں کو پکڑکر اپنے چہرہ پر ملنے لگا تو اس وقت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے دست مبارک برف سے زیادہ ٹھنڈے اور مشک سے زیادہ خوشبو دار تھے ۔

بخاری اسی باب کے آخر میں اپنی سند کے ساتھ اسی راوی سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں : بلال، پیغمبر خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے وضو کا بچا ہوا پانی لوگوں کے لئے لائے اور انہوں نے اس پانی کو تبرک (برکت) کے طو ر پر اپنے پاس محفوظ کر لیا ۔

۳۔مسلم کتاب الصلاة میں اپنی سند کے ساتھ ابی جحیفہ سے نقل کرتے ہیں:

میں نے مکہ کے بیابان میں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے ملاقات کی تو بلال آپ کے وضو کا پانی لیکر آئے تو لوگ آپ کی طرف دوڑے بعض لوگوں کو پانی مل گیا اور بعض ایک دوسرے تک اس پانی کی رطوبت پہنچائی اور اس پانی کے قطروں کوان کے اوپر چھڑک دیا۔ مسلم اپنی سند کے ساتھ اسی راوی سے بیان کرتے ہوئے ایک حدیث میں کہتے ہیں : میں نے بلال کو دیکھا کہ وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے وضو کا پانی لیکر آئے تو اصحاب، آپ کی طرف دوڑ ے ، بعض اصحاب کو وضو کا وہ پانی مل گیا اور جن کو نہیں ملا انہوں نے اپنے ہاتھ سے اس پانی کی رطوبت کو دوسرے صحابی کے چہر ہ پر مل دی ۔

نووی کہتے ہیں: اس باب میںیہ بھی ہے کہ صالحین کے آثار سے تبرک حاصل کرنا اوران کے وضو کے باقی بچے ہوئے پانی ، غذا اور انکے پہنے ہوئے لباس کو تبرک کے طور پر حاصل کیا جا سکتا ہے (۳) ۔

اگر پیغمبراسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بچے ہوئے وضو کے پانی سے جو انکے ہاتھوں سے گرا ہے یا ان کے بالوں سے تبرک (برکت) حاصل کرنا جائز ہو اوررسول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے بھی ان کو ایسا کرنے سے منع نہ کیاہو تو پھر بدرجہ اولی ان کی قبر مبارک سے تبرک حاصل کرنا جس میں آپ کا جسم اطہر موجود ہے جائزہے ۔کیونکہ تبرک میں ہر وہ چیز معیار ہے جو آپ کی ذات سے وابسطہ ہے اور وہ آپ کے بدن مبارک سے ملی ہوئی ہوجبسے آپ کا لباس اور اس کے جیسی دوسری چیزیں۔ اور اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ قبر میں آپ کا پورا جسم مبارک موجود ہے تو پھر قبر مبارک سے تبرک حاصل کرنا شرک کیسے ہو سکتا ہے (۴) ۔

۱۔ کتاب سیرة حلبیہ جلد ۳ص۱۵ کشف الارتیاب سے نقل ہو اہے ص۴۴۲و۴۴۳۔

۲۔ صحیح بخاری جلد ۴ ص۲۲۹و۲۱۳۔

۳۔ صحیح مسلم با شرح نووی جلد ۴ص۲۱۸و۲۲۰۔

۴۔ طاہری خرم آبادی توحید و زیارات ص۹۱و۹۳۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی زیارت کے سلسلہ میں اصحاب اور تابعین کی سیرت

سوال:پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی زیارت کے سلسلہ میں اصحاب اور تابعین کی کیا سیرت رہی ہے؟

جواب: علماء اہل سنت کی کتابوں میں بہت سی ایسی روایات ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اصحاب و تابعین کی سیرت عملی یہ تھی کہ وہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی قبر مبارک کی ہمیشہ زیارت کیا کرتے تھے ہم یہاں نمونے کے طور پر بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

۱۔مالک ابن انس عبد اللہ بن دینا رسے نقل کرتے ہیں: ابن عمر ،پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی قبر مبارک کے قریب کھڑے ہوئے کر آپ پر دورو سلام پڑھتے تھے اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر کے لئے دعاکرتے تھے (۱) ۔

۲۔کتاب وفاء الوفا میں ابن عون سے نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نافع سے معلوم کیا: کیا ابن عمر، پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی قبر مبارک پر سلام کرتے تھے ؟تو انہوں نے جواب میں کہا: ہاں میں نے ان کو سو مرتبہ سے زیادہ دیکھا ہے کہ وہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی قبر مبارک پر آتے تھے اور قبر کے نزدیک کھڑے ہوکر اس طرح کہتے تھے : ”السلام علی النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) السلام علی ابی بکر، السلام علی ابی“ (۲) ۔

