اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

حسد

غلط رجحان


اس پر شور دنيا ميں نوع بشر برابر حرکت و جنبش ميں ھے ۔ انسان مسلسل مصائب و مشکلات کے موجوں ميں گِھر کر اپنے جسم و جان پر مشقتوں اور دشواريوں کو محض اس لئے برداشت کرتا ھے کہ گلزار زندگى سے اميدوں کے پھول يکے بعد ديگرے چن سکے اور جب تک انسان کا رشتہ ٴ حيات مقراض موت سے منقطع نہ ھو جائے اور اميدوں کى کھڑکى بند نہ ھو جائے وہ اپنى کوششوں سے باز نھيں آتا اور نہ جستجوئے توفيق سے دست بردار ھوتا ھے ۔ مختصر يہ کہ يھى چراغ اميد ھے جو صاحب آرزو کى آرزو کو فروزاں رکھتا ھے ۔ اور يھى اميديں زندگى کى تمام تلخيوں کو شيريں وخوش گوار بناتى ھيں ۔
کوئى اميد دولت و ثروت ميں شر شار رھتا ھے اور اس کے حصول کے لئے انتھک کوشش کرتا ھے اور کوئى عزت و شھرت کى تلاش ميں حيران و سر گرداں رھتا ھے اور اس کے حصول کے لئے ديوانہ وار مسلسل سعى و کوشش ميں مشغول رھتا ھے کيونکہ ھر فرد کى خواھشات اس کى جسمانى اور روحى تکامل سے وابستہ ھوتى ھيں ۔ اور ھر شخص کا آئيڈيا و طرز تفکر حصول مقصد ميں الگ الگ ھوتا ھے ليکن اس نکتہ کو فراموش نھيں کرنا چاھئے کہ يہ ضرورتيں اور خواھشيں اسى وقت اسباب خوش بختى فراھم کرتى ھيں جب يہ اس کى روحانى ضرورتوں کے مطابق ھوتى ھيں اور احتياجات فکرى کو سکون بخشتى ھوں ۔ سطح معرفت کو اوج ارتقاء تک پھونچاتى ھوں اور چراغ فروزاں کى طرح راہ زندگى کو روشن کر کے بد بختى کے ھول انگيز تاريکى سے نجات دلاتى ھوں ۔
البتہ ان غرائز ميں سے کبھى کوئى ايک غريزہ مثلا حرص و طلب وغيرہ طغيان و سر کشى کر کے آدمى کى بد بختي کى جڑوں کو مضبوط کر ديتا ھے ۔ انھيں ميں سے ايک غريزہ حسد بھى ھے ۔ حسد حاسد کو آغوش آسائش ميں ديکھنا گوارہ نھيں کرتا بلکہ حاسد دوسروں کى نعمتوں کو ديکہ کر جلتا ھے بقول سقراط بو الھوس اور حاسد دوسروں کے موٹا پے کو ديکہ کر لاغر ھوتا رھتا ھے ۔
حاسد وہ بيچارہ شخص ھے جو اپنى پورى زندگى ايک ايسى اميد ميں صرف کر ديتا ھے جو اس کے لئے نا قابل حصول ھے اور دوسروں کو حاصل ھے ۔ پس وہ اسى پر حسرت و آہ کرتا ھے اور اسکى تمنا ھوتى ھے کہ تمام شقاوت و بد بختى دوسروں کے نصيب ميں ھو جائے اور اپنے تمام حيلوں کو اس لئے صرف کرتا ھے کہ دوسروں کى سعادت ان سے سلب ھو جائے ۔
