اردو
Wednesday 15th of May 2024
0
نفر 0

شفاعت کر نے والے

 

۱۔قرآن مجید:

جیسا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے ارشاد فرمایا:”تَعَلَّمُو ا الْقُرآنَ فَاِنَّہُ شٰافِعٌ یَوْمَ الْقِیٰامَةِ۔“[1]”یعنی قرآن کی تعلیم حاصل کرو کیونکہ قرآن قیامت کے دن شفاعت کر نے والا ھے جیسا کہ حضرت علی (ع) نے بھی قرآن کے بارے میں فرمایا:”فَاِنَّہُ شٰافِعٌ مُشَفَّعٌ“[2]”یعنی قرآن شفاعت کرنے والا ھے اور اس کی شفاعت قبول ھے۔“

۲۔صلہ ٴ رحمی،امانت،محمد و آل محمد علیھم السلام :

۱۔قرآن مجید:

جیسا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے ارشاد فرمایا:”تَعَلَّمُو ا الْقُرآنَ فَاِنَّہُ شٰافِعٌ یَوْمَ الْقِیٰامَةِ۔“[1]”یعنی قرآن کی تعلیم حاصل کرو کیونکہ قرآن قیامت کے دن شفاعت کر نے والا ھے جیسا کہ حضرت علی (ع) نے بھی قرآن کے بارے میں فرمایا:”فَاِنَّہُ شٰافِعٌ مُشَفَّعٌ“[2]”یعنی قرآن شفاعت کرنے والا ھے اور اس کی شفاعت قبول ھے۔“

۲۔صلہ ٴ رحمی،امانت،محمد و آل محمد علیھم السلام :

جیسا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے ارشاد فرما یا:”اَلشُّفَعٰاءُ خَمْسَةٌ :اَلقُرْآنُ وَالرَّحِمُ،وَالاَمٰانَةُ وَ نَبِیُّکُمْ،وَاَھْلُ بَیْتِ نَبِیِّکُمْ۔“[3]

”یعنی شفاعت کرنے والے پانچ ھیں :قرآن ،صلہٴ رحمی،امانت کی ادائیگی،اور تمھارے نبی(ص) اور ان کے گھر والے۔“

۳۔روزے:

جیسا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے ارشاد فرما یا:”اَلصِّیٰامُ وَالْقُرآنُ یشَفَعانِ لِلْعَبْدِ یَوْمَ الْقِیامَةِ۔“[4]

”یعنی جو لوگ روزہ اور قرآن سے دنیا میں مانوس رھا کرتے ھیں یہ دونوں قیامت کے دن اس کی شفاعت کریں گے۔“

۴۔انبیاء ،علماء شھدا:

جیسا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے ارشاد فرمایا:

”ثَلاثَةٌ یَشْفعُونَ اِلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَیُشَفَّعُونَ،اَلاَنْبِیاٰءُ ثُمَّ الْعُلَمٰاءُ ثُمَّ الشُّھَداءُ۔“[5]

”یعنی اللہ کی بارگاہ میں تین گروہ شفاعت کریں گے انبیاء پھر علماء اور پھر شھداء۔“

۵۔توبہ:

جیسا کہ حضرت علی(ع) نے ارشاد فرمایا:”لاٰشَفِیعَ اَنْجَحُ مِنَ التَّوْبةِ۔“ ”یعنی اپنے گناھوں پر توبہ سے بڑھ کر کوئی شفاعت نھیں ھے ۔“[6]

۶۔ موٴمن :

جیسا کہ امام محمد باقر(ع) ارشا د فرماتے ھیں:

”اِنَّ المُوٴْمِنَ لَیُشْفِعَ فِی مِثْلِ رَبِیْعَةٍ وَمُضِّرٍ،وَاِنَّ المُوٴْمِنَ لَیُشْفِعَ حَتّٰی لِخٰادِمِہِ۔“[7]

”یعنی موٴمن بہت زیادہ اکثریت سے آبادی رکھنے والے قبائل مثلاً ربیعہ و مضر کی تعداد کے مطابق لوگوں کی شفاعت کر سکے گا حتی اپنے خادم کی بھی شفاعت کرسکے گا۔“

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اس بارے میں ارشاد فرما یا:

”وَاَقَلُّ المُوٴْمِنینَ شَفٰاعَةً مَنْ یَشْفَعُ ثَلاثِینَ اِنْسٰاناً۔“[8]

