اردو
Friday 26th of April 2024
0
نفر 0

نظریہ رجعت

دعا کرتا ہوں کہ خالق حقیقی معرفت حق حاصل کرنے اور اہل حق کی اتباع و اتابعداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(الہیٰ آمین)اگرچہ علمائ اعلام نے اس موضوع پر مختلف انداز میں سیر حاصل تبصرے کیے ہیں جو طالب حق کے لیے کافی نہیں لیکن اپنی مغفرت و سعادت اور مومنین کرام کی جلائے ایمان میں اضافے کی خاطر قدرے بحث کی جاتی ہے۔

رجعت کا مفہوم:

رجعت کا مطلب یہ ہے کہ جس وقت قائم آل محمد۰ امام مہدی آخرالزمانٴ کا ظہور پر نور ہو گا تو اس وقت بعض انبیائ سلف، خاتم المرسلین و آئمہ علیہم الصلوۃ والسلام مومنین حقیقی (یعنی کامل مومن) اور بعض کفار و منافقین کو دنیا میں دوبارہ بھیجا جائے گا اور اہلبیتٴ دنیا میں حکومت کریں گے اور قاتلان انبیائ و رسل اور قاتلان آئمہ طاہرینٴ سے عذاب یوم قیامت سے قبل انتقام لیا جائے گا۔

عقیدہ رجعت اور اثنا عشریہ:

تمام علمائ حقہ کا اجماع اور اتفاق ہے رجعت کے صحیح و برحق ہونے پر اور آیات و روایات کثیرہ بھی دلالت کرتی ہیں ان کا بیان اپنے مقام پر آجائے گا بایں ہمہ افسوس یہ ہے کہ مخالف مذہب حق ہمیشہ فرقہ محقہ پر طعن و تشنیع کرتے رہے ہیں لیکن حق ایک ایسی حقیقت ہے کہ اس کو جتنا چھپانے کی کوشش کی جائے اتنا ہی آشکار ہوتی ہے۔لہذا جو شخص عقیدہ رجعت کا انکار کرے گا وہ مذہب حق اثنا عشریہ کے دائرہ سے خارج ہو جائے گا جیسا کہ حق الیقین میں معصومینٴ سے مروی ہے لیس منا من لم یقربرجعتنا یعنی جو شخص ہماری رجعت کا منکر ہے وہ ہم سے نہیں ہے۔

عقیدہ رجعت اور کلام الہیٰ:

قرآن حکیم کی متعدد آیات عقیدہ رجعت پر دلالت کرتی ہیں ان میں سے چند آیات ذکر کی جاتی ہیں۔

پہلی آیت:

صدوق العلماء جناب شیخ ابو جعفر محمد بن علی المعروف الشیخ الصدوق نے اپنے اعتقاد پہ رسالہ میں فرماتے ہیں رجعت سے متعلق ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ وہ بر حق ہے اور اللہ اپنی کتاب عزیز میں فرماتا ہے الم تر الی الذین خیر جوامن دیارھم وھم الوف حذر الموت فقال لھم اللہ موتوا ثم احیاھم۔

کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے گھروں سے موت کے ڈر سے نکل پڑے اور وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے خدا نے ان کو حکم دیا کہ مر جاؤ (جب وہ مر گئے تو) پھر انہیں خدا نے زندہ کیا۔

(ان لوگوں کی داستان کچھ اس طرح سے ہے) کہ یہ لوگ سترہ ہزار گھروں میں زندگی گزارتے تھے ہر سال انہیں طاعوں کا مرض آ جاتا تھا تو مالدار تو اپنی قوت و دولت کی بنائ پر (گھروں سے باہر) نکل جاتے تھے لیکن غریب و نادار لوگ اپنی کمزوری و غربت کی وجہ سے رہ جاتے تھے (باہر نہیں نکلتے تھے) نتیجتاً جو لوگ باہر نکل جاتے وہ بہت کم طاعون کا شکار ہوتے اور لوگ باہر نہ نکلتے تھے بلکہ گھروں میں ہی رہ جاتے وہ بکثرت اس میں مبتلا ہو جاتے تو باقی رہنے والے کہتے کاش ہم بھی نکل سکتے تو طاعون جیسی مرض سے بچ نکلتے باہر جانے والے لوگ کہتے کہ اگر ہم بھی وہاں مقیم رہتے تو جس طرح ان لوگوں پر مصیبت نازل ہوتی ہے ہم بھی اس وقت میں گرفتار ہو جاتے۔

