اردو
Friday 26th of April 2024
0
نفر 0

هدایت وگمراھی کا مسئله

 

 ”ہدایت وگمراھی“کا مسئلہ بهت اهم ھے جیسا کہ قرآن مجید میں بہت سی آیات ذکر هوئی ھیں جن میں سے ایک اشارہ ملتا ھے کہ خداوندعالم ھی انسان کو ہدایت یا گمراھی دیتا ھے اور اس میں انسان کو کوئی اختیار بھی نھیں ھے، ارشاد هوتا ھے:

<فَیُضِلُّ اللّٰہُ مَنْ یَّشَاءُ وَیَہْدِیْ مَنْ یَّشَاءُ>[1]

”تو یھی خدا جسے چاہتا ھے گمراھی میں چھوڑدیتا ھے اور جس کو چاہتا ھے ہدایت کرتا ھے“

<وَمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہُ مِنْ ہَادٍ>[2]

”اور جس کو خدا گمراھی میں چھوڑدے اس کا کوئی ہدایت کرنے والا نھیں“

قارئین کرام !    یھاں پر یہ سوال پیدا هوتا ھے کہ اگر ہدایت وگمراھی خدا کی طرف سے

ھے تو پھر گمراهوں کو ان کی گمراھی کی بناپر کیوں عذاب دے گا؟!!  اور مومنین کو ان کی ہدایت پر ثواب کیوں دے گا؟!!  جبکہ دونوں خداوندعالم کے افعال اور اس کے ارادہ سے ھیں۔

اس اعتراض کے جواب سے پھلے ھم ہدایت وگمراھی کے معنی بیان کرنا ضروری سمجھتے ھیں کہ لغت کی کتابوں اور قرآن مجید کے استعمالات میں ان دونوں کے کیا معنی ھیں تاکہ واضح طور پر ان دونوں کے مفهوم کو سمجھ سکیں۔

لغت میں ہدایت کے معنی:

”الدلالة علی الطریق الرشد“[3]

(ترقی کے راستہ پر دلالت کرنا)

لسان العرب میں ہدایت کے اس طرح معنی کئے ھیں:

”ہداہ للطریق والی الطریق، ۔۔۔۔ اذا دلّہ علی الطریق، وہدیتہ الطریق والبیت ہدایة ای عرفتہ۔[4]

  اس کی راستہ کی طرف ہدایت کی جبکہ وہ راستہ کو جانتا تھا، یا میں نے اس کی راستہ کی ہدایت کی یعنی اس کو جانتا  تھا )

 ہدایت گمراھی کی ضد ھے ،ہدایت کے معنی راہ دکھانا اور دلالت کے ھیں۔[5]

یا جیسا کہ کھا جاتا ھے : ”ہد یت لک فی  معنی بینت لک “۔[6]

(میں نے تمھارے اس معنی میں ہدایت کی جس کو میں نے بیان کیا )

اسی طرح سے خدا وند عالم کایہ فرما ن بھی ھے ۔<اَوَلمْ یَہْدِ لَہُمْ> [7]

”کیا ان لوگوں کو یہ نھیں معلوم۔ “

لیکن خداوند عالم کا یہ فرمان :

<قَالَ رَبَّنَا الَّذِیْ اٴَعْطٰی کُلَّ شَیٴٍ خَلَقَہُ ثُمَّ ہَدیٰ >[8]

”(جناب موسی علیہ السلام نے کھا ) ھمارا پروردگار جس نے ھرچیز کو اسی کے (مناسب ) صورت عطافرمائی اور پھراس نے ہدایت کی“

اس کے معنی یہ ھیں کہ خداوند عالم نے ھر چیز کو اس طریقہ سے پیدا کیا ھے تا کہ اس سے استفادہ کیا جاسکے ۔اس کے بعد اس کی زندگی کی طرف ہدایت کی ھے۔[9]

کلام عرب میں ہدایت کے معنی توفیق کے بھی ھیں جیسا کہ شاعر کہتا ھے :

ولاتحر فنی ہداک اللّٰہ مساٴلتی

ولاآکونن کمن اودی بہ السفر ۔[10]

