اردو
Monday 6th of May 2024
0
نفر 0

کلام نور 15 (سورۂ بقرہ 25 ۔ 24 ) (قرآنی پیغام)

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

مرسل اعظم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم اور ان کے اہلبیت مکرم پر درود و سلام کے ساتھ آسان و عام فہم سلسلہ وار تفسیر " کلام نور " لیکر حاضر ہیں ۔

عزيزان محترم! جیسا کہ آپ کے پیش نظر ہے اس سے قبل رسول رحمت(ص) کی نبوت و رسالت اور آپ پر نازل ہونے والی کتاب قرآن حکیم کے اعجاز اور حقانیت کے اعلان کے ساتھ کلام اللہ کا جواب پیش کرنے کے سلسلے میں مخالفین کی عاجزی اور ناتوانی کا ذکر تھا اب اسی سلسلۂ گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے سورۂ بقرہ کی 24 ویں آیت میں خدا فرماتا ہے : " فان لّم تفعلوا و لن تفعلوا فاتّقوا النّار الّتی وقودھا النّاس والحجارۃ اعدّت للکافرین" 

پس اگر تم لوگ یہ کام نہ کرو اور تم ہرگز نہیں کرسکوگے تو اس آگ سے بچو کہ جس کا ایندھن انسان اور پتھرہوں گے اور جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے ۔

قرآن کریم چونکہ کتاب ہدایت ہے اور ایک عالم و عاقل دیندار انسان تربیت کرنے کےلئے اللہ نے اپنے رسول (ص) کو معجزے کے طور پر دی ہے، کسی انسان کی علمی و عقلی تصنیف یا تالیف کے بر خلاف اللہ کی کتاب میں جگہ جگہ انسانوں کو حق و حقیقت سے ہوشیار و خبردار کیا گیا ہے چنانچہ اس آیۂ کریمہ میں بھی قرآن کریم کی معجزانہ شان کا انکار کرنے والے دشمنان علم و عقل کو اس آگ سے خبردار کیا گیا ہے کہ جس کے ایندھن خود انسان اور وہ پتھر ہوں گے کہ جن کو انسانوں نے اپنا معبود قرار دے رکھا ہے۔ سورۂ انبیاء / 98 میں ہے : 

"انّکم و ما تعبدون من دون اللہ حصب جہنّم "

یعنی تم اور تمہارے وہ معبود جنہیں تم نے اللہ کے سوا اپنا معبود قراردے لیا ہے جہنم کا ایندھن ہوں گے ۔

اور یہ کہ یہ آگ کفار و منافقین کےلئے تیار کی گئی ہے گویا یہ آگ خود انسان کے اپنے اندر سے شعلہ ور ہوگی اور اس سے وہ فرار بھی نہیں کرسکے گا یہ آگ گنہگار انسان کے پورے وجود اور جسم و جان کو بھسم کردے گی۔

صاحب تفسیر " تسنیم " آیت اللہ جوادی آملی کے مطابق آیت میں " اعدّت " کی تعبیر سے پتہ چلتا ہے کہ جہنم بھی بہشت کی مانند اس وقت موجود ہے اور کفار جو جہنم کا ایندھن بھی ہیں اور جہنم کی غذا بھی ہیں اپنے پورے وجود کے ساتھ شعلہ ور ہیں اگرچہ ان کو خود اس کا اندازہ نہیں ہے ۔

البتہ قرآن نے کفار و مشرکین کو جہنم کی تیاری کی خبر دینے سے قبل ، علمی مقابلے کی دعوت دی ہے اور ان پر واضح کردیا ہے کہ قرآن کا جواب حتی قرآن کی ایک آيت کا بھی جواب ان کے بس میں نہیں ہے اور نہ ہی آئندہ کسی زمانے میں کوئی نسل اس کا جواب لا سکے گي کیونکہ اللہ کا کلام بھی اللہ کی مانند بے مثل ہے اور انسانی کلام کا اس کے ساتھ کوئی مقائسہ نہیں کیا جا سکتا ۔ اگرچہ یہاں آیت کا مخاطب حجاز کے کفار و بت پرست تھے لیکن قرآن کا اعجاز یہ بھی ہے کہ خود معجزہ ہونے کے ساتھ اعجاز آفرینی بھی کرتا ہے چنانچہ آئندہ کی خبر بھی دیدی ہے کہ کوئی جواب نہیں لا سکتا " لن تفعلوا" اور آجتک، 14 سو سال بعد بھی، کوئی جواب نہیں لاسکا ہے اسی کو اعجاز در اعجاز کہتے ہیں ۔

