اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

آذربائیجان میں جعلی شیعیت بمقابلہ اصلی شیعیت

آذربائیجان میں جعلی شیعیت بمقابلہ اصلی شیعیت

جمہوریہ آذربائیجان کے ایک غیر سرکاری ادارے "حقیقت" نے اس جمہوریہ کی سرکاری خفیہ ایجنسی کی ایک سازش پر سے پردہ اٹھایا ہے جس کے تحت وہ بظاہر شیعہ تنظیمیں تشکیل دے کر حقیقی تشّیع کی طرف عوامی رجحان کا مقابلہ کرنا چاہتی ہے۔
"حمید ترکی" نے آذربائی جان کے ایک غیر سرکاری ادارے "حقیقت" کی ویب سائٹ پر اپنا ایک مضمون شائع کرکے آذری عوام کے شیعہ تشخص کی تبدیلی کے تحت حالیہ عشروں میں عملی جامہ پہنائے جانے والی ایک سرکاری سازش کو فاش کرتے ہوئے لکھا ہے:
سوویت یونین کے خاتمے اور جمہوریہ آذربائی جان کی آزادی کے بعد بھی یہ سازشیں جاری رہی ہیں۔ ترک، تات، تالش، لزگی، کرد، آوار اور دوسری قومیں سینکڑوں برسوں سے اس سرزمین میں برادری کے ماحول میں زندگی بسر کرتے رہے ہيں لیکن اچانک ایک نیا نعرہ سامنے آیا کہ "ترک کا ترک کے سوا کوئی دوست نہيں"، جیسے نعرے منظر عام پر آئے۔
جمہوریہ آذربائی جان کی سرزمین میں ـ جو سوویت یونین کے معرض وجود میں آنے سے سینکڑوں برس قبل سے شیعہ مذہب کی پیروکار ہے اور اپنی تاریخ، شخصیات اور اپنے شیعہ شعراء پر فخر کرتی ہے ـ صہیونیسم کی طرف سے اچانک اجنبی فرقے ـ جیسے وہابیت، نورچی، یہوا کے شاہدین، کرشنائیت اور دوسرے فرقے ـ معرض وجود میں آئے اور جعلی ادیان و مذاہب رونما ہوئے۔
اس ملک [آذربائی جان] میں حتی کہ سیگریٹ نوشی بے ادبی کے زمرے میں آتی ہے لیکن اچانک یہاں منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا اور منشیات فروشی پولیس کی آنکھوں کے سامنے، رائج ہوئی اور پولیس والے نہ صرف رکاوٹ نہ بنے بلکہ منشیات کے فروغ کے لئے ماحول فراہم کیا۔ اس سرزمین میں ـ قدیم الایام سے ـ جو عورتیں شادیوں میں گلوکاریاں کرتی تھیں انہیں بدکردار سمجھا جاتا تھا اور کوئی بھی ان سے شادی کے لئے تیار نہیں ہوتا تھا لیکن اچانک یہاں متعدد گلوکارائیں میدان میں اتریں اور کوشش کی گئی کہ انہیں خواتین اور نوجوان لڑکیوں کے لئے نمونہ عمل قرار دیا جائے۔
آذربائی جان میں دین کے خلاف ہونے والی سازشوں کی روشیں
جو لوگ حکمرانی کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لئے کوشاں ہیں وہ اس طرح کے منصوبوں کو اس لئے اپنے دستورالعمل کا حصہ بنائے ہوئے ہیں کہ عوام کو اخلاقیات اور معنویات سے دور کر دیں تاکہ معاشرے کو ان کے اصلی اور حقیقی تشخص سے بيگانہ بنا دیں، تاہم خداوند متعال نے انسانی فطرت کو اس انداز سے خلق فرمایا ہے کہ جب معاشرے میں اخلاقی برائیاں معرض وجود میں آتی ہیں تو انسانوں کے اندر سے ایک قوت انہیں طہارت اور پاکيزگی کی طرف راغب کرتی ہے اور جو انسان ان پلیدیوں سے تھک / اکتا چکے ہیں وہ ایسے باضمیر افراد کی پیروی کرنے جاتے ہیں جو معنویت کے خواہاں ہیں۔