(یعنی خداوندعالم آپ کو توفیق دے کہ آپ ھماری حاجت پوری کریں ۔)

 جیسا کہ خداوند عالم کا فرمان بھی ھے:

<فَاہْدُوْہُمْ اِلٰی صِرَاطِ الْجَحِیْمِ >[11]

 یعنی ان کو جہنم میں داخل کردو۔

” کما تہدی المراٴة الی زوجھا یعنی بذلک انھا تدخل الیہ“[12]

(جیسا کہ بیوی کو اس کے شوھر کے گھر بھیجا جاتا ھے، اور (اسی نکاح کے ذریعہ) ان میں میاں بیوی کا رشتہ قائم هوجاتا ھے)

اسی وجہ سے جو شخص قوم کے آگے آگے چلتا ھے یا ان کی ہدایت کرتا ھے اس کو ”ھادی“  کھا جاتا ھے ۔ [13]

او رہدایت کے معنی ثواب کے بھی ھیں [14]

جیسا کہ ارشاد هوتا ھے:

 <یَہْدِیْھِمْ رَبُّہُمْ بِاِیْمَانِہِمْ >[15]

”یعنی خدا نے ان کو ایمان کا ثواب عنایت فرمایا۔“

<وَاللّٰہُ لاٰ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ> [16]

<وَاللّٰہُ لاٰ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الْکَافِرِیْنَ>[17]

<وَاللّٰہُ لاٰ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ >[18]

<اِنَّ اللّٰہُ لاٰ یَہْدِیْ کَیْدَ الْخَائِنِیْنَ > [19]

یعنی ان ظالمین، کافرین، فاسقین اور خائنین کو ثواب نھیں دیا جائے گا۔

نیز ارشاد قدرت هوتا ھے:

<لَیْسَ عَلَیْکَ ہُدَاہُمْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَّشَاءُ>[20]

”یعنی ان کو ثواب نھیں دیا جائے گا او رخدا جس کو چاھے ثواب عطا کرے“

قارئین کرام !  ضلال وگمراھی کے معنی ھلاکت کے ھیں ، جیسا کہ ارشاد خداوندی ھے:

<وَاِذَا ضَلَلْنَا فیْ الاٴرْضِ>[21]

”یعنی ھم نے ان کو ھلاک کردیا۔“

اور دین سے گمراھی کا مطلب حق سے دور هوجانا اور اضلال کے معنی گمراھی کی دعوت دینا، یا گمراھی کو کسی کے سر پر لاد دینا، جیسا کہ خداوندعالم کا فرمان ھے:

<وَاَضَلَّہُمُ السَّاٴمِرِیُّ>[22]

”یعنی سامری نے ان کو گمراہ کر چھوڑا“

اور اضلال کے معنی گناہگاروں کو جہنم میں ڈالنے کے بھی ھیں۔ [23]

قارئین کرام !   ہدایت وضلال کے ان تمام مذکورہ معنی کے پیش نظر درج ذیل چیزیں روشن هوجاتی ھیں:

۱۔ اضلال کے معنی مخالف حق، اور گمراھی کی دعوت دینا یا کسی کے سر پر گمراھی کو لاد دینا بھی ھیں، اور ان معنی کے لحاظ سے خدا کی طرف اس کی نسبت نھیں دے سکتے، ارشاد هوتا ھے:

<وَمَاکَانَ اللّٰہُ لِیُضِلَّ قَوْماً بَعْدَ اِذْ ہَدَاہُمْ > [24]

”خدا کی شان یہ نھیں کہ کسی قوم کو جب ان کی ہدایت کرچکا هو اس کے بعد انھیں گمراہ کردے“

بلکہ ضلالت وگمراھی (جیسا کہ قرآن مجید میں وضاحت کی گئی ھے) صرف انسان کے ارادہ واختیار سے هوتی ھے، ارشاد هوتا ھے:

<وَمَنْ یُشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاٰلاً بَعِیْداً>[25]