ان تمام لوگوں نے اس بات پر اتفاق کر لیا کہ اب جب وبائے طاعون کا وقت آتے تو تمام کے تمام گھروں سے نکل جائیں چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور سب گھروں سے باہر نکل گئے اور اورایک دریا کے کنارے اقامت لے لی اور اس وقت خدائے جبار نے آواز دی کہ تم سب کے سب مر جاؤ وہ تمام مر گئے راہگزاروں نے ان کو راستے سے ہٹا دیا اور جب تک خدا نے چاہا وہ اسی حال میں پڑے رہے یہاں تک کہ انبیائ بنی اسرائیل میں سے ایک نبی وہاں سے گزرے جن کو ارمیائ کہا جاتا تھا اس نبی نے بارگاہ خدا میں عرض کی پروردگارا اگر تیری مشیت ہوت و ان کو دوبارہ زندہ کر دے تا کہ یہ تیرے شہروں کو آباد کریں اور تیرے عبادت گزاروں سے مل کر تیری عبادت کریں خدا نے ان کی طرف وحی کی کہا میں آپ کے سبب سے اپنے نبی وسیلہ سے انہیں دوبارہ زندہ کر دیا اور ان تمام کو جنابٴ کے ساتھ بھیج دیا (یعنی ان کو بعد از مرگ دوبارہ رجعت ہوئی) پھر ان کو اپنی اپنی مقررہ مدتوں پر موت آئی۔ 

دوسری آیت:

رجعت کے اثبات میں شیخ صدوق۲ نے ایک اور آیت سے اشارہ فرماتے ہیں وہ اسی طرح خدائے تعالیٰ ایک اور مقام پر فرماتا ہے اس شخص کا واقعہ یاد کرو جو ایک بستی کے پاس سے اس وقت گزرا جب کہ وہ اپنی چھتوں کے بل اوندھی پڑی ہوئی تھی اس شخص نے (تعجب سے) کہا اس کے ختم ہو جانے کے بعد خدا کیونکر اسے زندہ کرے گا تو خدا نے اس شخص کو سو برس تک موت دے دی پھر اسے زندہ کر دیا اور فرمایا یہاں کتنی دیر تک پڑے رہے ہو توپھر فرمایا اب اپنے کھانے بعد پانی کو دیکھو جن میں ابھی تک بد بونہیں پڑی اور اپنے گدھے کو بھی دیکھو یہ سب کچھ اس لیے کہ ہم تمہیں اپنی خاص نشانی قرار دیں انسانوں کے لیے۔

فرمایا اب گدھے کی ہڈیوں کی طرف دیکھو ہم کس طرح ان کو زندہ کرتے اور ان پر گوشت چڑھاتے ہیں پس جب اس پر (حقیقت) واضح ہو گئی تو کہنے لگا مجھے یقین کامل ہے کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے۔

عقیدہ رجعت پر طعن و تشنیع کی زبان دراز کرنے والوں کو دعوت ہے کہ ذرا اس شخص کی طرف نظر معرفت کریں جو سو سال تک مردہ پڑا رہا ہو خدا نے اس کو زندہ کیا اور مخاطب ہو کر فرمایا کہ دیکھ اپنے گدھے کو کس طرح میں اس کی بوسیدہ ہڈیوں پر دوبارہ زندہ گوشت چڑھا کر زندہ کر سکتا ہوں اگر وہ قادر مطلق و خالق حقیقی جو اس بزرگوار جناب عزیرٴ جناب ارمیا اور اس کے گدھے کو سو سال تک مردہ رکھ کر زندہ کر سکتا ہے کیا وہی خالق زمانہ رجعت کے برپا کرنے انبیائ و مرسلین و مومنین کاملین اور منافقین خالصین کو اپنی قبروں سے محشور کرنے پر قادر نہیں اگر رجعت کا انکار کرتے ہیں تو پھر قیامت کا بھی انکار کرنا پڑے گا کہ جس دن خداوند عالم تمام انسانوں کو میدان حشر میں جمع کر کے حساب و کتاب لے گا۔ 

تیسری آیت:

ارشاد قدرت ہوتا ہے: ھوالذی ارسل رسول بالھدیٰ و دین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ولوکرہ المشرکون۔

