اردو
Monday 29th of April 2024
0
نفر 0

توبہ میں سبقت

 

انسان کے لیے بہتریہي ہے کہ توبہ میں جلدي کرے اگر چہ قبولي توبہ کي مھلت زندگي کے آخري حصہ تک ہے لیکن یہ کس کو معلوم ہے کہ کون ساحصہ زندگي کا آخري حصہ ہے لہٰذا گناہ کے فوراًبعد توبہ کر لے ۔ممکن ہے یہي حصہ زندگي کا آخري حصہ ہو کہ اگر اس ميں غفلت ہو گئي تو شاید بعد میں توفیق نہ مل سکے۔ اس حقیقت کو آپٴ اس طرح فرماتے ہیں:’’ممکن ہے ناگہاني موت تم کو اپنے پنجے میں جکڑ لے، تمہاري آواز کو خاموش کر دے ، تم عدم کي وادي میں بکھر جاو،تمہاري نشانیاں نابود ہو جائيں اور گھر و يران ہو جائيں...۔‘‘(توبہ کر لو) (خطبہ ٢٣٠۔٢)

۔توبہ کبھي بھي کي جا سکتي ہے

توبہ زندگي کے کسي بھي حصہ میں کي جا سکتي ہے کیونکہ توبہ کا دروازہ کھولنے والے کا ایک یہ بھي لطف رہا ہے کہ اس نے توبہ کا دروازہ کبھي بھي اپنے بندوں پر بند نہیں کیا کیونکہ وہ یہ کبھي نہیں چاہیگا کہ اس کا بندہ دنیا سے معصیت کار اٹھے:’’ولا یفتح لعبد باب التوبہ و تعلق عنہ باب المغفرہ‘‘آیا اس نے توبہ کا دروازہ کھول نہیں رکھا ہے کہ اجابت کا دروازہ بند کر دے گایعني اگر توبہ کا دروازہ کھولا ہے تو اجابت کي ضمانت بھي اس قادر مطلق پروردگار نے لي ہے ۔وہ تو منتظر ہے کہ کب میرا بندہ مجھ کو پکارے اور میں اس کي آواز پر لبیک کہوں۔

توبہ، اختتام حیات سے پہلے

اس سے پہلے کہ آثار موت و مرگ انسان پر نمایاں ہوں بہتر ہے کہ انسان اپني خطاوں پر توبہ کرلے جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:’’افلاتایب من خصیتہ قبل منیتہ‘‘آیا کوئي ہے جو موت کے پہنچنے سے پہلے اپنے گناہوں کي توبہ کرے؟‘‘ (خطبہ ٢٨۔٢)

٢۔ مغفرت طلبي اور بخشش گناہ کي راہیں

مذکورہ تمام شرائط کے ساتھ زبان پر استغفار یعني استغفر اللہ کا کلمہ جاري کرے۔ بارگاہ خداوندي میں گناہوں کي توبہ کرنے کے علاوہ اور دوسري راہ و روش بھي حضرت عليٴ کے کلام میں دیکھي جا سکتي ہے:

الف۔مغفرت طلبي کي راہیں:

 گناہوں کي مغفرت طلبي کے سلسلہ میںنہج البلاغہ میں چند روش بیان ہوئي ہیں کہ جن کے ذریعہ انسان اپنے گناہوں کي توبہ کر سکتا ہے:

١۔ استغفار کا ورد کرکے گناہوں کي سیاہي کو محو کرے ۔ حضرت عليٴ عثمان بن حنیف کي جانب لکھے نامہ میں فرماتے ہیں:’’خوشاقسمت وہ لوگ ہیں جو راتوں کو بستروں سے فاصلہ اختیار کرتے ہیں اور ان کے لب ذکر پروردگار میں مصروف ہوتے ہیں اور گناہ کثرت و شدتِ استغفار سے معاف ہو جاتے ہیں ۔(نامہ٤٥)یعني تمام شرائط کے ساتھ استغفرا للہ کہنے سے خدا وند عالم بندے کا گناہ معاف کر دیتا ہے۔

