حضرت على (ع) كى نظر ميںعثمان كا قتل (46)نہج البلاغہ ميں مجموعى طور پر سولہ مقامات پر عثمان كے بارے ميںبحث ہوئي ہے جن ميںسے زيادہ كا تعلق قتل عثمان سے ہے _ حضرت على (ع) نے اپنے خطبات ميں ايك طرف تو خود كو اس حادثہ قتل سے برى الذمہ قرار ديا ہے اور دوسرى طرف انہوں نے خود كو عثمان كے مددگار ميں شامل نہيں كيا ہے بلكہ جن لوگوں نے ان كے خلاف شورش كى تھى انہيں عثمان كے مددگاروں پر ترجيح دى ہے اس كے ساتھ ہى يہ سانحہ قتل آپ كى نظر ميں مجموعى طور پر اسلامى مصالح و منافع كے مواقع و سازگار نہ تھا_ بظاہر يہ اقوال اور موضوعات مختلف و متضاد نظر آتے ہيں مگر ان ميں اس طرح ہم آہنگى و مطابقت پيدا كى جاسكتى ہے كہ : حضرت على (ع) چاہتے تھے كہ عثمان اپنے طريقہ كار سے دست بردار ہوجائيں اور اسلامى عدل كى صحيح راہ اختيار كرديں اورضرورت پيش آجائے تو انہيں گرفتار بھى كرليں تاكہ ان كى جگہ اہل خليفہ بر سر اقتدار آئے اور وہ ان كے دو ركے بدعنوانيوں كى تفتيش كرے اور اس سے متعلق جو حكم خداوندى ہواسے جارى كرے_ اس طرح حضرت على (ع) نے نہ تو عثمان كے قتل سے اپنى رضا مندى كا اظہار كيا ہے اور نہ ہى ان كى شورش كرنے والوں كے ساتھ رويے كى تائيد كى ہے _ حضرت على (ع) كى يہى كوشش تھى كہ خون نہ بہاياجائے اور شورش كرنے والوں كے جو جائز مطالبات ہيں انہيں تسليم كياجائے اور اس طرح عثمان يا تو اپنى راہ و روش پر تجديد نظر كريں يا خلافت سے برطرف ہوجائيں تاكہ يہ كام كسى ايسے شخص كے سپرد كياجاسكے جو اس كا اہل ومستحق ہو_ عثمان اور انقلابيوں كے درميان جو تنازع ہوا ا س كے بارے ميں حضرت على (ع) كا فيصلہ يہ تھا كہ عثمان نے ہر چيز كو اپنے اور اپنے عزيز واقارب كے لئے مخصوص كرديا تھا اور جو شيوہ انہوں نے اختيار كيا تھا وہ پسنديدہ نہ تھا اور تم شورش كرنے والوں نے بھى عجلت و بے تابى سے كام ليا جو برى چيز ہے_(47) |
ديں_ اگرچہ گذشتہ اسباق ميں ہم حضرت على (ع) كى بعض كارگزاريوں كے بارے ميں واقفيت حاصل كرچكے ہيں ، ليكن يہاں ہم محض بطور ياد دہانى ترتيب وار آپ كے اہم ترين كارناموں كا ذكر كريں گے: 1_ قرآن كى تفسير ،ا س كى جمع آورى اور علم تفسير ميں بعض شاگردوں كى تربيت_ 2_ دانشوران علم بالخصوص يہود ونصارى كے سوالات كے جواب اور ان كے شبہات كا ازالہ_ 3_ ايسے واقعات كے احكامات بيان كرنا جو اس وقت تازہ اسلام ميں رونما ہوچكے تھے اور ان كے بارے ميں بالخصوص نص قرآن و سنت پيغمبر اكرم (ص) موجود نہيںتھي_ 