اردو
Friday 26th of April 2024
0
نفر 0

حضرت سّید السّاجدین زین العابدین علیہ السّلام

نام و نسب

 علی علیہ السّلام نام اور زین العابدین علیہ السّلام وسیّد الساجدین علیہ السّلام نام سے زیادہ مشہور لقب ہیں . اپ وہ مخصوص ہستی ہیں جنھوں نے عرب وعجم دونوں قوموں کی ممتاز شرافتوں کو اپنی ذات میں جمع کر لیا تھا . دادھیال کی طرف سے روحانی اقتدار کے وارث ہوئے اور ننھال کی جانب سے ایران کے کسروی خاندان کی شاہانہ ہمت اور بلند اوصاف کے وارث بھی ہوئے .ان کے والد بزرگوار رسول خدا کے نواسے اور علی علیہ السّلام وفاطمہ کے بیٹے حضرت اما م حسین علیہ السّلام شہید کربلا تھے اور ان کی والدہ اخری تاجدار ُ ایران یزد جرد کی بیٹی شاہ زنان تھیں جو شہر بانو کے نام سے زیادہ مشہور ہیں . اس وقت کہ جب

عرب میں نسلی تعصب انتہا درجہ پر تھا . عجم کی شہزادی اسیر ہوکر عرب کے ملک میں ائیں . کون تھا جو نسلی دشمنی کے ہوتے ہوئے شہنشاہ ایران کی لڑکی کو مناسب عزت و احترام کا درجہ دے سکتا تھا وہ انسانیت کے بڑے علمبرداد حضرت علی علیہ السّلام ابن ابی طالب علیہ السّلام ہی تھے جنھوں نے ایران کی شہزادی کو اپنے بیٹے حضرت امام حسین علیہ السّلام کے ساتھ بیاہ کر عرب کی ملکہ بنا دیا اور خدا نے اُنھیں کو حضرت امام زین علیہ السّلام العابدین کی ماں بننے کاشرف عطا فرمایا . اس طرح امام زین علیہ السّلام العابدین عرب کے سردارحضرت علی علیہ السّلام ابن ابی طالب علیہ السّلام کے پوتے اور عجم کے شہنشاہ یزد جرد کے نواسے تھے اور اسی لیے عرب وعجم سب ہی کی نگاہ میں بڑی عزت کادرجہ رکھتے تھے .

ولادت 

 حضرت علی بن ابی طالب علیہ السّلام کوفہ میں مسند خلافت پر متمکن تھے . جب 51جمادی الثانی 83ھ میں سید سجاد علیہ السّلام کی ولادت ہوئی اپ کے دادا حضرت علی علیہ السّلام ابن ابی طالب علیہ السّلام اور سارے خاندان کے لوگ اس مولود کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور شاید علی علیہ السّلام ہی نے پوتے میں اپنے خدوخال دیکھ کر اس کااپنے نام پر علی علیہ السّلام نام رکھا 

تربیت

 حضرت امام زین العابدین علیہ السّلام کوماںکی محبت بھری پرورش سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں مل سکا اس لئے کہ ان کا اپ کی ولادت کے بعد ہی انتقال ہوگیا تھا اس کے بعد دوبرس کاسن تھا جب اپ کے دادا حضرت امیر علیہ السّلام کاسایہ بھی سر سے اٹھ گیا . امام زین العابدین علیہ السّلام اپنے چچا حضرت امام حسن علیہ السّلام اور والد امام حسین علیہ السّلام کی تربیت کے سایہ میںپروان چڑھے , بارہ برس کی عمر تھی جب امام حسن علیہ السّلام کی وفات ہوئی . اب امامت کی ذمہ داریاںاپ کے والد حضرت امام حسین علیہ السّلام سے متعلق تھیں .شام کی حکومت پر بنی امیہ کا قبضہ تھا اور واقعات کربلا کے اسباب حسینی جہاد کی منزل کو قریب سے قریب ترلارے تھے . جب حضرت زین العابدین علیہ السّلام بلوغ کی منزلوں پر پہنچ کر جوانی کی حدوں میں قدم رکھ رہے تھے .زین العابدین علیہ السّلام نے انکھیں کھو ل کر ان واقعات کی رفتار کو اگے ہی بڑھتے ہوئے دیکھا جنھوں نے بعد میں کربلا کی قربانی کوضروری قراردیا .