٢۔ نماز کے ذریعہ مغفرت طلب کرنا۔ یعني اگر انسان سے کوئي خطا یا گناہ سرزد ہو جاے تو فوراً دو رکعت نماز پڑھے اور اس کے بعد پروردگار سے توبہ کي درخواست کرے انشا ئ اللہ خدا اس کي توبہ کو قبول کریگا ۔یہ وہي روش ہے جسکا ذکر قرآن میں بھي آيا ہے : ’’واستعینوا با الصبر و الصلاۃ‘‘ نماز اور صبر کے ذریعہ خدا سے مدد مانگو۔‘‘ توبہ بھي ایک قسم کي مدد ہے جس کو بندہ بارگاہ خدا وندي سے طلب کرتا ہے۔ اس روش کو حضرت عليٴ اس طرح بیان فرماتے ہیں:’’مجھے وہ گناہ غمگین نہیں کرتا جس کے بعد دو رکعت نماز پڑھنے کي مہلت ملے اور اپنے پروردگار سے آفیت طلب کرو‘‘ ۔(حکمت٢٩٩)

مذکورہ بالا جملہ میں حضرت عليٴ کا نصب العین لوگوں کیلئے روش توبہ کوبيان کرنا ہے نہ کہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ میں گناہ کے بعد نماز کے ذریعہ اپنے پروردگار سے طلب مغفرت کرتا ہوں کیونکہ آپ کے حضور میں گناہ کیا، تصور گناہ بھي امکان نہیں رکھتا۔ یہ تو آپ کي بزرگي ہے کہ روش کو اپنے آپ پر منطبق کر کے بیان فرماتے ہيں۔

ب۔ بخشش گناہ کي راہیں :کچھ اعمال و سکنات ایسے ہیں کہ ا گر انسان ان کو انجام دے تو ثواب و حسنات میں اضافہ کے ساتھ ساتھ گناہوں کي بخشش کاذریعہ بھي ہیں:

١۔ نماز کي پابندي: نماز ایک ایسا احسن عمل ہے جس کي قبولیت پر تمام اعمال کي قبولیت موقوف ہے۔يہ ثواب میں اضافہ کے ساتھ ساتھ گناہوں سے روکتي بھي ہے اور گناہوں کو صفحہ نامہ اعمال سے پاک بھي کرتي ہے۔ اس حقیقت کا ذکر قرآن میں بھي آیا ہے’’انّ الصلاۃ تنھي عن الفحشائ۔۔.‘ ‘ نماز بدکاري اور گناہ سے روکتي ہے۔‘‘

حضرت عليٴ اس حقیقت کو یوں بیان کرتے ہیں:’’نماز کا خیال رکھو اور اس کي پابندي کرو، کثرت سے پڑھو اور اس کے ذریعہ خدا کا تقرب حاصل کرو۔ بیشک نماز گناہوں کو انسان سے یوں دور کر دیتي ہے جیسے پت جھڑ کي فصل درخت سے پتوں کو جدا کر دیتي ہے اور انسان کو گناہوں کي زنجیر سے آزاد کرا دیتي ہے ۔‘‘(خطبہ ٩)

خدا وند عالم ترک گناہ اور اس سے دستبرداري کونيکي و حسنہ سے تعبیر کرتا ہے اور ہر حسنہ کا ثواب دس برابر ہے۔ جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:’’خدا نے گناہ سے دوري اختیار کرنے کو حسنات میں جانا ہے۔‘‘(نامہ ٣١)

٣۔ نیکیاں گناہوں کو کھا جاتیں ہیں:نیکیاں انسان کے گناہوں کو یوں کھا جاتي ہیں جیسے آگ لکڑي کو کھا جاتي ہے۔ یقینا کتني نیکیاں ایسي ہیں جو انسان کے گناہوں کي بخشش کا سامان بن جاتیں ہیں۔ جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:’’پریشان حال کي مدد کرنا اور نیاز مندوں کي حاجت روائي کتنے ہي گناہ کبیرہ کا کفارہ ہے ۔‘‘(حکمت٢٤)

٤۔ صدقہ، گناہوں کا کفارہ ہے: صدقہ جہاں رد بلا کرتا ہے وہیں نہ جانے کتنے گناہوں کا کفارہ بھي بنتاہے البتہ وہ صدقہ جو صدق نیت اورتقرب الٰہي کے حصول کے لئے دیا جائے نہ کہ شہرت اور اسٹیٹس کو بنانے کے لئے ۔لہٰذا حضرتٴ صدقہ میں پوشیدگي کي شرط بیان کرتے ہیںکیونکہ جس کي نیت رضائے الٰہي اور خوشنودي پروردگار پر ہوتي ہے وہ اپنے ہر عمل پر خدا کو ناظر جانتا ہے اور اسي سے عمل کي جزاچاہتا ہے ۔جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں :’’صدقہ السرفانھا تکفر الخطےئۃ‘‘’’مخفیانہ صدقہ گناہ کا کفارہ ہے‘‘۔(خطبہ ١١٠)

