اردو
Friday 26th of April 2024
0
نفر 0

عدل الٰہی

عدالت اپنے وسیع تر مفہوم کے لحاظ سے صحبان حق کو ان کا حق بغیر کسی تفریق کے دے دینا ہے‘ اگر کسی حقدار کو بھی حق نہ دیا جائے‘ تو خلاف عدالت ہے اور اگر بعض کو دیا جائے اور بعض کو نہیں‘ تو پھر بھی خلافت عدالت ہے‘ اگر استاد امتحان کے موقع پر سب طلباء کو ان کے حق سے کم نمبر دے‘ تو یہ خلاف عدالت کام ہو گا۔ اگر بعض کو ان کے استحقاق کے مطابق اور بعض کو کم نمبر دے تب بھی خلافت عدالت و انصاف ہو گا۔

عدالت: ایک لحاظ سے مساوات کا لازمہ ہے۔

مساوات: یعنی سب کو ایک نظر سے دیکھنا۔ تفریق و فرق کا قائل نہ ہونا‘ ایسی مساوات کا لازمہ عدالت ہے‘ یعنی جو شخص جتنی مقدار کا استحقاق رکھتا ہے‘ اسے اتنا دیا جائے‘ اگر زیادہ کا استحقاق رکھتا ہے‘ تو زیادہ دیا جائے۔ کم کا استحقاق رکھتا ہے‘ تو کم دیا جائے اس میں تفریق و امتیاز بالکل نہ ہو اور اگر مساوات سے ہماری مراد عطا کرنے میں برابری ہو اور استحقاق کو دیکھے بغیر سب کو برابر دیا جائے‘ تو ایسی مساوات خلاف عدالت اور ظلم کے ہمراہ ہو گی۔ اسی طرح سے نہ دینے میں سب میں برابری بھی ظلم ہے‘ یعنی سب کو بلاتفریق برابر طور پر ان کے استحقاق سے محروم کر دیا جائے‘ بنابرایں عدل الٰہی کا معنی یہ ہے کہ عالم کے موجودات میں سے ہر ایک اپنی قابلیت اور ہستی کے مطابق اللہ کے فیض سے استفادہ کا حق رکھتا ہے۔ اللہ کی طرف سے بھی کسی بھی مخلوق کو اس کی استعداد اور صلاحیت کے مطابق فیض دینے سے دریغ نہیں کیا جاتا۔ اگر کسی موجود کے پاس کوئی چیز نہیں‘ تو اس وجہ سے کہ وہ ان حدود میں ہے کہ اس چیز کے مالک ہونے کی قابلیت اور امکان نہیں رکھتا۔

اب ہم کہتے ہیں کہ اگر بعض موجودات کچھ خاص خصوصیات کے ساتھ وجود میں آئیں‘ لیکن ان کے لائق کمال کے افاضے میں دریغ کیا جائے‘ تو یہ عدل الٰہی کے خلاف ہو گا‘ لہٰذا عدالت کا تقاضا یہ ہے کہ استحقاق کے مطابق انہیں افاضہ فیض کیا جائے‘ تمام موجودات کے مابین انسان ایسی مخلوق ہے‘ جس میں قابلیت‘ استعداد و صلاحیت اور اہم خصوصیات کا سرمایہ موجود ہے‘ اس میں موجود قوت تحریک جو اسے کام اور فعالیت پر مجبور کرتی ہے‘ صرف اتنی نہیں جتنی حیوان میں ہوتی ہے۔

حیوان میں صرف وہ عزائز موجود ہیں‘ جو اسے صرف طبیعت اور مادی زندگی سے مربوط کرتی ہیں‘ لیکن انسان جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے‘ ایسی سرشت و جبلت کا مالک ہے‘ جو صرف اس دنیا کے مطابق نہیں بلکہ اس کی سطح بالا ہے‘ یعنی وہ جاوداں اور ابدیت کی سطح پر ہے۔

انسان میں عالی فکری تحریکات موجود ہیں‘ یعنی اس میں اخلاقی‘ علمی‘ ذوقی‘ مذہبی اور الٰہی فیض کے محرکات پائے جاتے ہیں‘ بہت سارے کام انسان ان چیزوں سے متاثر ہو کر کرتا ہے اور کبھی اپنی طبیعی‘ مادی اور حیوانی زندگی ان عالی اور انسانی اہداف پر قربان کر دیتا ہے۔

قرآن کی تعبیر کے مطابق انسان اپنے علمی نظام کو ایمان اور عمل صالح کی بنیاد پر قرار دیتا ہے اور اس نظام میں جاوداں زندگی اور خوشنودی خدا کا طالب ہوتا ہے۔

انسان میں جاوداں اور عظیم تصور بھی ہے اور اس کی خواہش و آرزو بھی اور ایسے عزائز بھی جو اس کو اسی طرف لے جاتے ہیں۔

یہ سب چیزیں دائمی اور جاوداں رہنے کی قابلیت اور استعداد کی حکایت کر رہی ہیں۔

دوسرے لفظوں میں یہ سب چیزیں اس بات کی دلیل ہیں کہ مجرد اور غیر مادی روح کا مالک ہے۔

