اردو
Friday 26th of April 2024
0
نفر 0

مرجعیت ماضی اور حال کے آئینہ میں

محمد بن یعقوب بن اسحاق کلینی راز ی جو کلینی یا ثقة الاسلام کے نام سے مشہور تھے کلین نامی گاؤں ،ان کا وطن یہ گاؤں شہر (رے) میں واقع ہے اسی وجہ سے (رے) کی طرف نسبت دیتے ہوئے آپ کو رازی بھی کہا جاتا ہے ۔ شیخ کلینیۺ کا انتقال ۳۲۹ ئھ میں ہوا۔ کافی نامی کتاب ، کتب اربعہ میں مشہور ترین کتاب ہے جوشیخ کلینیۺ کی کاوش کی نتیجہ ہے۔ 

تمام علمائے شیعہ ہمیشہ اس کتاب کی طرف مراجعہ کرتے رہے ہیں ،یہی کتاب حقیقت میں ان کا رسالہ عملیہ تھا۔

شیخ کلینیۺ کے پدر بزرگوار جناب یعقوب بن اسحاق کامزار مقدس بھی کلین میںآج تک عاشقان علم و عمل کے لئے مشعل را ہ بنا ہواہے۔

ثقة الاسلام کلینیۺ حضرت امام حسن عسکری- کے زمانہ حیات میںپیدا ہوئے او رامام عصر(عج) کے چاروں نمائندوں کے زمانوں کودرک کیا اپنے زمانے کے مشہور ومعروف عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ آپ شیعہ و سنی علما کے درمیان قابل احترام تھے دونوںفرقوں کے علما آپ سے دینی مسائل میں علمی فیض حاصل کرتے اور آپ کو مورد وثوق جانتے تھے اسی وجہ سے آپ کا لقب ثقةالاسلام پڑگیا اس وقت اس لقب کی بہت بڑی اہمیت تھی اور ان کے پہلے کسی کو اس لقب سے منسوب نہیں کیا آپ نے ۳۲۹ ئھ میں وفات پائی اورباب الکوفہ نامی محلہ میں دفن ہوئے۔

الکافی کے علاوہ بھی آپ نے دوسری بہت سی کتابیں تالیف و تصنیف کی جن میں پانچ کتابیں تقریباً الکافی ہی کی طر ح مشہور و معروف ہیں مثلاً: کتاب رجال ، ردبرقرامطہ ، رسائل ائمہ تعبیر رویا اور مجموعہ اشعار در مدح ائمہ ٪۔

ابن جنید اسکافی م: ۳۸۱ ئھ

آپ علی بن محمد سمری آخری نائب (سفیر) امام زمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ہم عصر تھے ، ابن جنید اسکافی کا انتقال ۳۸۱ ئھ ق میں ہوا ، صاحب جواہر نے اپنی کتاب جواہر الکلام کی اکیسویں جلد میں اسکافی سے اور دوسرے فقہا سے بھی نقل کیا ہے کہ اقامہ حدود ،غیبت کے زمانے میں ان فقہا کا کام ہے جو شریعت مقدسہ کے احکام سے آگاہ اور صاحب معرفت ہوں۔

ابو علی محمد بن احمد بن جنید کا تب اسکافی کو ابن ابی عقیل عمانی کے بعد فقہ استدلالی کا بانی مانا گیا ہے ۔ جنھوں نے فقہ شیعہ کو قواعد اصولیہ سے مرتبط کرکے ہمارے سامنے پیش کیا اورماسبق علما و فقہا کی طرح فقط کتاب و سنت کے مفاہیم اورمتون کومورد بحث قرار نہیں دیا بلکہ ان قواعد اصولیہ کے ذریعہ حل کیا ہے ۔

ا س کے علاوہ آ پ وہ پہلی شخصیت جنھوں نے فقہ شیعہ کے ساتھ ساتھ فقہ و اصول عامہ کے بارے میں جستجو کی ، جس کو آج کل فقہ مقارن کے نام سے یا د کیا جاتا ہے ۔

ابن جنید ۺ بلند پایہ کے علما وفقہا میں شامل تھے ،نقل حدیث میں موثق اور قابل اعتماد ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین مصنف بھی تھے۔

بعض علما ابن جنید کی تاریخ وفات ۳۸۱ ئھ سے پہلے ہونے کے قائل ہیں مگر اکثر علما رجال نے ۳۸۱ھء ہی تحریر کیا ہے اور لکھا ہے کہ آپ نے شہر رے میں وفات پائی۔

ابن ندیم نے اپنی کتاب فہرست تاریخ میں وفات ۳۷۱ ئھ لکھی ہے ۔

حسن بن علی بن ابی عقیل عمانی م: تقریباً ۳۵۰ ء ھ 

آپ کا شمار جعفر بن قولویہ قمی اور شیخ مفیدۺ کے اساتذہ میں سے ہوتا ہے جو فقیہ،متکلم اور بعض اجتہادی نظریات کے موسس بھی تھے ، اب تک علما فقہار متون حدیث سے استفادہ کرکے فتوے دیتے تھے جیسا کہ علی بن بابویہ اور ان کے بعد ابن ولید قمی نے متون حدیث کے ذریعہ مسائل شرعیہ کاحکم دیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علما فقہا احکام شرعیہ کو متون حدیث یا نواب اربعہ کے توسط سے حضرت ولی عصر (عج ) کے ذریعہ مسائل کو حل کرتے تھے ۔

سب سے پہلے جس شخصیت نے علم اصول سے استدلال کے کر کے مسائل فقہی کو حل کیا اور اس کے بارے میں ایک خاص نظریہ دیا وہ حسن بن عیسیٰ ابو علی معروف ابن ابی عقیل عمانی� ہیں اس لئے آپ کے موسس فقہ استدلالی بھی کہا جاتا ہے ۔

اگر چہ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ قوانین اصول اس سے نہ تھے نہ اس پرعمل کیا گیاتھا بلکہ ان سے پہلے فی الجملہ اجتہاد اور اصول کے قواعد پر عمل ہورہا تھا جسے ابن عقیل نے منظم طریقہ سے انجام دیا ۔