٥۔ بیماري، گناہوں کا کفارہ ہے: چونکہ بیماري کے ہمراہ درد و مشکلات ہوتیں ہیں کہ جن کا تحمل واقعاً بہت سخت ہوتا ہے اور اس کے لئے ایک خاص صبر و حوصلے کي ضرورت ہوتي ہے لہٰذا خدا اس صبر و تحمل کو ریزش گناہ کا ذریعہ قرار دیتا ہے۔ حضرتٴ اس شخص کے جواب میں فرماتے ہیں جو اپني بیماري کي شکایت آپ سے کرتا ہے : ’’تم جو نالہ و فریاد کرتے ہو اس کو گناہ کي ریزش کا ذریعہ قرار دیا گياہے ۔بیماري میں کوئي اجر نہیں ہے بس گناہوں کو محو کر دیتي ہے جیسے پت جھڑ کي فصل درخت سے پتوں کو جدا کر دیتي ہے ۔‘‘(حکمت ٤٢)

٣۔ توبہ میں تاخیر

الف۔ توبہ میں تاخیر جائز ہے؟

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا گناہ کي مغفرت کے لئے ضروري ہے کہ فوراً توبہ کي جائے؟اور اگر توبہ میںتاخیر کي جائے تو باب توبہ بند کر دیا جایگا؟یقینا قبولي توبہ میں فوریت کي شرط نہیں ہے بلکہ زندگي کے کسي بھي حصہ میں توبہ کي جا ئے حتي زندگي کے آخري حصہ میں بھي توبہ کي جائے تو قابل قبول ہے کیونکہ باب توبہ موت کے پہنچنے سے پہلے تک کھلا ہے جیسا کہ حضرت ٴفرماتے ہیں : ’’افلا تائب من خطیتہ قبل منیتہ‘‘’’آیا کوئي ہے جو موت سے قبل توبہ کرلے۔‘‘(خطبہ ٢٨)

لیکن باب توبہ کا ہمیشہ کھلا رہنا اس بات کي دلیل نہیں ہے کہ توبہ میں تاخیر کرنا جائز ہے کیونکہ کس کوپتہ ہے کہ کون سي گھڑي اس کي زندگي کي آخري گھڑي ہے ۔ممکن ہے آج کل کرتا رہے اور اچانک موت گلے سے لگ جائے لہٰذا عقل و فہم کا سمجھوتا یہي ہے کہ اگر کسي بھي سبب نافرماني پروردگار ہو جائے تو فوراً بلا فاصلہ توبہ کر کے خود کو پاک کرے اور عذاب و بلائے الٰہي سے خود کو محفوظ کرے۔کیونکہ اگر معارف اسلامي میں آخري وقت تک کي فرصت دي گئي ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تاخیر ضروري ہے بلکہ ممکن ہے عمداً توبہ میں تاخیر اور غفلت کرنے والے کا عذاب اور زیادہ ہو جائے اور آخري وقت توبہ کي فرصت و توفیق سے محروم رہ جائے تاخیر کا عذر اس صورت میں قابل قبول ہے جب انسان اس وظیفہ سے غافل تھا لہٰذا ایسے شخص پر ضروري ہے کہ جیسے ہي غفلت کي گرد ذہن سے چھٹے فرصت کو غنیمت جانتے ہوئے بارگاہ خدا وندي میں توبہ کرے۔ جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:’’عمل کرو! خدا تم پر رحم کرے۔ نیک عمل انجام دو کیونکہ ابھي بھي راہ کھلي ہے جو تم کو دار امن و امان کي جانب دعوت دے رہي ہے ۔ابھي بھي تم جس دنیا میں رہ رہے ہو خدا کي خوشنودي حاصل کر سکتے ہو۔ فرصت کو غنیمت جانو کہ ابھي بھي نامہ اعمال کھلا ہے اور فرشتوں کے قلم جاري ہیں ۔بدن ميں توان ،زبان میں یاراے سخن باقي ہے ،توبہ پر سماعت جاري اور اعمال صالح کي پذیرش ہے۔‘‘(خطبہ٩٤۔٨ )