شادی

 اسی زمانہ میں جب کہ امام حسین علیہ السّلام مدینہ میں خاموشی کی زندگی بسر کررہے تھے حضرت نے اپنے فرزند سید سجاد علیہ السّلام کی شادی اپنی بھتیجی یعنی حضرت امام حسن علیہ السّلام کی صاحبزادی کے ساتھ کردی جن کے بطن سے امام محمدباقر علیہ السّلام کی ولادت ہوئی اور اس طرح امام حسین علیہ السّلام نے اپنے بعد کے لیے سلسلئہ امامت کے باقی رہنے کاسامان خود اپنی زندگی میں کردیا .

واقعہ کربلا

 06ھئ میںسید سجاد علیہ السّلام کی عمر 22 سال کی تھی جب حضرت امام حسین علیہ السّلام کو عراق کا سفر درپیش ہوا ور سید سجاد علیہ السّلام بھی ساتھ تھے نہیں کہا جاسکتاکہ راستہ ہی میں یاکربلا پہنچنے کے بعد کہاں بیمار ہوئے اور دس محرم 16ھ کوامام حسین علیہ السّلام کی شہادت کے موقع پر اس قدر بیمار تھے کہ اٹھنا بیٹھنا مشکل تھا . اور یقین ہے کہ ساتویں سے پانی بند ہونے کے بعد پھر سیدسجاد علیہ السّلام کے لیے بھی پانی کاایک قطرہ ملنا ناممکن ہوگیا . ایک ایسے بیمار کے لیے یہ تکلیف برداشت سے باہر تھی . عاشور کے دن کے اکثر حصے میں اپ غشی کے عالم میں رہے اور اسی لیے کربلا کے جہاد میں اس طرح شریک نہ ہوسکے جس طرح ان کے بھائی شریک ہوئے اور اسی لئے حضرت امام حسین علیہ السّلام اخری رخصت کے وقت وہ وصیتیں جو امامت کے منصب سے متعلق تھیں خودسجاد علیہ السّلام کے سپرد نہ فرماسکے بلکہ انھیں ایک کاغذ پر لکھ کر اپنی صاحبزادی فاطمہ کبریٰ کے سپرد فرمادیا اور کہہ دیا کہ جب تمھارے بھائی ہوش میں ائیں تو انھیں دے دینا. قدرت کو سیّد سجاد کاامتحان دوسری طرح لینا تھا . وہ حسین علیہ السّلام کے بعد لٹے ہوئے قیدیوں کے قافلہ کے سالار بننے والے تھے .ادھر امام حسین علیہ السّلام شہید ہوئے ادھر ظالم دشمنوں نے خیال اہلیبیت علیہ السّلام کی طرف رخ کردیا اور لوٹنا شروع کردیا . اس وقت کااہل ُحرم کااضطراب خیام میں تہلکہ اور پھران ہی خیموں میں اگ کے بھڑکتے ہوئے شعلے اس وقت سیّد سجاد علیہ السّلام کاکیا عالم تھا . اس کے اظہار کے لیے کسی زبان یاقلم کاالفاظ ملنا غیر ممکن ہیں مگر کیا کہنا زین العابدین علیہ السّلام کی عبادت خدا کا انھوںنے اس بیماری اس مصیبت اور اس افت میں بھی عبادت کی شان میں فرق نہ انے دیا .اپ نے گیارھویں محرم کی شب کو نماز فریضہ کے بعد سجدئہ معبود میں خاک پر سررکھ دیا اور ایک ہی سجدہ میں پوری رات ختم کردی سجدہ میں یہ کلمات زبان پر تھے .لاالٰہ الاَّ اللهُحقّاًحقاً لاَالٰهَ ایماناً وَّصِدقًالاالہٰ الاّ اللهتعبدًاورقاً(یعنی کوئی معبود نہیں سوائے الله کے جو حق ہے یقیناً حق ہے , کوئی معبود نہیں سوائے ایک الله کے .ایمان کی روسے اور سچائی کی روسے کوئی کوئی معبود نہیں سوائے ایک الله کے . گواہی دیتا ہوں میں اس کی بندگی اور نیاز مندی کے ساتھ ) یوں ہی صبح ہوگئی .

