اردو
Saturday 27th of April 2024
0
نفر 0

منصفين كا اجتماع

293

منصفين كا اجتماع

معاويہ نے جب يہ ديكھا كہ حكميت كے معاملے ميں عراقى فوج كى كثير تعداد اميرالمومنين حضرت على (ع) برگشتہ ہوگئي ہے تو اس نے يہ كوشش شروع كردى كہ جس قدر جلد ہوسكے حكميت كا نتيجہ اس كى مرضى كے مطابق برآمد ہوجائے_اس مقصد كے تحت اس نے حضرت على (ع) كے خلاف سركشى و شورش كا محاذ قائم كرديا تا كہ وہ اپنے سياسى موقف كو قائم كرسكے_

چنانچہ اس ارادے كے تحت اس نے جونمائندے حضرت على (ع) كى خدمت ميں بھيجے انھيں ہدايت كردى كہ جس قد رجلد ممكن ہوسكے منصفين اپنا كام شروع كرديں_

بلاخرہ 38 ھ چار سو افراد كے ہمراہ دو نمائندہ وفد '' دومة الجندل(1)'' نامى مقام پر جمع ہوئے_ اميرالمومنين حضرت على (ع) كى جانب سے جو وفد بھيجا گيا تھا اس كى سرپرستى كے فرائض ابن عباس انجام دے رہے تھے_ (2)

جس وقت يہ وفد روانہ ہونے لگا تو اميرالمومنين حضرت على (ع) كے بعض اصحاب نے ابوموسى كو كچھ ضرورى ہدايات بھى كيں(3) جن كا ان پر ذرا بھى اثر نہ ہوا_ جس وقت اُسے مشورے ديئےارہے تھے تو وہ مسلسل اپنے داماد عبداللہ ابن عمر كى جانب ديكھ رہا تھا اور يہ كہہ رہا تھا كہ : خدا كى قسم اگر ميرا بس چل سكا تو عمر كى راہ و رسم كو از سرنو زندہ كروں گا_ (4)

عمر و عاص كى جيسے ہى ابوموسى سے ملاقات ہوئي تو وہ اس كے ساتھ نہايت عزت و احترام كى ساتھ پيش آيا اور اس بات كى كوشش كرنے لگا كہ اسے اپنا ہم خيال بنالے ابتدائي مراحل انجام دينے كے بعد وہ دونوں مشاورت كے لئے بيٹھ گئے اور باقى افراد دو جانب كھڑے اس گفتگو كا انتظار كرنے لگے_

 

294

شام كاوفد خاص نظم و ضبط كے ساتھ آيا تھا ملاقاتوں اور گفتگو ميں ا حتياط كا عنصر غالب تھا اسى اثناء ميں معاويہ نے عمروعاص كو خط لكھا جس كے مضمون كى اطلاع اس كے علاوہ كسى كو نہ ہوئي اس كے برعكس عراقى وفد كے اراكين احتياط سے دور شور و غوغا بپا كئے ہوئے تھے اميرالمومنين حضرت على (ع) نے بھى ابن عباس كو خط لكھا ابھى قاصد اونٹ سے اترا بھى نہيں تھا كہ لوگ اس كے گرد جمع ہوگئے_ اور پوچھنے لگے كہ خط ميں كيا لكھا گيا ہے يہى كام انہوں نے ابن عباس كے پاس پہنچ كر كيا ليكن جب انہوں نے خط كے مضمون كو ان سے پوشيدہ ركھنا چاہا تو لوگ ان كے بارے ميں بدگمانى كرنے لگے اور ان كے بارے ميں چرچے ہونے لگے يہاں تك كہ ابن عباس كو ان كى حماقت و ضد پر غصہ آگيا انہوں نے سرزنش كرتے ہوئے درشت لہجے ميں كہا كہ : ا فسوس تمہارى حالت پر تمہيں كب عقل آئے گى ديكھتے نہيں ہو كہ معاويہ كا قاصد آتا ہے اور كسى كو يہ تك معلوم نہيں ہوتا كہ كيا پيغام لے كر آيا ہے وہ اپنى بات كو ہوا تك لگنے نہيں ديتے اور ايك تم ہو كہ ميرے بارے ميں ہر وقت بدگمانى كرتے رہتے ہو _ (5)

حكميت كا نتيجہ اوراس كا رد عمل

منصفين كے درميان بحث و گفتگو تقريبا دو ماہ تك جارى رہى مذاكرات كے دوران ابوموسى كى يہ كوشش رہى كہ عمروعاص امور خلافت كو عبداللہ ابن عمر كى تحويل ميں دے دے دوسرى طرف عمروعاص معاويہ كى تعريف كے پل باندھے چلا رہا تھا اور اسے عثمان كا ولى و جانشين كہتے اس كى زبان نہيں تھكتى تھى _ وہ يہ كوشش كر رہا تھا كہ كس طرح ابوموسى كو قائل كر لے اور يہ كہنے پر مجبور كرے كہ خلافت اسى كا حصہ ہے_

بلاخر نتيجہ يہ بر آمد ہوا كہ فريقين نے اس بات پر اتفاق كيا كہ ''حضرت على (ع) اور معاويہ دونوں ہى خلافت سے دست بردار ہوجائيں اور امور خلافت كو مشاورت كى صوابديد پر چھوڑديں اس موافقت كے بعد اعلان كيا گيا كہ لوگ حكميت كا نتيجہ سننے كے لئے جمع ہوجائيں_

 

295

جب لوگ جمع ہوگئے تو ابوموسى نے عمروعاص كى جانب رخ كيا اور كہا كہ منبر پر چڑھ كر اپنى رائے كا اعلان كردو عمروعاص تو اول دن سے ہى اس بات كا متمنى تھا اور اسى لئے وہ ابوموسى كى تعريف و خوشامد كرتا رہتا تھا مگر اس نے استعجاب كرتے ہوئے كہا كہ : سبحان اللہ حاشا و كلا كہ يہ جسارت كروں اور آپ كى موجودگى ميں منبر پر قدم ركھوں، خداوند تعالى نے ايمان و ہجرت ميں آپ كو مجھ پر فوقيت عطا كى ہے آپ اہل يمن كى طرف سے نمائندہ بن كر رسول خدا(ص) كى خدمت ميں حاضر ہوچكے ہيں اور پھررسول مقبول (ص) كى جانب سے آپ ہى نمائندہ بناكر يمن كے لوگوں كے پاس بھيجے گئے تھے ... اس كے علاوہ سن و سال ميں آپ مجھ سے بڑے ہيں اس بناپر آپ ہى گفتگو شروع كريں (6)