ايک مشھور رائٹر لکھتا ھے : ھمارے نفوس صحراء ميں اس شھر کے مانند ھيں جس ميں نہ کوئى قلعہ ھو نہ حصار جس کى سعادت و آسائش کوچور لوٹ رھے ھوں ۔ معمولى سى نسيم ھمارے دل کے بے پاياںسمندر کو مضطرب و متلاطم کر ديتى ھے ۔ خواھشات کے غير محدود دشمن ھمارے نفوس کے گھروں ميں داخل ھو کر امر و نھى کرتے ھيں ۔ ھر جاھل اس بات کو جانتا ھے کہ اگر اس کے سر ميں درد ھونے لگے تو ڈاکٹر کے پاس جاتا ھے ليکن جس ميں حسد کى بيمارى ھے وہ بيچارہ جلتا رھتا ھے ۔ اور کوئى اس کا علاج نھيں کر سکتا ۔
ھر حاسد کا ھدف دوسروں کى نعمت ھے اور وہ اپنے مختلف دسيسہ کاريوں اور حيلوں سے ان کى نعمتوں کو چھين لينے کى کوشش کرتا ھے ! اور معمولى توجہ کے بغير وہ اپنے نا پاک احساسات کا شکار ھو جاتا ھے ۔ اسى لئے وہ محسودين پر جھوٹ و اتھام کے پل باندہ کر اپنى خباثت نفس کا اظھار کرتا ھے ۔ اور اگر اس طرح اس کا مقصد پورا نہ ھو تو اس کے لئے بعيد نھيں ھے کہ وہ لوگوں کے حريم آزادى پر حملہ آور ھو جائے ۔ اور اپنى خواھشات کے زير اثر لوگوں کى روحانيت کو شکست و ريز کر دے ۔ ليکن کيا يہ انسان کى واقعى خواھش ھو سکتى ھے ؟ اور کيا يہ انسان کى زندگى کا واقعى مقصد ھے ؟
حاسد نہ صرف يہ کہ دائرھٴ انسانيت سے خارج ھے بلکہ وہ حيوان سے بھى بد تر ھے ۔ کيونکہ جو شخص دوسروں کے آلام و مصائب ميں غور و فکر نہ کر سکے وھى انسانيت کا مصداق نھيں ھے چہ جائيکہ جو شخص دوسروں کے آلام و مصائب پر مسرور و خندہ زن ھو اور اس کو اپني کاميابى سمجھتا ھو ! اس کو موجودات کى کس فھرست ميں رکھا جائے گا؟

حاسد نا کامى کى آگ ميں جلتا ھے


زندگى کے ميدان ميں درخشاں کاميابى و ترقى کا راز لوگوں کے دلوں ميں گھر بنا ليتا ھے ، جو شخص اپنى لياقت و صلاحيت اور اپنے بلند صفات کے ذريعے لوگوں کے دلوں پر حکومت کر سکتا ھو وہ معاشرے کى بے پناہ تعاون و مدد کے سھارے ترقى کي اعليٰ منزل تک پھونچ سکتا ھے اور کليد کاميابى کا مالک بن سکتا ھے ۔ نيکو کار اور پاک سرشت لوگ معاشرے ميں روشن چراغ کى طرح ھوتے ھيں جو ترقى کرنے کے بعد لوگوں کے افکار کى قيادت کرتے ھيں اور ان کے اخلاق پر بھى اثر انداز ھوتے ھيں ۔
ليکن حاسد اپنے مکروہ چھرے کے ساتھ اچھے صفات کو فنا کرنے کا سبب بنتا ھے اور معاشرے ميں پردہ بن کر حائل ھو جاتا ھے اور معاشرے کے کسى فرد کو بھى اس قابل نھيں چھوڑتا جس کے دل ميں اس کے لئے کوئى جگہ ھو ۔ حاسد کو کبھى يہ گوارہ نھيں ھوتا کہ اس کے آسمان زندگي پر ستارھٴ محبت چمکے جس کا نتيجہ يہ ھوتا ھے کہ دوسروں کے تعاون و ھمدردى کى نعمت کو کھو بيٹھتا ھے ۔ بد خواہ اپني خصلتوں کى وجہ سے اپنے کو ننگا کر ديتا ھے اورعمومى نفرت کو اپنى طرف دعوت ديتا ھے ۔ حسد کے ذريعہ جو اضطراب اور گھرا رنج و غم حاصل کرتا ھے وہ اس کى روح کو شکست و ريز سے دو چار کر ديتا ھے ۔ اور ايک ايسى آگ بھڑ کا ديتا ھے جس کى وجہ سے اسکى روح جلتى رھتى ھے ۔