 دوسرے دن فوج دشمن کے سالار ابن سعد نے ا پنے کشتوں کوجمع کیااور ان پر نماز پڑھ کر دفن کیا مگر حسین علیہ السّلام اور ان کے ساتھیوں کی لاشوں کواسی طرح بے گوروکفن زمین گرمِ کربلا پر دھوپ میں چھوڑدیا , یہ موقع سید سجاد علیہ السّلام کے لیے انتہائی تکلیف کا تھا وہ اس مقتل سے گزر رہے تھے تو یہ حالت تھی کہ قریب تھا کہ روح جسم سے جدا ہوجائے . انھیں اس کا صدمہ تھا کہ وہ اپنے باپ اور دوسرے عزیزوں کو دفن نہ کرسکے وہ تو دشمنوں کے ہاتھ میں اسیر تھے او رکربلا سے کوفہ لے جائے جارے تھے .

 پھر کتنا دل کو بے چین کرنے والا تھا وہ منظر جب خاندانِ رسول کالُٹا ہوا قافلہ دربار ابنِ زیاد میں پہنچا . سید سجاد علیہ السّلام محسوس کررہے تھے کہ یہ وہی کوفہ ہے جہاں ایک وقت میں علی علیہ السّلام ابن ابی طالب علیہ السّلام بادشاہ سمجھے جاتے تھے اور زینب علیہ السّلام وامِ کلثوم شاہزادیاں اج اسی کوفہ میں ظالم ابن زیاد تختِ حکومت پر بیٹھا ہے اور رسول کاخاندان مقیّد کھڑا ہے . سید سجاد علیہ السّلام ایک بلند انسان کی طرح انتہائی صدمہ اور تکلیف کے ساتھ بھی ایککوهِ وقار بنے ہوئے خاموش کھڑے تھے . ابن زیاد نے اس خاموشی کو توڑا یہ پوچھ کر کہ تمھارا نام کیا ہے ? امام علیہ السّلام نے جواب دیا.»علی علیہ السّلام بن الحسین علیہ السّلام.,, وہ کہنے لگا.»کیا الله نے علی علیہ السّلام ابن الحسین علیہ السّلام کو قتل نہیں کیا?,, امام نے جواب دیا .»وہ میرے ایک بھائی علی علیہ السّلام تھے جنھیں لوگوں نے قتل کردیا.,, وہ سرکش جاہل کہنے لگا .»نہیں! بلکہ اللهنے قتل کیا.,, 

امام نے یہ ایت پڑھی کہ »اَللهُيَتَوَنَیّ الانفُسَ حِینَ مَوتِھَا « یعنی الله ہی موت کے وقت قبضِ روح کرتا ہے اور الله کاقبض روح کرنا یہ الگ بات ہے جو سب کے لیے ہے1#.,,اس پر ابن زیاد کو غصہ اگیا اور کہا.» تم میں اب بھی مجھ کو جواب دینے اور میری بات رد کرنے کی جراَت ہے ?,, اور فوراً قتل کا حکم دیا . یہ سننا تھا کہ حضرت زینب دوڑ کر اپنے بھتیجے سے لپٹ گئیںاور کہا کہ »مجھ کو بھی اس کے ساتھ قتل کیاجائے .,, سیّد سجاد علیہ السّلام نے کہاْپھوپھی چھوڑ دیجئے اور مجھے ابن زیاد کا جواب دینے دیجئے .,, ابن زیاد تویہ سمجھا تھا کہ کربلا میںال محمد کے بہتے ہوئے خون کودیکھ کرسیّد سجاد علیہ السّلام کے دل میں موت کاڈر سما گیا ہوگا اور وہ قتل کی دھمکی سے سہم جائیں گے مگر بہادر حسین علیہ السّلام کے بہادر فرزند نے تیور بدل کر کہا.,, ابن زیاد تو مجھے موت سے ڈراتا ہے? کیا ابھی تک تجھے نہیں معلوم کہ قتل ہونا ہماری عادت ہے اور شہادت ہمای فضیلت ہے ,, یہ وہ صر زور الفاظ تھے جنھوں نے ظالم کے سر کو جھکادیا , حکم قتل ختم ہوگیا او رثابت ہوگیا کہ حسین علیہ السّلام کی شہادت سے ان کی اولاد اہل حرم پر کوئی خوف نہیںچھایا بلکہ قاتل ہی اس خاندان کے صبر واستقلال کو دیکھ کر خوفزدہ ہوچکے ہیں . کوفہ کے بعد یہ قافلہ دمشق کی طرف روانہ ہوا جس دن دمشق میں داخلہ تھا اس دن وہاں کے بازارخاص اہتمام سے سجائے گئے تھے اور تمام شہر میں ائینہ بندی کی گئی تھی اور لوگ اپس میں عیدیں مل رہے تھے . اس وقت حسین علیہ السّلام کے اہل حرم جو تکلیف محسوس کررہے تھے اس کا کون اندازہ کرسکتا ہے , ایسے وقت انسان کو ہوش وحواس بجانہیںرہتے مگر وہ سید سجاد علیہ السّلام تھے جو ہر موقع پر ہدایت واصلاح او رحسینی مشن کی تبلیغ کرتے جاتے تھے , جس وقت یہ قافلہ بازارسے گزر رہا تھا تو اموی حکومت کے ایک ہوا خواہ نے حضرت سجاد سے طنزیہ پوچھا . اے فرزندِ حسین علیہ السّلام کس کی فتح ہوئی َ اپ نے جواب میں فرمایا . تم کو اگر معلوم کرنا ہے کہ کس کی 