ابوموسى گفتگو شروع ہى كرنا چاہتا تھا كہ ابن عباس نے كہا كہ عمروعاص تمہيں دام فريب ميں لانے كى فكر ميں ہے گفتگو كا آغاز اسے ہى كرنے دو كيونكہ وہ بہت عيار اور نيرنگ ساز آدمى ہے مجھے يقين نہيں كہ جس چيز پر اس نے اپنى رضايت ظاہر كى ہے اس پر وہ عمل بھى كرے_

ليكن ابوموسى نے ابن عباس كى نصيحت پر عمل نہيں كيا اور اس نيك مشورے كے باوجود وہ منبرپر چڑھ گيا اور اعلان كيا كہ ہم نے اس امت كے امور پر غور كيا اور ا س نتيجہ پر پہنچے كہ وحدت نظر سے بڑھ كر ايسى كوئي شي نہيں جو اس در ہم برہم حالت كى اصلاح كرسكے_ چنانچہ ميں نے اور ميرے حريف ساتھى '' عمرو'' نے اس بات پر اتفاق كيا ہے كہ على (ع) اور معاويہ دونوں ہى خلافت سے دستبردار ہوجائيں اور اس معاملے كو مسلمانوں كى مجلس مشاورت كى تحويل ميں دے ديا جائے تا كہ جس شخص كو يہ مجلس مشاورت پسند كرے اسے ہى منصب خلافت پر فائز كيا جائے_

اس كے بعد اس نے پر وقار لہجے ميں كہا كہ ميں نے على (ع) اور معاويہ كو خلافت سے برطرف كيا_

اس كے بعد عمروعاص منبر پر گيا اور اس نے بآواز بلند كہا كہ لوگو تم نے اس شخص كى باتيں سن ليں ميں بھى على (ع) كو ان كے مقام سے برطرف كرتا ہوں ليكن اپنے دوست معاويہ كو اس منصب پر مقرر كرتا ہوں كيونكہ انہوں نے عثمان كے خون كا بدلہ ليا ہے اوراس منصب كے لئے وہ مناسب

 

296

ترين شخص ہے يہ كہہ كر وہ منبر سے نيچے اتر آيا_

مجلس ميں ايك دم شور و ہيجان بپا ہوگيا لوگ طيش ميں آكر ابوموسى پر پل پڑے بعض نے عمروعاص پر تازيانہ تك اٹھاليا ابوموسى نے شكست كھائے ہوئے انسان كى طرح اپنے خيانت كار حريف كى اس حركت پر اعتراض كيا تجھے يہ كيا سوجھي؟ خدا تجھے نيك توفيق نہ دے تو نے خيانت كى ہے اور گناہ كا مرتكب ہوا ہے تيرى حالت كتے جيسى ہى ہے اسے چاہے مارا جائے يا چھوڑديا جائے وہ ہر حالت ميں بھونكتا ہى رہتا ہے اس پر عمرو نے جواب ميں كہا كہ تيرى حالت اس گدھے كى سى ہے جس پر كتابيں لدى ہوئي ہيں_ (7)

حكميت كا معاملہ اس تلخ انجام كے ساتھ اختتام پذير ہوا ابوموسى جان كے خوف سے فرار ركر كے مكہ چلا گيا عمروعاص فاتح كى حيثيت سے شام كى جانب روانہ ہوا اور اس نے معاويہ كو خليفہ كى حيثيت سے سلام كيا_

حكميت سے جو نتيجہ بر آمد ہوا اس نے عراق كے لوگوں كى ذہنى كيفيت كو برى طرح متاثر و مجروح كيا كيونكہ ايك طرف تو خوارج كا غم و غصہ پہلے كى نسبت اب كہيں زيادہ بڑھ گيا تھا كہ جس كا سبب يہ تھا كہ انھيں اميد تھى كہ امير المومنين حضرت على (ع) معاہدے كے منسوخ كرنے پر راضى ہوجائيں گے اور معاويہ كے خلاف اعلان جنگ كرديا جائے گا دوسرى طرف جب يہ افسوسناك خبر كوفہ و بصرہ كے لوگوں تك پہنچى كہ حضرت على (ع) خلافت سے برطرف كرديئے گے وہيں تو مسلمانوں كےدرميان اختلافات بہت زيادہ تير كے آورد ان كى خليج كافى وسيع ہوتى چلى گئي چنانچہ نوبت يہاں تك پہنچى كہ ايك دوسرے كو بر ملا سخت و ست كہنے لگے_

امير المومنين حضرت على (ع) نے لوگوں كے درميان رفع اختلاف ، حزن و ملال كے آثار ميں كمى اور مسئلہ حكميت كے بارے ميں رائے عامہ روشن كرنے كى خاطر اپنے فرزند حضرت حسن مجتبي(ع) كو حكم ديا كہ وہ عوام كے سامنے جا كر تقرير كريں_

حضرت امام حسن (ع) منبر پر تشريف لے گئے اور فرمايا لوگو حكمين كے بارے ميں تم بہت زيادہ

 

297

گفتگو كرچكے ہو ان كا انتخاب اس لئے عمل ميں آيا تھا كہ وہ قرآن كى بنياد پر حكم كريں گے مگر ہوائے نفسانى كى پيروى كرنے كى وجہ سے انہوں نے فيصلہ قرآن كے برخلاف كيا ہے اس بنا پر انھيں حكم نہيں كہا جا سكتا بلكہ وہ محكوم كہلائے جانے كے مستحق ہيں_

ابو موسى جو عبداللہ بن عمر كا نام تجويز كر چكا تھا تين اعتبار سے لغزش و خطا كا مرتكب ہوا_

اس كى پہلى لغزش تو يہى تھى كہ اس نے اس كے خلاف عمل كيا جو عمر نے كہا تھا عمر چونكہ اسے خلافت كا اہل نہيں سمجھتے تھے اسى لئے انہوں نے اس كو مجلس مشاورت كاركن بھى قرار نہيں ديا تھا_

دوسرى لغزش ان كى يہ تھى كہ انہوں نے يہ فيصلہ عبداللہ سے مشورہ كئے بغير كيا اور انھيں يہ معلوم نہيں تھا كہ وہ اس پر رضامند ہوں گے يا نہيں_

تيسرى لغزش يہ تھى كہ عبداللہ اس حيثيت سے ايسا انسان نہيں تھا جس كے بارے ميں مہاجرين و انصار كا اتفاق رائے ہوتا_

اب رہى مسئلہ حكميت كى اصل (تو كوئي نئي بات نہيں كيونكہ پيغمبر اسلام(ص) غزوات كے دوران اس پر عمل كرچكے ہيں) رسول خدا(ص) نے طائفہ '' بنى قريظہ'' كے بارے ميں سَعد بن معاذ كو حكم قرار ديا تھا اور چونكہ حكميت رضائے خداوندى كے خلاف تھى اس لئے پيغمبر اكرم(ص) اس پر راضى نہ ہوئے _