ایک دوسرے مقام پر یوں فرماتے ہیں:’’اے بندگان خدا! ابھي بھي اعمال صالحہ کا موقع ہے ابھي موت کا پھندہ تنگ نہیں ہوا ہے،ابھي بھي روح کسب کمال کے لئے آزاد اور بدن آمادہ ہے، ابھي بھي جس حالت میں ہو ایک دوسرے کي مشکل کو حل کر سکتے ہو ،ابھي بھي فیصلے کا موقع اور اختیار ہے ،ابھي بھي توبہ کا دروازہ کھلا ہے اورابھي بھي گناہ سے پلٹنا ممکن ہے ۔توبہ کرو اس سے قبل کہ راہ نفس تنگ ہو جاے، موت تم تک پہنچ جائے اور تم خدا کي پکڑ میں آ جاؤ۔‘‘(خطبہ٨٣۔٦٠)

ب۔ توبہ میں تاخیر کے علل:

کلام امیرالمومنین ٴمیں توبہ میں تاخیر کے سلسلہ میں چند وجوہات بیان ہوئي ہیں:

١۔ طويل آرزوں کا دل میں ہونا: جب انسان بڑي بڑي آرزوں کو دل میں جگہ دیتا ہے تو ان آرزوں کا طوفان اس کے ذہن سے آخرت کا خیال اور خوف خدا جیسي نعمت کو دور کرديتا ہے نتیجہ میں انسان آخرت کو بھلا کر چند روزہ زندگي کے ایام میں مست ہو جاتا ہے اور توبہ کو آج کل پر موقوف کرتا جاتا ہے یہاں تک کہ موت سے گلے لگ جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:’’ان لوگوں میں مت ہو جاؤ جو بغیر عمل کے آخرت کي امید رکھتے ہیں اور طولاني اور بڑي آرزوں کے سبب توبہ میں تاخیر کرتے ہیں ۔‘‘(حکمت١٥٠)

٢۔ شیطان کا فریب تاخیر کا باعث بنتا ہے: شیطان جو انسان کا کھلا ہوا دشمن ہے اور جس نے بني آدم کو گمراہ کرنے کي قسم کھائي ہے ،مختلف روش و راستوں سے انسان کو حق سے دور کرنے کي کوشش کرتا رہتا ہے۔ کبھي ارتکاب گناہ پر آمادہ کرنے کے لئے معصیت کو خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے اورکبھي اپنے حربوں کے ذریعہ انسان کو توبہ سے دور کر دیتا ہے۔ جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:’’شیطان جو انسان کي گمراہي کے در پے ہے، گناہ کو خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے تاکہ انسان گناہ کا مرتکب ہو اور بے جاامید کے ذریعہ توبہ میں تاخیر کرواتا ہے‘‘ ۔(خطبہ ٦٤)

٣۔ گناہ کو معمولي جاننا: کوئي بھي گناہ نہ تو چھوٹا ہوتا ہے اور نہ ہي بڑا بلکہ ہر وہ عمل جو نافرماني پروردگار کا باعث بنے انسان کے لئے بڑا جرم ہے ، چاہے دیکھنے میں عمل کتنا ہي چھوٹا ہو لہٰذا کبھي بھي کسي گناہ کو معمولي نہ جانے۔ اگر کبھي بھي کسي بھي سبب گناہ سرزد ہو جائے تو توبہ کے ذریعہ اس کا ازالہ کر لیا جائے، خدا غفور رحیم ہے یقینا معاف کر دیگا لیکن اگر گناہ کو معمولي جانتے ہوئے توبہ کي ضرورت محسوس نہ کي جائے تو انسان کا یہ جرم اس گناہ سے کہیں شدید اور پر عذاب ہے جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں:’’بدترین گناہ يہ ہے کہ گناہ کرنے والا اس کو معمولي جانے۔‘‘ (حکمت٣٤٨)