اللہ وہ ذات ہے جس نے رسولوں کو ہدایت دے کر اور دین حق دے کر بھیجا تا کہ اس کو غلبہ دے تمام ادیان پر اگرچہ مشرکین انکار ہی کریں۔

واضح بات ہے کہ ابھی تک یہ غلبہ حاصل نہیں ہو سکا جب کہ قرآن کی صداقت ہی میں کسی کو شک ہی نہیں تو ماننا پڑے گا کہ ایک ایسا زمانہ ہونا چاہیے جس میں دین اسلام کو غلبہ حاصل ہو وہ صرف زمانہ رجعت ہی ہو سکتا ہے اس آیت کی تفسیر میں فتح البیان اور ابن کثیر وغیرہ کہتے ہیں ذالک عندہ نزول عیسیٰٴ و خروج المہدیٴ فلا یبقیٰ اھل دین الا دخلو فی الاسلام۔

یعنی یہ وقت حضرت عیسیٰٴ کے نزول اور امام مہدیٴ کے خروج (ظہور) کا وقت ہے اور ا س وقت تمام لوگ دین اسلام میں داخل ہو جائیں گے۔

اس تفسیر سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ غلبہ سے مراد ظاہری غلبہ ہے نہ غلبہ دلیل جس طرح بعض کا گمان ہے کیونکہ یہ دعویٰ بغیر دلیل کے لیے اگرچہ بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ اگر غلبہ سے دلیل و برہان کا غلبہ مراد لیا جائے تو بھی درست ہو گا اس لحاظ سے کہ اسلام تمام دینوںپر غالب ہے دلیل و برہان کے اعتبار سے۔

علامہ حسین بخش جاڑا مرحوم اپنی تفسیر کی جلد نمبر ٧ میں اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ ابو بصیر سے روایت ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ اس آیہ مجیدہ کی قاویل ابھی تک نہیں کھلی اور وہ اس وقت کھلے گی جب حضرت قائمٴ آل محمد۰ تشریف لائیں گے پس آپ کا خروج ہو گا تو اللہ کے ساتھ کفر کرنے والا اور امامت کے ساتھ شریک کرنے والا کوئی بھی ایسا نہ ہو گا جو امامٴ کے خروج کو پسند کرتا ہو پس اس وقت اگر کوئی کافر پتھر تلے بھی چھپ کر پوشیدہ ہو جائے تو پتھر پکار کرے کہے گا اے مومن میرے اندر کافر پوشیدہ ہے اس کو نکال کر قتل کرو۔ 

چوتھی آیت:

ارشاد رب العزت ہوتا ہے۔واذا اخذاللہ میثاق النبین لما اتیتکم من کتب و حکمۃ ثم جاؤ کم رسول مصدق لما معکم لتومنن بہ ولتصرنہ قال اقررتم واخذتم علی ذالکم اصری قالوا قررنا قال فاشہدوا وانا معکم من الشہدین۔

ترجمہ: اور جب خدا نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ میں تم کو کتاب اور حکمت دوں گا پھر ایک رسول۰ تمہارے پاس والی چیزوں کی تصدیق کرتا ہوا آئے گا تو ضرور اُس پر ایمان لانا اور ضرور بالضرور اس کی مدد کرنا پھر خدا نے فرمایا کہ کیا تم نے اس کا اقرار کیا؟ اور تم نے میرا یہ بوجھ اپنے ذمہ لے لیا؟ تو سب نے کہا ہم نے اقرار کیا خدا نے فرمایا کہ اب تم سب گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ ہی گواہی دینے والا ہوں۔

خداوندعالم نے انبیائ کرام۰ سے جو عہد لیا تھا وہ ابھی تک پورا نہیں ہوا نہ تا حال حضرات انبیائٴ نے کبھی اس وارد دنیا میں جناب پیغمبر اسلام علیہ السلام کی نصرت کی اور نہ ہی ظاہر ہو کر آنجناب۰ پر ایمان لائے جب کہ اس ودہ کو پورا ہونا ہی ہے اس آیت کی تفسیر جو معاون وحی و تنزیل نے بیان فرمائی ہے اس میں مذکور ہے کہ یہ وعدہ زمانہ رجعت میں پورا ہو گا تفسیر صافی میں بھی اسی مفہوم کی عبارت تائید کر رہی ہے۔