ابن زاید کامقصد اس جملے سے »کیاالله نے علی ابن الحسین علیہ السّلام کو قتل نہیں کیا? یہ تھا کہ علی علیہ السّلام ابن احسین علیہ السّلام (علی اکبر) معاذاللهبحکمِ خدا قتل ہوئے , امام علیہ السّلام نے اس کی تردید کرتے ہوئے جو فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا قتل ہر گز حکم خدا سے نہیں بلکہ ان کو فوج یزید نے ظلم سے قتل کیا ہے , یہ دوسری بات ہے کہ مرنے والا اپنی موت سے مرے یا قتل کیا جائے ہر صورت میںقبض روح کرنے والا خدا ہے .(ناشر)

فتح ہوئی تو جب نماز کا وقت ائے اور اذان اور اقامت کہی جائے اس وقت سمجھ لینا کہ کس کی فتح ہوئی ? ا سی طرح اس وقت جب یہ قافلہ مسجدِ دمش کے دروازے پر پہنچا تو ایک بوڑھا سامنے ایا اور اس نے قیدیوں کودیکھ کر کہا کہ شکر ہے اس خدا کا جس نے تم کو تباہ وبرباد کیااو رملک کو تمھارے مردوں سے خالی اور پر امن بنایا . اور خلیفہ وقت یزید کو تم پر غلبہ فرمایا . ان اسیروں کے قافلہ سالار حضرت سجاد علیہ السّلام سمجھ گئے کہ یہ ہم لوگوں سے واقف نہیں.» فرمایا کہ اے شیخ کیا تم نے یہ ایت قران پڑھی ہے قل لااسئلکم علیہ اجرالاالمودةفی القربیة,, »کہہ دو اے رسول! کہ میں سوائے اپنے اہلبیت علیہ السّلام کی محبت کے تم سے اس تبلیغ ُ رسالت پر کوئی معاوضہ نہیں مانگتا . بوڑھے نے کہا ہاں یہ ایت میں نے پڑھی ہے , فرمایا وہ رسول کے اہل بیت ہم ہی ہیں جن کی محبت تم پر فرض ہے . یوں ہی خمس والی ایت میں جو ذوی القربیٰ کالفظ ہے اور ایہ تطہیر میں اہلبیت علیہ السّلام کالفظ ہے یہ سب اپ نے اس کو یاد دلایا . بوڑھا یہ سن کر تھوڑی دیر حیرت سے خاموش رہا پھر کہا کہ خد اکی قسم تم لوگ وہی ہو ? سیّد سجاد علیہ السّلام نے فرمایا . ہاں قسم بخدا ہم وہی اہلبیت علیہ السّلام اور قرابتداررسول کے ہیں. یہ سُن کر بوڑھا شیخ رونے لگا. عمامہ سر سے پھینک دیا . سر اسمان کی طرف بلند کیا اور کہا .خداونداگواہ رہنا کہ میں ال محمدکے ہر دشمن سے بیزار ہوں . پھر امام علیہ السّلام سے عرض کیا.,, کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے ?,, فرمایا, اگر توبہ کرو تو قبول ہوگی اور ہمارے ساتھ ہوگے .,, اس نے عرض کیا ,»میں اس جرم سے توبہ کرتا ہوں جو میں نے واقف نہ ہونے کی وجہ سے اپ کی شان میں گستاخی کی . 