آپ نے آغاز غیبت کبریٰ کو در ک کیا او ر فقہ و اصول فقہ میں مہارت رکھنے کے ساتھ ساتھ علم کلام و عقاید کے بھی فنکار تھے بہت سی کتابیں تدوین کےں لےکن فقط ان کی دو کتابیں دستیاب ہیں شیخ طوسیۺ نے فہرست میں لکھا ہے کہ انھوں نے  المتمسک بحبل آل رسول اور کتاب الکر والفر تالیف کی ہیں۔

علی ابن بابویہ قمی ۺکے مختصر حالات ،م : ۳۲۹ ئھ

علی بن بابویہ قمی ۺ کو صدوق اول بھی کہا جاتا ہے اگر کہیں پر شیخ صدوق یا ابن بابویہ تحریر ہوتو اس سے مراد آپ کے فرزند محمد بن علی بابویہ ۺ لےکن اگر کہیں پر صدوقین تحریر ہوتو باپ بیٹے مراد لئے جاتے ہیں۔ نقل روایات میں موثق او ر قابل اعتماد تھے آپ کی کنیت ابوالحسن تھی و افر تعداد میںکتابیں تصنیف کی ۔ 

جناب علی بن بابویہ کی شخصیت کے بارے میں حضرت امام حسن عسکری - کی جانب سے ان کے نام خط ہے جس میں آپ نے یا شیخی و معتمدی و فقیہی کہہ کر خطاب فرمایا ہے۔

محدث قمی ۺلکھتے ہیں: جس سال تناثر نجوم ہوا اس سال کئی علمی شخصیت اس دنیا سے گئیں مثل علی بن محمد سیمری امام عصر (عج ) کے چوتھے نائب۔

شعر ملاحظہ فرمائےں:

السیمری عادل ذوالعزم

وقد توفی لسقوط النجم ۳۲۹ ئ

لہٰذا اکثر علما نے آپ کی تاریخ وفات ۳۲۹ ئھ تحریر کی ہے اور آپ نے قم المقدس کی سر زمین میں انتقال فرمایا اوروہیں پر دفن ہوئے۔

شیخ صدوق ۺمحمد بن بابویہ قمی م: ۳۸۱ ئھ

ابن بابویہ یا محمد ابن بابویہ یا شیخ صدوق ۺ ایک مشہور معروف شخصیت ہیں آپ کے پدر محترم علی بن بابویہ کے تراجم میںتحریر کیا ہے ان کو بھی ابن بابویہ کے نام سے پکارا جاتا تھا لےکن اگر کسی قید وبند کے بغیر ابن بابویہ استعمال ہوتو اس سے مراد بیٹے �محمد بن علی بابویہ کو لیا جاتا ہے اس اسی طرح صدوقۺ بطور مطلقہ بولا جائے تو اس سے مراد بھی بیٹا ہے نہ کہ باپ آپ کی ولادت حضرت امام عصر (عج) کی دعا ہوئی۔

آپ نے بہت سے علما سے حدیث سنی اور مختلف جگہوں پر سفر کیا جس کے نتیجہ میں من لا یحضر الفقیہ اور دوسر ی کتابیں تالیف کیں۔

آپ۳۴۷ ئھ سے رکن الدولہ دیلمی کی خواہش پر شہر رے میںآگئے تھے اور وہیں پر سکونت اختیار کر لی تھی۔

لےکن دیکھنا یہ ہے کہ آپ قم سے یہاں آئے یا خراسان سے ؟ جیسا کہ نجاشی نے آپ کو خراسان کی سر زمین پر ایک بر جستہ شخصیت کے عنوان سے روشناس کرایا ہے لیکن یہ بات واضح نہیں ہے کہ آپ کی خراسان میں طولانی سکونت ۳۵۲ ئھ کے بعد ہے یا ۳۴۷ ئھ سے پہلے۔

علما کی سوانح حیات ، رجا ل حدیث کی کتابوں سے یہ بات مسلم ہے کہ آپ نے عمدہ تعلیم و اعلیٰ علمی صلاحیتیں علمائے قم سے حاصل کیں او روہاں سے (رے) تشریف لے گئے اورسکونت اختیار کی ، یہیں سے ایران، عراق ،حجاز وغیرہ کے سفر کئے اورواپس رے آگئے اورگاہ گاہ قم آتے جاتے رہے ،شہررے اس وقت ایران میں رکن الدولہ کی راجدھانی تھا۔

شیخ طوسیۺ جو اسے واسطہ سے آپ کے شاگرد ہیں تحریر کرتے ہیں:

آپ ناقد حدیث ، حافظ حدیث اور صاحب نظر تھے تقریباً ۳۰۰ /سے زائد کتابیں تالیف کی، کمال الدین و تمام النعمة، مدینة العلم اور من لا یحضر الفقیہ آپ کی مشہور تالیف ہیں ،۳۸۱ ئھ میں وفات پائی اور شہر رے میں دفن ہوئے جہاں آپ کی آرامگاہ ابن بابویہ کے نام سے مشہور ہے۔

ابو عبد اللہ محمد بن محمد بن نعمان بغدادی�شیخ مفیدۺ � م:۴۱۳ ء ھ

آپ شیعہ فقہا میں عظیم شخصیت کے مالک ہیں ، ابن المعلم کے عنوان سے یاد کئے جاتے ہیں آپ کی ولادت ۳۳۶ ئھ اور وفات ۴۱۳ ئھ میں ہوئی آپ کی وفات پر حضرت مہدی (عج) کا مشہور معروف مصرعہ یہ ہے:

یومٌ علٰی آلِ الرَّسْولِ عَظِیُمٌ

یہ مصرعہ ابن معلم کی عظمت اور شخصیت کے لئے کافی ہے آپ متکلم، فقیہ اورجناب شیخ طوسیۺ، سید مرتضیٰ ۺ اور سید رضیۺ کے استاد تھے، کتب اربعہ میں کتاب تہذیب انھیں کی فقہی کتاب، مقنعہ کی شرح ہے ، شیخ مفیدۺ بغداد میں محلہ کرخ میں مسجد براثا کے اندر تدریس فرماتے اور اسی محلہ میں بڑے آرام و سکون سے زندگی گزارتے تھے کسی طرح کی کوئی مزاحمت نہ تھی۔