حاسد کى جان جلنے اور ايک منٹ بھى سکون نہ ملنے کى وجہ واضح ھے کيونکہ نعمات الٰھى اس کى مرضى کےخلاف ھميشہ مائل بہ زيادتى ھوتى ھيں ۔ اس لئے اس کے دل پر رنج و غم کے بادل ھر وقت چھائے رھتے ھيں ۔ حسد ايک ايسا شديد طوفان ھے جو فضائل و خرد کے تناور درخت کو تنکے کى طرح جڑ سے اکھاڑ پھينکتا ھے اور پھر حاسد کو ارتکاب جرم سے روکنے کے لئے کوئي اخلاقى اور وجدانى رکاوٹ باقى ھى نھيں رھتي ۔
قابيل نے جب ديکھا کہ ھابيل کى قربانى تو بارگاہ الٰھي ميں قبول ھو گئي ليکن اس کى قربانى رد کر دي گئى تو اس کے دل ميں کينہ و حسد کى آگ بھڑک اٹھي اور آخر کار اس نے ھابيل کے قتل کا پروگرام بنا ليا ۔ حسد نے اس کے دل ميں پنجہ گاڑديا۔ اخوت و انسانيت کا جذبہ اس کے دل سے نا پيد ھو گيا ۔ اور اس نے اپنے بھائى کے سر کو پھاڑ کى چٹان سے ٹکرا ديا اور ھابيل کے مقدس جسم کو صرف ھابيل کى خلوص نيت کے جرم ميں انھيں کے خون سے نھلا ديا ۔ اس وقت کى حيرت زدہ دنيا نے حسد کى پھلى قربانى ديکھى جو آدم عليہ السلام کے بيٹے کے ھاتھوں نماياں ھوئى ۔ حسد نے جب اپنا کام کر ليا توقابيل اپنے اس قبيح فعل پر نادم ھوا ليکن اس وقت ندامت بيکار ھوئى اور قابيل اپني پورى زندگى اس روحانى عذاب کو بر داشت کرتا رھا ۔ اگر قابيل کے ذھن ميں فکر صحيح کا تصور ھوتا تو وہ فيضان الٰھى سے محروم ھونے کى علت تلاش کرتا ۔
جرمنى عالم شوپنھاور کھتا ھے : حسد انسان کے بد ترين احساسات ميں سے ايک ھے اس لئے اس کو سعادت کا بدترين دشمن خيال کرنا چاھئے اور اس کا سر کچلنے اور اس کو دبانے کى مسلسل کوشش کرنى چاھئے ۔
اگر کسى معاشرے ميں حسد کا دور دورہ ھو جائے تو پھر اس معاشرے ميں لڑائى جھگڑے کا عام ھونا ضرورى ھے اور پھر اس معاشرے ميں جو پرورش پاتے ھيں وہ بجائے اس کے کہ دوسروں کى کميوں کو دور کريں اور لوگوں کے حالات کو بھتر بنائيں دوسروں کى ترقى و سعادت ميں راستے کاروڑا بن جاتے ھيں اور ان کى خود غرضى ھر قسم کے اصلاح سے مانع ھو جاتى ھے ۔ اس کے نتيجے ميں لوگوں کا چين و سکون غارت ھوجاتا ھے اور آبادو متمدن معاشرہ فنا کے گھاٹ اتر جاتا ھے ۔ بقول ڈاکٹر کارل : ھمارے بخل و عقيم پن کى سارى ذمہ داري حسد پر ھوتى ھے ۔ کيونکہ يھى حسد ھے جو ھم کو ديگر ترقى يافتہ قوموں تک پھونچنے نھيں ديتا اور اسى حسد کى وجہ سے بھت سے با صلاحيت افراد جو امتوں کي قيادت کر سکتے ھيں پيچھے رہ جاتے ھيں ۔ آج کل دنيا کے گوشے گوشے ميں جو جرائم رونما ھوتے ھيں جن کے ھمراہ ظلم و جور بھى ھوتا ھے ان کا سر چشمہ يھى حسد ھے اور اس حقيقت کا انکشاف اس وقت ھو جائے گا ۔ جب ھونے والے واقعات کي گھرائى ميں آپ پھونچيں گے ۔

