اردو
Friday 26th of April 2024
0
نفر 0

کتاب علی علیہ السلام کی حقیقت کیا ہے؟

کتاب علی  علیہ السلام  کی حقیقت کیا  ہے؟

 شیعہ معتقد ہیں کہ پیغمبر خدا  کی رحلت سے وحی کے نزول کا سلسلہ بند ہوگیا اور حضرت علی  علیہ السلام  نے پیغمبر  کی تجہیز و تکفین کے وقت فرمایا ہے : ” میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ کی وفات سے نبوت اور آسمانی خبروں کا سلسلہ منقطع ہوگیا “ (۱)

    بڑے افسوس کی بات ہے اس سلسلے میں مشکوک و شبہات وہ لوگ کرتے ہیں جنھیں شیعی عقائد کے بارے میں ذرا سی بھی معلومات نہیں ہے اور صرف مستشرقین یا ان لوگوں کی بات پر کان دھرتے ہیں جو شیعی ماحول سے دور ہیں اور ایسے ہی لوگوں کی پیروی میں اپنی زبانیں کھولتے ہیں ، انھیں شبہات میں سے ایک یہی سوال ہے جسے ذکر کیا گیا ہے اس بحث میں ہم ”کتاب علی  علیہ السلام  “ کے موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں :

    مکتب اہل بیت  علیہم السلام ، رسول خدا  کی تمام روایات کی تدوین و حفاظت پر خاص عنایت رکھتا ہے کیونکہ سنت رسول خدا  چاہے وہ اقوال ہوں یا افعال ہوں یا تقدیر ، وحی کے راستے سے صادر ہوئے ہیں جیسا کہ خدا نے خود اعلان کر دیا ہے کہ : ( وما ینطق عن الھویٰ ان ھو الیٰ وحی یوحیٰ ) (۲) وہ ہر گز ہوا و ہوس سے گفتگو نہیں کرتے ہیں ، وہ وہی بولتے ہیں جو وحی ہوتی ہے ۔

    امام علی  علیہ السلام  ، پیغمبر اسلام  کے پروردہ ہیں آپ ہی وہ شخص ہیں جو بچپنے سے پیغمبر  کی آخری سانس تک ان کے ہمراہ رہے امام علی  علیہ السلام  ان اوقات کی اس طرح توصیف فرماتے ہیں :

    ” وکنت اٴتبعہ اتباع الفصیل اثر امہ ، یرفع لی فی کل یوم من اخلاقہ علما ، و یامرنی بالاقتداء بہ ، ولقد کان یجاور فی کل سنة بحراء فاراہ ولا یراہ غیری ، ولم یجتمع بیت واحد یومٴذ فی الاسلام غیر رسول اللہ  و حدیجة وانا ثالثھما ، اری نور الوحی و الرسالة ، و اشم ریح النبوة “ (۳)

    ” میں ان کے ہمراہ ایسے تھا جیسے کہ اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے ہمراہ رہتا ہے وہ روزآنہ میرے لئے اپنے اخلاق کی کسی نہ کسی نشانی کو برپا کرتے تھے اور مجھے اس کی اطاعت و پیروی کا حکم دیتے تھے ، ہر سال غار حراء میں تنہا رہتے تھے میں انھیں دیکھتا تھا اور میرے علاوہ انھیں کوئی نہیں دیکھتا تھا اس وقت سوائے ایک گھر کے کہ جس میں خود رسول خدا اور خدیجہ موجود تھے کسی گھر میں اسلام نہیں آیا تھا اور میں ان دونوں کا تیسرا تھا میں وحی و پیغمبری کی نورانیت کو دیکھتا تھا اور نبوت کی بو سونگھتا تھا “

    امام علی  علیہ السلام  شب و روز ، سفر و حضر میں رسول خدا  کے ہمراہ رہتے تھے کسی جنگ و غزوہ میں آپ نے رسول خدا کو نہیں چھوڑا سوائے غزوہ تبوک کے کہ اس غزوہ میں آپ رسول خدا کے حکم سے مدینہ میں رہے ، یہاں تک کہ رسول خدا کی رحلت کا وقت قریب آ    گیا رسول خدا  بستر بیماری پر ہیں اور تن تنہا تیمارداری کرنے والے حضرت علی  علیہ السلام  ہیں زندگی کے آخری لمحوں میں آ نحضرت کا سرمبارک حضرت علی  علیہ السلام  کے سینہٴ مبارک پر تھا اور اسی حالت میں داعی اجل کو لبیک کہا امام علی  علیہ السلام  اس وقت کی توصیف کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ” ولقد قبض رسول اللہ  وان راٴسہ لعلی صدری ولقد سالت نفسہ فی کفی فامررتھا علی وجھی ، ولقد ولیت غسلہ  و الملائکة اعوانی ، فضجت الدار و الافنیة ، ملایھبط ، وملا یعرج ، وما فارقت سمعی ھینمة منھم ، یحلون علیہ ، حتی واریناہ فی ضریحہ ، فمن اذا احق بہ منی حیا و میتاً “ (۴)

” اور رسول خدا  نے اس حالت میں جان دی کہ ان کا سر مبارک میرے سینہ پر تھا اور ان کا نفس میری ہتھیلی پر جاری ہوا میں نے ان کو اپنے منھ پر مل لیا پھر ان کو غسل دینے کا عہدہ دار ہوا فرشتے میری مدد کر رہے تھے گھر اور گھر کے اطراف کی چیزیں نالہ و شیون کر رہی تھی ، فرشتوں کا ایک دستہ نیچے آتا تو دوسرا اوپر جاتا ان کی فریاد میرے کانوں سے ٹکرا رہی تھی وہ آ  نحضرت پر درود بھیجتے تھے یہاں تک کہ میں نے انھیں سپرد لحد کر دیا ، پس ان کی نسبت مجھ سے زیادہ کون حقدار ہے چاہے ان کی زندگی میں ہو یا مرنے کے بعد ۔