اس کے بعد سورۂ بقرہ کی پچیسویں آیت میں خدا فرماتا ہے : " و بشّر الّذین ء امنوا و عملواالصّالحات انّ لہم جنّت تجری من تحتہا الانہار کلّما رزقوا منہا من ثمرۃ رّزقا" قالوا ہذا الّذی رزقنا من قبل واتوا بہ متشابہا" و لہم فیہا ازواج مّطہّرۃ و ہم فیہا خالدون" 

یعنی ( اے پیغمبر!) جو لوگ ایمان لائے ہیں اور اچھے کام کرتے ہیں انہیں خوش خبری دیدیجئے کہ ان کے لئے ایسے باغات ہیں جہاں درختوں کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ، جس وقت اس باغ کے پھل رزق کے عنوان سے انہیں دئے جائیں گے وہ کہیں گے :" یہ تو وہی ہے جو ہم پہلے بھی کھایا کرتے تھے " اور جو پھل ان کو دیا جائے گا وہ اس کے مشابہ ( اور ملتا جلتا ) ہوگا ( جو انہوں نے دنیا میں کھایا ہے ) اور ان کے لئے بہشت میں پاکیزہ جوڑے ( بیویاں یا شوہر) بھی ہوں گے اور وہ لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے [ ازواج قرآن کریم میں مرد و عورت دونوں کے جوڑے کے لئے استعمال ہوا ہے جیسا کہ سورۂ یس کی آیت 56 میں ہے " ہم و ازواجہم" ( تسنیم جلد دوم ص 470) ] ۔

عزيزان محترم! قرآن کریم نے دین کے احکام و حکم بیان کرنے کے ساتھ ہی ساتھ ایمان یا کفر و نفاق کے اثرات و ثمرات بھی بیان کردئے ہیں چنانچہ کفر کے تباہ کن نتائج ذکر کرنے کے بعد اس آیت میں ایمان کے ثمرات بیان کئے ہیں کہ مومنین کو ایک ایسی بہشت میں رہائش نصیب ہوگي جہاں درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں یعنی پورا ماحول سرسبز و شاداب پاک و پاکیزہ اور روح پرور ہے موسموں کی تبدیلی سے بے نیاز درختوں پر صدا بہار پھل لگے ہوئے ہیں اور پھل بھی وہ جن کی صورتوں سے ذہن مانوس ہیں مگر ظاہری شباہت کے باوجود وہ مزے اور فوائد کے لحاظ سے دنیوی پھلوں کے ساتھ ہرگز قابل مقائسہ نہیں ہیں ، کھانے پینے کی نعمتوں کے علاوہ بہشت میں ابدی آسائشوں میں شرکت و ہمراہی کے لئے توالد و تناسل سے آزاد پاک و پاکیزہ جوڑیاں بھی عطا کی جائیں گی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مومنین عیش و آرام کی زندگی گزاریں گے ۔ یہ وہ قرآنی بشارت اور خوش خبری ہے جو ہر مومن کو ان کے ایمان اور عمل صالح کے نتیجے میں سنائی گئی ہے کیونکہ بہشت اور اس کی نعمتوں سے بہرہ مند ہونے کے لئے افراد اور ان کے عمل یعنی فاعل اور فعل دونوں میں حسن لازم ہے ایمان بھی خلوص نیت کا طالب ہے اور عل بھی خلوص نیت کے ساتھ انجام پانا لازم ہے کیونکہ جہنم میں ڈال دئے جانے کےلئے دونوں میں سے کسی ایک کا بھی فقدان کافی ہے نہ حسن ایمان عمل صالح کے بغیر ضامن نجات کہا جا سکتا نہ عمل صالح حسن ایمان کے بغیر ضامن نجات بن سکتا بہشت جاوداں میں دائمی رہائش کےلئے دونوں ضروری ہیں البتہ ایمان ایک درخت کی جڑ اور اعمال صالح درخت کی ٹہنیاں ہیں جڑ سالم نہ ہو تو بھی درخت پر پھل نہیں آتے اور شاخیں نہ ہوں تو بھی نہیں پھلتے ؛ اور مومنین بہشت کی نعمتیں یا پھل ملنے کے بعد جو یہ کہتے ہیں کہ ہم کو اس سے پہلے بھی یہ رزق مل چکا ہے تو اس سے اہل بہشت کی مراد ایمان اور عمل صالح کی وہ توفیق ہوتی ہے کہ جس سے وہ دنیا میں بہرہ مند ہوئے ہیں اور اب وہ بہشت کی نعمتوں کی شکل میں مجسم ہوکر سامنے آتے ہیں ( سورۂ آل عمران/ 30 میں ہے :" یوم تجد کل نفس ماعملت من خیر محضرا") اور انہیں یہ وہی پھل محسوس ہوتے ہیں جو وہ دنیا میں دیکھ چکے ہیں ورنہ ان کا لطف و ذائقہ دنیوی نعمتوں کے ساتھ قابل مقائسہ نہیں ہے وہاں فیض و فضل الہی بھی مومنین کے شامل حال ہوتا ہے ۔