یہ سب امور انسان کو اس دنیا میں جنین کے حکم میں قرار دے رہے ہیں‘ جو رحم مادر میں کچھ خاص وسائل اور آلات و نظامات کا مالک ہوتا ہے‘ جیسے نظام تنفس‘ گردش خون‘ نظام اعصاب‘ بصارت و سماعت کا آلہ‘ نظام تناسل وغیرہ‘ یہ سب چیزیں رحم سے خارج ہونے کے بعد حیات دنیوی کے مطابق تو ہیں‘ لیکن رحم کے اندر کی نوماہی زندگی کے مطابق نہیں۔

یہ درست ہے کہ انسان دنیاوی زندگی میں نظام ایمان و عمل صلاح سے فائدہ اٹھاتا ہے‘ لیکن یہ فائدہ طفیلی ہے۔

"نظام ایمان و عمل صالح" ایک بیج کے حکم میں ہیں‘ جو ایک سعادت مندانہ جاوداں زندگی میں پرورش اور رشد کی صلاحیت رکھتے ہیں‘ یعنی ایک ابدی زندگی کے لئے اور ایک ابدی زندگی میں ہی اس کے صحیح معنی اور مفہوم ہو سکتا ہے۔

انسان نہ صرف ایمان و عمل خیر کے نظام میں طبیعت سے بالاتر فضا میں پرواز کرتا ہے اور مادی تعلقات سے مافوق تخم پاشی کرتا ہے بلکہ نظام ایمان و عمل صالح کے مخالف نظام میں بھی جسے قرآن نظام کفر و فسق کہتا ہے‘ اس کے کام‘ طبیعت اور حیوانیت کے حدود سے ماوراء اور جسمانی ضروریات اور طبیعی تعلقات سے خارج ہوتے ہیں اور اس پر روحانی اور جاودانہ پہلو غالب آنے لگتا ہے‘ لیکن یہ انحراف کی صورت ہوتی ہے‘ اسی لئے وہ ایک قسم کی حیات جاوید کا مستحق تو ہو جاتا ہے‘ لیکن افسوس ہے‘ وہ اپنے لئے درد و رنج جمع کرتا ہے اور دینی اصطلاح میں وہ جہنم کی راہ اختیار کر لیتا ہے۔

انسان ایسا نہیں کہ اگر ایمان و عمل صالح کے مدار میں حرکت نہ کرے‘ تو اپنے آپ کو حیوان کے مدار میں محدود کر دے بلکہ وہ صفر سے بھی نیچے چلا جاتا ہے اور قرآنی زبان میں "بل ھم اضل" یعنی حیوان سے بھی پست تر اور گمراہ تر ہو جاتا ہے۔

اب اگر ابدی زندگی کا تصور نہ ہو‘ تو پھر وہ انسان جو نظام ایمان و عمل صالح کے تحت چل رہے ہیں اور وہ انسان جو ایمان‘ عمل صالح کے مخالف نظام پر کاربند ہیں‘ ان شاگروں کی طرح ہوں گے کہ جن میں سے بعض نے اپنے کام کو احسن طریقے سے انجام دیا ہو اور بعض نے لہو و لعب میں وقت گذارا ہے‘ اب اگر استاد چاہے کہ سب کو نمبروں سے محروم کر دے‘ تو یہ محرومیت ظلم اور خلاف عدل ہو گی۔

اس مطلب کو سادہ الفاظ میں بھی بیان کیا جا سکتا ہے‘ وہ یہ ہے کہ خدا نے لوگوں کو ایمان اور نیکیوں کی دعوت دی ہے‘ لوگ اس دعوت کی قبولیت کے لحاظ سے دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے ہیں۔ بعض نے اس دعوت کو قبول کیا اور اپنے فکری‘ اخلاقی نظام اور اپنے عمل کو اس کے مطابق انجام دیا‘ بعض نے قبول نہ کیا اور بدکاری میں پڑ گئے۔

دوسری طرف سے اگر دیکھیں‘ تو اس دنیا کا نظام ایسا نہیں کہ نیک کام کرنے والے کو سو فیصد جزا اور بدکار کو سو فیصد سزا مل جائے‘ بلکہ بعض ایسے نیک کام کرنے والے ہیں‘ جو اس دنیا سے بغیر جزا چلے گئے ہیں‘ ایسے عالم کا وجود ضروری ہے‘ جہاں نیک لوگوں کو ان کی نیکی کی جزا کامل طور پر اور بدکاروں کو بدی کی سزا مکمل طور پر ملے ورنہ یہ "عدل الٰہی" کے خلاف ہو گا۔


source : http://www.shiastudies.com/urdu/other/mutafariqat/abadi%20zindgi/index.htm
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

مسجد اقصی اور گنبد صخرہ
اخلاق ،قرآن کی روشنی میں
قرآن کو نوک نیزہ پر بلند کرنے کی سیاست
آخري سفير حق و حقيقت
معصومین كی نظر میں نامطلوب دوست
قیام حسین اور درس شجاعت
دین اور اسلام
انسانی تربیت کی اہمیت اور آداب
خواہشیں ! احادیث اہلبیت کی روشنی میں
غدیر کا ھدف امام کا معین کرنا

 
user comment