حسد کے بارے ميں دين کا تبصرہ


ارشاد خدا وند عالم ھے :” لا تتمنوا ما فضل اللہ بہ بعضکم على بعض “ (۱) اور خدا نے جو تم ميں سے ايک کو دوسرے پر فضيلت دے رکھى ھے اس کى ھوس نہ کرو ۔ يہ صحيح ھے کہ انسان فطرى طور سے حصول نفع کا خواھش مند ھے ليکن يہ خواھش حدود و قوانين شرع کے اندر ھونى چاھئے ۔ اسى طرح اسے اصول آزادى سے ھم آھنگ ھونا چاھئے اور انساني معاشرہ اس کو درست بھى سمجھتا ھو ۔
اسى لئے اگر خدا نے کسى کو کسى نعمت سے نوازا ھے تو کسى دوسرے شخص کو اپني فطرت ِ منفعت طلبى اور اپنى حس بد خواھى کى تسکين کے پيش نظر اس سے اس نعمت کو چھين لينے کا حق نھيں ھے ۔ بلکہ اس کو چاھئے کہ اپنے حصول آرزو کى خواھش کے لئے عاقلانہ روش اختيار کرے اور جس طرح خدا نے حکم ديا ھے اسى دائرے کے اندر تلاش و جستجو کرے ۔ اور فضل خدا وند عالم سے دعا کرے تاکہ راستے کي مشکلات کو دور کر کے اس کو مقصد تک پھونچا دے ۔
اگر حاسد اپني فکرى صلاحيتوں کو نا مناسب جگھوں پر صرف نہ کر کے خدا پر بھروسہ کر کے اپنے معقول مقاصد ميں خرچ کرتا اور راستوں کے خس و خاشاک کو دور کر کے پائے استقلال کو منزل مقصود کے لئے رواں رکھتا تو اس کے گھر ميں نيک بختى کا سورج چمک کے رھتا ۔
ائمھٴ معصومين عليھم السلام سے اس خطرناک صفت کے بارے ميں بھت سى روايات منقول ھيں اور ائمھٴ عليھم السلام نے ھم کو اس صفت سے ڈرايا ھے اس سلسلہ ميں امام جعفر صادق عليہ السلام کي ايک روايت کى طرف توجہ فرمائيے جس ميں ارشاد فرمايا ھے : ۔ ۔ ۔ ۔ دل کا نابينا ھونا اور فضل خدا کا انکار کرنا حسد کى اصل ھے اور يہ دونوں ۔ کوري ٴ دل و انکار نعمت ۔ کفر کے بازو ھيں ۔ اسى حسد کى وجہ سے اولاد آدم(ع) حسرت ابدى کے چالہ ميں گر پڑى اور اس طرح حاسد ايسے مھلکہ ميں پڑ گيا جس سے قيامت تک نجات نا ممکن ھے ۔ ( ۲)
حسد کى ايک علت گھر کا برا ماحول بھى ھوا کرتا ھے۔ جو ماں باپ اپنے کسي ايک بچے سے مھر محبت کرتے ھيں اور دوسرے کى طرف توجہ بھي نھيں کرتے اس دوسرے بچے کے دل ميں ايسى گرہ پڑ جاتي ھے جس کا نتيجہ حقارت و سر کشى کى صورت ميں ظاھر ھوتا ھے اسى وجہ سے بچے کے دل ميں حسد پيدا ھو جاتا ھے جو بڑے ھونے پر اس کى بد بختى و سياہ روزى کا باعث ھوتا ھے اسى طرح جس معاشرے کى بنياد عدل و انصاف پر نھيں ھوتى جھاں نسلى و قومى تعصب ھوتا ھے وھاں لوگوں کے دلوں ميں خود بخود سر کشى کا جذبہ پيدا ھو جاتا ھے ۔ اور ان کے دلوں ميں آتش حسد بھڑک اٹھتى ھے ۔