”جس نے کسی کو خدا کا شریک بنالیا وہ تو بس بھٹک کر بہت دور جاپڑا“

 <قُلْ اِنْ ضَلَلْتُ فَاِنَّمَآ اَضِلُّ عَلٰی نَفْسِيْ  >[26]

”(اے رسول ) تم (یہ بھی) کہہ دو کہ اگر میں گمراہ هوگیا هوں تو اپنی ھی جان پر میری گمراھی (کا وبال) ھے“

<مَنِ اہْتَدیٰ فَاِنَّمَا یَہْتَدِیْ لِنَفْسِہِ وَمَنْ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْہَا>[27]

”جو شخص روبراہ هوتا ھے تو بس اپنے فائدہ کے لئے راہ پر آتا ھے او رجو شخص گمراہ هوتا ھے تو اس نے بھٹک کر اپنا آپ بگاڑا“

<اِنَّ رَبَّکَ هو اٴَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہِ>[28]

”بے شک تمھارا پروردگار ان سے خوب واقف ھے جو اس کی راہ سے بھٹکے هوئے ھیں“

اسی طرح اضلال ، ابطال وھلاکت کے معنی میں استعمال هوا ھے:

 ارشاد قدرت ھے:

<کَذٰلِکَ یُضِلُّ اللّٰہُ الْکَافِرِیْنَ>[29]

”یعنی کافرین کو ھلاک کردیا گیا“

<وَمَنْ یُضْلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہُ مِنْ ہَادٍ>[30]

”یعنی کافرین وظالمین میں سے خدا جس کو بھی ھلاک کرنا چاہتا ھے اس کو ثواب عطا نھیں کرتا“

نیز خداوندعالم کا قول ھے:

< وَالَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللهِ فَلَنْ یُضِلَّ اٴَعْمَالَہُمْ>[31]

”یعنی جو لوگ راہ خدا میں جھاد کرتے ھیں خدا ان کے اعمال کو باطل نھیں کرتا“

۲۔ ہدایت، حق کی طرف دلالت کو کہتے ھیں۔

جیسا کہ خداوندعالم کا ارشاد ھے:

<اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ  ہَدَانَا لِہٰذَا وَمَا کُنَّا لِنَہْتَدِیَ لَوْلَا اَنْ ہَدَانَا اللّٰہُ>[32]

”شکر ھے اس خدا کا جس نے ھمیں اس (منزل مقصود) تک پهونچایا اور اگر خدا ھمیں یھاں تک نہ پهونچاتا تو ھم کسی طرح یھاں تک نھیں پهونچ سکتے تھے“

<بَلِ اللّٰہُ یَمُنُّ عَلَیْکُمْ اَنْ ہَدَاکُمْ لِلْاِیْمَاْنِ>[33]

”بلکہ اگر تم (دعوی ایمان میں) سچے هو تو (سمجھو کہ) خدا نے تم پر احسان کیا کہ اس نے تم کو ایمان کا راستہ دکھایا“

<وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَہَدَیْنَاہُمْ فَاسْتَحَبُّوْا الْعَمٰی عَلَی الْہُدیٰ>[34]

”اور رھے ثمود تو ھم نے ان کو سیدھا رستہ دکھا دیا مگر ان لوگوں نے ہدایت کے مقابلہ میں گمراھی کو پسند کیا۔“

اسی طرح ہدایت کاثواب پر بھی اطلاق هوتا ھے۔

جیسا کہ ارشاد خداوندعالم ھے:

<وَسَیَہْدِیْہِِمْ وَیُصْلِحُ بَالَہُمْ >[35]

”یعنی ان کو ثواب دیا جائے گا“

قارئین کرام !  ہدایت وضلالت کے معنی کی بحث سے درج ذیل نتائج برآمد هوتے ھیں:

اگر اضلال کے ” خلاف حق اشارہ کرنے“ کے معنی مرادلئے جائیں تو یہ معنی خداوندعالم کے لئے محال ھیں کےونکہ خدا تو حق کا حکم دیتا ھے، جبکہ عقلِ انسان بھی حکم کرتی ھے کہ خداوندعالم کبھی بھی خلاف حق حکم نھیں دے سکتا۔