آدربائی جان میں بھی کمیونسٹ الحاد کی برسوں حکمرانی کے بعد لوگ ایک بار پھر اسلام کی طرف پلٹ گئے لیکن چونکہ حکومت تشکیل دینے والے تمام اداروں کے کرتے دھرتے سابقہ کمیونسٹ تھے، چنانچہ حکمرانوں نے ایک بار پھر اذری عوام کے اسلام کی طرف رجحان کا مقابلہ کرنے کے لئے چارہ جوئی کی، اور اسی الحادی روش کو اپنایا اور جس طرح کے کمیونسٹ حکمرانوں نے اپنے مکتب میں دین کی ممنوعیت کے باوجود دینی مراکز قائم کئے تھے، اور کمیونسٹ مولوی کی تربیت کا انتظام کیا کرتے تھے، اس بار بھی آذربائی جان کے حکمرانوں نے وہی شیوہ اپنایا؛ بایں وجود آذربائی جان کی اشتراکی جمہوریہ اور آذربائیجان کی خودمختار جمہوریہ میں ایک واضح فرق پایا جاتا ہے اور وہ فرق یہ ہے کہ سابقہ سوویت یونین کے دور میں یو ایس ایس آر کی سرحدیں بند تھیں اور موجودہ آذربائی جان کی سرحدیں کھلی ہیں۔
یو ایس ایس ار کے زمانے میں کمیونسٹ حکمرانوں کو یہ سہولت حاصل تھی کہ وہ سرحدوں کی بندش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے دست پروردہ مولویوں کے ذریعے دینی صورت حال کو قابو میں رکھتے تھے لیکن آج جمہوریہ کی سرحدیوں کھلی ہیں اور انٹرنیٹ کے زمانے میں سرحدوں کی بندش بےمعنی ہے؛ چنانچہ آذری حکمرانوں کو دین کا مقابلہ کرنے کے لئے نت نئی روشوں سے فائدہ اٹھانا پڑ رہا ہے؛ چنانچہ انھوں نے ایسے فرقوں کو ملک میں رائج کیا جو ابلیس کی پرستش کرتے ہیں۔
آذربائی جان میں 73 وہابی مسجدیں
سنہ 1992 سے نورچی فرقے کو ترکی سے آذربائی جان لایا گیا اور یہاں فتح اللہ گولن کے نام سے جانے پہچانے جانے والے اسکولوں کی بنیاد رکھی گئی تا کہ امریکی اسلام کو جمہوریہ آذربائی جان میں فروغ دیا جائے؛ نیز وہابی فرقے کو ـ جو شیعیان آل رسول (ص) کے مال و جان و ناموس کو مباح سمجھنے والی وہابیت کو آذربائی جان لایا گیا؛ حالانکہ جمہوریہ آذربائی جان کی اکثریتی آبادی شیعہ ہے اور یہاں کی اکثریتجی آبادی کا مذہب شیعہ ہے۔ شیعہ ایران کو جمہوریہ آذربائی جان میں مساجد کی تعمیر سے منع کیا گیا اور اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارتخانے سے وابستہ ثقافتی مشاورتی دفتر صرف باکو میں ایک حسینیہ بنا سکا جبکہ دوسری طرف سے کویت کے وہابیوں نے اس دور میں 73 مسجدیں تعمیر کردیں اور سعودی وہابیوں نے 3 مساجد تعمیر کیں۔ اور یوں جمہوریہ آذربائی جان میں 76 مساجد نے وہابیت کی تبلیغ و ترویج کا کام شروع کیا اور وہابیوں نے حکومت کی فراہم کردہ سہولیات سے فائدہ اٹھاکر اپنا گھوڑا سرپھٹ دوڑایا اور یہاں تک کہ ارمنستان کے ساتھ جنگ میں وہابیوں نے ارمنیوں کے ساتھ مل کر آذری سپاہیوں کو مورچوں میں قتل کیا اور قرہ باغ کے محاذ میں ارمنیوں کی مدد کی۔
جعلی تشیّع، ایران کے ساتھ دشمنی اور صہیونیت کے ساتھ دوستی
آذری عوام نے ان جماعتوں کی طرف سے پھیلائی گئی برائیوں کو دیکھا اور اپنے مذہب "تشیّع" کی اہمیت اور قدر و منزلت کا بہتر ادراک کیا اور خدا کے فضل سے تشیّع کے خلاف حکمرانوں کے منصوبوں سے الٹے نتائج برآمد ہوئے کیونکہ مذہب شیعہ کی طرف عوامی رجحان میں شدت آئی۔
دوسری طرف سے حکمرانوں نے بھی اپنے اقتدار کے تحفظ کے لئے صہیونیوں کی مدد سے اس عوامی رجحان کا مقابلہ کرنے کے لئے نئی روشیں اپنائیں؛ جعلی شیعہ منظر عام پر لانے کا منصوبہ سرکاری خفیہ ایجنسیوں کے ایجنڈے پر آ گیا۔ وہ منافقین جو زید دوش (1) کے عنوان سے میدان میں اترے تا کہ اپنے گمراہانہ افکار کو مذہب کے عنوان سے عوام پر مسلط کریں اور دینداروں کے درمیان اختلاف و انتشار پھیلائیں۔