٤۔ کچھ گناہ بغیر توبہ کے قابل بخشش نہیں :گناہ چاہے چھوٹا ہو یا بڑا ، چاہے حقوق اللہ کي منزل میں ہو یا حقوق الناس کي منزل میں ؛ہر صورت میں گناہوں کا ارتکاب،واجبات کا ترک کرنا نافرماني پروردگار ہے اور خدا اور اس کي رحمت سے دوري کا باعث ہے لہٰذا پہلي ہي فرصت میں ہر چھوٹے بڑے گناہ سے توبہ کرکے نامہ اعمال کو پاک و پاکیزہ کر لینا چاہئے لیکن کچھ ایسے گناہ بھي ہیں جن کي توبہ واجب اور ضروري ہے یعني کچھ ایسے گناہ ہیں جنکا کفارہ اعمال صالح بن جاتے ہیں کہ اگر توبہ بھي نہ کي جائے تو اس کي نیکي اس گناہ کي تطہیر کر دیتي ہے لیکن کچھ گناہ ایسے ہیں جن پر توبہ لازم ہے لہٰذا اگر بغیر توبہ کے انسان خدا کي بارگاہ میںحاضر ہو اب چاہے جتنے ہي اعمال انجام ديئے ہو ںاس کو فائدہ پہنچانے والے نہیں ہیں جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں:’’خداوند عالم نے کچھ واجبات کو قرآن میں بيان کياہے کہ بندہ کي جزا اور سزا اسي کے مطابق ہو گي اورخدا کي خشنودي اور نارضایتي اسي پر منحصر ہے وہ یہ ہے کہ اگر انسان دنیا سے اس حالت میں اٹھے اور اپنے پروردگار سے ملاقات کرے کہ کوئي ایک ناپسند صفت اس میں ہو اور اس نے اس پر توبہ نہ کي ہو اب چاہے عمل میں جتني ہي زحمتیں برداشت کي ہوں،عمل کو خالص بنایا ہو پر کوئي فائدہ نہ ہوگا۔وہ ناپسند دیدہ صفات یہ ہیں:

١۔ خدا کا شریک قرار دینا : ’’ان عبادت میں خدا کا شریک قرار دینا جسکو خدا نے بندوں پر واجب کیا ہے۔‘‘

٢۔ قتل :’’او يشفي غیظہ بھلاک نفس‘‘ ’’یا کسي کو قتل کرکے اپنا غصہ ٹھنڈا کرے۔‘‘

٣۔عیب جوئي کرنا: ’’او لعر با مر فعلہ غیرہ‘‘ ’’لوگوں کي عیب جوئي کرنا۔‘‘

٤۔ دین میں بدعت ایجاد کرنا: ’’لوگوں کے ذریعہ اپني ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے دین میں بدعت قائم کرنا۔‘‘

٥۔ منافقت کرنا:’’او یلقي الناس بوجھین‘‘’’لوگوں سے دورخي کے ساتھ ملنا۔‘‘

٦۔ سخن چیني کرنا: ’’او یمشي فیھم بلسانین‘‘’’لوگوں کے درمیان چغل خوري کرنا۔‘‘ (خطبہ ٥٣۔٩)

١۔ گناہ کے اثرات :

جس طرح انسان کي نیکیاں آخرت میں ثواب اور دنیا میں خیر و برکت اور دیگر اوصاف کي شکل میں ظاہر ہوتي ہیں اسي طرح انسان کا گناہ جہاں ایک طرف انسان کے نامہ اعمال کو داغدار بنانا ہے وہیں دوسري طرف دنیا میں بھي چند شکلوں میں رونماں ہوتا ہے اور انسان کو اس کے کيے کا احساس دلاتا ہے ۔کبھي انسان احساس کي اس آواز کو سن کر لبیک کہتا ہے تو کبھي خواب غفلت میں ہونے کي وجہ سے ہدایت ضمیر اور احساس کي آواز کو نظر انداز کرکے اپني بدحالي اور ناکامي کي مختلف توجیہ میں مصروف ہوتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے حالات اس کے گناہوں کا نتیجہ بن کر صفحہ وجود پر نمودار ہو تے ہیں ۔گناہوں کے ان آثار کو امیرالمومنینٴ کے کلام میں یوں دیکھا جا سکتا ہے:

١۔ گناہ، سلب آسایش اور زوال قوم کا باعث ہے: گناہ انساني کا ایک دنیاوي اثر یہ بھي ہے کہ انسان اور نعمت پروردگار کے درمیان میں رکاوٹ بن جاتا ہے نتیجہ میں انسان اپنے پروردگار کي نعمت سے محروم ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ آپٴ فرماتے ہیں:’’کسي بھي قوم سے نعمت نہیں چھیني جاتي مگر اس کے گناہ کي وجہ سے‘ ‘۔(خطبہ ١٧٨۔٦)