”یعنی موٴمن کم از کم ۳۰/ افراد کی شفاعت کرے گا۔“

۷۔پڑوسی اور دوست:

جیسا کہ امام جعفر صادق (ع)نے ارشاد فرمایا:

”اِنَّ لِجٰارَ یَشْفَعُ لِجٰارِہِ ،وَالْحَمِیمَ لِحَمِیمِہِ۔“[9]

”یعنی پڑوسی اپنے پڑوسی کی شفاعت کرے گا اور دوست اپنے دوست کی شفاعت کرے گا۔“

۸۔عمل اور صداقت :

جیسا کہ حضرت علی(ع) نے فرمایا:

”شٰافِعُ الْخَلْقِ العَمَلُ بِالْحَقِّ وَلزُومُ الصِّدْقِ۔“[10]

”یعنی حق پر عمل کرنا اور صداقت انسان کے لئے شفیع ھیں۔‘ ‘

۹ :۔اچھا اخلاق:

جیسا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے ارشاد فرمایا:

”اِنَّ اَقْرَبَکُمْ مِنّی غَداً وَاَوْجَلَکُمْ شَفٰاعَةً؛اَصْدَقُکُمْ لِسٰاناًوَاَدّاکُمْ لِلاَمٰانَة،وَاَحْسَنَکُمْ خُلْقاًوَاَقْرَبَکُمْ مِنَ النّٰاسِ ۔“

”یعنی قیامت کے دن تم میں سے میرے زیادہ نزدیک اور میری شفاعت پانے والا وہ ھوگا جو سچا ،امانت دار اور خوش اخلاق اور لوگوں سے زیادہ نزدیک ھوگا۔“

۱۰:۔ولایت آل پیغمبر (ص):

جیسا کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے ارشاد فرمایا:

”اَرْبَعَةٌ اَنَالَھُمْ شَفِیعٌ یَوْمَ الْقِیٰامَةِ ،اَلْمُکَرِّمُ لِذُرِّیَّتِی،وَالْقٰاضِیُ لَھُمْ حَوائِجَھُمْ، وَالسّٰاعِی فِی اُمُورِھِمْ مٰاضْطُرُّ واِلَیْہِ،وَالْمُحِبُّ لَھُمْ بِقَلْبِہِ وَلِسٰانِہِ عِنْدَ مَاضْطَرُّ وا ۔“ [11]

”یعنی میں قیامت کے دن چار قسم کے لوگوں کی شفاعت کروں گا ،۱۔وہ جو میری خاطر میری ذریت کاا حترام کرتے ھیں،۲۔وہ جو ان کی ضروریات کو پورا کرتے ھیں، ۳۔وہ جو مشکلات میں ان کے کام آتے ھیں ،۴۔وہ جو قلب و زبان سے سختیوں کے باوجود ان سے دوستی رکھتے ھیں ۔

ایک عالم بیان کر رھے تھے کہ حاجب نامی شاعر نے کھا :

حاجب اگر محاسبہ ٴ حشر علی کے ھاتھ میں ھے

تو میں ضامن ھوں جو مرضی ھووہ گناہ کر

اسی رات خواب میں اس نے حضرت علی (ع) کو دیکھا جو ناراض تھے اور اس سے کھا کہ تو اس شعر کو یوں کہہ :

حاجب اگر محاسبہٴ حشر علی (ع) کے ھاتھ میں ھے

تو شرم کر علی (ع) سے اور گناہ نہ کر

اصحاب رقیم کی داستان

اس داستان کی طرف سورہٴ کہف کی آیت ۹ میں اشارہ ھوا ھے جس کی

تفصیل محاسن برقی اپنی کتاب میںپیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے روایت نقل کرتے ھوئے یوں ذکر کرتے ھیں کہ تین عابد اپنے اپنے گھروں سے سیر و تفریح کی غرض سے نکلے جب سیر و تفریح کرتے ھوئے پھاڑ کے دامن میں ایک غار کے پاس پھنچے تو غار کے اندر جاکر عبادت میں مصروف ھو گئے اچانک شدید طوفان کے سبب ایک بڑا پتھر پھاڑ کے اوپر سے جدا ھو کر پھسلا اور اس غار پر آگرا اب تو غار کا دھانہ بند ھوگیا اور غار میں اندھیرا چھا گیا اب جو عابدوں نے اپنے آپ کو اس تاریکی غار میں قید پایا تو سرانجام ان میں سے ایک نے کھا:

اب اس کے سوا کوئی چارہ نھیں کہ ھم میں سے ھر ایک اپنے کسی خاص عمل کو خدا کی بارگاہ میں شفاعت کے طورپر پیش کرے تا کہ اس جگہ سے نجات پاسکیں باقی دونوں افراد نے بھی اس کی تجویز کو قبول کیا،ا س طرح پھلے نے کھا :”پروردگار تو جانتا ھے کہ میں فلاں موقع پر فلان خوبصورت عورت پر عاشق ھوگیاتھا جب وہ میرے قبضہ میں آگئی تھی اور میں گناہ پر اس وقت قدرت رکھتے ھوئے تیری نافرمانی اور معصیت سے باز رھا ،لہٰذا تجھے میرے اس عمل نیک کا واسطہ اس پتھر کو غار کے دھانے سے ہٹا دے ،پتھر تھوڑا سا ہٹا اس طرح سے کے غار میں روشنی آنے لگی۔

دوسرے نے دعا کی بار الٰھا تو جانتا ھے کہ میں نے فلاں موقع پر کچھ کاریگروں کو اجیر کیا تھا کہ کھیتی باڑی کے کام کے لئے ھر روز ۲/۱درھم اجرت پر اور سب کے کام کے بعد میں نے ان کی اجرت دیدی اور پھر ان میں سے ایک کاریگر نے کھا کہ میں نے دوکاریگروں کے برابر کام کیا ھے لہٰذا میں ایک درھم سے کم نھیں لوںگا اور اس نے وہ آدھا درھم نھیں لیا اور چلا گیا میں نے اس کے اس آدھے درھم سے کھیتی کی مجھے اس سے کافی فائدہ حاصل ھوا یھاں تک کہ ایک دن وہ کاریگر آیا اور اس نے اپنے اس آدھے درھم کا مطالبہ کیا ،اب جو میں نے حساب کیا تو پتہ چلا اس عرصہ میں میں نے اس کے اس آدھے درھم سے دس ہزار درھم کا منافع کمایا ھے لہٰذا میں نے سب اسے دیدیا اور اس کو راضی کیا اور کیونکہ یہ کام تیری خوشنودی کے لئے کیا تھا لہٰذا میرے اس نیک عمل کے سبب اس پتھر کو غار کے دھانے سے ہٹا دے،اب غار کا پتھر اور ہٹا اتنا کہ سورج کی روشنی پوری آرھی تھی مگر کوئی نکل نھیں سکتا تھا ۔

تیسرے نے دعا کی پروردگار تو جانتا ھے کہ فلاں دن میرے ماں باپ سورھے تھے میں ان کے لئے دودھ لے کر پھنچا تو یہ سوچ کر کہ کھیں میں یہ دودھ اسی طرح کھلا رکھ کر چلا جاوٴں تو کھیں اس میں کوئی کیڑا مکوڑا نہ گر جائے دوسری طرف ان کو میں نے بیدار کرنا بھی مناسب نھیں سمجھا لہٰذا میں نے اتنا ؟صبر کیا کہ وہ بیدار ھوئے اور اس دودھ کو پیا ،لہٰذا تو کیونکہ جانتا ھے کہ یہ میرا صبر کرنا صرف تیری خوشنودی کے لئے تھا لہٰذا میرے اس عمل نیک کے سبب ھمیں اس پریشانی سے خلاصی عطا کر جیسے ھی اس کی دعا ختم ھوئی تو پتھر اتنا پیچھے ہٹا کہ وہ تینوں آرام سے غار سے باھر آگئے اور نجات پاگئے اسی لئے پیغمبر اکرم (ص)نے ارشاد فرمایا:”مَنْ صَدَّقَ اللّٰہَ نَجٰا“جو اللہ کے ساتھ سچا ھو جائے گا وہ نجات پاجائے گا۔

