اردو
Saturday 27th of April 2024
0
نفر 0

ماں نے نذر مانی خیال تھا بیٹا ہوگا مگر حضرت مریم کی ولادت ہوئی۔ اللہ نے بیٹی کو بھی خدمت بیت المقدس کے لئے قبول کر لیا۔

حضرت مریم

ماں نے نذر مانی خیال تھا بیٹا ہوگا مگر حضرت مریم کی ولادت ہوئی۔ اللہ نے بیٹی کو بھی خدمت بیت المقدس کے لئے قبول کر لیا۔ وَإِنِّیْ سَمَّیْتُہَا مَرْیَمَ وَإِنِّیْ أُعِیذُہَا بِکَ ۔ "میں نے اس لڑکی کا نام مریم رکھا۔ میں اسے شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ (آل عمران:۳۶) پھر بڑی ہوگئیں۔ خدا کی طرف سے میوے آتے ۔ ذکریا پوچھتے۔ بتاتیں۔ من عنداللہ ۔ اللہ کی طرف سے ہیں ۔حتیٰ کہ جوان ہو گئیں۔ ارشاد رب العزت ہے: وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ مَرْیَمَ إِذَ انْتَبَذَتْ مِنْ أَہْلِہَا مَکَانًا شَرْقِیًّا فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِہِمْ حِجَابًا فَأَرْسَلْنَا إِلَیْہَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَہَا بَشَرًا سَوِیًّا قَالَتْ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِالرَّحْمَانِ مِنْکَ إِنْ کُنْتَ تَقِیًّا قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِأَہَبَ لَکِ غُلَامًا زَکِیًّا قَالَتْ أَنّٰی یَکُوْنُ لِیْ غُلَامٌ وَلَمْ یَمْسَسْنِی بَشَرٌ وَّلَمْ اَ کُ بَغِیًّا قَالَ کَذٰلِکِ قَالَ رَبُّکِ ہُوَ عَلَیَّ ہَیِّنٌ وَلِنَجْعَلَہ آیَةً لِّلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِّنَّا وَکَانَ أَمْرًا مَقْضِیًّا فَحَمَلَتْہُ فَانتَبَذَتْ بِہ مَکَانًا قَصِیًّا فَأَجَائَہَا الْمَخَاضُ إِلٰی جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ یَالَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ہَذَا وَکُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا فَنَادَاہَا مِنْ تَحْتِہَا أَلاَّ تَحْزَنِیْ قَدْ جَعَلَ رَبُّکِ تَحْتَکِ سَرِیًّا وَہُزِّیْ إِلَیْکِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَیْکِ رُطَبًا جَنِیًّا فَکُلِیْ وَاشْرَبِیْ وَقَرِّی عَیْنًا فَإِمَّا تَرَیِنَ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُوْلِی إِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمَانِ صَوْمًا فَلَنْ أُکَلِّمَ الْیَوْمَ إِنْسِیًّا فَأَتَتْ بِہ قَوْمَہَا تَحْمِلُہ قَالُوْا یَامَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا یَاأُخْتَ ہَارُوْنَ مَا کَانَ أَبُوْکِ امْرَأَ سَوْءٍ وَّمَا کَانَتْ أُمُّکِ بَغِیًّا فَأَشَارَتْ إِلَیْہِ قَالُوْا کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَہْدِ صَبِیًّا قَالَ إِنِّیْ عَبْدُ اللہ آتَانِیَ الْکِتَابَ وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا وَّجَعَلَنِیْ مُبَارَکًا أَیْنَ مَا کُنْتُ وَأَوْصَانِیْ بِالصَّلَاةِ وَالزَّکَاةِ مَا دُمْتُ حَیًّا وَبَرًّا بِوَالِدَتِیْ وَلَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّا وَالسَّلَامُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُ وَیَوْمَ أَمُوتُ وَیَوْمَ أُبْعَثُ حَیًّا . "( اے محمد) اس کتاب میں مریم کا ذکر کیجئے۔ جب وہ اپنے گھر والوں سے الگ ہو کر مشرق کی جانب گئی تھیں۔ یوں انہوں نے ان سے پردہ اختیار کیا تھا۔ تب ہم نے ان کی طرف اپنا فرشتہ بھیجا۔ پس وہ ان کے سامنے مکمل انسان کی شکل میں ظاہر ہوا۔ مریم نے کہا۔ اگر تو پرہیز گار ہے تو میں تجھ سے رحمان کی پناہ مانگتی ہوں۔ اس نے کہا میں تو بس آپ کے پروردگار کا پیغام رساں ہوں۔ تاکہ آپ کو پاکیزہ بیٹا دوں۔ مریم نے کہا۔ میرے ہاں بیٹا کیسے ہوگا۔ مجھے تو کسی بشر نے چھوا تک نہیں۔ اور میں کوئی بدکردار بھی نہیں ہوں۔ فرشتے نے کہا۔ اسی طرح ہوگا ۔ آپ کے پروردگار نے فرمایاہے کہ یہ تو میرے لئے آسان ہے اور یہ اس لئے ہے کہ ہم اس لڑکے کو لوگوں کے لئے نشانی قرار دیں۔ اور وہ ہماری طرف سے رحمت ثابت ہو اور یہ کام طے شدہ تھا اور مریم اس بچہ سے حاملہ ہو گئیں اور وہ اسے لیکر دور چلی گئیں۔ پھر زچگی کا درد انہیں کھجور کے تنے کی طرف لے آیا۔ کہنے لگیں۔ اے کاش میں اس سے پہلے مر گئی ہوتی اور صفحہ فراموشی میں کھو چکی ہوتی۔ فرشتے نے مریم کے پیروں کے نیچے سے آواز دی غم نہ کیجئے آپ کے پروردگار نے آپ کے قدموں میں ایک چشمہ جاری کیا ہے اور کھجور کے تنے کو ہلائیں تو آپ پر تازہ کھجوریں گریں گی۔ پس آپ کھائیں پئیں اور آنکھیں ٹھنڈی کریں اور اگر کوئی آدمی نظر آئے تو کہہ دیں۔ میں نے رحمان کی نذر مانی ہے۔ اس لئے آج میں کسی آدمی سے بات نہیں کروں گی۔ پھر وہ اس بچے کو اٹھا کر اپنی قوم کے پاس لے آئیں۔ لوگوں نے کہا اے مریم۔ تو نے غضب کی حرکت کی۔ اے ہارون کی بہن۔ نہ تیرا باپ برا آدمی تھا اور نہ ہی تیری ماں بدکردار تھی۔ "پس مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا۔ لوگ کہنے لگے ہم ا س کیسے بات کریں۔ جو بچہ ابھی گہوارہ میں ہے۔ بچے نے کہا میں اللہ کا بندہ ہوں۔ اس نے مجھے کتاب دی ہے۔ اور مجھے نبی بنایا ہے اور میں جہاں بھی ہوں مجھے بابرکت بنایا ہے۔۔ اور زندگی بھر نماز اور زکوة کی پابندی کا حکم دیا ہے اور اپنی والدہ کے ساتھ بہتر سلوک کرنے والا قرار دیا ہے اور اس نے مجھے سرکش اور شقی نہیں بنایا۔ اور سلام ہو مجھ پر جس روز میں پیدا ہوا جس روز میں وفات پاؤں گا اور جس روز دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جاؤں گا۔" (مریم:۱۶تا۳۳) حضرت مریم خدا کی خاص کنیز ۔بیت المقدس میں ہر وقت رہائش ۔ اللہ کی طرف سے جنت کے کھانے و میوے۔ برگزیدہ مخلوق۔ بہت بڑے امتحان میں کامیاب ہوئی۔ ۳ گھنٹہ یا ۳ دن کے بچے نے اپنی نبوت اپنی کتاب اور اپنے بابرکت ہونے کی خبر دے کر کے اپنی والدہ ماجدہ کی عصمت کی گواہی دی اوربتایا مجھے والدہ ماجدہ سے بہترین سلوک کا حکم ملا ہے۔ پھر مریم کے پاؤں کے نیچے چشمہ جاری ہوا۔ خشک درخت سے تر و تازہ کھجوریں۔یہ اللہ کی طرف سے اظہارہے کہ جو میرا بن جائے خواہ عورت ہو یا مرد۔ میں اس کا بن جاتا ہوں ، عزت کی محافظت میرا کام، اشکالات کے جوابات میری طرف سے اوروہ سب کو ایسے برگزیدہ لوگوں (مرد ہو یا عورت)کے سامنے جھکا دیتا ہے ۔تومیرے سامنے جھک جا۔دنیا تیرے سامنے سرنگوں ہو گی۔ حضرت مریم کی تعریف و ثناء ارشاد رب العزت ہے: وَإِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِکَةُ یَامَرْیَمُ إِنَّ اللہ اصْطَفَاکِ وَطَہَّرَکِ وَاصْطَفَاکِ عَلٰی نِسَاءِ الْعَالَمِیْنَ یَامَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّکِ وَاسْجُدِیْ وَارْکَعِیْ مَعَ الرَّاکِعِیْنَ "اور (وہ وقت یاد کرو) جب فرشتوں نے کہا اے مریم۔ اللہ نے تمہیں برگزیدہ کیا ہے اور تمہیں پاکیزہ بنایا ہے اور تمہیں دنیا کی تمام عورتوں سے برگزیدہ کیا ہے اے مریم اپنے رب کی اطاعت کرو اور سجدہ کرتی رہو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرتی رہو۔" (آل عمران :۴۲۔۴۳) إِذْ قَالَتِ الْمَلاَئِکَةُ یَامَرْیَمُ إِنَّ اللہ یُبَشِّرُکِ بِکَلِمَةٍ مِّنْہُ اسْمُہُ الْمَسِیْحُ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْہًا فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَہْدِ وَکَہْلًا وَّمِنَ الصَّالِحِیْنَ قَالَتْ رَبِّ أَنّٰیْ یَکُوْنُ لِیْ وَلَدٌ وَّلَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ قَالَ کَذٰلِکِ اللہ یَخْلُقُ مَا یَشَاءُ إِذَا قَضٰی أَمْرًا فَإِنَّمَا یَقُوْلُ لَہ کُنْ فَیَکُوْنُ وَیُعَلِّمُہُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنجِیْلَ۔ " جب فرشتوں نے کہا اے مریم۔ اللہ تجھے اپنی طرف سے ایک کلمے کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح عیسیٰ ابن مریم ہو گا وہ دنیا و آخرت میں آبرو مند ہوگا اور مقرب لوگوں میں سے ہوگا اور وہ لوگوں سے گہوارہ میں گفتگو کرے گا اور صالحین میں سے ہوگا۔ مریم نے کہا۔ پروردگار! میرے ہاں لڑکا کس طرح ہو گا مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ تک نہیں لگایا۔ فرمایا ایسا ہی ہوگا۔ اللہ جو چاہتا ہے خلق فرماتا ہے۔ جب وہ کسی امر کا ارادہ کر لیتا ہے تو اس سے کہتا ہے ۔ ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے۔ اور (اللہ) اسے کتاب و حکمت اور توریت و انجیل کی تعلیم دے گا۔" (آل عمران :۴۵۔۴۸) اللہ حضرت مریم کو طاہرہ، منتخب ہو اور پاکیزہ ہونے کی سند کے ساتھ عالمین کی عورتوں کی سردار قرار دے رہا ہے۔ کلمة اللہ ۔ روح اللہ کی ماں اعجاز خدا کا مرکز ۔ طہارة و پاکیزگی کا مرقع ایسے ان لوگوں کی اللہ تعریف کرتا ہے مرد ہو یا عورت۔ "عورت بھی خداکی معزز مخلوق ہے۔"

ازواج نبی اعظم

ارشاد رب العزت: النَّبِیُّ أَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ أَنْفُسِہِمْ وَأَزْوَاجُہ أُمَّہَاتُہُمْ ۔ نبی مومنین کی جانوں پر خود ان سے زیادہ حق تصرف رکھتا ہے اور نبی کی ازواج ان کی مائیں ہیں۔" (احزاب :۶) ازواج میں بدکرداری و زنا وغیرہ کا تصور نہیں۔ حرم رسول ہیں۔ ا ن میں اس طرح کی خرابی نہیں ہو سکتی۔ ارشاد رب العزت : إِنَّ الَّذِیْنَ جَائُوْا بِالْإِفْکِ عُصْبَةٌ مِّنْکُمْ لَاتَحْسَبُوْہُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ ہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ لِکُلِّ امْرِءٍ مِّنْہُمْ مَّا اکْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہ مِنْہُمْ لَہ عَذَابٌ عَظِیْمٌ لَوْلاَإِذْ سَمِعْتُمُوْہُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنْفُسِہِمْ خَیْرًا وَّقَالُوا ہَذَا إِفْکٌ مُّبِیْنٌ لَوْلاَجَائُوْا عَلَیْہِ بِأَرْبَعَةِ شُہَدَاءَ فَإِذْ لَمْ یَأْتُوْا بِالشُّہَدَاءِ فَأُوْلٰئِکَ عِنْدَ اللہ ہُمُ الْکَاذِبُوْنَ ۔ "جو لوگ بہتان باندھتے ہیں وہ یقینا تمہارا ہی ایک گروہ ہے۔ اسے اپنے لئے برا نہ سمجھنا بلکہ وہ تمہارے لئے اچھا ہے۔ ان میں سے جس نے جتنا گناہ کمایا اس کا اتنا ہی حصہ ہے اور ان میں سے جس نے اس میں سے بڑا بوجھ اٹھایا اس کے لئے بڑا عذاب ہے۔ جب تم نے یہ بات سنی تھی تو مومن مردوں اور مومنہ عورتوں نے اپنے دلوں میں نیک گمان کیوں نہیں کیا اور کیوں نہیں کہا یہ صریح بہتان ہے۔ وہ لوگ اس بات پر چار گواہ کیوں نہ لائے۔ اب چونکہ وہ گواہ نہیں لائے ہیں تو وہ اللہ کے نزدیک جھوٹے ہیں۔" (نور:۱۱تا۱۳) نبی اعظم کی زوجہ (عورت) پر تہمت لگی تو سختی کے ساتھ دفاع کیا گیا تاکہ عورت کی عظمت پر داغ نہ لگ جائے اور مومن مردوں کے ساتھ مومنہ عورتوں سے بھی کہا گیا آپ لوگوں کی پہلی ذمہ داری تھی کہ دفاع کرتے۔ احکام میں دونوں برابر۔(مرد و عورت) اللہ کے احکام امہات المومنین کے نام ۔ لیکن ان میں سب عورتیں شریک ہیں۔ ارشاد رب العزت ہے: یَاأَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِّأَزْوَاجِکَ إِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَہَا فَتَعَالَیْنَ أُمَتِّعْکُنَّ وَأُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا وَإِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللہ وَرَسُوْلَہ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللہ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنْکُنَّ أَجْرًا عَظِیْمًا یَانِسَاءَ النَّبِیِّ مَنْ یَّأْتِ مِنْکُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ یُّضَاعَفْ لَہَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللہ یَسِیْرًا وَمَنْ یَّقْنُتْ مِنْکُنَّ لِلّٰہِ وَرَسُولِہ وَتَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِہَا أَجْرَہَا مَرَّتَیْنِ وَأَعْتَدْنَا لَہَا رِزْقًا کَرِیْمًا یَانِسَاءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ إِنَ اتَّقَیْتُنَّ فَلَاتَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہ مَرَضٌ وَّقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَاتَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّةِ الْأُوْلٰی وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِیْنَ الزَّکَاةَ وَأَطِعْنَ اللہ وَرَسُولَہ۔ "اے نبی اپنی ازواج سے کہدیجئے ۔ اگر تم دنیاوی زندگی اور اس کی آسائش کی خواہاں ہو توآؤ میں تمہیں کچھ مال دے کرشائستہ طریقہ سے رخصت کر دوں۔ لیکن اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور منزل آخرت کی خواہاں ہو تو تم میں سے جو نیکی کرنے والی ہیں ان کے لئے اللہ نے اجر عظیم مہیا کر رکھا ہے۔ اے نبی کی بیویو۔ تم میں سے جو کوئی صریح بے حیائی کی مرتکب ہو جائے اسے دگنا عذاب دیا جائیگا اور یہ بات اللہ کے لئے آسان ہے اور تم میں سے جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گی اور نیک عمل انجام دے گی اسے ہم اس کا دگنا ثواب دیں گے اور ہم نے اس کے لئے عزت کا رزق مہیا کر رکھا ہے۔ اے نبی کی بیویو۔ تم دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم تقویٰ رکھتی ہو تو (غیروں کے ساتھ) نرم لہجہ میں باتیں نہ کرناکہ کہیں وہ شخص لالچ میں نہ پڑ جائے جس کے دل میں بیماری ہے اور معمول کے مطابق باتیں کیا کرو۔اور اپنے گھر میں جم کر بیٹھی رہو اور قدیم جاہلیت کے طریقت سے اپنے آپ کو نمایاں نہ کرتی پھرو۔ نیز نماز قائم کرو اور زکوة دیا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ " (احزاب:۲۸تا ۳۳) ان آیات میں بعض چیزوں سے روکاگیا اور بعض کا حکم دیا گیا تاکہ غلط روی سے عورت بچ جائے اور فضائل و کمالات سے اپنے آپ کو آراستہ و پیراستہ کرے۔ اس میں کامیابی و کامرانی کا راستہ ہے۔ قرآن مجید نے ازواج نبی میں سے دو کا تذکرہ کیا ہے چنانچہ اپنی طرف سے تبصرہ کے بجائے آیات اور ان کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے۔ ارشاد رب العزت ۔ یَاأَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللہ لَکَ تَبْتَغِیْ مَرْضَاةَ أَزْوَاجِکَ وَاللہ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ قَدْ فَرَضَ اللہ لَکُمْ تَحِلَّةَ أَیْمَانِکُمْ وَاللہ مَوْلَاکُمْ وَہُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِیُّ إِلٰی بَعْضِ أَزْوَاجِہ حَدِیْثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِہ وَأَظْہَرَہُ اللہ عَلَیْہِ عَرَّفَ بَعْضَہ وَأَعْرَضَ عَنْ م بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّأَہَا بِہ قَالَتْ مَنْ أَنْبَأَکَ ہَذَا قَالَ نَبَّأَنِیْ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ إِنْ تَتُوْبَا إِلَی اللہ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا وَإِنْ تَظَاہَرَا عَلَیْہِ فَإِنَّ اللہ ہُوَ مَوْلاَہُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمَلاَئِکَةُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَہِیْرٌ عَسٰی رَبُّہ إِنْ طَلَّقَکُنَّ أَنْ یُّبْدِلَہ أَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ عَابِدَاتٍ سَائِحَاتٍ ثَیِّبَاتٍ وَّأَبْکَارًا ۔ "اے نبی ! تم کیوں اس چیز کو حرام کرتے ہو جو اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہے۔(کیا اس لئے) کہ تم اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہو۔ اللہ معاف کرنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ اللہ نے تم لوگوں کے لئے اپنی قسموں سے نکلنے کا طریقہ مقرر کر دیا ہے۔ اللہ تمارا مولیٰ اور وہی علیم و حکیم ہے۔ (ترجمہ آیات از تفہیم القرآن مولانا مودودی ) (اور یہ معاملہ بھی قابل توجہ ہے کہ) نبی نے ایک بات اپنی ایک بیوی سے راز میں کہی تھی۔ پھر جب اس بیوی نے (کسی اور) وہ راز ظاہر کر دیا اور اللہ نے نبی کو اس (افشاء راز) کی اطلاع دیدی۔ تو نبی نے ا س پر کسی حد تک (اس بیوی کو) خبردار کیا اور کسی حد تک اس سے در گزر کیا۔ پھر جب نبی نے اسے (افشاء راز کی) یہ بات بتائی تو اس نے پوچھا آپ کو اس کی کس نے خبر دی۔ نبی نے کہا۔ مجھے اس نے خبر دی جو سب کچھ جانتا ہے اور خوب باخبر ہے۔ اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرتی ہو (تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے) کیونکہ تمہارے دل سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں اور اگر نبی کے مقابلہ میں تم نے باہم جتھہ بندی کی تو جان رکھو کہ اللہ اس کا مولیٰ ہے اور اس کے بعد جبرائیل اور تمام صالح اہل ایمان اور سب ملائکہ اس کے ساتھی اور مددگار ہیں ۔ بعید نہیں کہ اگر نبی تم سب بیویوں کو طلاق دے دے۔ تو اللہ اسے ایسی بیویاں تمہارے بدلے میں عطا فرما دے۔ جو تم سے بہتر ہوں ، سچی مسلمان ، باایمان ، اطاعت گزار ، توبہ گزار، عبادت گزار اور روزہ دار ۔ خواہ شوہر دیدہ ہو ں یا باکرہ۔ جناب مولانا مودودی کے ترجمہ سے واضح ہو رہا ہے (اور باقی تراجم بھی اسی طرح ہی ہیں) کہ حال پتلا ہے کچھ اچھا نہیں۔ خدا خیر کرے۔ (۱۴)جناب خدیجة الکبریٰ (زوجہٴ رسول اعظم ) واقعاً ایک تاریخ ساز خاتون جس نے گھر میں بیٹھ کر تجارت کی۔ مختلف دیار اور امصار میں پھیلی ہوئی تجارت کو سنبھالے رکھا۔ سب سے زیادہ مالدار ۔ لیکن عرب شہزادوں ، قبائلی سرداروں اور رؤساء کے پیغام ہائے عقد کو ٹھکرا کر رسول اعظم سے ازدواج کیا اور عورت کی عظمت کو چار چاند لگا دئیے۔ عورت کھلونا نہیں۔ عورت عظمت ہے۔ عورت شرافت ہے۔ عورت جانتی ہے کہ میرا شوہر کون ہو سکتا ہے۔ سب کو ٹھکرا دیا کسی کی خوبصورتی، مالدار ہونا سامنے نہیں رکھا بلکہ نور الہی کو پسند کر کے اللہ و رسول کی خوشنودی کو ترجیح دی۔ واہ رے تیری عظمت اے خدیجہ! خویلد کے اس معزز ترین خاندان کی فرد۔ جو تین پشتوں کے بعد چوتھی میں رسول اعظم سے مل جاتا ہے۔ تزویج سے قبل طاہرہ و سیدہٴ قریش کے لقب سے پکاری جاتی تھی۔ قال زبیر کانت تدعٰی فی الجاھلیہ طاہرہ استیعاب برحاشیہ اصابہ جلد ۴ ص ۲۷۹ کانت تدعی فی الجاھلیة بالطاہرہ و کان قیل لہا السیدہ قریش ۔ (سیرت حلبیہ جلد۱، ص۱۸۷) حضور مدنی زندگی میں اکثر خدیجہ کا ذکر کرتے رہتے اور فرماتے تھے۔: رزقنی ا لله اولادھا و حرمنی اولاد النساء ۔ خدا نے خدیجہ سے مجھے اولاد عطا کی جب کہ اور عورتوں سے نہیں ہوئی، کبھی ارشاد فرماتے : آمنت اذا کفرالناس و صدقتنی اذکذبنی الناس ۔ (اصابہ جلد ۴ ص ۲۸۳) وہ مجھ پر تب ایمان لائیں جب کہ لوگ منکر تھے اور انہوں نے میری اس وقت تصدیق کی جب لوگ مجھے جھٹلاتے تھے۔ تربیتی انداز میں قرآن مجید کی آیات( جن میں امہات المومنین ازواج نبی کو بعض چیزوں سے منع اور بعض کا حکم دیا گیا ہے) مدینہ میں نازل ہوئی ہیں۔ حضرت خدیجہ اس قدر تربیت یافتہ ۔ سلیقہ شعار۔ خدا و رسول کے فرامین پر عمل پیرا۔ رسول اعظم کے اشاروں و کنایوں کو سمجھنے والی۔ رسول اعظم کی قلبی راز دار۔ کہ ان کے زمانہ میں ایسے احکام کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ وہ خود عاملہ صالحہ مومنہ کاملہ تھیں۔ تاریخ عالم میں برگزیدہ و عظیم خواتین گزری ہیں لیکن رسول اعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے معیار (بہترین عادات و خصائل ۔ اعلیٰ خدمات اور عظیم قربانیوں کے عنوان سے) چارعورتیں ہی پوری اتریں۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خیر نساء العالمین اربع ۔ مریم بنت عمران و ابنة مزاح، امراة فرعون و خدیجہ بنت خویلد و فاطمہ بنت محمد۔ (استیعاب بر حاشیہ اصابہ۔ جلد۴، ۳۸۴) نوٹ: مریم بنت عمران، اینہ مزا، زوجہ فرعون، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد یہ پانچ خواتین ہوتی ہیں جبکہ حدیث مین چار بتائی گئی ہیں۔ (۱۵) امہات المومنین میں سے زینب بنت جحش جناب زینب کے ساتھ حضور کی تزویج بڑا مشکل اور حساس مسئلہ ہے اللہ کے حکم ہی نے اس مسئلہ کو انتہا تک پہنچایا ، یہ تزویج اللہ کی طرف سے ہوئی۔ جناب زینب فرمایا کرتی تھیں: میرے جیسا کون ہے سب کی شادیاں رسول اعظم کے ساتھ ان کی خواہش یا والدین کی طرف سے ہوئیں اور میری تزویج براہ راست خدا کی طرف سے ہے۔ جناب زینب حضور کی پھوپھی زادہ ، خاندان بنی ہاشم کی چشم و چراغ ۔ لیکن حضور نے خود ان کی تزویج اپنے آزاد کردہ غلام اور پھر جس کو متبنیٰ (منہ بولے بیٹے ) زید بن حارث کے ساتھ کی۔ کافی دیر ملا پ رہا لیکن اختلاف بھی رہا۔ بالآخر انہوں نے طلاق دے دی تو اللہ کا حکم ہواکہ حضور شادی کر لیں۔ اب مشکل درپیش ہے۔ ۱۔ متبنی ۔(منہ بولے بیٹے) کی زوجہ سے شادی کا فیصلہ ۲۔ آزاد کردہ غلام کی مطلقہ سے شادی وہ بھی حضور کی۔ لیکن اللہ کا ارادہ حکم بن کر آیا اور خدا کی طرف سے شادی ہو گئی۔ ارشاد رب العزت ہے: وَإِذْ تَقُوْلُ لِلَّذِیْ أَنْعَمَ اللہ عَلَیْہِ وَأَنْعَمْتَ عَلَیْہِ أَمْسِکْ عَلَیْکَ زَوْجَکَ وَاتَّقِ اللہ وَتُخْفِیْ فِیْ نَفْسِکَ مَا اللہ مُبْدِیْہِ وَتَخْشَی النَّاسَ وَاللہ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَاہُ فَلَمَّا قَضٰی زَیْدٌ مِّنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنَاکَہَا لِکَیْ لاَیَکُوْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ حَرَجٌ فِیْ أَزْوَاجِ أَدْعِیَائِہِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْہُنَّ وَطَرًا وَکَانَ أَمْرُ اللہ مَفْعُوْلًا مَا کَانَ عَلَی النَّبِیِّ مِنْ حَرَجٍ فِیْمَا فَرَضَ اللہ لَہ سُنَّةَ اللہ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ وَکَانَ أَمْرُ اللہ قَدَرًا مَّقْدُوْرًا ۔ "اور(اے رسول یاد کریں وہ وقت) جب آپ اس شخص سے جس پر اللہ نے اور آپ نے احسان کیا تھا کہہ رہے تھے۔ اپنی زوجہ کو نہ چھوڑو اور اللہ سے ڈرو۔ اور وہ بات آپ اپنے دل میں چھپا ئے ہوئے تھے جسے اللہ ظاہر کرنا چاہتا ہے اور آپ لوگوں سے ڈر رہے تھے حالانکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ آپ اس سے ڈریں۔ پھر جب زید نے اس (خاتون) سے اپنی حاجت پوری کر لی۔ تو ہم نے اس خاتون کا نکاح آپ سے کر دیا تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں (سے شادی کرنے) کے بارے میں کوئی حرج نہ رہے۔ جب کہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں اور اللہ کا حکم نافذ ہو کر رہے گا۔"نبی کے لئے اس (عمل کے انجام دینے میں) کوئی مضائقہ نہیں جو اللہ نے اس کے لئے مقرر کیا ہے۔ جو (انبیاء) پہلے گذر چکے ہیں ان کے لئے بھی اللہ کی سنت یہی رہی ہے۔ اور اللہ کا حکم حقیقی انداز سے طے شدہ ہوتا ہے۔" (سورہ احزاب آیت ۳۷۔۳۸) اس میں کوئی شک نہیں کہ کائنات کی عظیم شخصیت اور سب سے برتر اور معزز شخصیت حضور کی ذات ہے۔ بعد از خدا توئی قصہ مختصر حضور کی محبت کا تقاضا۔ ان کے متعلقین سے پیاراور ان کی عزت کرنا ہے۔ لہٰذا ازواج نبی عزت و عظمت کی مالک ہیں۔ اللہ نے ان کودو خصوصیات عطا کی ہیں۔ ۱۔ ازواج نبی۔ مومنین کی مائیں ہیں ۔ وَأَزْوَاجُہ أُمَّہَاتُہُمْ۔( سورہ احزاب آیت ۶) ۲۔ نبی کی ازواج سے اگرچہ طلاق ہو جائے کسی کو شادی کا حق نہیں۔ وَلَاأَنْ تَنْکِحُوْا أَزْوَاجَہ مِنْ م بَعْدِہ أَبَدًا ۔ سورہ احزاب آیت ۵۳ اور ان کی ازواج سے ان کے بعد کبھی بھی نکاح نہ کرو۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ بے اعتدالی اور حد سے تجاوز ان سے بھی ہوا ہے حکم تھا کہ گھر میں جم کر بیٹھی رہو ۔ وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ آیَاتِ اللہ وَالْحِکْمَةِ إِنَّ اللہ کَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا ۔ "اوراللہ کی ان آیات اورحکمت کو یاد رکھو جن کی تمہارے گھروں میں تلاوت ہوتی ہے۔ اللہ یقیناً باریک بین خوب باخبر ہے۔" (احزاب۔۳۴) لیکن گھر سے باہر جانا ہوا حوأب کے کتوں نے بھونکتے ہوئے متوجہ کیا، پھر جنگ جمل کی کمان ، نبی اعظم کے خلاف جھة بندی۔ سازش، اللہ کی طرف سے دل ٹیڑھے ہونے کا تذکرہ ۔ إِنْ تَتُوْبَا إِلَی اللہ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَا وَإِنْ تَظَاہَرَا عَلَیْہِ فَإِنَّ اللہ ہُوَ مَوْلاَہُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمَلاَئِکَةُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَہِیْرٌ (سورہ تحریم: ۴) اللہ کی طرف سے دھمکی آمیز فرمان ،تم کو طلاق بھی ہو سکتی ہے اور تم سے بہتر ازواج مل سکتی ہیں۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ عورت بڑے گھر میں رہنے کے باوجود عورت ہی رہتی ہے۔ بڑے گھر میں آنے سے حقیقی عظمت پیدا نہیں ہوتی۔ لیکن باین ہمہ ازواج نبی انتہائی قابل عزت ، قابل تکریم ہیں کوئی ایسا کلمہ نہ کہا جائے جو عظمت کے منافی ہو۔ خداوند عالم نے ایک طرف ازواج کی طرف سے رسول اعظم کے خلاف سازش۔ دل کا ٹیڑھا ہونے کا تذکرہ کیا ہے دوسری طرف نوح و لوط کی بیویوں کی مخالفت اور کفر کا ذکر کیا نیز زوجہٴ فرعون کی عظمت اور مادر عیسیٰ کی تکریم و ثناء کر کے واضح کیا ہے کہ صرف کسی نبی کی زوجہ ہو نا کافی نہیں اصل میں دیکھنایہ ہوگا کہ فرامین خداوندی پر کس قدر عمل ہوا۔ ارتباط بہ خدا کس قدر ہے نبی کی اطاعت کا پیمانہ کیا ہے۔ مثبت پہلو رکھنے والی زوجہ انتہائی عظیم۔ منفی پہلو رکھنے والی زوجہ اپنی سزا کی مستحق۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اول یار رسول(ص) حضرت امیر المومنین علی ابن ابی ...
قرآن اور عترت کو ثقلین کہے جانے کی وجہ تسمیہ
بنت علی حضرت زینب سلام اللہ علیہا ، ایک مثالی ...
مسجد اقصی اور گنبد صخرہ
اخلاق ،قرآن کی روشنی میں
قرآن کو نوک نیزہ پر بلند کرنے کی سیاست
آخري سفير حق و حقيقت
معصومین كی نظر میں نامطلوب دوست
قیام حسین اور درس شجاعت
دین اور اسلام

 
user comment