ان کے علاوہ قرآن حکیم کی متعدد آیات اسی امر کی طرف نشاندہی کر رہی ہیں اور قرآن مجید میں مذکورہ انبیائ سلف اور اُمم سلف کے واقعات بھی اس لطیف نکتہ کی واضح اورروشن دلیل ہیں خداوند متعال نے حضرت عیسیٰٴ کو احیاء الاموات کا معجزہ عطا فرمایا اور آپٴ کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا : اے عیسیٰٴ اس وقت کو یاد کرو جب کہ میرے اذن سے مردوں کو زندہ کرتے تھے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جو لوگ جناب عیسیٰٴ کے ہاتھوں پر بحکم خدا زندہ ہوئے ان سب کو دنیا میں رجعت حاصل ہوئی اور وہ دنیا میں زندہ رہنے کے بعد پھر اپنی اپنی مقررہ مدتوں پر داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔

اسی طرح اصحاب کہف کا تین سو نو برس غار میں مردہ رہنا اور پھر اتنی طویل مدت کے بعد دوبارہ دنیا میں پلٹایا جانا جو کہ ایک قرآنی حقیقت ہے جس سے کسی اہل دانش کو انکار نہیں نظریہ رجعت پر واضح و بین دلیل ہے۔

جناب صدوق علیہ رحمہ اپنی کتاب العقائد میں فرماتے ہیں اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ خدائے تعالیٰ خود فرماتا ہے اے میرے حبیب تم خیال کرو گے کہ وہ (یعنی اصحاب کہف) بیدار ہیں حالانکہ وہ تو سوئے ہوئے ہیں (ان کا نیند سے اُٹھنا رجعت نہیں ہے) تو ان کے جواب میں یہ کہنا چاہیے کہ وہ لوگ تو مر چکے تھے جیسا کہ قرآن کریم میں خداوند عالم کفار کی زبانی فرماتا ہے ہائے افسوس کس نے ہمیں اپنے مرقد (خوابگاہ) سے اُٹھایا (اس کا جواب یہ ہے کہ) یہ وہی دن (یوم قیامت) ہے جس کا وعدہ رحمن نے کیا تھا اور سچ خبر دی تھی اللہ کے رسولوں نے۔

اگر وہ تسلیم کرتے ہیں کہ کفار موت کے بعد اُٹھیں گے مگر اس کے باوجود قبور کو مرقد کہا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ اصحاب کہف کی بھی یہی حالت تھی کہ وہ مردہ تھے اور ان کو دوبارہ زندہ کیا گیا تو مطلب یہ ہوا کہ جس طرح قبور کو مجازاً خوابگاہ کہا گیا ہے اسی طرح اصحاب کی موت کو بھی مجازاً نیند کہا گیا ہے۔

ان تمام گزشتہ آیات قرآنیہ کا ما حصل مفہوم یہ ہے کہ زمانہ رجعت خدا کی طرف سے ایک زمانہ معینہ ہے جس میں خداوندعالم ہادی بر حق امام آخرالزمانٴ اور باقی آئمہٴ کو دوبارہ زندہ فرمائے گا تا کہ وہ اپنی اپنی حکومت کر سکیں نیز بعض مومنین کاملین کو بھی محشور کیا جائے گا اور کفار و منافقین کو بھی دنیا میں پلٹایا جائے گا تا کہ ان کو عذاب آخرت سے پہلے سزا دی جائے اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ اس کے بعد ان کو دوبارہ روز جزائ و سزا کو عقاب نہ ہو گا نہیں بلکہ یہ دنیا میں ان کو بد اعمالیوں کا بدلہ ملے گا اور آخرت میں بھی مستحق عقاب ہوں گے۔ 

پانچویں آیت:

ارشاد قدرت ہوتا ہے: ولئن قتلم فی سبیل اللہ اومتم لمغفرۃ من اللہ ورحمۃ خیر مما یجمعون۔

ترجمہ: یعنی اگر تم خدا کی راہ میں مارے جاؤ (اپنی موت) مر جاؤ تو بے شک خدا کی بخشش اور رحمت اس (مال و دولت) سے جس کو تم جمع کرتے ہو ضرور بہتر ہے۔ترجمہ: حافظ فرمان علی صاحب (اعلی اللہ مقامہ)