حضرت امام حسن(ع) كے بعد اميرالمومنين حضرت على (ع) كے فرمانے پر عبداللہ بن جعفر اپنى جگہ سے اٹھے اور عامہ كو مطلع كرنے كى غرض سے انہوں نے تقرير كي(8)

ج) مارقين

خوارج كے مقابل حضرت على (ع) كا موقف(9)

حكميت كے معاملے ميں شكست سے دوچار ہو كر اميرالمومنين حضرت على (ع) معاويہ سے جنگ كرنے كى غرض سے اپنے آپ كو آمادہ كرنا شروع كيا تا كہ مقرر مدّت ختم ہوجانے كے بعد صفين كى جانب واپس چلے جائيں ليكن خوارج نے حضرت على (ع) كى اطاعت كرنے كى بجائے شورش و

 

298

سركشى سے كام ليا اور پہلے كى طرح اس مرتبہ بھى نعرہ لا حكم الا اللہ كى بنياد پر اميرالمومنين حضرت على (ع) اور معاويہ كو وہ كافر كہنے لگے_

انھيں جب بھى موقع ملتا وہ شہر كوفہ ميں داخل ہوجاتے اور جس وقت حضرت على (ع) مسجد ميں تشريف فرما ہوتے تو وہ اپنا وہى پرانا نعرہ لگانے لگتے اس كے ساتھ ہى انہوں نے اس شہر ميں اپنے افكار و نظريات كا پرچار بھى شروع كرديا_

اميرالمومنين حضرت على (ع) نے خاموش و پر سكون رہ كر اور كوئي رد عمل ظاہر كئے بغير اپنى تحريك كو جارى ركھا وہ ان كے ساتھ انتہائي نرمى اور تواضع كے ساتھ پيش آئے اگر چہ حضرت على (ع) چاہتے تو ان لوگوں سے كسى بھى قسم كا سلوك روا ركھ سكتے تھے مگر آپ(ع) نے ان كى تمام افترا پردازيوں اور سياسى سرگرميوں كے باوجود اپنے محبت آميز رويے ميں ذرہ برابر بھى تبديلى نہ آنے دى آپ(ع) ان سے اكثر فرماتے كہ '' تمہارے تين مسلم حقوق ہمارے پاس محفوظ ہيں :

1_ شہر كى جامع مسجد ميں نماز پڑھنے اور اجتماعات ميں شركت كرنے سے تمہيں ہرگز منع نہيں كيا جائے گا_

2_ جب تك تم لوگ ہمارے ساتھ ہو بيت المال سے تمہيں تنخواہيں ملتى رہيں گي_

3_ جب تك تم ہم پر تلوار اٹھاؤ گے ہم تمہارے ساتھ ہرگز جنگ كے لئے اقدام نہ كريںگے(10)

خوارج اگر چہ نماز ميں حضرت على (ع) كى پيروى نہيں كرتے تھے مگر اجتماع نماز كے وقت ضرور پہنچ جاتے وہ لوگ اس جگہ نعرے لگا كر اور دوسرے طريقوں سے آپ(ع) كو پريشان كركے آزار پہنچانے كى كوشش كرتے رہتے ايك دن جس وقت حضرت على (ع) نماز ميں قيام كى حالت ميں تھے خوارج ميں سے ايك شخص نے جس كا نام ''كوا'' تھا بآواز بلند يہ آيت پڑھي:

'' و لقد اوحى اليك والى الذين من قبلك لئن اشركت ليحبطن عملك و لتكونن من الخاسرين''(11)

 

299

(اس آيت ميں خطاب پيغمبر(ص) سے كيا گيا ہے كہ : اے نبى ان سے كہو' پھر كيا اے جاہلو تم اللہ كے سوا كسى اور كى بندگى كرنے كےلئے مجھ سے كہتے ہو(يہ بات ہميں ان سے صاف كہہ دينى چاہيئے كيونكہ) تمہارى طرف اور تم سے پہلے گزرے ہوئے تمام انبياء كى طرف يہ وحى بھيجى جاچكى ہے_ اگر تم نے شرك كيا تو تمہارا عمل ضائع ہوجائے گا اور تم خسارے ميں رہوگے)

'' ابن كوا'' يہ آيت پڑھ كرچاھتا تھا كہ اميرالمومنين حضرت على (ع) كو اشارہ و كنايہ ميں يہ بتا دے كہ آپ نے عہد گذشتہ ميں جو اسلام كے لئے خدمات انجام دى ہيں ان سے ہرچند انكار نہيں كيا جاسكتا ليكن آپ(ع) نے كفر كے باعث اپنے تمام گذشتہ اعمال كو تلف و ضائع كرديا ہے_

حضرت على (ع) خاموش رہے اور جب يہ آيت پورى پڑھى جا چكى تو آپ نے نماز شروع كى ... '' ابن كوا'' نے دوسرى مرتبہ يہ آيت پڑھى حضرت على (ع) اس مرتبہ بھى خاموش رہے چنانچہ جب وہ يہ آيت كئي بارپڑھ چكا اور چاہتا تھا كہ نماز ميں خلل انداز ہو تو اميرالمومنين حضرت على (ع) نے يہ آيت تلاوت فرمائي

فاصبر ان وعد اللہ حق و لا يستخفنك الذين لا يوقنون (12)(پس اے نبى صبر كرو يقينا اللہ كا وعدہ سچا ہے اور ہرگز ہلكانہ پائيں تم كہ وہ لوگ جو يقين نہيں كرتے) اور آپ نے اس كى جانب توجہ و اعتنا كئے بغير نماز جارى ركھي_(13)

اميرالمومنين حضرت على (ع) كا طرز عمل يہ تھا كہ آپ لوگوں كى نعرہ بازى اور نكتہ چينى كا جواب منطقى نيز واضح و روشن دلائل سے ديتے تا كہ وہ اپنى ذھنى لغزش كى جانب متوجہ ہو سكيں اور آپ(ع) كو پريشان كرنے سے باز رہيں اسى لئے آپ (ع) فرماتے كہ اگر خوارج خاموش رہتے ہيں تو ہم انھيں اپنى جماعت كا جزو ركن سمجھتے ہيں اگر وہ اعتراض كيلئے لب كشائي كرتے ہيں تو ہم ان كا مقابلہ منطق و دليل سے كرتے ہيں اور وہ ہمارے ساتھ ضد پر اتر آئيں تو ہم ان سے نبرد آزمائي كرتے ہيں_(14)

 