اورتقریبا اسی مضمون کومحی الدین نووی نے بھی تحریر کیا ہے (۳) ۔

۳۔ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں : جو لوگ شام سے مدینہ کی طرف پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی زیارت کے لئے تشریف لائے ان میں سے ایک حضرت بلال بن ریاح ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے موٴذن تھے جیسا کہ ابن عساکر نے بہترین سند کے ساتھ اس روایت کوابو درداء سے بیان کیا ہے ۔

اس کے بعد وہ حضرت بلال کے شام میں رہنے کا ذکر کرتے ہیں کہ اایک مرتبہ بلال نے خواب میں پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو دیکھا کہ آپ ان سے فرمایا:اے بلال یہ کیسی جفاء ہے جو تم کر رہے ہو کیا تمہارے لئے ابھی تک وہ وقت نہیں آیا کہ تم میری قبر کی زیارت کرو ؟

بلال خواب سے بیدار ہوئے اور بہت غمگین تھے ، آپ اپنی سواری پر سوار ہوئے اور مدینہ کے لئے روانہ ہوگئے، بلال ، پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی قبر مبارک کے قریب آئے اور گریہ کرنے لگے و نیز اپنے چہرے کو رسول اسلام کی قبر مبارک سے ملنے لگے کہ اچانک حسن و حسین تشریف لائے ، بلال نے ان کو اپنی گود میں لے لیا اور ان کو بوسہ دئیے، اس کے بعد حسنین علیہما السلام نے بلال سے کہا : ہمارا دل چاہتا ہے کہ ایک مرتبہ پھر آپ کی اذان سنیں اس کے بعد جناب بلال کی اذان کے واقعہ کو نقل کرتے ہیں(۴) ۔

۴۔فتح شام کے بعد جب حضرت عمر نے اہل بیت(علیہم السلام) سے مصالحت کرلی تو کعب الاحبار، حضرت عمر کے قریب آئے اور اسلام قبو ل کیا ،کعب الاحبار کے اسلام قبول کرنے سے حضرت عمر کو بہت خوشی ہوئی ، حضرت عمر نے اس سے کہا: کیا تم چاہتے ہو کہ مدینہ میں میرے ساتھ سیر و تفریح کو چلو تاکہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی قبر کی زیارت کرو اور ان کی قبر سے بہر و مند ہو جاؤ ؟

کعب الاحبار نے کہا : اے امیر المومنین ! ہاں میں چاہتا ہوں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی زیارت کروں اور جس وقت حضرت عمر داخل مدینہ ہوئے تو انہوں نے سب سے پہلے مسجد رسول میں داخل ہوکر پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر درودو سلام پڑھا (۵) ۔

اس بناء پرجو یہ کہتے ہیں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے مرقد کی زیارت کرنا بدعت ہے کیونکہ غیر خدا کی تعظیم، شرک کا باعث ہے اور حرام ہے ان کی یہ تمام باتیں بے بنیاد ہیں کیونکہ وہ عمل ہر گز بدعت و حرام نہیں ہو سکتا جس کو خود اصحاب اور دیگر تابعین نے انجام دیا ہو (۶) ۔

۱۔ کتاب الموطا جلد ۱ ص۱۶۶۔

۲۔ کتاب وفاء الوفا جلد ۴ ص۱۳۵۸۔

۳۔ مجموع جلد ۸ص۲۷۲۔

۴۔ وفاء الوفا جلد ۴ ص۱۳۵۶۔ اور اسی روایت کی طرف بالکل شوکانی نے ایک روایت کتاب نےل الوطار جلد ۵ص۱۸۰،اور بکری نے کتاب اعانة الطالبین جلد ۱ص۲۲۱ میں نقل کی ہے ۔

۵۔ وفاء الوفاجلد ۴ ص۱۳۵۷۔

۶۔ طاہری خرم آبادی توحید و زیارات ص۷۵و۷۹۔

 

 

 


source : http://www.taghrib.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام حسین (ع) عرش زین سے فرش زمین پر
انبیاء کا امام حسین پر گریہ کرنا
امام حسین علیہ السلام کی ولادت باسعادت مبارک هو
کرامات امام جعفر صادق علیہ السلام
قرآن مجید میں علی (ع) کے فضائل
اگر مہدویت نہ ہو تو انبیاء (ع) کی تمامتر کوششیں ...
حضرت امام حسین علیہ السلام کے ذاتی کمالات
امام موسی کاظم علیہ السلام
بعثت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)
امام سجادعلیہ السلام کے کے القاب

 
user comment