اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

حجاب اور ادیان مختلف

مذہب زرتشت اورحجاب

{ آشوزرتشت } اپنی نصیحتوں اورمشوروں کے ذریعے حجاب کی اھمیت کو اجاگر کرتے ھوۓ کہتے ہیں:

ایرانی خواتین  حجاب کو ظاھری طور پر ایک  قومی  ثقافت  کی حیثیت سے اپناۓ ھوۓ ہیں ، جو ان کی  روح  کے  اندر  تک  قدم جماۓھوۓ ہے ۔ اس ذریعے سے حجاب کے قوانین کوآئیندہ نسلوںتک محفوظ  کیا جا  سکتا ہے، اور جو معاشرے  کو  بے  راہے جانے اور اخلاقی برائیوں سے بچا سکتا ہے ۔

اب آشو زرتشت کے کلام کو بہتر طور پرسمجھنے کے لیۓ مزید نقل کرتے ہیں ؛ تاکہ جو زحمتیں انھوں نے حجاب کی حفاظت  کے لیۓ اٹھائیں  بیان کی جا سکیں ، کیونکہ ظاھری حجاب باطنی عفت کا آئینہ دار ہے ،واضح ھو سکے ۔وہ کہتے ہیں :

اے نئی زندگی  کا آغاز کرنے والو! ( دلھا اور دلہن ) میری باتیں غور سے سنو ، اوران پر عمل کرو،غیرت اور پا کیزگی سے زندگی  گذارو، تم سے ہر ایک، محبت ، صداقت اور نیک کردارمیں دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے،تاکہ یہ مقدس ازدواجی زندگی ہنسی خوشی بسرھوسکے

اے خواتین وحضرات! سیدہے رستےکو تلاش کرو، اور اسی کواپناو، کبھی جھوٹ اور وقتی خوشی کی خاطراپنی زندگیوں کو برباد مت کرو، کیونکہ جو لذت گناہ اور بد نامی کے ھمراہ ھو، وہ دراصل میٹہے میں ملا ھوا جان لیوا زھر ہے جو خود دوزخ ہے،لہذا ایسے کاموں کے ذریعے اپنی زندگیوں کو تباہ مت کر بیٹھنا ۔ 

نیک رستے پرچلنے والوں کا اجراسے ملتا ہےجوخواھشات نفسانی ، خود پسندی اور باطل آرزوں کوخود سے اورکرےاور اپنی نفس پرغلبہ پالے وگرنہ غفلت اورلا پرواھی کا انجام افسوس اور ہاتھوں کو ملنے کے سوا توہے ہی نہیں۔    

دھوکہ کھانے والے افراد ، جو برائی میں دھنس جاتےہیں ، بد بختی اور نابودی کا شکار ھونے کےعلاوہ ان کا سرانجام آہ و زاری اورچیخ  و پکار ہے، لیکن جوافراد  میری  باتوں کوغور سے سنتے،اور ان پرعمل کرتےہیں ، ھمیشہ خوش وخرم زندگی بسر کرتےہیں، رنج وغم ان سےدورھوجاتےہیں اورھمیشہ کے لیۓنیکی ان کی قسمت میں لکھدی جاتی ہے۔

اور windy dad کی کتاب میں بارھا یہ جملہ تکرارھوا  ہے :

کلام ایزدی ہے کہ وہ  برائی کو نابود کر دے گا ،اے مرد ! تم سےمیری یہ خواھش ہے کہ راہ حلال کے ذریعے اپنی نسل بڑھاو اور پاک و پاکیزہ رھو، اے عورت ! میری تم سے  یہ خواھش ہے کہ اپنے تن کی حفاظت کرواور پاک و پاکیزہ رھو،میری تمناہےکہ صاحب اولاد ھوجاو اور کامیاب زندگی گذارو۔ 

ایک  اور کتاب ایرانیوں کی باستانی پوشاک میں مندرجہ  ذیل عنوان ہمارے ملک کی غیر معروف پوشاک کے تحت  لکھا گیا  ہے جس  میں  زرتشتی عورت  کے حجاب  کے بارے  میں  پڑھتے ہیں :