٢۔ گناہ ،خیر و برکات کو روک دیتا ہے:گناہ کا ایک نقصان یہ بھي ہے کہ وہ خیر و برکات کو انسان سے دور کر دیتا ہے نتیجہ میں زندگي بے رونقي اور نا امیدي کا محور بن کر رہ جاتي ہے مگر یہ کہ صدق دل سے بارگاہ خداوندي میں توبہ کرے اور اس کے امور کي اصلاح ہو جائے۔ جیسا کہ آپٴ فرماتے ہیں:’’خدا گناہ گاروں کي رزق کي کمي اور خیر و برکات کا دروازہ بند کرکے آزمائش کرتا ہے تاکہ بندہ توبہ کرے اور وہ سب دوبارہ جاصل کرے۔‘‘(خطبہ ١٤٣۔٣)

٣۔ گناہ، اموال میں کمي کا باعث ہے: گناہ انسان کے مال میں کمي کے ساتھ ساتھ اس سے خیر و برکات کو اٹھا لیتا ہے:’’خداگناہ کرنے والے بندوں کے مال میں کمي کر دیتا ہے۔‘‘(خطبہ ١٤٣۔٣)

٤۔ گناہ، انسان کي بربادي کا پیش خیمہ ہے:گناہ کا ایک اثر یہ بھي ہے کہ وہ انسان کو صفحہ ہستي سے نیست و نابود کر دیتا ہے۔ تاریخ کے دامن میں نہ جانے ایسي کتني قوموں کے واقعات ہیں جو پہلے نعمت و آسائش میں غرق تھیں لیکن ان کے گناہوں نے صرف نعمتوں کے چھیننے پر ہي اکتفا نہیں کي بلکہ ان کے وجود کو صفحہ ہستي سے مٹا کر رکھ دیا ۔ قرآن مجید میں بھي ایسي بہت سي قوموں کا تذکرہ ہے جن میں قوم عادو ثمود کا نام سر فہرست ہے جو اپنے گناہوں کے نتیجہ میں فنا ہو کر رہ گئیں لہٰذا گناہ گاروں کو متوجہ کرتے ہوے حضرتٴ فرماتے ہیں:’’خود کو حد سے زیادہ آزادي نہ دو کہ نفس تم کو بربریت کي طرف کھینچ لے جائے اور نفس کے ساتھ سستي سے کام نہ لو کہ ناگہاں گناہ تم کو برباد کر دے۔‘‘(خطبہ ٨٦۔٩)

٥۔ گناہوں سے نعمتیں سلب ہوتي ہیں:نہ جانے کتني نعمتیں ہیں جو ایک زمانے تک انسان میں پائي جاتي ہیں اور پھر گناہوں کے سبب وہ نعمت اس سے چھن جاتي ہے لیکن اگر صدق و صفا ے دل سے بارگاہ خدا میں توبہ کرے تو نہ صرف یہ کہ وہ نعمت اس کو دوبارہ حاصل ہو جاتي ہے بلکہ اس میں اضافہ بھي ہو جاتا ہے اوروہ مزید خیر و برکات سے روبرو ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو حضرت ٴ یوں بیان فرماتے ہیں:’’اگر نزول بلا کي گھڑي اور سلب ِنعمت کے وقت انسان بارگاہ پروردگار میں صدق نیت کے ساتھ توبہ کر لے تو بلائيں رد ہو جاتیں ہیں اور نعمتیں پلٹ آتیں ہیں ۔‘‘(خطبہ ١٧٨۔٧)

اس حقیقت کو حضرتٴ اس طرح بیان فرماتے ہیں:’’خدايا!ا میرے ان گناہوں کو معاف کر جو نعمت کے دروازے کو مجھ پر بند کر دیتے ہیں۔‘‘( دعاے کميل)

٦۔ گناہوں سے بلائیں نازل ہوتي ہیں:گناہ کا ایک بدترین نقصان یہ ہے کہ بلاؤں کو دعوت دیتا ہے۔ کبھي یہ بلا زمیني بلا کي مشکل میں ظاہر ہوتي ہے جیسے زلزلہ ،سیلاب ،زمین کا شق ہو جانا اور کبھي آسماني بلا کي شکل میں ظاہر ہوتي ہے جیسے اڑا لے جانے والي تیز آندھي،آگ کي بارش،پتھروں کي بارش جیسا کہ بعض گزشتہ قوموں کے ساتھ عذاب الٰہي کي يہ شکل ظاہر ہوئي اور قوم کو گناہ کے نتیجہ میں صفحہ وجود سے نابود کر دیا جس کا تذکرہ قرآن مجید میں تفصیل سے پایا جاتا ہے۔ قوم عادو و ثمود کي بربادي کا باعث بھي عذابي شکل میں نازل ہونے والي بلا تھي لیکن اگر انسان توبہ کر لے تو بلاؤں کو رد کر دیا جاتا ہے۔ اس حقیقت کو حضرتٴ اس طرح بیان فرماتے ہیں: ’’بلا کے نزول کے وقت اگر انسان صدق نیت کے ساتھ بارگاہ خدا میں توبہ کر لے تو بلائيں رد ہو جاتیں ہیں۔‘‘(خطبہ ١٧٨۔٧ )