 ہدی وہدایت کے معنی ، حق کی طرف دلالت کرنا ھے اور یہ کام خداوندعالم نے کیا بھی ھے اور ھر زمانہ میں ارسال رسل اور انزال کتب کے ذریعہ حق کی طرف ہدایت کی بھی ھے۔

 لہٰذا ان تمام باتوں کے پیش نظر ہدایت وگمراھی کے صرف یھی بہترین معنی ھیں کہ اضلال کے معنی ھلاکت اور عقاب کے ھیں او رہدی وہدایت کے معنی ثواب کے ھیں، اور قرآن مجید میں

یھی دونوں معنی مراد بھی ھیں، جن کا ذکر متعدد مقامات پر آیا ھے، ارشاد هوتا ھے:

<اٴَ ُترِیدُوْنَ اَنْ تَہْدُوْا مَنْ اَضلَّ اللّٰہُ >[36]

”یعنی جن کو خدا کے عذاب میں مبتلا کیا ھے کیا وہ چاہتے ھیں کہ ان کو ثواب دیا جائے“

<یُضِلُّ بِہِ کَثِیْراً وَیَہْدِی بِہِ کَثِیْراً>[37]

”یعنی قرآن کے ذریعہ، خداوندعالم نے بہت سے لوگوں کو ھلاک کردیا ، کیونکہ ان لوگوں نے قرآن کے مقابلہ میں سرکشی کی اور اس کے اوامر ونواھی پر عمل نھیں کیا جبکہ ان پر اس پر عمل کرنا  واحب ھے۔“

اور اگر ہدایت کے معنی ثواب نہ هوں تو پھر ھم قرآن مجید میں موجود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں ہدایت کے معنی نھیں سمجھ پاتے، کیونکہ ارشاد هوتا ھے:

< لَیْسَ عَلَیْکَ ہُدَاہُمْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَشَاءُ >[38]

”(اے رسول) ان کا منزل مقصود تک پہچانا تمھارا فرض نھیں ھے (تمھارا کام ) راستہ دکھانا ھے مگر ھاں خدا جس کو چاھے منزل مقصود تک پهونچادے“

<اِنَّکَ لاٰ تَہْتَدِیْ مَنْ اٴحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَہْدِیْ مَنْ یَشَاءُ >[39]

”(اے رسول ) تم جسے چاهو منزل مقصود تک نھیں پهونچاسکتے مگر ھاں جسے خدا چاھے منزل مقصود تک پہنچائے“

کیونکہ اگر ہدیٰ کے معنی ارشاد اور دلالت کے هوں تو پھر یہ دونوں آیات نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکی رسالت کو ناکام کردیتی ھیں کیونکہ پھر نبی پر ارشاد اور توجیہ کرنا واجب ھے۔

لہٰذا اسی طریقہ پر ھم قرآن مجید کی دوسری آیات میں موجود لفظ ہدیٰ واضلال کو سمجھ سکتے ھیں کیونکہ ھمارے لئے واضح ھے کہ یہ تمام نصوص اختیار کامل اور ارادہ وآزادی کے خلاف معنی سے سالم ومحفوظ ھیں۔

 اسی بنا پر ھم رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلمکے فرمان کو بہترین طریقہ سے سمجھتے ھیں کہ آنحضرت   نے ارشاد فرمایا:

” الشقی من شقی فی بطن امہ والسعید من سعد فی بطن اُمّہ“

(شقی اپنے ماں کے شکم سے شقی هوتا ھے او رسعید اپنی ماں کے شکم سے سعید هوتا ھے)

 اس کے معنی یہ نھیں ھیں کہ خداوندعالم نے انسان کو مجبور خلق کیا تاکہ وہ ضلالت وگمراھی کے ذریعہ شقی هوجائے یا اطاعت وہدایت کے ذریعہ سعید هوجائے بلکہ مقصد یہ ھے جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

 ”الشقی من علم اللّٰہ وهو فی بطن امہ انہ سیعمل عمل الاشقیاء، والسعید من علم اللّٰہ وهو فی بطن امہ انہ سیعمل عمل السعداء“

