اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

انقلاب حسيني کے اثرات وبرکات

حق کي فتح ہوئي اور باطل نابود ہوگيا اور بے شک باطل زوال پذير اور ختم ہو جانے والا ہے۔ يہ سنت الہي ہے جو مخلوقات کے درميان جاري ہے اور سنت الہي ميں تبديلي کاکوئي امکان ہي نہيں ہے۔ 

کربلاميں دو جماعتيں ايک دوسرے کے خلاف برسرپيکار ہوئيں۔ ايک حق کي جماعت تھي اور دوسري باطل کي۔ ايک جماعت الہي اہداف کوعملي جامہ پہنانے آئي تھي اوردوسري جماعت شيطاني مقاصد کو پورا کرنے۔ ايک طرف نوع انساني کانجات کا ضامن تھا اوراس کي تباہي وبربادي کاذريعہ! کچھ لوگ حق کاپرچم لہرانے آئے تھے اور کچھ لوگ باطل کاعلم گاڑنے! ايک گروہ مظلوموں اورمستضعفين کے حقوق کا محافظ تھا اور دوسرا گروہ حق انساني کي پائمالي کاعلمبردار! 

يہ جنگ جسموں اورظاہري انسانوں کے درميان نہيں تھي بلکہ يہ جنگ اہداف و نظريات کي جنگ تھي۔ يہي وجہ ہے کہ يزيدمات کھاگيا اورحسين کامياب وکامران ہوگئے حسين شہيدہوگئے اورظاہري طورپراس دنياسے چلے گئے ليکن سيدالشہداء اورآپ کے انصار و اعوان کي مظلومانہ شہادت نے پورے اسلامي معاشرے ميں بيداري کي لہر پيداکردي، اسلامي رکوں ميں تازہ خون گردش کرنے لگا، مظلوموں اور ستمديدہ لوگوں پرچھايا ہوا سکوت توڑديا، ظالموں اورجابروں کے خلاف آوازيں بلندہوئيں، لوگوں کے ذہنوں کوبدل ڈالااوران کے سامنے حقيقي اورخالص اسلام کا تصورپيش کيا۔ يہ تصادم اوريہ جنگ اگرچہ ظاہري طورپرايک ہي دن ميں تمام ہواليکن طول تاريخ ميں ہميشہ اس کے آثاروبرکات ظاہرہوتے گئے اورجوں جوں تاريخ آگے بڑھتي گئي اس کے نتائج سامنے آتے گئے اہل حرم کي اسيري ہي سے اس کے سياسي اثرات لوگوں پرآشکارہوگئے، جب اسراء کو”شام“ کي طرف لے جاياجارہاتھا تو”تکريت“ پہونچنے پروہاں کے مسيحي،اپنے کليساؤں ميں جمع ہوئے اورغم ومصيبت کابينڈ بجانا شروع کرديا اوريزيدي فوجوں کو اس جگہ پرداخل ہونے کي اجازت نہ دي۔ جب شہر”لينا“ پہونچے تو اس شہرکے لوگ جمع ہوگئے اور امام حسين اور ان کے انصار و اعوان پر درود و سلام اور امويوں پر لعنت بھيجنے لگے اور يزيدي فوجوں کو وہاں سے باہرنکال ديا،جب يزيدي فوجوں کوپتہ چلا کہ شہر”جہينہ“ کے لوک بھي فوجوں سے لڑنے کو تيارہوئے ہيں تو فورا وہاں سے فرار کر گئے۔ جب قلعہ ”کفرظاب“پہونچے تو وہاں کے لوگوں نے بھي شہرکے اندرآنے سے انہيں روک ديا اورجب ”حمص“ پہونچے تو وہاں کے لوگوں نے يزيد اور يزيدي لشکرکے خلاف زبردست مظاہرے کئے اوريہ نعرے لگائے کہ ”اکفرابعدايمان وضلالابعدہدي“ يعني کياہم ايمان کے بعدکفراورہدايت کے بعدگمراہي اختيار کريں صرف يہي نہيں بلکہ ان سے متصادم بھي ہوئے اوربہت سوں کوواصل جہنم بھي کيا۔ (فرہنگ عاشورا،ص۲۴۱)۔ 

عاشوراکے اثرات :

عاشوراکے واقعہ نے انقلاب برپاکرديا، غفلت کي نيندميں پڑے ہوئے لاپرواہ لوگوں کوبيدارکرديا، مردہ ضميرانسانوں کوزندہ کرديا،مظلوميت اورانسانيت کي فرياد بلندکردي اور پوري دنيائے انسانيت کومتاثرکرديا۔ ان بے شمار آثارميں سے چندايک ملاحظہ ہوں: 

۱۔ بعض لوگوں کے افکار پر بني اميہ کاجوديني اثر و رسوخ تھا وہ محو ہوگيا۔ کيونکہ نواسہ رسول خدا کي مظلومانہ شہادت نے ابني اميہ کي حکومت کوبے اساس اور جہالت پرمبني، ثابت کرديا اور ان کے ظلم وستم کو اسلامي معاشرے ميں فاش کرديا جس پرہزاروں طرح کے فريب اوردھوکے بازي کے پردے پڑے ہوئے تھے۔ 