حضرت ابو طالب(ع) کی شفاعت

جب حضرت ابو طالب (ع) کا انتقال ھوا (بعثت کے دسویں سال )تو حضرت علی(ع) پریشان حال پیغمبر (ص)کے پاس آئے اور ا ن کو خبر دی تو پیغمبر(ص) کو بھی یہ سن کر دکھ ھوا اور آپ نے علی (ع) سے کھا جاوٴ ان کے غسل و کفن کا سامان کرو اور جب میت کو آمادہ کرلو تو مجھے اطلاع دینا،حضرت علی (ع)نے ایسا ھی کیا جب جنازہ تیار ھوا تو آنحضرت(ص) حضرت ابو طالب (ع) کے جنازے کے کنارے آئے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے حضرت ابو طالب (ع) کو خطاب کر کے کہتے ھیں ”آپ نے صلہٴ رحمی کو پورا کیا اپنی نیک جزاء کو پھنچیں گے اور آپ نے یتیم کی پرورش کی اور اسے بڑا کیا اور اس کی مدد کی “پھر آنحضرت(ص)نے لوگوں کی طرف رخ کر کے کھا ”لَاَ شْفَعُنَّ لِعَمّیِ شَفٰاعَةً یُعْجِبُ بِھٰا الثَّقَلَیْن “یعنی میں ضرور اپنے چچا کی شفاعت کروں گا کہ جس پر تمام جن و انس تعجب کریں گے ۔

امام حسین (ع) نقل کرتے ھیں میرے بابا علی (ع) کوفہ کے مقام رحبہ میں ایک دفعہ بیٹھے ھوئے تھے اور اطراف میں لوگوں کا حلقہ تھا ایک شخص نے اٹھ کر کھا اے امیر الموٴمنین (ع) آپ تو اس عظیم مقام پر ھیں مگر آپ کے والد اس وقت دوزخ کی آگ میں ھیں ؟ امیرالموٴمنین (ع)نے اس کو جواب دیا:”فَضَّ اللّٰہُ فٰاکَ وَالَّذیِ بَعَثَ مُحَمَّداً بِالْحَقِّ نَبِیّاً لَوْ شَفَّعَ اَبِی فِی کُلِّ مُذْنِبٍ عَلٰی وَجْہِ الْاَرْضِ لَشُفِّعَہُ اللّٰہُ “”یعنی خدا تیرے منہ کو چاک کرے خدا کی قسم جس نے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اگر میرے باپ زمین کے تمام گناھگاروں کی بھی شفاعت کریں تو خدا ان کی شفاعت کو قبول کرے گا،پھر آپ نے فرمایا:”یہ کیسے ممکن ھے کہ جس کا بیٹا جنت اور جھنم کو لوگوں میں تقسیم کرنے والا ھو اس کا باپ دوزخ کی آگ میں جائے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی قسم کہ ابو طالب (ع) کا نور قیامت کے دن تمام خلائق کو اپنے گھیرے میں لے لے گا سوائے نور محمد(ص) و فاطمہ(ع) و حسن (ع)و حسین (ع)اورد یگر ائمہ معصومین (ع) کے ،یاد رکھو نور ابو طالب (ع)ھمارے ھی انوار سے ھے جس کو اللہ تعالیٰ نے خلقت آدم (ع) سے دو ہزار سال پھلے خلق کیا ھے [12]

پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی عظیم شفاعت

امام جعفر صادق (ع) قیامت کے دن پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی عظیم شفاعت اور اس کی اھمیت کے بارے میں ارشاد فرماتے ھیں جب قیامت کے میدان میں گرم زمین پر سورج کی تپش میں لوگ اس حالت میں کھڑے ھوں گے کہ سر سے پیروں تک پسینے سے شرابور ھوں گے اور پھر سب لوگ حضرت آدم (ع) کے پاس شفاعت کے لئے آئیں گے کہ اللہ کی بارگاہ میں ھماری شفاعت کریں تو حضرت آدم(ع) حضرت نوح (ع) کی طرف بھیجیں گے جب لوگ ان کے پاس جائیں گے تو وہ ان کو حضرت عیسیٰ (ع) کی طرف بھیجیں گے اور جب لوگ ان کے پاس جائیں گے تو وہ کھیں گے ”فَعَلَیْکُمْ بِمُحَمَّدٍ رَسُولِ اللّٰہِ“ یعنی تم لوگ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے حضور میں جاوٴ اور ان سے شفاعت طلب کرو تو آنحضرت(ص) ان سب لوگوں کو جنت کے ”باب الرحمن “کے دروازے پر لے جا کر سجدہ کریں گے اور اتنا طولانی سجدہ کریں گے کہ خداوندعالم ان سے کھے گا اے محمد! جس کی چاھو شفاعت کرو تمھاری شفاعت قبول کی جائے گی ۔[13]

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کا مختلف مقامات پر شفاعت کے لئے پھنچنا