یہ تمام آزادی اس لئے تھی کہ اس وقت ایک طرف خلفائے فاطمی ،شیعہ اسماعیلی،مصرمیں برسر حکومت تھے دوسری طرف سیف الدولہ حمدانی ،شیعہ ،شام پر حکومت کررہے تھے ، شیخ مفیدۺ موثق اور قابل اعتماد تھے آپ کی کنیت ابو عبد اللہ تھی اور معلم و مفید ۺ کے نام سے مشہور تھے۔

علمائے رجال مثلاً: قاضی نور اللہ شوستری ،علامہ حلی ۺ اور دیگر علماو فقہا نے آپ کی وثاقت او ر اعلیٰ علمی صلاحیتوں کو سراہاہے۔

شیخ طوسیۺ نے آپ کی تاریخ ولادت ۳۳۸ ئھ اور نجاشی نے ۳۳۶ ئھ تحریر کی ہے ۔ نیز ۴۱۳ ئھ میں وفات پائی ،تحریر کیا ہے ۔

جب آپ کی وفات ہوئی تو آپ کے جنازہ میں اسی ہزار افراد نے شرکت کی تھی۔

سید مرتضیٰ ۺ علم الہدیٰ م: ۴۳۶ ئھ

سید مرتضیٰۺ جو علم الہدیٰ کے نام سے مشہور ہیں آپ کی ولادت ۳۵۵ ئھ اور وفات ۴۳۶ ئھ میں ہوئی،امامیہ مذہب کے بڑے فقہا میں شمار ہوتے ہیں آپ علوم معقول و منقول میں جامع تھے سنی شیعہ دونوں فرقہ کے فقہا ان کا احترام اور ان کی شخصیت کو قبول کرتے تھے ، علامہ حلیۺ نے اپنی کتاب �خلاصہ� میں سید مرتضیٰ کے بارے میں اس طرح تحریر فرمایا ہے:

علم الہدیٰ رکن امامیہ اور ان کے معلم تھے ان کے مصنفات ۶۹۳ ئھ تک فرقہ حقہ کے لئے قابل استفادہ رہے ہیں و ہ تیس سال تک امیر حاج و حرمین،نقیب الاشراف ، قاضی القضاةاورتمام تر مشکلات وشکایات کے مرجع تھے۔

سید مرتضیٰۺ ، علی ابن حسین بغداد کا لقب علم الہدیٰ اورذوالمجدین ہے دوالمجدین آپ کو اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپ کی عظمت و بزرگی کا تعلق عظیم المرتبت خاندان سے ملتا ہے او رچونکہ آپ کے خاندان میں عمر طولانی والے افراد گزرے ہیں لہذا پانچ واسطوں سے آپ کا تعلق امام موسیٰ بن جعفر - سے منسلک ہے ،سلسلہ نسب یوں ہے: علی ابن حسین بن محمد بن ابراہیم مجاب ابن موسیٰ ابن جعفر - اسی طرح سید مرتضیٰ ،ماں کی جانب سے علوی ہیں آپ کی مادر گرامی کا سلسلہ نسب امام زین العابدین - سے ملتا ہے،۔ آپ ناصر کبیر کی پوتی تھیں،ناصر کبیر چار پشتوں کے فاصلہ سے حضرت امام زین العابدین - سے مرتبط ہیں۔

سلسلہ نسب یوں ہے: فاطمہ بنت ابومحمد ناصر (ناصر صغیر) ابن ابی الحسین احمد ابن ابی محمد حسن ناصر کبیر حاکم دیلم ابن علی بن حسین بن عمر اشرف بن علی بن الحسین بن علی ابن ابی طالب ٪۔

خواب شیخ مفید ۺ

سید فخار موسوی حلیۺ سے منقول ہے:

ایک روز شیخ مفید ۺ نے خواب میں د ےکھا کہ جناب فاطمہ زہرا = امام حسن - اورامام حسین - کو لے کر خدمت شیخ مفید ۺ میں تشریف لائےں اور فرمایا : یہ میرے بیٹے ہیں ان کو علم فقہ اور احکام دینیہ سکھاؤ جیسے ہی یہ خواب دےکھا شیخ مفید ۺ بیدا ر ہوگئے اور تعجب میں تھے کہ آخر اس خواب کی کیا تعبیر ہے ، حسب معمول مسجد براثا میں تدریس کے فرائض انجام دینےکے چلے گئے کچھ دیر کے بعد دےکھا فاطمہ مادر سید مرتضیٰ و سید رضی دونوں فرزندوں کو لئے ہوئے مسجد میں آئےں اور کہا کہ یہ میرے بیٹے ہیں ان کو کو فقہ و احکام کی تعلیم دیں ، شیخ مفید ۺ سمجھ گئے یہی میرے خواب کی تعبیرہے ۔

آپ نے ۴۳۶ ئھ میں وفات پائی ،نجاشی ،شریف ابو یعلی محمد بن حسن سلار بن عبد العزیز نے غسل دیا اوران کے بیٹے نے ان کی نماز جنازہ پڑھی ،گھرہی میں دفن کئے گئے۔

شیخ الطائفہ ابو جعفر طوسیۺ م: ۴۶۰ ئھ

حوزہ علمیہ نجف اشرف کے بانی اور کتب اربعہ سے دو کتابوں � تہذیب� اور�استبصار� کے مولف تھے ، آپ نے النہایہ ،مبسوط اور کتاب الخلاف کے ساتھ ساتھ دیگر بہت سی فقہی کتابیں تالیف فرمائی ہیں۔ 

شیخ ابو جعفر ،شیخ الطائفہ، کے عنوان سے مشہور ہیں شہر بغداد جواس زمانے میں علوم و فرہنگ اسلامی کا مرکز تھا ۲۳/ سال کی عمر میں اس کی طر ف ہجرت کی اوروہاں پراپنے علم سے لوگوں کی ہدایت کے لئے ایسے باب کھولے جو آج تک مشعل راہ بنے ہوئے ہیں۔

آپ آخر عمر تک عراق میں رہے او راپنے استاد جناب سید مرتضیٰ ۺ کے بعد تمام علمی و فتوائی امور شیعہ کی ریاست و صدارت ان کی طرف سے آپ کی طرف منتقل ہوئی جس وقت ا ن کے گھر اورکتاب خانہ کی تباہی ہوئی اور ان کو جلاکر خاکستر کردیا گیا تو آپ نجف اشرف چلے آئے اورحوزہ علمیہ نجف کی بنیاد ڈالی ۔

