اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

اسلامی اتحاد وقت کی سب سے اہم ضرورت

تہران میں تین دنوں سے جاری بائیسویں بین الاقوامی وحدت اسلامی کانفرنس، کل رات اختتام پذیر ہوئی۔ اس کانفرنس میں دنیا کے چالیس سے زائد ملکوں کے علماء اوردانشوروں نے شرکت کی ۔

کانفرنس کے شرکا ء نے اپنے اختتامی بیان میں اسلامی اشتراکات کی تقویت اورمسلمانوں کی زندگی کی سطح کواوپرلے جانے کے لئے دنیا کے سیاسی واقتصادی اورعلمی و سائنسی وسائل سے بہترطورپراستفادہ کی ضرورت پرزوردیا گیا ۔

اس بیان میں امت اسلامیہ کودرپیش چیلنجوں منجملہ مسلمانوں کو مذہبی قومی اورجغرافیائی اعتبارسے تقسیم کی کوششوں اوراسلامی معاشروں میں فکری جموداورانتہاپسندی کا ذکرکرتے ہوئے کہا گیا کہ عالم اسلام کوآج تعلیمی اورفکری سطح پراوپرلے جانے کی شدید ضرورت ہے ۔وحدت اسلامی کانفرنس کے شرکاء نے اپنے اس بیان میں اسی طرح شریعت خداوندی کے نفاذ کے لئے ملت ایران کی کوششوں کی تعریف کرتے ہوئےملت ایران کے خلاف ہرطرح کی سازشوں کی مذمت کی گئی اس بیان میں اسی طرح اسلامی جمہوریہ ایران کی علمی ترقی وپیشرفت بالخصوص ایٹمی توانائی میں اس کی کامیابی کی حمایت کی گئی ۔ وحدت اسلامی کانفرنس کے شرکاء نے کانفرنس کے تیسرے دن پیغمبراسلام حضرت محمدمصطفی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اورفرزندرسول امام جعفرصادق کے یوم ولادت باسعادت پر رہبرانقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی ۔اس ملاقات میں رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا کہ پیغمبراسلام کے پیروؤں بالخصوص سیاستدانوں، علماء،اورامت اسلامیہ میں موثرافراد  کا سب سے اہم اوربڑا فریضہ اسلامی اتحاد کے قیام اورتفرقہ انگيزعناصرکا مقابلہ کرنا ہے ۔ رہبرانقلاب اسلامی نے اس ملاقات ميں جس میں صدرجناب احمدی نژاد، پارلیمنٹ کے اسپیکرڈاکٹرلاریجانی،عدلیہ کے سربراہ آیت اللہ ہاشمی شاھرودی اورتشخیص مصلحت نظام کونسل کے سربراہ آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی سمیت اعلی ملکی حکام اورمعاشرے کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنےوالے لوگوں کے علاوہ تہران میں متعین اسلامی ملکوں کے سفراء اورسیاسی نمائندے موجودتھے اسلامی اتحاداوریکجہتی کواس وقت عالم اسلام کی سب سے بڑی ضرورت قراردیا اورفرمایاکہ فروعی اختلافات کوعلی الاعلان تصادم کا سبب نہيں بننا چاہئے انھوں نے فرمایا کہ آج امت اسلامیہ کی عزت ووقارمسلمانوں کے اتحاد میں ہی مضمرہے ۔

تاریخی تجربے نے یہ ثابت کردیا ہے کہ عالم اسلام کوماضی اورحال میں جونقصانات پہنـچے ہيں اس کا سبب مسلمانوں میں اتحاد کا فقدان تھا ۔ سامراجی طاقتوں نے گذشتہ کئي دہائیوں یا یوں کہا جائے کہ کئی صدیوں سے مسلمانوں کے درمیان اختلاف ڈال کراورانھیں کمزورکرکے اپنی تسلط پسندانہ پالیسیوں کوآگے بڑھایا ہے ۔ اسلامی ممالک بالخصوص مشرق وسطی کے ممالک انتہائی مالامال قدرتي ذخائر سے سرشارہیں اورمشرق وسطی کے ممالک جغرافیائي اعتبار سے بہت ہی اسٹرٹیجک پوزیشن کے حامل ہیں ۔اسی لئے اس  علاقے پرہمیشہ تسلط پسند طاقتوں اورسامراجی قوتوں کی حریصانہ نگاہیں لگی رہی ہیں ۔ اوراگرمشرق وسطی میں واقع اسلامی ممالک کے مسلمانوں کے درمیان اتحاد ہوتا اوران ممالک کے حکام نے علاقائی اورقومی مفادات کودرک کرتے ہوئے تدبیروہوشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قوموں کومتحد رکھا ہوتا توخلیج فارس اورمشرق وسطی میں تسلط پسند طاقتيں اپنی من مانی نہ کرپاتیں اوران کواس علاقے میں ہرطرح کی لوٹ کھسوٹ اورجارحیت سے بہت ہی آسانی کے ساتھ روکا جاسکتا تھا اورآج عراق وافغانستان ان کے لئے جولانگاہ نہ  بنتا ۔البتہ اس میں بھی شک نہیں کہ علاقے کے موجودہ حالات گذشتہ عشروں کے مقابلے ميں کافی تبدیل ہوچکے ہيں اب علاقے کی قومیں بیدارہوچکی ہيں اورہرطرف اسلامی بیداری کی لہرموج ماررہی ہے خاص طورپر مشرق وسطی اورخلیج فارس کی اقوام کافی حدتک بیدارہوچکی ہیں اوراسی اسلامی بیداری نے ہی تسلط پسند طاقتوں کے قدم بہت حد تک روک دئے ہيں اوران کواس بات پرمجبورکردیا ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں پرنظرثانی کریں ۔ علاقے میں اقوام کے اندراسلامی بیداری نے اسلامی تحریکوں کوبے پناہ قوت وحوصلہ عطاکردیا ہے اوراب یہ تحریکیں بذات خود ایک ناقابل انکارقوت بن کرسامنے آچکی ہيں ۔