ایک دن جناب فاطمہ زھرا ( س) نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے عرض کی بابا جان قیامت کے کٹھن دن میں آپ کھاں ملیں گے ؟پیغمبر(ص)نے فرمایا: اے فاطمہ (ع)! بہشت کے کنارے جھاں میں ”لواء حمد“پرچم حمد اپنے ھاتھوں میں لے کر اپنی امت کی شفاعت کروں گا،فاطمہ( س)پوچھتی ھیں باباجان اگر آپ وھاں نہ ملے تو پھر کھاں آپ کی زیارت کروں گی ؟پیغمبر(ص) نے فرمایا:حوض کوثر کے کنارے مجھ سے ملوگی جھاں میں پروردگارسے عرض کروں گا اے میرے پروردگار میری امت کوحوض کوثر سے سیراب کر فاطمہ( س)نے پھر پوچھا باباجان اگر وھاں بھی آپ تک نہ پھنچ سکی تو کھاں آپ کی زیارت ھوگی پیغمبر(ص)نے فرمایا:پل صراط پر جھاں میں کھڑا ھو کر کھوں گا اے پروردگار میری امت کو یھاں سے سلامتی کے ساتھ گزار دے ،فاطمہ( س)نے عرض کی بابا جان اگر وھاں آپ تک نہ پھنچ سکوں تو کھاں آپ کو پاوٴں گی ؟پیغمبر(ص) نے فرمایا:دوزخ کے دھانے پر جھاں میں کھڑا ھو کر اپنی امت کو دوزخ میں گرنے سے بچارھا ھوں گا،یہ سن کر حضرت فاطمہٴ زھرا (ع) ( س)خوش ھوئیں ۔[14]

حضر ت فاطمة الزھرا ( س) کی وسیع شفاعت

امام محمد باقر(ع) سے روایت ھے کہ جب قیامت کے دن حضرت زھرا( س) اپنی تمام عظمت و جلال کے ساتھ بہشت کے دروازے پر پھنچیں گی تو وھاں رک کر پریشانی کے عالم میں اِدھر اُدھر دیکھیں گی خدا وندعالم ان سے فرمائے گا اب کس چیز کی پریشانی ھے جب کہ میں نے تمھیں جنت میں جانے کا حکم دیا ھے؟حضرت زھرا ( س)عرض کریں گی، ”اے پروردگار آج میرا دل چارھا ھے کہ میری قدر ومنزلت پہچانی جائے ۔“

خداحکم دے گا جاوٴ جس کے بھی دل میں تمھاری اور تمھاری اولاد کی محبت ھے اس کو بھی بہشت میں لے جاوٴ ،امام محمد باقر(ع) نے فرمایا:خدا کی قسم اس دن حضرت زھرا ( س)جس طرح پرندہ اچھے دانے کو خراب دانے سے چنتا ھے ھماری جدّہ ھمارے شیعوں کو چن کر روانہ بہشت کریں گی ،اورجب وہ ھمارے شیعہ در بہشت پر پھنچیں گے تو اِدھر اُدھر گھبرائی ھوئی نگاھوں سے دیکھیں گے خدا ان سے پوچھے گا اب تمھیں کس بات کی پریشانی ھے جب کہ بنت رسول(ص) نے تم سب کی شفاعت کی ھے اور میں نے اس کی شفاعت کو قبول کر لیا ھے ؟تو وہ لوگ عرض کریں گے اے بارالٰھا آج ھم چاہتے ھیں کہ ھماری قدر ومنزلت بھی لوگوں کو پتہ چلے ، خداوندعالم انھیں حکم دے گا اے میرے بندوں جاوٴ جس جس نے بھی تمھاری فاطمةالزھرا ( س) کی دوستی کی بناپر تم سے دوستی کی اور تمھاری مدد کی اس کو بھی اپنے ساتھ بہشت میں لے جاوٴ،خدا کی قسم اس طرح قیامت کے دن لوگوں میں سوائے کافروں اور منافقوں کے کوئی باقی نھیں رھے گا ،کافر اور منافق لوگ اس دن پکار رھے ھوں گے کہ آج ھمارا کوئی دوست نھیں جو ھماری شفاعت کر سکے ھا ںاگرھمیں دنیا میں لوٹا دیا جائے تو ھم عمل صالح انجا م دیںگے؟ تو ھر گز ان کو لو ٹا یا نھیں جائے گا وہ لوگ اسی طرح چیختے پکارتے ھوئے دوزخ میں جھونک دیئے جائیں گے ۔[15]