ان کی کتاب نہایہ طلاب علوم دینی کی درسی کتاب تھی اس کے بعد کی دوسری کتاب مبسوط جدید مرحلہ کے اعتبار سے فقہی امور میں تشریح کے ساتھ شیعی فقہی کتاب تھی آپ نے خلاف نامی کتاب میں فقہا و علمائے اہل سنت اور شیعہ دونوں کی آرا کودرج کیا ہے ۔

شیخ طوسیۺ کی بیٹیاں فقیہہ اور فاضلہ تھیں ، ان کے بیٹے شیخ ابو علی مفید ثانی کے نام سے مشہور ہیں جو جلیل القدر فقیہ تھے آپ ۳۸۵ ء ھ کو شہر طوس میں پیدا ہوئے اور ۴۶۰ ئھ نجف اشرف میں وفات پائی، اپنے گھرہی میں دفن ہوئے جواس وقت مسجد طوسیۺ کے نام سے مشہور ہے۔

قطب الدین راوندی م : ۵۷۳ ئھ

جناب قطب الدین کا چھٹی صدی ہجری کے بزرگ فقہا میں شمار ہوتا ہے وہ مذہب جعفری کی ترویج واشاعت میں بڑا مقام رکھتے ہیں آپ نے �الخرائج اوالجرائح، قصص الانبیا، لب اللباب، شرح نہج البلاغہ اور فقہ القرآن جیسی نایاب و عمدہ کتابیں تحریر فرمائی ہیں۔

ان کی وفات ۳/ شوال ۵۸۳ ئھ کو ہوئی جن کی قبر صحن حرم معصومہ قم میں ہے ، ان کی مشہور کتاب فقہ القرآن ہے ۔ 

محمد بن ادریس حلیۺ م: ۵۹۸ ئھ 

چھٹی صدی ہجری کے باعظمت علمائے شیعہ میں سے تھے جنھوںنے اجتہاد کے نئے باب کی ابتدا کی ہے اس فقیہ بزرگ سے پہلے زیادہ تر جناب شیخ طوسیۺ کے فقہی اورا جتہاد ی نظریات ہی کی تابعیت ہوتی تھے مگر فقہی مسائل میں جدت وندرت کا نیاباب ابن ادریس حلیۺ نے کھولا ہے وہ خود عرب تھے مگر مع الواسطہ شیخ طوسیۺ ان کے جد مادری بھی کہے جاتے ہیں،حریت فکر میں معروف تھے جنھوں نے اپنے جد کے دبدبہ و ہیبت کو چیلنج کیا آپ ۵۵/ سال زندہ رہے اور ۵۹۸ ئھ میں وفات ہوئی ۔ ان کی نفیس وعمدہ کتاب (السرائر) مشہور ہے۔

خواجہ نصیرالدین طوسیۺ م: ۶۷۲ ئھ

جناب خواجہ نصیر الدین طوسیۺ کا ساتوےں صدی ہجری کے ان بزرگ فقہا میں شما رہوتاہے جو بیک و قت فیلسوف ،متکلم اور اپنے زمانے کے بڑے فقیہ تھے منطق و فلسفہ میں علامہ حلیۺ کے استاد تھے، خواجہ مرحوم کی بیشتر شہرت ان کے علم ریاضیات و نجوم وغیرہ میں مہارت اوردسترس کی وجہ سے تھی ، انھوں نے ایک رصد خانہ بھی شہر مراغہ میں بنایا تھا ان کی یادگار کے طور پر رہنے والی فقہی کتاب فوائد الفرائض ہے جو ۱۹۰/ صفحوں پر مشتمل ہے ۔

ان کی مشہور کتابیں یہ ہیں : شرح تجرید الاعتقاد ،شرح اشارات، تلخیص المحصل، اخلاق ناصری اور اور تحریر اقلیدس وغیرہ ۔ ایسے عظیم الشان جامع معقول و منقول شخصیت کی زندگی بڑے رنج و ملال کے ساتھ گ-ذری اس لئے کہ چنگیز ومغول کے فتنوں کا زمانہ تھا۔ 

خواجہ کی نظرمیں سیاست کا مفہوم یوں ہے:

الدین والملک تواٴمان لا یتم احدہما الابالاٰخر․

دین اورحکمت دونوں جڑواں ہیں ،کوئی ایک دوسرے کے بغیر کامل نہیں ہوسکتا ہے۔

یعنی دین ایک اساس ہے او رملک رکن ہے ۔ رکن کے بغیر اساس خراب ہے اور دین کے بغیر ملک بے نفع ہے۔

امامت کے بارے میں فرماتے ہیں:

الامامة ریاسة عامة دینیة مشتملة علی ترغیب عموم الناس فی حفظ مصالحہم الدینیة والدنیا

امامت ایک دینی ریاست عامہ ہے جو عوام الناس کی دینی و دنیوی مصلحتوں کی محافظ ہے۔

امام کی تعریف میں کہتے ہیں:

الامام ہو الانسان الذی لہ الریاسة العامہ فی الدین والدنیا بالاصالة فی دار التکلیف․

امام ایک ایسا انسان ہے جو اس دنیوی زندگی (دارالتکلیف) میں دین و دنیا کی ریاست عامہ رکھتاہو۔

محقق حلیۺ معروف بہ محقق اول م: ۶۷۶ ئھ

دوسرے علما کو بھی محقق کہا گیا ہے مگر اصطلاح فقہا میں جب بھی مطلق طور پر کسی کو محقق کے نام سے یاد کیا جاتاہ ے تو فورا انھیں کی شخصیت مراد ہوتی ہے آپ نے فقہ و اصول فقہ اوردیگر علوم میں بہت سی نایاب کتابیں تالیف و تصنیف کی ہیں جن میں شرائع الاسلام ،معارج ،معتبر ، المختصر النافع وغیرہ کافی مشہور ہیں ، محقق حلیۺ ایک واسطہ سے ابن ادریس حلیۺ کے شاگرد ہیں ،ا ن کا نام شیخ ابوالقاسم جعفر بن حسن بن یحییٰ بن سعید حلیۺ ہے۔