300

منشور

خوارج نے ايك خاص انداز فكر كى بنياد پر اميرالمومنين حضرت على (ع) كى حكومت كے خلاف شورش و سركشى كى ان كے اس دائرہ عمل ميں مندرجہ ذيل نكات شامل تھے_

1_ اميرالمومنين حضرت على (ع) معاويہ ،اور عثمان، اصحاب جمل اور حكميت سے متفق و ہم خيال اشخاص نيز ان افراد كو كافر تصور نہ كرنے والے لوگ اور مذكورہ بالا افراد سے وابستہ گروہ سب كے سب كافر ہيں_

2_ امر بالمعروف و نہى از منكر كى بنياد پر ظالم و ستمگر خليفہ وقت ( اميرالمومنين حضرت على (ع) كےخلاف بلاقيد و شرط شورش كرنا ضرورى ہے كيونكہ ان كى رائے ميں اس كا اطلاق كسى شرط و پابندى كے بغير ہرجگہ ضرورى و لازمى امر تھا _

3_ مسئلہ خلافت كا حل مجلس مشاورت كے ذريعے كيا جانا چاہئے اور اس مقام كو حاصل كرنے كيلئے ان كى دانست ميں واحد شرط يہ تھى كہ آدمى صاحب تقوى و ايمان ہو اور اگر خليفہ انتخاب كے بعد اسلامى معاشرے كى مصلحتوں كے برخلاف كوئي اقدام كرے تو اسے اس عہدے سے معزول كرديا جائے اور اگر وہ اپنے منصب سے دست بردار نہ ہو تو اس سے جنگ ونبرد كى جانى چاھيئے_(15)

اس منشور كى بنياد پر وہ ابوبكر اور عمر كى خلافت كو صحيح سمجھتے تھے كيونكہ ان كى رائے ميں يہ حضرات صحيح انتخاب كے ذريعے عہدہ خلافت پر فائز ہوئے تھے اور وہ مسلمانوں كى خير و صلاح كى راہ سے منحرف نہ ہوئے تھے عثمان اور اميرالمومنين حضرت على (ع) كے انتخاب كو اگر چہ وہ ہر چند درست ہى سمجھتے تھے مگر اس كے ساتھ وہ يہ بھى كہتے تھے كہ عثمان نے اپنى خلافت كے چھٹے سال سے اپنے رويے كو بدلنا شروع كرديا تھا اسى لئے وہ خلافت سے اگر چہ معزول كرديئے گئے تھے مگر وہ چونكہ اپنے اس منصب پر فائز رہے اسى لئے وہ كافر اور واجب القتل تھے على (ع) نے بھى چونكہ حكميت كو تسليم كرليا تھا اور اس اقدام پر پشيمان ہو كرا انہوں(ع) نے توبہ نہيں كى تھى اسى لئے وہ كافر اور واجب القتل ہيں (معاذ اللہ (16)

 

301

مجموعى نعرہ

خوارج كا انتہائي اہم اور پر جوش ترين نعرہ لا حكم الا للہ تھا اگر چہ يہ نعرہ انہوں نے قرآن مجيد سے ہى اخذ كيا تھا (17) مگر عدم واقفيت اور فكرى جمود كے باعث اس كى وہ صحيح تفسير نہ كرسكے_

مذكورہ آيہ مباركہ ميں '' حكم'' سے مراد قانون ہے مگر خوارج نے اپنى كج فہمى كى بنا پر اس كے معنى '' رہبري'' سمجھ لئے جس ميں حكميت بھى شامل ہے وہ اس بات سے بے خبر رہے كہ خود قرآن نے ان كى كج فہمى كو رد كيا ہے جب قرآن نے بيوى و شوہر كے اختلاف اور حالت احرام ميں (18) شكار كرنے تك مسائل كے بارے ميں انسانوں كو حكميت كا حق ديا ہے تو يہ كيسے ممكن تھا كہ مسلمانوں كے دو گروہ كے درميان ايسے حساس معاملات اور عظيم اختلافات كے بارے ميں انسانوں كو حق حكميت نہ ديا جاتا جس سے بعض انسانى زندگيوں كى نجات بھى وابستہ ہو_

اميرالمومنين حضرت على (ع) نے ان لوگوں كى اطلاع كے لئے جو خوارج كا پروپيگنڈا بالخصوص اس دلكش نعرے سے متاثر ہوگئے تھے موثر تقرير كى اس ميں آپ (ع) نے فرمايا كہ اگر چہ يہ بات مبنى بر حقيقت ہے مگر اس سے جو مقصد و ارادہ اخذ كياگيا ہے وہ محض باطل ہے اس ميں شك نہيں كہ حكم خدا كيلئے ہى مخصوص ہے ليكن ان لوگوں نے حكم كى جو تفسير كى ہے اس سے مراد فرمانروا ہے اور ان كا كہنا ہے كہ خدا كے علاوہ كسى فرمانروا كا وجود نہيں در حاليكہ انسانوں كيلئے خواہ اچھے كام انجام ديتے ہوں يا برے ' فرمانروا كا وجوود امر ناگزير ہے(19)

بغاوت

خوارج ابتدا ميں بہت امن پسند تھے اور صرف لوگوں پر تنقيد و اعتراض ہى كيا كرتے تھے اميرالمومنين حضرت على (ع) كے ساتھ ان كا رويہ وہ تھا جو اوپر بيان كيا جا چكا ہے مگر آہستہ آہستہ انہوں نے اپنى راہ و روش بدلى چنانچہ نوبت يہاں تك پہنچى كہ شورش و سركشى پر اتر آئے ايك روز عبداللہ

 

302

بن وہب راہبى نے انھيں اپنے گھر پر جمع ہونے كى دعوت دى اور ان كے سامنے نہايت ہى پر جوش و لولہ انگيز تقرير كے ذريعے انہوں نے اپنے ہم مسلك لوگوں كو شورش و سركشى پر آمادہ كيااس ضمن ميں اس نے كہا كہ بھائيو اس جور و ستم كى نگرى سے نكل كر اچھا تو يہى ہے كہ پہاڑوں ميں جاكر آباد ہو رہيں تا كہ وہاں سے ہم ان گمراہ كن بدعتوں كا مقابلہ كركے ان كا قطع قمع كرسكيں_(20)