4_ خلفاء كے سياسى وعلمى مسائل حل كرنا اور ان كى جانب سے مشورہ كئے جانے پر ايسے نظريات پيش كرنا جو ان كے مشكلات كو دور كرسكيں چنانچہ ان كى بعض مشكلات كو گذشتہ صفحات ميں بطور نمونہ پيش كياجاچكاہے_ 5_ اپنے پاك ضمير اور روشن ذہن شاگردوں كى تربيت وپرورش كرنا جو سير وسلوك كيلئے آمادہ رہيں_ 6_ بعض لاچار و مجبور انسانوں كى زندگى كے مخارج پورا كرنے كى سعى وكوشش كرنا_ 7_ ان لوگوں كى دل جوئي و پاسبانى جن پر حكام وقت كى جانب سے ستم روا ركھے جاچكے تھے_ |
سوالات1_ ابوبكر نے داخلى مسائل حل كرنے كے بعد كيا اقدامات كيئے؟ 2_ حضرت على (ع) نے دو مرتبہ ابوبكر كے سياسى وعلمى مسائل حل كئے ان كے بارے ميں بھى لكھيئے؟ 3_ عمر كس طرح بر سر اقتدار آئے كيا انہيں عہدہ خلافت پر منصوب كيا گيا يا منتخب كيا گيا _ ان كے بارے ميں شورى كى تشكيل ہوئي اس كے بارے ميںوضاحت كرتے ہوئے ابوبكر كے اقدام سے متعلق حضرت على (ع) كے نظريے كى صراحت كيجئے؟ 4_ مسلمانوں نے ايران كو كب فتح كيا؟ مختصر طور پر وضاحت كيجئے ؟ 5_ پيغمبر اكرم (ص) كى رحلت كے بعد احاديث كو نقل وجمع كرنا كيوں ممنوع قرار ديا گيا اس كے اسباب كيا تھے؟ 6_ عمر نے جانشين مقرر كرنے كے سلسلے ميں كيا راہ اختيار كي؟ 7_ عثمان كى مالى حكمت عملى كس بنياد پر قائم تھي؟ 8_ عثمان كے عہد خلافت ميں اموى گروہ كو كيا مراعات حاصل تھي؟ 9_ عثمان كے قتل كے كيا اسباب تھے؟ 10_ حضرت على (ع) نے پچيس سال تك سكوت وخاموشى كى زندگى بسر كى اس دوران آپ نے كون سے نماياں كارنامے انجام ديئے پانچ واقعات كا ذكر كيجئے_ |
حوالہ جات1_ يہ شہر كوفہ اورموجودہ نجف كے درميان واقع تھا_ 2_ بعقوبى (ج2/131) نے يہ رقم ستر ہزار اور ايك لاكھ كے درميان ترديد كے ساتھ نقل كى ہے_ 3_ نہراردن اور جھيل طبريہ كے نزديك صحرائي علاقہ جہاں لشكر اسلام اور سپاہ روم كا مقابلہ ہوا_ 4_ بلاذرى لكھتا ہے كہ لشكر اسلام نے پہلے دمشق فتح كيا اور اس كے بعد اسے يرموك پر كاميابى حاصل ہوئي(فتوح البلدان /140) 5_ اتقان ج 2 / 328 6_ تذكرة الحفاظ ذہبى ج 2 /431 7_ مسند حنبل ج 1/ 14_2 8_ تاريخ خلفاء 94_86 9_ تاريخ يعقوبى ج 2/ 132 10_ كافى ج 2/ حديث 16 / ارشاد مفيد /107 حضرت على (ع) نے اس مسئلے كو اس طرح حل كيا كہ وہ شخص اسے عام لوگوں كے درميان لےجائيں اور ان سے پوچھيںكيا تم نے اس شخص كے سامنے اس آيت كى تلاوت كى ہے جس كى رو سے شراب كو حرام قرار ديا گيا ہے اگر ان كا جواب مثبت ہو تو اس شخص