اردو
Tuesday 23rd of April 2024
0
نفر 0

امام حسین علیہ السلام کا وصیت نامہ

سْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ھٰذٰا مٰا اَوْصٰی بِہِ اَلْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ اِلٰی اَخیہِ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِیَّةِ اَنَّ الْحُسَیْنَ یَشْھَدُ اَنْ لاٰ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہُ لاٰ شَریکَ لَہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ جٰاءَ بِالْحَقِّ مِنْ عِنْدِہِ وَاَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَ النّٰارَ حَقٌّ وَ السّٰاعَةَ آتِیَةٌ لاٰ رَیْبَ فِیْھٰا وَاَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ وَ اِنّی لَمْ اَخْرُجْ اَشَرًا وَ

سْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ھٰذٰا مٰا اَوْصٰی بِہِ اَلْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ اِلٰی اَخیہِ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِیَّةِ اَنَّ الْحُسَیْنَ یَشْھَدُ اَنْ لاٰ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہُ لاٰ شَریکَ لَہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ جٰاءَ بِالْحَقِّ مِنْ عِنْدِہِ وَاَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَ النّٰارَ حَقٌّ وَ السّٰاعَةَ آتِیَةٌ لاٰ رَیْبَ فِیْھٰا وَاَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ وَ اِنّی لَمْ اَخْرُجْ اَشَرًا وَلاٰ بَطَراً وَلاٰ مُفْسِدًا وَلاٰ ظٰالِماً وَ اِنَّمٰا خَرَجْتُ لِطَلَبِ الْإِصْلاٰحِ فی اُمَّةِ جَدّی (ص) اُریدُ اَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ اَنْھٰی عَنِ الْمُنْکَرِ وَ اَسِیْرَ بسیرَةِ جَدّی وَ اَبی عَلَیِّ بْنِ اَبیطٰالِبٍ فَمَنْ قَبِلَنی بِقَبُولِ الْحَقِّ فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِالْحَقِّ وَمَنْ رَدَّ عَلَیَّ ھٰذٰا اَصْبِرُ حَتّٰی یَقْضِیَ اللّٰہُ بَیْنی وَ بَیْنَ الْقَوْمِ وَ ھُوَ خَیْرُ الْحٰاکِمینَ وَ ھٰذِہِ وَصِیَّتی اِلَیْکَ یٰا اَخی وَمٰا تَوْفیقی اِلاّٰ بِاللّٰہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَ اِلَیْہِ اُنیبُ۔ ۱
ترجمہ و توضیح
امام نے مدینے سے مکہ کی طرف روانگی کے وقت یہ وصیت نامہ لکھا، اس پر اپنی مہر ثبت کی اور اپنے بھائی محمد حنفیہ کے حوالے کیا۔ ”بسم الله الرحمن الرحیم۔ یہ وصیت حسین ابن علی کی طرف سے بھائی محمد حنفیہ کے نام۔ حسین توحید و یگانگت ِپروردگار کی اور اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ خداد کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد خدا کے عبد اور اس کے رسول ہیں اور آپ آئین حق (اسلام) خدا کی طرف سے لوگوں کے لئے لائے ہیں اور یہ کہ بہشت و دوزخ حق ہے۔ روزِ جزا بغیر کسی شک کے وقوع پذیر ہوگا اور خداوند عالم تمام انسانوں کو اس دن دوبارہ زندہ کرے گا“۔ امام نے اس وصیت نامے میں توحید و نبوت و معاد کے بارے میں اپنا عقیدہ بیان کرنے کے بعد اپنے سفر کے مقاصد اس طرح بیان فرمائے:
”میں خود خواہی یا سیر و تفریح کے لئے مدینہ سے نہیں نکل رہا اور نہ ہی میرے سفر کا مقصد فساد اور ظلم ہے بلکہ میرے اس سفر کا مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ اور میں چاہتا ہوں کہ اپنے اس سفر کے دوران امت کے مفاسد کی اصلاح کروں۔ اپنے جد امجد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قوانین اور ان کی سنتوں کو زندہ کروں اور اپنے پدر بزرگوار علیں کا راستہ اور ان کا طرز عمل اپناؤں۔ پس جو شخص یہ حقیقت قبول کرتا ہے (اور میری پیروی کرتا ہے) اس نے گویا راہ خداد کو قبول کیا اور جو شخص بھی میرے اس ہدف اور میری اس آرزو کو رد کرتا ہے (میری پیروی نہیں کرتا) میں صبر و استقامت کے ساتھ اپنا راستہ اختیار رکھوں گا یہاں تک کہ خداوند عالم میرے اور ان افراد کے درمیان فیصلہ کرے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا اور حاکم مطلق ہے۔ بھائی یہ میری وصیت آپ کے لئے ہے اور خداوند تعالیٰ سے توفیق کا طلبگار ہوں اور اسی پر توکل کرتا ہوں اور اسی کی طرف میری بازگشت ہے“ ( جاری ہے )


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

ایمانداری کا انعام
سنت محمدی کو زندہ کرنا
امام کا وجود ہر دور میں ضروری ہے
دينى حكومت كى تعريف
خطبه غدیر سے حضرت علی علیه السلام کی امامت پر ...
فخرمریم سلام اللہ علیہا
روزہ داروں کا انعام
شخصیت علی (ع) پر امت اسلامی کا بے مثال اجماع
امام جعفر صادق (ع) اور مسئلہ خلافت (2)
اسلام اور مغرب کی نظر میں دہشت گردی

 
user comment