جناب قمی نے امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ امام علیہ اس آیت کی تفسیر کے ضمن میں فرماتے ہیں قتل سے مراد علی ٴ اور اولاد علی علیہ السلام کی ولایت کے راستے میں قتل ہوا ہے پس جو بھی ولایت امیر المومنینٴ میں قتل ہو گویا وہ راہ خدا میں قتل ہوا ہے اور جو شخص اس آیت پر ایمان نہیں رکھے گا اس کے لیے مرداری کے سوا اور کچھ نہیں پھر فرماتے ہیں جو کوئی ہماری محبت میں قتل ہو گا اس کو دوبارہ نشر (زندہ) کیا جائے گا اورپھر وہ مرے گا اور جو کوئی ہماری محبت کے بغیر مرے گا اس کو بھی زندہ کیا جائے گا یہاں تک کہ وہ پھر قتل ہو کر مرے۔ 

چھٹی آیت:

خداوند عالم فرماتا ہے: یوم نبعث من کل امۃ فوجا ممن یکذب بایاتنا۔

اس آیت کے ضمن میں امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ آیت رجعت کے بارے میں وارد ہوئی ہے کہ خداوندعالم ہر امت سے ایک گروہ کو زندہ کرے گا اور قیامت کے متعلق یہ آیہ نازل ہوئی ہے و حشرناھم فلم نغادر منھم لحدا یعنی ہم ان لوگوں کو محشور کریں گے ان میں سے کسی کو بھی ترک نہ کریں گے اور پھر فرمایا ان آیات سے مراد امیرالمومنینٴ ہیں اور باقی آئمہ ہیں۔

چنانچہ علامہ مجلسی حق الیقین میں یوں رقمطراز ہیں۔ ودراحادیث بسیار از حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام منقول است کہ این آیہ در رجعت است کہ حق تعالیٰ از ھد ف وحی رازندہ می کند وآیہ قیامت آن است کہ فرمودہ است و حشرنا ھم فلم نغادر منھم احدا۔ یعنی بحشور گردانیم الشیان رایس ترک نکیم احدی از ایشان راکہ زندہ نکیم و فرمودہ کہ مرداہ آیات امیرالمومنین وآئمہٴ اند۔

الی غیر ذالک من الایات التی دلت علی الرجعۃ لا یسعھاذکرمھا۔

نظریہ رجعت اور کلام معصومینٴ:

نظریہ رجعت کے سلسلہ میں کثیر روایات وارد ہوئی ہیں بعض محققین نے تواتر کاادعی کیا ہے ان میں سے چند روایات کا ذکر کیا جاتاہے۔

اذا آن قیام القائم مطر الناس جمادی الآخرۃ عشرۃ ایام من رجب مطرا لاتری الخلائق مثلہ فینبت اللہ بہ لحوم المومنین و ابدانھم فی قبورھم وکانی انظر الیھم مقبلین من قبل جھینۃ و ھی قبیلۃ ینفضون شعورھم من التراب۔

یعنی امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں جب قائم آل محمد۰ کے ظہور کا زمانہ قریب ہو گا تو لوگوں پر جمادی الآخر اور رجب کے دس دن تک اس قدر مسلسل بارش ہو گی کہ اس سے پہلے انہوں نے ایسی بارش نہیں دیکھی ہو گی اس سے اللہ تعالیٰ مومنین کے گوشت اور اجسام کی قبروں میں نشوونما فرمائے گاف گویا ان کی طرف دیکھ رہا ہوں کہ وہ جہینہ کی طرف سے اپنے بالوں سے مٹی کو چہلپا جھاڑتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔

روی النعمانی فی کتاب الغیبۃ با سنادہ عن الباقر علیہ السلام قال لو خرج قائم محمد۰ لنصرۃ اللہ باالملائکۃ و اول من یتبعہ محمد و علی الثانی۔

عن الصادق علیہ السلام قال فی قول اللہ عزوجل ان الذی فرض علیک القرآن لرادک الی معاد لا واللہ لا تنقضی الدنیاولا تذہب حتیٰ یجتع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ بالثویۃ فیلتقیان و یبنیان باثویہ مسجد الہ اثنا عشر الف باب۔

امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے اس فرمان ان الذی فرض علیک القرآن لرادک الی معاد۔ یعنی اے رسول خدا جس اللہ نے تم پر قرآن نازل فرمایا ہے ضرورتمہیں ٹھکانے تک پہنچا دے گا کے بارے میں فرمایا خدا کی قسم یہ دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہو گی جب تک کہ وہ توبہ کے مقام پر حضرت رسول خدا۰ اور حضرت علی علیہ السلام ملاقات کر کے ایسی مسجد تعمیر نہیں کریں گے جس کے بارہ ہزار دروازے ہوں گے۔