مشہور فیلسوف او رعلم حساب میں ماہر جناب خواجہ نصیر الدین طوسیۺ نے ان سے حلہ میں ملاقات کی اوران کے فقہی جلسہٴ درس میں شرکت کی ہے ۔

طلاب علوم دینی کے درمیان ان کی مشہور کتاب شرائع الاسلام  آج بھی قابل استفادہ ہے جو علمی او ر فقہی مسائل پر مشتمل ہے۔ 

حسن بن یوسف علامہ حلیۺ م: ۷۲۶ ئھ

جناب علامہ حلیۺ آٹھوےں صدی ہجری کے نایاب روزگار میں تھے ان کانام حسن بن یوسف علی بن مطہر حلی ۺ اور علامہ حلیۺ کی عرفیت سے مشہور تھے شیعہ امامیہ کے بزگرترین متکلمین ،فلاسفہ اور فقہا میں شما رہوتاہ ے جنھوںنے ایک سو سے زائد کتابیں فقہ ،کلام ،ریاضیات، نجو م اورد یگر علوم میں لکھےں ہیں۔ 

فقہ میں ان کی مشہور کتاب ارشاد، تبصرة المتعلمین، قواعد ،تحریر ،تذکرة الفقہا مختلف الشیعہ اور منتہی وغیرہ ہیں۔

فقہ میں وہ اپنے ماموں محقق حلیۺ اور فلسفہ و منطق میں خواجہ نصیر الدین طوسیۺ کے شاگرد تھے ، علمائے اہل سنت سے سنی فقہ کی تعلیم حاصل کی ۶۴۸ ئھ کو حلہ میں پیدا ہوئے اور ۲۶ ۷ ئھ میں وفات ہوئی۔

محمد بن مکی شہید اول م: ۷۸۶ ئھ

شم الدین محمد بن مکی ،عاملی ،نبطی ، جنرینی جو شہید اول کے نام سے معروف ہیں شیعہ فقہا میں عظیم شخصیت کے مالک ہیں وہ جنوب لبنان ،جبل عامل کے رہنے والے تھے جو شیعو کا مرکز رہاہے۔ 

آپ ۷۳۴ ئھ میں پیدا ہوئے اور ۷۸۶ ئھ میں مسلک مالکی کے نام نہاد فقیہ کے فتویٰ کی بناپر اور مسلک شافعی کے نام نہاد فقیہ کی تائید فتویٰ کی وجہ شہید کردیئے گئے۔

مقدس اردبیلی م : ۹۹۳ ئھ

مقدس اردبیلی دسویں صدی ہجری کے مفاخر علمائے شیعہ میں سے تھے جن کا زہد و تقویٰ فراست و ایمانداری ضرب المثل ہے آپ کا نام احمد بن محمد اردبیلی ہے پاکیزگی نفس کی وجہ سے مقدس اردبیلی کے نام سے مشہور ہیں اور فقہا و خواص کی زبان پر �محقق و مدقق اردبیلی� کی عرفیت سے یاد کئے جاتے ہیں ، اس شہرت کا سبب ان کی تحقیقی اور دقیق تالیفات ہیں ،ا ن کی تعریف و تمجید تمام علما و دانشمندوں کے درمیان تصور سے بالاتر ہے۔

جناب شیخ عباسۺ قمی نے مرحوم مجلسی سے نقل کیا ہے کہ احمد بن محمد ،محقق اردبیلی کا فضل وکرم ، زہد وتقویٰ، پاکیزگی نفس ، نفاست و فراست آخری درجہ تک تھی حد یہ کہ ان کے زمانے میں ان جیسا کوئی نہ تھا۔

شہید ثانی ۺ م:۹۶۶ ئھ

شیخ زین الدین علی بن احمد عاملی معروف بہ شہید ثانی ۹۱۱ ئھ میں پیداہوئے آپ دسویں صدی ہجری کے عظیم فقہا میں سے ہیں مختلف علوم میںدسترسی رکھتے تھے فقہ کے علاوہ اصول فقہ، منطق ، فلسفہ ، عرفان، نجوم اور طب میں مہارت حاصل تھی موصوف عمل کے لحاظ سے زہد و تقوی او پارسائی میں بھی مشہور تھے شاگر دوں کا بیان ہے کہ زمانہ تدریس میں اپنے امور معاش و زندگی کے لئے راتوں کو لکڑیاں ڈھوتے تھے ۔ جبل عاملی کے رہنے والے تھے لےکن کبھی کبھی ا ن کے دستخط میں الطوسی الشافی لکھا ہوا بھی دےکھا گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اہل طوس سے تھے۔

انھوں نے مصر،د مشق ، حجاز، بیت المقدس عراق اور استنبول کا سفر کیا ،اپنے اس سفر سے انھوں نے ہرجگہ علمی و عملی فائدہ اٹھایا ان کے سنی اساتذہ کی مقدار بارہ تھی ایک زمانے تک بعلبک میں جعفری ، حنفی ،شافعی، مالکی اور حنبلی پانچوں مذاہب کا درس دیتے تھے ان کی تالیفات بہت

زیادہ ہیں:

جن میں مشہور شرح لمعہ ہے دوسر ی کتاب مسالک الافہام ہے جوشرح شرائع الاسلام محقق حلیۺ ہے ، صاحب معالم ،شہید ثانی کے فرزند تھے، شہید ثانی ۹۶۶ ئھ میں شہید ہوئے قاضی صیدا کی کوشش سے مسجد الحرام میں گرفتار ہوئے اور قسطنطنیہ کے راستے میں شہید کئے گئے ان کے جسم مبارک کو دریا میں ڈال دیا گیا اور سر مبارک کو عثمانی بادشاہ کے پاس بھیجا گیا۔

شرح لمعہ دینی مدارس اورحوزہ علمیہ کے طلاب کے لئے درس کی اہم کتاب ہے۔

شیخ بہاء الدین معروف بہ فاضل ہندی م: ۱۱۳۷ ئھ

ابو الفضل بہا ء الدین محمد بن حسن اصفہانی جو فاضل ہندی کے نام سے مشہور ہیں اور ۱۰۶۲ ئھ میں پیدا ہوئے عہد صفوی کے عظیم ترین و بلند پایہ فقہا میں آپ کاشمار ہوتا ہے ۔ 