(شقی وہ ھے جس کے بارے میں خدا جانتا ھے (درحالیکہ وہ شکم مادر میں هوتا ھے) کہ وہ اشقیاء والے کام انجام دے گا، اور سعید وہ ھے جس کے بارے میں خدا جانتا ھے کہ نیک کاموں کو انجام دے گا)

پس ثابت یہ هوا کہ خداوندعالم پر حقیقت واضح هوتی ھے، جیسا کہ ھم پھلے بھی بیان کرچکے ھیں اور اس میں ذرہ برابر بھی معنی جبر واکراہ نھیں ھیں۔

<قُلْ ہَذِہِ سَبِیلِی اٴَدْعُو إِلَی اللهِ عَلَی بَصِیرَةٍ اٴَنَا وَمَنْ اتَّبَعَنِی وَسُبْحَانَ اللهِ وَمَا اٴَنَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ ۔>

وآخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین۔

[1] سورہ ابراھیم آیت ۴۔

[2] سورہ رعد آیت ۳۳۔        

[3] التبیان جلد اول ص ۴۱۔

[4] لسان العرب ،ج۱۵ ص۳۵۵۔

[5] لسان العرب ،ج۱۵ ص۳۵۳  تا ص۳۵۴۔

[6] لسان العرب ،ج۱۵ ص۳۵۳  تا ص۳۵۴۔

[7] سورہ سجدہ آیت ۲۶۔

[8] سورہ طٰہ آیت ۵۰۔

[9] لسان العرب ،ج۱۵ ص۳۵۳  تا ص۳۵۴۔

[10] تفسیر طبری  جلد اول ص۷۲تا ص۷۳۔

[11] سورہ صافات ص۲۳۔

[12] تفسیر طبری جلد اول ص۷۳۔

[13] مجمع البیان جلد اول ص ۲۷،۲۸۔

[14] مجمع البیان جلد اول ص ۲۷،۲۸۔

[15] سورہ یونس آیت ۹۔

[16] سورہ بقرہ آیت ۲۵۸۔

[17] سورہ بقرہ آیت ۲۶۴۔

[18] سورہ مائدہ آیت ۱۰۸۔

[19] سورہ سوسف آیت ۵۲۔

[20] سورہ بقرہ آیت ۲۷۳۔

[21] سورہ سجدہ آیت ۱۰۔

[22] سورہ  طٰہٰ آیت ۸۵۔

[23] التبیان جلد اول ص ۴۶۔

[24] سورہ توبہ آیت ۱۱۵۔

[25] سورہ نساء آیت ۱۱۶۔

[26] سورہ سباء آیت ۵۰۔

[27] سورہ اسراء آیت ۱۵۔

[28] سورہ قلم آیت۷۔

[29] سورہ غافر آیت ۷۴۔

[30] سورہ رعد آیت ۳۳۔       

[31] سورہ محمد آیت ۴۔

[32] سورہ اعراف آیت ۴۳۔

[33] سورہ حجرات آیت ۱۷۔

[34] سورہ فصلت( حم سجدہ)آیت ۱۷۔           

[35] سورہ محمد آیت ۵۔

[36] سورہ نساء آیت ۸۸۔

[37] سورہ بقرہ آیت ۲۶۔

[38] سورہ بقرہ آیت ۲۷۲۔

[39] سورہ قصص آیت ۵۶۔

 


source : http://www.sadeqeen.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اول یار رسول(ص) حضرت امیر المومنین علی ابن ابی ...
قرآن اور عترت کو ثقلین کہے جانے کی وجہ تسمیہ
بنت علی حضرت زینب سلام اللہ علیہا ، ایک مثالی ...
مسجد اقصی اور گنبد صخرہ
اخلاق ،قرآن کی روشنی میں
قرآن کو نوک نیزہ پر بلند کرنے کی سیاست
آخري سفير حق و حقيقت
معصومین كی نظر میں نامطلوب دوست
قیام حسین اور درس شجاعت
دین اور اسلام

 
user comment