پر حد جارى كى جائے_ وگرنہ اس سے كہاجائے كہ وہ اپنے اس فعل سے توبہ كرے خليفہ نے ايسا ہى كيا اور اس شخص نے نجات پائي_ 11_ كامل ابن اثير ج 2/ 425 ' تاريخ طبرى ج 4/ 429 ' شرح ابن ابى الحديد ج 1/ 163_ نہج البلاغہ خطبہ سوم ''فواعجباً بينا ہو يستقبلہا فى حياتہ اذ عقدر لاخر بعد وفاية'' 12_ يہ عراق ميں كوفہ كے نزديك نہر ہے جو فرات سے نكلى ہے_ 13_ اعيان الشيعہ ج 1/ 349_ نہج البلاغہ خ 146_ بحار مطبوعہ كمپانى ج 9/501 14_وحملہ وفصالہ ثلاثون شہرا (احقاف آيہ 15) 15_ والوالدات يرضعن اولادہن حولين كاملين (بقرہ 232) 16_ مروج الذہب ج 2/ 321 _ |
17_ مروج الذہب ج 2/ 331 18 _ تاريخ يعقوبى ج2 / 155 ' كامل ابن اثير ج3 / 33 31 _ 19 _ تاريخ يعقوبى ج2 / 158 ' شرح ابن ابى الحديد ج' / 186 '' ان ولى حمَّل بن ابى معيط وبنى امية على رقاب الناس ... 20 _ شيعہ در اسلام / 11 منقول از '' كنزالعمال ' مقدمہ مراہ العقول ج1 / 30 _ 21 _ طبقات ابن سعد ج5 / 188 ' مقدمہ مراة العقول ج1 / 29 _ 22 _ شيعہ در اسلام 11 _ 23 _ سورہ حشر آيہ '' ماآتا كم الرسول فخذوہ وما نھاكم عنہ فانتھوا '' 24 _ مورخين نے سپاہيوں اور كاركنان حكومت كى تنخواہوں كے جو اعداد و شمار درج كيے ہيں ان كى رقوم ميںنماياں فرق ہے مثلا عباس بن عبدالمطلب كى سالانہ تنخواہ بارہ ہزار درہم تھى جب كہ ايك مصرى سپاہى كو سالانہ تنخواہ صرف تين سو درہم دى جاتى تھى معاويہ اور ان كے باپ كى سالانہ تنخواہ پانج ہزار درہم مقرر تھى جب كہ مكہ كے ايك عام باشندے كى تنخواہ جس نے مہاجرت نہيں كى تھى صرف چھ سو درہم ہى تھى ازدواج پيغمبر اكرم(ص) كو سالانہ تنخواہ چار سو درہم ملتے تھے جبكہ ايك يمنى سپاہى كى تنخواہ 400 درہم تھى ( تاريخ يعقوبى ج2 / 153 ' كامل ابن اثير ج2 / 502 _ 25 _ ( خلاصہ ) شرح ابن ابى الحديد ج1 / 186 _ 26 _ طبرى كے قول كے مطابق ( ج4 / 227 ) جس وقت مجلس مشاورت ( شورى ) كى تشكيل ہوئي طلحہ مدينہ ميں نہ تھے اور اس مجلس كى تشكيل باقى پانج فرادنے كى _ 27_ شرح نہج البلاغہ جلد 3_ 28_ كامل ابن اثير جلد 3 ص 67 ، شرح نہج البلاغہ ج 1 ص 191 ، تاريخ طبرى ج 4 ص 226_ 29 _ نہج البلاغہ خ 3 _ 30 _حتى اذا مضى لمبيلہ جعلھا فيى جماعة زعم انيى احدھم فياللہ وللشورى متى اعترض الريب فيى مع الاول منھم حتى صرت آقرن الى ھدہ النظائر لكنيى اسففت اذاسفوا |