اسى لئے رسول اکرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے فرمايا ھے : اپنے بچوں کے درميان عطيہ و بخشش ميں مساوات کا برتاؤ کرو ۔(۳ ) اور يہ صرف اس لئے فرمايا کہ ان کے دلوں ميں حسد پيدا نہ ھو ۔
پروفيسر بر ٹر انڈر اسل نے ايک کتاب کے حوالے سے اس فصل کا ايک حصہ لکھا ھے جس ميں پوشيدہ قلبى گناھوں سے بچنے کا طريقہ لکھا ھے چنانچہ وہ لکھتے ھيں : ( لوسى ) کو ايک چھوٹى سى کاپى دي گئى کہ تمھارے خيال ميں جو بھى آئے اس کو اس ميں لکھو ۔ اور صبح کو ناشتے کے وقت لوسى کے والدين نے ايک گلاس لوسى کے بھائى کو ايک کيسيٹ لوسى کى بھن کو ديا اور لوسى کو کچھ نہ ديا چنانچہ اس نے اپنى کاپى ميں لکھا ھے : اس وقت ميرے دل ميں ايک برا خيال آيا اور وہ يہ کہ اس کے والدين اس کے بھائى بھن کے مقابلے ميں ا سکو بھت کم چاھتے ھيں ۔
حضرت على عليہ السلام ايک جگہ حسد کے اس نقصان کا ذکر فرماتے ھيں جو بدن سے متعلق ھوتا ھے چنانچہ ارشاد فرمايا : مجھے حاسدوں سے اس بات پر بھت تعجب ھوتا ھے کہ اپنے جسموں کى سلامتى سے غفلت کيوں برتتے ھيں ۔( ۴)
ڈاکٹر فرانک ھور# کھتا ھے : نفسانى احساسات کے مصائب و آلام پر اپنے افکار و ذوات سے دور کردو ۔ اس لئے کہ يہ چيزيں روحانى ابليس ھيں ۔ يہ ابليس صرف انسان کے فکرى نظام ھى کو درھم برھم نھيں کرتے بلکہ جسم کے اندر زھريلے خلايا کو تقويت پھونچاتے ھيں اور اسى کے ساتھ جسم کو ضرورت سے زيادہ ضرر پھونچاتے ھيں ۔ يہ دوران خون کو سست کر ديتے ھيں ، اعصاب کو کمزور کر ديتے ھيں ، روحانى و جسمانى نشاط کو شکست وريز ميں مبتلا کر ديتے ھيں ، زندگى کے ھدف و مقصد کو ختم کر ديتے ھيں فکر کو کمزور کر ديتے ھيں ۔ اس لئے انسان پر واجب ھے کہ ان دشمنوں کو اپنے گھر کے ماحول سے نکال دے کيونکہ يہ سمّ قاتل ھيں ۔ ان کو انسانى زندگي سے دور قيد کر دينا چاھئے اور جو ايسا کرے گا وہ ديکھے گا کہ اس کا ارادہ قوى ھو گيا اور وہ اپنى قوت ارادى کے سھارے مشکلات حيات پر قابو پالے گا ۔( ۵)
حضرت على عليہ السلام فرماتے ھيں : حسد جسد کو فنا کر ديتا ھے ۔( ۶) دوسرى جگہ فرماتے ھيں : حسد سے بچو يہ انسانى روح کو معيوب کر ديتا ھے ۔ (۷)