ان کی تالیف کشف اللثام ہے صاحب ریاض العلما نے اپنی کتاب میں ان کی بہت تجلیل کی ہے ۔

ان کے والد تاج الدین اصفہانی تھے جن کا انتقال ۱۰۹۸ ئھ میں ہوا، شیخ بہاء الدین اصفہانی جوانی کی عمر میں اپنے والد کے ساتھ ہندستان گئے او رجب واپس ہوئے فاضل ہندی کے نام سے شہرت پائی، فاضل ہندی تیرہ سال کی عمر میں درجہٴ اجتہاد پر فائز ہوئے جو حلیۺ کے مانند تھے ۔

ان کی مرجعیت مرحوم علامہ مجلسیۺ کے بعد ۱۱۱۰ ئھ سے ۱۱۲۵ ئھ تک تھی صاحب جواہر الکلام نے فاضل ہندی کے بارے میں یوں کہا ہے :

لو لم یکن الفاضل فی ایران ماظننت ان الفقہ صار الیہ․

جواہر الکلام کی پہلی جلد میں ۸۰/ بار آٹھوےں جلد میں ۱۳۸/ مقامات پر صاحب کتاب کشف اللثام کا ذکر ہے ان کی وفات بروز منگل ۲۵/ رمضان المبارک ۱۱۳۷ ئھ کو ہوئی۔

روح اللہ الموسوی �امام خمینیۺ � م : ۱۴۰۹ ئھ کی ولادت

امام خمینیۺ ۲۰/ جمادی الثانی ۱۳۲۰ ئھ ق مطابق سالروز ولادت حضرت سیدہ نساء العالمین فاطمہ زہرا = کو شہر خمین میں پیدا ہوئے آپ کے والد حضرت آیة اللہ شہید مصطفی موسویۺ نے حضرت آیة اللہ میرزائے شیرازی کے زمانے میں نجف اشرف اور سامرا میں اپنی تحصیلات کو مکمل کیا آپ کا شمار اپنے زمانے کے بزرگ علما اورمجتہدین میں ہوتا تھا ،شہرخمین اور اطراف میں آپ کی زعامت کا چرچا اور اس وقت طاغوتی طاقت اور شرپسند وں سے مد مقابل تھے چنانچہ آپ کو ذی الحجہ ۱۳۲۰ ئھ ق میں خمین اور اراک کے راستے کے درمیان ۴۷ / سال کی عمر میں گولی کا نشانہ بناکر شہید کردیا گیا ان کا جنازہ نجف اشرف منتقل کردیا گیا اوروہیں دفن کئے گئے۔

حضرت امام خمینیۺ کی سر پرستی ان کی پھوپھی صاحبہ اور مادر محترم بانو ہاجرنے کی ، آپ کی پھوپھی اور ما ں کا انتقال ۱۳۳۶ ئھ ق میں ہوا ۔

تعلیمی سلسلہ

آپ نے اپنے گھر سے تعلیم کا آغاز کیا ، معلم میرزا محمود سے پڑھنا سیکھا۔

۱۵/ سا ل کی عمر میں فارسی کی تعلیم کو مکمل کیا ، علوم اسلامی کو اپنے بڑے بھا ئی آیة اللہ پسندیدہ سے شروع کیا ، علم صرف، نحو اورمنطق انھیں سے پڑھتے رہے اور ۱۳۳۹ ئھ ق میں تکمیل تعلیم کے لئے اراک چلے آئے اس وقت حوزہ علمیہ اراک کو دیگر حوزات علمیہ کی طرف سے مرکزیت حاصل تھی اور حضرت آیة اللہ مرحوم حاج شیخ عبد الکریم حائری یزدی اس کے زعیم تھے۔

حضرت آیة اللہ مرحوم حاج شیخ عبد الکریم حائری یزدی ۺ نے نجف اشرف میں حضرت آیة اللہ العظمیٰ مرحوم سید فشار کی اور میرزائے شیرازی بزرگ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی جس وقت مرحوم حاج شیخ عبد الکریم حائری یزدیۺ شہر قم کے علما کی فرمائش پر ۱۳۴۰ ئھ ق میں اراک سے قم تشریف لے آئے تو امام خمینی ۺ آیة اللہ العظمیٰ شاہ آبادی اور حضرت آیة اللہ العظمیٰ مرحوم حاج شیخ عبد الکریم حائری یزدیۺ کی شاگردی کی اوربہت کم مدت میںدرجہٴ اجتہاد پر فائز ہوگئے ۔

جامعیت علم

امام خمینیۺ علم فقہ میں ممتاز شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ ہیئت ،فلسفہ اور عرفان میں مہارت تامہ رکھتے تھے ،فقہ و اصول میں آپ کے استاد حضرت آیة اللہ عبد الکریم حائری اور فلسفہ و عرفان میں حضرت آیة اللہ مرزا محمد علی شاہ آباد ۺ ی تھے نیز اخلاقیات میں حضرت آیةاللہ مرزا جواد ملکی تبریزی تھے۔

درس و تدریس

حضرت آیة اللہ العظمیٰ حائریۺ کے انتقال کے بعد در س فلسفہ کی کلاس میں سب سے زیادہ طلبہ آپ کے درس میں شرکت کرتے تھے جس وقت حضرت آیة اللہ العظمیٰ بروجردیۺ حیات تھے اور حوزہ علمیہ قم کی سر پرستی و زعامت انھیں کے عہدہ پر تھی تو آیة اللہ العظمیٰ امام خمینیۺ ان کے گہوارہ علم و ادب میں ایک اعلیٰ علمی صلاحیتوں کے حامل تھے اور آپ کی صلاحیتوں کی وجہ سے فقہ و اصول اور دیگر کلاسوں میں تشنگان علوم اہل بیت سب سے زیادہ شرکت کرتے تھے۔

رسالہ عملیہ

آیة اللہ بروجردیۺ کی وفات کے بعد قم المقدسہ کے علما و فقہا نے خواہش کی آپ رسالہ عملیہ چھپوائےں لےکن آپ تیا ر نہ ہوئے یہاں تک کہ کافی تعداد میں طلاب ، علما و فضلاٴ اور مدرسین حوزہ علمیہ قم اکھٹا ہوکر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے او ربے حد اصرار کے بعد تکلیف شرعی محسوس کرتے ہوئے فتووٴں کوچھاپنے کی اجازت دیدی او رمرحوم سید ابو الحسن اصفہانی کی کتاب وسیلة النجاة کے ساتھ آپ کے فتوئے چھپوائے گئے۔