وطرت اذ طاروا فصغى رجل منھم لضغنہ ومال الاخر لصہرہ مع ھن وھن 31_ كامل ابن اثير ج3 / 66 ' ' انيى اكرہ الخلاف '' _ 32 _ شرح ابن ابى الحديد ج1 / 189 _ 33 _ تاريخ يعقوبى ج2 / 165 ' شرح ابن ابى الحديد ج 3 / 19 ' مروج الذھب ج2 / 335 ' كامل ابن اثير ج3 / 107 _ 34 _ مروج الذھب ج2 / 343 الاغانى 6/ 356 الفاظ كے معمولى اختلاف كى ساتھ يہ عبارت نقل كى ہے '' : يا بنيى امية تلقفوھا تلقف الكرة فوالذيى يحلف بہ ابو سفيان مازلت ارجوھا لكم لتصيد ن الى صبيانكم وراثة 35 _مروج الذہب ج 2/ 343_ 341 36_ مروج الذہب ج 2/ 332 37_ شرح ابن ابى الحديد ج 1/ 199 ، الغدير ج 8/258 38 _ ايضاَ 39_ شرح ابن ابى الحديد ج 1/199 40_ نہج البلاغہ خ 164_ '' ... فلا تكون لمروان سيقة بسوقك حيث شاء بعد جلال السن و تقضى العمر'' _ 41_ ربذہ كا انتخاب اس لئے كيا گيا تھا كہ يہ جگہ بہت خشك اور سخت مقامات پر واقع تھى اور حضرت ابوذر نے اپنے كفر كا بشيرر زمانہ اسى جگہ گذارا تھا اس لئے انہيں اس سے سخت نفرت تھي_ 42_ مروج الذہب ج 2/ 339_ 342 كامل ابن اثير ج 3/ 113 ، تاريخ طبرى ج 4/ 283 43 _ الغدير ج 9/ 3، 6، 110 ، شرح ابن ابى الحديد ج 3/ 40 44_ الغدير ج 9/113 _ 110 شرح ابن ابى الحديد ج 3/ 47 ، الامامة والسياسة ج 1 / 36 _ 35 45_ ان خطوط كے متوب كتاب الغدير كى جلد 9 ميں مشاہدہ كريں_ 46_ شرح ابن ابى الحديد ج 2/ 152 _151 _ لا انزع قميصاً البسنية اللہ _ |
47_ عثمان كے سانحہ قتل كے بارے ميں يہ كتابيں ملاحظہ ہوں :''الامامة والسياسة ج 1_ الغدير ج 9 ، شرح ابن ابى الحديد ج 2 اور كامل ابن اثير ج 3 48_ يہاں اس سانحہ كا محض جائزہ ليا گيا ہے_ 49_ استا ثر فاساء الاثرة وجزعتم فسا تم الجزع ( نہج البلاغہ خ 30) 50_ نہج البلاغہ خ 164''انى انشدك اللہ الا تكون امام ہذہ الامة المقتول فانہ كان يقال يقتل فى ہذہ الامة امام يفتح عليہا القتل والقتال الى يوم القيامة '' 51_نہج البلاغہ خ 174''واللہ ما استعجل متجردا الطلب بدم عثمان الاخوفاً من ان يطالب بدمہ لانہ مظنہ ولم يكن فى القوم احرص عليہ منہ''_ 52 _ اس واقعے كى تفصيلات آيندہ صفحات ميں آئے گى _ 53 _ اس سلسلہ ميں نہج البلاغہ كا تيسرا حصہ ملاحظہ ہو ( سيرى در نہج البلاغہ نامى كتاب تاليف شہيد استاد مطہرى (رح ) كے صفحات 175 ' 165 سے بطور خلاصہ ماخوذ ) _ 54 _ يہاں يہ بات قابل ذكر ہے كہ حضرت على (ع) كى ولادت سے خلافت ظاہرى تك كى زندگى كے حالات محقق گرانقدر استاد جعفر سبحانى كى كتاب '' پوھشى عميق از زندگى علي(ع) ( و ديگر معتبر كتب سے اخذ كئے گئے ہيں)_ |