پُل صراط پرحضرت حمزہ (ع)کا شفاعت کرنا

رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا ”جب قیامت برپا ھوگی تو لوگوں کی ایک کثیر تعداد جو حضرت حمزہ(ع) کے دوستوں و محبوں کی ھوگی جن کے گناہ گار ھونے کے سبب پُل صراط سے گزرکر بہشت میں جانے سے ایک دیوار رکاوٹ بن رھی ھوگی لہٰذاوہ لوگ حضرت حمزہ(ع) کو مدد کے لئے پکاریں گے ،حمزہ مجھ سے اور علی (ع) سے کھیں گے کہ آپ لوگ د یکھ رھے ھیں کہ میرے محُبِیّن مجھ سے مدد طلب کر رھے ھیں میں علی(ع) سے کھوں گا کہ چچا حمزہ کی اس سلسلے میں مدد کرو تو علی(ع) چچا حمزہ(ع) کے سامنے وھی نیزہ لائیں گے جس سے حمزہ اپنے دشمنوں سے لڑا کرتے تھے اور ان سے کھیں گے اے چچاجان آپ یہ نیزہ لیجئے اور اس سے اپنے محبین کی مدد کیجئے حمزہ اس نیزہ کو لے کر دوزخ کی اس دیوار پر رکھیں گے جو ان کے محبین کے جنت میں جانے سے مانع تھی تو وہ دیوار پانچ سوسال تک کے فاصلے کی مقدار میں دور چلی جائے گی پھر حمزہ اپنے محبین سے کھیں گے کہ اب تم لوگ عبور کر جاوٴ وہ لوگ نھایت سکون واطمینان او ر سلامتی کے ساتھ پل صراط سے عبور کر جائیں گے اور نھایت خوشی و کامیابی کے ساتھ بہشت میں دا خل ھوں گے ۔[16]

حضرت عباس (ع) کی جانب سے شفاعت کا ھونا

روایت ھے جب قیامت برپا ھوگی پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)حضرت علی(ع) سے فرمائیں گے اے علی (ع) ذرا زھرا(س)سے پوچھو میری امت کی شفاعت کے لئے کیا لائی ھو؟جب حضرت علی (ع) پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کایہ پیغام حضرت زھرا( =) کو پھنچائیں گے تو بی بی کھیں گی ”یٰااَمِیرَ المُوٴْامِنینَ کَفٰانٰا لِاَجْلِ ھٰذَا الْمَقٰامِ اَلْیَدٰانِ الْمَقْطُوعَتٰانِ مِنْ اِبْنِی الْعَبّٰاسُ“ ”یعنی اے امیر الموٴمنین (ع) میرے بیٹے عباس کے یہ دو کٹے ھوئے بازوامت کی شفاعت کے لئے کافی ھیں ۔“[17]

حضرت علی (ع) بستر شھادت پر عباس کو بلاکر سینے سے لگا کر فرماتے ھیں ”وَلَدِی!وَ سَتَقُرُّ عَیْنِی بِکَ فِی یَوْمِ الْقِیٰامَةِ “[18]”یعنی اے میرے بیٹا عنقریب قیامت کے روز میری آنکھیں تیرے وجود سے روشن ھوجائیں گی۔“

حضرت فاطمہ معصومہ ( س) کی وسیع شفاعت

امام جعفر صادق علیہ السلام حضرت معصومہ( س) کے مرقد مطھر کی سرزمین قم میں پیشن گوئی کرتے ھوئے فرماتے ھیں ”تدخل بشفاعتھا شیعتی الجنة باجمعھم“ ”یعنی حضرت معصومہ (ع)کی شفاعت سے ھمارے تمام شیعہ بہشت میں داخل ھوںگے۔“[19]

اگر چہ امام معصوم (ع) کی یہ حدیث ھی فضیلت حضرت معصومہ (ع) اور ان کی شفاعت کے بیان کو واضح کر رھی ھے مگر ھم پھر بھی اس مطلب کی مزید وضاحت کے لئے ایک داستان نقل کرتے ھیں ۔