روی ایضاعن الصادق علیہ السلام قال: یخرج مع القائمٴ من ظہر الکوفہ سبع و عشرون رجلا خمسۃ عشر من قوم موسیٰ علیہ السلام الذین کانوا یھدون بالحق و بہ یعدلون و سبعۃ من اھل الکہف و یوشع بن نون و سلیمان و فی نسخۃ سلمان و ابو درجانۃ الانصاری والمقداد ومالک الا شتر فیکونون بین یدیہ انصار اوحکاما۔

نیز امام صادق علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے کہ قائم آل محمد۰ کے ساتھ ستائیس افراد ہوں گے جن میں پندرہ افراد حضرت موسیٰٴ کی قوم سے ہوں گے جو حق کی ہدایت کرتے تھے اور حق ہی کے ساتھ عدل کرتے تھے سات افراد اصحاب کہف ہوں گے یوشع ابن نونٴ سلیمان۱ اور ایک روایت میں ہے سلمان ابودجانہ انصاری مقداد اور مالک اشتر بھی ہوں گے اور یہ لوگ ان کے حضور میں ان کے یارو مدد گار اور حکام وقت ہوں گے۔

اذاقام یعنی القائمٴ الی المومن فی قبرۃ فیقال لہ یا ھذا انہ قدظہر صاحبک فان تشا ان تلحق بہ فالحق وان تشا ان تقسیم فی کرامہ ربک فاقم۔

جب قائمٴ آل محمد۰ کا ظہور ہو گا تو مومن کے پاس اس کی قبر میں پیغام پہنچے گا کہ اے فلاں تمہارے صاحب الزمانٴ ظہور فرما چکا ہے اگر اس سے ملحق ہونا چاہتے ہو تو جاہلو اور اگر اپنے رب کے عزو شرف میں رہنا چاہتے ہو تو رہ جاؤ۔

مذکورہ روایات صراحۃ رجعت پر دلالت کرتی ہیں ان کے علاوہ ضخیم کتب اس سلسلہ میں ہی وارد روایات سے چھلک رہی ہیں حق الیقین میں یہ روایات تقریبا ٤٨ صفحات پر محیط ہے۔ 

رجعت پر ایمان:

ما یبقیٰ وھو کہ سوال پیدا ہوتا ہے کیا تمام آئمہ علیہم السلام اور جناب رسول۰ تشریف لائیں گے اور کیا ایک بار سب تشریف لائیں گے یا پے در پے؟ کیا ان کی حکومت ظاہری وجود کی ترتیب کے مطابق ہو گی یا نہ؟ ان کی حکومت کتنی مدت تک طویل ہو گی؟ اس سلسلہ میں اخبار تبصامرہ موجود ہیں کہ جنہیں یہ تفاصیل قدرے مختلف ہیں یہی وجہ ہے کہ علمائ حقہ نے اس امر کی تاکید فرمائی ہے کہ ان اور کے متعلق اجمالی ایمان رکھنا کافی ہے جس طرح پہلے گزر چکا ہے کہ اتنا ایمان رکھنا کافی ہے کہ قائم آل محمد۰ کے ساتھ بعض انبیائ رسول خدا۰ تشریف لائیں گے اور بعض خالص کافر بعض کافر مومن بھی ساتھ اُٹھیں گے جو آئمہ حق کی سلطنت و حکومت سے اپنے دلوں کو سرور کریں گے اور کفارو منافقین کو عترت اسدی جائے گی اور اس وقت اسلام کا بول بالا ہو گا کفر و شرک حرف غلط کی طرح صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا دین اسلام کو تمام ادیان پر غلبہ ہو گا اہل ایمان خوش و خرم ہوں گے۔

اب رہا وقت کہ وہ کب اور کس وقت تشریف لائیں گے؟ کیا ان کی تشریف آوری کے لیے کوئی خاص وقت معین ہے یا نہ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس امر کو سپرد خدا کیا جائے البتہ احادیث سے علامات ظہور کا استفادہ ہوتا ہے جن کی تفصیل اجمائد عنقریب آ رہی ہے۔