 کوفہ میں دربار ابن زیاد میں اور پھر بازارِ کوفہ میں اور پھر دمشق میں یزید کے سامنے سید سجاد علیہ السّلام اور دیگر اہلِ حرم کی بہادرانہ گفتگو خطبے اور احتجاج وہ تھے جنھوںنے دنیا کو شہادت ُ حسین علیہ السّلام کامقصد بتایا اور اس طرح امام زین العابدین علیہ السّلام نے اس مشن کوپورا کیا جسے امام حسین علیہ السّلام انجام دے رہے تھے .

رہائی کے بعد 

 قید ُ شام سے رہائی کے بعد امام زین العابدین علیہ السّلام مع اہل حرم مدینہ گئے اور خاموش زندگی گزارنا شروع کی مگر مدینہ میں اب یزید کی خلافت کے خلاف جذبات بھڑک چکے تھے , ان لوگوں نے کوشش کی کہ امام زین العابدین علیہ السّلام کو اپنے ساتھ شریک کیا جائے مگر امام علیہ السّلام ان کی نیت اور ان کے ارادوں کی حالت کو خوب جانتے تھے , اپ نے ان کا ساتھ دینا منظور نہیں فرمایا . اس لیے مدینہ پر جب یزید کی فوج نے چڑھائی کی تو امام زین العابدین علیہ السّلام کوبلاوجہ کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کی گئی مگر اپ کے روحانی صدمہ کے لیے یہ کافی تھا کہ رسول الله کی مسجد میں تین روز تک گھوڑے بندھے رہے سینکڑوں مسلمان شہید ہوئے اور سینکڑوں شریف عورتوں کی فوج یزید کے ہاتھوں عصمت دری ہوئی , یہ مصیبت اپ کے لیے نہایت ناگوار تھی مگر اپ نے صبرواستقلال کو ہاتھ سے جانے نہ دیا , ایسے موقع پر جب کہ شہادتِ حسین علیہ السّلام سے ہر طرف انقلاب برپا تھا اور مختلف جماعتیں خون حسین علیہ السّلام کابدلہ لینے کے لیے کھڑی ہوئی تھیں , حضرت امام زین العابدین علیہ السّلام کااس ہنگامہ سے الگ رہ کر صرف عبادت اور تعلیماتِ الٰہی کی اشاعت میں مصروف رہنا ایک بڑا حیرت ناک ضبطِ نفس کا نمونہ تھا . 

 اس میں کوئی شک نہیں کہ سلیمانرض ابن صرد خزاعی یامختاررض ابن ابی عبیدہ ثقفی جنھوں نے قاتلانِ حسین علیہ السّلام سے انتقام لیا, امام زین العابدین علیہ السّلام کے دل میں ان کے ساتھ ہمدردی کاجذبہ موجود تھا . اپ نے مختاررض کے لیے دعائے خیر فرمائی ہے اور اپ نے برابر لوگوں سے دریافت فرمایا ہے کہ کون کون قاتل حسین علیہ السّلام کے قتل ہوگئے مختاررض نے ان قاتلوں کو ان کے جرائم کی سزا دے کر سید سجاد علیہ السّلام کے زخمی دل پرا یک بڑا مرہم لگا دیا مگر اپ کا طرزِ عمل اتنا غیر متعلق اور محتاط رہا کہ حکومت ُ وقت کی طرف سے کوئی ذمہ داری اپ پر ان اقدامات کی کبھی عائد نہ ہوسکی 

 اپ کی پوری زندگی کادور الِ محمد اور ان کے شیعوں کے لیے صر اشوب رہا. یزیدکے تھوڑے ہی زمانہ کے بعد حجاج ابن یوسف ثقفی کے ذریعہ حکومت کاچُن چُن کر الِ رسول کے دوستوں کو قتل کرنا حکومت کی طرف سے ہر ایک نقل وحرکت بلکہ گفتگو پر بھی خفیہ مجرموں کامقرر ہونا اس صورت میں کہاں ممکن تھا کہ اپ ہدایت ُخلق کے فرائض کو ازادی کے ساتھ انجام دے سکتے مگر اپ کی خاموش زندگی سے اپ دینا کو رسول الله کی سیرت سے روشناس بنا رہے تھے . 