( یہ  لباس جو زرتشتی عورت پہنتی ہے ، دوسرے  ممالک  کے ملبوسات سے بہت شباھت رکھتا ہے ، جیسا کہ ان  کے اسکارف پہننےکا طریقہ بختیاری خواتین، قمیض لر کی خواتین ، شلوار کا انداز غربی  آذربایجان  کی کرد خواتین اور ٹوپی  بندر عباس   کی  خواتین کی طرح ہے ۔)

لہذا زرتشتیوں کا دین تین چیزوں پر استوار ہے: ( نیک اندیشہ وفکر) ( نیک گفتار ) ( نیک کردار) ۔ انکے پیشوایان نیک اندیشے وفکر اور نیک کردار کے بارے میں کہتے ہیں :

ایک مومن زرتشتی ، ہرگز دوسروں کی عورتوں پر ناپاک اور آلودہ نگاہ نہیں کرتا ۔

 اور پیشواوں کے پیشوا {آزرباد مارا سپند } کی نصیحتوں میں آیا ہے: آلودہ نگاہ رکھنے والے مرد کو اپناھمکار قبول مت کرنا

مذہب یھود اور حجاب

یھودی خواتین کے حجاب کا مسالہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ جسےآسانی سے انکار کیا جا سکے، تاریخ  نگاروں نےصرف ان کے رسم ورواج پرہی نہیں بلکہ حجاب میں کی جانے والی انتہائی  سخت گیری اور افراط  (یعنی حد سے گذرجانے) کو نیز وضاحت سے بیان کیا ہے،حجاب کے بارے میں ان کے قوانین اسلام  سے ذیادہ سخت تہے، اورجواس کتاب حجاب در اسلام میں واضح طور پربیان ھوا ہے :   

اگرچہ حجاب عربوں کی رسم نہ تھی اور اس کی بنیاد اسلام ہی نے رکھی تھی ، لیکن غیر عرب  قوموں کی تاریخ  میں حجاب پر زیادہ پابندیاں عائد نہ تہیں ، بلکہ ایران، یھود، اور وہ قومیں جوان کی  پیروی کرتی ہیں، حجاب کے بارے میں بہت سختی کے قائل تہے حتی  اسلام  نےجن چیزوں کی اجازت دی ہے، ان کے رسم  و رواج میں{ چہرہ اور دونوں ھاتھوں کو} چھپانا واجب قرار پایاہے ،اوربعض قوموں نے تو حد ہی کردی ، کہ حجاب تو دور کی بات  انھوں  نے اپنی  عورتوں کو ہی چھپانا شروع کر دیا  اوراس بری عادت  کو ایک رسم  کے طور پر اپنا ۓ  بیٹہے ہیں۔

Welldorant جنھوں نےمعمولاعریانی اورہرقوم کی خواتین کے بنا و سنگھار کو بہت آب و تاب سے بیان کیا ہے تاکہ انہیں قدرتی عمل قرار دے سکے ۔ اس بارے میں اس کا کہنا ہے:

قرن وسطی میں یھودی اپنی خواتین کو {البسہ فاخر } یعنی عالی ملبوسات زیب تن کرواتے تہے اور کبھی  بھی انہیں ننگے سر لوگوں کے درمیان جانے کی اجازت نہیں  دیتے تہے اور بے حجابی ایسا جرم تھا جو طلاق کا باعث بنتا اور ان کی شریعت کےمطابق ایک یھوی مرد بے حجاب عورت کے سامنےاپنے ھاتھوں کودعا کے لیۓ نہیں اٹھا سکتا ۔

وہ یھودی خواتین کی تعریف اسطرح کرتا ہے :  

کہ انکی زندگی بہت شایان شان اور خطا سے منزہ تھی ،انکی لڑکیاں با حجاب، بیویاںفرمابردار، مائیں عقلمند اور امانت دار تہیں اور چونکہ ان کی چھوٹی عمروں میں شادی کرا دی جاتی تھی اس لیۓ بے حیائی اور فحاشی میںحدالامکان کمی رہتی تھی۔  

