اردو
Friday 3rd of May 2024
0
نفر 0

شناخت خدا اور اس کي طرف رغبت کا فطري ھونا

قرآن مجيد کي آيتوں کي رو سے شناخت خدا بھي فطري ھے اور اس کي طرف رغبت و جستجو بھي۔ بحث ”وجود خدا بديھي ھے“ کے ذيل ميں کھا جا چکا ھے کہ خدا کے وجود کا باور اور اعتراف، عام اور سبھي کے لئے قابل قبول رھا ھے يعني وجود خدا کوئي ايسا مجھول مسئلہ نھيں ھے جو اثبات کا محتاج ھو? اس بحث کے ذريعے شناخت خدا کا فطري ھونا ثابت ھو چکا ھے۔ اس سلسلے ميں جو آيتيں دلالت کرتي ھيں ان ميں سے ايک سورہ روم کي تيسويں آيت ھے جس کو آيہ فطرت کھا جاتا ھے:
شناخت خدا اور اس کي طرف رغبت کا فطري ھونا

قرآن مجيد کي آيتوں کي رو سے شناخت خدا بھي فطري ھے اور اس کي طرف رغبت و جستجو بھي۔ بحث ”وجود خدا بديھي ھے“ کے ذيل ميں کھا جا چکا ھے کہ خدا کے وجود کا باور اور اعتراف، عام اور سبھي کے لئے قابل قبول رھا ھے يعني وجود خدا کوئي ايسا مجھول مسئلہ نھيں ھے جو اثبات کا محتاج ھو? اس بحث کے ذريعے شناخت خدا کا فطري ھونا ثابت ھو چکا ھے۔

اس سلسلے ميں جو آيتيں دلالت کرتي ھيں ان ميں سے ايک سورہ  روم کي تيسويں آيت ھے جس کو آيہ فطرت کھا جاتا ھے:

(فاقم وجھک للدين حنيفاً فطرة الله التي فطر الناس عليھا لا تبديل لخلق الله ذلک الدين القيم ولکن اکثر الناس لا يعلمون)

اپنا رخ پروردگار کے خالص دين کي طرف کر لو کيونکہ يہ فطرت ھے جس پر الله نے انسانوں کو پيدا کيا ھے۔  اس کي تخليق ميں کوئي تغير و تبدل نھيں ھوتا اور يھي محکم و استوار دين ھے ليکن اکثر لوگ اس حقيقت کو نھيں جانتے۔ مذکورہ آيت مکمل وضاحت و صراحت کے ساتھ دين کو فطري امر کے طور پر پيش کرتي ھے۔ اس آيت ميںدين سے کيا مراد ھے، اس سلسلے ميں مفسرين دو رائے پيش کرتے ھيں:

(الف) دين سے مراد معارف و احکام مخصوصاً اسلام کے حقيقي اور بنيادي معارف واحکام کامجموعہ ھے۔ اس رائے کے مطابق، دين کے اندر موجود تمام کليات کہ جن ميں سے اھم ترين شناخت اور عبادت خدا ھے، فطرت انسان ميں راسخ کردئے گئے ھيں۔ مرحوم علامہ طباطبائي نے اپني تفسير،” تفسير الميزان“ ميں اسي نظريے کو منتخب کيا ھے۔    

(ب) دين سے مراد وہ دين ھے جو فطرت کے مطابق ھواور اس کے معني خدا کے سامنے تسليم محض اور سر بسجود ھوجانا ھے کيونکہ دين کا لب لباب خضوع و خشوع ، فرمانبرداري و اطاعت کے ماسوا کچھ نھيں ھے:

(ان الدين عند الله الاسلام)

خدا کے نزديک دين فقط اسلام ھے۔

اس رائے کے مطابق، دين کے فطري ھونے کا مطلب يہ ھے کہ انسان کي خلقت ميں ايسے تمايلات واوصاف شامل کردئے گئے ھيں جو اسے خدا کي عبادت کي طرف اکساتے رھتے ھيں۔ واضح ھے کہ اگر خداپرستي فطري ھو تو خدا شناسي بھي فطري ھوجائے گي کيونکہ فطرتہ يہ ممکن نھيں ھے کہ انسان اس کي پرستش کرے جس کو وہ جانتا بھي نہ ھو۔

بشکريہ : الحسنين ڈاٹ کام


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

روح ایک پیچیدہ حقیقت ھے
تاریخ نزول قرآن
اہم شیعہ تفاسیر کا تعارف
قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ(چہارم)
قرآن کی روشنی میں منافقین کے ثقافتی صفات
قرآن اور جوان
شب قدر شب امامت و ولایت ہے
امام جعفر صادق علیہ السلام کا دور
خالص عبادت کيسي ہوني چاہيۓ ؟
ماں باپ کے حقوق قرآن کی روشنی میں

 
user comment