اردو
Friday 26th of April 2024
0
نفر 0

حكومت آل سعود

حكومت آل سعود

فیصل سے عبد العزیز بن سعود تك

فیصل كے بعد اس كا بیٹا عبد اللہ تخت حكومت پر بیٹھا، اس دوران یعنی1282ھ سے 1283ھ تك امن وامان برقرار رھا، لیكن عبد اللہ كے بھائی سعود نے اس كی نافرمانی كرنا شروع كردی، اور قرب وجوار كے بعض حكّام سے مدد چاھی، آخر كار عبداللہ كے لشكر (جو اس كے دوسرے بھائی محمد كے ما تحت تھا) اور سعود كے لشكر میں جنگ هونے لگی، چنانچہ سعود كو كئی زخم لگ گئے جن كی بناپر اس كو شكست هوئی اور وہ وھاں سے احساء كی طرف بھاگ نكلا اور پھر وھاں سے عُمان چلاگیا۔

1287ھ میں سعود وھاں سے بھی بھاگ لیا اور بحرین میںآل خلیفہ كے امیروں كی پناہ لے لی، اور ان سے اپنے بھائی عبداللہ كے مقابلہ كے لئے مدد چاھی، بحرین كے حكّام نے اس كو مدد دینے كاوعد ہ دیا، ادھر سے عبد اللہ كے دوسرے مخالف افراد منجملہ قبیلہ عَجمان اور آل مُرّہ سعود كے ساتھ مل گئے۔

اور اس كے بعد دونوں میں جنگ هوئی اور اس جنگ میں محمد كو شكست هوئی سعودنے اس كو گرفتار كركے زندان بھیج دیا اوراحساء او رریاض كو اپنے قبضہ میں لے لیا، ادھر ایك مدت كے بعد (عثمانیوں كی طرف سے)والی بغداد نے عبد اللہ كی كمك كے طور پر فریق پاشا كی سرداری میں ایك لشكر نجد كے لئے روانہ كیا، اس لشكر نے عبد اللہ كی ھمراھی میں سعود كو زبر دست شكست دی۔

اُدھر عثمانیوں نے بھی مدحت پاشا كی سرداری میں ایك لشكر كو بھیج دیا یہ لشكر شیخ مبارك الصباح (كویت كے امیروں میں سے ایك امیر)كی مدد سے دریائی راستہ سے بندرگاہ عقیر (خلیج فارس كے بندرگاهوں میں سے ایك بندر گاہ جو بحرین كے مقابل ھے)میں داخل هوا۔

ان لشكروں كی آمد ورفت كے دوران كسی نے چپكے سے عبد اللہ كو یہ خبر دی كہ مدحت پاشا كا اصلی مقصد تمھیں گرفتار كرنا اور عثمانی حكومت كے سامنے تسلیم كرانا ھے، یہ سننے كے بعد عبد اللہ بڑی چالاكی سے عثمانی لشكر كے درمیان سے غائب هوگئے اور ریاض جا پهونچے اور اپنے ہدف كو آگے بڑھایا، چنانچہ اس وقت اس نے آل شمّر پر حملہ كردیا اور وھاں كے بھت سے لوگوں كو قتل كردیا۔

1290ھ میں سعود نے ریاض پر حملہ كردیااور اپنے بھائی عبد اللہ كو شكست دیدی، او روہكویت كی طرف بھاگ نكلا، ادھر سعود كو قبیلہ ”عُتَیْبَہ“ سے هوئی جنگ میںزبر دست شكست كا منھ دیكھنا پڑا، اور ریاض واپس پلٹ آیا، ماحول اسی طرح خراب رھا،1291ھ میں فیصل بن تركی كا چوتھا بیٹا امیر عبد الرحمن جو بغداد میں تھا، احساء آیا اور اس نے بھی آنے كے بعد لشكر او رطاقت كو جمع كرنا شروع كیا چونكہ اس وقت قرب وجوار میں عثمانی لشكر كا قبضہ تھا،اسی لئے عبد الرحمن نے سب سے پھلے شھر ”ہفوف“ میں موجود عثمانی سپاہ سے جنگ كی اور اس كے بعد ان كویتوں پر حملہ كیا جنھوں نے مدحت پاشا كی مدد كی تھی او ران كو ”كوت ِ ابراھیم“ او ر”كوتِ حصار“ نامی جگهوںپر گھیر لیا۔