یھودیوں کی مقدس کتاب میں بہت سی جگہوں پر واضح طور پر حجاب اور پردے کی تاکید کی گی ہے اور بعض مقامات پر تو چادر اور برقعے جیسے الفاظ استعمال ھوۓ ہیں جس سے اس زمانے کے حجاب کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔اب ان میں سے چند موارد کی طرف اشارہ کرتے ہیں :  

نا محرموں کے سامنے مکمل حجاب:

تورات کی (سفر پیدائش ) میں لکھا ہے؛کہ جب رفقہ کی نگاہ اسحاق پر پڑی تو اپےاونٹ سے نیچےاترآئی اوراپنےغلام سے پوچھا کہ یہ آدمی کون ہےجو صحرا میں ہمارے استقبال کو آیا ہے، غلام نے جواب دیا 'میرا مالک ہے' لہذا فورا برقعے کے ذریعے خود کو ڈھانپا ۔

مرد اور عورت کے درمیان شباھت نہیں ھونی چاھیۓ:

تورات کے مطابق ؛ مرد اور عورت کا لباس ایکدوسرے پر روا نہیں اور جو ایسا کرے گا خدا کے نزدیک یہ کام مکروہ ہے ۔

یھودی خواتین کا نا محرموں کے لیے بننا سنورنا باعث عذاب ہے:

تورات میں پڑھتے ہیں خدا کہتا ہے کیونکہ صھیونی لڑکیاں متکبر ہیں اور دوسروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانے کے لیے پیروں میں پازیب پہن کر بہت غرور سے چلتی ہیں ، کہ سب سبب بنتا ہے کہ خداوندانہیں عذاب دے اوروہ انکی جھوٹی عزت خاک میں ملا دے گا ،انہیں برھنہ کردے گا یہ عریان ھو جائیں گے اور اس دن (قیامت) خداوند تمام زیورات کو ان سے دور کر دے گا ۔ یہ پازیب ،چوڑیاں، انگوٹھی اور خوشبووں کےبدلے انہیں عذاب دیا جاۓگا،ان کی گردنوں میں طو‍ق اور زنجیریں ھونگی ،سر پر خاک اور جھلسے ھوۓ چہرے ھونگے حتی ہر درودیوار سےخون ٹپک رہا ھوگا اور سب تباہوبربادھوجائیں گے۔     

تورات میں صریح طور چادر ،برقعےاورنقاب کا ذکر ھوا ہے کہ جس کے وسیلے سے انکی خواتین حجاب کرتی تہیں اور اس زمانے کے حجاب کو سمجھنے کے لیے کافی ہے ۔

جیسا کہ ایک کتابRoot میں لکھا ہے :    

بوعز کہتا ہے کہ زنہار کسی کو پتہ ہی نہ چلتا کہ کوئی عورت خرمن میں آئی ہے ، پھرکہتا ہے ؛ کہ جو چادراوڑھی تھی اسی کو پھیلایا، تقریبا 6 کلوجواسکی چادر میں ڈالی اور وہ شھر کی جانب چل پڑی ۔12

اوریھودی دلہن کے بارے میں پڑھتےہیں:

لہذا اس نے بیوگی کے لباس کو اپنے بدن سےاتار کربرقعے اور چادرسے خود کو چھپایا، اور تمنا کی راہ تکنے لگی ۔13

نامحرموں کےروبرو سرکا چھپانا ضروری ہے:

Welldorant   لکھتے ہیں :

اگرکوئی عورت یھودی قوانین کی مخالفت کرے مثلا؛ ننگے سرنا محرموں کےسامنے جاۓ، یا غیر مردوں سے ھمکلام ھو، یا پھر اس کی آوازاسقدر بلند ھو کہ ھمسایوں کو سنائی دے ، ایسی صورت میں مرد حق رکھتا ہےکہ اس عورت کو مھریہ ادا کیے بغیر طلاق دے۔        