اگرچہ قرآن کریم میں اس آیت کی مانند دوسری بہت سی آیات میں باغ ، قصر، نہر اور حور و غلمان کی مانند بہشت کی مادی نعمتوں کا ذکر ہوا ہے لیکن ان کے ساتھ ہی مومنین وہاں معنوی نعمتوں سے بھی بہرہ مند ہوں گے جیسا کہ سورۂ توبہ کی بہترویں آیت میں مادی نعمتوں کے بعد خدا فرماتا ہے : " و رضوان مّن اللہ اکبر" یعنی خوشنودی خدا ان سب سے بالاتر ہے ۔ یا سورۂ بیّنہ کی آٹھویں آیت میں خدا فرماتا ہے : " رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ " یعنی اہل بہشت سے خدا راضی ہے اور وہ بھی اپنے خدا سے خوشنود ہیں ۔ مقصد یہ ہے کہ آیت میں اللہ نے بہشت میں ایک مومن کی رہائش اور آسائش کا ذکر کیا ہے ورنہ انبیاء (ع) اور اولیائے خدا (ع) کے ساتھ رہنا اور شہداؤ صالحین کی بزم میں شریک ہونا اہل بہشت کےلئے سب سے زیادہ لذت بخش ہوگا۔

معلوم ہوا : اپنے دین و مذہب کی حقانیت کے سلسلے میں مخالفین کے ساتھ فیصلہ کن انداز میں گفتگو کرنا چاہئے اور دین و آئین کے سلسلے میں شکوک و شبہات کو دل و دماغ میں کوئی جگہ نہیں دینی چاہئے ۔ اس آیت میں : " لم تفعلوا و لن تفعلوا" کا جو لہجہ ہے عصر حاضر کے رہبر کبیر امام خمینی(رح) کے قول: " امریکہ کچھ نہیں بگاڑ سکتا " میں کسی حد تک مشاہدہ کیا جا سکتا ہے ۔انسان اپنے کفر میں اس منزل پر بھی پہنچ سکتا ہے کہ وہ پتھر کے بے جان بتوں کی صف میں قرار دیا جائے اور کفار کے لئے تیار کی گئی آگ کا ایندھن بن جائے ۔

قرآن حکیم ہر دور میں ہر قوم و ملت کے لئے معجزہ ہے کوئی بھی انسان کبھی بھی اللہ کے کلام کا جواب پیش نہیں کرسکتا اور نہ ہی قرآن کی باتوں پر کسی کی کوئی بات بالاتر قرار پا سکتی۔

صحیح تعلیم و تربیت کےلئے بشارت کے ساتھ " انذار" یعنی تشویق کے ساتھ تادیب بھی ضروری ہے قرآن نے پہلے کفار و مشرکین کو عذاب سے خبردار کیا ہے اس کے بعد اہل اسلام و ایمان کو بہشت کی خوش خبری دی ہے ۔

جنت میں پہنچنے کے لئے ایمان کے ساتھ عمل صالح بھی لازم ہے کیونکہ ایمان کے بغیر عمل یا عمل کے بغیر ایمان اسی طرح بے ثمر ہے جیسے کسی درخت کی جڑیں خشک ہوجائیں یا وہ شاخ و بر سے محروم ہو ۔البتہ قرآنی تہذیب میں ایمان اور عمل دونوں کے لئے خلوص اور حسن نیت ضروری ہے۔

 


source : http://urdu.irib.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت عباس علیہ السلام کا شہادت نامہ
حدیث نجوم پر عقلی اور نقلی نقد
علم کا مقام
رمضان المبارک کے چوبیسویں دن کی دعا
ضرورت امام از روئے عقل و قرآن
اسلام میں حجاب کی اہمیت
ہندوستانی مسلمانوں کے نام علامہ سید جواد نقوی کا ...
شرک اور اس کی اقسام
تحویل قبلہ
امامت کی تعریف

 
user comment