اردو
Friday 26th of April 2024
0
نفر 0

عالم اسلام خاموش تماشائی نسل پرستانہ صہیونی اقدامات کا تسلسل؛ مسجد الاقصی کا انہدام عنقریب

صہیونی ریاست کے ایک اہلکار نے کہا ہے کہ مسجد الاقصی کو عنقریب منہدم کیا جائے گا۔

 

 

اہل البیت (ع) نیوز ایجنسی ـ ابنا ـ کی رپورٹ کے مطابق صہیونی ریاست کے ایک فوجی اہلکار "حان لیونی" نے مسجدالاقصی میں "مصلّی مروانی" کی ویرانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: مسجدالاقصی کو منہدم کرنے کا فیصلہ عرصۂ دراز سے صہیونی ریاست کے فیصلہ ساز اداروں میں ہوچکا ہے اور تل ابیب کے حکمران اس فیصلے کو عملی شکل دینے کے لئے موقع کی تلاش میں تھے۔ 

صہیونی کمانڈر نے کہا کہ مسجدالاقصی کا انہدام قطعی اور حتمی ہے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ واقعہ کب رونما ہوگا اور اس کے نتیجے میں مرنے اور زخمی ہونے والوں کی تعداد کتنی ہوگی؟ 

حان لیونی نے کہا: میں نے حال ہی میں ڈیوڈ کے علاقے کے کمانڈروں سے اس واقعے کے نتیجے میں رونما ہونے والے ممکنہ واقعات و حوادث کا سامنا کرنے میں تعاون کے سلسلے میں بات چیت کی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ صہیونی ریاست نے کئی عشروں سے مسجدالاقصی کی عمارت کے زیریں حصوں میں کھدائی کا کام شروع کررکھا ہے اور عیسائی صہیونی اور یہودی صہیونی عرصے سے مسجدالاقصی کے نیچے موہوم ہیکل سلیمانی کے آثار ڈھونڈنے میں مصروف ہیں جس کی وجہ سے مسجدالاقصی کی دیواروں کی بنیادیں کھوکھلی ہوگئی ہیں اور عملی طور پر پوری کی پوری مسجدالاقصی ویرانی کے قریب پہنچ گئی ہے جبکہ دوسری طرف سے مسلمان بھی اپنا قبلۂ اول بھلا چکے ہیں اور ایک ارب مسلمانوں کی طرف سے مناسب رد عمل نہ ہونے کی وجہ سے صہیونی ریاست کو یہ جرأت مل گئی ہے کہ وہ مسلمانوں کی اس عظیم امانت کو منہدم کرنے کا باقاعدہ اعلان کرتی ہے کیونکہ اسے معلوم ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے کوئی بھی رد عمل سامنے نہیں آئے گا۔

مبصرین کا خیال ہے کہ صہیونیوں کے ذمہ دار اہلکار کی جانب سے مسجدالاقصی کے انہدام کا اعلان، بیت المقدس میں صہیونی ریاست کے نئے اقدامات کے سامنے عرب اور اسلامی ممالک کے رد عمل کے لئے بہت ہی سنجیدہ آزمائش ہوسکتا ہیں۔

صہیونی ریاست نے دنیائے اسلام کی طرف سے مسجدالاقصی کے تحفظ کے حوالے سے مسلمانان عالم کی بے حسی کے پیش نظر حالیہ مہینوں میں قدس شریف میں 846 نئے رہائشی یونٹوں کی تعمیر کا اعلان کیا ہے اور یہ بیت المقدس کو یہودی و صہیونی بنانے کے منصوبے کا نہایت اہم قدم شمار کیا جاتا ہے۔ 

اسی حال میں قدس کے شمال میں بعض صہیونی قصبوں کی ترقی اور توسیع کا منصوبہ بھی حال ہی میں نافذالعمل ہوچکا ہے۔