مشاغل زندگی 

 واقعہ کربلا کے بعد 43برس امام العابدین علیہ السّلام نے انتہائی ناگوار حالات میں بڑے صبروضبط اور استقلال سے گزارے اس تمام مدت میںاپ دنیا کے شور وشر سے علٰیحدہ صرف دومشغلوں میں رات دن بسر کرتے تھے . ایک عبادت ُ خدا دوسرے اپنے پاب پر گریہ , یہی اپ کی مجلسیں تھیں جو زندگی بھر جاری رہیں . اپ جتنا اپنے والد بزرگوار کے مصائب کو یاد کرکے روئے ہیں دنیا میںاتنا کسی نے گریہ نہیں کیا , ہر ہر وقت پر اپ کو حسین علیہ السّلام کی مصیبت یاد اتی تھیں . جب کھانا سامنے اتا تھا تب رونے تھے . جب پانی سامنے اتا تھا تب روتے تھے , حسین علیہ السّلام کی بھوک وپیاس یاد اجاتی تھی تو اکثر اس شدت سے گریہ وزاری فرماتے تھے اور اتنی دیر تک رونے میں مصروف رہتے تھے کہ گھر کے دوسرے لوگ گھبراجاتے تھے . اور انھیں اپ کی زندگی کے لیے خطرہ محسوس ہوجاتا .ایک مرتبہ کسی نے پوچھا کہ اخر کب تک رویئے گا تو فرمایا کہ یعقوب علیہ السّلام نبی کے بارہ بیٹے تھے . ا یک فرزند غائب ہوگیا تو وہ اس قدر روئے کہ انکھیں جاتی رہیں . میرے سامنے تو اٹھارہ عزیزواقارب جن کا مثل ونظیر دنیا کے پردہ پر نہ تھا قتل ہوگئے ہیں . میں کیسے نہ روؤں . 

 یوں تو یہ رونا بالکل فطری تاثرات کی تحریک سے تھا مگر اس کے ضمن میں نہایت صر امن طریقہ سے حسین علیہ السّلام کی مظلومیت اور شہادت کاتذکرہ زندہ رہا اور امام زین العابدین علیہ السّلام کے غیر معمولی گریہ کے چرچے کے ساتھ شہادت ُ حسین علیہ السّلام کے واقعات کاتذکرہ فطری طور پر سے لوگوں کی زبانوں پر اتا رہا جو دوسری صورت میں اس وقت حکومت ُ وقت کے مصالح کے خلاف ہونے کی بنا پر ممنوع قرار پاجاتا .

دوسری مرتبہ گرفتاری 

 اتنی صر امن زندگی کے باوجود حکومت ُ شام کو اپنے مقاصد میں حضرت علیہ السّلام کی ذات سے نقصان پہنچنے کااندیشہ ہوا ابن مروان نے اپنی حکومت کے زمانے میں اپ کو گرفتار کراکے مدینہ سے شام کی طرف بلوایا . اور دوتین دن اپ دمشق میں قید رہے مگر خدا کی قدرت تھی اور اپ کی روحانیت کااعجاز جس سے عبدالملک خود پشیمان ہوا اور مجبوراً حضرت زین العابدین علیہ السلام کو مدینہ واپس ہوجانے دیا .