اس حقیقت کا ذکر دعاے کمیل میں بھي اس تعبیر کے ساتھ آیا ہے:’’خدا میرے گناہوں کو بخش دے جو نزول بلا کا باعث بنتے ہیں۔‘‘

٧۔ گناہ باعث عذاب الھي ہے: اگر گناہ کے ہمراہ توبہ نہ ہو تو انسان کا عمل انسان کے لئے عذاب بن کر سامنے آ جائے یا دوسري تعبیر میں توبہ انساني ہے جو انسان اور عذاب الٰہي کے درمیان امن وامان کي دیوار بن کر انسان کو اپنے دامنِ امان میں سمیٹ لیتي ہے۔ جیسا کہ حضرت عليٴ فرماتے ہیں:’’زمین پر دو چیز عذاب الٰہي سے امان کا باعث ہے جس میں سے ایک اٹھا لي گي ہے پس دوسري نعمت کا دامن تھام لو ...،زمین پر باقي نعمت استغفار ہے‘‘۔(حکمت٨٨)

اس حقیقت کو دعاے کمیل میں حضرتٴ یوں بیان فرماتے ہیں:’’اللھم اغفرلي الذنوب التي تنزل النقم۔‘‘’’خدا يا! میرے ان گناہوں کو معاف فرما جو نزول عذاب کا باعث ہیں۔‘‘

٨۔ گناہ ،اخلاق رزیلہ کو جنم دیتا ہے: اگر انسان گناہ و نافرماني کا سدباب نہ کرے تو اس کا یہ گناہ نہ جانے کتني خباثتوں کو جنم دیتا ہے اور اخلاقي اعتبار سے انسان کو پست تر بنا دیتا ہے نتیجہ میں برائي انسان کے وجود میں سر اٹھانے لگتي ہے ۔جیسا کہ حضرتٴ فرماتے ہیں:’’لالچ،تکبر،حسد و بغض،اور غفلت و لاپرواہي گناہوں کا ثمرہ ہے۔‘‘(حکمت ٣٧١)

٩۔ گناہ دامن عفت کو داغدار بنا دیتا ہے: گناہ انسان کے صاف و شفاف دامن عصمت کو گندہ اور داغدار بنا دیتا ہے کہ جس کي سیاہي اس کے تقدیر کا اندھیرا بن جاتي ہے ’’ خدايا! میرے ان گناہوں کو بخش دے جو میرے دامن عصمت کو داغدار بناتے ہیں۔‘ ‘(دعائے کمیل )

١٠۔ گناہ قبولي دعا میں مانع بنتا ہے: گناہ دعا اور اس کي قبولي کے درمیان پردہ بن کر حائل ہو جاتا ہے مگر یہ کہ انسان توبہ کے ذریعہ اس رکاوٹ کو بر طرف کرے:’’خدايا! میرے ان گناہوں کو بخش دے جو قبولي دعا میں مانع بنتے ہیں۔‘‘(دعائے کمیل )

 


source : http://www.islamshia-w.com/Portal/Cultcure/Urdu/CaseID/55678/71243.aspx
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

يہ روايات امام حسن مجتبي (ع) کي شان و شخصيت کے ...
توسل کے بارے میں ایک جد وجھد
زکوٰة اور غربت کا خاتمہ
ذہنی امراض کا قرآنی علاج
اسلام ميں عزاداری کی اہمیت اور اس کا کردار
قرآن مجید میں آیا ہے کہ انسان کا رزق حلال ھونے کے ...
ہم فروع دین میں تقلید کیوں کریں ؟
معاشرے کي اصلاح ميں شيعہ علماء کا کردار
ایمان ابو طالب: مخالفین کے دلائل کا تجزیہ
قرآن، کائنات اور انسان

 
user comment