نیز اس قسم کی دیگر تفصیلات کے متعلق روایات اس قدر اختلاف سے ہیں کہ علماءاعلام کو کہنا پڑگیا کہ اہل البیتٴ ادری ما فی البیت یعنی یہ معاملہ انہی حضرات آئمہٴ کے سپرد کر دیا جائے کیونکہ گھر والے ہی اس میں موجود اشیاء کو اچھی جان سکتے ہیں چنانچہ مجلسی ثانی علامہ سید عبداللہ تنبر اپنی کتاب حق الیقین میں رقمطراز ہیں۔ قد عرفت من الآیات المتطافرۃ والاخبار المتواتراۃ و کلام جملۃ من المقدمین والمتاخرین من شیعۃ الآئمۃ الطاہرینٴ ان اصل الرجعۃ حق لا ریب فیہ ولا شبہۃ تعبریہ و منکرھا خارج عن بریقۃ المومنین فانھا من ضروریات مذہب الآئمۃ الطاہرین ویست الاخبار الواردۃ فی الصراط والمیزان ونحوھا مما یجب الاذعان بہ اکثر عددا واوضع سندا واصرح دلالۃ وافصح مقالۃ من اخبار الرجعۃ واختلاف خصوصیاتھا لا یقدح فی حقیقتھا کو قوع الاختلاف فی خصوصیات الصراط والمیزان ونحوھا فیجب الایمان باصل الرجعۃ اجمالا وان بعض المومنین و بعض الکفار یرجعون اکیٰ الدنیا وایکال تفاصلیھا الیھم والاحادیث فی رجعۃ امیرالمومنین والحسین علیہ السلام متواترۃ معنی و فی باقی الائمۃ قریبہ من التوتروکیفیۃ رجوعھم ھل ھوعلی الترتیب اوغیرہ فکل علمھا الی اللہ سبحانہ والیٰ اولیائہ علیہم السلام۔

یعنی آیات متکاثرہ اور بہت سے شیعہ علمائ متقدمین و متاخرین کے کلام سے تمہیں معلوم ہو چکا ہے کہ اصل برحق ہے اس میں ہر گز کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور اس کا منکر ربقہ مومنین (یعنی زمرہ ایمانی) سے خارج ہے کیونکہ یہ عقیدہ ضروریات مذہب آئمہٴ میں سے ہے صراط و میزان وغیرہ وہ امور اخرویہ جن پر ایمان رکھنا واجب ہے کے متعلق جو روایات وارد ہوئی ہیں وہ ان روایات سے جو عقیدہ رجعت کے بارے میں وارد ہوئی ہیں نہ سند کے لحاظ سے زیادہ معتبر ہیں اور نہ عدد کے اعتبار سے زیادہ ہیں اور نہ دلالت کے لحاظ سے واضح ہیں رجعت کے بعض خصوصیات میں اختلاف کا ہونا اصل رجعت کی حقانیت پر اثر انداز نہیں ہوسکتا جس طرح کہ صراط و میزان کی خصوصیات میں اختلاف موجود ہے لہذا اصل رجعت پر ایمان رکھنا ضروری ہے کہ اس میں بعض مخلص مومن اور بعض خالص کافر دوبارہ زندہد ہوں گے اور اس کی باقی تفصیلات کو آئمہ اطہارٴ کے سپرد کر دیں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام اور جناب سید الشہدائٴ کی رجعت کے بارے میں تو احادیث تواتر معنوی تک پہنچتی ہیں اور باقی آئمہٴ کی رجعت کے متعلق ترتیب متواترہ ہیں ان کے رجوع کی کیفیت کیا ہو گی؟ یکبار تشریف لائیں گے یا یکے بعد دیگرے اور یا سابقہ (ظاہر وجود کی ترتیب کہ جس میں اس مادی دنیا میں تشریف لائے تھے) کے مطابق یا اس کے خلاف آئیں گے ان تمام حقائق کو خداوندعالم اوراس کے اولیائ علیہ السلام کے سپرد کرو۔


source : http://www.zuhoor14.com/node/100
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عالمگیریت، تاریخ کا خاتمہ اور مہدویت
عقيدہ مہدويت كا آغاز
علم کلام میں مهدویت کے کون سے مبانی هیں؟
امام مہدی علیہ السلام کا دورِخلافت آئے بغیر ...
اذا قام القائم حکم بالعد ل
انتظار اور فطرت
امام حسین علیہ السلام اورامام زمانہ(عج)کےاصحاب ...
نظریہ رجعت
قرآن اور حضرت امام زمانہ(عج) علیہ السلام
امام مہدی (عج) کی سیرت طیبہ اور ان کےانقلابی ...

 
user comment