بیت المقدس کے رہائشی وکیل "احمد رویضی" نے گذشتہ مہینے انکشاف کیا تھا کہ صہیونی ریاست نے "قدس 2020" کے عنوان سے ایک منصوبہ تیار کیا ہے جس کے تحت قدس شہر میں واقع تمام اسلامی آثار اور مسلمانوں کے ہاتھوں بنے ہوئے مکانات و مساجد اور رہائشی محلوں کو مکمل طور پر نیست و نابود کیا جائے گا اور سنہ 2020 تک اس مقدس سرزمین پر جدید طرز کا یہودی شہر تعمیر کیا جائے گا۔ جس کے لئے نقشہ ابھی سے بن رہا ہے۔ 

بیت المقدس اور مغربی کنارے میں صہیونیوں کے جارحانہ اقدامات اور یہودی آبادیوں کی توسیع کی وجہ سے فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ صہیونی ریاست کے مذاکرات بھی ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں لیکن عرب ممالک کے صہیونی ریاست کے ساتھ خفیہ اور اعلانیہ روابط و تعاون کا سلسلہ جاری ہے۔ 

ناکامی سے دوچار ہونے والے ان مذاکرات کا سلسلہ گذشتہ مہینوں میں امریکہ کی ثالثی سے شروع ہوا اور بہت جلد شکست سے دوچار ہوا جبکہ فلسطین کی مجاہد جماعتوں نے ان مذاکرات کی مخالفت کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ ان مذاکرات کا مقصد صہیونی ریاست کو تحفظ فراہم کرنا اور علاقے میں امریکی و صہیونی مفادات کو آگے بڑھانا ہے۔ 

دریں اثناء صہیونی ریاست کے وفادار بَہائی صدرِ فلسطینی اتھارٹی محمود عباس ـ ابومازن ـ جو صہیونیوں اور امریکیوں کی حمایت سے صدارتی مدت ختم ہوجانے کے باوجود ہنوز نام نہاد خودمختار فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ ہیں ـ بھی امریکیوں اور صہیونیوں سے ناامید ہوگئے ہیں اور انھوں نے فلسطین میں صہیونیوں کے غیر قانونی اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ "عین ممکن ہے کہ خودمختار فلسطینی اتھارٹی کو توڑ دیا جائے۔ 

ابومازن نے کہا: اگر اسرائیل نے مغربی پٹی اور بیت المقدس میں غیرقانونی بستیاں تعمیر کرنے کا سلسلہ بند نہ کیا تو وہ اقوام متحدہ سے درخواست کریں گے کہ خودمختار فلسطینی مملکت کو تسلیم کرے اور اگر اقوام متحدہ نے بھی ان کی درخواست مسترد کی تو عین ممکن ہے کہ وہ خودمختار فلسطینی اتھارٹی کو توڑ دینے کا اعلان کردیں۔ 

دریں اثناء صہیونی ریاست نے 1948 کی مقبوضہ فلسطینی سرزمین میں واقع بیت لحم شہر کے جنوب میں مسجد حضرت ابراہیم (ع) اور مسجد سے ملحقہ دو فلسطینی مکانات کے انہدام کے احکامات جاری کردیئے ہیں۔ 

ابنا کی رپورٹ کے مطابق صہیونی فوجیوں نے حالیہ ایام میں "المعصرہ" نامی گاؤں پر حملہ کرکے فلسطینیوں کے درمیان کے درمیان بعض لوگوں کے گھروں سمیت مسجد حضرت ابراہیم (ع) کے انہدام کا نوٹس تقسیم کیا۔ 

غاصب صہیونی فوجیوں نے کہا: اس گاؤں میں بہت سے مکانات سرکاری اجازت کے بغیر بنے ہیں اسی لئے مسجد ابراہیم (ع) اور غیرقانونی تعمیرات کو منہدم کیا جائے گا۔ 

