اردو
Tuesday 7th of May 2024
0
نفر 0

ماہ خدا! خدا حافظ

اللہ کے مبارک مہینے کو وہی الوداع کہہ سکتا ہے جو اس مہینے کے ساتھ مانوس رہا ہو اور جس نے اس مہینے کو اپنا دوست انتخاب کیا ہو ورنہ جو شخص اس مہینے کے قریب نہ گیا ہو وہ اس سے کیا خدا ح
ماہ خدا! خدا حافظ

اللہ کے مبارک مہینے کو وہی الوداع کہہ سکتا ہے جو اس مہینے کے ساتھ مانوس رہا ہو  اور جس نے اس مہینے کو اپنا دوست انتخاب کیا ہو ورنہ جو شخص اس مہینے کے قریب نہ گیا ہو وہ اس سے کیا خدا حافظی کرے گا۔ انسان ہمیشہ اپنے دوست یا رشتہ دار کو خدا حافظی کہتا ہے۔ لیکن جس شخص کو پتا ہی نہ ہو کہ کب ماہ رمضان آیا اور کب چلا گیا؟ کیوں آیا اور کیوں گیا؟ وہ کس بات کی خدا حافظی کرے گے۔  ماہ مبارک رمضان کا جس طرح ایک ظاہری وجود ہے اسی طرح اس کا ایک باطنی اور حقیقی وجود ہے جو قیامت میں ظہور کرے گا۔ اللہ کے نیک بندے اس کے باطنی اور حقیقی وجود کو اسی دنیا ہی میں محسوس کرتے ہیں اس کے ساتھ مانوس ہو جاتے ہیں، اسے اپنا دوست بنا لیتے ہیں پھر جب یہ مہینہ ان سے رخصت ہونے لگتا ہے تو وہ زار و قطار روتے ہیں اور اس کی جدائی پر آنسوں بہاتے ہیں۔ امام سجاد علیہ السلام ماہ رمضان کے اختتام پر اس طرح گریہ و زاری کرتے تھے جیسے بوڑھی ماں جواں بیٹے کی میت پر نالہ و شیون کرتی ہے۔ آپ ماہ مبارک کے آخری دن بارگاہ الہی میں یوں اس مہینے کی برکتوں اور نعمتوں کو گنواتے ہیں اور ماہ مبارک کو الوداع کہتے ہوئے گریہ کرتے ہیں: «و انت جعلت من صفایا تلك الوظائف و خصائص تلك الفروض شهر رمضان... و قد اقام فینا هذا الشهر مقام حمد و صحبنا صحبة مبرور...  »’’بارالہا!تو نے ان منتخب فرائض اور مخصوص واجبات میں سے ماہ رمضان کو قرار دیا ہے جسے تو نے تمام مہینوں میں امتیاز بخشا اور تمام وقتوں اور زمانوں میں سے اسے منتخب فرمایا ہے اور اس میں قرآن اور نور کو نازل فرما کر اور ایمان کو فروغ وترقی بخش کر اسے سال کے تمام اوقات پر فضیلت دی اور اس میں روزے واجب کئے اور نمازوں کی ترغیب دی اور اس میں شب قدر کو بزرگی بخشی جو خود ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ پھر اس مہینہ کی وجہ سے تو نے ہمیں تمام امتوں پر ترجیح دی اور دوسر ی امتوں کے بجائے ہمیں اس کی فضلیت کے باعث منتخب کیا ۔ چنانچہ ہم نے تیرے حکم سے اس کے دنوں میں روزے رکھے اور تیری مدد سے اس کی راتیں عبادت میں بسر کیں ۔ اس حالت میں کہ ہم اس روزہ نماز کے ذریعہ تیری اس رحمت کے خواستگار تھے جس کا دامن تو نے ہمارے لئے پھیلایا ہے اور اسے تیرے اجر وثواب کا وسیلہ قراردیا ۔ اور تو ہر اس چیز کے عطا کرنے پر قادر ہے جس کی تجھ سے خواہش کی جائے اور ہر اس چیز کا بخشنے والا ہے جس کا تیرے فضل سے سوال کیا جائے تو ہر اس شخص سے قریب ہے جو تجھ سے قرب حاصل کرنا چاہے ۔ اس مہینہ نے ہمارے درمیان قابل ستائش دن گزارے اور اچھی طرح حق رفاقت ادا کیا اور دنیا جہان کے بہترین فائدوں سے ہمیں مالا مال کیا ۔ پھر جب اس کا زمانہ ختم ہو گیا، مدت بیت گئی اور گنتی تمام ہو گئی تو وہ ہم سے جدا ہوگیا۔ اب ہم اسے رخصت کرتے ہیں اس شخص کے رخصت کرنے کی طرح جس کی جدائی ہم پر شاق ہو اور جس کا جانا ہمارے لئے غم افزا اور وحشت انگیز ہو اور جس کے عہد وپیمان کی نگہداشت عزت وحرمت کا پاس اور اس کے واجب الادا حق سے سبکدوشی از بس ضروری ہو اس لیے ہم کہتے ہیں اے اللہ کے بزرگ ترین مہینے تجھ پر سلام ، اے دوستان خدا کی عید تجھ پر سلام‘‘۔کیسے وداع کیا ہے امام علیہ السلام نے ماہ خدا کو! ایسا وداع جو ایک دوست اپنے عزیز دوست کو کرتا ہے، ایسا وداع جو ایک ماں اپنے بیٹے کو کرتی ہے۔ آپ فرماتے ہیں: ’’ہم اسے رخصت کرتے ہیں اس شخص کے رخصت کرنے کی طرح جس کی جدائی ہم پر شاق ہو اور جس کا جانا ہمارے لئے غم افزا اور وحشت انگیز ہو‘‘۔«و اوحشنا انصرافه عنا» اس کے رخصت ہونے سے ہمیں وحشت ہو رہی ہے ہم نے ایک مہربان اور عزیز دوست کو الوداع کہہ دیا ہے لہذا ہم اسے رخصت کر کے تنہا ہو گئے ہیں اور وحشت کر رہےہیں۔یقینا جب کوئی دل عزیز رخصت ہوتا ہے تو اس کا رخصت ہونا انسان کے لیے غم افزا ہو جاتا ہے اس کی جدائی انسان پر سخت گزرتی ہے۔ امام سجاد (ع) ماہ مبارک سے ایسے مانوس ہو جایا کرتے تھے کہ جیسے ایک دوست اپنے دوست سے مانوس ہو جاتا ہے جیسے ایک رشتہ دار اپنے رشتہ دار سے مانوس ہوتا ہے لہذا اس کی جدائی اس پر ناگوار گزرتی ہے اس کی رخصت اس کے لیے وحشت انگیز ہوتی ہے۔ ہمارے بزرگ فقہا مرحوم صاحب جواہر،  صاحب عروۃ الوثقیٰ سید محمد کاظم اور دیگر فقہا نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ روزے کی فضیلت میں اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ روزے سے انسان مادیات سے نکل کر فرشتوں کی صف میں داخل ہو جاتا ہے۔ یہی جو انسان روزے کے ذریعے اپنے شکم اور نفس کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے فرشتوں کے قریب ہو جاتا ہے۔ فقہا نے لکھا ہے کہ عید کو چھوڑ کر ماہ شوال کے ابتدائی کچھ دنوں میں بھی روزہ رکھنا چاہیے اس لیے کہ اگر کوئی اپنے عزیز دوست کو خداحافظی کرتا ہے تو کچھ قدم اس کے ساتھ چلتا ہے وداع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کچھ قدم اس کے ساتھ چلا جائے۔ لہذا ماہ مبارک کو وداع کرنے والے کو بھی چاہیے کہ ماہ شوال کے کچھ دن روزہ رکھ کر چند قدم اس کی ہمراہی کرے۔اس کے بعد امام علیہ السلام ماہ رمضان کو ایسے خدا حافظی کا سلام کہتے ہیں، ایسے الوداعی سلام کہتے ہیں جیسے کسی ولی خدا کو رخصت کر رہے ہوں۔ امام علیہ السلام کا ولی خدا کی طرح ماہ رمضان کو سلام کرنا یہ بتا رہا ہے کہ ماہ رمضان یہی تیس ایام نہیں ہیں جو باقی مہینوں کی طرح آئے اور چلے گئے بلکہ اس ماہ کی ایک باطنی حقیقت اور اس کا ایک معنوی وجود ہے جسے ہم نہیں دیکھ رہے ہیں ہم محسوس نہیں کر رہے لیکن امام اسے محسوس کر رہے ہیں وہی وجود جو قیامت میں سب کے سامنے ظاہر ہو گا۔ امام علیہ السلام اس باطنی وجود کو مخاطب کر کے ماہ رمضان کو اس طرح سلام کرتے ہوئے فرما رہے ہیں:«فنحن قائلون السلام علیك یا شهر الله الاكبر و یا عید اولیائه السلام علیك یا اكرم مصحوب من الاوقات و یا خیر شهر فى الایام و الساعات ۔۔۔ ‌» ’’اے اوقات میں بہترین رفیق اور دنوں اور ساعتوں میں بہترین مہینے تجھ پر سلام ہو ، اے وہ مہینے جس میں امیدیں بھر آتی ہیں اور اعمال کی فراوانی ہوتی ہے تجھ پر سلام ۔ اے وہ ہم نشین کہ جو موجود ہو تو اس کی بڑی قدرومنزلت ہوتی ہے اور نہ ہونے پر بڑا دکھ ہوتا ہے اور اے وہ سر چشمہ امید ورجا جس کی جدائی الم انگیز ہے تجھ پر سلام۔ اے وہ ہمدم جو انس ودل بستگی کا سامان لیے ہوئے آیا تو شادمانی کا سبب ہوا اور واپس گیا تو وحشت بڑھا کر غمگین بنا گیا تجھ پر سلام۔ اے وہ ہمسائے جس کی ہمسائیگی میں دل نرم اور گناہ کم ہو گئے تجھ پر سلام ، اے وہ مدد گار جس نے شیطان کے مقابلہ میں مدد واعانت کی، اے وہ ساتھی جس نے حسن عمل کی راہیں ہموار کیں تجھ پر سلام ، ( اے ماہ رمضان ) تجھ میں اللہ کے آزاد کیے ہوئے بندے کس قدر زیادہ ہیں اور جنہوں نے تیری حرمت وعزت کا پاس ولحاظ رکھا وہ کتنے خوش نسیب ہیں تجھ پر سلام، تو کس قدر گناہوں کو محو کرنے والا اور قسم قسم کے عیبوں کو چھپانے والا ہے تجھ پر سلام ۔ تو گنہگاروں کے لیے کتنا طویل اور مومنوں کے دلوں میں کتنا پر ہبیت ہے تجھ پر سلام ، اے وہ مہینے جس سے دوسرے ایام ہمسری کا دعوی نہیں کر سکتے تجھ پر سلام، اے وہ مہینے جو ہر امر سے سلامتی کا باعث ہے تجھ پر سلام ، اے وہ جس کی ہم نشینی بار خاطر اور معاشرت ناگوار نہیں ۔ تجھ پر سلام جب کہ تو برکتوں کے ساتھ ہمارے پاس آیا اور گناہوں کی آلودگیوں کو دھویا تجھ پر سلام ، اے وہ جسے دل تنگی کی وجہ سے رخصت نہیں کیا گیا۔اور نہ خستگی کی وجہ سے اس کے روزے چھوڑے گئے تجھ پر سلام ۔ اے وہ کہ جس کے آنے کی پہلے سے خواہش تھی اور جس کے ختم ہونے سے قبل ہی دل رنجیدہ ہیں تجھ پر سلام، تیری وجہ سے کتنی برائیاں ہم سے دور ہو گئیں اور کتنی بھلائیوں کے سر چشمے ہمارے لیے جاری ہو گئے تجھ پر سلام ۔ اے ماہ رمضان تجھ پر اور اس شب قدر پر جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے سلام ہو۔ ابھی کل ہم کتنے تجھ پر وا رفتہ تھے اور آنے والے کل میں ہمارے شوق کی کتنی فراوانی ہو گئی تجھ پر سلام ۔ اے ماہ مبارک تجھ پر اور تیری ان فضیلتوں پر جن سے ہم محروم ہو گئے اور تیری گزشتہ برکتوں پر جو ہمارے ہاتھ سے جاتی رہیں سلام ہو ۔اے اللہ ہم اس مہینے سے مخصوص ہیں جس کی وجہ سے تو نے ہمیں شرف بخشا اور اپنے لطف واحسان سے اس کی حق شناسی کی توفیق دی جبکہ بد نصیب لوگ اس کے وقت ( کی قدر وقیمت)سے بے خبر تھے اوراپنی بد بختی کی وجہ سے اس کے فضل سے محروم رہ گئے اور تو ہی ولی وصاحب اختیار ہے کہ ہمیں اس کی حق شناسی کے لیے منتخب کیا اوراس کے احکام کی ہدایت فرمائی ۔ بے شک تیری توفیق سے ہم نے احکام کی ہدایت فرمائی۔ بے شک تیری توفیق سے ہم نے اس مہینے میں روزے رکھے، عبادت کے لیے قیام کیا ۔ مگر کمی و کوتاہی کے ساتھ اور مشتے ازخروار سے زیادہ نہ بجا لاسکے۔ اے اللہ ! ہم اپنی بد اعمالی کا اقرار اورسہل انگاری کا اعتراف کرتے ہوئے تیری حمد کرتے ہیں اوراب تیرے لیے کچھ ہے تو وہ ہمارے دلوں کی واقعی شرمساری اور ہماری زبانوں کی سچی معذرت ہے لہذا اس کمی و کوتاہی کے باوجود جو ہم سے ہوئی ہے ہمیں ایسا اجر عطا کر کہ ہم اس کے ذریعہ دلخواہ فضیلت وسعادت کو پا سکیں اور طرح طرح کے اجر وثواب کے ذخیرے جن کے ہم آرزو مند تھے اس کے عوض حاصل کر سکیں اور ہم نے تیرے حق میں جو کمی کوتاہی کی ہے اس میں ہمارے عذر کو قبول فرما اور ہماری عمر آئندہ کا رشتہ آنے والے ماہ رمضان سے جوڑ دے اور جب اس تک پہنچا دے تو جو عبادت تیرے شایان شان ہو اس کے بجا لانے پر ہماری اعانت فرمانا اوراس اطاعت پر جس کا وہ مہینہ سزاوار ہے عمل پیرا ہونے کی توفیق دینا اور ہمارے لئے ایسے نیک اعمال کا سلسلہ جاری رکھنا کہ جو زمانہ زیست کے مہینوں میں ایک کے بعد دوسرے ماہ ماہ رمضان میں تیری حق ادائیگی کا باعث ہوں ۔ ا ے اللہ ! ہم نے اس مہینہ میں جو صغیرہ یا کبیرہ معصیت کی ہو ، یا کسی گناہ سے آلودہ اورکسی خطا کے مرتکب ہوئے ہوں جان بوجھ کر یا بھولے چوکے، خود اپنے نفس پر ظلم کیا ہو یا دوسرے کا دامن حرمت چاک کیا ہو ۔ تو محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اور ہمیں اپنے پردہ میں ڈھانپ لے اور اپنے عفو ودرگزر سے کام لیتے ہوئے معاف کر دے ، اور ایسا نہ ہو کہ اس گناہ کی وجہ سے طنز کرنے والوں کی آنکھیں ہمیں گھوریں اور طعنہ زنی کرنے والوں کی زبانیں ہم پر کھلیں اور اپنی شفقت بے پایاں سے اور مرحمت روز افزوں سے ہمیں ان اعمال پر کار بند کر کہ جو ان چیزوں کو بر طرف کریں اور ان کی تلافی کریں جنہیں تو اس ماہ میں ہمارے لئے نا پسند کرتا ہے۔ اے اللہ ! محمد اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما اوراس مہینہ کے رخصت ہونے سے جو قلق ہمیں ہوا ہے اس کا چارہ کر اور عید اور روزہ چھوڑنے کے دن کو ہمارے لیے مبارک قرار دے اور اسے ہمارے گزرے ہوئے دنوں میں بہترین دن قرار دے جو عفو ودرگزر کو سمیٹنے والا اور گناہوں کو محو کرنے والا ہو اور تو ہمارے ظاہر وپوشیدہ گناہوں کو بخش دے۔ بارالہا اس مہینہ سے الگ ہونے کے ساتھ تو ہمیں گناہوں سے الگ کر دے اور اس کے نکلنے کے ساتھ تو ہمیں برائیوں سے نکال لے اوراس مہینہ کی بدولت اس کو آباد کرنے والوں میں ہمیں سب سے بڑھ کر خوش بخت با نصیب اور بہرہ مند قرار دے ۔ اے اللہ ! جس کسی نے جیسا چاہیے اس مہینے کا پاس ولحاظ کیا ہو ا


source : abna
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

''شوہر داري'' يعنى شوہر كى نگہداشت اور ديكھ بھال
(اے پدر بزرگوار تم پر سلام هو)
ہندی طبیب کے ساتھ امام جعفرصادق(ع) کی گفتگو
ازدواج يا شادي: ناموسِ فطرت اور قانونِ شريعت
نجف اشرف عالم اسلام کا ثقافتی دارالحکومت
علّامہ شہید عارف حسین حسینی کی برسی
یوسف قرآن (حصہ اول)
انسان، صحیفہ سجادیہ کی روشنی میں
اخلاق ،قرآن کی روشنی میں
ہم فروع دین میں تقلید کیوں کریں ؟

 
user comment