زیددوشوں کی دو خصوصیات ہیں:
1۔ ایران اس وقت تشیّع کا اصلی سرچشمہ اور صہیونیت کے مقابلے میں امت مسلمہ کی ڈھال ہے اور زيد دوش ایران کے شدید دشمن ہیں اور ایران کی حکومتی روش "ولایت فقیہ" کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔
2۔ یہ لوگ وہابیوں کی طرح ہیں اور صہیونیت اور اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کی مخالفت نہیں کرتے۔
جمہوریہ آذربائی جان میں شیعہ مخالف منصوبوں کو ارادی طور پر ایسے انداز سے عملی جامہ پہنایا جاتا ہے کہ لوگ ہمیشہ کے لئے دین اسلام سے متنفر ہوجائیں۔ مثال کے طور جعلی حدیثوں کے کارخانے کھول دیئے گئے ہیں اور یہ احادیث شائع کی جارہی ہیں؛ ذرائع ابلاغ اور سائبر اسپیس پر دین کے حقیقی پیشواؤں اور راہنماؤں پر بہتان تراشی کے لئے جھوٹی خبریں شائع کی جارہی ہیں اور ان پر بدعنوانیوں اور برائیوں کا الزام لگایا جاتا ہے اور حقائق بیان کرنے والے شیعہ علماء کو ملک دشمن کے طور متعارف کرا کر جیلخانوں میں بند کیا جاتا ہے اور انہیں سخت رد عمل ظاہر کرنے پر مجبور کرنے کے لئے ان کے گھرانوں کی خواتین کو پولیس کے مراکز میں لے جایا جاتا ہے۔
عالم نما افراد [جعلی مولوی] انتشار اور دین کے خلاف جدوجہد کے لئے سرکاری آلہ کار
آذری حکمرانوں کی ایک روش یہ ہے کہ وہ سوویت یونین کی پرانی روشوں سے فائد اٹھاتے ہوئے جعلی مولوی بناتے ہیں اور انہیں "دینی راہنما" جیسے القاب بھی دیتے ہیں۔
ان ہی جعلی مولویوں میں سے ایک "علی قنبروف" ہے جو کسی زمانے میں وہابی فرقے سے منسلک ہوچکا تھا۔  اس شخص کو اب سرکاری اداروں کی مدد سے شیعہ راہنما کے طور پر متعارف کرایا جارہا ہے اور یہی شخص جو کسی وقت وہابی بن کر شیعہ پیشواؤں کی توہین کرتا تھا اب انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر تبلیغ دین کی آڑ میں اہل سنت برادران کے مقدسات اور تاریخی شخصیات کی توہین کرتا ہے؛ فیس بوک پر اشتعال انگیز ویڈیوز شیئر کرتا ہے اور ساتھ ہی ایران اور اس کے دینی راہنماؤں اور علمائے اعلام کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ اس شخص کا ایک ذاتی چھاپہ خانہ بنام "ماکسیموس" ہے اور یہ شخص ہر روز درجنوں مائل بہ دین نوجوانوں کو وہاں بلا کر اکٹھا کرتا ہے اور یوں جمہوریہ آذربائی جان کے دیندار طبقات کے اندر انتشار پھیلانے کی کوشش کرتا ہے۔
یہ شخص جب وہابی فرقہ اختیار کرچکا تھا تو اس نے اسی مقام پر سونا مرکز [Sauna Centre] کی آڑ میں برائی کا اڈہ قائم کیا تھا۔ کون ہے جس کو معلوم نہ ہو کہ کون کون لوگ آذربائی جان میں برائی کے اڈے قائم کرکے آمدنی کما رہے ہیں اور یہ افراد پولیس اور سرکاری اداروں کے تعاون کے بغیر ایسا کوئی کام نہیں کرسکتے؟ یہی ایک موضوع یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ علی قنبروف جو اس وقت دینی راہنما کے طور پر سرگرم عمل ہے، حکومت کے سیکورٹی ڈھانچے سے ہمآہنگ ہے۔ یہ شخص اس وقت اہل تشیّع کے درمیان انتشار پھیلانے میں مصروف ہے، جبکہ اس کی تصویریں موجود ہیں جن میں اس نے "لا الہ الا اللہ" کے کلمے کی ٹی شرٹ پہنی ہوئی ہے اور یہ تصویریں اس نے خود اتروا کر شائع کی ہیں۔ اسی شخص نے وہابیت اختیار کرنے سے قبل ایسی ٹی شرٹ پہن کر تصویریں اتروائی ہیں جن پر امریکی شیطان پرستوں کے میوزک گروپ کا نعرہ " Guns N’ Roses" درج ہے۔ لیکن اسی شخص نے اس وقت ایک ٹی وی چینل کھولا ہے جس کے کارکنان ہر روز مساجد اور امام بارگاہوں کا رخ کرتے ہیں اور دینداری کا رجحان رکھنے والے افراد کو ماکسیموس نامی چھاپہ خانے میں آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اس چینل کے کارکنوں میں 16 سالہ لڑکوں، لڑکیوں سے لے کر 60 سالہ عورتوں تک کے افراد شامل ہیں جن کی کوشش رہتی ہے کہ نوجوانوں کو مساجد اور حسینیات سے نکال کر ماکسیموس چھاپہ خانے کی طرف لے جائیں تاکہ وہاں وہ علی قنبروف کی باتیں سنیں۔
یہ سب ایسے حال میں ہورہا ہے کہ آذربائی جان کی حکومت نے تمام مساجد CCTV  کیمرے نصب کررکھے ہیں اور مساجد میں اکٹھے ہونے والے نوجوانوں کی کڑی نگرانی کررہی ہے چنانچہ کئی وعظ و نصیحت سننے کے خواہاں نوجوان سرکاری کیمروں کی آنکھ سے بچنے کے لئے مساجد اور حسینیات کے بجائے علی قنبروف کے مرکز میں جانے کو ترجیح دیتے ہیں جہاں کوئی کیمرا اور کوئی نگرانی نہیں ہے۔ علاوہ ازیں مساجد میں اوقات نماز کے سلسلے میں کچھ ضوابط قرار دیئے گئے ہيں جن کی وجہ سے نماز کے بعد مساجد میں رہنا تقریبا ناممکن ہوچکا ہے۔ مثال کے طور پر زاگاتالا کی مسجد کی دیوار پر ایک سرکاری اعلامیہ نصب کیا جاچکا ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ نمازہائے یومیہ کے بعد کتاب خوانی، بات چیت کرنے یا شرعی سوال پوچھنے کی غرض سے 5 سے زیادہ افراد کا اکٹھا ہونا سخت منع ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ جس ملک میں مسجد کے اندر 5 افراد کے اجتماع پر قدغن لگی ہے، وہاں ماکسیموس چھاپہ خانے میں ہر روز درجنوں افراد کے اجتماع سے کیونکر چشم پوشی ہورہی ہے؟ کیا اس چشم پوشی کا سبب یہ نہیں ہے کہ علی قنبروف سرکاری ایجنسیوں کے ساتھ تعاون کررہا ہے اور ان ایجنسیوں کی ہدایات اور ایجنڈے پر عمل کررہا ہے؟
صہیونیت جمہوریہ آذربائی جان میں جعلی تشیّع کی ترویج کرکے جمہوریہ آذربائی جان کے حقیقی دینی راہنماؤں ـ منجملہ: الحاج محسن صمدوف، الحاج آبگل سلیمان اف، اور الحاج طالع باقر زادہ ـ کے بجائے علی قنبروف جیسے جعلی مولویوں کو شیعیان آذربائی جان کے دینی راہنماؤں کے طور پر متعارف کرا رہی ہے۔ لیکن یہ تمام تر سازشیں ناکام ہوجائیں گی کیونکہ معاذ اللہ اگر کبھی شیطان خدا کے مقابلے میں کامیاب ہوا یا داعش جیسا دہشت گرد تکفیری ٹولہ حزب اللہ کے مقابلے میں کامیاب ہوا تو علی قنبروف اور وہابیت کے سرغنے بھی شیعیان آذربائی جان پر غلبہ پائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔
1۔ زید دوش وہ لقب ہے جو آذربائی جان کے دینداروں نے جعلی شیعوں کو دیا ہے۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اہم شیعہ تفاسیر کا تعارف
اردو زبان میں مجلہ ’’نوائے علم‘‘ کا نیا شمارہ ...
آٹھ شوال اہل بیت(ع) کی مصیبت اور تاریخ اسلام کا ...
انسان، صحیفہ سجادیہ کی روشنی میں
نجف اشرف
اذان میں أشھد أن علیًّا ولی اللّہ
انقلاب حسینی کے اثرات وبرکات
اذان ومؤذن کی فضیلت
ہماری زندگی میں صبر اور شکر کی اہمیت
نیکی اور بدی کی تعریف

 
user comment