اردو
Saturday 27th of April 2024
0
نفر 0

شجرہ ممنوعہ كونسادرخت تھا؟

قرآن كريم ميں بلا تفصيل اور بغير نام كے چھ مقام پر'' شجرہ ممنوعہ'' كا ذكر ہوا ہے ليكن كتب اسلامى ميں اس كى تفسير دوقسم كى ملتى ہے ايك تو اس كى تفسير مادى ہے جوحسب روايات '' گندم '' ہے _

اس بات كى طرف توجہ رہنا چاہئے كہ عرب لفظ '' شجرہ ''كا اطلاق صرف درخت پر نہيں كرتے بلكہ مختلف نباتات كو بھى '' شجرہ '' كہتے ہيں چاہے وہ جھاڑى كى شكل ميں ہوں يابيل كى صورت ميں _

دوسرى تفسير معنوى ہے جس كى تعبير روايات اہل بيت عليہم السلام ميں '' شجرہ حسد'' سے كى گئي ہے ان روايات كا مفہوم يہ ہے كہ آدم نے جب اپنا بلند ودرجہ رفيع ديكھا تو يہ تصور كيا كہ ان كا مقام بہت بلند ہے ان سے بلند كوئي مخلوق اللہ نے نہيں پيدا كى اس پر اللہ نے انہيں بتلا يا كہ ان كى اولاد ميں كچھ ايسے اولياء الہى (پيغمبر اسلام اور ان كے اہل بيت عليہم السلام ) بھى ہيں جن كا درجہ ان سے بھى بلند وبالا ہے اس وقت آدم ميں ايك حالت حسد سے مشابہ پيدا ہوئي اور يہى وہ '' شجرہ ممنوعہ'' تھا جس كے نزديك جانے سے آدم كو روكا گيا تھا_

حقيقت امر يہ ہے كہ آدم نے (ان روايات كى بناپر)دو درختوں سے تناول كيا ايك درخت تو وہ تھا جو ان كے مقام سے نيچے تھا، اور انہيں مادى دنيا ميں لے جاتا تھا اور وہ '' گندم'' كا پودا تھا دوسرا درخت معنوى تھا ،جو مخصوص اوليائے الہى كا درجہ تھا اور يہ آدم كے مقام ومرتبہ سے بالاتر تھا آدم نے دونوں پہلوئوں سے اپنى حد سے تجاوز كيا اس لئے انجام ميں گرفتار ہوئے_

ليكن اس بات كى طرف توجہ رہے كہ يہ ''حسد'' حسد حرام كى قسم سے نہ تھا يہ صرف ايك نفسانى احساس تھا جبكہ انہوں نے اس طرف قطعاً كوئي اقدام نہيں كيا تھا جيسا كہ ہم نے بارہاكہا ہے كہ آيات قرانى چونكہ متعدد معانى ركھتى ہيں لہذا اس امر ميں كوئي مانع نہيں كہ '' شجرہ '' سے دونوں معنى مراد لے لئے جائيں_

اتفاقاًكلمہ '' شجرہ '' قرآن ميں دونوں معنى ميں آياہے ، كبھى تو انہى عام درختوں (1)كے معنى ميں استعمال ہوتا ہے، اور كبھى شجرہ معنوى كے معنى ميں استعمال ہوا ہے_(2)

ليكن يہاں پر ايك نكتہ ہے جس كى طرف توجہ دلانا مناسب ہے اور وہ يہ ہے كہ موجودہ خود ساختہ توريت ميں ، جو اس وقت كے تمام يہود ونصارى كى قبول شدہ ہے اس شجرہ ممنوعہ كى تفسير '' شجرہ علم ودانش اور شجرہ حيات وزندگى '' كى گئي ہے توريت كہتى ہے:

''قبل اس كے آدم شجرہ علم ودانش سے تناول كريں،وہ علم ودانش سے بے بہرہ تھے حتى كہ انہيں اپنى برہنگى كا بھى احساس نہ تھا جب انہوں نے اس درخت سے كھايا اس وقت وہ واقعى آدم بنے اور بہشت سے نكال ديئے گئے كہ مبادا درخت حيات وزندگى سے بھى كھاليں اور خدائوں كى طرح حيات جاويدانى حاصل كرليں_''(3)

يہ عبارت اس بات كى كھلى ہوئي دليل ہے كہ موجودہ توريت آسمانى كتاب نہيں ہے بلكہ كسى ايسے كم اطلاع انسان كى ساختہ ہے جو علم و دانش كو آدم كے لئے معيوب سمجھتا ہے، اور آدم كو علم ودانش حاصل كرنے كے جرم ميں خدا كى بہشت سے نكالے جانے كا مستحق سمجھتا تھا، گويا بہشت فہميدہ انسان كے لئے نہيں ہے

______________________________________________

(1) جيسے ( وَشَجَرَةً تَخرُجُ من طُور سَينَائَ تَنبُتُ بالدُّہن )جس سے مراد زيتون كادرخت ہے_

(2)جيسے :( وَالشَّجَرَةَ المَلعُونَةَ فى القُرآن ) جس سے مراد مشركين يا يہودى يا دوسرى باغى قوميں (جيسے بنى اميہ ) ہيں

(3) سفر تكوين فصل دوم نمبر 17


source : http://www.tebyan.net/index.aspx?pid=59398
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کیسے اور کس پر انفاق کریں؟
فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کون ہیں؟
ابليس نے پروردگار کی مخالفت كيوں كي؟
غدیر کا دن صرف پیغام ولایت پہنچانے کے لئے تھا؟
تقلید و مرجعیت کے سلسلہ میں شیعوں کا کیا نظریہ ...
کیا ائمہ اطہار (ع ) کی طرف سے کوئی ایسی روایت نقل ...
اس باشعور کائنات کا خالق مادہ ہے یا خدا؟
روزے کی تعریف اور اس کی قسمیں
دعا كی حقیقت كیا ہے اور یہ اسلام میں مرتبہ كیا ...
اگر خون کا ماتم نادرست ہے تو کیا پاکستان میں اتنے ...

 
user comment