مزید لکھتےہیں:

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سرمے وغیرہ کےاستعمال کو برا سمجھتے تہےان کا کہنا تھا۔ مرد کا فرض ہےوہ عورت کے لیۓ سخاوت مندی سے خرچ کر ے، لیکن عورت کوبھی چاھیےکہ وہ صرف اپنےشوھرکے لیے بنے   سنورے نا غیر مردوں کے لیۓ ۔ 

ایک کتاب {حکمۃ الحجاب و ادلۃ وجوب النقاب }میں اس بات پر تاکید ھوئی ہے،؛کہ یھودی خواتین کے حجاب کی بنیاد شریعت موسی(علیه السلام) سے رکھی گئی ہے اور حضرت موسی (علیه السلام) اور حضرت شعیب(علیه السلام) کی بیٹیوں کی داستان کی طرف اشارہ ھوا ہے ؛کہ حضرت موسی نے کہا اس کے پیچہے حرکت کریں اوراپنے گھر کا پتہ بتائیں۔

حجاب اور مسیحیت

جیسا کے پہلے ذکرھو چکا ہے کہ ہر ادیان الھی میں حجاب فطرت اورتمام احکامات سے مطابقت رکھتا ہے ،جبھی تو دین زرتشت اوریھود کے علاوہ مسیحیت میں بھی حجاب واجب قرار پایا ہے۔ مسیحی دانشمند{جرجی زیدان}اس بارے میں کہتے ہیں :    

کہ اگر حجاب سے مراد فقط ظاھری بدن کا چھپانا ہےتو اسلام ، حتی دین مسیحیت سے پہلے بھی یہ عام تھا ،جس کے آثار اب بھی یورپ میں دکھائی دیتےہیں ۔

احکام شریعت یھودکومسیحیوں نے تبدیل نہیں کیا، بلکہ اسی پر عمل پیراںبھی رہے،بعض اوقات تو حجاب کےمعاملے میں انتہائی سختگیری کا مظاہرہ کرتے اورھمیشہ حجاب کے واجب ھونے پرتاکید کرتے تہے ۔

شریعت یھود میں گھر بسانے اور شادی کرنے کومقدس سمجھا جاتاہے ،کتاب تاریخ وتمدن میں لکھا ہے:20 سال کی عمر تک شادی کرنا لازمی امر ہے ،جبکہ مسیحیوں کے مطابق شادی نا کرنے کومقدس سمجھا جاتاہے،اس میں شک نہیں کہ وہ اپنے جذبات و احساسات کوکنڑول کرنے کے لیۓخواتین کےحجاب میں سختی کے قائل تہے،خواتین کے بننے سنورنےکی شدت سے مخالفت کرتے تہےاور ھمیشہ اپنی خواتین کو مکمل حجاب کی تاکید کرتے ۔

اس موضوع پر انجیل کہتا ہے :

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور خواتین کو چاھیۓ کہ وہ جواھرات اور قیمتی ملبوسات کی بجاۓ حیا اور تقوی کالباس سےآراستہ ھوں، بہترین عورت وہ ہے جونیک اعمال کوبجا لانےمیں دیندارھونےکا دعوی کرے ۔ ۔ 

اے خواتین ! اپنے شوھروں کی اطاعت کرو،صورت کی بجاۓ سیرت پر توجہ دو،کیونکہ بالوں کو سنوار کر، قیمتی ملبوسات اور زیورات پہن کرصرف ظاھری خوبصورتی ہی حاصل کی جا سکتی ہے جبکہ خدا کے نزدیک باطنی اور قلبی انسانیت ذیادہ اھمیت کی حامل ہے، اسی لیۓ تو مقدس خواتین ھمیشہ خدا پر توکل کرتیں، ظاھر کی بجاۓ باطن کو سنوارتیں،اوراپنے شوھروں کی فرمابردار تہیں،جیسے سارہ ابراھیم کی فرمانبردارتھی اور تم سب اسی کی اولاد ھو۔  