کچھ مدت کے بعد جناب مرحوم سید محمد کاظمۺ یزدی کی کتاب عروة الوثقیٰ پر حاشیہ طبع ہوا اس کے بعد رسالہ عملیہ مومنین کے درمیان نشر کیا گیا بس اسی وقت سے حوزہ علمیہ قم کی زعامت و سرپرستی و تقلید مسلمین کی مرجعیت آپ کے عہد ہ پر آگئی۔

مرجعیت

امریکہ کے جاسوس او رصہیونسٹی جو ہمیشہ اسلامی دشمن رہے ہیں انھیں حضرت امام خمینیۺ کا سماج میں نفوذ پسند نہ تھا اس کی ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ لوگوں کو آپ کی تقلید سے دوررکھا جائے اورقوم و ملت کو ان کے رہنمائی اور رہبری سے محروم کیا جائے ۔

ایران میں جو بھی آپ کی مرجعیت اور اعلمیت کی بات کرتا اس کو جیل بھیج دیا جاتا یا جلاوطن کردیا جاتا۔

امام خمینیۺ کو بدنام کرنے کے لئے شاہ ایران کی سفارتےں جو مختلف ممالک میں تھیں ان کی سرگرمیاں ایسی تھیں جس سے ان کی شخصیت مجروح ہو اورمرجع وقت کی حیثیت سے نہ پہچانے جائیں لےکن حوزہ علمیہ قم اساتذہ اور دیگر مذہبی رہنماؤں نے آیة اللہ حکیم کی وفات ۱۳۴۸ ئہجری شمسی کے بعد امام خمینیۺ کی مرجعیت و اعلمیت کا اعلان کیا اس سلسلہ میں پوسٹر لگائے گئے ادھر امریکہ پوری دشمنی پر تلا ہوا تھا اس کی سازش سے ا مام خمینیۺ کی مرجعیت کا پر چار کرنے والوں کو جیل بھیجا جانے لگا مگر چاہنے والے اپنے ارادوں میں ثابت قدم رہے اور امریکہ کے اس شوم ارادہ کو پنپنے نہ دیا۔

امام خمینیۺ اورنہضت

رضا خان کی حکومت میں آپ نے اپنے مبارزات او رجہاد کا آغاز کیا او رطاغوت کے بالمقابل ڈٹ گئے حوزہ علمیہ قم میں حضرت آیة اللہ بروجردی کی زعامت تھی آپ ۱۳۴۱ ئھ ق اور ۱۳۴۲ ئھ ق میں موصوف کے مشہوروں سے آگے بڑھتے رہے۔

اسی الزا م میں آپ کوقید کر کے جیل میں ڈال دیا گیا ۸/ مہینہ جیل میں رہے لےکن پھر دوبارہ ۱۹۶۴ ءء اسی الزام میں گرفتار کر کے ترکیہ جلاوطن کردیا گیا آپ نے وہاں پر اپنی کاوشےں جاری رکھےں لہذا ۱۳/ مہر ۱۳۴۴ ئھ ش ۹/ جمادی الثانی ۱۳۸۵ ئھ ق بروز منگل ترکیہ سے نجف اشرف (عراق) بھیج دیا گیا جب آپ کو جلاوطن کرکے ترکیہ سے نجف اشرف بھیج دیا گیا تو وہاں آپ نے ولایت فقیہ کے عنوان سے در س دینا شروع کردیا جس نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا طلبہ کی تعدا بڑھتی رہی اور آپ کی فکروں نے ان کی ذہنوں میں جگہ لے لی ، نجف سے آپ کے بیانات ، پیغامات اور درسی کیسٹوں کے ذریعہ عوام میں شہرت ہوگئی اور روز بروز حامیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔

اسی وجہ سے شاہ ایران نے صدام پر زور ڈالا اور امام خمینیۺ کو عراق سے نکلوادیا او ران کے فرزند ارجمند جناب سید مصطفی خمینیۺ کو پوشیدہ طور پر یکم آبان ۱۳۵۶ ئھ ش مطابق ۲۳/ اکتوبر ۱۹۷۷ءء میں زہر سے شہید کر ڈالا ان تمام حادثات سے آپ ذرہ برابر نہیں گھبرائے اور سامراج کے خلاف اپنی جدو جہد کو جاری و ساری رکھا۔

ان ہی وجوہات کی بناپر آپ کو ۱۳/ ستمبر عراقی بعثی حکومت نے بھی عراق سے نکال دیا او ر وہاں سے آپ پیرس چلے گئے اور ۱۲/ بہمن ۵۷/ ۱۳۵۷ ئھ ش کو ایران کا اسلامی انقلاب کامیاب ہوا۔

انقلاب امام خمینیۺ کی حکیمانہ قیادت

معاشرہ میں ظلم و استبداد ، بدکاری و بے راہ روی کو دیکھتے ہوئے طالب علمی سے ہی امام خمینیۺ کے دل میں قوم کی خدمت کے ساتھ ساتھ اس کونجات دلانے کی فکر تھی فقہ و کلام اور عرفان کی کتابوں کی تصنیف و تالیف اور پھر حوزہ علمیہ قم میں شاگردوں کی تربیت ایک بہترین قیادت کی نشاندہی ہے لےکن دوسرا اہم دور جو اس کے بعد کا ہے وہ ۱۳۵۷ ء ہجری شمسی سے ۱۳۶۸ ئھ شمسی کا ہے جس میں زندان، ہجرت ، جلا وطنی اور قوم کے جوانوں کی شہادت کے ساتھ ساتھ اپنے نور نظر شہید مصطفی خمینیۺ کی شہادت بھی ہے لےکن اس کے باوجود امام خمینیۺ اپنے پیغامات کے ذریعہ نہضت و انقلاب کو کامیاب بنانے کی مہم میں لگے رہے اور وہ وقت بھی آیا کہ انقلاب کامیاب ہوا او ر حکومت قائم ہوئی اور پھر زمام حکومت کو آخری وقت تک سنبھالے رہے۔