سن دوہزارچھ میں لبنان پرصیہونی حکومت کے جارحیت کے دوران غاصب اسرائیل پرحزب اللہ لبنان کی شاندارکامیابی اوراسی طرح دومہینے قبل غزہ پرصیہونی حکومت کے بائیس دنوں کے وحشیانہ حملوں کے باوجود فلسطینی عوام اورحماس کی ناقابل بیان استقامت کی بدولت صیہونی حکام اورصیہونی فوج کی شرمناک شکست اس نظریہ کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔لبنان اورغزہ میں شرمناک شکست کھانے کےبعد صیہونی حکومت اوراس کے مغربی اتحادیوں نے فوری علاقے کی قوموں کے درمیان مختلف بہانوں سے  تفرقہ ڈالنے کی سازش اورکوشش شروع کردی ۔ انھوں نے مسلمانوں کوکمزورکرنے کے لئے لبنان میں شیعہ وسنی کا مسئلہ اٹھایا اورفلسطین میں غزہ کے عوام سے شکست کھانے کے بعد عربیت وعجمیت یا دوسرے لفظوں میں قومیت کا مسئلہ اٹھاکرمسلمانوں کوآپس لڑانے کی کوشش کی جبکہ فلسطین پورے عالم اسلام کا مسئلہ ہے اس کا صرف عرب یا عجم سے تعلق نہيں ہے ۔البتہ اگرسطح طورپردیکھا جائے توسامراجی طاقتيں کسی حدفوری طورپراپنے اس مقصد میں کامیاب ہوگئیں چنانچہ لبنان میں چودہ مارچ نامی دھڑاایک طرف کہ جس کی قیادت فوادسینورہ کررہے تھے اوردوسری طرف حزب اللہ اورکئی ديگرسیاسی تنظیمیں جن میں سنی اورعیسائی تنظیمیں سبھی شامل تھیں آمنے سامنے آگئیں ۔اوراس کے علاوہ شام اورلبنان کوآپس میں لڑانے کی کوشش بھی شامل ہے مگراب وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف لبنان کاسیاسی بحران ختم ہوگیا اورملک کی تمام سیاسی جماعتیں ملک ميں اصولی طورپرایک وسیع البنیاد حکومت کے قیام پرمتفق ہوگئی ہیں بلکہ آج لبنان اورشام کے تعلقات بھی معمول پرآگئے ہيں چنانچہ آج سولہ مارچ کودمشق میں لبنان کا سفارتخانہ بھی دوبارہ کھل گیا ۔

اسی طرح غزہ کے سانحہ اورفلسطینی عوام سے شکست کے بعد صیہونی حکومت اوراس کے اتحادیوں منجملہ امریکہ نے قومیتی بنیادوں پرعلاقے کے عرب ممالک کوایران کے خلاف لاکھڑا کرنے کی کوشش کی اوراس سلسلہ مراکش کی حکومت نے بے بنیاد بہانوں سے ایران کے ساتھ تعلقات بھی ختم کرنے کااعلان کردیا مگر جس طرح ریاض میں اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیرخارجہ منوچہرمتکی کا سعودی عرب کے وزیرخارجہ سعود الفیصل نے پرتپاک استقبال کیا اورسعودی عرب کے فرمانرواء نے اسلامی جمہوریہ ایران کوعلاقے کا ایک اہم ملک قراردیا اورعلاقائی بحران کے حل میں ایران کے کردارکوسراہا ہے اس پورے واقعہ سے ایک بارپھر دشمنان اسلام کی کی تفرقہ انگیزسازشیں ناکام ہوگئی ہيں اورمبصرین کا یہ کہنا ہے کہ جیسے جیسے علاقے کے عوام میں بیداری کی لہرپھیلتی جائے گی تفرقہ ڈالنے والی قوتوں کواسی اعتبارسے اپنے مذموم عزائم میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا رہے گا ۔رہبرانقلاب اسلامی کے نقطہ نگاہ سے ان حالات میں سب سے پہلی ذمہ داری سیاستدانوں اوراسلامی ممالک کے حکام کی ہے کہ وہ دشمنوں کی سازشوں کوہرمرحلے میں ناکا بنائيں ۔ 


source : abna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

خود شناسی(پہلی قسط)
قرآن کی حفاظت
جھاد قرآن و حدیث کی روشنی میں
سیاست علوی
قرآن مجید و ازدواج
عید سعید فطر
شب قدر ایک تقدیر ساز رات
آخرت میں ثواب اور عذاب
انیس رمضان / اللہ کے گھر میں پہلی دہشت گردی
حضرت امام علی علیہ السلام کے حالات کا مختصر جائزہ

 
user comment