۲۔ مسلم معاشرے کو شرمساري گناہکاري کااحساس دلايا۔ کيونکہ حق حقيقت کي نصرت نہيں کي اورنہ ہي اپنے وظيفے کوانجام ديا۔ اسلام کي حفاظت ہرمسلمان پر واجب اوراسلامي تعليمات کي نشرواشاعت اور ان کانفاذ ہرمسلمان کا وظيفہ ہے۔ امام حسين نے اپنے وظيفہ پرعمل کرکے ہميشہ کے لئے مسلمانوں کو اپني ذمہ داري کا احساس دلايا۔ 

۳۔ ظلم وجورکے خلاف آوازبلندکرنے اوراس کامقابلہ کرنے کے لئے ہرطرح کے خوف وہراس اوررعب ودہشت کوختم کرديا،جواس وقت مسلمانوں اوراسلامي معاشرے پرطاري تھا۔ اورمسلمانوں مجاہدوں کے اندرجرات،شہامت،دليري اوربہادري کاجذبہ پيداکرديا۔ 

۴۔ دنياکے سامنے يزيديوں اوراموي حکومت کوذليل ورسواکرديااوران کي اسلام دشمني کوواضح کرديا۔ 

۵۔ انقلابي اوراصلاحي جنگوں کي حوصلہ افزائي اوران کي پشت پناہي کي اور لوگوں کو آزادي اور آزادگي کا درس ديا۔ 

۶۔ ايک نئے انساني اوراخلاقي مکتب کي بنياد ڈالي جوانسانيت کي پاسداري اوراخلاقي قدروں کي پاسباني کاضامن ہے۔ 

۷۔ متعددمقامات پرمختلف ظالم حکومتوں کے خلاف نئے نئے انقلاب برپاکئے جہاں لوگوں نے حماسئہ کربلاسے درس ليتے ہوئے ظلم کے آگے جھکنے سے انکار کرديا اور اپنے اسلامي مذہبي حقوق کو واپس لينے کے لئے ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ 

۸۔ طول تاريخ کي تمام آزادي اور انقلابي تحريکيں عاشورا کي مرہون منت ہيں، جہاں سے ابھوں نے مقاومت،مجاہدت،شہامت،شجاعت اورشہادت کاتکا تصورلے کراپني فتح کي ضمانت کردي۔ 

۹۔ کربلااورعاشورا،مسلمان انقلابي نسلوں کے لئے،عشق وايمان اور جہاد و شہادت کي ايک يونيورسٹي بن گيا۔ 

عاشوراکے برکات و ثمرات:

۱۔ اسلام کي فتح ہوئي اورمٹنے سے محفوظ رہا،کيونکہ منصب الہي پرغاصب خود ساختہ اميرالمومنين يزيدنے اپنے شيطاني کرتوتوں سے اسلام کے نام پراسلام کو اتنا مشتبہ کردياتھا کہ حقيقي اسلام کي شناخت مشکل ہوگئي تھي، قماربازي، شراب خواري، نشے کا استعمال، کتوں سے کھيل کود، رقص اورعيش ونوش کي محفلوں کا انعقاد، غيراسلامي شعائر کي ترويج اوراشاعت، رعاياپرظلم وجور،حقوق انساني کي پائمالي،لوگوں کي ناموس کي بے حرمتي وغيرہ جيسے بعض ايسے نمونہ ہيں کہ يزيد نے حاکم اسلامي کے عنوان سے اپناروزمرہ کامعمول بنارکھاتھا،اورلوگ اسي کواسلام سمجھتے تھے امام حسين نے اپنے قيام کے ذريعہ حقيقي اسلام کويزيدي اسلام سے الگ کرکے پہچنوايااورديناپريہ واضح کردياکہ”يزيد“ اسلام کے لباس ميں سب سے بڑي ”اسلام دشمن“ طاقت ہے۔ 

۲۔ اہل بيت اطہارکي شناخت اس امت کے مثالي رہبر کے عنوان سے ہوئي، پيغمبر اسلام کے بعداگرچہ مسلمانوں کي تعداد کئي گنازيادہ بڑھ گئي تھي ليکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نامناسب قيادت اورغيرصالح نام نہاد رہبري کي وجہ سے مسلمان اصل اسلام سے دورہوتے گئے مفادپرست حاکموں نے اپنے ذاتي منافع کے تحفظ کي خاطرحلال محمدکوحرام اورحرام محمدکوحلال قراردے ديااوراسلام ميں بدعتوں کاسلسلہ شروع کرديا،تاريخ گواہ ہے کہ صرف پچيس سال رحلت پيغمبراکرم کوگذرے تھے کہ جب حضرت علي نے مسجدنبوي ميں ۳۵ہجري ميں نمازپڑھائي تولوگ تعجب سے کہنے لگے کہ آج ايسے لگا،خودپيغمبرکے پيچھے نمازپڑھي ہو، ليکن ۶۱ھ ميں اب نمازکاتصورہي ختم ہوگياتھاايسے ميں پيغمبراکرم کے حقيقي جانشين نے ميدان کربلاميں تيروں، تلواروں اور نيزوں کي بارش ميں، تيروں کے مصلے پرقائم کرکے اپني صالح رہبري اور اسلام دوستي کاثبوت دے ديااوريہ واضح کردياکہ اسلام کاحقيقي وارث ہروقت اور ہر آن اسلام کي حفاظت کے لئے ہرطرح کي قرباني دے سکتاہے۔ 