اس كے بعد ''حر قرص بن زہير'' نے تقرير كى ان دونوں كى تقارير نے خوارج كے دل و دماغ پر بہت گہرا اثر كيا اور ان ميں پہلے كى نسبت اب زيادہ جو ش و خروش پيدا ہونے لگا اگلا جلسہ '' ذفر بن حصين طائي'' كے گھر پر ہوا اس نے مفصل تقرير كے بعد كہا كہ ميں اپنے نظريئےيں دوسروں كى نسبت زيادہ محكم و پايدار ہوں اگر ايك شخص اس سلسلے ميں ميرا ساتھ نہ دے تو ميں اكيلا ہى شورش و سركشى كروں گا _ اے بھائيو تم اپنے چہروں اور پيشانيوں پر شمشير كى ضربيں لگاؤ تا كہ خدا ئے رحمن كى اطاعت ہوسكے (21) اس كے بعد اس نے يہ تجويز پيش كى كہ بصرہ كے خوارج كو خط لكھا جائے تا كہ جس قدر جلد ممكن ہوسكے وہ ''نہروان'' ميں ان سے آن مليں اہل بصرہ نے مثبت جواب ديا اور كوفہ كے گروہ كے ساتھ آكر مل گئے(22)

خوارج نے اپنى تحريك كوفہ كے باہر راہزنى اور ناكہ بندى كے ذريعے شروع كى _ قتل و غارتگرى كو انہوں نے اپنا شعار بنايا اور جو لوگ اميرالمومنين حضرت على (ع) كے حامى و طرفدار تھے ان كے ساتھ وہ دہشت پسندانہ سلوك كرنے لگے_

اس اثناء ميں انھيں دو شخص نظر آئے ان ميں سے ايك مسلمان تھا ا ور دوسرا عيسائي ، عيسائي كو تو انہوں نے چھوڑ ديا مگر مسلمان كو اس جرم ميں قتل كرديا كہ وہ حضرت على (ع) كا طرفدار ہے_ (23)

عبداللہ بن خباب سربرآوردہ شخص اور اميرالمومنين حضرت على (ع) كے كار پرداز تھے وہ اپنى زوجہ كے ساتھ جار ہے تھے كہ خوارج سامنے سے آگئے ان كو ديكھتے ہى انہوں نے كہنا شروع كيا كہ : '' اسى قرآن نے جو تيرى گردن ميں حمايل ہے تيرے قتل كا حكم صادر كيا ہے '' قتل كرنے سے پہلے

 

303

ان سے كہا گيا اپنے والد كے واسطہ سے پيغمبر اكرم (ص) كى حديث نقل كرو اُنہوں نے كہا ''ميرے باپ كہتے تھے كہ ميں نے پيغمبر اكرم (ص) سے سنا ہے كہ ميرے بعد كچھ عرصہ نہ گذرے گا كہ فتنہ و فساد كى لہريں ہر طرف پھيل جائيں گى اس وقت بعض لوگوں كے دل حقيقت كو سمجھنے سے قاصر رہيں گے اور وہ اسى طرح مردہ ہوجائيں گے جيسے انسانى جسم ايسے وقت ميں بعض افراد رات كے وقت مومن ہوں گے ليكن دن كے وقت كافر اس وقت تم خدا كے نزديك مقتول بن كر رہ لينا( حق كى پاسبانى كرنا اس كام ميں چاھے تمہارى جان پر بن جائے) مگر قتل و خونريزى سے گريز كرنا (24)

عبداللہ نے حديث بيان كر كے اس وقت مسلمانوں ميں جو معاشرہ كار فرما تھا اس كى تصوير كشى كردى تا كہ خوارج اس سے پند و نصيحت لے سكيں ليكن انہوں نے ان كے ہاتھ پير اس برى طرح جكڑے كہ ديكھنے والے كے دل پر رقت طارى ہوتى تھى اور بہت زيادہ شكنجہ كشى اور آزار رسانى كے بعد انھيں نہر كے كنارے لے گئے جہاں انہوں نے انھيں بھيڑ كى مانند ذبح كيا ان كى حاملہ زوجہ كو قتل كرنے كے بعد ان كا شكم چاك كيا اور نارسيدہ بچے كو بھى انہوں نے ذبح كر ڈالا(25)

عبداللہ كا قتل جس بے رحمى سے كيا گيا تھا اس پر ايك عيسائي شخص معترض ہوا وہ باغبان تھا اس وضع و كيفيت كو ديكھ كر وہ كچھ كھجوريں لے گيا اور قاتلوں كو پيش كيں جنہيں بغير قيمت ادا كئے انہوں نے قبول كرنے سے انكار كرديا اس پرعيسائي نے كہا كہ عجيب بات ہے كہ تم عبداللہ جيسے بے گناہ شخص كو قتل كرسكتے ہو اور بغير قيمت ادا كيے كھجوريں كھانے ميں تمہيں عذر ہے_ (26)

معاويہ سے جنگ

حكميت كى مدت اسى وقت ختم ہوئي جب كوفہ و بصرہ ميں خوارج جمع ہو رہے تھے مذكورہ مدت كے ختم ہوجانے كے بعد اميرالمومنين حضرت على (ع) نے حَرُوراء ميں معاويہ سے جنگ كرنے كا فيصلہ كيا چنانچہ شہر ميں آمادہ رہنے كا اعلان كرديا گيا اس كے بعد آپ نے لوگوں كو جہاد كى جانب

 

304

رغبت دلانے كى خاطر تقرير كى اور فرمايا كہ :

اب تم جہاد كرنے دشمن كى جانب روانہ ہونے كيلئے تيار ہوجاؤ پير كے دن '' نخيلة '' نامى مقام پر عسكر گاہ ميں تمہيں جمع ہونا ہے ہم نے منصفين كا انتخاب اسى لئے كيا تھا كہ وہ قرآن كى بنياد پر حكم كريں گے مگر تم نے ديكھ ليا كہ انہوں نے كلام اللہ اور سنت رسول (ص) كے خلاف اقدام كيا خدا كى قسم ميں ان سے جنگ كروں گا اگر كسى نے بھى ساتھ نہ ديا تو ميں تنہاہى ان سے نبرد آزمائي كروںگا_(27)

اس كے بعد آپ (ع) '' نخيلہ'' كى جانب روانہ ہوئے اور بصرہ كے صوبہ دار كو خط لكھ كر اس سے مدد چاہى جب خوارج كو يہ علم ہوا كہ سپاہ اسلام نخيلہ ميں جمع ہو رہى ہے تو انہوں نے حَرُوراء ميں قيام كرنا تحفظ كے اعتبار سے خلاف مصلحت سمجھا اور اس جگہ كو ترك كرنے كا فيصلہ كرليا_

اس سے قبل كہ وہ اپنى قيام گاہ كو خالى كر كے جائيں اميرالمومنين حضرت على (ع) نے اتمام حجت كے طور پر انھيں خط لكھا اور انھيں يہ دعوت دى كہ وہ ديگر سپاہ كے ساتھ آن مليں تا كہ معاويہ كى جانب روانہ ہوا كر اس كے ساتھ جنگ كى جاسكے مگر انہوں نے اس خط كا جواب نفى ميں ديا_(28)

