اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

عصمت انبيائ

عصمت انبيائ

خداوند عالم كے لطف كا اقتضا يہ ہے كہ لوگوں تك احكام اور ضرورى قوانين پہچانے كے لئے انبياء كو مبعوث كرے تا كہ وہ مقصد تخليق كى طرف ان كى راہنمائي كريں _ خدا كا يہ مقصد اس صورت ميں پورا ہوسكتا ہے كہ جب اس كے احكام بغير كسى تحريف _ بغير كمى بيشي_ كے لوگوں تك پہنچ جائيں اور ان كا عذر بھى ختم ہوجائے _ اس لئے پيغمبر خطا و نسيان سے معصوم و محفوظ ہوتے ہيں يعنى خدا سے احكام لينے ، ان كا يادركھنے اور لوگوں تك پہنچانے ميں خطا و نسيان سے محفوظ ہوتے ہيں _ اس كے علاوہ ان احكام پر انبياء كو خود بھى عمل كرنا چاہئے تا كہ ان كے قول و عمل ميں تضاد نہ ہو اور قول و عمل كے ذريعہ لوگوں كو حقيقى كمالات كى طرف دعوت ديں كہ ان كے پاس كو ئي عذر و بہانہ باقى نہ رہے اور راہ حق كى تشخيص ميں ادھر ادھر نہ بھٹكين اور پھر پيغمبر ہى احكام خدا كا اتباع نہيں كريں گے تو ان كى تبليغ كا بھى كوئي اثر نہ ہوگا ، لوگان پر اعتماد نہيں كريں گے ، كيونكہ وہ اپنى بات كے خلاف عمل كرتے ہيں اور اپنے عمل سے لوگوں كو احكام كے خلاف عمل كرنے كى دعوت ديتے ہيں

97
اور يہ بات تو واضح ہے كہ عملى تبليغ اگر قولى تبليغ كے برابر نہيں تو كم بھى نہيں ہے _
ہمارے علوم و مدركات خطا سے محفوظ نہيں ہيں كيونكہ وہ حواس اور قوائے مدركہ كے ذريعہ حاصل حاصل ہوتے ہيں اور حواس سے سرزد ہونے والى غلطى و خطا سب پر عياں ہے _ ليكن لوگوں كى ہدايت كيلئے جو علوم و احكام خدا كى طرف سے وحى كے ذريعہ انبياء پر نازل ہوتے ہيں _ ان كى يہ كيفيت نہيں ہے ، انھيں انبياء نے حواس اور قوہ مدركہ كے ذريعہ حاصل نہيں كيا ہے ورنہ ان كى معلومات ميں خطاكار واقع ہونا ضرورى ہوتا اور اس طرح لوگوں تك حقيقى احكام نہيں پہنچ سكتے تھے _ بلكہ ان كے علوم كا طريقہ يہ ہے كہ وہ عالم غيب سے ان كے قلب پر نازل ہوتے ہيں ، ان حقائق كو وہ علم حضورى كى صورت ميں مشاہدہ كرتے ہيں اور جن چيزوں كا وہ دل كى آنكھوں سے مشاہدہ كرتے ہيں وہ ان پر عالم بالا سے نازل ہوتے ہيں اور وہ انھيں لوگوں كے اختيار ميں ديتے ہيں ، چونكہ انبياء ان حقائق كا ادراك كرتے ہيں اسلئے ان كے سمجھنے اور يادر كھنے ميں كوئي خطا واقع نہيں ہوتى _
اسى لئے وہ ان احكا م كى مخالفت اور عصيان سے بھى معصوم و محفوظ ہوتے ہيں ، اپنے علم پر عمل كرتے ہيں كيونكہ جو شخص عين حقائق اور اپنے كمالات و سعادت كا مشاہدہ كرتا ہے وہ يقين كے ساتھ اپنے مشاہدات پر عمل كرتا ہے اور ايسا انسان اپنے كمال كو نہيں گنواتا ہے _

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اعتدال اور میانہ روی
حدیث ثقلین پر ایک نظر
امام کي شخصيت اور جذبہ
25 شوال المکرم؛ رئیس مذہب حضرت امام جعفر صادق علیہ ...
حضرت علی علیہ السلام کا جمع کردہ قرآن
مسئلہ تحریف قرآن
اسلام نے زمانے کو عزت بخشي
علم آیات و احادیث کی روشنی میں
ماں باپ کے حقوق
ثوبان کی شخصیت کیسی تھی؟ ان کی شخصیت اور روایتوں ...

 
user comment