۳۔ امامت کي مرکزيت پرشيعوں کااعتقادمستحکم ہوگيادشمنوں کے پروپيگنڈوں اورغلط تبليغاتي يلغارنے بعض شيعوں کے اعتقادات پرغيرمستقيم طورپرگہرا اثر ڈال رکھاتھا حتي کہ بعض لوگ امام کومشورے دے رہے تھے کہ آپ ايساکريں اورايسانہ کريں بعض لوگوں کي نظرميں امامت کي اہميت کم ہوگئي تھي۔ امام حسين کے مصلحانہ قيام نے ثابت کردياکہ قوم کي رہبري کااگرکوئي مستحق ہے تووقت کاامام ہے اور بطوراحسن جانتاہے کہ کس وقت کونسا اقدام کرے اورکس طرح سے اسلام اصيل کومٹنے سے بچائے۔ 

۴۔ لوگوں کو آگاہ رکھنے کے لئے منبروعظ جيسااطلاع رساني کاايک عظيم اور وسيع نظام قائم ہوا۔مجالس عزاداري کي صورت ميں ہرجگہ اور ہر آن ايک ايسي ميڈيا سيل وجود ميں آگئي جس نے ہميشہ دشمنوں کي طرف سے ہونے والي مختلف سازشوں، پروپيگنڈوں اورثقافتي يلغارسے آگاہ رکھااورساتھ ساتھ حق وصداقت کاپيغام بھي لوگوں تک پہونچتارہا۔ 

۵۔ عاشورا،ظلم،ظالم،باطل اوريزيديت کے خلاف انقلاب کاآغازتھا۔ امام حسين نے يزيدسے صاف صاف کہہ دياتھا کہ ”مثلي لايبايع مثلہ“ مجھ جيساتجھ جيسے کي بيعت نہيں کرسکتا،يعني جب بھي يزيديت سراٹھائے گي توحسينيت اس کے مقابلے ميں ڈٹ جائے گي جب بھي يزيديت اسلام کوچيلنج کرے گي توحسينيت اسلام کوسربلندرکھے گي اوريزيديت کونابودکرے گي يہي وجہ ہے کہ عاشوراکے بعد مختلف ظالم حکمرانوں کے خلاف متعددانقلاب رونماہوئے اورباطل کے خلاف رونماہونے والے کامياب ترين انقلاب ميں ايران کااسلامي انقلاب ہے جس نے ڈھائي ہزارسالہ آمريت کوجڑسے اکھاڑپھينکا اور اس باقي رکھنے کي سفارشات کيں۔ اوريہ عزاداري گريہ وزاري، رونا اور رلانا، مجالس، ذکرمصيبت، مرثيہ، نوحہ وغيرہ کي شکل ميں پيش کي جاتي ہے،اوريہي عزاداري ہے کہ جس کي بناء پرآج تک دين اسلام زندہ اورباقي ہے۔ 

انقلاب کے عظيم رہبرامام خميني نے صاف صاف فرماياکہ ”ہمارے پاس جوکچھ ہے سب اسي محرم اورصفرکي وجہ سے ہے لہذايہ اسلامي انقلاب، عاشوراکاايک بہترين اورواضح ترين ثمرہ ہے جووقت کے يزيدوں کے لئے ايک بہت بڑاچيلنچ بن گياہے جس کومٹانے کے لئے اس وقت پوري دنيامتحدہوگئي ہے۔ 

ليکن ہماراعقيدہ ہے کہ يہ انقلاب حضرت قائم (عج) کے انقلاب کامقدمہ ہے اوريہ انقلاب ،انقلاب مہدي(عج) سے متصل ہوکررہے گا انشاء اللہ۔ 


source : http://www.alhassanain.com/urdu/show_articles.php?articles_id=661&link_articles=holy_prophet_and_ahlulbayit_library/imam_hussein/inqilaab_e_hussain_kay_asraat
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اعتدال اور میانہ روی
حدیث ثقلین پر ایک نظر
امام کي شخصيت اور جذبہ
25 شوال المکرم؛ رئیس مذہب حضرت امام جعفر صادق علیہ ...
حضرت علی علیہ السلام کا جمع کردہ قرآن
مسئلہ تحریف قرآن
اسلام نے زمانے کو عزت بخشي
علم آیات و احادیث کی روشنی میں
ماں باپ کے حقوق
ثوبان کی شخصیت کیسی تھی؟ ان کی شخصیت اور روایتوں ...

 
user comment