اخلاق وکمالات 

 پیغمبر خدا کی مبارک نسل کی یہ خصوصیت تھی کہ بارہ افرد لگاتار ایک ہی طرح کے انسانی کمالات اور بہترین اخلاق واوصاف کے حامل ہوتے رہے جن میں سے ہر ایک اپنے وقت میں نوعِ انسانی کے لیے بہتر ین نمونہ تھا چنانچہ اس سلسلہ کی چوتھی کڑی سیّد سجاد علیہ السّلام تھے جو اخلاق واوصاف میں اپنے بزرگوں کی یاد گار تھے . اگر ایک طرف صبر وبرداشت کا جو ہر وہ تھا جو کربلا کے ائینہ میں نظر ایا تو دوسری طرف حلم اور عفو کی صفت اپ کی انتہا درجہ پر تھی . اپ نے ان موقعوں پر اپنے خلاف سخت کلامی کرنے والوں سے جس طرح گفتگو فرمائی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ اپ کاحلم اس طرح نہ تھا جیسے کوئی کمزور نفس والا انسان ڈر کر اپنے کو مجبور سمجھ کو تحمل سے کام لے بلکہ اپ عفو اور درگزر کی فضیلت پر زور دیتے ہوئے اپنے عمل سے اس کی مثال پیش کرتے تھے . ایک شخص نے بڑی سخت کلامی کی اور بہت سے غلط الفاظ اپ پر اپ کے منہ پر عائد کیے . حضرت علیہ السّلام نے فرمایا , جو کچھ تم نے کہا اگر وہ صحیح ہے تو خدا مجھے معاف کرے اور اگر غلط ہے تو خدا تمھیں معاف کر دے . اس بلند اخلاقی کے مظاہرے کاایسا اثر پڑا کہ مخالف نے سر جھکا دیا اور کہا حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ میں نے کہا وہ غلط ہی تھا , ایسے ہی دوسرے موقع پرا یک شخص نے اپ کی شان میں بہت ہی نازیبا کوئی لفظ استعمال کیا . حضرت نے اس طرح بے توجہی فرمائی کہ جیسے سنا ہی نہیں اس نے پکار کے کہا ایاک اغنی یعنی میں اپ کو کہہ رہا ہوں . یہ اشارہ تھا کہ اس حکم قران کی طرف کہ خذالعفووامربالمعروف واعرض عن الجاھلین یعنی عفو کو اختیار کرو اچھے کاموں کی ہدایت کرو اور جاہلوں سے بے توجہی اختیار کرو . 

 ہشام ابن اسماعیل ایک شخص تھا جس سے حضرت علیہ السّلام کی نسبت کچھ ناگوار باتیں سرزد ہوئیں تھیں یہ خبر بنی امیہ کے (نیک) بادشاہ عمر بن عبدالعزیزرض کوپہنچی . اسنے حضرت کو لکھا کہ میں اس شخص کو سزا دوں گا .اپ نے فرمایا کہ میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے اس کو کوئی نقصان پہنچے .

 فیاضی اور خدمت ُ خلق کاجذبہ اپ کا ایسا تھا کہ راتوں کو غلہ اور روٹیاں اپنی پشت پر رکھ کر غریبوں کے گھروں پر لے جاتے تھے اور تقسیم کرتے تھے . بہت سے لوگوںکو خبر بھی نہ ہوتی کہ وہ کہاں سے پاتے ہیں اور کون ان تک پہنچاتا ہے جب حضرت کی وفات ہوئی اس وقت انھیں پتہ چلا کہ یہ امام زین العابدین علیہ السّلام تھے . عمل کی ان خوبیوں کے ساتھ علمی کمال بھی اپ کاایسا تھا جو دشمنوں کو بھی سرجھکانے پر مجبور کرتا تھا اور ان کو اقرار تھا کہ اپ کے زمانے میں فقہ اور علم دین کا کوئی عالم اپ سے بڑھ کر نہیں . ان تمام ذاتی بلندیوں کے ساتھ اپ دنیا کو یہ سبق بھی دیتے تھے کہ بلند خاندان سے ہونے پر ناز نہیں کرنا چاہیے . یہاں تک کہ اپ جب کبھی مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے تھے تو اپنا نام ونسب لوگوں کو نہ بتلاتے تھے . کسی نے اس کاسبب پوچھا تو فرمایا , مجھے یہ اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ میں اپنے نسب کاسلسلہ تو پیغمبر ُ خدا تک ملاؤں اور ان کے صفات مجھ میں نہ پائے جائیں .

عبادت 

 اپ کی مخصوص صفت جس سے اپ زین العابدین علیہ السّلام اور سیدالساجدین علیہ السّلام مشہور ہوئے وہ عبادت ہے .باوجود یہ کہ اپ کربلا کے ایسے بڑے حادثے کو اپنی انکھوں سے دیکھ چکے تھے . باپ بھائیوں اور عزیزوں کے دردناک قتل کے مناظر برابر اپ کی انکھوں میں پھرا کرتے تھے اس حالت میں کسی دوسرے خیال کاذہن پرغالب انا عام انسانی فطرت کے لحاظ سے بہت مشکل ہے مگر باپ کے اس غم وصدمہ پر جس نے عمر بھر سید سجاد علیہ السّلام کو رلایا اگر کوئی چیز غالب ائی تو وہ خوف ُ خدا اور عبادت میں محویت تھی . یہاں تک کہ جس وقت اپ کے تصورات کی دنیا بدل جاتی تھی . چہرہ کارنگ متغیر ہوجاتا تھا اور جسم میں لرزہ پڑجاتا تھا کوئی سبب پوچھتا تو فرماتے تھے کہ خیال تو کرو , مجھے کس حقیقی سلطان کی خدمت میں حاضر ہونا ہے . 