ايک علم النفس کا ماھر کھتا ھے : بھت زيادہ حسد نفسانى آلام ميں سے ھے يہ نفس کو بھت تکليف پھونچاتا ھے اس کو غلطى پر آمادہ کرتا ھے ۔ اس پر بھت ظلم و ستم کرتا ھے ۔ آپ يہ جان ليجئے کہ حاسد کے بھت سے اعمال خود اس کے ارادے سے سر زد نھيں ھوتے بلکہ عفريت حسد کے حکم سے انجام پاتے ھيں ۔(۸) امام زين العابدين عليہ السلام مقام دعا ميں فرماتے ھيں : خدا يا ميرے سينے کو حسد کى بيمارى سے محفوظ رکہ تاکہ ميں کسى کى خوش بختى و نيک بختى کو حسرت کى نگاہ سے نہ ديکھوں ،مجھے حسد سے اس طرح دور رکہ کہ ھميشہ دوسروں کى سعادت و سلامت کا خواھشمند رھوں اور عين اس حال ميں مجھے اس کى بھي توفيق دے کہ جب تيرى دينى و دنياوي نعمتوں کو دوسروں ميں ديکھوں اور وہ سب پارسا و پرھيز گار ھوں، کشادہ رو ،کشادہ دست ھوں ، مھربان و مالدار ھوں تو تجھ سے اور تيري ذات اقدس سے ان کے لئے بھتر سے بھتر ترکى خواھش کروں ۔ صرف تيري ذات سے جو يگانہ و يکتا و بے ھمتا ھے ،تمنا رکھتا ھوں ۔
ھم کو يہ چاھئے کہ پليد و پست قسم کى وہ تمنا ئيں جو انسان کى زندگي کو تلخ کر ديتى ھيں ان کو اپنى روحانى ترقى و تکامل کى راہ ميں سد سکندرى نہ بننے ديں ۔ اور اپنے افکار و خيالات کو بلند مقاصد اور اعليٰ صفات کى طرف مرکوز رکھيں کيونکہ شائستہ تمنائيں ھى انسان کو ايک نہ ايک دن اس کے نيک مقاصد تک پھونچا ديتى ھيں ۔ حضرت على عليہ السلام فرماتے ھيں : نيک خصائل ،اچھے صفات ، شيريں کلامى ، اور بلند مطالب کى طرف رغبت پيدا کرو کہ ان کى عظيم جزا اور اچھا نتيجہ تم ھى کو ملے گا ۔ ( ۹)
ڈاکٹر ماردن کھتا ھے : اگر تم نے اپنے افکار کو مخصوص اوصاف کے حصول پر مرکوز رکھا تو آخر کاران اوصاف تک پھونچکر رھو گے کيونکہ فطرى موجودات فطرى افکار کا نتيجہ ھيں ۔ اگر تم کاھلى و عياشى کي آرزو ميں رھو گے تو آخر ميں کاھل و عياش ھو جاؤ گے ۔ اور اگر تمھارے سر ميں سود ا ھو اور ھر چيز تمھاري نظر ميں تيرہ و تار ھى نظر آئے تو تم بھت ھي تھوڑى مدت ميں اس سے نجات پا سکتے ھو اور اس کا طريقہ يہ ھے کہ اپنى فکرکو بدل دو يعنى دنيا کى وہ چيزيں جو نشاط آور ھيں ،مسرت بخش ھيں ، ان کے بارے ميں غور و فکر کرنے لگو ، اگر اچھے اخلاق کى تمنا ھے تو ان کے بارے ميں بڑے صبر و تحمل سے سوچو اور تم اپنے اس استقلال مزاجى کي وجہ سے اپنے ذھن کو اچھے اوصاف سے متصف ھونے پر آمادہ کر لو گے اور پھر تمھارى رسائى وھاں تک ھو جائے گى اور جن صفات کو بھى تم حاصل کرنا چاھو ان کى تکرار کى صرف فکر ھى نہ کرو بلکہ ان کو اپنى پيشانيوں پر لکہ لو اپنے ميں عزم کر لو اور سب سے کھتے پھرو کہ تم ان چيزوں کو حاصل کرنا چاھتے ھو تو ايک قليل مدت کے بعد تم ديکھو گے کہ تمھارے افکار تم کو ان مقاصد کى طرف اس طرح کھينچيں گے جيسے مقناطيس کو لوھا کھينچتا ھے ۔(۱۰ )