اميرالمومنين حضرت على (ع) جب خوارج كو راہ حق پر لانے ميں مايوس ہوگئے تو آپ نے يہى فيصلہ كيا كہ انھيں انہى كے حال پر چھوڑ كر اصل مقاصد كى جانب روانہ ہوا جائے چنانچہ آپ (ع) نے نخيلہ ميں بھى تقرير كا اہتمام كيا اور افواج كى معاويہ سے جنگ كرنے كے لئے حوصلہ افزائي كى اس ضمن ميں آپ(ع) نے فرمايا: كہ ميں نے بصرہ كے بھائيوں كو بھى خط لكھا ہے اور جيسے ہى وہ يہاں پہنچ جائيں گے ہم دشمن كى جانب روانہ ہوں گے_ (29)

بصرہ كى فوج جو تين ہزار دو سو سے زيادہ سپاہيوں پر مشتمل تھى آن پہنچى سپاہ كى مجموعى تعداد تقريبا اڑسٹھ (68) ہزار ہوگئي (30) اس سے پہلے كہ لشكر روانہ ہو بعض سپاہ نے دبى آواز ميں كہنا شروع كيا كہ كيا ہى اچھا ہوتا كہ پہلے خوارج سے جنگ كرلى جاتى اور جب ان كا كام تمام ہوجاتا تو

 

305

ہم صفين كى جانب رخ كرتے_

ليكن اميرالمومنين حضرت على (ع) نے انھيں اس امر كى جانب متوجہ كيا كى معاويہ كے ساتھ جنگ كى كيا اہميت ہے اور اسے كيوں مقدم سمجھنا چاہيئے اور انھيں سمجھايا كى فى الحال خوارج كے مسئلے كى طرف سے خاموشى اختيار كى جائے اور سردست ان كا نام تك نہ ليا جائے_

سپاہ نے جب اميرالمومنين حضرت على (ع) كے يہ اقوال سنے تو اس نے كہا كہ فيصلہ كن اقدام كے لئے ہمارى جانب سے آپ كو كل اختيار ہے اور كہا كہ ہم ايك متحد جماعت اورآپ(ع) كے خير خواہ ہيں جس گروہ كى جانب لے جانے ميں آپ خيرہ و صلاح سمجھيں ادھرہى ہميں لے چليں(31)

خوارج كے ساتھ جنگ كى ضرورت

خوارج كى سرگرميوں كے بارے ميں انتہائي اختصار كے ساتھ اوپر اشارہ كيا جاچكا ہے اميرالمومنين حضرت على (ع) كوجب ان كے ان مجرمانہ افعال كے خبريں مليں تو اس كے بعد آپ (ع) نے ان كى طرف سے چشم پوشى كرنا اور انھيں ان كے حال پر چھوڑ دينا مناسب نہ سمجھا كيونكہ يہاں مسئلہ اظہار خيال و رائے كا نہ تھا بلكہ معاشرے كے امن ميں خلل انداز ہونا اورشرعى حكومت كے خلاف مسلح گروہ كى بغاوت تھى چنانچہ اس بناپر آپ (ع) نے معاويہ سے جنگ كئے جانے كے فيصلے كو بدل ديا_

'' عبداللہ بن خباب'' كا قتل اميرالمومنين حضرت على (ع) كيلئے اس قدر گرانبار ہوا كہ آپ نے ان خوارج كے سامنے جنہوں نے يہ اعتراف كيا كہ ہم ان كے قاتل ہيں فرمايا: اگر خطئہ ارض كے تمام لوگ يہ كہيں كہ ہم ان كے قتل ميں شريك ہيں اور ميں ان كے خون كا بدلہ لے سكوں تو سب كو قتل كر ڈالوں گا_ (32)

اميرالمومنين حضرت على (ع) نے مزيد اطلاعات حاصل كرنے كيلئے '' حارث بن مُرّہ '' كو خوارج

 

306

كے پاس روانہ كياخوارج نے انھيں قتل كرديا ان كے اس اقدام نے سپاہ كو پہلے سے كہيں زيادہ متاثر اور غضبناك كرديا چنانچہ اس نے بآواز بلند كہا كہ يا اميرالمومنين كيا آپ انھيں اسى ليئے بے مہار چھوڑ رہے ہيں كہ وہ ہمارے پيچھے ہمارى عزت و ناموس اور مال و اموال كے ساتھ جو چاہيں كريں؟ پہلے آپ (ع) ہميں ان كى طرف لے چلئے ان سے فراغت پا لينے كے بعد ہم '' شامي'' دشمن كى جانب روانہ ہوں گے _ (33)

اميرالمومنين حضرت على (ع) نے بھى ان كى بات مان لى چنانچہ سپاہ كو ان كا تعقب كرنے كيلئے '' پل(34) ''كے اس پار جانے كا حكم ديا يہاں سے يہ لشكر '' دير ابوموسي'' كى جانب روانہ ہوا اور دريائے فرات كے كنارے '' نہروان (35)'' نامى جگہ پر پڑا و ڈالا_

راہ ميں حضرت على (ع) كو يہ اطلاع دى گئي كہ خوارج پل پار كر كے آگے آچكے ہيں اس موقع پر اميرالمومنين حضرت على (ع) نے اپنے ساتھيوں كے عقيدہ كو مستحكم كرنے نيز اپنى معنوى عظمت كے بارے ميں بتانے كى خاطر فرمايا: كہ ان كى قتل گاہ نہر كے اس طرف ہى ہے خدا كى قسم اس جنگ و پيكار ميں اگر ان كے دس آدميوں نے نجات حاصل نہ كى تو تم ميں بھى دس افراد قتل نہيں ہوں گے_ (36)

جس وقت سپاہ دريائے فرات كے كنارے پہنچى معلوم ہوا كہ خوارج نے دريا پار نہيں كيا ہے حضرت على (ع) نے نعرہ تكبير بلند كيا اور فرمايا: '' اللہ اكبر صدق رسول اللہ''(37)

جنگ كا سدّ باب كرنے كى كوشش

دونوں لشكر دريائے نہروان كے كنارے ايك دوسرے كے مقابل آچكے تھے اميرالمومنين حضرت على (ع) نے نبرد آزمائي سے قبل ہر ممكن كوشش كى كہ جنگ نہ ہو چنانچہ آپ (ع) نے مندرجہ ذيل شرائط ركھيں

1_ خوارج سے كہا كہ وہ عبداللہ بن خباب كے قاتلوں نيز شہداء كو ہمارے حوالے كرديں تا كہ

 