مرحوم آیت اللہ شیخ باقر ناصری دولت آبادی اصفھانی نے نقل کیا کہ ھم لوگ ۱۲۹۵ھ ق قم کے اطراف میں رہتے تھے ھمارے علاقے میں بارشیں نہ ھونے کے سبب خشک سالی اور قحطی نے لوگوں کو پریشان کر دیا تھا میں نے لوگوں کے درمیان سے چالیس متدین افراد کو انتخاب کیا اور قم آکر حرم حضرت معصومہ(ع) میں راز و نیاز میں مشغول ھو گئے تیسرے دن میں نے مرحوم آیت اللہ میرزاقمی متوفی ٰ ۱۲۳۱ ھ جن کی قبر قم کے قبرستا ن شیخان میں ھے ان کو عالم خواب میں دیکھا،انھوں نے آکر مجھ سے پوچھا آپ لوگ یھاں کس لئے آئے ھیں ھم نے عرض کیا ھمارے علاقے کو خشک سالی و قحطی نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ھے بارش نہ ھونے کے سبب لہٰذا بی بی معصومہ (ع) سے توسّل کے لئے آئیں ھیں ،تو میرزاقمی کہتے ھیں کہ یہ تو کوئی بڑاکام نھیں ھے اس طرح کے کام تو ھم جیسوں سے بھی ممکن ھیں لہٰذا اس طرح کے کاموں کے لئے ھم سے رجوع کر لیا کرو ھاں جب تمام کائنات کے لوگوں کی شفاعت طلب کرنی ھو تو شفیعہٴ روز جزا حضرت فاطمہ معصومہ(ع) سے توسل کر کے اپنی خواہش کو پورا کروانا۔[20]

جیسا کہ امام رضا (ع)نے ھمیں اس بات کی تعلیم دی کہ فاطمہ معصومہ (ع) کی زیارت اس طرح سے پڑھیں ”یٰا فٰاطِمَةُ اِشْفَعِیْ لِیْ فِی الْجَنَّةِ فَاِنَّ لَکِ عِنْدِ اللّٰہِ شَاٴْنًا مِنَ الشَّاٴْنِ“ ”یعنی اے فاطمہ معصومہ (ع) آپ خدا کی بار گا میں میرے بہشت میں جانے کے لئے میری شفاعت فرمائیں کیونکہ آپ کا خدا کی بارگاہ میں بلند مقام ھے۔[21]

[1] مسند احمد بن حنبل ج۵ص۵۱۔

[2] نہج البلاغہ خ۱۷۶۔

[3] کنزل العمال ح۳۹۰۴۱۔

[4] مسند احمد بن حنبل ج۲ص۱۷۴۔

[5] بحارالانوار ج۸ص۳۴۔

[6] نہج البلاغہ ح۳۷۱۔

[7] بحار الانوار ج۸ص۲۸۔

[8] بحار الانوار ج۸ص۵۸۔

[9] بحارالانوار ج۸ص۴۲۔

[10] میزان الحکمہ ج۵ص۱۲۳۔

[11] بحار الانوار ج۸ص۴۹۔

[12] الغدیر ج۷ ص۳۸۶۔ 

[13] بحار الانوار ج۸ص۳۵۔

[14] امالی شیخ صدوق (رہ) ص۱۶۶۔

[15] بحار الانوار ج۸ ص۵۲،تفسیر فرات کوفی ص۱۱۳۔

[16] بحار الانوارج۲۲،ص۲۸۱و ج۸ص۶۸،تفسیر امام حسن عسکری (ع)ص۱۷۶۔

[17] معالی السبطین ج۱ص۴۵۲۔

[18] معالی السبطین ج۱ص۴۵۳۔

[19] بحار الانوار ج۶۰ ص۲۲۸۔

[20] کریمہ ٴ اھل بیت ص۵۸۔

[21] بحار الانوار ج۱۰۲،ص۲۶۷۔

 


source : http://www.alkausar.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

رمضان المبارک کے ساتویں دن کی دعا
اسلام میں خواتین کا کردار
کلمہ انتظار فرج سے غلط مطلب نکالنا
شیطان کی قید، ماہِ رمضان المبارک کیا حقیقت ہے؟
قرآن اور لفظ شيعہ
اہلِ سنّت کی صلوٰت میں تحریف
عید نوروز کی تاریخ
حضرت امیر المؤمنین علی علیه السلام کی چالیس ...
حضرت شاہ چراغ، امامزادہ میراحمد بن امام موسیٰ ...
قرآن میں مخلوقات الٰہی کی قسمیں

 
user comment