مركز اطلاع‌رساني فلسطين کی رپورت کے مطابق صہیونی اہلکاروں نے فلسطینیوں اور مسجد حضرت ابراہیم (ع) کے متولیوں کو 23 دسمبر تک عدالت سے رجوع کرنے کے لئے مہلت دی ہے لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ صہیونی عدالتیں وہی فیصلہ دیتی ہیں جو صہیونی ریاست چاہتی ہے چنانچہ عدالت سے رجوع کرنے کا آپشن کھلا چھوڑ کر در حقیقت صہیونی اقدامات کو قانونی شکل دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ 

بہر صورت مسجدالاقصی کے خلاف صہیونی ریاست کے بڑھتے ہوئے اقدامات خطرناک مرحلے میں داخل ہوگئے ہیں چنانچہ فلسطینی اداروں اور تنظیموں نے بارہا بیت المقدس میں موجود مقدس مقامات، خاص طور سے، مسجدالاقصی کے خلاف صہیونی ریاست کے تباہ کن منصوبوں کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ 

صہیونی ریاست ہمیشہ فلسطینی آبادی کا تناسب صہیونیوں کے حق بگاڑنے کی پالیسی پر کاربند رہ کر فلسطینی علاقوں کو صہیونی رنگ دینے کے لئے اس علاقے کے مقدس اسلامی مقامات کے انہدام کی کوشش میں مصروف رہی ہے۔ 

اب وہی موقع ہے جب قبلۂ اول مسلمانوں سے مدد کا استغاثہ کررہا ہے؛ کیا کوئی ہے جو میری مدد کو آئے؟ 

امام علی علیہ السلام نے خطبۃ الجہاد میں فرمایا ہے: 

جہاد ایک دروازہ ہے جنت کے دروازوں میں سے؛ خداوند متعال یہ دروازہ اپنے خاص بندوں کے لئے کھول دیتا ہے؛ جہاد لباس تقوی ہے اور اللہ کی مضبوط زرہ اور مطمئن ڈھال ہے۔ وہ لوگ جو جہاد سے منہ موڑ لیں خداوند متعال انہیں ذلت و خواری کا لباس پہناتا ہے اور بلائیں اور مصیبتیں ان پر حملہ آور ہوتی ہیں اور وہ حقیر و ذلیل ہوجاتے ہیں اور ان کی عقل رخصت اور ان کا شعور زائل ہوجاتا ہے اور چونکہ انھوں نے جہاد کو ضائع کردیا ہے اسی لئے ان کے حقوق پامال ہوجاتے ہیں اور اور ان میں ذلت و حقارت کی نشانیاں نمایاں ہوجاتی ہیں اور وہ عدل و انصاف سے محروم ہوجاتے ہیں۔

(نہج البلاغہ – خطبہ 27)

کیا اتنی بڑی آبادی کے باوجود مسلمانوں کی آنے والی نسلیں قبلۂ اول کی پرانی تصویریں دیکھ کر حسرت کے آنسو بہائیں گی؟ هماری پاس اپنی آنی والی نسلوں کا کیا جواب ہوگا کہ "تم کیا مرے ہوئے تھے جب مٹھی بھر صہیونی مسلمانوں کے قبلۂ اول کو شہید کررہے تھے؟"

 


source : http://abna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

جنت البقیع کی تعمیر نو کے لئے جاری دستخطی مہم ...
کربلا دو شہزادوں کی لڑائی نہیں بلکہ یہ حق و باطل ...
امريكی صدارتی انتخابات كی كمپين شروع ہوتے ہی ...
امت مسلمہ کے خدشات درست ثابت ہوئے/ بن سلمان نے ...
افغانستان: لغمان اور ننگرہار صوبوں میں افغان فوج ...
اسلامی اصول اپناؤ اور بحران سے نجات پاؤ
عالم اسلام كے انسائيكلوپیڈيا كی تيسری جلد كا ...
لیبیا کے شہر طرابلس میں 3 زوردار بم دھماکے، کئی ...
فرانس میں دہشت گردانہ حملوں پر تحریک انصار اللہ ...
شہدائے مدافع حرم کے ’’بے سر کمانڈروں‘‘ کی یاد ...

 
user comment