307

ہم تم سے دستبردار ہو كر شام كى جانب روانہ ہوجائيں انہوں نے جواب ديا كہ ہم سب ہى قاتل ہيں اور مزيد يہ كہا كہ تمہارا اور ان كا خون بہانا ہمارے لئے جائز و مباح ہے (38)

2_ آپ (ع) نے يہ تجويز ركھى كہ تم ميں سے كون شخص اس كام كيلئے آمادہ ہے كہ قرآن مجيد اٹھائے اور اس جماعت كو كلام اللہ كى جانب آنے كى دعوت دے طائفہ بنى عامر كے ايك نوجوان نے اپنے آمادگى كا اعلان كيا انہوں نے قرآن پاك اپنے ہاتھ ميں ليا اور خوارج كو اس كى جانب آنے كى دعوت دى خوارج نے ان پر بھى تيروں كى بارش كردى اگر چہ ان كے چہرے پر سب سے زيادہ تير لگے تھے مگر اس كے باوجود وہ اميرالمومنين حضرت على (ع) كے نزديك آگئے اور چند لمحہ بعد ہى شہيد ہوگئے_ (39)

3_ قيس بن سعد اور ايوب انصارى جيسے اصحاب نے بھى اتمام حجت كے طور پر خوارج كے سامنے تقارير كيں ان حضرات كے علاوہ اميرالمومنين حضرت على (ع) بذات خود تشريف لے گئے اور آخرى مرتبہ انھيں مخاطب كرتے ہوئے فرمايا ''ميں تمہيں كل كے لئے آگاہ كيئے ديتا ہوں كہ كہيں ايسا نہ ہو كہ امت اسلاميہ تمہيں لعنت و ملامت سے ياد كرے كيونكہ تمہارے جسم تو اسى نہر كے كنارے زمين پر گريں گے اور تم كوئي محكم دليل يا سنت بطور سند اپنے بارے ميں چھوڑ كر نہيں جاؤگے''

اس كے بعد آپ (ع) نے حكميت كے افسوناك واقع اس معاملے ميں اپنے نيز خوارج كے كردار اور اپنے ہى قول سے ان كى روگردانى و خلاف ورزى كے بارے ميں تقرير كى اس ضمن ميں آپ(ع) نے مزيد فرمايا: كہ اگر چہ حكمين نے كلام اللہ اور سنت رسول(ص) سے منحرف و رو گردان ہو كر اپنے نفسانى ميلان كى بنيادپر حكم جارى كيا مگر ہم اب بھى اپنى اس سابقہ روش پر قائم ہيں اس كے بعد تم كہو كہ كيا كہنا چاھتے ہو اور كہاں سے آگئے ہو؟ (40)

3_ تقرير ختم كرنے كے بعد اميرالمومنين حضرت على (ع) نے پرچم امان ابو ايوب انصارى كے حوالے كيا اور انھيں حكم ديا كہ اعلان كريں كہ جو شخص بھى اس پرچم كے نيچے آجائے گا امن و امان

 

308

ميں رہے گا اس كے علاوہ جو كوئي شہر ميں داخل ہوگا يا عراق كى جانب واپس چلا جائے گاوہ بھى امان ميں رہے گا ہميں تمہارا خون بہانے كے ضرورت نہيں (41)

اميرالمومنين حضرت على (ع) نے جيسے ہى پرچم امان لہرايا تو بہت سے لوگوں نے بآواز بلند كہناشروع كيا التوبہ ، التوبہ يا اميرالمومنين چنانچہ اس كے بعد تقريبا آٹھ ہزار افراد مخالفت سے دستبردار ہوكر پرچم امان كے نيچے جمع ہوگئے_ (42)

 

309

سوالات

1_ منصفين كس تاريخ كو اور كہاں جمع ہوئے ان ميں سے ہر ايك كى ابتدائي رائے كس كے حق تھى اور انہوں نے كس مسئلے پر اتفاق رائے كيا؟

2_ حكميت كے نتيجے كا عراق كے لوگوں پر كيا رد عمل ہوا حضرت على (ع) نے حكميت كے ناپسنديدہ اثرات دور كرنے اور عامہ پر حقائق كى وضاحت كيلئے كيا اقدامات كيئے؟

3_ اس سے قبل خوارج كہ دہشت پسندانہ راہ و روش اختيار كريں حضرت على (ع) كا ان كے ساتھ كيسا سلوك و رويہ تھا؟ اس سلسلے ميں حضرت على (ع) كے اقوال ميں سے ايك قول بطور نمونہ پيش كيجئے_

4_ خوارج كے فكرى دائرہ عمل كى تشكيل كن چيزوں پر منحصر تھي؟

5_ حضرت على (ع) نے معاويہ سے جنگ كرنے كے بجائے اپنى توجہ كس بناپر خوارج كى جانب كردي؟

6_ حضرت على (ع) نے خونريزى روكنے كيلئے كيا اقدامات كئے؟ اس كے دو نمونے پيش كيجئے

 

310

حوالہ جات

1_ اس كا شمار مدينہ كے قريات ميں ہوتا ہے

2_ ملاحظہ ہو وقعہ صفين 533، مروج الذہب ج 2 ص 390

3_ ملاحظہ ہو وقعہ صفين 536

4_ وقعہ صفين 534، واللہ ان لو استطعت لاحين سنة عمر

5_ وقعہ صفين 534

6_ ملاحظہ ہو الامامہ و السياسہ ج 1 ص 118، وقعہ صفين 544

7_ وقعہ صفين 546-----_ 545، الامامہ و السياسہ ج 1 ص 118

8_ الامامہ و السياسہ ج 1 ص 119

9_ خوارج جمع ہے خارجہ كى اصطلاحا اس كا اطلاق اس فرقے پر ہوتا ہے جنہوں نے حضرت على (ع) كے خلاف شورش و سركشى كى اور نہروان نامى مقام پر آپ سے بر سر پيكار ہوئے ابن ملجم كا شمار بھى خوارج ہى ميں ہوتا ہے حضرت على (ع) اسى شخص كے ہاتھوں شہيد ہوئے ( كتاب ملل و نحل تاليف شہرستانى ج 1 ص 144)

10_ ان لكم عندنا ثلاثا لا نمنعكم صلواة فى ہذا المسجد و لا نمنعكم نصيبكم من ہذا الفي ى ما كانت ايديكم مع ايدينا و لا نقتلكم حتى تقاتلونا ( تاريخ طبرى ج 5 ص 74 كامل ج 3 ص 335، المجموعہ الكاملہ ج 5 ص 171)

11_ سورہ زمر آيت 65

12_ سورہ روم آيت 60

13_ شرح ابن ابى الحديد ج 2 ص 311، تاريخ طبرى ج 5 ص 73

14_ ان سكتوا عمعناہم ان تكلموا حججنا ہم و ان خرجوا علينا قاتلنا ہم ( تاريخ طبرى ج 275، كامل بن اثير ج 3 ص 334)