كویت كے لوگوں نے والی بغداد سے مدد چاھی اس نے ان كی مدد كے لئے ایك لشكر بھیجا،عبد الرحمن نے اس لشكر سے شكست كھائی، وھاں سے ریاض كی طرف بھاگ نكلا، اور (ذی الحجہ1291ھ) میں امیر سعود جو شھر حُریملہ چلا گیا تھا وھیں پراس كا انتقال هوگیا، اور عبد الرحمن اس كی حكومت پر قابض هوگیا۔

1293ھ میں سعود كے بیٹے، (اپنے چچا) عبد الرحمن كی مخالفت میں كھڑے هوئے اور وہ مجبوراً ریاض سے بھاگ كر عتیبہ گاوٴں میں اپنے بھائی عبد اللہ سے ملحق هوگیا، عبد اللہ نے اس كابڑا احترام كیا ۔

اس كے بعد عبد اللہ نے اپنے جنگجو لوگوں اور عبد الرحمن كے ساتھ ریاض كی طرف حركت كی، ادھر سعود كی اولاد بغیر كسی جنگ كے ریاض چھوڑ كربھاگی، عبد اللہ نے ریاض پر قبضہ كرلیا، عبد الرحمن اور اس كا دوسرا بھائی محمد ،عبد اللہ كے كسی كام میں مخالفت نھیں كرتے تھے۔

اس كے بعد سے1308ھ تك آل سعود كی حالت مختلف جنگوں او رفسادات كی وجہ سے بھت زیادہ بحرانی رھی، جن كی بناپر وہ ضعیف او ركمزور هوتے چلے گئے، جس كے نتیجہ میں آل رشید ان پر غالب هوگئے اور محمد بن عبد اللہ الرشید نے ریاض پر قبضہ كرلیا اور نجد كی حكومت اپنے ھاتھوں میں لے لی،اور عبد الرحمن اپنے اھل خانہ كے ساتھ جن میں اس كا جوان بیٹا عبد العزیز الرشید بھی تھا كویت كی طرف روانہ هوئے، لیكن محمد الصباح شیخ كویت نے ان كو كویت میں داخل هونے سے روك دیا، مجبوراً عبد الرحمن نے نجد كے دیھاتی علاقہ (الرّبع الخالی) كا رخ كیا اور پھلے بنی مُرّہ پھر قبیلہ عجمان (جو اپنے كو ایرانی الاصل مانتے تھے) كے یھاں قیام كیا اور اس كے بعد قطر كی طرف حركت كی اور دومھینہ وھیں قیام كیا۔

سلطان عبد الحمید (عثمانی سلطان)نے عبد الرحمن سے دوستی كا ارادہ كرلیا، اس نے ھر مھینہ سونے كے ساٹھ لیرے عبد الرحمن كے لئے معین كئے اور پھر امیر كویت نے اس كو پناہ دیدی، اور عبد الرحمن قطر سے كویت پهونچ گئے، او روھیں پر رھے یھاں تك كہ اس كے بیٹے عبد العزیز (جیسا كہ بعد میں شرح دی جائے گی) نے سر زمین نجد كو اس افرا تفری كے ماحول سے نجات دی او رعربی سعودی حكومت تشكیل دی۔

صلاح الدین مختار صاحب، امین ریحانی سے نقل كرتے ھیں كہ حاكم احساء نے سلطان عثمانی كی طرف سے ڈاكٹر زخور عازار لبنانی كے ذریعہ عبد الرحمن كو پیغام بھیجا كہ اگر تم سلطان كی اطاعت كا اعلان كرو تو تمھیں ریاض كی حكومت مل جائے گی، لیكن عبد الرحمن نے اس پیشكش كو قبول كرنے سے عذر خواھی كی۔

عبد العزیز بن عبد الرحمن معروف بہ ابن سعود

جس وقت عبد العزیز او راس كے باپ عبد الرحمن كویت میں رھتے تھے، انگلینڈ كی حكومت نے عرب كے شیوخ كی خوشنودی كے لئے سلطان عثمانی سے بھت سخت مقابلہ اورجنگ كی۔