ڈاکٹر مان کھتا ھے : اصول علم نفس ميں ھے جسے ھم نے بعض مواقع پر ديکھا بھى ھے اور تجربہ بھى کيا ھے کہ کسى عمل کے بارے ميں سوچنے کا نتيجہ يہ ھوتا ھے کہ پھلے تو وہ بھت ھى خفيف صورت ميں انجام پاتا ھے مثلاً اگر ھم مٹھى باندھنے کے بارے ميں غور کرنے لگيں تو دونوں ھاتھوں کے عضلات تھوڑے سے تن جاتے ھيں اور اعصاب مٹھي باندھنے کے لئے آمادہ ھو جاتے ھيں ، جس کو آپ اس دقيق حساب کرنے والے آلہ کے ذريعہ تجربہ بھى کر سکتے ھيں ،جس کو دو کالو لوميتر کھتے ھيں ۔ آپ کو بعض ايسے لوگ بھى مليں گے جن کے محض ارادہ کرنے پر ان کے جسم کے رونگٹے کھڑے ھو جاتے ھيں اور بعض لوگوں نے اس کى مشق بھم پھونچائى ھے کہ اپنے ھاتھوں کى بعض رگوں کو سکوڑ ليں ۔ اس کا طريقہ يہ ھے کہ وہ اپنے ذھن کو اس بات پر متمرکز کر ديتے ھيں کہ ان کے ھاتہ برف ميں پڑے ھوئے ھيں اور اس سوچ کا نتيجہ يہ ھوتا ھے کہ ان کى رگيں اسى طرح سکڑ جاتى ھيں ۔ جيسے جب ھاتھوں کو واقعى برف ميں رکہ ديا گيا ھو ۔ کچھ لوگ ھيں جو اپنى آنکھوں کى پتليوں کو چھوٹي اور بڑى کر ليتے ھيں وہ لوگ يہ کرتے ھيں کہ اپنى فکر کو ايک مرکز پر محدود کر کے اپنے کو باربار تلقين کرتے ھيں اور پھر وہ پتلى اسى طرح ھو جاتى ھے جيسا کہ وہ چاھتے ھيں ۔
حقائق کا سمجھ لينا ھمارے افکار و ارادوں ميں بھت زيادہ موثر ھے يہ خواھشات ھى ھيں جو ھمارے افکار پر پردہ ڈال کر قوت ادراک ميں تاريکى پيدا کر ديتى ھيں ۔ بھتر طريقہ يہ ھے کہ سب سے پھلے آئينہ فکر و عقل کو تقويٰ سے صيقل کيا جائے تاکہ حقائق و واقعيات کو اس ميں مشاھدہ کيا جا سکے ۔ اس کے بعد قوى ارادہ اور مسلسل مجاھدات کے ذريعے حسد اور زھر آلود خواھشات کو دل سے نکال کر پھينک ديں اور بغض و کينہ کى زنجيروں کو توڑ ديں تاکہ روح غم کى قيد سے آزاد ھو سکے ۔ اور برے صفات کى جگہ خير خواھى و اچھے صفات متحقق ھو سکيں ۔

حوالہ جات


۱۔سورہ ٴ نساء/ ۳۲
۲۔مستدرک الوسائل ج/۲، ص/ ۲۲۸
۳۔نھج الفصاحة ص/ ۳۶۶
۴۔غرر الحکم ص/ ۴۹۴
۵۔پيروزى فکر
۶۔غرر الحکم ص/ ۳۲
۷۔ غرر الحکم ص/ ۱۴۱
۸۔ روانکارى
۹۔غرر الحکم ص/ ۳۵۵
۱۰۔پيروزى فکر

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عقل کا استعمال اور ادراکات کا سرچشمہ
عید مباہلہ
آیہٴ” ساٴل سائل۔۔۔“ کتب اھل سنت کی روشنی میں
انہدام جنت البقیع تاریخی عوامل اور اسباب
ماہ رمضان کے دنوں کی دعائیں
جمع بین الصلاتین
ہم اور قرآن
نہج البلاغہ کی شرح
شفاعت کا مفہوم
شب قدر کو کیوں مخفی رکھا گیا؟

 
user comment