رسول خدا  کی تجہیز و تکفین ان امتیازات میں سے ہے جو صرف حضرت علی  علیہ السلام  کو حامل ہے اور یہ خصوصیت کسی صحابہ کو حاصل نہ تھی ۔ اسی لئے آپ شہر علم نبی  کا در مشہور ہوئے ، آپ ہی خلفاء کے دور میں علی الاطلاق لوگوں کے روحی معنوی مرجع تھے ۔

امام علی  علیہ السلام  سے سوال کیا گیا کہ : کیا وجہ ہے کہ اصحاب رسول خدا  میں سب سے زیادہ آپ ہی روایات نقل کرتے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا : ” انی اذا کنت سالتہ انبانی ، واذا سکت ابتدانی“ (۵) میں وہ ہوں کہ جب میں رسول خدا سے سوال کرتا تھا وہ مجھے جواب مرحمت فرماتے تھے اور جب میں خاموش ہوجاتا تھا تو وہ گفتگو کا آغاز کرتے تھے ( یعنی مسلسل سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہتا تھا )

حدیث لکھنے کا حکم :

    جناب رسول خدا ہمیشہ حضرت علی  علیہ السلام  کو حکم دیتے تھے کہ جو کچھ ان کے لئے بیان کر رہا ہوں اسے لکھ لیں ، ایک دن حضرت علی  علیہ السلام  نے حضرت رسول خدا  سے عرض کیا کہ : اے اللہ کے رسول ! کیا آپ میرے سلسلہ میں بھول جانے کا خوف رکھتے ہیں ؟ پیامبر  نے فرمایا : میں تمھارے سلسلہ میں اس جہت سے ہراساں نہیں ہوں کیونکہ خداوند متعال سے دعا کر چکا ہوں کہ آپ کے حافظہ کو قوی کر دے اور آپ پر نسیان طاری نہ ہو لیکن آپ اپنے شرکاء کے لئے لکھ لیں میں نے عرض کیا میرے شرکاء کون لوگ ہیں ؟ فرمایا : تمھاری اولاد میں سے ائمہؑ ۔ (۶)

کتاب علی  علیہ السلام  :

    وہ جملہ مطالب جسے امام علی  علیہ السلام  کے واسطے رسول خدا نے املاء فرمائے اور حضرت علی  علیہ السلام  نے اسے تحریر کر لیا تھا ایک کتاب کی شکل میں ہے جس کی لمبائی ۷۰ ہاتھ ہے اور یہ وہی مکتوب ہے کہ روایات میں جسے کتاب علی یا صحیفہ علی  علیہ السلام  کے نام سے شہرت حاصل ہے اور یہ کتاب اہل بیت  علیہ السلام  اور ان کے پیروکاروں میں بہت معروف ہے اس کتاب میں قیامت کے وہ سارے مسائل جمع ہیں جن کی لوگوں کو ضرورت پیش آ تی ہے ، ائمہ معصومین  علیہم السلام  نے بھی اس کتاب سے روایات نقل کی ہیں اور بطور شاہد پیش کیا ہے اور یہ کتاب سوائے احادیث پیغمبر  کے اور کچھ نہیں ہے جسے آنحضرت نے حضرت  علیہ السلام  کو املاء کرایا ہے اور امام  علیہ السلام  نے بھی اسے لکھ لیا ہے اور اپنے فرزندوں کے لئے یادگار چھوڑا ہے تاکہ ان کے بعد وہ اس سے روایات نقل کر سکیں ۔

    اس بیان سے یہ بات آشکار ہوجاتی ہے کہ : حضرت امام علی  علیہ السلام  ہی پہلے احادیث نگار ہیں جنھوں نے رسمی طور پر احادیث نبوی کو تدوین فرمایا ہے اگر چہ اس عظیم کام میں دوسرے بزرگ صحابی بھی شریک ہیں لیکن افسوس کی خلفاء کے دور میں کچھ وجہوں سے جسے وہ خود ہی سمجھ سکتے ہیں وہ احادیث اور کتابیں نظر آتش کر دی گئیں جس کی وجہ سے مسلمان کو بہت بڑا گھاٹا اٹھانا پڑا ایسا گھاٹا کہ جسے پورا نہیں کیا جا سکتا    اسی لئے جعل سازوں کو حدیثیں گڑھنے کا موقع مل گیا اور ان لوگوں نے جو چاہا اسرائیلیات ، مجوسیات ، اور مسیحیات کو پیغمبر  سے منسوب کر دیا لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ امام علی  علیہ السلام  کی یہ کتاب اس قسم کی تمام مشکلات سے مبریٰ رہی اور آپ کے بعد معصوم اماموں تک منتقل ہوگئی ۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام جعفر صادق (ع ) کے احادیث
غَضَب ایک اخلاقی بیماری
اصول فقہ میں شیعہ علماء کی تصانیف
دینِ میں “محبت“ کی اہمیت
زندگی میں قرآن کا اثر
فرامین مولا علی۳۷۶ تا ۴۸۰(نھج البلاغہ میں)
اعتدال و میانہ روی اسلامی طرززندگي
اللہ تعالي کے ديدار کے بارے ميں بعض مسلمانوں کا ...
13 رجب المرجب حضرت علی علیہ السلام کے یوم ولادت ...
ائمہ اطہار{ع} کے پاس زرارہ کا مقام کیا تھا؟

 
user comment