عبد الحمید دوم سلطان عثمانی، نے احساس كیا كہ شیخ كویت انگلینڈ كی طرف مائل ھے، یہ دیكھتے هوئے اس نے عبد العزیز الرشید امیر شمّر كی مدد كے لئے ھاتھ بڑھایا جو شیخ كویت كا دشمن تھا، اور عبد العزیز الرشید كو خبر دی كہ اگر وہ كویت كو اپنے علاقوں میں ملحق كرنا چاھتے ھیں تو اس كو كوئی اعتراض نھیں ھے، یہ سن كر عبد العزیز الرشید بھت خوشحال هوئے، كیونكہ اس كا عقیدہ یہ تھا كہ اگر اس بندرگاہ كو بھی اپنے علاقوں میں شامل كرلے گا تو حكومت آل رشید مستحكم اور مضبوط هوجائے گی، اور اسی چیز كے پیش نظر1900ء(1317ھ) میں شَمّر كے جنگجووٴں كے ساتھ كویت پر حملہ كے لئے تیار هوگیا۔

امیر كویت چونكہ اس سے مقابلہ كی طاقت نھیں ركھتا تھا لیكن اس كے پاس مال ودولت بھت تھی اسی وجہ سے عشایر عَجمان، ضُفَیر اورمنتفق كو اپنے ساتھ میں لے لیا اور آل سعود سے بھی نصرت اور مدد چاھی اور ان كو وعدہ دیا كہ ریاض كی حكومت ان كو واپس كردیگا، ادھر عبد العزیز بن عبد الرحمن كو بھی اپنے ارادے سے آگاہ كیا، آخر كار شیخ مبارك بن الصباح امیر كویت اور عبد الرحمن آل سعود اور اسكے بیٹے عبد العزیز نے میٹنگ اور آپس میں صلاح ومشورہ كیا، جس میںیہ طے پایا كہ ابن الرشید كا خاتمہ كردیا جائے۔

1318ھ میں طرفین میں سخت جنگ هوئی، اور امیر كویت كو بھت بری ھار كا منھ دیكھنا پڑا، اور ابن الرشید نے كویت كے دروازہ تك حملہ كیا لیكن اچانك اس كو پیچھے ہٹنا پڑا كیونكہ دریائی راستہ سے انگلینڈ كی سپاہ اس كے راستہ میں آگئی، چنانچہ انگلینڈ كی فوج كے سردار نے اس سے نصیحت كے طور پر كھا كہ پلٹ جانے میں ھی تمھاری بھلائی ھے، او راگرتم نے اس كے علاوہ كوئی قدم اٹھایا تو ھم تمھیں اپنی بڑی بڑی او رپر قدرت توپوں كے ذریعہ نیست ونابود كردیں گے، او رتمھارے تمام ساتھیوں كو ھلاك كردیں گے، ابن الرشید نے عثمانی حكومت سے مدد طلب كی، لیكن ادھر استامبول اور لندن میں پھلے سے عہدوپیمان هوچكا تھااور لندن نے عثمانی حكومت كو ابن الرشید كی مدد نہ كرنے پر قانع كردیا تھا۔

ان واقعات سے اصل فائدہ انگلینڈ نے اٹھایا اس نے اپنے لئے خلیج فارس میں ہندوستان كے راستہ میں اپنے رہنے كا ٹھكانہ بنالیا، او رشیخ كویت كو بھی حملوں كے خطرات سے امان مل گئی۔

عبدالرحمن اور اس كا بیٹا عبد العزیز كویت میں رھتے رھے اور عبد العزیز نے اس مدت میں علوم دینی كے درس میں شریك هونا شروع كردیا۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اسلام کا قانون
اوصافِ شیعہ
معاد کے لغوی معنی
شیعه منابع پر ایک سرسری نظر
خدا کے غضب سے بچو
علم کا مقام
خدا ذرہ برابر کسی پر ظلم نہیں کرتا
شریف حسین كی حكومت
علامات شیعہ از نظر معصومین علیھم السلام
نبوت عامہ

 
user comment