عوامی حمایت

ایک عادل فقیہ کی مدبرانہ قیادت کے بغیر جہاں انقلاب کامیاب نہیں ہوسکتاتھا وہیں عوامی حمایت اگر نہ ہوتی تو بھی انقلاب کی کامیابی مشکل تھی ،یہ عمومی اور عوامی پشت پناہی فقیہ کی اطاعت کی نشاندہی ہے ، میدان عمل میں حاضر ہوکر قائد کی آواز پر لبیک کہہ کر عوام نے ثابت کردیا کہ ہم اس قیادت کی حمایت کرتے ہیں۔

قرآن میں سچے و پابند مومنین کی تعریف میں کثرت سے آیات پائی جاتی ہیں جن میں سورہٴ نور کی آیت یوں ہیں:

< اِنَّمَا الْمُوٴمِنُونَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا بِا للّٰہِ وَ رَسُولِہٖ وَ اِذَا کَانُوْا مَعَہ٘ عَلَی اَمْرٍ جَامِعٍ لَمْ یَذْہَبُوا حَتّٰی یَسْتَاذِنُوْہُ> (سورہ نور: آیت ۶۲․)

یعنی مومنین صر ف وہ افراد ہیں جو خدا اور رسول پر ایمان رکھتے ہوں اور جب کسی اجتماعی کام میں مصروف ہوں تو اس وقت تک کہیں نہ جائیں جب تک اجازت حاصل نہ ہوجائے۔

حقیقت امر یہ ہے کہ دیندار و باعمل او رایک قائد کے فرمانبردار مومنین کی شان یہ ہونی چاہئے کہ و ہ مجاہدانہ زندگی بسر کر کے ا ور ایک ایماندار سپاہی کے انداز میں اپنے رہبر کے اشارہ کا منتظر رہے تاکہ وہ جیسا بھی حکم دے ، مکمل تن دہی کے ساتھ اس پر عمل کرے۔

اسی قومی حمایت نے انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کیا ، قوم کی اس حمایت پر امام ہمیشہ قدردانی کرتے ہوئے ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔

توکل بہ خدا

امام خمینیۺ کا یقین اور خدا پر توکل ہمیشہ اتنا زیادہ رہا کہ و ہ اپنے فیصلوں میں اٹل رہے اوراستقلال واستقامت کا مظاہرہ کرتے رہے ، شرف وعزت سے بے نیازی او رخدا کو ہی سپر پاور سمجھنا امام خمینیۺ کا شعار تھا ،اللہ اکبر کے نعروں کی گونج انقلاب کی کامیابی اورحکومت میں استقلال کا سامان تھی ، اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دفاعی لحاظ سے کسی بھی ساز باز نہ کی۔

جہاں سب لوگ امریکہ کو سب کچھ سمجھتے ہیں اور اس کے سامنے جھکتے ہیں وہاں امامۺ نے اسے ہمیشہ شیطان بزرگ ہی گردانہ ہے فقیہ عادل ، مدیر ومدبر اور سیاست دان کی شان ہی یہی ہونی چاہیئے تاکہ سماج، اپنے پرائے ،دوست و دشمن کو خوب سمجھے اور پہچانے فقط خدا کے سامنے جھکنے اوردوسروں کو جھکنے کی تعلیم دے۔

سفر آخرت

امام خمینیۺ نے ہمیشہ دین اسلام کی خدمت کی او رکبھی بھی دشمن سے نہیں گھبرائے ، آپ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے نمونہ حیات تھے جس وقت زبان قلم خاموش تھی اہل سخن کی زبانوں پر پہرا ہونے کے باعث ان کے دم گھٹے جارہے تھے ، ہر چیز پر پابندی تھی اسلام ایران کی سرحدوں پر دم توڑ رہا تھا امریکہ اور دیگر اسلام دشمن ممالک اسلام کو زندہ در گور کر دینا چاہتے تھے ایسے بگڑے ہوئے ماحول میں آپ نے حق کے اظہار او ر باطل کی تردید سے ذرہ برابر دریغ نہیں کیا۔

یہی وجہ تھی کہ جب آپ نے ۱۳/ خرداد ۱۳۶۸ ئھ ش مطابق ۲۸ / شوال ۱۴۰۹ ئھ ق مطابق ۳/ جون ۱۹۸۹ ءء رات کے وقت اس دنیا سے رحلت کی تو ملت اسلامیہ خون کے آنسو رورہی تھی ہر گھر ماتم کدہ بنا ہو تھا۔

ملک و بیرون ملک اسلام کے چاہنے والوں نے فرض عزا کا اہتمام کر کے ان کی رحلت کو شدید رنج و غم سے تعبیر کیا ، حوزہ علمیہ قم میں زیر تعلیم ملک و بیرون ملک کے طلبا اور ایران کی کل آبادی کے پانچوےں حصہ نے آپ کی نماز جنازہ اور تشییع جنازہ میں شرکت کی۔

اسی طرح جس وقت آپ پیرس سے ایران آئے تھے تو تقریباً چھ ملین افراد نے استقبال کیا لےکن نماز جنازہ میں تقریباً نو ملین افراد نے شرکت کی اور اپنی عقیدت کا ثبوت دیا۔

تہران کے سب بڑے قبرستان �بہشت زہرا� میں قم و تہران � ہائی وے� کے کنارے دفن ہوئے آپ کا مرقد مطہر ، اسلام دوست افراد کے لئے مشعل راہ ہے ۔


source : http://www.imamhasanaskari.com/urdu/data/marjaiat.htm
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کتاب علی علیہ السلام کی حقیقت کیا ہے؟
سفر امام رضا (ع)، مدینہ تا مرو
ماہ رمضان المبارک خطبۂ شعبانیہ کے آئینہ میں
دین است حسین(ع) / دیں پناہ است حسین(ع)
شیعوں کاعلمی تفکر
علامات شیعہ از نظر معصومین علیھم السلام
حدیث غدیر پر علمائے اہلسنت کے اعتراضات اور ان کے ...
دو سوالوں کے جواب اکیسویں فصل
حج کی مادی اور دنیاوی برکتیں
عزاداری امام حسین علیہ السلام

 
user comment