15_ خوارج كے نعرہ '' لاحكم الا للہ'' سے جو مطلب اخذ كيا گيا تھا اسى مفہوم ميں اس كا ذكر حضرت على (ع) كے خطبہ نہج البلاغہ 40 ميں بھى ملتا ہے ابتداء ميں ان كى رائے يہ تھى اجتماع كو امام وقت اور حكومت كى ضرورت نہيں اور

 

311

لوگوں كو چاہيئے كہ خود براہ راست كلام اللہ پر عمل كريں مگر اس رائے كو ظاہر كرنے كے بعد انہوں نے حضرت عبداللہ بن وہب راسبى سے رجوع كيا اور انہى كے ہاتھ پر بيعت كى ( كامل ابن اثير ج 3 ص 335)

16_ جاذبہ و دافعہ على (ع) منقول از ضحى الاسلام و ملل و نحل شہرستاني

17_ ان الحكم الا للہ يقص الحق و ہو خير الفاصلين ( فيصلہ كا سارا اختيار اللہ كو ہے وہى امر حق بيان كرتا ہے اور وہى بہترين فيصلہ كرنے والا ہے (سورہ الانعام آيت 57)

18_ شوہر اور بيوى كے اختلاف كا ذكر سورہ نساء كى آيت 35 ميں آچكا ہے اور ہم اس كا پہلے ذكر كرچكے ہيں ليكن احرام كى حالت ميں اگر كوئي محرم ديدہ و دانستہ شكار كرے تو اسے چاہيئے كہ كفارہ ادا كرے اور بطور كفارہ وہ جو جانور ذبح كرے اس كى حكميت دو عادل انسان كريں چنانچہ قرآن مجيد فرماتا ہے و من قتلہ منكم متعمدا فجزاء مثل ما قتل من النعم يحكم بہ ذوا عدل منكم( احرام كى حالت ميں شكار نہ مارو اور اگر تم ميں سے كوئي جان بوجھ كر ايسا گذرے تو جو جانور اس نے مار اہے اسى كے ہم پلہ ايك اور جانور اسے مويشيوں ميں سے نذر دينا ہوگا جس كا فيصلہ تم ميں سے دو عادل آدمى كريں گے ( سورہ مائدہ آيت 94)

19_ كلمة حق يراد بہا باطل نعم انہ لا حكم الا اللہ و لكن ہولاء يقولون لا امرة الا للہ انہ لا بد للناس من امير من بر او فاجر ...( نہج البلاغہ خ 40)

20_ كامل ابن اثير ج 3/ 335

21_ يا اخواننا ضربوا جباہہم و وجوہہم بالسيف حتى يطاع الرحمن عزوجل

22_ الامامہ و السياسہ ج 1 ص 133، تاريخ طبرى ج 5 ص 75، كامل ج 3 ص 336

23_شرح نہج البلاغہ خوئي ج 4/127

24_ ستكون بعدى فتنہ يموت فيہا قلب الرجل كما يموت بَدَنُہُ يمسى مومنا و يصبح كافر افَكُن عنداللہ المقتول و لا تكن القاتل( شرح نہج البلاغہ خوئي ج 4 ص 128، تاريخ طبرى ج 5/81

25_ شرح نہج البلاغہ خوئي ج 4 ص 128، تاريك طبرى ج 5 ص 81، اعيان الشيعہ ج 1ص 522 ( دس جلديں مطبوعہ بيروت ) و كامل ابن اثير ج 3 ص 341

 

312

26_ شرح نہج البلاغہ علامہ خوئي ج 4 ص 128، اعيان الشيعہ ج 1/ 523

27_ الامامہ و السياسہ ج 1 ص 123

28_ الامامہ و السياسہ ج 1 ص 123

29_ تاريخ طبرى ج 5 ص 78، كامل ابن اثير ج 3 ص 239

30_ كامل ج 3 ص 340

31_ سر بنا يا اميرالمومنين حيث احببت فنحن حزبُكَ و انصارك، الامامہ و السياسة ج 1 ص 125، تاريخ طبرى ج 5 ص 80، كامل ج 3 ص 341

32_ واللہ لو اقر اہل الدنيا كلہم بقتلہ بكذا و انااقدر على قتلہم بہ لقتلتہم شرح نہج البلاغہ خوئي ج 4 ص 128 و ابن ابى الحديد ج 2 ص 282

33_ الامامہ و السياسہ ج 1 ص 127، تدع ہولاء القوم و ارثنا يخلفوننا فى عيالنا و اموالنا ؟سربنا اليہم فاذا فرغنا نہضنا الى عدونا من اہل الشام

34_ يہ پل دريائے طبرستان پر حلوان اور بغدادكے درميان واقع تھا اور شاہراہ خراسان اسى پل سے گذرتى تھى (مروج الذہب ج 2 ص 405)

35_ اس نام كے تين گاؤں ہيں جو طول ميں ايك دوسرے كے بعد آباد تھے ان كى شناخت نہروان اعلى نہروان اوسط اور نہروان اسفل سے كى جاتى تھى يہ گاوں واسطہ اور بغداد كے درميان آباد تھے

36_ مصارعہم دون النطفة واللّہ لا يغلت منہم عشرة و لايہلك منكم عشرہ نہج البلاغہ خ59

37_ مروج الذہب ج 2 ص 405

38_ انا كلنا قتلنا ہم كلنامُستَحل لدمائ كُم و دمائہم الامامہ و السياسہ ج 1 ص 127

39_ شرح نہج البلاغہ خوئي ج 4 ص 129

40_ فما نبوكم و من اين ايتتم ؟ الامامہ و السياسہ ج 1 ص 127، تاريخ طبرى ج 5 ص 84، كامل ج 3 ص 343

41_ الامامہ و السياسہ ج 1 ص 128 ، كامل ج 3 ص 345، تاريخ طبرى ج 5 ص 85

42_ شرح نہج البلاغہ خوئي ج 4 ص 135

 

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اصحاب الرس
ایک شجاع عورت کا حجاج سے زبردست مناظرہ
حکم بن ابی العاص قرآن کی نظر میں
امام حسن(ع) کی صلح اور امام حسین (ع)کے قیام کا فلسفہ
حضرت آدم علیه السلام وحوا کے کتنے فرزند تھے؟
مناظرہ امام جعفر صادق علیہ السلام و ابو حنیفہ
اسارائے اہل بيت کي دمشق ميں آمد
میثاقِ مدینہ
سکوت امیرالمومنین کے اسباب
مسلم بن عقیل کی بیٹیوں کے نام کیا تھے؟

 
user comment