اسی طرح خواتین کے باوقار اور امارنتدار ھونے کے بارے میں پڑھتے ہیں :

اورایسی خواتین نیز باوقار،غیبتگوئی سے بچنے والی ،عاقل اور امانتدار ھوں ۔

روایات کے مطابق حضرت عیسی (علیه السلام) فرماتے ہیں :

عورتوں پر نگاہ کرنے سے پرھیز کرو ،کیونکہ یہ دل میں شہوت کی گرہیں باندھتا ہے، اور فتنے وفساد  کے لیۓ یہ ایک نگاہ ہی کافی ہے۔  

حضرت عیسی (علیه السلام) کے اصحاب ،پاپ اوربزرگ دینی رہنماؤں کلیسا اور دین مسیحیت کیطرف سے جودستورات لازم اجرا قرار پاۓہیں ان کے مطابق خواتین کو سختی سے مکمل حجاب کی تلقین اور ظاھری زینت سے منع کیا گيا ہے۔ 

ڈاکٹر حکیم الہی جو لندن یونیورسٹی کےاستادہیں ،اپنی کتاب عورت اور آذادي میں یورپ کی خواتین کے مقام کی تشریح کے بعد مسیحیت میں عورت کے پردے اور حجاب کی توضیح کے لیۓ دو عظیم مسیحی رہنما Climnt اور Tertolyan کے نظرے کو بیان کرتے ہیں:

عورت کو ھمیشہ مکمل حجاب میں رہنا چاھیۓسواۓ اپنے گھر کے،کیونکہ فقط یہ پردہ ہی ہے جو اسے مسموم نگاھوں سے محفوظ رکھتا ہے ، اورعورت اپنا چہرہ ضرور چھپاۓ،کیونکہ ممکن ہےاس کی صورت دیکھکر بہت سےافراد گناہ میں مبتلا نہ ھو جائیں۔ خدا کے نزدیک ایک عیسائی مومنہ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ زیورات سے آراستہ ھو کر غیرمردوں کے سامنے جاۓ ،حتی ظاھری زینت کو بھی آشکار نہ کرے ،کیونکہ دیکھنے والوں کے لیۓ خطرناک ہے ۔

یورپ اورمسیحی خواتین کی منتشر تصاویرسے واضح ھو جاتا ہے کہ اس زمانے کی خواتین حجاب کی مکمل رعایت کرتی تہیں Braon اورIshnaider نےاپنی کتاب مختلف قوموں کے ملبوساتمیں بعض مسیحی خواتین کے ملبوسات کی تصاویر شایع کی ہیں ،جو ان کےمکمل حجاب پربہترین دلیل ہے

حجاب اور شریعت اسلام

اسلام جو آخری آئین الہی اور مکمل ترین دین ہے،ھمیشہ اور تمام عالم بشریت کے لیۓ خدا کی جانب سے نازل ھوا ہے لباس کو ھدیہ الہی بیان کرتاہے، اوروجوب حجاب کو تعادل اور میانہ روی سے پورے جامعہ بشری کے لیۓ پیش کرتا ہے ،جس میں افراط وتفریط اورانحرافات سے اجتناب کیا گیا ہے،اورانسانی غریزوں کو مد نظررکھتے ھوۓ شرعی حدیں قائم کی گئی ہیں حو فطرت سے نیز ھماہنگ ہیں


source : http://www.tebyan.net/index.aspx?pid=60200
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

آیہٴ” ساٴل سائل۔۔۔“ کتب اھل سنت کی روشنی میں
انہدام جنت البقیع تاریخی عوامل اور اسباب
ماہ رمضان کے دنوں کی دعائیں
جمع بین الصلاتین
ہم اور قرآن
نہج البلاغہ کی شرح
شفاعت کا مفہوم
شب قدر کو کیوں مخفی رکھا گیا؟
شیطانی وسوسے
مودّت فی القربٰی

 
user comment