 ایک مرتبہ حج کے موقع پرا یسا ہو اکہ احرام باندھتے وقت لبیک(حاضر ہوں) کہنا چاہا تو چہرہ کارنگ اڑگیا اور تمام جسم میں لرزہ پڑگیا اور کسی طرح لبیک نہ کہا گیا . لوگوں نے سبب پوچھا تو فرمایا, میں سوچتا ہوں کہ شاید میں لبیک کہوں اور اس بارگاہ سے یہ اواز ائے کہ لالبیک (حاضری کی اجازت نہیں ) یہ فرماکر اتنا روئے کہ غش اگیا . اس دور میں کہ جب دنیا کے دل پر دنیوی بادشاہوں کی عظمت کااثر تھا اور خالق کو بالکل بھول چکی تھی . سیّد سجاد علیہ السّلام ہی تھے جن کی زندگی خالق کی عظمت کااحسا س پیدا کرتی تھی . 

صحیفئہ سجّادیہ یازبور الِ علیہ السّلام محمد.

 حضرت امام زین العابدین علیہ السّلام کو زمانہ اس کی اجازت نہیں دے سکتا تھا کہ وہ اپنے داداعلی علیہ السّلام ابن ابی طالب کی طرح خطبوں (تقریروں ) کے ذریعہ سے دُنیا کوعلوم ومعارف اور الٰہیات وغیرہ کی تعلیم دیں . نہ ان کے لیے اس کاموقع تھا کہ وہ اپنے بیٹے امام محمد باقر یااپنے پوتے جعفر صادق علیہ السّلام کی طرح شاگردوں کے مجمع میں علمی ودینی مسائل حل کریں اور دنیا کو اچھی باتوں کی تعلیم دیں . یہ سب باتیں وہ تھیں جو اس وقت کی فضا کے لحاظ سے غیر ممکن تھے . 

 اس لیے امام زین العابدین علیہ السّلام نے ایک تیسرا طریقہ اختیار کیا جو بالکل صر امن تھا اور جسے روکنے کادنیا کی کسی طاقت کو کوئی بہانہ نہیں مل سکتا تھا وہ یہ تھا کہ تمام دنیا والوں سے منہ موڑ کر وہ اپنے خالق سے مناجات کرتے اور دعائیں پڑھتے تھے . مگر یہ مناجاتیں اور دعائیں کیا تھیں ? الٰہیات کاخزانہ , معارف وحقائق کاگنجینہ خالق اور مخلوق کے باہمی تعلق کاصحیح ائینہ ان دعاؤں کا مجموعہ صحیفہ کاملہ , صحیفہ سجادیہ اور زبور الِ محمد کے ناموں سے اس وقت تک موجود ہے . 

 اس میںانسان کو وہ سب کچھ مل جاتا ہے جو اسے بڑے بڑے خطبوںاور تقریروں میں شاید اتنے صر تاثیر انداز سے نہ ملتا -

وفات 

 افسوس ہے کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السّلام کی یہ خاموش زندگی بھی ظالم حکومت کوناگوار ہوئی اور ولید بن عبدالمالک اموی بادشاہ ُ شام نے اپ کو زہردلوا دیا اور 52محرم 59ھئ شہر مدینہ میں شہادت ہوئی . امام محمد باقر علیہ السّلام نے اپنے مقدسّ باپ کی تجہیز وتکفین کاانتظام کیااور جنت البقیع میں حضرت امام حسن علیہ السّلام کے پہلو میں دفن کیا.


source : http://www.al-hadj.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کرامات امام جعفر صادق علیہ السلام
قرآن مجید میں علی (ع) کے فضائل
اگر مہدویت نہ ہو تو انبیاء (ع) کی تمامتر کوششیں ...
حضرت امام حسین علیہ السلام کے ذاتی کمالات
امام موسی کاظم علیہ السلام
بعثت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)
امام سجادعلیہ السلام کے کے القاب
معراج انسانیت امام موسیٰ کاظم(ع)
۱۳ رجب المرجب حضرت علی (س) کی ولادت با سعادت کا ...
حضرت امام مہدی (عج)کی معرفت کی ضرورت

 
user comment